اور اگر آپ ذکر و دعا میں جہر (یعنی آواز بلند) کریں (تو بھی کوئی حرج نہیں) وہ تو سِرّ (یعنی دلوں کے رازوں) اور اخفی (یعنی سب سے زیادہ مخفی بھیدوں) کو بھی جانتا ہے (تو بلند التجاؤں کو کیوں نہیں سنے گا)،
English Sahih:
And if you speak aloud – then indeed, He knows the secret and what is [even] more hidden.
1 Abul A'ala Maududi
تم چاہے اپنی بات پکار کر کہو، وہ تو چپکے سے کہی ہوئی بات بلکہ اس سے مخفی تر بات بھی جانتا ہے
2 Ahmed Raza Khan
اور اگر تو بات پکار کر کہے تو وہ تو بھید کو جانتا ہے اور اسے جو اس سے بھی زیادہ چھپا ہے
3 Ahmed Ali
اور اگرتو پکار کر بات کہے تو وہ پوشیدہ اور اس سے بھی زیادہ پوشیدہ کو جانتا ہے
4 Ahsanul Bayan
اگر تو اونچی بات کہے تو وہ تو ہر ایک پوشیدہ، بلکہ پوشیدہ سے پوشیدہ تر بات کو بھی بخوبی جانتا ہے
٧۔١ یعنی اللہ کا ذکر یا اس سے دعا اونچی آواز میں کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ اس لئے کہ وہ پوشیدہ سے پوشیدہ تر بات کو بھی جانتا ہے یا اَخْفَیٰ کے معنی ہیں کہ اللہ تو ان باتوں کو بھی جانتا ہے جن کو اس نے تقدیر میں لکھ دیا اور ابھی تک لوگوں سے مخفی رکھا ہے۔ یعنی قیامت تک وقوع پذیر ہونے والے واقعات کا اسے علم ہے۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
اور اگر تم پکار کر بات کہو تو وہ تو چھپے بھید اور نہایت پوشیدہ بات تک کو جانتا ہے
6 Muhammad Junagarhi
اگر تو اونچی بات کہے تو وه تو ہر ایک پوشیده، بلکہ پوشیده سے پوشیده تر چیز کو بھی بخوبی جانتا ہے
7 Muhammad Hussain Najafi
اگر تم پکار کر بات کرو (تو تمہاری مرضی) وہ تو راز کو بلکہ اس سے بھی زیادہ مخفی بات کو جانتا ہے۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
اگر تم بلند آواز سے بھی بات کرو تو وہ راز سے بھی مخفی تر باتوں کو جاننے والا ہے
9 Tafsir Jalalayn
اور اگر تم پکار کر بات کہو تو وہ چھپتے بھید اور نہایت پوشیدہ بات کو جانتا ہے
10 Tafsir as-Saadi
﴿وَإِن تَجْهَرْ بِالْقَوْلِ فَإِنَّهُ يَعْلَمُ السِّرَّ ﴾ ” اور اگر آپ اونچی بات کہیں تو وہ تو جانتا ہے سری بات کو بھی۔“ یعنی پوشیدہ کلام کو ﴿وَأَخْفَى ﴾ ”اور سری سے بھی زیادہ مخفی بات کو۔“ یعنی خفی سے خفی تر بات، جو انسان کے دل میں ہوتی ہے اور ابھی نطق زبان پر نہیں آئی ہوتی۔ یا (السِّرَّ ) سے مراد وہ خیال ہے جو انسان کے دل میں آتا ہے اور (أَخْفَى ) سے مراد وہ خیال ہے جسے ابھی دل میں آنا ہے اور ابھی تک نہیں آیا۔ اللہ تعالیٰ جانتا ہے کہ کب وہ خیال اپنے وقت پر اپنی صفت کے ساتھ دل میں داخل ہوگا۔ معنی یہ ہے کہ علم الٰہی، چھوٹی بڑی اور ظاہر و باطن تمام اشیاء کا احاطہ کئے ہوئے ہے، اس لئے آپ بلند آواز سے بولیں یا آہستہ آواز سے، علم الٰہی کی نسبت سے سب برابر ہے۔ جب یہ بات متحقق ہوگئی کہ وہ کمال مطلق کا مالک ہے، اپنی تخلیق کے عموم کی وجہ، اپنے امرو نہی اور اپنی رحمت کے عموم کی وجہ سے، اپنی عظمت کی وسعت اور اپنے عرش پر بلند ہونے کی وجہ سے اور اپنی بادشاہی اور اپنے علم کے عموم کی وجہ سے، تو اس سے یہ نتیجہ نکلا کہ صرف وہی عبادت کا مستحق ہے اور اسی کی عبادت حق ہے جس کو شریعت اور عقل و فطرت واجب ٹھہرتای ہے اور غیر اللہ کی عبادت باطل ہے۔
11 Mufti Taqi Usmani
agar tum koi baat buland aawaz say kaho ( ya aahista ) , to woh chupkay say kahi hoi baaton ko , balkay aur ziyada chupi hoi baaton ko bhi janta hai .