جو لوگ اپنے رب سے نادیدہ ڈرتے ہیں اور جو قیامت (کی ہولناکیوں) سے خائف رہتے ہیں،
English Sahih:
Who fear their Lord unseen, while they are of the Hour apprehensive.
1 Abul A'ala Maududi
جو بے دیکھے اپنے رب سے ڈریں اور جن کو (حساب کی) اُس گھڑی کا کھٹکا لگا ہُوا ہے
2 Ahmed Raza Khan
وہ جو بے دیکھے اپنے رب سے ڈرتے ہیں اور انہیں قیامت کا اندیشہ لگا ہوا ہے،
3 Ahmed Ali
جو اپنے رب سے بن دیکھے ڈرتے ہیں اور قیامت کا بھی خوف رکھنے والے ہیں
4 Ahsanul Bayan
وہ لوگ جو اپنے رب سے بن دیکھے خوف کھاتے ہیں اور قیامت (کے تصور) سے کانپتے رہتے ہیں (١)۔
٤٩۔١ یہ متقین کی صفات ہیں، جیسے سورہ بقرہ کے آغاز میں اور دیگر مقامات پر بھی متقین کی صفات کا تذکرہ ہے۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
جو بن دیکھے اپنے پروردگار سے ڈرتے ہیں اور قیامت کا بھی خوف رکھتے ہیں
6 Muhammad Junagarhi
وه لوگ جو اپنے رب سے بن دیکھے خوف کھاتے ہیں اور قیامت (کے تصور) سے کانپتے رہتے ہیں
7 Muhammad Hussain Najafi
جو بے دیکھے اپنے پروردگار سے ڈرتے ہیں نیز جو قیامت سے بھی خوف زدہ رہتے ہیں۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
جو ازغیب اپنے پروردگار سے ڈرنے والے ہیں اور قیامت کے خوف سے لرزاں ہیں
9 Tafsir Jalalayn
جو بن دیکھے اپنے پروردگار سے ڈرتے ہیں اور قیامت کا بھی خوف رکھتے ہیں
10 Tafsir as-Saadi
یہاں عطف، ایک ہی چیز اور ایک ہی موصوف پروارد ہونے والی متضاد صفات پر عطف کے باب میں سے ہے۔ ﴿وَهَـٰذَا﴾ ” اور یہ“ یعنی قرآن کریم ﴿ذِكْرٌ مُّبَارَكٌ أَنزَلْنَاهُ﴾ ” مبارک ذکر ہے جسے ہم نے اتارا ہے۔ “پس اللہ تعالیٰ نے قرآن حکیم کو خود جلیل القدر اوصاف سے موسوم کیا ہے۔ (1) قرآن حکیم ” ذکر“ ہے۔ تمام مطالب میں قرآن سے نصیحت حاصل کی جاتی ہے، یعنی اللہ تعالیٰ کے اسماء و صفات اور اس کے افعال، اس کے انبیاء و اولیاء کی صفات اور احکام جزا، جنت اور جہنم کی معرفت حاصل ہوتی ہے، نیز اللہ تعالیٰ نے قرآن کو اس لئے بھی ” ذکر“ کہا ہے کہ قرآن۔۔۔. اخبار صادقہ کی تصدیق، ان امور کا حکم دینا جو عقلاً حسن ہیں اور ان امور سے روکنا جو عقلاً قبیح ہیں، جیسی صفات کو جو اللہ تعالیٰ نے انسان کی عقل و فطرت میں ودیعت کررکھی ہیں ان کی یاددہانی کراتا ہے۔ (2) قرآن کریم کا ” مبارک“ (یعنی بابرکت) ہونا اس میں بھلائی کی کثرت، بھلائی کی نشونما اور اس میں اضافے کا تقاضا کرتا ہے۔ اس قرآن حکیم سے بڑھ کر کوئی چیز بابرکت نہیں کیونکہ ہر بھلائی، ہر نعمت، دینی، دنیاوی اور اخروی امور میں ہر اضافہ اسی کے سبب سے ہے اور اس پر عمل کے آثار ہیں۔ جب ” ذکر“ بابرکت ہو تو اس کو قبول کرنا، اس کی اطاعت کرنا اور اس کے سامنے سر تسلیم خم کرنا واجب ہے تاکہ اللہ تعالیٰ کی اس جلیل القدر نعمت کا شکر ادا ہو، اس کو قائم کیا جا سکے اور اس کے الفاظ و معانی کو سیکھ کر اس سے برکت حاصل کی جائے اور اس رویے سے متضاد رویہ، یعنی اس سے روگردانی کرنا، اسے درخور اعتنا نہ سمجھنا، اس کا انکار کرنا اور اس پر ایمان نہ لانا سب سے بڑا کفر، شدید ترین جہالت اور سخت ظلم ہے۔
11 Mufti Taqi Usmani
jo dekhtay baghair apney perwerdigar say daren , aur jinn ko qayamat ki gharri ka khof laga huwa ho .