الانبیاء آية ۹۴
فَمَنْ يَّعْمَلْ مِنَ الصّٰلِحٰتِ وَهُوَ مُؤْمِنٌ فَلَا كُفْرَانَ لِسَعْيِهٖۚ وَاِنَّا لَهٗ كٰتِبُوْنَ
طاہر القادری:
پس جو کوئی نیک عمل کرے اور وہ مومن بھی ہو تو اس کی کوشش (کی جزا) کا انکار نہ ہوگا، اور بیشک ہم اس کے (سب) اعمال کو لکھ رہے ہیں،
English Sahih:
So whoever does righteous deeds while he is a believer – no denial will there be for his effort, and indeed We [i.e., Our angels], of it, are recorders.
1 Abul A'ala Maududi
پھر جو نیک عمل کرے گا، اِس حال میں کہ وہ مومن ہو، تو اس کے کام کی نا قدری نہ ہو گی، اور اُسے ہم لکھ رہے ہیں
2 Ahmed Raza Khan
تو جو کچھ بھلے کام کرے اور ہو ایمان والا تو اس کی کوشش کی بے قدری نہیں، اور ہم اسے لکھ رہے ہیں،
3 Ahmed Ali
پھر جو کوئی اچھے کام کرے گا اور وہ مومن بھی ہوگا تو اس کی کوشش رائگان نہ جائے گی اوربے شک ہم اس کے لکھنے والے ہیں
4 Ahsanul Bayan
پھر جو بھی نیک عمل کرے اور وہ مومن (بھی) ہو تو اسکی کوشش کی بےقدری نہیں کی جائیگی ہم تو اس کے لکھنے والے ہیں۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
جو نیک کام کرے گا اور مومن بھی ہوگا تو اس کی کوشش رائیگاں نہ جائے گی۔ اور ہم اس کے لئے (ثواب اعمال) لکھ رہے ہیں
6 Muhammad Junagarhi
پھر جو بھی نیک عمل کرے اور وه مومن (بھی) ہو تو اس کی کوشش کی بے قدری نہیں کی جائے گی۔ ہم تو اس کے لکھنے والے ہیں
7 Muhammad Hussain Najafi
پس جو کوئی نیک کام کرے درآنحالیکہ وہ مؤمن ہو تو اس کی کوشش کی ناقدری نہ ہوگی اور ہم اسے لکھ رہے ہیں۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
پھر جو شخص صاحب هایمان رہ کر نیک عمل کرے گا اس کی کوشش برباد نہ ہوگی اور ہم اس کی کوشش کو برابر لکھ رہے ہیں
9 Tafsir Jalalayn
جو نیک کام کرے گا اور مومن بھی ہوگا تو اس کی کوشش رائیگاں نہ جائے گی اور ہم اس کے لئے (ثواب اعمال) لکھ رہے ہیں
آیت نمبر 94 تا 112
ترجمہ : تو جو شخص نیک عمل کرے اور وہ مومن بھی ہو تو اس کی کوشش کی ناقدری نہیں کی جائے گی یعنی انکار نہیں کیا جائے گا اور ہم اس کی سعی کو لکھ لیتے ہیں یعنی ہم فرشتوں کو اس کے لکھنے کا حکم دیتے ہیں سو ہم اس کو اس کی سعی کا بدلہ دیں گے اور حرام ہے اس بستی پر یعنی بستی والوں پر جن کو ہم نے ہلاک کردیا ہے یہ کہ وہ لوٹ آئیں یعنی ان کا دنیا کا طرف لوٹ کر آنا ممتنع ہے اور لا یرجعون میں لا زائدہ ہے، یہاں تک کہ یہ امتناع رجوع کی گایت ہے کھولدئیے جائیں یا جوج اور ماجوج فتحت تخفیف اور تشدید کے ساتھ ہے، یأجوج مأجوج ہمزہ کے ساتھ اور ترک ہمزہ کے ساتھ دو قبیلوں کے دو عجمی نام ہیں اور ان سے قبل مضاف محذوف ہے ای سدھما اور یہ قرب قیامت میں ہوگا اور وہ ہر بلندی یعنی ٹیلے سے تیزی کے ساتھ دوڑتے ہوئے آئیں گے اور سچا وعدہ یعنی قیامت کا دن آلگا ہوگا شان یہ ہے کہ اس وقت کافروں کی آنکھیں کھلی کی کھلی رہ جائیں گی اور سخت دن میں کہیں گے ہائے افسوس (ہماری ہلاکت) ہم تو دنیا میں اس دن سے غفلت میں تھے بلکہ رسولوں کی تکذیب کرکے ہم ظالم تھے اے اہل مکہ تم اور خدا کے علاوہ بت وغیرہ جن کی تم بندگی کرتے ہو جہنم کا ایندھم بنو گے اور تم سب اس (جہنم) میں وارد داخل ہوگے اگر یہ بت (حقیقی) معبود ہوتے جیسا کہ تمہارا دعویٰ ہے تو اس میں داخل نہ ہوتے اور عابدین و معبودین سب جہنم میں ہمیشہ رہیں گے اور ان عابدین کے لئے جہنم میں چیخ پکار ہوگی اور وہ جہنم میں اس کی شدت جوش کی وجہ سے کچھ نہ سن سکیں گے، اور نازل ہوئی (آئندہ) آیت جب کہ زبعریٰ نے کہا تھا کہ عزیز اور مسیح اور ملائکہ (علیہم السلام) کی (بھی) بندگی کی گئی ہے لہٰذا ماسبق کے بیان کے مطابق وہ بھی جہنم میں ہوں گے البتہ وہ لوگ جن کے لئے ہماری طرف سے درجات عالیہ مقدر ہوچکے ہیں اور انہیں میں سے وہ لوگ بھی ہیں جن کا ذکر کیا گیا وہ لوگ جہنم سے دور رکھے جائیں گے وہ تو جہنم کی آہٹ (آواز) تک نہ سنیں گے اور وہ ہمیشہ اپنی من پسند نعمتوں میں ہوں گے اور ان کو بڑی گھبراہٹ بھی غم زدہ نہ کرسکے گی اور وہ اس وقت ہوگی جب بندہ کو جہنم میں لے جانے کا حکم ہوگا، اور فرشتے ان سے ملاقات کریں گے یعنی قبروں سے نکلتے وقت ان کا استقبال کریں گے اور اس سے کہیں گے یہی ہے تمہارا وہ دن جس کا تم سے دنیا میں وعدہ کیا جاتا تھا یوم سے پہلے اذکر مقدر کی وجہ سے یوم منصوب ہے، اور وہ دن بھی یاد کرنے کے قابل ہے کہ جس دن ہم آسمان کو اس طرح لپیٹ دیں گے جس طرح سجل نامی فرشتہ انسان کے مرنے کے بعد اس کے اعمال نامہ کو لپیٹ دیتا ہے للکتاب میں لام زائدہ ہے یا سجل سے مراد صحیفہ ہے اور کتاب مکتوب بہ کے معنی میں ہے اور لام بمعنی علیٰ ہے یعنی جس طرح کاغذ کو مکتوب جانب سے لپیٹ دیا جاتا ہے اور ایک قرأت الکتب ہے جمع کے ساتھ، جیسے ہم اول دفعہ عدم سے وجود میں لائے اس کو معدوم کرنے کے بعد اس کا ارادہ کریں گے کاف نعید سے متعلق ہے اور اس کی ضمیر اول کی طرف راجع ہے اور ما مصدریہ ہے (یہ) ہمارے ذمہ وعدہ ہے ہم اپنے وعدہ کو ضرور (پورا) کریں گے وعدًا اپنے ما قبل وعدنا محذوف کی وجہ سے منصوب ہے اور یہ اپنے ماقبل کے مضمون کی تاکید کرنے والا ہے، اور ہم زبور یعنی (مطلق) آسمانی کتابوں میں ذکر یعنی لوح محفوظ میں لکھنے کے بعد جو کہ اللہ کے پاس ہے لکھ چکے ہیں کہ اس سرزمین جنت کے وارث میرے نیک بندے ہوں گے اور یہ خوشخبری ہر نیک بندے کے بارے میں ہے بلاشبہ اس قرآن میں جنت میں داخل ہونے کے لئے کافی نصیحت ہے عابدین یعنی اس پر عمل کرنے والوں کے لئے اور اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! ہم نے آپ کو تمام جہان والوں یعنی جن اور انس کے لئے رحمت بنا کر یعنی رحمت کے لئے بھیجا ہے آپ کہہ دیجئے میرے پاس تو یہ وحی کی جاتی ہے کہ تمہارا معبود صرف ایک ہی معبود ہے یعنی الوہیۃ کے معاملہ میں میرے پاس تو وحدانیت الٰہ کی وحی بھیجی جاتی ہے سو کیا تم سر تسلیم خم کرنے والے یعنی اس کی وحدانیت کی وحی جو میری طرف کی جاتی ہے کیا تم اس کے تابع فرمان ہو ؟ استفہام بمعنی امر ہے پھر بھی اگر یہ لوگ اس سے سرتابی کریں تو آپ فرما دیجئے کہ میں تم کو واضح طور پر عذاب سے خبردار کرچکا ہوں علیٰ سواءٍ فاعل اور مفعول دونوں سے حال ہے یعنی اس کے علم کے بارے میں دونوں برابر ہیں نہ یہ کہ تنہا میں ہی واقف ہوں تم نہیں تاکہ تم تیاری کرو اور میں یہ نہیں جانتا کہ جس عذاب یا قیامت کا جو عذاب پر مشتمل ہوگی تم سے وعدہ کیا گیا ہے وہ قریب ہی آگئی ہے یا ابھی دور ہے اس بات کو تو اللہ ہی جانتا ہے اور اللہ تعالیٰ تو تمہاری اور دوسروں کے ظاہر اور قول و فعل سے واقف ہے اور ان رازوں سے بھی واقف ہے جن کو تم اور دیگر لوگ چھپاتے ہو اور مجھے اس بات کا بھی علم نہیں یعنی جس بات کی میں نے تم کو خبر دی اور اس کا وقت نہیں بتایا گیا ممکن ہے کہ تمہارے لئے آزمائش ہو تاکہ وہ دیکھے کہ تمہارے اعمال کیسے ہیں اور ایک محدود یعنی موت تک فائدہ پہنچانا ہو اور یہ (یعنی متاع الیٰ حین) اول یعنی جس کی لعل سے ترجی کی گئی ہے (اور وہ لعلہ فتنۃ ہے) کے بالمقابل ہے اور ثانی ترجی کا محل نہیں ہے، قل اور ایک قرأۃ میں قال ہے کہئے اے میرے پروردگار میرے اور میری تکذیب کرنے والوں کے درمیان حق یعنی ان کے عذاب کا یا ان پر غلبہ کا فیصلہ کر دے چناچہ بدر اور احد اور احزاب اور حنین و خندق میں عذاب میں مبتلا کئے گئے اور ان پر غلبہ عطا کیا گیا اور ہمارا رب بڑا مہربان ہے جس سے مدد طلب کی جاتی ہے ان باتوں کے مقابلہ میں جن کو تم بنایا کرتے ہو اور وہ اللہ پر تمہارا بہتان ہے تمہارے قول اتخذ ولداً میں، اور مجھ پر (بہتان) ہے تمہارے قول ساحرٌ میں، اور قرآن پر بہتان ہے تمہارے قول شعرٌ میں۔
تحقیق، ترکیب و تفسیری فوائد
قولہ : فمن یعمل من الصلحت من زائدہ یا تبعیضیہ ہوسکتا ہے۔ کفران مصدر ہے بمعنی کفر۔ قولہ : لہ ای للسعی ہٗ کا مرجع سعی ہے اور بعض لوگوں نے کہا کہ لہٗ کی ضمیر من کی طرف راجع ہے۔ قولہ : حرام خبر مقدم ہے اور انھم لا یرجعون مبتداء مؤخر ہے، مطلب یہ ہے کہ جس بستی والوں کو ہم نے ہلاک رک دیا ہے ان کے لئے دوبارہ دنیا میں لوٹ کر آنا ممتنع ہے اور بعض حضرات نے یہ مطلب بھی بیان کیا ہے کہ ان کا ایمان کی طرف رجوع کرنا ممتنع ہے اس لئے کہ ان کے لئے شقاوت کا فیصلہ ہوچکا ہے لازائدہ ہے اور اگر حرام بمعنی واجبٌ لیا جائے تو مطلب یہ ہوگا کہ ان کا دنیا میں نہ لوٹنا واجب ہے اور بعض حضرات نے کہا ہے کہ معنی آیت کے یہ ہیں ہماری طرف جزاء کے لئے عدم رجوع ممتنع ہے۔
قولہ : حتیٰ یہ عدم رجوع یعنی لا یرجعون کی غایت یعنی قیامت تک ان کا رجوع ممتنع رہے گا اور حتی ابتدائیہ بھی ہوسکتا ہے اس صورت میں جملہ مستانفہ ہوگا فاذا ھِیَ ، اذا فُتحت کی جزاء ہے، فتحت میں اسناد مجازی ہے اسلئے کہ حقیقتاً مفتوح سدیا جوج ماجوج ہے نہ کہ یاجوج ماجوج۔ قولہ : یاجوج وما جوج یہ الگ الگ دو گروہ ہیں یہ دونوں عجمی لفظ ہیں بقول ضحاک ترکوں کی نسل سے ہیں تمام اہل تاریخ نے ان کو یافث بن نوح کی نسل سے مانا ہے بعض لوگوں کا خیال ہے کہ یہ تاتاری ترک ہیں تورات کتاب پیدائش باب 2:10 میں یافث کے ایک بٰتے کا نام ماغوغ آیا ہے عبری زبان میں غین کا تلفظ گا ف سے کرتے ہیں اس لئے ماغوغ کا ماگوگ ہوگیا اور عربی میں گا ف کو جیم سے بدل لیتے ہیں لہٰذا ماگوگ کا ماجوج ہوگیا۔ (لغات القرآن)
یاجوج وما جوج کے کھولنے سے مراد سد سنکدری کا کھولنا ہے۔ قولہ : حدب بمعنی ٹیلہ جمع احداب۔ قولہ : واقترب الوعد اس کا عطف فتحت پر ہے یا ویلنا سے پہلے یقولون محذوف مان کر اشارہ کردیا ہے حصب ما یحصب بہ ای یرمیٰ بہٖ ایندھن، قولہ : وانتم لھا وارددون جملہ مستانفہ بھی ہوسکتا ہے اور حصب جہنم سے بدل بھی، قولہ : فی الزبور فی الزبور میں الف لام جنس کا ہے ای کتب اللہ لکھ کر اسی کی طرف اشارہ کیا ہے کہ زبور سے مراد مطلقاً آسمانی کتاب ہے نہ کہ وہ کتاب جو حضرت داؤد (علیہ السلام) پر نازل ہوئی تھی زبور کی جمع زبُر، للکتب یہ یا السجل سے حال ہے ای السجل کائناً للکتب یا صفت ہے ای السجل الکائن للکتب۔ قولہ : کما بدانا تقدیر کلام یہ ہے کہ کما بدانا کل شئ فی اول خلقہ کذٰلک نعید کل شئ، کل شئ بدانا کا مفعول مقدر ہے اور اول خلقٍ ظرف ہے اور نعید کی ضمیر کل شئ کی طرف راجع ہے قولہ : للرحمۃ اس کا مقصد اس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ رحمۃ مفعول لہ ہے اور رحمۃً مبالغۃ حال ہونے کی وجہ سے بھی منصوب ہوسکتا ہے۔ قولہ : والخندق خندق سہواً لکھا گیا ہے اس لئے کہ احزاب اور خندق ایک ہی ہے۔
تفسیر و تشریح
ان لوگوں نے اپنے دین میں اختلاف پیدا کرلیا مگر اس کی سزا ضرور بھگتی پڑے گی لہٰذا سزا بھگتنے کے لئے ہمارے پاس ضرور آئیں گے آنے کے بعد ہر ایک کو اس کے عمل کا بدلہ ضرور ملے گا، لہٰذا جو شخص نیک عمل کرتا ہوگا اور ایمان والا بھی ہوگا تو اس کی محنت اکارت جانے والی نہیں اور ہم اس کو لکھ بھی لیتے ہیں۔
اور ہم نے جو کُل الینا راجعون کہا ہے اس میں منکرین کو اس لئے شبہ ہے کہ اب تک کسی کو زندہ کرکے حساب کتاب نہیں لیا گیا تو یہ شبہ بالکل واہی ہے کیونکہ رجوع موعود کے لئے ہم نے ایک خاص وقت معین کر رکھا ہے لہٰذا جب تک وہ وقت نہیں آتا اس وقت تک تو یہ بات ہے کہ جن بستیوں کو ہم فنا کرچکے ہیں ان کے لئے یہ بات ناممکن ہے کہ وہ دنیا میں حساب کتاب کے لئے لوٹ کر آجائیں مگر یہ عدم رجوع ابدی نہیں ہے جیسا کہ منکرین سمجھتے ہیں بلکہ صرف اس وقت موعود کے نہ آنے تک ہے یہاں تک کہ جب وہ وقت موعود آپہنچے گا جس کی ابتدائی علامت یہ ہوگی یاجوج ماجوج جواب سد سکندری میں بند ہیں کھول دئیے جائیں گے اور وہ غایت کثرت کی وجہ سے ہر بلندی سے اترتے ہوئے معلوم ہوں گے یعنی جدھر دیکھو وہی نظر آئیں گے اور وہ رجوع اور بعث کا سچا وعدہ قریب ہی آپہنچا ہوگا تو بس اس کے واقع ہوتے ہی یہ قصہ ہوگا کہ منکرین کی نگاہیں پھٹی کی پھٹی رہ جائیں گی اور وہ یوں کہتے نظر آئیں گے کہ ہائے ہماری کمبختی ہم اس حالت سے غفلت میں تھے بلکہ واقعہ یہ ہے کہ رسول کی تکذیب کرکے ہم ہی قصور وار تھے۔
انکم وما تعبدون من دون اللہ الآیۃ یعنی تم اور تمہارے معبود بجز اللہ کے جن کی دنیا میں ناجائز عبادت ہوئی ہوگی سب کے سب جہنم کا ایندھن بنیں گے، اس پر یہ شبہ ہوسکتا ہے کہ ناجائز عبادت تو حضرت مسیح اور عزیر اور فرشتوں کی بھی کی گئی ہے تو سب کے سب جہنم میں جانے کا کیا مطلب ہوگا ؟
اس کا جواب حضرت ابن عباس (رض) نے دیا ہے، ایک روز حضرت ابن عباس (رض) نے فرمایا کہ قرآن کی ایک آیت ایسی ہے جس میں لوگ شبہات کرتے ہیں مگر عجیب اتفاق ہے کہ اس کے متعلق لوگ مجھ سے سوال نہیں کرتے معلوم نہیں کہ شبہات کا جواب ان لوگوں کو معلوم ہوگیا ہے اس لئے سوال نہیں کرتے یا انہیں شبہ اور جواب کی طرف التفات ہی نہیں ہوا لوگوں نے عرض کیا وہ کیا ہے ؟ آپ نے فرمایا کہ وہ آیت انکم وما تعبدون الآیۃ ہے جب یہ آیت نازل ہوئی تو کفار قریش کو سخت ناگواری ہوئی تو کہنے لگے اس میں تو ہمارے معبودوں کی سخت توہین کی گئی ہے، یہ لوگ (اہل کتاب کے ایک عالم) ابن الزبعریٰ کے پاس گئے اور اس سے شکایت کی اس نے کہا کہ اگر میں وہاں موجود ہوتا تو ان کو اس کا جواب دیتا ان لوگوں نے دریافت کیا آپ کیا جواب دیتے ؟ اس نے کہا میں ان سے کہتا کہ نصاریٰ حضرت مسیح کی اور یہود حضرت عزیز (علیہ السلام) کی عبادت کرتے ہیں ان کے بارے میں آپ کیا کہیں گے کیا نعوذ باللہ وہ جہنم میں جائیں گے، کفار قریش یہ سن کر بہت خوش ہوئے کہ واقعی یہ بات تو ایسی ہے کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس کا کوئی جواب نہیں دے سکتے اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی جو آگے آتی ہے ان الذین سبقت لھم منا الحسنی اولئک عنھا مبعدون یعنی جن لوگوں کے لئے ہماری طرف سے بھلائی مقدر ہوچکی ہے وہ جہنم سے دور رہیں گے اور اسی ابن زبعریٰ کے متعلق قرآن کی یہ آیت نازل ہوئی ہے ولما ضرب ابن مریم مثلاً اذا قومک منہ یصدون یعنی جب ابن زبعریٰ نے حضرت ابن مریم کی مثال پیش کی تو آپ کی قوم کے لوگ قریش خوشی سے شور مچانے لگے۔
ولا یحزنھم الفزع الاکبر حضرت ابن عباس (رض) نے فرمایا کہ فزع اکبر سے مراد صور کا نفخۂ ثانیہ ہے جس سے سب مردے زندہ ہو کر حساب کے لئے کھڑے ہوں گے بعض حضرات نے نفخۂ اولیٰ کو فزع اکبر کہا ہے، ابن عربی کا قول یہ ہے کہ نفخات تین ہوں گے پہلا نفخۂ فزع ہوگا جس سے ساری دنیا کے لوگ گھبرا اٹھیں گے اسی کو یہاں فزع اکبر کہا گیا ہے، دوسرا نفخۂ صعق ہوگا جس سے سب مرجائیں گے اور فنا ہوجائیں گے، تیسرا نفخۂ بعث ہوگا جس سے سب مردے زندہ ہوجائیں گے اس کی شہادت میں سند ابو یعلیٰ اور بیہقی، عبد بن حمید، ابن جریر طبری وغیرہ نے حضرت ابوہریرہ (رض) سے ایک حدیث نقل کی ہے۔ (مظہری، معارف القرآن)
یوم نطوی السماء کطی السجل للکتب یعنی جس طرح کاتب لکھنے کے بعد اوراق یا رجسٹر لپیٹ کر رکھ دیتا ہے، جیسے دوسرے مقام پر فرمایا (والسموٰات مطویات بیمینہٖ ) (الزمر) آسمان اس کے داہنے ہاتھ میں لپٹے ہوئے ہوں گے، سجل کے معنی صحیفہ یا رجسٹر کے ہیں، للکتب میں لام بمعنی علیٰ اور کتاب بمعنی مکتوب، مطلب یہ ہے کہ کاتب کے لئے لکھے ہوئے کاغذات کو لپیٹ لینا جس طرح آسان ہے اسی طرح اللہ کے لئے آسمان کی وسعتوں کو اپنے ہاتھ میں سمیٹ لینا کوئی مشکل نہیں۔
زبور سے مراد یا تو زبور ہی ہے جو حضرت داؤد (علیہ السلام) پر نازل ہوئی تھی اور ذکر سے مراد پندو نصیحت، یا پھر زبور سے مراد گذشتہ آسمانی کتابیں مراد ہیں اور ذکر سے مراد لوح محفوظ ہے، یعنی پہلے تو لوح محفوظ میں یہ بات درج ہے اس کے بعد آسمانی کتابوں میں بھی یہ بات لکھی جاتی رہی ہے کہ زمین کے وارث نیک بندے ہوں گے، زمین سے بعض مفسرین کے نزدیک ارض جنت مراد ہے، اور بعض کے نزدیک ارض کفار مراد ہے، یعنی اللہ کے نیک بندے زمین میں اقتدار کے مالک ہوں گے، اور اس میں کوئی شبہ نہیں کہ مسلمان جب تک اللہ کے نیک بندے رہے وہ دنیا میں با اقتدار اور سرخرو رہے اور آئندہ بھی جب کبھی وہ اس صفت کے حامل ہوں گے اس وعدہ الٰہی کے مطابق زمین کا اقتدار انہی کے پاس ہوگا اس لئے مسلمانوں کی محرومی اقتدار کی موجودہ صورت کسی اشکال کا باعث نہ ہونی چاہیے، یہ وعدہ صالحیت عباد کے ساتھ مشروط ہے۔ (اذا فات الشرط فات المشروط) کے مطابق مسلمان جب اس صفت سے محروم ہوں گے تو اقتدار سے بھی محروم ہوں گے۔ (واللہ اعلم بالصواب)
10 Tafsir as-Saadi
پھر منطوق اور مفہوم کے اسلوب میں، اس جزا کی تفصیل بیان کی، فرمایا : ﴿ فَمَن يَعْمَلْ مِنَ الصَّالِحَاتِ ﴾ یعنی ایسے عمل کئے جن کو انبیائے کرام نے مشروع کیا اور کتب الٰہیہ نے ان کی ترغیب دی۔ ﴿ وَهُوَ مُؤْمِنٌ ﴾ یعنی وہ اللہ تعالیٰ، اس کے رسولوں اور ان کی لائی ہوئی کتابوں پر ایمان رکھتا ہو۔ ﴿ فَلَا كُفْرَانَ لِسَعْيِهِ ﴾ یعنی ہم اس کی کوششوں کو ضائع کریں گے نہ باطل کریں گے، بلکہ اس کو کئی گنا بڑھا کر اجر عطا کریں گے۔ ﴿ وَإِنَّا لَهُ كَاتِبُونَ ﴾ یعنی ہم اس کی کوشش کو لوح محفوظ اور ان صحیفوں میں لکھنے والے ہیں جو کراماً کاتبین کے پاس ہیں۔ دوسرے الفاظ میں اس کا مطلب یہ ہوا کہ جو کوئی نیک کام کرے اور وہ مومن نہ ہو تو وہ ثواب آخرت سے محروم اور اپنے دین و دنیا میں خائب و خاسر ہوگا۔
11 Mufti Taqi Usmani
phir jo momin ban ker naik amal keray ga to uss ki koshish ki na-qadri nahi hogi , aur hum uss koshish ko likhtay jatay hain .