المؤمنون آية ۲۳
وَلَقَدْ اَرْسَلْنَا نُوْحًا اِلٰى قَوْمِهٖ فَقَالَ يٰقَوْمِ اعْبُدُوا اللّٰهَ مَا لَـكُمْ مِّنْ اِلٰهٍ غَيْرُهٗ ۗ اَفَلَا تَتَّقُوْنَ
طاہر القادری:
اور بیشک ہم نے نوح (علیہ السلام) کو ان کی قوم کی طرف بھیجا تو انہوں نے فرمایا: اے لوگو! تم اللہ کی عبادت کیا کرو اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں ہے، تو کیا تم نہیں ڈرتے،
English Sahih:
And We had certainly sent Noah to his people, and he said, "O my people, worship Allah; you have no deity other than Him; then will you not fear Him?"
1 Abul A'ala Maududi
ہم نے نوحؑ کو اس کی قوم کی طرف بھیجا اس نے کہا "اے میری قوم کے لوگو، اللہ کی بندگی کرو، اس کے سوا تمہارے لیے کوئی اور معبود نہیں ہے، کیا تم ڈرتے نہیں ہو؟"
2 Ahmed Raza Khan
اور بیشک ہم نے نوح کو اس کی قوم کی طرف بھیجا تو اس نے کہا اے میری قوم اللہ کو پوجو اس کے سوا تمہارا کوئی خدا نہیں، تو کیا تمہیں ڈر نہیں
3 Ahmed Ali
اور ہم نے نوح کو اس کی قوم کے پاس بھیجا پھر اس نے کہا اے میری قوم الله کی بندگی کرو اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں پھر تم کیوں نہیں ڈرتے
4 Ahsanul Bayan
یقیناً ہم نے نوح (علیہ السلام) کو اس کی قوم کی طرف رسول بنا کر بھیجا، اس نے کہا کہ اے میری قوم کے لوگو! اللہ کی عبادت کرو اور اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں، کیا تم (اس سے) نہیں ڈرتے۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
اور ہم نے نوح کو ان کی قوم کی طرف بھیجا تو انہوں نے ان سے کہا کہ اے قوم! خدا ہی کی عبادت کرو اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں، کیا تم ڈرتے نہیں
6 Muhammad Junagarhi
یقیناً ہم نے نوح (علیہ السلام) کو اس کی قوم کی طرف رسول بنا کر بھیجا، اس نے کہا کہ اے میری قوم کے لوگو! اللہ کی عبادت کرو اور اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں، کیا تم (اس سے) نہیں ڈرتے
7 Muhammad Hussain Najafi
اور بےشک ہم نے نوح(ع) کو ان کی قوم کی طرف ہدایت کیلئے بھیجا۔ تو آپ نے کہا اے میری قوم! اللہ کی عبادت کرو۔ اس کے سوا کوئی اللہ نہیں ہے۔ کیا تم (اس کی حکم عدولی سے) نہیں ڈرتے؟
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
اور ہم نے نوح کو ان کی قوم کی طرف بھیجا تو انہوں نے کہا کہ قوم والو خدا کی عبادت کرو کہ تمہارے لئے اس کے علاوہ کوئی خدا نہیں ہے تو تم اس سے کیوں نہیں ڈرتے ہو
9 Tafsir Jalalayn
اور ہم نے نوح کو ان کی قوم کی طرف بھیجا تو انہوں نے ان سے کہا کہ اے قوم ! خدا ہی کی عبادت کرو اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں کیا تم ڈرتے نہیں ؟
آیت نمبر 23 تا 32
ترجمہ : قسم ہے ہماری عزت و جلال کی کہ ہم نے نوح (علیہ السلام) کو ان کی قوم کی طرف پیغمبر بنا کر بھیجا تو انہوں نے فرمایا سے میری قوم اللہ ہی کی بندگی کیا کرو یعنی اسی کی اطاعت کیا کرو اور اس کی توحید کا عقیدہ رکھو تمہارے لئے اس کے سوا کوئی معبود بنانے کے لائق نہیں (الٰہ) ما کا اسم ہے اور اس کا ماقبل (لکم) ما کی خبر ہے اور من زائدہ ہے، تو پھر کیا تم ڈرتے نہیں ہو ؟ یعنی اس کے غیر کی عبادت کرنے کی صورت میں کیا تم اس کے عذاب سے ڈرتے نہیں ہو ؟ تو ان کی قوم کے کافر سرداروں نے اپنے ماتحتوں سے کہا یہ شخص بجز اس کے کہ تمہارے ہی جیسا (معمولی) انسان ہے اور کچھ نہیں اس کا مقصد یہ ہے کہ تم پر فضیلت فوقیت حاصل کرے اس طریقہ پر کہ وہ تمہارا ھاکم اور تم اس کے محکوم ہوجاؤ اور اگر اللہ کو یہ منظور ہوتا کہ اس کے علاوہ کسی کی بندگی نہ کی جائے تو اس حکم کو لیکر کسی فرشتہ کو بھیجتا نہ کہ انسان کو، ہم نے یہ بات یعنی توحید جس کی طرف نوح دعوت دے رہے ہیں اپنے پہلے بڑوں یعنی گذشتہ امتوں سے نہیں سنی، پس یہ نوح ایک شخص ہے کہ جس کو جنون ہوگیا ہے یعنی جنوں کی کیفیت لاحق ہوگئی ہے، تو ایک خاص وقت یعنی موت تک اس کا انتظار کرلو، نوح (علیہ السلام) نے عرض کیا (دعا کی) اے میرے پروردگار آپ ان کے مقابلہ میں ان کو ہلاک کرکے میری نصرت فرمائیے، اس وجہ سے کہ انہوں نے میری تکذیب کی، حق تعالیٰ نے حضرت نوح (علیہ السلام) کی دعا قبول فرماتے ہوئے فرمایا پس ہم نے نوح (علیہ السلام) کو حکم بھیجا کہ تم ہماری نگرانی اور حفاظت میں اور ہمارے حکم سے کشتی بناؤ پھر جس وقت ان کی ہلاکت کیلئے ہمارا حکم آجائے اور نان پُز کے تنور سے پانی ابلنے لگے اور یہ نوح (علیہ السلام) کیلئے کشتی پر سوار ہونے کیلئے علامت تھی، تو اس کشتی میں ہر قسم میں سے نر و مادہ کا ایک جوڑا یعنی ہر نوع میں سے دو دو مذکر اور مؤنث رکھ لینا، اور اثنین (فَاسلُکْ ) کا مفعول بہ ہے، اور من کُلّ ، اسلک سے متعلق ہے، اور واقعہ میں اس طرح مذکور ہے کہ اللہ تعالیٰ نے نوح (علیہ السلام) کیلئے درندوں اور پرندوں وغیرہما کو جمع فرما دیا، تو حضرت نوح (علیہ السلام) ہر نوع میں اپنے دونوں ہاتھ ڈالتے تھے تو آپ کا داہنا ہاتھ نر پر اور بایاں ہاتھ مادہ پر پڑتا تھا تو آپ ان کو کشتی میں سوار کردیتے تھے، ایک قراءت میں کُلٍّ تنوین کے ساتھ ہے اس صورت میں زوجین مفعول ہوگا اور اثنین اس کی تاکید ہوگی اور اپنے اہل کو یعنی اپنی (مومنہ) بیوی اور اولاد کو سوار کرلو بجز اس کے کہ جس پر ان میں سے ہلاکت کا حکم نافذ ہوچکا ہے، اور وہ نوح (علیہ السلام) کی (کافرہ) بیوی اور ان کا (کافر) لڑکا کنعان ہے، بخلاف سام، حام، اور یافث کے چناچہ ان کو اور ان کے تینوں بیویوں کو سوار کرلیا، اور سورة ہود میں ہے وَمَنْ آمَنَ وَمَا آمَنَ مَعَہٗ اِلاَّ قَلِیْلٌ اور ان لوگوں کو جو ایمان لائے اور ان کے ساتھ بہت تھوڑے لوگ ایمان لائے، کہا گیا ہے چھ مرد اور ان کی بیویاں تھیں اور (یہ بھی) کہا گیا ہے کہ ان تمام کی تعداد جو کشتی میں تھے اٹھتر (78) تھے ان میں سے آدھے مرد اور آدھی عورتیں تھیں، اور تم مجھ سے کافروں کی ترک ہلاکت (یعنی نجات) کے بارے میں کچھ گفتگو نہ کرنا وہ یقیناً غرق کئے جائیں گے پھر جب تم اور تمہارے ساتھی کشتی پر باطمینان سوار ہوجاؤ تو یوں کہنا کہ سب تعریفیں اللہ کے لئے ہیں جس نے ہم کو ظالم یعنی کافر قوم سے نجات دی اور ان کو ہلاک کرکے ہم کو نجات دی (ای فلم نُھْلَکْ مَعَھُمْ ) اور کشتی سے اترتے وقت یوں دعاء کرنا رَبِّ أنزِلْنِی مُنزَلاً میم کے ضمہ اور زاء کے فتحہ کے ساتھ منزلاً مصدر ہے یا اسم مکان ہے اور میم کے فتحہ اور زاء کے کسرہ کے ساتھ (مَنْزَلاً ) بمعنی اترنے کی جگہ۔ اے میرے پروردگار ! آپ مجھے اتارئیے بابرکت اتارنا، برکت کی جگہ اتارنا، دوسری قرأت میں بھی یہی دونوں ترجمے ہوں گے، پہلی قرأت میں تقدیر عبارت یہ ہوگی رَبِّ اَنْزِلْنِیْ اِنْزَالاً مبارَکًا دوسری قرأت میں تقدیر عبارت یہ ہوگی رَبِّ انزلنِی نزلاً مُبارَکاً یا (نزولاً مُبارکاً ) صرف فرق یہ ہوگا کہ دوسری قرأت میں اَنْزِلنی (افعال) سے ہے اور (مصدر) نزلاً یا نزولاً ثلاثی مجرد سے جیسا کہ اَنٌبَتَ اللہ نباتاً میں ہے مگر مفسر علام کی عبارت سے یہ وہم ہوتا ہے کہ پہلی صورت میں مصدر اور اسم مکان دونوں کا احتمال ہے اور دوسری صورت میں صرف مصدر کا احتمال ہے حالانکہ دونوں قرأتوں میں دونوں احتمال ہیں، مُبَارَکاً اسم واحد ذکر غائب، بڑا برکت والا، ذٰلِکَ الاِنْزَال اَوِ المکان مفسر علام نے ذٰلک کے ذریعہ مبارکاً کے اندر ضمیر مستتر کا مرجع ظاہر فرمایا ہے اور منزلاً میں چونکہ دو احتمال ہیں اس لئے الانزال او المکان کہہ کر دونوں احتمالوں کی طرف اشارہ کردیا، اور آپ مذکورہ دونوں صورتوں میں (یعنی خواہ معنی مصدری کی صورت میں ہو یا اسم مکان کے معنی میں) بہترین نازل کرنے والے ہیں پھر ہم نے (قوم نوح) کے بعد ایک دوسری قوم کو وہ عاد ہے پیدا کیا پھر ہم نے ان میں ایک رسول بھیجا جو ان ہی میں سے تھے یعنی ہود (علیہ السلام) (اس پیغمبر نے کہا) کہ تم اللہ ہی کی بندگی کرو اس کے علاوہ تمہارا کوئی
معبود نہیں کیا تم ڈرتے نہیں ہو ؟ کہ ایمان لے آؤ۔
تحقیق و ترکیب و تفسیری فوائد
ولقد ارسلنا نوحا (الآیۃ) اللہ تعالیٰ یہاں سے پانچ قصوں کا بیان شروع فرما رہے ہیں، حضرت آدم (علیہ السلام) کا قصہ اختصاراً اوپر گذر چکا ہے اس میں کل چھ قصے ہیں ان قصوں کے بیان کرنے کا مقصد امت محمدیہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو سابقہ امتوں کے واقعات کی خبر دینا ہے تاکہ پسندیدہ خصائل میں ان کی اقتداء کریں اور خصائل مذمومہ سے اجتناب کریں نیز ان قصوں میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تسلی بھی ہے کہ جو حالات آپ کے ساتھ آپ کی قوم کی طرف سے پیش آرہے ہیں ویسے حالات سابقہ نبیوں کے ساتھ بھی ان کی امتوں کی جانب سے پیش آچکے ہیں، آپ کو ان حالات و واقعات سے رنجیدہ خاطر ہونے کی ضرورت نہیں ہے وہ پانچ قصے جن کو یہاں بیان کیا گیا ہے وہ یہ ہیں (1) قصہ نوح (2) قصہ ہود (3) قصہ قرون الآخرین (4) قصہ موسیٰ و ہارون (5) قصہ حضرت عیسیٰ اور ان کی والدہ کا، نوح یہ لقب ہے آپ کا نام عبد الغفار یا عبداللہ ہے اور بعض حضرات نے یشکر بھی بتایا ہے، آپ ایک ہزار پچاس سال بقید حیات رہے، چالیس سال کی عمر میں اپ کو منصب نبوت سے سرفراز کیا گیا اور ساڑھے نو سو سال آپ نے دعوت و تبلیغ کے فرائض انجام دئیے اور طوفان کے بعد آپ ساٹھ سال بقید حیات رہے اس حساب سے ایک ہزار پچاس سال ہوتے ہیں۔
قولہ : مَالکم من الٰہٍ غیرہ یہ جملہ ما قبل کیلئے بمنزلہ علت ہے۔
قولہ : ھو اسم ما مفسر علام یہاں سے مالکم من الٰہٍ غیرہ کی ترکیب فرما رہے ہیں اِلٰہٍ ما کا اسم مؤخر ہے اور لکم کائناً کے متعلق ہو کر ما کی خبر ہے، غَیْرُہُ پر رفع بھی درست ہے اس وقت اِلٰہٍ کے محل کے تابع ہوگا، اور جر بھی جائز ہے اس وقت الٰہٍ کے لفظ کے تابع ہوگا مفسر کے قول ما قبلہ سے لکم جار مجرور مراد ہے مگر جمہور کے نزدیک یہ ترکیب ضعیف ہے ما چونکہ عامل ضعیف ہے اسلئے کہ اس کے اسم و خبر کی ترتیب بدلنے کی صورت میں ما عمل نہیں کرتا، لہٰذا مناسب یہ تھا کہ اَلٰہٍ کو مبتداء مؤخر اور لکم کو خبر مقدم قرار دیا جائے
قولہ : اَنْ لا یُعْبَدْ غیرہ اس عبارت کو محذوف ماننے کا مقصد اس بات کی طرف اشارہ کرنا ہے کہ مشیئۃ کا مفعول محذوف ہے۔
قولہ : بِذٰلِکَ لَابَشَرًا بذٰلک کا تعلق اَنْزَلَ کے ساتھ ہے، اور ذٰلِکَ کا مشائر الیہ (ان لا یعبد غیرہ) یعنی غیر اللہ کی عبادت نہ کرنے کا حکم ہے۔
قولہ : أن اصنع الفلک میں أن تفسیریہ ہے اس لئے کہ اس کے ماقبل اوحینا ہے جو قول کے معنی پر مشتمل ہے۔
قولہ : باعیننا یہ اصنع کی خبر سے حال ہے اور اَعْیُنُ کو جمع لانا مبالغہ کے طور پر ہے۔
قولہ : بمرأی مِنا وحفظنا کا اضافہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ آیت میں مجاز مرسل ہے، اس لئے کہ نظروں سے دیکھنے کیلئے حفاظت لازم ہے لہٰذا ملزوم بول کر لازم مراد لیا گیا ہے۔
قولہ : وفار التنور یہ جاءَ اَمْرنا کا عطف بیان ہے، اور تنور میں سے پانی کا ابلنا عذاب کیلئے علامت کے طور پر تھا، اسلئے کہ روایت کیا گیا ہے کہ حضرت نوح کو علامت کے طور پر بتادیا گیا کہ جب تنور سے پانی ابلنے لگے تو سمجھ لینا کہ اب عذاب کا وقت قریب آگیا ہے
قولہ : زوجتہٗ زوجہ اور اولاد سے زوجہ مومنہ اور اولاد مومن مراد ہے، حضرت نوح (علیہ السلام) کی دو بیویاں تھیں ایک مومنہ جس کو کشتی میں ساتھ لے لیا تھا اور کافرہ اپنے کافر بیٹے کنعان کے ساتھ کشتی میں سوار نہیں ہوئی، حضرت نوح (علیہ السلام) کی کافرہ بیوی کا نام واغلہ تھا، آپ کے چار صاحبزادے تھے ایک کافر تھا جس کا نام کنعان وہ کشتی میں سوار نہیں ہوا، باقی تین صاحبزادے جو مومن تھے ان کے نام سام، حام، یافث تھے، سام ابو العرب ہیں، اور حام ابو السودان ہیں، اور یافث ابو الترک ہیں۔
قولہ ؛ فقل الحمدللہ یہ اذا کا جواب ہے، بظاہر معلوم ہوتا ہے کہ فقل کے بجائے فقولوا فرماتے تاکہ اترتے وقت سب لوگ دعا میں شریک ہوجاتے، مگر چونکہ آپ کی دعا سب کی دعا کے قائم مقام تھی اس لئے صرف آپ کو حکم کیا گیا ہے۔
تفسیر و تشریح
وفار التنورُ تنور مختلف معنی میں استعمال ہوا ہے، جس میں روٹی پکائی جاتی ہے اس کو بھی تنور کہا جاتا ہے اور تنور پوری زمین کیلئے بھی بولا جاتا ہے، اور بعض حضرات نے ایک خاص تنور مراد لیا ہے جو کہ کوفہ کی مسجد میں اور بعض کے نزدیک شام میں کسی جگہ تھا، یہاں تنور سے کیا مراد ہے اس میں اختلاف ہے، عکرمہ اور زہری کا بیان ہے کہ سطح زمین مراد ہے، حسن بصری، مجاہد اور شعبی کہتے ہیں تنور سے وہی تنور مراد ہے جس میں روٹی پکائی جاتی ہیں، اکثر مفسرین نے اسی کو اختیار کیا ہے اور ایسی ہی حضرت ابن عباس (رض) سے ایک روایت منقول ہے اور یہی قول زیادہ صحیح معلوم ہوتا ہے اس لئے کہ لفظ جب حقیقت اور مجاز میں دائر ہو تو حقیقت ہی پر حمل کرنا اولیٰ ہوتا ہے، حضرت نوح (علیہ السلام) اور ان کے طوفان اور کشتی کا واقعہ پچھلی سورتوں میں تفصیل سے گذر چکا ہے، نیز اس کے ضروری اجزاء تحقیق و ترکیب کے زیر عنوان تحریر کر دئیے گئے ہیں، دیکھ لیا جائے۔
ثم انشانا۔۔۔۔ آخرین اس سے پہلی آیات میں حضرت نوح (علیہ السلام) کا واقعہ بسلسلہ ہدایت و تسلی ذکر کیا گیا تھا، آگے دوسرے پیغمبروں اور انکی امتوں کا کچھ حال اجمالاً بغیر نام کی تعیین کے ذکر کیا گیا ہے کہ آثار و علامات سے حضرات مفسرین نے عاد وثمود یا دونوں قومیں مراد لی ہیں، عاد کی طرف حضرت ہود (علیہ السلام) کی اور ثمود کی جانب حضرت صالح (علیہ السلام) کی بعثت ہوئی تھی
10 Tafsir as-Saadi
اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے بندے اور رسول نوح علیہ السلام کا ذکر کرتا ہے حضرت نوح علیہ اسلام زمین پر پہلے رسول تھے جن کو اللہ تعالیٰ نے ان کی قوم کی طرف مبعوث فرمایا۔ ان کی قوم کی حالت یہ تھی کہ وہ بتوں کی پوجا کرتی تھی۔ انہوں نے اپنی قوم کو حکم دیا کہ وہ اکیلے اللہ تعالیٰ کی عبادت کریں، چنانچہ انہوں نے فرمایا : ﴿ يَا قَوْمِ اعْبُدُوا اللّٰـهَ ﴾’’اے میری قوم ! اللہ کی عبادت کرو۔‘‘ یعنی اس کے لئے عبادت کو خالص کرو کیونکہ اخلاص کے بغیر عبادت قابل قبول نہیں۔ ﴿ مَا لَكُم مِّنْ إِلَـٰهٍ غَيْرُهُ ﴾’’تمہارے لیے اس کے سوا کوئی معبود نہیں۔‘‘ اس میں غیر اللہ کی الوہیت کا ابطال اور صرف اللہ تعالیٰ کی الوہیت کا اثبات ہے وہی خالق اور رزاق ہے اور غیر اللہ کے برعکس صرف وہی کامل کمال کا مالک ہے۔
﴿ أَفَلَا تَتَّقُونَ ﴾ کیا تم استھانوں اور بتوں کی عبادت کرنے پر اللہ تعالیٰ سے ڈرتے نہیں، جن کو قوم کے صالح لوگوں کی شکل پر گھڑ لیا گیا تھا، اس طرح انہوں نے اللہ تعالیٰ کے ساتھ ان کی بھی عبادت شروع کردی تھی۔ حضرت نوح علیہ اسلام نے ان کو کھلے چھپے، شب و روز، ساڑھے نو سو برس تک دعوت دی مگر ان کی سرکشی اور روگردانی میں اور اضافہ ہوگیا۔
11 Mufti Taqi Usmani
aur hum ney nooh ko unn ki qoam kay paas bheja tha , chunacheh unhon ney ( qoam say ) kaha kay : meri qoam kay logo ! Allah ki ibadat kero , uss kay siwa tumhara koi mabood nahi hai . bhala kiya tum dartay nahi ho-?
12 Tafsir Ibn Kathir
نوح (علیہ السلام) اور متکبر وڈیرے
نوح (علیہ السلام) کو اللہ تعالیٰ نے بشیرونذیر بنا کر ان کی قوم کی طرف مبعوث فرمایا۔ آپ نے ان میں جاکر پیغام الٰہی پہنچایا کہ اللہ کی عبادت کرو اس کے سوا تمہاری عبادت کا حقدار کوئی نہیں۔ تم اللہ کے سوا اس کے ساتھ دوسروں کو پوجتے ہوئے اللہ سے ڈرتے نہیں ہو ؟ قوم کے بڑوں نے اور سرداروں نے کہا یہ تو تم جیسا ہی ایک انسان ہے۔ نبوت کا دعویٰ کرکے تم سے بڑا بننا چاہتا ہے سرداری حاصل کرنے کی فکر میں ہے بھلا انسان کی طرف وحی کیسے آتی ؟ اللہ کا ارادہ نبی بھیجنے کا ہوتا تو کسی آسمانی فرشتے کو بھیج دیتا۔ یہ تو ہم نے کیا، ہمارے باپ دادوں نے بھی نہیں سنا کہ انسان اللہ کا رسول بن جائے۔ یہ تو کوئی دیوانہ شخص ہے کہ ایسے دعوے کرتا ہے اور ڈینگیں مارتا ہے۔ اچھا خاموش رہو دیکھ لو ہلاک ہوگا۔