المؤمنون آية ۹۳
قُل رَّبِّ اِمَّا تُرِيَنِّىْ مَا يُوْعَدُوْنَۙ
طاہر القادری:
آپ (دعا) فرمائیے کہ اے میرے رب! اگر تو مجھے وہ (عذاب) دکھانے لگے جس کا ان سے وعدہ کیا جا رہا ہے،
English Sahih:
Say, [O Muhammad], "My Lord, if You should show me that which they are promised,
1 Abul A'ala Maududi
اے محمدؐ، دعا کرو کہ "پروردگار، جس عذاب کی اِن کو دھمکی دی جا رہی ہے وہ اگر میری موجودگی میں تو لائے
2 Ahmed Raza Khan
تم عرض کرو کہ اے میرے رب! اگر تو مجھے دکھائے جو انہیں وعدہ دیا جاتا ہے،
3 Ahmed Ali
کہہ دو اے میرے رب اگر تو مجھے دکھائے وہ چیز جس کا انہیں وعدہ دیا جارہا ہے
4 Ahsanul Bayan
آپ دعا کریں کہ اے میرے پروردگار! اگر تو مجھے وہ دکھائے جس کا وعدہ انہیں دیا جا رہا ہے۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
(اے محمدﷺ) کہو کہ اے پروردگار جس عذاب کا ان (کفار) سے وعدہ ہو رہا ہے، اگر تو میری زندگی میں ان پر نازل کرکے مجھے بھی دکھادے
6 Muhammad Junagarhi
آپ دعا کریں کہ اے میرے پروردگار! اگر تو مجھے وه دکھائے جس کا وعده انہیں دیا جا رہا ہے
7 Muhammad Hussain Najafi
(اے رسول(ص)) آپ کہئے کہ اے میرے پروردگار اگر تو مجھے وہ عذاب دکھا دے جس کی ان لوگوں کو دھمکی دی جا رہی ہے۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
اور آپ کہئے کہ پروردگار اگر جس عذاب کا ان سے وعدہ کیا ہے مجھے دکھا بھی دینا
9 Tafsir Jalalayn
(اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کہو کہ اے پروردگار جس عذاب کا ان (کفار) سے وعدہ ہوا ہے اگر تو میری زندگی میں ان پر نازل کر کے مجھے دیکھائے
آیت نمبر 93 تا 118
ترجمہ : آپ دعاء کیجئے کہ اے میرے پروردگار اِمّا اصل میں اِنْ مَا تھا اِنْ شرطیہ کے نون کو ما زائدہ میں ادغام کردیا جس عذاب کا ان کافروں سے وعدہ کیا جا رہا ہے اگر آپ مجھ کو دکھا دیں تو اے میرے پروردگار مجھے ان ظالم لوگوں میں شامل نہ کیجئے کہ میں ان کے ساتھ ہلاک کردیا جاؤں اور وہ وعدہ (غزوہ) بدر میں قتل کے ذریعہ صادق آیا اور ہم اس بات پر قادر ہیں کہ جو وعدہ ان سے کر رہے ہیں آپ کو دکھلا دیں آپ ان کو بدی یعنی آپ کو ایذا رسانی کا دفعیہ ایسے طریقہ سے کردیا کیجئے کہ جو بہت ہی اچھا ہو یعنی ان سے عفو و درگذر کی خصلت کے ذریعہ اور یہ (عفو و درگذر) کا حکم جہاد کی اجازت سے پہلے کا ہے ہم خوب جانتے ہیں جو کچھ یہ کہا کرتے ہیں یعنی تکذیب کرتے ہیں اور باتیں بناتے ہیں ہم ان کو اس کی سزا دیں گے اور آپ یوں دعا کیا کیجئے کہ اے میرے رب میں آپ کی پناہ چاہتا ہوں ان شیطانی خیالات سے کہ جن کے ذریعہ وہ وسوسہ ڈالتے ہیں اور اے میرے رب میں آپ کی پناہ چاہتا ہوں اس سے کہ شیاطین میرے پاس آئیں یعنی میرے کاموں میں دخل دیں اس لئے کہ وہ بدی ہی کے ساتھ آتے ہیں یہاں تک کہ جب ان میں سے کسی کو موت آنے لگتی ہے، حَتّٰی ابتدائیہ ہے اور وہ دوزخ کا اپنا ٹھکانا اور جنت کا اپنا ٹھکانا اگر ایمان لاتا دیکھ لیتا ہے تو (اس وقت) کہتا ہے اے میرے رب آپ مجھے واپس بھیج دیجئے اِرْجِعُوْنِ جمع کا صیغہ تعظیم کے لئے تاکہ جس (دنیا) کو میں چھوڑ آیا ہوں اس میں جا کر نیک عمل کروں یعنی لا الٰہ الا اللہ کی شہادت دوں تاکہ میری یہ شہادت مافات کی تلافی ہوجائے یعنی جو عمر میں نے ضائع کردی اس کا عوض ہوجائے، اللہ تعالیٰ فرمائیں گے ہرگز ایسا نہیں ہوسکتا یعنی رجعت نہیں ہوسکتی، بلاشبہ یہ یعنی ربِّ ارجعون ایک کلمہ ہے جس کو یہ بولے جا رہا ہے اور اس کلمہ کے بار بار کہنے میں اس کا کوئی فائدہ نہیں ہے، اور ان لوگوں کے آگے ایک آڑ ہے جو ان کو رجوع سے مانع ہے قیامت کے دن تک اور اس کے بعد رجوع نہیں ہے پھر صور میں پھونکا جائے گا یعنی سینگ (جیسی کسی شئ) میں پہلا نفخہ یا ثانیہ تو اس روز ان کے درمیان رشتے ناتے جن پر یہ لوگ فخر کرتے تھے باقی نہیں رہیں اور نہ کوئی رشتے ناتوں کے متعلق پوچھے گا بخلاف دنیا میں ان کی حالت کے، اس لئے کہ ایک امر عظیم قیامت کے بعض مواقع میں ان کو اس (پوچھ گچھ) سے غافل کر دے گا، اور قیامت کے بعض مواقع میں ان کو افاقہ ہوگا اور ایک دوسری آیت میں ہے کہ وہ آپس میں ایک دوسرے سے پوچھ گچھ کریں گے سو جس شخص کا نیکیوں کی وجہ سے پلڑا بھاری ہوگا تو ایسے لوگ کامیاب ہوں گے اور سیئات کی وجہ سے جس کا پلڑا ہلکا ہوگا سو یہ وہ لوگ ہوں گے جنہوں نے اپنا نقصان کرلیا سو وہ جہنم میں ہمیشہ ہمیش رہیں گے اور آگ ان کے چہروں کو جھلس دے گی یعنی جلا دے گی اور وہ وہاں بدشکل بنے ہوں گے اور ان کے اوپر کے ہونٹ اوپر کو سکڑے ہوئے ہوں گے اور ان کے نیچے کے ہونٹ دانتوں سے نیچے لٹکے ہوئے ہوں گے، ان سے ارشاد ہوگا کیا تم کو قرآن سے میری آیتیں پڑھ کر نہیں سنائی جاتی تھیں یعنی ان آیات کے ذریعہ تم کو خوف نہیں دلایا جاتا تھا پھر بھی تم ان کی تکذیب کرتے تھے وہ کہیں گے اے ہمارے رب ہماری بدنصیبی ہمارے اوپر غالب آگئی تھی اور ایک قرأت میں شقَاوَتْنَا ہے اول کے فتحہ اور الف کے ساتھ اور یہ دونوں مصدر ہیں دونوں کے ایک ہی معنی ہیں اور بیشک ہم ہدایت سے بھٹکے ہوئے تھے اے ہمارے پروردگار ہم کو جہنم سے نکال دیجئے پس اگر ہم پھر بھی مخالفت کریں تو بلاشبہ ہم قصور وار ہوں گے دنیا کی دوگنی مقدار کے بعد مالک کی زبانی ارشاد ہوگا ذلت کے ساتھ اسی میں پڑے رہو یعنی ذلت کے ساتھ جہنم میں پڑے رہو، اور مجھ سے اپنے رفع عذاب کے بارے میں کلام مت کرو چناچہ وہ لوگ مایوس ہوجائیں گے میرے بندوں میں ایک جماعت تھی جو عرض کیا کرتی تھی اور وہ مہاجرین کی جماعت تھی اے ہمارے پروردگار ہم ایمان لے آئے ہیں ہم کو بخش دیجئے اور ہم پر رحمت فرمائیے آپ سب رحم کرنے والوں سے بڑھ کر رحم کرنے والے ہیں لیکن تم انہیں مذاق میں اڑاتے رہے سخریا سین کے ضمہ اور اس کے کسرہ کے ساتھ بمعنی تمسخر، ان میں بلال (رض) اور صہیب (رض) اور عمار (رض) اور خباب (رض) تھے یہاں تک کہ ان لوگوں نے تم کو ہماری یاد بھلا دی سو تم نے ان کے استہزاء میں مشغول ہونے کی وجہ سے اس یاد کو ترک کردیا تو گویا کہ وہ لوگ بھلانے کا سبب ہوئے اسی وجہ سے بھلانے کی نسبت ان کی طرف کردی اور تم ان کی ہنسی ہی اڑاتے رہے، میں نے آج ان کو تمہارے استہزاء اور ایذا پر صبر کرنے کے عوض دائمی نعمتوں کا بدلہ دیدیا بلاشبہ یہی لوگ اپنے مقصد میں کامیاب ہیں اِنّھم کے کسرہ کے ساتھ (اس صورت میں) جملہ مستانفہ ہوگا اور ہمزہ کے فتحہ کے ساتھ جَزَیتُھم کا مفعول ثانی ہوگا اللہ تعالیٰ مالک کی زبانی فرمائے گا اور ایک قرأت میں قُلْ ہے کہ تم دنیا میں اور اپنی قبروں میں سالوں کے حساب سے کتنی مدت رہے عَدَدَ سنین، کم کی تمیز ہے (تقدیر عبارت یہ ہے) لبثتم کم عدَدًا مِنَ السنین وہ جواب دیں گے کہ ہم ایک دن یا ایک دن سے بھی کم رہے ہوں گے وہ اس مدت قیام میں شک کریں گے اور ابتلائے عذاب کے عظیم ہونے کی وجہ سے قیام دنیا کی مدت کو کم سمجھیں گے سو شمار کرنے والوں یعنی مخلوق کے اعمال کو شمار کرنے والے فرشتوں سے معلوم کرلیجئے اللہ تعالیٰ مالک کی زبانی فرمائیں گے اور ایک قرأت میں قُلْ ہے تم تھوڑی ہی مدت رہے ہو کیا اچھا ہوتا کہ تم اپنے طول قیام کی مدت کو جان لیتے جو بہت کم تھی تمہاری جہنم میں قیام کی نسبت سے کیا تم یہ گمان کئے ہوئے تھے کہ ہم نے تم کو بیکار بغیر کسی حکمت کے پیدا کردیا اور یہ کہ تم ہمارے پاس لوٹ کر نہ آؤ گے ترجعون معروف اور مجہول دونوں ہیں، نہیں بلکہ (ہم نے تم کو اس لئے پیدا کیا) کہ تم کو امر اور نہی کا مکلف بنائیں اور تم ہماری طرف لوٹائے جاؤ اور ہم اس تکلیف پر تم کو جزاء دیں، اور ہم نے جن وانس کو صرف عبادت کرنے کے لئے پیدا کیا ہے سو اللہ تعالیٰ عبث وغیرہ سے جو اس کی شان کے لائق نہیں ہے برتر ہے، جو کہ بادشاہ حقیقی ہے اس کے سوا کوئی بھی لائق عبادت نہیں عرش عظیم کا مالک ہے یعنی کرسی کا جو کہ بہترین تخت ہے اور جو شخص اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی اور معبود کی بندگی کرے گا کہ جس کے معبود ہونے پر اس کے پاس کوئی دلیل نہیں ہے آخر، اِلٰھًا کی صفت کاشفہ ہے اس کے مفہوم مخالف کا اعتبار نہیں، سو اس کا حساب یعنی اس کی جزاء اس کے رب کے یہاں ہوگا یقیناً کافروں کو فلاح نہ ہوگی یعنی سعاد تمند نہ ہوں گے اور آپ یوں دعا کیا کیجئے اے میرے رب معاف فرما اور مومنین پر رحم فرما رحمت میں مغفرت کے مقابلہ میں زیادتی ہے اور تو سب رحم کرنے والوں سے بڑھ کر رحم کرنے والا ہے یعنی رحمت کے اعتبار سے افضل ہے۔
تحقیق و ترکیب و تفسیری فوائد
قولہ : تُرِیَنِّی تو مجھے دکھلائے اِراء ۃً سے مضارع واحد مذکر حاضر بانون تالکید ثقیلہ مبنی بر فتحہ متعدی بدو مفعول بواسطہ ہمزہ ی ضمیر متکلم مفعول اول ما موصولہ مفعول ثانی۔
قولہ : فَلَا تَجْعَلْنِیْ جواب شرط فی بمعنی مع لفظ رَبْ کا اعادہ تضرع اور عاجزی میں مبالغہ کرنے کیلئے کیا گیا ہے فَاَھْلَکُ بِھَلاَکِھِمْ جواب نہی ہے وَاِنَّا علیٰ اَنْ نُرِیَکَ مَا نَعِدُھُمْ لَقٰدِرُوْنَ اِنَّ حرف مشبہ بالفعل ناصب نا اس کا اسم علیٰ حرف جار نُرِیَ فعل بافاعل کَ مفعول اول مَا موصولہ نَعِدُھُمْ جملہ ہو کر صلہ موصول صلہ سے مل کر بتاویل مصدر ہو کر مفعول ثانی نُرِیَ اپنے فاعل اور دونوں مفعولوں سے مل کر مجرور ہو اعلیٰ جار کا جار مجرور سے مل کر متعلق مقدم ہوا قادِرُوْنَ کا، قادرون اپنے متعلق سے مل کر اِنَا کی خبر۔
قولہ : ای خَلَّۃ بمعنی خصلت مفسر علام نے خَلَّۃ کو مقدر مان کر اشارہ کردیا کہ اَلَّتِیْ حَلَّۃ موصوف مقدر کی صفت ہے اور السَّیّئَۃُ اِدفع کا مفعول بہ ہے، تقدیر عبارت یہ ہے اِدْفَعْ السَّیِّئَۃ بالخصلۃ التیھی احسن۔
قولہ : من الصفح والاعراض عنھم میں من بیا نیہ ہے اور الصفح الخ خصلۃ کا بیان ہے۔ قولہ : اَذَاھُمْ ایاکَ ، السَّیۃَ کی تفسیر ہے۔
قولہ : ھَمَزَات ھمزٌ کی جمع ہے شیطانی وسوسے، نفسانی خطرات۔
قولہ : حتّٰی ابتدائیہ ہے یعنی ما بعد کلام ما قبل سے جدا ہے، اس کلام کا مقصد مرنے کے بعد کافروں کا حال بیان کرنا ہے۔
قولہ : الجمع للتعظیم مفسر علام اس عبارت سے ایک سوال مقدر کا جواب دینا چاہتے ہیں، سوال یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ جو کہ مخاطب ہے واحد ہے لہٰذا رَبِّ ارْجِعِیْ سے خطاب کرنا چاہیے، جواب یہ ہے کہ تعظیماً جمع کا صیغہ لایا گیا ہے، دوسرا جواب یہ ہے کہ اِرْجعونِ میں واؤ تکرار پر دلالت کرنے کے لئے لایا گیا ہے، ای اِرجِعْنِیْ اِرْجعنی جیسا کہ اللہ تعالیٰ کے قول ” الَقیا فی جھنم “ میں الف تکرار کے لئے ہے یعنی اَلْقِ اَلْقِ کی معنی میں ہے، تیسرا جواب یہ ہے کہ جمع کا صیغہ ملائکہ کے اعتبار سے ہے۔
قولہ : وَرَائِھِمْ ھم لِاَحَدھم کی طرف راجع ہے جمع کی ضمیر باعتبار معنی کے ہے اس لئے اَحَدھم معنی میں کلہم کے ہے ماقبل میں واحد کی ضمیریں باعتبار لفظ کی ہے۔ قولہ : فَلاَ انْسَابَ بینھُمْ انساب نسب کی جمع ہے بمعنی قرابت، رشتہ داری یہاں ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ ان کے درمیان نسب اور قرابت تو ثابت شدہ امر ہے اس کی نفی کس طرح صحیح ہے مفسر علام نے یَتَفَاخَرون کا اضافہ کرکے اس سوال کا جواب دیدیا کہ نسب کی نفی کرنا مقصود نہیں ہے بلکہ اس کی صفت جو کہ محذوف ہے اس کی نفی مقصود ہے اور وہ یتفاخرون ہے، یعنی دنیا میں جس نسب اور قرابت پر فخر کیا کرتے تھے وہ سب ختم ہوجائیں گے، اس لئے کہ میدان محشر میں ہولناکی اور دہشت کی وجہ سے تراحم اور تعاطف سب ختم ہوجائیں گے، اسی ہولناکی کی منظر کشی کرتے ہوئے دوسری آیت میں فرمایا یَفِر المرأ مِنْ أخیہِ وأمِّہٖ واَبِیہِ وصَاحِبَتِہٖ وبینہٖ ۔
قولہ : لا یتساءلون عنھا ای الانساب خلافَ حَالھم فی الدنیا ای ذٰلک خِلَافَ حالھم۔
قولہ : لِمَا یَشْغُلُھُمْ یہ ولا یتساءلون کی علت ہے یعنی یہ عدم تساؤل ان کے اپنے حالات میں مشغول ہونے کی وجہ سے ہوگا۔
قولہ : فی بعض مواضع القیامۃ الخ مفسر علام نے اس عبارت سے ایک اعتراض کا جواب دیا ہے، اعتراض یہ ہے کہ اس آیت سے معلوم ہوتا ہے روز محشر میں آپس میں پوچھ گچھ نہیں ہوگی اور ایک آیت میں ہے وَاَقْبَلَ بَعضُھم عَلیٰ بَعْضٍ یَتَسَاءَلَون جواب کا خلاصہ یہ ہے کہ روز محشر میں اوقات اور حالات مختلف ہوں گے، بعض حالات میں جب خوف و دہشت غالب ہوگا تو کسی کی مزاج پرسی کریں گے، مطلب یہ ہے کہ نفخہ اولیٰ کے وقت دہشت غالب ہوگی تو کوئی کسی کا پرسان حال نہ ہوگا، اور نفخہ ثانیہ کے بعد جب یک گونہ سہولت ہوجائے گی تو آپس میں ایک دوسرے کو پہچانیں گے بھی اور مزاج پرسی بھی کریں گے۔
قولہ : موازین کو یا تو عظمت کی وجہ سے جمع لایا گیا ہے یا موزون کے مختلف النوع ہونے کی وجہ سے جمع لایا گیا ہے یعنی ہر قسم کے عمل کو وزن کرنے کیلئے الگ قسم کی ترازو ہوگی جیسا کہ دنیا میں مختلف اقسام کی اقسام کو تولنے کیلئے مختلف قسم کی ترازو (مقیاس) ہوتی ہیں، بالحسنات میں باسببیہ ہے یعنی حسنات کے ثقیل اور بوجھل ہونے کی وجہ سے۔
قولہ : فَھُمْ یہ اشارہ ہے کہ فی جھنم، ھُم مبتداء محذوف کی خبر ہے زمخشری نے کہا ہے کہ فی جھنم خالدون، الذین خسِرُوْا انفُسَھُمْ سے بدل ہے۔ قولہ : تَلْفَحُ جملہ مستانفہ ہے۔ قولہ : شمَّرت شَمَّر کے معنی آستین وغیرہ چڑھانا، سکڑنا، قولہ : والسفلیٰ عن اَسْنانھم سے پہلے فعل محذوف ہے ای اِسْتَرَخَتْ السفلیٰ ۔ قولہ : قال تعالیٰ لَھُمْ بلسان مالک، مفسر علام نے اس عبارت سے ایک سوال کا جواب دیا ہے، سوال یہ ہے اللہ تعالیٰ کا قال کَمْ لَبِثتم کے ذریعہ کفار سے خطاب کرنا یہ ان سے کلام کرنے کا متقاضی ہے، حالانکہ دوسری آیت میں فرمایا ہے ولایکلمھم اللہ یہ کلام نہ کرنے کا متقاضی ہے دونوں میں تعارض معلوم ہوتا ہے، جواب یہ ہے کہ جس آیت سے کلام نہ کرنا معلوم ہوتا ہے اس کا مطلب ہے کہ براہ راست اور بلا واسطہ ان سے کلام نہ فرمائیں گے، اور جس آیت سے کفار سے کلام کرنا مفہوم ہوتا ہے وہاں بواسطہ مالک کلام کرنا مقصود ہے،۔
قولہ : لَوْ أنّکم کنتم تعلمون مقدار لُبثِکُمْ ، لَو امتناعیہ ہے اور تعلمون کا مفعول محذوف ہے مفسر علام نے مقدار لبثکم مقدر مان کر حذف مفعول کی طرف اشارہ کردیا، جواب لَوْ بھی محذوف ہے جس کی طرف مفسر علام نے کان قلیلاً کہہ کر حذف جواب کی طرف اشارہ کردیا ای کان قلیلاً فی علمکم۔
قولہ : اَفَحَسِبْتُمْ میں ہمزہ محذوف پر داخل ہے اور فا عاطفہ ہے تقدیر عبارت یہ ہے کہ أجَھِلْتُم فحسبتُّمْ استفہام تو بیخ کے لئے ہے۔ قولہ : عَبَثًا یا تو مصدر بمعنی اسم فاعل موقع حال میں واقع ہونے کی وجہ سے منصوب ہے ای عابثین یا پھر خلقنا کا مفعول لہ ہے۔
قولہ : لا لحکمۃ یہ عبث کی تفسیر ہے۔ قولہ : أنّکُمْ اِلَیْنَا لا تُرجعون کا عطف انما خَلَقْنَاکم پر ہے۔
قولہ : لابل یہ جواب استفہام کے طور پر مقدر مانا ہے۔
قولہ : ھو سریر الحسن بعض نسخوں میں یہ عبارت نہیں ہے۔
قولہ : صفۃ کاشفۃ لا مفھوم لھا مفسر علام کا مقصد اس عبارت سے ایک اعتراض کو دفع کرنا ہے، اعتراض کا خلاصہ یہ ہے کہ وَمَنْ یَدْعُ مَعَ اللہِ الٰھًا آخر لا بُرْھَانَ لَہٗ سے معلوم ہوتا ہے کہ جو شخص اللہ کے ساتھ عبادت میں غیر اللہ کو شریک کرے تو وہ بےبرہان اور بےسند ہے، اس سے مفہوم مخالف کے طور پر معلوم ہوتا ہے کہ جو صرف غیر اللہ کی عبادت کرے تو اسکے پاس برہان اور سند ہے حالانکہ یہ بات غلط ہے۔
جواب : جواب کا خلاصہ یہ ہے کہ آخر الٰھًا کی صفت کاشفہ ہے جو کہ محض وضاحت کیلئے ہوتی ہے اس کے مفہوم مخالف کا اعتبار نہیں ہوتا، البتہ صفت مخصصہ کے مفہوم مخالف کا اعتبار ہوتا ہے، صفت کاشفہ تو محض تاکید کے لئے ہوتی ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ کے قول طَائِرً یَطِیرُ بِجَنَاحَیْہِ یَطِیْرُ بجناحَیْہِ طائرً کی صفت کاشفہ ہے جو کہ محض تاکید کے لئے ہے اس لئے کہ ہر پرندہ پروں ہی سے اڑتا ہے، پھر یہ کہنا کہ وہ پرندہ جو پروں سے اڑتا ہے کیا معنی ؟ لہٰذا وَمَنْ یَدْعُوْ مَعَ اللہِ اِلٰھًا آخر لاَ بُرْھَانَ لَہٗ بِہٖ سے مفہوم مخالف کے طور پر یہ استدلال کرنا کہ اگر کوئی شخص غیر اللہ کی بندگی اشتراکاً کرے تو وہ بےسند اور بےبرہان ہو اور اگر ! فراداً غیر اللہ کی بندگی کرے تو وہ باسند اور بابرہان ہو صحیح نہیں ہے۔ (روح البیان) فَاِنَّمَا حِسَابہ عند ربہ یہ جواب شرط ہے۔
قولہ : اِنَّہٗ لایفلحُ الکافرون جمہور کے نزدیک ہمزہ کے کسرہ کے ساتھ جملہ مستانفہ ہے اور اس میں علت کے معنی ہیں۔
تفسیر و تشریح
قل رب۔۔۔۔۔ الظالمین۔ ان دونوں آیتوں کا مطلب یہ ہے کہ قرآن کریم کی بہت سی آیتوں میں مشرکین و کفار پر عذاب کی وعید مذکور ہے جو عام ہے قیامت میں تو اس کا وقوع قطعی اور یقینی ہے دنیا میں بھی واقع ہونے کا احتمال ہے، پھر یہ عذاب اگر دنیا میں ان پر واقع ہو تو اس میں یہ احتمال بھی ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانہ کے بعد آئے اور یہ بھی احتمال ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانہ میں آپ ہی کے سامنے ان پر اللہ کا عذاب آجائے، اور دنیا میں جب کسی قوم پر عذاب آتا ہے تو بعض اوقات اس عذاب کا اثر صرف ظالموں ہی پر نہیں رہتا بلکہ نیک لوگ بھی اس سے دنیاوی تکلیف سے متاثر ہوجاتے ہیں گو آخرت میں ان کو کوئی عذاب نہ ہو بلکہ اس دنیا کی تکلیف پر جو ان کو پہنچتی ہے اجر بھی ملے، قرآن کریم کا ارشاد ہے اِتَّقُوْا فِتْنَۃً لاتصیبنّ الذین ظلموا منکم خاصَّۃً یعنی ایسے عذاب سے ڈرو جو اگر آگیا تو صرف ظالموں ہی تک نہیں رہے گا دوسرے لوگ بھی اس کی لپیٹ میں آئیں گے۔
ان آیات میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ دعا تلقین فرمائی گئی ہے کہ یا اللہ اگر ان لوگوں پر آپ کا عذاب میرے سامنے اور میرے دیکھتے ہوئے ہی آنا ہے تو مجھے ان ظالموں کے ساتھ نہ رکھئے، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا معصوم اور عذاب الٰہی سے محفوظ ہونا اگرچہ آپ کیلئے یقینی تھا مگر پھر بھی اس دعا کی تلقین اس لئے فرمائی گئی کہ ہرحال میں اپنے رب کو یاد رکھیں اس سے فریاد کرتے رہیں تاکہ آپ کا اجر بڑھے۔ (قرطبی بحوالہ معارف)
وانا۔۔۔۔ لقدرون (الآیہ) یعنی ہم کو قدرت ہے کہ تمہاری آنکھوں کے سامنے دنیا ہی میں ان کو سزا دیں لیکن آپ کے مقام بلند اور اعلیٰ اخلاق کا مقتضی یہ ہے کہ ان کی برائی کو بھلائی سے دفع کریں جہاں تک اس طرح دفع ہوسکتی ہو اور ان کی بیہودہ بکواس سے مشتعل نہ ہوں ان کو ہم خوب جانتے ہیں، وقت پر کافی سزا دی جائے گی آپ کی چشم پوشی اور نرم برتاؤ کا یہ اثر ہوگا کہ بہت سے لوگ گرویدہ ہو کر آپ کی طرف مائل ہوں گے اور دعوت و اصلاح کا مقصود حاصل ہوگا، اس آیت میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا مکارم اخلاق کی تعلیم دی گئی ہے جو ہر مسلمان کو باہم معاملات میں ہمیشہ پیش نظر رکھنی چاہیے، البتہ کفار و مشرکین سے ان کے مظالم کے مقابلہ میں عفو درگذر ہی کرتے رہنا، ان پر ہاتھ نہ اٹھانا یہ حکم آیات جہاد سے منسوخ ہوگیا مگر عین حالت جہاد میں بھی اس حسن خلق کے بہت سے مظاہر باقی رکھے گئے کہ عورت کو قتل نہ کیا جائے بچہ کو قتل نہ کیا جائے، جو مذہبی لوگ مسلمانوں کے مقابلہ میں جنگ میں شریک نہ ہوں ان کو قتل نہ کیا جائے، اور جس کو بھی قتل کریں اس کو مثلہ (مسخ) نہ کریں کہ ناک کان وغیرہ کاٹ لیں، اس لئے بعد کی آیت میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو شیطان اور اس کے وساوس سے پناہ مانگنے کی دعا کی تلقین کی گئی کہ عین میدان قتال میں بھی آپ کی طرف سے عدل و انصاف اور مکارم اخلاق کے خلاف کوئی کام شیطان کے غصہ دلانے سے صادر نہ ہو، شیطان کے شر اور اس کے وسوسوں سے بچنا انسان کے بس کی بات نہیں جب تک خدا کی مدد شامل حال نہ ہو اس لئے اس کا علاج صرف استعاذہ ہے یعنی اللہ تعالیٰ کی پناہ میں آجانا تاکہ وہ قادر مطلق شیطان کی چھیڑ خانی اور شر سے محفوظ رکھے، حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں کہ شیطان کی چھیڑ یہ ہے کہ دین کے سوال و جواب میں بےموقع غصہ چڑھے اور لڑائی ہو پڑے، اسی پر فرمایا برے کا جواب دے اس سے بہتر اور کسی حال میں بھی شیطان کو میرے پاس نہ آنے دیجئے کہ مجھ پر وہ اپنا وار کرسکے۔
مجرب عمل : حضرت خالد بن ولید (رض) کو رات کو نیند نہ آتی تھی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کو یہ کلمات دعا تلقین فرمائے کہ یہ پڑھ لیا کریں چناچہ حضرت خالد (رض) نے پڑھنا شروع کیا تو یہ شکایت جاتی رہی وہ دعا یہ ہے اَعُوْذُ بِکَلِمَاتِ التَّامَّۃِ مِنْ غَضَبِ اللہِ وَعِقَابِہٖ وَمِنْ شرِّ عِبَادِہٖ وَمِنْ ھَمَزَاتِ الشَّیْطٰنِ وَاَنْ یَحْضُرُوْنَ (معارف)
رَبِّ ارْجَعُوْنِ یعنی موت کے وقت کافر پر جب آخرت کا عذاب سامنے آنے لگتا ہے تو وہ تمنا کرتا ہے کہ کاش میں پھر دنیا میں لوٹ جاؤں اور نیک عمل کرکے اس عذاب سے نجات حاصل کروں۔
ابن جریر نے بروایت ابن جریج نقل کیا ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ موت کے وقت مومن جب رحمت کے فرشتے اور رحمت کا سامان سامنے دیکھتا ہے تو فرشتے اس سے دریافت کرتے ہیں کہ کیا تم چاہتے ہو کہ پھر تمہیں دنیا میں واپس کردیا جائے تو وہ کہتا ہے کہ میں اس غموں اور تکلیفوں کے عالم میں جا کر کیا کروں گا مجھے تو آپ اللہ کے پاس لے جائے اور جب کافر سے پوچھتے ہیں تو وہ کہتا ہے ” ربِّ ارْجِعُوْنِ “ یعنی مجھے دنیا میں لوٹا دو ۔
کلا انھا۔۔۔ قائلھا (الآیہ) برزخ کے لفظی معنی حاجز اور فاصل کے ہیں اس لئے موت کے بعد قیامت اور حشر تک کے زمانہ کو برزخ کہا جاتا ہے کہ یہ دنیوی حیات اور اخروی حیات کے درمیان حد فاصل ہے، آیت کا مطلب یہ ہے کہ جب مرنے والا کافر فرشتوں سے دوبارہ دنیا میں بھیجنے کیلئے کہتا ہے تو وہ اپنی زبان سے بار بار ” رب ارجعون “ کا کلمہ دہراتا ہے مگر اس کلمہ کا کوئی فائدہ اب اس لئے نہیں کہ اب وہ برزخ میں پہنچ چکا ہے جس کا قانون یہ ہے کہ برزخ سے لوٹ کر کوئی دنیا میں نہیں آتا اور بعث و نشر سے پہلے دوسری زندگی نہیں ملتی۔ (واللہ اعلم)
فاذا۔۔۔ الصور قیامت کے روز صور دو مرتبہ پھونکا جائے گا نفخہ اولیٰ اس کا اثر یہ ہوگا کا سارا عالم زمین و آسمان اور جو کچھ ان میں ہے فنا ہوجائے گا، اور نفخہ ثانیہ سے تمام مردے زندہ ہوجائیں گے، قرآن کریم کی آیت ” ثمَّ نُفِخَ فِیہ اخریٰ فاِذَا ھُمْ قیام منظرون “ میں اس کی تصریح موجود ہے۔
محشر میں مومنین اور کفار کے حالات میں فرق : فلا انساب بینھم یعنی میدان حشر میں نسبی رشتے اور قرابتیں کام نہ آئیں گی اسی مضمون کو قرآن کریم کی ان آیات میں بیان فرمایا گیا ہے ” یومَ یَفِرُّ المرأ مِن اخیہ وأمہٖ وابیہ وصاحبتہٖ وبینہٖ “ مگر یہ حال کافروں کا ذکر کیا گیا ہے، مومنین کا یہ حال نہ ہوگا کیونکہ مومنین کا حال خود قرآن کریم نے یہ ذکر کیا ہے ” اَلْحقنا بھم ذریتھم “ یعنی مومنین و صالحین کی اولاد کو بھی اللہ تعالیٰ (بشرط ایمان) اپنے آباء صالحین کے ساتھ لگا دیں گے، بعض احادیث میں ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ قیامت کے دن سارے رشتے ناتے اور دامادی کے تعلقات ختم ہوجائیں گے (یعنی کام نہ آئیں گے) اِلا نسبی وصھری بجز میرے نسب اور صہر کے معلوم ہوا کہ آپ کے تعلقات عموم سے مستثنیٰ ہیں، اسی حدیث کو سن کر حضرت عمر (رض) نے ام کلثوم بنت علی سے نکاح کیا اور چالیس ہزار درہم مہر ادا کیا، ایک حدیث میں ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا قیامت کے روز جس وقت سب لوگ پیاس کی وجہ سے بیقرار ہوں گے تو مسلمان بچے جو نابالغی کی حالت میں مرگئے تھے وہ جنت کا پانی لئے ہوئے نکلیں گے لوگ ان سے پانی مانگیں گے تو وہ کہیں گے کہ ہم تو اپنے ماں باپ کو تلاش کر رہے ہیں یہ پانی ان کے لئے ہے (رواہ ابن ابی الدنیا عن عبداللہ بن عمر و عن ابی ذر (رض) ، مظہری) ۔ بقیہ آیات کی تفسیر تحقیق و ترکیب کے زیر عنوان گذر چکی ہے۔
10 Tafsir as-Saadi
چونکہ اللہ تعالیٰ نے حق کی تکذیب کرنے والوں پر اپنے عظیم دلائل و براہین قائم کردیے مگر انہوں نے ان دلائل کی طرف التفات کیا نہ ان کے سامنے سر تسلیم خم کیا اس لیے ان پر عذاب واجب ہوگیا اور ان پر عذاب نازل ہونے کی دھمکی دے دی گئی اور اللہ تعالیٰ نے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے فرمایا کہ وہ یوں کہیں : ﴿ قُل رَّبِّ إِمَّا تُرِيَنِّي مَا يُوعَدُونَ ﴾ یعنی اے رب ! تو جس وقت بھی ان پر ٹوٹنے والا عذاب مجھے دکھائے اور میری موجودگی میں تو یہ عذاب لائے۔
11 Mufti Taqi Usmani
. ( aey payghumber ! ) dua kero kay : meray perwerdigar ! jiss azab ki dhamki inn ( kafiron ) ko di jarahi hai , agar aap ussay meri aankhon kay samney ley ayen ,
12 Tafsir Ibn Kathir
برائی کے بدلے اچھائی
سختیوں کے اترنے کے وقت کی دعا تعلیم ہو رہی ہے کہ اگر تو ان بدکاروں پر عذاب لائے اور میں ان میں موجود ہوں۔ تو مجھے ان عذابوں سے بچا لینا۔ مسند احمد اور ترمذی شریف کی حدیث میں ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دعاؤں میں یہ جملہ بھی ہوتا تھا کہ اے اللہ جب تو کسی قوم کے ساتھ فتنے کا ارادہ کرے، تو مجھے فتنہ میں ڈالنے سے پہلے اٹھالے۔ اللہ تعالیٰ اس کی تعلیم دینے کے بعد فرماتا ہے کہ ہم ان عذابوں کو تجھے دکھا دینے پر قادر ہیں۔ جو ان کفار پر ہماری جانب سے اترنے والے ہیں۔ پھر وہ بات سکھائی جاتی ہے جو تمام مشکلوں کی دوا، اور رفع کرنے والی ہے اور وہ یہ کہ برائی کرنے والے سے بھلائی کی جائے۔ تاکہ اس کی عداوت محبت سے اور نفرت الفت سے بدل جائے۔ جیسے ایک اور آیت میں بھی ہے کہ بھلائی سے دفع کر تو جانی دشمن، دلی دوست بن جائے گا۔ لیکن یہ کام انہیں سے ہوسکتا ہے جو صبر کرنے والے ہوں۔ یعنی اس کے حکم کی تعمیل اور اس کی صفت کی تحصیل صرف ان لوگوں سے ہوسکتی ہے جو لوگوں کی تکلیف کو برداشت کرلینے کے عادی ہوجائیں۔ اور گو وہ برائی کریں لیکن یہ بھلائی کرتے جائیں۔ یہ وصف انہی لوگوں کا ہے جو بڑے نصیب دار ہوں۔ دنیا اور آخرت کی بھلائی جن کی قسمت میں ہو۔
شیطان سے بچنے کی دعائیں
انسان کی برائی سے بچنے کی بہترین ترکیب بتا کر پھر شیطان کی برائی سے بچنے کی ترکیب بتائی جاتی ہے کہ اللہ سے دعا کرو کہ وہ تمہیں شیطان سے بچا لے۔ اس لئے کہ اس کے فن فریب سے بچنے کا ہتھیار تمہارے پاس سوائے اس کے اور نہیں۔ وہ سلوک واحسان سے بس میں نہیں آنے کے استعاذہ کے بیان میں ہم لکھ آئے ہیں کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) دعا (اعوذ باللہ السمیع العلیم من الشیطان الرجیم) من ہمزہ ونفخہ ونفشہ پڑھا کرتے تھے۔ اور ذکر شیطان کی شمولیت کو روک دیتا ہے۔ کھانا پینا جماع ذبح وغیرہ کل کاموں کے شروع کرنے سے پہلے اللہ کا ذکر کرنا چاہے۔ ابو داؤد میں ہے کہحضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ایک دعا یہ بھی تھی۔ (اللہم انی اعوذبک من الھرم واعوذ من الھدم ومن الغرق واعوذبک ان یتخبطنی الشیطان عندالموت) ۔ اے اللہ میں تجھ سے بڑے بڑھاپے سے اور دب کر مرجانے سے اور ڈوب کر مرجانے سے پناہ مانگتا ہوں اور اس سے بھی کہ موت کے وقت شیطان مجھ کو بہکاوے۔ مسند احمد میں ہے کہ ہمیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ایک دعا سکھاتے تھے کہ نیند اچاٹ ہوجانے کے مرض کو دور کرنے کے لئے ہم سوتے وقت پڑھا کریں۔ دعا (بسم اللہ اعوذ بکلمات اللہ التامتہ من غضبہ و عقابہ ومن شر عبادہ ومن ہمزات الشیاطین وان یحضرون) ۔ حضرت عبداللہ بن عمر (رض) کا دستور تھا کہ اپنی اولاد میں سے جو ہوشیار ہوتے انہیں یہ دعا سکھا دیا کرتے اور جو چھوٹے ناسمجھ ہوتے یاد نہ کرسکتے ان کے گلے میں اس دعا کو لکھ کر لٹکا دیتے۔ ابو داؤد ترمذی اور نسائی میں بھی یہ حدیث ہے امام ترمذی (رح) اسے حسن غریب بتاتے ہیں۔