اللہ نے ایسے لوگوں سے وعدہ فرمایا ہے (جس کا ایفا اور تعمیل امت پر لازم ہے) جو تم میں سے ایمان لائے اور نیک عمل کرتے رہے وہ ضرور انہی کو زمین میں خلافت (یعنی امانتِ اقتدار کا حق) عطا فرمائے گا جیسا کہ اس نے ان لوگوں کو (حقِ) حکومت بخشا تھا جو ان سے پہلے تھے اور ان کے لئے ان کے دین کو جسے اس نے ان کے لئے پسند فرمایا ہے (غلبہ و اقتدار کے ذریعہ) مضبوط و مستحکم فرما دے گا اور وہ ضرور (اس تمکّن کے باعث) ان کے پچھلے خوف کو (جو ان کی سیاسی، معاشی اور سماجی کمزوری کی وجہ سے تھا) ان کے لئے امن و حفاظت کی حالت سے بدل دے گا، وہ (بے خوف ہو کر) میری عبادت کریں گے میرے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہرائیں گے (یعنی صرف میرے حکم اور نظام کے تابع رہیں گے)، اور جس نے اس کے بعد ناشکری (یعنی میرے احکام سے انحراف و انکار) کو اختیار کیا تو وہی لوگ فاسق (و نافرمان) ہوں گے،
English Sahih:
Allah has promised those who have believed among you and done righteous deeds that He will surely grant them succession [to authority] upon the earth just as He granted it to those before them and that He will surely establish for them [therein] their religion which He has preferred for them and that He will surely substitute for them, after their fear, security, [for] they worship Me, not associating anything with Me. But whoever disbelieves after that – then those are the defiantly disobedient.
1 Abul A'ala Maududi
اللہ نے وعدہ فرمایا ہے تم میں سے اُن لوگوں کے ساتھ جو ایمان لائیں اور نیک عمل کریں کہ وہ ان کو اُسی طرح زمین میں خلیفہ بنائے گا جس طرح اُن سے پہلے گزرے ہوئے لوگوں کو بنا چکا ہے، اُن کے لیے اُن کے اُس دین کو مضبوط بنیادوں پر قائم کر دے گا جسے اللہ تعالیٰ نے اُن کے حق میں پسند کیا ہے، اور اُن کی (موجودہ) حالت خوف کو امن سے بدل دے گا، بس وہ میری بندگی کریں اور میرے ساتھ کسی کو شریک نہ کریں اور جو اس کے بعد کفر کرے تو ایسے ہی لوگ فاسق ہیں
2 Ahmed Raza Khan
اللہ نے وعدہ دیا ان کو جو تم میں سے ایمان لائے اور اچھے کام کیے کہ ضرور انہیں زمین میں خلافت دے گا جیسی ان سے پہلوں کو دی اور ضرور ان کے لیے جمادے گا ان کا وہ دین جو ان کے لیے پسند فرمایا ہے اور ضرور ان کے اگلے خوف کو امن سے بدل دے گا میری عبادت کریں میرا شریک کسی کو نہ ٹھہرائیں، اور جو اس کے بعد ناشکری کرے تو وہی لوگ بے حکم ہیں،
3 Ahmed Ali
الله نے ان لوگوں سے وعدہ کیا ہے جو تم میں سے ایمان لائے اور نیک عمل کیے کہ انہیں ضرور ملک کی حکومت عطا کرے گا جیسا کہ ان سے پہلوں کو عطا کی تھی اور ان کے لیے جس دین کو پسند کیا ہے اسے ضرور مستحکم کر دے گا اور البتہ ان کے خوف کو امن سے بدل دے گا بشرطیکہ میری عبادت کرتے رہیں اور میرے ساتھ کسی کو شریک نہ کریں اور جواس کے بعد ناشکری کرے وہی فاسق ہوں گے
4 Ahsanul Bayan
تم میں سے ان لوگوں سے جو ایمان لائے ہیں اور نیک اعمال کئے ہیں اللہ تعالٰی وعدہ فرما چکا ہے کہ انہیں ضرور زمین میں خلیفہ بنائے گا جیسے کہ ان لوگوں کو خلیفہ بنایا تھا جو ان سے پہلے تھے اور یقیناً ان کے لئے ان کے اس دین کو مضبوطی کے ساتھ محکم کرکے جما دے گا جسے ان کو وہ امن امان سے بدل دے گا (١) وہ میری عبادت کریں گے میرے ساتھ کسی کو بھی شریک نہ ٹھہرائیں گے (٢) اس کے بعد بھی جو لوگ ناشکری اور کفر کریں وہ یقیناً فاسق ہیں (٣)۔
٥٥۔١ بعض نے اس وعدہ الٰہی کو صحابہ کرام کے ساتھ یا خلفائے راشدین کے ساتھ خاص قرار دیا ہے لیکن اس کی تخصیص کی کوئی دلیل نہیں۔ قرآن کے الفاظ عام ہیں اور ایمان اور عمل صالح کے ساتھ مشروط ہیں۔ البتہ یہ بات ضرور ہے کہ عہد خلافت راشدہ اور عہد خیر القرون میں، اس وعدہ الٰہی کا ظہور ہوا، اللہ تعالٰی نے مسلمانوں کو زمین میں غلبہ عطا فرمایا۔ اپنے پسندیدہ دین اسلام کو عروج دیا اور مسلمانوں کے خوف کو امن سے بدل دیا، پہلے مسلمان کفار عرب سے ڈرتے تھے، پھر اس کے برعکس معاملہ ہوگیا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی جو پیش گوئیاں فرمائی تھیں وہ بھی اس عہد میں پوری ہوئیں۔ مثلا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا حیرہ سے ایک عورت تن تنہا اکیلی چلے گی اور بیت اللہ کا آ کر طواف کرے گی، اسے کوئی خوف خطرہ نہیں ہوگا۔ کسریٰ کے خزانے تمہارے قدموں میں ڈھیر ہو جائیں گے۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا (صحیح بخاری) نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی فرمایا تھا ((ان اللہ زوی لی الارض ، فرایت مشارقھا ومغاربھا ، وان امتی سیبلغ ملکھا ما زوی لی منھا )) (صحیح مسلم )"اللہ تعالٰی نے زمین کو میرے لیے سکیڑ دیا "پس میں نے اس کے مشرقی اور مغربی حصے دیکھے ، عنقریب میری امت کا دائرہ اقتدار وہاں تک پہنچے گا، جہاں تک میرے لیے زمین سکیڑ دی گئی "حکمرانی کی یہ وسعت بھی مسلمانوں کے حصے میں آئی ، اور فارس وشام اور مصر افریقہ اور دیگر دور دراز کے ممالک فتح ہوئے اور کفر وشرک کی جگہ توحید وسنت کی مشعلیں ہر جگہ روشن ہوگئیں اور اسلامی تہذیب وتمدن کا پھریرا چار دانگ عالم میں لہرا گیا۔ لیکن یہ وعدہ چونکہ مشروط تھا، جب مسلمان ایمان میں کمزور اور عمل صالح میں کوتاہی کے مرتکب ہوئے اور اللہ نے ان کی عزت کو ذلت میں ، ان کے اقتدار اور غلبے کو غلامی میں اور ان کے امن واستحکام کو خوف اور دہشت میں بدل دیا۔ ٥٥۔٢ یہ بھی ایمان اور عمل صالح کے ساتھ ایک اور بنیادی شرط ہے جس کی وجہ سے مسلمان اللہ کی مدد کے مستحق اور اس وصف توحید سے عاری ہونے کے بعد وہ اللہ کی مدد سے محروم ہو جائیں گے۔ ٥٥۔٣ اس کفر سے مراد، وہی ایمان، عمل صالح اور توحید سے محرومی ہے، جس کے بعد ایک انسان اللہ کی اطاعت سے نکل جاتا اور کفر فسق کے دائرے میں داخل ہو جاتا ہے۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
جو لوگ تم میں سے ایمان لائے اور نیک کام کرتے رہے ان سے خدا کا وعدہ ہے کہ ان کو ملک کا حاکم بنادے گا جیسا ان سے پہلے لوگوں کو حاکم بنایا تھا اور ان کے دین کو جسے اس نے ان کے لئے پسند کیا ہے مستحکم وپائیدار کرے گا اور خوف کے بعد ان کو امن بخشے گا۔ وہ میری عبادت کریں گے اور میرے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ بنائیں گے۔ اور جو اس کے بعد کفر کرے تو ایسے لوگ بدکردار ہیں
6 Muhammad Junagarhi
تم میں سے ان لوگوں سے جو ایمان ﻻئے ہیں اور نیک اعمال کئے ہیں اللہ تعالیٰ وعده فرما چکا ہے کہ انہیں ضرور زمین میں خلیفہ بنائے گا جیسے کہ ان لوگوں کو خلیفہ بنایا تھا جو ان سے پہلے تھے اور یقیناً ان کے لئے ان کے اس دین کو مضبوطی کے ساتھ محکم کرکے جما دے گا جسے ان کے لئے وه پسند فرما چکا ہے اور ان کے اس خوف وخطر کو وه امن وامان سے بدل دے گا، وه میری عبادت کریں گے میرے ساتھ کسی کو بھی شریک نہ ٹھہرائیں گے۔ اس کے بعد بھی جو لوگ ناشکری اور کفر کریں وه یقیناً فاسق ہیں
7 Muhammad Hussain Najafi
جو لوگ تم میں سے ایمان لائے اور نیک عمل کئے اللہ نے ان سے وعدہ کیا ہے کہ وہ انہیں زمین میں اسی طرح جانشین بنائے گا جس طرح ان سے پہلے گزرے ہوئے لوگوں کو بنایا تھا۔ اور جس دین کو اللہ نے پسند کیا ہے وہ انہیں ضرور اس پر قدرت دے گا۔ اور ان کے خوف کو امن سے بدل دے گا۔ پس وہ میری عبادت کریں اور کسی کو میرا شریک نہ بنائیں۔ اور جو اس کے بعد کفر اختیار کرے وہی لوگ فاسق ہیں۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
اللرُ نے تم میں سے صاحبان هایمان و عمل صالح سے وعدہ کیا ہے کہ انہیں روئے زمین میں اسی طرح اپنا خلیفہ بنائے گا جس طرح پہلے والوں کو بنایا ہے اور ان کے لئے اس دین کو غالب بنائے گا جسے ان کے لئے پسندیدہ قرار دیا ہے اور ان کے خوف کو امن سے تبدیل کردے گا کہ وہ سب صرف میری عبادت کریں گے اور کسی طرح کا شرک نہ کریں گے اور اس کے بعد بھی کوئی کافر ہوجائے تو درحقیقت وہی لوگ فاسق اور بدکردار ہیں
9 Tafsir Jalalayn
جو لوگ تم میں سے ایمان لائے اور نیک کام کرتے رہے ان سے خدا کا وعدہ ہے کہ ان کو ملک کا حاکم بنا دے گا جیسا ان سے پہلے لوگوں کو حاکم بنایا تھا اور ان کے دین کو جسے اس نے ان کے لئے پسند کیا ہے مستحکم و پائدار کرے گا اور خوف کے بعد ان کو امن بخشے گا وہ میری عبادت کریں گے (اور) میرے ساتھ کسی اور کو شریک نہ بنائیں گے اور جو اس کے بعد کفر کرے تو ایسے لوگ بد کردار ہیں
10 Tafsir as-Saadi
یہ اللہ تعالیٰ کے ان سچے وعدوں میں سے ہے جن کی تاویل و تعبیر کا مشاہدہ کروایا گیا ہے۔ امت محمدیہ میں سے جو لوگ ایمان پر قائم رہتے ہیں اور نیک عمل کرتے ہیں اللہ تعالیٰ نے ان کے ساتھ وعدہ فرمایا ہے کہ وہ ان کو زمین کی خلافت عطا کرے گا۔ وہ زمین میں خلفاء ہوں گے اور زمین کی تمام تدبیر ان کے دست تصرف میں ہوگی۔ وہ اس دین کو جسے اس نے ان کے لیے پسند کیا ہے، یعنی دین اسلام کو جو تمام ادیان پر فائق ہے، مضبوط بنیادوں پر قائم کر دے گا۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے اس امت کے لئے اس کے فضل و شرف اور اس پر اپنی نعمت کی بنا پر دین اسلام کو پسند فرمایا، یعنی وہ اس دین کو قائم کرنے، اس کے ظاہری و باطنی قوانین کو خود اپنی ذات پر اور دوسروں پر یعنی دیگر ادیان کے پیرو کاروں اور تمام کفار پر نافذ کریں گے جو مفتوح اور مغلوب ہوں گے۔ اللہ تعالیٰ ان کے خوف کو امن میں بدل دے گا۔ ان میں سے جب اور جہاں کہیں ایک مسلمان ہوتا تو وہ اپنے دین کے اظہار کی قدرت نہیں رکھتا تھا اگر اظہار کرتا تو کفار کی طرف سے بے شمار اذیتوں کا سامنا کرنا پڑتا۔ مسلمان من حیث الجماعت دوسروں کی نسبت بہت کم تھے روئے زمین کے تمام لوگ مسلمانوں کو اذیت دینے میں متحد تھے اور ان پر ظلم کے پہاڑ توڑ رہے تھے۔ اس آیت کریمہ کے نزول کے وقت اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کے ساتھ ان امور کا وعدہ فرمایا جن کا اس سے قبل مشاہدہ نہیں کیا گیا تھا اور وہ ہیں خلافت ارضی، زمین میں اقتدار، امامت دین پر قدرت، کامل امن، نیز یہ کہ وہ اللہ تعالیٰ کی عبادت کریں گے، اس کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہرائیں گے اور اللہ تعالیٰ کے سوا انہیں کسی کا خوف نہ ہوگا۔ اس امت کے اولین لوگوں نے ایمان کو قائم کیا اور دوسروں سے بڑھ کر نیک کام کئے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کو ملکوں اور قوموں پر حکمرانی عطا کی، مشرق و مغرب کو ان کے زیرنگیں کردیا، ان کو کامل امن اور کامل قدرت عطا کی۔ یہ اللہ تعالیٰ کی بڑی حیران کن اور تعجب انگیز نشانی ہے۔ قیامت کے برپا ہونے تک یہ معاملہ اسی نہج پر جاری و ساری رہے گا جب تک مسلمان ایمان کو قائم رکھیں گے اور اس کے تقاضوں کے مطابق نیک کام کرتے رہیں گے اس وقت تک انہیں اللہ تعالیٰ کے وعدے کے مطابق یہ چیزیں حاصل ہوتی رہیں گی۔۔۔ البتہ مسلمانوں کے ایمان اور عمل سالح میں خلل واقع ہوجانے کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کبھی کبھی کفار کو اقتدار عطا کر کے انہیں مسلمانوں پر مسلط کردیتا ہے۔ ﴿ وَمَن كَفَرَ بَعْدَ ذٰلِكَ ﴾ اے مسلمانو ! اس کامل اقتدار اور تسلط کے بعد بھی اگر کوئی کفران نعمت کا ارتکاب کرتا ہے۔ ﴿ فَأُولَـٰئِكَ هُمُ الْفَاسِقُونَ ﴾ ’’تو یہی لوگ نافرمان ہیں‘‘جو اللہ تعالیٰ کی اطاعت کے دائرے سے باہر نکلے ہوئے اور بگڑے ہوئے ہیں انہوں نے اصلاح کا کوئی کام سر انجام دیا نہ ان میں بھلائی کی کوئی اہلیت ہے کیونکہ جو کوئی اپنے اقتدار، غلبہ اور موانع ایمان کے عدم وجود کے وقت ایمان کو ترق کردیتا ہے تو یہ چیز اس کے فساد نیت اور خبث باطن پر دلالت کرتی ہے کیونکہ اس کے لیے خبث باطن کے سوا ترک دین کا کوئی داعیہ موجود نہیں۔ یہ آیت کریمہ دلالت کرتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہم سے پہلے بھی اہل ایمان کو خلافت ارضی عطا کی ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے موسیٰ علیہ اسلام سے فرمایا: ﴿ وَيَسْتَخْلِفَكُمْ فِي الْأَرْضِ فَيَنظُرَ كَيْفَ تَعْمَلُونَ ﴾ (الاعراف : 7؍129) ’’اور تم کو زمین کی خلافت عطا کرے گا تاکہ دیکھے تم کیسے عمل کرتے ہو۔‘‘ اور فرمایا : ﴿ وَنُرِيدُ أَن نَّمُنَّ عَلَى الَّذِينَ اسْتُضْعِفُوا فِي الْأَرْضِ وَنَجْعَلَهُمْ أَئِمَّةً وَنَجْعَلَهُمُ الْوَارِثِينَ وَنُمَكِّنَ لَهُمْ فِي الْأَرْضِ وَنُرِيَ فِرْعَوْنَ وَهَامَانَ وَجُنُودَهُمَا مِنْهُم مَّا كَانُوا يَحْذَرُونَ ﴾ (القصص : 28؍6،5)’’ہم چاہتے تھے کہ ان لوگوں پر احسان کریں جن کو زمین میں کمزور اور ذلیل بنا کر رکھا گیا ہے اور انہیں سردار بنائیں اور انہی کو (بادشاہت کا) وارث ٹھہرائیں، نیز ہم زمین میں ان کو اقتدر عطا کریں۔‘‘
11 Mufti Taqi Usmani
tum mein say jo log emaan ley aaye hain , aur jinhon ney naik amal kiye hain , unn say Allah ney wada kiya hai kay woh unhen zaroor zameen mein apna khalifa banaye ga , jiss tarah unn say pehlay logon ko banaya tha , aur unn kay liye uss deen ko zaroor iqtidar bakhshay ga jissay unn kay liye pasand kiya hai , aur unn ko jo khof laahaq raha hai , uss kay badlay unhen zaroor aman ata keray ga . ( bus ) woh meri ibadat keren , meray sath kissi cheez ko shareek naa thehrayen . aur jo log iss kay baad bhi nashukri keren gay to aesay log nafarman hon gay .
12 Tafsir Ibn Kathir
عروج اسلام لازم ہے اللہ تبارک وتعالیٰ اپنے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے وعدہ فرما رہا ہے کہ آپ کی امت کو زمین کا مالک بنا دے گا، لوگوں کا سردار بنا دے گا، ملک ان کی وجہ سے آباد ہوگا، بندگان رب ان سے دل شاد ہوں گے۔ آج یہ لوگوں سے لرزاں وترساں ہیں کل یہ باامن واطمینان ہوں گے، حکومت ان کی ہوگی، سلطنت ان کے ہاتھوں میں ہوگی۔ الحمد للہ یہی ہوا بھی۔ مکہ، خیبر، بحرین، جزیرہ عرب اور یمن تو خود حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی موجودگی میں فتح ہوگیا۔ حجر کے مجوسیوں نے جزیہ دے کر ماتحتی قبول کرلی، شام کے بعض حصوں کا بھی یہی حال ہوا۔ شاہ روم ہرقل نے تحفے تحائف روانہ کئے۔ مصر کے والی نے بھی خدمت اقدس میں تحفے بھیجے، اسکندریہ کے بادشاہ مقوقس نے، عمان کے شاہوں نے بھی یہی کیا اور اس طرح اپنی اطاعت گزاری کا ثبوت دیا۔ حبشہ کے بادشاہ اصحمہ (رح) تو مسلمان ہی ہوگئے اور ان کے بعد جو والی حبشہ ہوا۔ اس نے بھی سرکار محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں عقیدت مندی کے ساتھ تحائف روانہ کئے۔ پھر جب کہ اللہ تعالیٰ رب العزت نے اپنے محترم رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اپنی مہمانداری میں بلوالیا، آپ کی خلافت صدیق اکبر (رض) نے سنبھالی، جزیرہ عرب کی حکومت کو مضبوط اور مستقل بنایا اور ساتھ ہی ایک جرار لشکر سیف اللہ خالد بن ولید (رض) کی سپہ سالاری میں بلاد فارس کی طرف بھیجا جس نے وہاں فتوحات کا سلسلہ شروع کیا، کفر کے درختوں کو چھانٹ دیا اور اسلامی پودے ہر طرف لگادئیے۔ حضرت ابو عبیدہ بن جراح (رض) وغیرہ امراء کے ماتحت شام کے ملکوں کی طرف لشکر اسلام کے جاں بازوں کو روانہ فرمایا۔ انہوں نے بھی یہاں محمدی جھنڈا بلند کیا اور صلیبی نشان اوندھے منہ گرائے، پھر مصر کی طرف مجاہدین کا لشکر حضرت عمرو بن عاص (رض) کی سرداری میں روانہ فرمایا۔ بصری، دمشق، حران وغیرہ کی فتوحات کے بعد آپ بھی راہی ملک بقا ہوئے اور بہ الہام الہٰی حضرت عمر (رض) جیسے فاروق کے زبردست زورآور ہاتھوں میں سلطنت اسلام کی باگیں دے گئے۔ سچ تو یہ ہے کہ آسمان تلے کسی نبی کے بعد ایسے پاک خلیفوں کا دور نہیں ہوا۔ آپ کی قوت، طبیعت، آپ کی نیکی، سیرت، آپ کے عدل کا کمال، آپ کی ترسی کی مثال دنیا میں آپ کے بعد تلاش کرنا محض بےسود اور بالکل لا حاصل ہے۔ تمام ملک شام، پورا علاقہ مصر، اکثر حصہ فارس آپ کی خلافت کے زمانے میں فتح ہوا۔ سلطنت کسری کے ٹکڑے اڑگئے، خود کسری کو منہ چھپانے کے لئے کوئی جگہ نہ ملی۔ کامل ذلت واہانت کے ساتھ بھاگتا پھرا۔ قیصر کو فنا کردیا۔ مٹا دیا۔ شام کی سلطنت سے دست بردار ہونا پڑا۔ قسطنطنیہ میں جاکر منہ چھپایا ان سلطنتوں کی صدیوں کی دولت اور جمع کئے ہوئے بیشمار خزانے ان بندگان رب نے اللہ کے نیک نفس اور مسکین خصلت بندوں پر خرچ کئے اور اللہ کے وعدے پورے ہوئے جو اس نے حبیب اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زبان سے کہلوائے تھے۔ صلوات اللہ وسلامہ علیہ۔ پھر حضرت عثمان بن عفان (رض) کی خلافت کا دور آتا ہے اور مشرق ومغرب کی انتہا تک اللہ کا دین پھیل جاتا ہے۔ اللہ کا لشکر ایک طرف اقصی مشرق تک اور دوسری طرف انتہاء مغرب تک پہنچ کر دم لیتے ہیں۔ اور مجاہدین کی آب دار تلواریں اللہ کی توحید کو دنیا کے گوشے گوشے اور چپے چپے میں پہنچا دیتی ہیں۔ اندلس، قبرص، قیروان وسبتہ یہاں تک کہ چین تک آپ کے زمانے میں فتح ہوئے۔ کسری قتل کردیا گیا اس کا ملک تو ایک طرف نام و نشان تک کھود کر پھینک دیا گیا اور ہزارہا برس کے آتش کدے بجھا دئیے گئے اور ہر اونچے ٹیلے سے صدائے اللہ اکبر آنے لگی۔ دوسری جانب مدائن، عراق، خراسان، اھواز سب فتح ہوگئے ترکوں سے جنگ عظیم ہوئی آخر ان کا بڑا بادشاہ خاقان خاک میں ملا ذلیل وخوار ہوا اور زمین کے مشرقی اور مغربی کونوں نے اپنے خراج بارگاہ خلافت عثمانی میں پہنچوائے۔ حق تو یہ ہے کہ مجاہدین کی ان جانبازیوں میں جان ڈالنے والی چیز حضرت عثمان (رض) کی تلاوت قرآن کی برکت تھی۔ آپ کو قرآن سے کچھ ایساشغف تھا جو بیان سے باہر ہے۔ قرآن کے جمع کرنے، اس کے حفظ کرنے، اس کی اشاعت کرنے، اس کے سنبھالنے میں جو نمایاں خدمتیں خلیفہ ثالث نے انجام دیں وہ یقینا عدیم المثال ہیں۔ آپ کے زمانے کو دیکھو اور اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اس پیش گوئی کو دیکھو کہ آپ نے فرمایا تھا کہ میرے لئے زمین سمیٹ دی گئی یہاں تک کہ میں نے مشرق ومغرب دیکھ لی عنقریب میری امت کی سلطنت وہاں تک پہنچ جائے گی جہاں تک اس وقت مجھے دکھائی گئی ہے۔ (مسلمانو ! رب کے اس وعدے کو پیغمبر کی اس پیش گوئی کو دیکھو پھر تاریخ کے اوراق پلٹو اور اپنی گزشتہ عظمت وشان کو دیکھو آؤ نظریں ڈالو کہ آج تک اسلام کا پرچم بحمد اللہ بلند ہے اور مسلمان ان مجاہدین کرام کی مفتوح زمینوں میں شاہانہ حیثیت سے چل پھر رہے ہیں اللہ اور اس کے رسول سچے ہیں مسلمانو حیف اور صد حیف اس پر جو قرآن حدیث کے دائرے سے باہر نکلے حسرت اور صد حسرت اس پر جو اپنے آبائی ذخیرے کو غیر کے حوالے کرے۔ اپنے آباؤ اجداد کے خون کے قطروں سے خریدی ہوئی چیز کو اپنی نالائقیوں اور بےدینیوں سے غیر کی بھینٹ چڑھاوے اور سکھ سے بیٹھا، لیٹا رہے۔ اللہ ہمیں اپنا لشکری بنالے آمین آمین) حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرماتے ہیں لوگوں کا کام بھلائی سے جاری رہے گا یہاں تک کہ ان میں بارہ خلفاء ہوں گے پھر آپ نے ایک جملہ آہسۃ بولا جو راوی حدیث حضرت جابر بن سمرہ (رض) سن نہ سکے تو انہوں نے اپنے والد صاحب سے پوچھا کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کیا فرمایا انہوں نے بیان کیا کہ یہ فرمایا ہے یہ سب کے سب قریشی ہوں گے (مسلم) آپ نے یہ بات اس شام کو بیان فرمائی تھی جس دن حضرت ماعز بن مالک (رض) کو رجم کیا گیا تھا۔ پس معلوم ہوا کہ ان بارہ خلیفوں کا ہونا ضروری ہے لیکن یہ یاد رہے کہ یہ وہ خلفاء نہیں جو شیعوں نے سمجھ رکھے ہیں کیونکہ شیعوں کے اماموں میں بہت سے وہ بھی ہیں جنہیں خلافت و سلطنت کا کوئی حصہ بھی پوری عمر میں نہیں ملا تھا اور یہ بارہ خلفاء ہوں گے۔ سب کے سب قریشی ہوں گے، حکم میں عدل کرنے والے ہوں گے، ان کی بشارت اگلی کتابوں میں بھی ہے اور یہ شرط نہیں ہے کہ یہ سب یکے بعد دیگرے ہوں گے بلکہ ان کا ہونا یقینی ہے خواہ پے درپے کچھ ہوں خواہ متفرق زمانوں میں کچھ ہوں۔ چناچہ چاروں خلیفے تو بالترتیب ہوئے اول ابوبکر (رض) پھر حضرت عمر (رض) پھر حضرت عثمان (رض) پھر حضرت علی (رض) ان کے بعد پھر سلسلہ ٹوٹ گیا پھر بھی ایسے خلیفہ ہوئے اور ممکن ہے آگے چل کر بھی ہوں۔ ان کے صحیح زمانوں کا علم اللہ ہی کو ہے ہاں اتنا یقینی ہے کہ امام مہدی (علیہ السلام) بھی انہی بارہ میں سے ہوں گے جن کا نام حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے نام سے جن کی کنیت حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی کنیت سے مطابق ہوگی تمام زمین کو عدل وانصاف سے بھر دیں گے جیسے کہ وہ ظلم وناانصافی سے بھر گئی ہوگئی۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا فرمان ہے میرے بعد خلافت تیس سال رہے گی پھر کاٹ کھانے والا ملک ہوجائے گا۔ ابو العالیہ اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کے اصحاب (رض) بیس سال تک مکہ میں رہے اللہ کی توحید اور اس کی عبادت کی طرف دنیا کو دعوت دیتے رہے لیکن یہ زمانہ پوشیدگی کا، ڈر خوف کا اور بےاطمینانی کا تھا، جہاد کا حکم نہیں آیا تھا۔ مسلمان بیحد کمزور تھے اس کے بعد ہجرت کا حکم ہوا۔ مدینے پہنچے اب جہاد کا حکم ملا جہاد شروع ہوا دشمنوں نے چاروں طرف سے گھیرا ہوا تھا۔ اہل اسلام بہت خائف تھے۔ خطرے سے کوئی وقت خالی نہیں جاتا تھا صبح شام صحابہ ہتھیاروں سے آراستہ رہتے تھے۔ ایک صحابی (رض) نے ایک مرتبہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کہا یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کیا ہم اسی طرح خوف زدہ ہی رہیں گے ؟ یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کیا ہماری زندگی کی کوئی گھڑی بھی اطمینان سے نہیں گزرے گی ؟ یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کیا ہتھیار اتار کر بھی ہمیں کبھی آسودگی کا سانس لینا میسر آئے گا ؟ آپ نے پورے سکون سے فرمایا کچھ دن اور صبر کرلو پھر تو اس قدر امن واطمینان ہوجائے گا کہ پوری مجلس میں، بھرے دربار میں چوکڑی بھر کر آرام سے بیٹھے ہوئے رہو گے۔ ایک کے پاس کیا کسی کے پاس بھی کوئی ہتھیار نہ ہوگا کیونکہ کامل امن وامان پورا اطمینان ہوگا۔ اسی وقت یہ آیت اتری۔ پھر تو اللہ کے نبی جزیرہ عرب پر غالب آگئے عرب میں بھی کوئی کافر نہ رہا مسلمانوں کے دل خوف سے خالی ہوگئے اور ہتھیار ہر وقت لگائے رہنے ضروری نہ رہے۔ پھر یہی امن وراحت کا دور دورہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانے کے بعد بھی تین خلافتوں تک رہا یعنی ابوبکر وعمر و عثمان (رض) کے زمانے تک۔ پھر مسلمان ان جھگڑوں میں پڑگئے جو رونما ہوئے پھر خوف زدہ رہنے لگے اور پہرے دار اور چوکیدار داروغے وغیرہ مقرر کئے اپنی حالتوں کو متغیر کیا تو متغیر ہوگئے۔ بعض سلف سے منقول ہے کہ انہوں نے حضرت ابوبکر وعمر (رض) کی خلافت کی حقانیت کے بارے میں اس آیت کو پیش کیا۔ براء بن عازب کہتے ہیں جس وقت یہ آیت اتری ہے اس وقت ہم انتہائی خوف اور اضطراب کی حالت میں تھے جیسے فرمان ہے۔ آیت ( وَاذْكُرُوْٓا اِذْ اَنْتُمْ قَلِيْلٌ مُّسْتَضْعَفُوْنَ فِي الْاَرْضِ تَخَافُوْنَ اَنْ يَّتَخَطَّفَكُمُ النَّاسُ فَاٰوٰىكُمْ وَاَيَّدَكُمْ بِنَصْرِهٖ وَرَزَقَكُمْ مِّنَ الطَّيِّبٰتِ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُوْنَ 26) 8 ۔ الانفال :26) ، یعنی یہ وہ وقت بھی تھا کہ تم بیحد کمزور اور تھوڑے تھے اور قدم قدم اور دم دم پر خوف زدہ رہتے تھے اللہ تعالیٰ نے تمہاری تعداد بڑھا دی تمہیں قوت وطاقت عنایت فرمائی اور امن وامان دیا۔ پھر فرمایا کہ جیسے ان سے پہلے کے لوگوں کو اس نے زمین کا مالک کردیا تھا جیسے کہ کلیم اللہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنی قوم سے فرمایا تھا آیت (عَسٰي رَبُّكُمْ اَنْ يُّهْلِكَ عَدُوَّكُمْ وَيَسْتَخْلِفَكُمْ فِي الْاَرْضِ فَيَنْظُرَ كَيْفَ تَعْمَلُوْنَ\012\09 ) 7 ۔ الاعراف :129) ، بہت ممکن ہے بلکہ بہت ہی قریب ہے کہ اللہ تعالیٰ تمہارے دشمنوں کو ہلاک کر دے اور تمہیں ان کا جانشین بنا دے۔ اور آیت میں ہے ( وَنُرِيْدُ اَنْ نَّمُنَّ عَلَي الَّذِيْنَ اسْتُضْعِفُوْا فِي الْاَرْضِ وَنَجْعَلَهُمْ اَىِٕمَّةً وَّنَجْعَلَهُمُ الْوٰرِثِيْنَ ۙ ) 28 ۔ القصص :5) یعنی ہم نے ان پر احسان کرنا چاہا جو زمین بھر میں سب سے زیادہ ضعیف اور ناتواں تھے۔ پھر فرمایا کہ ان کے دین کو جو اللہ کا پسندیدہ ہے جما دے گا اور اسے قوت وطاقت دے گا۔ حضرت عدی بن حاتم (رض) جب بطور وفد آپ کے پاس آئے تو آپ نے ان سے فرمایا کیا تو نے حیرہ دیکھا ہے اس نے جواب دیا کہ میں حیرہ کو نہیں جانتا ہاں اس کا نام سنا ہے آپ نے فرمایا اس کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے اللہ تعالیٰ میرے اس دین کو کامل طور پر پھیلائے گا یہاں تک کہ امن وامان قائم ہوجائے گا کہ حیرہ سے ایک سانڈنی سوار عورت تنہانکلے گی اور وہ بیت اللہ تک پہنچ کر طواف سے فارغ ہو کر واپس ہوگی نہ خوف زدہ ہوگی نہ ہی اس کے ساتھ محافظ ہوگا۔ یقین مان کہ کسری بن ھرمز کے خزانے مسلمانوں کی فتوحات میں آئیں گے ؟ آپ نے فرمایا ہاں اسی کسری بن ھرمز کے۔ سنو اس قدر مال بڑھ جائے گا کہ کوئی قبول کرنے والا نہ ملے گا۔ حضرت عدی بن حاتم (رض) فرماتے ہیں اب تم دیکھ لو کہ فی الواقع حیرہ سے عورتیں بغیر کسی کی پناہ کی آتی جاتی ہیں۔ اس پیشن گوئی کو پورا ہوتے ہوئے ہم نے دیکھ لیا دوسری پیشین گوئی تو میری نگاہوں کے سامنے پوری ہوئی کسری کے خزانے فتح کرنے والوں نے بتایا خود میں موجود تھا اور تیسری پیشین گوئی یقینا پوری ہو کر رہ گئی کیونکہ وہ بھی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا فرمان ہے۔ مسند احمد میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا فرمان ہے اس امت کو ترقی اور بڑھوتری کی مدد اور دین کی اشاعت کی بشارت دو ۔ ہاں جو شخص آخرت کا عمل دنیا کے حاصل کرنے کے لیے کرے وہ جان لے کہ آخرت میں اس کا کوئی حصہ نہ ملے گا۔ پھر فرماتا ہے کہ وہ میری ہی عبادت کریں گے اور میرے ساتھ کسی کو شریک نہ کریں گے۔ مسند میں ہے حضرت معاذ بن جبل (رض) فرماتے ہیں کہ ایک گدھے پر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ آپ کے پیچھے بیٹھا ہوا تھا اور آپ کے درمیان صرف پالان کی لکڑی تھی آپ نے میرے نام سے مجھے آواز دی میں نے لبیک وسعدیک کہا پھر تھوڑی سی دیر کے بعد چلنے کے بعد اسی طرح مجھے پکارا اور میں نے بھی اسی طرح جواب دیا۔ آپ نے فرمایا جانتے ہو اللہ کا حق اپنے بندوں پر کیا ہے ؟ میں نے کہا اللہ اور اسکا رسول خوب جانتا ہے آپ نے فرمایا بندوں پر اللہ کا حق یہ ہے کہ وہ اسی کی عبادت کریں اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کریں۔ پھر تھوڑی سی دیر چلنے کے بعد مجھے پکارا اور میں جواب دیا تو آپنے فرمایا جانتے ہو جب بندے اللہ کا حق ادا کریں تو اللہ کے ذمے بندوں کا حق کیا ہے ؟ میں نے جواب دیا اللہ اور اس کے رسول کو ہی پورا علم ہے۔ آپ نے فرمایا یہ کہ انہیں عذاب نہ کرے۔ (بخاری ومسلم) پھر فرمایا اس کے بعد جو منکر ہوجائے وہ یقینا فاسق ہے۔ یعنی اس کے بعد بھی جو میری فرمانبرداری چھوڑ دے اس نے میری حکم عدولی کی اور یہ گناہ سخت اور بہت بڑا ہے۔ شان الہٰی دیکھو جتنا جس زمانے میں اسلام کا زور رہا اتنی ہی مدد اللہ کی ہوئی۔ صحابہ اپنے ایمان میں بڑھے ہوئے تھے فتوحات میں بھی سب سے آگے نکل گئے جوں جوں ایمان کمزور ہوتا گیا دنیوی حالت سلطنت وشوکت بھی گرتی گئی۔ بخاری ومسلم میں ہے میری امت میں سے ایک جماعت ہمیشہ برسرحق رہے گی اور وہ غالب اور نڈر رہے گی ان کی مخالفت ان کا کچھ نہ بگاڑ سکیں گے قیامت تک یہ اسی طرح رہے گی اور روایت میں ہے یہاں تک اللہ کا وعدہ آجائے گا ایک اور روایت میں ہے یہاں تک کہ یہی جماعت سب سے آخر دجال سے جہاد کرے گی اور حدیث میں ہے کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے اترنے تک یہ لوگ کافروں پر غالب رہیں گے یہ سب روایتیں صحیح ہیں اور ایک ہی مطلب سب کا ہے۔