(اے مسلمانو!) تم رسول کے بلانے کو آپس میں ایک دوسرے کو بلانے کی مثل قرار نہ دو (جب رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بلانا تمہارے باہمی بلاوے کی مثل نہیں تو خود رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذاتِ گرامی تمہاری مثل کیسے ہو سکتی ہے)، بیشک اللہ ایسے لوگوں کو (خوب) جانتا ہے جو تم میں سے ایک دوسرے کی آڑ میں (دربارِ رسالت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے) چپکے سے کھسک جاتے ہیں، پس وہ لوگ ڈریں جو رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے امرِ (ادب) کی خلاف ورزی کر رہے ہیں کہ (دنیا میں ہی) انہیں کوئی آفت آپہنچے گی یا (آخرت میں) ان پر دردناک عذاب آن پڑے گا،
English Sahih:
Do not make [your] calling of the Messenger among yourselves as the call of one of you to another. Already Allah knows those of you who slip away, concealed by others. So let those beware who dissent from his [i.e., the Prophet's] order, lest fitnah strike them or a painful punishment.
1 Abul A'ala Maududi
مسلمانو، اپنے درمیان رسولؐ کے بلانے کو آپس میں ایک دوسرے کا سا بلانا نہ سمجھ بیٹھو اللہ اُن لوگوں کو خوب جانتا ہے جو تم میں ایسے ہیں کہ ایک دوسرے کی آڑ لیتے ہوئے چپکے سے سٹک جاتے ہیں رسولؐ کے حکم کی خلاف ورزی کرنے والوں کو ڈرنا چاہیے کہ وہ کسی فتنے میں گرفتار نہ ہو جائیں یا ان پر دردناک عذاب نہ آ جائے
2 Ahmed Raza Khan
رسول کے پکارنے کو آپس میں ایسا نہ ٹھہرالو جیسا تم میں ایک دوسرے کو پکارتا ہے بیشک اللہ جانتا ہے جو تم میں چپکے نکل جاتے ہیں کسی چیز کی آڑ لے کر تو ڈریں وہ جو رسول کے حکم کے خلاف کرتے ہیں کہ انہیں کوئی فتنہ پہنچے یا ان پر دردناک عذاب پڑے
3 Ahmed Ali
رسول کے بلانے کو آپس میں ایک دوسرے کے بلانے جیسا نہ سمجھو الله انہیں جانتا ہے جو تم میں سے چھپ کر کھسک جاتے ہیں سو جو لوگ الله کے حکم کی مخالفت کرتے ہیں انہیں اس سے ڈرنا چاہیئے کہ ان پر کوئی آفت آئے یا ان پر کوئی دردناک عذاب نازل ہوجائے
4 Ahsanul Bayan
تم اللہ تعالٰی کے نبی کے بلانے کو ایسا بلاوا نہ کر لو جیسا کہ آپس میں ایک دوسرے سے ہوتا ہے تم میں سے انہیں اللہ خوب جانتا ہے جو نظر بچا کر چپکے سے سرک جاتے ہیں (١) سنو جو لوگ حکم رسول کی مخالفت کرتے ہیں انہیں ڈرتے رہنا چاہیے کہ کہیں ان پر کوئی زبردست آفت نہ آپڑے یا انہیں دردناک عذاب نہ پہنچے۔
٦٣۔١ یہ منافقین کا رویہ ہوتا تھا کہ اجتماع مشاورت سے چپکے سے کھسک جاتے۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
مومنو پیغمبر کے بلانے کو ایسا خیال نہ کرنا جیسا تم آپس میں ایک دوسرے کو بلاتے ہو۔ بےشک خدا کو یہ لوگ معلوم ہیں جو تم میں سے آنکھ بچا کر چل دیتے ہیں تو جو لوگ ان کے حکم کی مخالفت کرتے ہیں ان کو ڈرنا چاہیئے کہ (ایسا نہ ہو کہ) ان پر کوئی آفت پڑ جائے یا تکلیف دینے والا عذاب نازل ہو
6 Muhammad Junagarhi
تم اللہ تعالیٰ کے نبی کے بلانے کو ایسا بلاوا نہ کرلو جیسا کہ آپس میں ایک دوسرے کو ہوتا ہے۔ تم میں سے انہیں اللہ خوب جانتا ہے جو نظر بچا کر چپکے سے سرک جاتے ہیں۔ سنو جو لوگ حکم رسول کی مخالفت کرتے ہیں انہیں ڈرتے رہنا چاہیئے کہ کہیں ان پر کوئی زبردست آفت نہ آ پڑے یا انہیں درد ناک عذاب نہ پہنچے
7 Muhammad Hussain Najafi
اے ایمان والو! اپنے درمیان رسول کے بلانے کو آپس میں ایک دوسرے کو بلانے کی طرح نہ بناؤ۔ اللہ ان لوگوں کو خوب جانتا ہے جو تم میں سے ایک دوسرے کی آڑ لے کر کھسک جاتے ہیں۔ جو لوگ حکمِ خدا سے انحراف کرتے ہیں ان کو اس بات سے ڈرنا چاہیے کہ وہ کسی فتنہ میں مبتلا نہ ہو جائیں یا انہیں کوئی دردناک عذاب نہ پہنچ جائے۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
مسلمانو ! خبردار رسول کو اس طرح نہ پکارا کرو جس طرح آپس میں ایک دوسرے کو پکارتے ہو اللہ ان لوگوں کو خوب جانتا ہے جو تم میں سے خاموشی سے کھسک جاتے ہیں لہذا جو لوگ حکهِ خدا کی مخالفت کرتے ہیں وہ اس امر سے ڈریں کہ ان تک کوئی فتنہ پہنچ جائے یا کوئی دردناک عذاب نازل ہوجائے
9 Tafsir Jalalayn
مومنو ! پیغمبر کے بلانے کو ایسا خیال نہ کرنا جیسا تم آپس میں ایک دوسرے کو بلاتے ہو بیشک خدا کو وہ لوگ معلوم ہیں جو تم میں سے آنکھ بچا کر چل دیتے ہیں تو جو لوگ ان کے حکم کی مخالفت کرتے ہیں ان کو ڈرنا چاہیے کہ (ایسا نہ ہو کہ) ان پر کوئی آفت پڑجائے یا تکلیف دینے والا عذاب نازل ہو
10 Tafsir as-Saadi
﴿ لَّا تَجْعَلُوا دُعَاءَ الرَّسُولِ بَيْنَكُمْ كَدُعَاءِ بَعْضِكُم بَعْضًا ﴾ ،، نہ کرو تم رسول کے بلا نے کو آپس میں جیسے ایک تمہارے دوسرے کو بلاتا ہے۔‘‘ یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا تمہیں بلانا اور تمہارے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بلانا ایسے نہ ہوجیسے تم ایک دوسرے کو بلاتے ہو۔ پس جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تمہیں بلائیں تو ان کی آواز پر لبیک کہنا تم پر فرض ہے۔ یہاں تک کہ اگر تم نماز کی حالت میں ہو تب بھی تم پر آپ کے بلانے پر جواب دینا فرض ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سوا امت میں کوئی ایسی ہستی نہیں جس کے قول کو قبول کرنا اور اس پر عمل کرنا واجب ہو کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم معصوم ہیں اور ہم پر آپ کی اتباع واجب ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : ﴿ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اسْتَجِيبُوا لِلّٰـهِ وَلِلرَّسُولِ إِذَا دَعَاكُمْ لِمَا يُحْيِيكُمْ ﴾ (الانفال: 8؍24) ’’اے ایمان والے لوگو ! اللہ اور اس کے رسول کی آواز پر لبیک کہو، جب رسول تمہیں اس چیز کی طرف بلائے جو تمہیں زندگی عطا کرتی ہے۔‘‘ اسی طرح تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اس طرح نہ بلاؤ جس طرح تم ایک دوسرے کو بلاتے ہو، یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے مخاطب ہوتے وقت (یا محمد)’’اے محمد !‘‘ (یا محمد بن عبداللہ)’’اے محمد بن عبداللہ !‘‘ نہ کہو جیسا کہ تم ایک دوسرے سے مخاطب ہوتے ہو۔۔۔ بلکہ آپ کو فضل و شرف حاصل ہے اور آپ دوسروں سے ممتاز ہیں اس لئے آپ سے مخاطب ہوتے وقت یہ کہا جائے’’اے اللہ کے رسول ! ‘‘ ’’اے اللہ کے نبی !‘‘ ﴿ قَدْ يَعْلَمُ اللّٰـهُ الَّذِينَ يَتَسَلَّلُونَ مِنكُمْ لِوَاذًا ﴾ ’’اللہ جانتا ہے ان لوگوں کو جو کھسک جاتے ہیں تم میں سے نظر بچا کر‘‘اللہ تبارک و تعالیٰ نے اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لانے والوں کی مدح بیان کی ہے کہ جہ وہ کسی جامع معاملے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ ہوتے ہیں تو آپ سے اجازت لئے بغیر واپس نہیں جاتے۔ بعد ازاں اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کو وعید سنائی جنہوں نے ایسا نہیں کیا اور جازت لئے بغیر چلے گئے۔ اگرچہ ان کا چپکے سے چلے جانا تم پر مخفی ہے۔ اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد سے یہی مراد ہے۔ ﴿ يَتَسَلَّلُونَ مِنكُمْ لِوَاذًا ﴾ یعنی کھسکتے اور آپ کے پاس سے جاتے وقت، لوگوں کی نظر سے چھپنے کے لئے کسی چیز کی آڑ لیتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کو جانتا ہے وہ ان کو ان کے ان کرتوتوں کی پوری پوری جزا دے گا، اس لئے فرمایا : ﴿ فَلْيَحْذَرِ الَّذِينَ يُخَالِفُونَ عَنْ أَمْرِهِ ﴾ ’’پس چاہیے کہ ڈریں وہ لوگ جو مخالفت کرتے ہیں آپ کے حکم کی۔‘‘ یعنی جو لوگ اپنے کسی ضروری کام کے لئے اللہ اور اس کے رسول کے کام کو چھوڑ کر چلے جاتے ہیں۔ تب اس شخص کا کیا حال ہوگا جو اپنے کسی ضروری کام اور مشعولیت کے بغیر اللہ تعالیٰ کے حکم کو ترک کرتا ہے۔ ﴿ أَن تُصِيبَهُمْ فِتْنَةٌ ﴾ ’’یہ کہ پہنچے ان کو کوئی فتنہ‘‘ یعنی شرک اور شر ﴿ أَوْ يُصِيبَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ ﴾ ’’یا ان کو کوئی درد ناک عذاب آلے۔‘‘
11 Mufti Taqi Usmani
. ( aey logo ! ) apney darmiyan Rasool kay bulaney ko aisa ( mamooli ) naa samjho jaisay tum aapas mein aik doosray ko bula liya kertay ho . Allah tum mein say unn logon ko khoob janta hai jo aik doosray ki aarr ley ker chupkay say khisak jatay hain . lehaza jo log uss kay hukum ki khilaf warzi kertay hain , unn ko iss baat say darna chahiye kay kahen unn per koi aafat naa aa-parey , ya unhen koi dardnak azab naa aa-pakray .
12 Tafsir Ibn Kathir
آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو پکارنے کے آداب لوگ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو جب بلاتے تو آپ کے نام یا کنیت سے معمولی طور پر جیسے آپس میں ایک دوسرے کو پکارا کرتے ہیں آپ کو بھی پکار لیا کرتے تھے تو اللہ تعالیٰ نے اس گستاخی سے منع فرمایا کہ نام نہ لو بلکہ یا نبی اللہ یارسول اللہ کہہ کر پکارو۔ تاکہ آپ کی بزرگی اور عزت وادب کا پاس رہے۔ اسی کے مثل آیت ( يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تَقُوْلُوْا رَاعِنَا وَقُوْلُوا انْظُرْنَا وَاسْمَعُوْا ۭ وَلِلْكٰفِرِيْنَ عَذَابٌ اَلِــيْمٌ\010\04 ) 2 ۔ البقرة :104) ہے اور اسی جیسی آیت ( يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تَرْفَعُوْٓا اَصْوَاتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِيِّ وَلَا تَجْـهَرُوْا لَهٗ بالْقَوْلِ كَجَــهْرِ بَعْضِكُمْ لِبَعْضٍ اَنْ تَحْبَــطَ اَعْمَالُكُمْ وَاَنْتُمْ لَا تَشْعُرُوْنَ ) 49 ۔ الحجرات :2) ہے یعنی ایمان والو ! اپنی آوازیں نبی کی آواز پر بلند نہ کرو۔ آپ کے سامنے اونچی اونچی آوازوں سے نہ بولو جیسے کہ بےتکلفی سے آپس میں ایک دوسرے کے سامنے چلاتے ہو اگر ایسا کیا تو سب اعمال غارت ہوجائیں گے اور پتہ بھی نہ چلے۔ یہاں تک کہ فرمایا جو لوگ تجھے حجروں کے پیچھے سے پکارتے ہیں ان میں سے اکثر بےعقل ہیں اگر وہ صبر کرتے یہاں تک کہ تم خود ان کے پاس آجاتے تو یہ ان کے لئے بہتر تھا۔ پس یہ سب آداب سکھائے گئے کہ آپ سے خطاب کس طرح کریں، آپ سے بات چیت کس طرح کریں، آپ کے سامنے کس طرح بولیں چالیں بلکہ پہلے تو آپ سے سرگوشیاں کرنے کے لئے صدقہ کرنے کا بھی حکم تھا۔ ایک مطلب تو اس آیت کا یہ ہوا۔ دوسرا مطلب یہ ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دعا کو تم اپنی دعاؤں کی طرح سمجھو، آپ کی دعا مقبول ومستجاب ہے۔ خبردار کبھی ہمارے نبی کو تکلیف نہ دینا کہیں ایسانہ ہو کہ ان کے منہ سے کوئی کلمہ نکل جائے تو تہس نہس ہوجاؤ۔ اس سے اگلے جملے کی تفسیر میں مقاتل بن حیان (رح) فرماتے ہیں جمعہ کے دن خطبے میں بیٹھا رہنا منافقوں پر بہت بھاری پڑتا تھا جب کسی کو کوئی ایسی ضرورت ہوتی تو اشارے سے آپ سے اجازت چاہتا اور آپ اجازت دے دیتے اس لئے کہ خطبے کی حالت میں بولنے سے جمعہ باطل ہوجاتا ہے تو یہ منافق آڑ ہی آڑ میں نظریں بچا کر سرک جاتے تھے سدی (رح) فرماتے جماعت میں جب منافق ہوتے تو ایک دوسرے کی آڑ لے کر بھاگ جاتے۔ اللہ کے پیغمبر سے اور اللہ کی کتاب سے ہٹ جاتے، صف سے نکل جاتے، مخالفت پر آمادہ ہوجاتے۔ جو لوگ امر رسول، سنت رسول، فرمان رسول، طریقہ رسول اور شرع رسول کے خلاف کریں وہ سزا یاب ہونگے۔ انسان کو اپنے اقوال و افعال رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی سنتوں اور احادیث سے ملانے چاہئیں جو موافق ہوں اچھے ہیں جو موافق نہ ہوں مردود ہے۔ ظاہر یا باطن میں جو بھی ہے شریعت محمدیہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے خلاف کرے اس کے دل میں کفر ونفاق، بدعت و برائی کا بیج بودیا جاتا ہے یا اسے سخت عذاب ہوتا ہے۔ یا تو دنیا میں ہی قتل قید حد وغیر جیسی سزائیں ملتی ہیں یا آخرت میں عذاب اخروی ملے گا۔ مسند احمد میں حدیث ہے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرماتے ہیں میری اور تمہاری مثال ایسی ہے جیسے کسی شخص نے آگ جلائی جب وہ روشن ہوئی تو پتنگوں اور پروانوں کا اجتماع ہوگیا اور وہ دھڑا دھڑ اس میں گرنے لگے۔ اب یہ انہیں ہرچند روک رہا ہے لیکن وہ ہیں شوق سے اس میں گرے جاتے ہیں اور اس شخص کے روکنے سے نہیں روکتے۔ یہی حالت میری اور تمہاری ہے کہ تم آگ میں گرنا چاہتے ہو اور میں تمہیں اپنی با ہوں میں لپیٹ لپیٹ کر اس سے روک رہا ہوں کہ آگ میں نہ گھسو، آگ سے بچو لیکن تم میری مانتے اور اس آگ میں گھسے چلے جا رہے ہو۔ یہ حدیث بخاری مسلم میں بھی ہے۔