الفرقان آية ۲۱
وَقَالَ الَّذِيْنَ لَا يَرْجُوْنَ لِقَاۤءَنَا لَوْلَاۤ اُنْزِلَ عَلَيْنَا الْمَلٰۤٮِٕكَةُ اَوْ نَرٰى رَبَّنَا ۗ لَـقَدِ اسْتَكْبَرُوْا فِىْۤ اَنْفُسِهِمْ وَعَتَوْ عُتُوًّا كَبِيْرًا
طاہر القادری:
اور جو لوگ ہماری ملاقات کی امید نہیں رکھتے کہتے ہیں کہ ہمارے اوپر فرشتے کیوں نہیں اتارے گئے یا ہم اپنے رب کو (اپنی آنکھوں سے) دیکھ لیتے (تو پھر ضرور ایمان لے آتے)، حقیقت میں یہ لوگ اپنے دِلوں میں (اپنے آپ کو) بہت بڑا سمجھنے لگے ہیں اور حد سے بڑھ کر سرکشی کر رہے ہیں،
English Sahih:
And those who do not expect the meeting with Us say, "Why were not angels sent down to us, or [why] do we [not] see our Lord?" They have certainly become arrogant within themselves and [become] insolent with great insolence.
1 Abul A'ala Maududi
جو لوگ ہمارے حضور پیش ہونے کا اندیشہ نہیں رکھتے وہ کہتے ہیں "کیوں نہ فرشتے ہمارے پاس بھیجے جائیں؟ یا پھر ہم اپنے رب کو دیکھیں" بڑا گھمنڈ لے بیٹھے یہ اپنے نفس میں اور حد سے گزر گئے یہ اپنی سرکشی میں
2 Ahmed Raza Khan
اور بولے وہ جو ہمارے ملنے کی امید نہیں رکھتے ہم پر فرشتے کیوں نہ اتارے یا ہم اپنے رب کو دیکھتے بیشک اپنے جی میں بہت ہی اونچی کھینچی (سرکشی کی) اور بڑی سرکشی پر آئے
3 Ahmed Ali
اور ان لوگوں نے کہا جو ہم سے ملنے کی امید نہیں رکھتے کہ ہمارے پاس فرشتے کیوں نہ بھیجے گئے یا ہم اپنے رب کو دیکھ لیتے البتہ انہوں نے اپنے آپ کو بہت بڑاسمجھ لیا ہے اور بہت بڑی سرکشی کی ہے
4 Ahsanul Bayan
اور جنہیں ہماری ملاقات کی توقع نہیں انہوں نے کہا کہ ہم پر فرشتے کیوں نہیں اتارے جاتے؟ (١) یا ہم اپنی آنکھوں سے اپنے رب کو دیکھ لیتے (٢) ان لوگوں نے اپنے آپ کو ہی بہت بڑا سمجھ رکھا ہے اور سخت سرکشی کر لی ہے۔
٢١۔١ یعنی کسی انسان کو رسول بنا کر بھیجنے کی بجائے، کسی فرشتے کو بنا کر بھیجا جاتا۔ یا مطلب یہ ہے کہ پیغمبر کے ساتھ فرشتے بھی نازل ہوتے، جنہیں ہم اپنی آنکھوں سے دیکھتے اور وہ اس بشر رسول کی تصدیق کرتے۔
٢١۔٢ یعنی رب آ کر ہمیں کہتا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم میرا رسول ہے اور اس پر ایمان لانا تمہارے لئے ضروری ہے۔
۲۱۔۳ اسی استکبار اور سرکشی کا نتیجہ ہے کہ وہ اس قسم کے مطالبے کر رہے ہیں جو اللہ تعالٰی کی منشا کے خلاف ہیں اللہ تعالٰی تو ایمان بالغیب کے ذریعے سے انسانوں کو آزماتا ہے اگر وہ فرشتوں کو ان کی آنکھوں کے سامنے اتار دے یا آپ خود زمین پر نزول فرما لے تو اس کے بعد ان کی آزمائش کا پہلو ہی ختم ہو جائے اس لیے اللہ تعالٰی ایسا کام کیونکر کر سکتا ہے جو اس کی حکمت تخلیق اور مشیت تکوینی کے خلاف ہے؟
5 Fateh Muhammad Jalandhry
اور جو لوگ ہم سے ملنے کی امید نہیں رکھتے۔ کہتے ہیں کہ ہم پر فرشتے کیوں نہ نازل کئے گئے۔ یا ہم اپنی آنکھ سے اپنے پروردگار کو دیکھ لیں۔ یہ اپنے خیال میں بڑائی رکھتے ہیں اور (اسی بنا پر) بڑے سرکش ہو رہے ہی
6 Muhammad Junagarhi
اور جنہیں ہماری ملاقات کی توقع نہیں انہوں نے کہا کہ ہم پر فرشتے کیوں نہیں اتارے جاتے؟ یا ہم اپنی آنکھوں سے اپنے رب کو دیکھ لیتے؟ ان لوگوں نے اپنے آپ کو ہی بہت بڑا سمجھ رکھا ہے اور سخت سرکشی کرلی ہے
7 Muhammad Hussain Najafi
اور جو لوگ ہمارے پاس آنے کی امید نہیں رکھتے وہ کہتے ہیں کہ ہمارے اوپر فرشتے کیوں نہیں اتارے گئے؟ یا ہم اپنے پروردگار کو ہی دیکھ لیتے! انہوں نے اپنے دلوں میں اپنے کو بہت بڑا سمجھا اور سرکشی میں حد سے گزر گئے ہیں۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
اور جو لوگ ہماری ملاقات کی امید نہیں رکھتے وہ کہتے ہیں کہ آخر ہم پر فرشتے کیوں نہیں نازل ہوتے یا ہم خدا کو کیوں نہیں دیکھتے درحقیقت یہ لوگ اپنی جگہ پر بہت مغرور ہوگئے ہیں اور انتہائی درجہ کی سرکشی کررہے ہیں
9 Tafsir Jalalayn
اور جو لوگ ہم سے ملنے کی امید نہیں رکھتے کہتے ہیں کہ ہم پر فرشتے کیوں نہ نازل کیے گئے یا ہم اپنی آنکھ سے اپنے پروردگار کو دیکھ لیں ؟ یہ اپنے خیال میں بڑائی رکھتے ہیں اور (اسی بنا پر) بڑے سرکش ہو رہے ہیں
آیت نمبر 21 تا 34
ترجمہ : جو لوگ ہمارے سامنے پیش ہونے سے اندیشہ نہیں کرتے یعنی بعث (بعد الموت) کا خوف نہیں رکھتے وہ یوں کہتے ہیں کہ ہمارے پاس فرشتے کیوں نہیں آتے ؟ کہ ہماری طرف رسول ہوں یا ہم اپنے رب کو دیکھ لیتے پھر ہمیں وہ یہ بات تباتے کہ محمد اللہ کے رسول ہیں، اللہ تعالیٰ نے کہا ان لوگوں نے اپنے دلوں میں اپنے آپ کو بہت بڑا سمجھ لیا ہے اور دنیا ہی میں اللہ کی رویت کا مطالبہ کرکے بڑی سرکشی کی ہے اور عَتَوْ واؤ کے ساتھ اپنی اصل پر ہے بخلاف عُتِیَ کے ابدال کے ساتھ سورة مریم میں جس روز یہ منجملہ خلائق کے فرشتوں کو دیکھیں گے اور (یومَ ) کا نصب اذکر فعل مقدر کی وجہ سے ہے، اس روز مجرموں یعنی کافروں کے لئے کوئی خوشخبری نہ ہوگی، بخلاف مؤمنین کے، ان کے لئے جنت کی خوشخبری ہوگی اور کہیں گے کہ پناہ ہے پناہ ہے (بچاؤ بچاؤ) اپنی عادت کے مطابق دنیا میں جب ان پر کوئی مصیبت آپڑتی، یعنی پناہ پناہ چلائیں گے اور ملائکہ سے پناہ چاہیں گے، اللہ تعالیٰ کہے گا، اور ہم ان کے ان اچھے کاموں کی طرف جو وہ دنیا میں کرچکے ہیں متوجہ ہوں گے، مثلاً صدقہ اور صلہ رحمی، مہمان نوازی اور مظلوم کی فریاد رسی تو ہم ان (اعمال) کو پراگندہ ذروں کی طرح کردیں گے ھَبَاءً منثوراً ان ذروں کو کہتے ہیں جو اس سوراخ میں نظر آتے ہیں جس پر دھوپ پڑتی ہے جیسا کہ منتشر غبار یعنی (ان کے اعمال کو) بےفائدہ ہونے میں غبار منتشر کے مانند کردیں گے، اس لئے کہ ان اعمال کا کوئی اجر نہ ہوگا، اجر کی شرط مفقود ہونے کی وجہ سے اور اس کی جزاء دنیا ہی میں دیدئیے جائیں گے، اہل جنت اس دن یعنی قیامت کے دن قیام گاہ میں بھی دنیا میں کافروں سے اچھے رہیں گے اور آرام گاہ میں بھی ان سے اچھے رہیں گے یعنی جنت میں قیلولہ (آرام) کرنے کی جگہ، اور قیلولہ دوپہر کو گرمی میں آرام کرنے کو کہتے ہیں اور اسی (احسن مقیلاً ) سے لیا گیا ہے کہ حساب دوپہر تک پورا ہوجائے گا جیسا کہ حدیث شریف میں وارد ہوا ہے اور جس روز آسمان یعنی ہر آسمان مع بادل کے پھٹ جائے گا اور وہ سفید بادل ہے، اور ہر آسمان سے فرشتے بکثرت اتارے جائیں گے اور وہ دن قیامت کا دن ہوگا اور یوم اُذْکُرْ محذوف کی وجہ سے منصوب ہے، اور ایک قرأت میں تشَّقَّقُ کی شین کی تشدید کے ساتھ، اصل میں (یعنی تا کو شین سے بدلنے اور شین کو شین میں ادغام کرنے سے پہلے) تائے ثانیہ کو شین میں ادغام کرکے، اور دوسری قرأت میں نُنزِلُ دونوں کے ساتھ، دوسرا نون ساکن اور لام کے ضمہ کے ساتھ اور ملائکہ کے نصب کے ساتھ اس روز حقیقی حکومت رحمن کی ہوگی اس دن اس کا کوئی شریک نہ ہوگا اور وہ دن کافروں کے لئے بڑا سخت ہوگا بخلاف مومنین کے اور جس روز ظالم مشرک عقبہ بن ابی معیط جس نے شہادتین کا اقرار کرلیا تھا اور پھر ابی بن خلف کو خوش کرنے کے لئے پھر گیا، اپنے ہاتھوں کو ندامت اور حسرت کے ساتھ قیامت کے دن کاٹ کھائے گا اور کہے گا کیا اچھا ہوتا کہ میں رسول محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ ہدایت کے راستہ پر لگ لیتا ہائے میری مبختی وَیْتَاا کا الف یائے اضافت کے عوض میں ہے (اصل میں) وَیْلَتِیْ تھا اور اس کے معنی میری ہلاکت کے ہیں کاش میں فلاں یعنی ابی بن خلف کو درست نہ بناتا اس نے مجھے نصیحت یعنی قرآن سے اس کے میرے پاس آنے کے بعد بہکا دیا اس طریقہ سے کہ اس پر ایمان لانے کے بعد مجھے واپس کردیا، اور شیطان تو کافر انسان کو (وقت پر) دھوکا دینے ہی والا ہے اس طریقہ پر کہ مصیبت کے وقت اس کو چھوڑ دیتا ہے اور اس سے اظہار بیزاری کردیتا ہے اور رسول یعنی محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کہیں گے اے میرے پروردگار میری قوم قریش نے اس قرآن کو متروک کردیا اللہ تعالیٰ نے فرمایا اور اسی طرح تیری قوم کے مشرکوں کو تیرا دشمن بنادیا تم سے پہلے ہر نبی کا بعض مجرمین مشرکین کو دشمن بنادیا لہٰذا جس طرح انہوں نے صبر کیا تم بھی صبر کرو، آپ کی رہنمائی کرنے اور مدد کرنے کے لئے تیرا رب کافی ہے یعنی تیرے دشمنوں کے خلاف تیری مدد کرنے کے لئے کافی ہے اور کافروں نے کہا اس پر پورا قرآن ایک ساتھ کیوں نازل نہیں کیا گیا ؟ جس طرح کہ تورات اور انجیل اور زبور اتاری گئیں اور اس طرح یعنی متفرق نزول اس لئے ہے کہ ہم اس کے ذریعہ آپ کے قلب کو قوی کریں گے اور ہم نے اس کو بہت ٹھہر ٹھہر کر اتارا ہے، یعنی ہم نے اس کو تھوڑا تھوڑا کرکے وقفہ اور آہستگی کے ساتھ اتارا ہے تاکہ اس کا سمجھنا اور یاد کرنا آسان ہو اور یہ لوگ کیسا ہی عجیب سوال آپ کے معاملہ کو باطل کرنے کے لئے آپ کے سامنے پیش کریں مگر ہم ٹھیک جواب جو اس سوال کو دفع کرنے والا ہو اور بیان کے اعتبار سے خوب واضح ہو عنایت کردیتے ہیں یہ وہ لوگ ہیں جو اپنے چہروں کے بل جہنم کی طرف گھسیٹے جائیں گے یہ لوگ مکان کے اعتبار سے بھی بدترین ہیں اور وہ (مکان) جہنم ہے اور طریقہ میں بھی سب سے زیادہ گمراہ ہیں یعنی دوسروں سے زیادہ گمراہ ہیں اور وہ (طریقہ) ان کا کفر ہے۔
تحقیق، ترکیب و تفسیری فوائد
قولہ : لاَ یخافون یہ تَھَامَہ کی لغت میں لاَ یَرْجون کی تفسیر ہے، لاَ یَرْجونَ کو اپنے حقیقی معنی میں استعمال کرنا اولیٰ ہے، اس صورت میں ترجمہ یہ ہوگا لاَ یَامَلُوْنَ لِقَاءَ مَا وَعَدَنَا علیٰ الطَّاعۃِ من الثَّوابِ اور یہ بات ظاہر ہے کہ جو ثواب کی امید نہیں رکھتا وہ عذاب سے بھی نہیں ڈرتا لقد استکبر میں لام قسمیہ ہے۔ قولہ : وعتَوْا علیٰ اصلہ عَتَوْا اپنی اصل پر ہے واؤ یا سے تبدیل کئے بغیر، بخلاف سورة مریم کے کہ وہاں فواصل کی رعایت کی وجہ سے واؤ یا سے بدل دیا گیا ہے (مزید تحقیق سورؤ مریم میں دیکھ لی جائے) ۔ قولہ : لا بشری یہ جملہ قول مضمر کا معمول ہے، ای یَرَوْنَ الملائکۃ یقولون لا بشریٰ ۔ قولہ : حِجْرًا مصدر بمعنی استعاذہ ہے اور مَحْجُوْرًا اس کی تاکید ہے جیسا کہ عرب کہتے ہیں حرام مُحرَّم یا کہتے ہیں المحرم الحرام۔ قولہ عمدنا قدمنا کی تفسیر عمدنا سے کرنے کا مقصد یہ ہے کہ قدوم کا اطلاق اللہ پر درست نہیں ہے اس لئے کہ قدوم جسمانیات کی صفت ہے۔ قولہ : ملھوف مظلوم فریاد خواہ کو کہتے ہیں۔ قولہ : کُویٰ کاف کے فتحہ اور ضمہ کے ساتھ، اس سوراخ کو کہتے ہیں جس سے سورج کی روشنی داخل ہوتی ہو۔ قولہ : ھَبَاءً ان ذرات کو کہتے ہیں جو سوراخ سے آنے والی روشنی میں اڑتے ہوئے نظر آتے ہیں اگر کوئی ان کو ہاتھ میں پکڑنا چاہے تو یہ ممکن نہیں ہے۔ قولہ : خیرٌ مستقراً من الکافرین یعنی مومنین کا مستقر جنت میں دنیا میں کافروں کے مستقر سے بہتر ہے، یہاں اسم تفضیل خیرٌ اپنے معنی میں ہے من الکافرین فی الدنیا کہہ کر مفسر (رح) نے اسی کی طرف اشارہ کیا ہے گویا کہ یہ اس شبہ کا جواب ہے کہ اہل نار کے مستقر (جہنم) میں کوئی خیر نہیں ہے مگر خیر اسم تفضیل سے معلوم ہو رہا ہے کہ کافروں کے مستقر میں بھی خیر ہے مگر اہل جنت کے مستقر سے کم خیر ہے اور یہ مطلب بھی صحیح ہے کہ مستقر سے دونوں فریقوں کا آخرت میں مستقر مراد ہو اس صورت خیرٌ سے اسم تفضیل کے معنی مراد نہ ہوں بلکہ کفار کی محض تقریع وتوبیخ مراد ہوگی اور یہ عرب کے قول (العَسلُ اَحْلیٰ من الخَلَ ) کے قبیل سے ہوا حالانکہ خل میں کوئی حلاوۃ نہیں ہوتی، اس سے معلوم ہوتا ہے اسم تفضیل کے لئے مفضل منہ کا ہمیشہ ہونا ضروری نہیں، لہٰذا اعتراض دفع ہوگیا۔
قولہ : اُخِذَ من ذٰلک الخ یعنی احسن مقیلاً سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے میدان محشر میں حساب کتاب نصف النہار سے قبل ہی ختم ہوجائے گا اس لئے کہ جنت کے آرام کے لئے مقیلا کا لفظ استعمال فرمایا ہے جس کے معنی دوپہر کو قیلولہ کرنے کے ہیں، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حساب کتاب سے فراغت دوپہر سے قبل ہی ہوجائے گی، حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) کی روایت ہے کہ قیامت کے روز اہل جنت جنت میں اور اہل دوزخ دوزخ میں قیلولہ کریں گے، گو یہ نصف یوم مومنین کے لئے بقدر ایک نماز کے معلوم ہوگا اور کافروں کو بہت طویل عرصہ معلوم ہوگا۔ قولہ : یَوْمَ تَشَقَّقُ السماءُ یومَ اُذکر محذوف کی وجہ سے منصوب ہے کل سماء سے اشارہ اس بات کی جانب ہے کہ السماء میں الف لام استغراق اور مَعَہٗ سے اشارہ با بمعنی مع ہے با سببیہ اور بمعنی عن بھی ہوسکتی ہے۔ قولہ : اَلْمُلکُ یَؤمَئِذٍ الحقُّ للرحمٰن الملکُ مبتداء ہے الحق اس کی صفت للرحمن خبر، ای الملک الثابتُ الذی لایزول للرحمن یومئذٍ مفسر علام نے ظالم کی تفسیر مشرک عقبہ بن ابی معیط سے کرکے اشارہ کردیا ہے کہ یہ آیت ایک خاص مشرک کے بارے میں نازل ہوئی جس کا نام عقبہ بن ابی معیط تھا۔ قولہ : یقول یَالَیْتَنی جملہ یَعُضُّ کی ضمیر سے حال ہے یَالَیْتَنِیْ میں یا تنبیہ کے لئے ہے نہ کہ ندا کے لئے اس لئے کہ منادیٰ کے لئے اسم ہونا شرط ہے اور اگر یا کو ندا کے لئے مانیں تو منادیٰ محذوف ماننا ہوگا ای یا قوم۔
قولہ : لَقَدْ اَضَلَّنِیْ میں لام قسمیہ ہے اَیْ واللہ لَقَدْ اَضَلَّنِیٰ ۔ قولہ : قال تعالیٰ سے اشارہ ہے کہ یہ جملہ مستانفہ ہے ظالم کا کلام اِذْ جاءَنِیْ پر پورا ہوگیا۔ قولہ : لَوْ لا نُزِّلَ القرآنَ جملۃ واحدۃً یہاں نُزِّل بمعنی اُنْزِلَ ہے اسلئے کہ نُزِّل کے معنی ہیں تھوڑا تھوڑا اتارنا اور اُنْزِلَ کے معنی ہیں ایک ساتھ اتارنا لہٰذا نُزِّل اور جملۃً واحدۃً میں تعارض ہوگا اسلئے کہا جائے گا نُزِّلَ کے ہے نَزّلْنَا کذٰلِکَ نَزَّلنا محذوف مان کر اشارہ کردیا کہ کذٰلِکَ فعل محذوف کا مفعول ہے اور لنِثَبِّتَ بہٖ سے قرآن کو متفرق طور پر اتارنے کی تین حکمتوں کا بیان ہے۔ قولہ : وَاَحْسَنَ کا عطف الحق پر ہے، احسن محلاً مجرور ہے، قولہ : اَلَّذِیْنَ یُحْشَرُوْنَ ، ھُمْ مبتداء محذوف کی خبر ہے جیسا کہ مفسر (رح) نے ظاہر کردیا
تفسیر و تشریح
وقال۔۔۔۔ لقائنا (الآیہ) رَجَا کے معنی عام طور پر کسی محبوب و مرغوب چیز کی امید کرنے کے آتے ہیں اور کبھی یہ لفظ خوف کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے، جیسا کہ ابن الانباری نے کتاب الاضداد میں لکھا ہے، اس جگہ بھی یہی خوف کے معنی زیادہ واضح ہیں، یعنی وہ لوگ جو ہمارے سامنے پیشی سے نہیں ڈرتے حِجْرًا مَحْجورًا حِجْر کے لفظی معنی محفوظ جگہ کے ہیں اور محجور اس کی تاکید ہے یہ لفظ محاورہ عرب میں اس وقت بولا جاتا ہے جب کوئی مصیبت سامنے ہو اس سے بچنے کے لئے لوگوں سے کہتے تھے کہ پناہ ہے پناہ ہے یعنی ہمیں اس مصیبت سے پناہ دو قیامت کے روز بھی جب کفار فرشتوں کو سامان عذاب لاتا ہوا دیکھیں گے تو دنیا کی عادت کے مطابق یہ لفظ کہیں گے، اور حضرت ابن عباس (رض) سے اس لفظ کے معنی حَرَامًا مَحْرمًا منقول ہیں اور مراد یہ ہے کہ قیامت کے روز جب یہ لوگ فرشتوں کو عذاب کے ساتھ دیکھیں گے اور ان سے معاف کرنے اور جنت میں جانے کی درخواست کریں گے تو فرشتے ان کے جواب میں کہیں گے حِجْرًا مَحْجُورًا یعنی جنت کافروں پر حرام اور ممنوع ہے۔ (مظہری)
وقدمنا۔۔۔ عملوا یہاں کا رخیر سے وہ کار خیر مراد ہیں جن کا وجود نیت پر موقوف نہیں ہے جیسے مہمان نوازی، صلہ رحمی، حسن معاشرت، مظلوم کی مدد اور فریاد رسی، اس قسم کے اعمال خیر کا بدلہ، دنیا ہی میں مثلاً صحت و تندرستی، مالداری، خوشحالی، حسن و خوبصورتی، عقل و دانشمندی کے صورت میں دیدیا جاتا ہے، کافروں نے بزعم خویش دنیا میں اعمال کئے ہونگے اور آخرت میں ان کے اجر کی توقع رکھتے ہونگے وہ قیامت کے دن ذروں کے مانند کہ جو سورج کی کرنوں میں محسوس کرتے ہیں بےحیثیت ہوں گے، یہاں کافروں کے اعمال خیر کو جس طرح بےحیثیت ذروں کے مثل کہا گیا ہے، اسی طرح دوسرے مقامات پر کہیں راکھ سے، کہیں سراب سے اور کہیں صاف چکنے پتھر سے تعبیر کیا گیا ہے۔
تشقق۔۔۔۔ الغمام معنی یہ ہیں کہ آسمان شق ہو کر اس میں سے ایک رقیق بادل اترے گا جس میں فرشتے ہوں گے، یہ ابر بشکل سائبان آسمان سے آئے گا اور اس میں حق تعالیٰ کی تجلی ہوگی اور اس کے گرداگرد ملائکہ ہوں گے، یہ حساب شروع ہونے کا وقت ہوگا اور اس وقت آسمان کا پھٹنا صرف کھلنے کے طور پر ہوگا، اس لئے کہ یہ نزول غمام جس کا ذکر آیت میں ہے نفخۂ ثانیہ کے بعد ہوگا جب کہ سب زمین و آسمان درست ہوچکے ہوں گے۔
یقول۔۔۔۔ خلیلاً یہ آیت ایک خاص واقعہ میں نازل ہوئی ہے مگر حکم عام ہے، واقعہ یہ تھا کہ عقبہ ابن معیط مکہ کے مشرک سرداروں میں سے تھا اس کی عادت تھی کہ جب کسی سفر سے واپس آتا تو شہر کے معزز لوگوں کی دعوت کرتا تھا اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اس کے تعلقات تھے ایک مرتبہ اس نے حسب عادت معززین شہر کی دعوت کی اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بھی بلایا جب اس نے آپ کے سامنے کھانا رکھا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ میں تمہارا کھانا اس وقت تک نہیں کھا سکتا جب تک تم اس کی گواہی نہ دو کہ اللہ تعالیٰ ایک ہے اس کا کوئی شریک نہیں اور یہ کہ میں اللہ تعالیٰ کا رسول ہوں، عقبہ نے یہ کلمہ پڑھ لیا اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے شرط کے مطابق کھانا تناول فرما لیا۔
عقبہ کا ایک جگری دوست تھا اس کا نام ابی بن خلف تھا جب اس کو معلوم ہوا کہ عقبہ مسلمان ہوگیا تو بہت برہم ہوا، عقبہ نے عذر کیا کہ قریش کے معزز مہمان محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میرے گھر پر آئے تھے اگر وہ بغیر کھانا کھائے میرے گھر سے واپس چلے جاتے تو میرے لئے بڑی رسوائی کی بات تھی اس لئے میں نے ان کی خاطر یہ کلمہ پڑھ لیا، ابی بن خلف نے کہا میں تیری ایسی باتوں کو قبول نہیں کروں گا جب تک تو جا کر ان کے منہ پر نہ تھوکے، یہ کمبخت دوست کے کہنے سے اس گستاخی پر آمادہ ہوگیا اور کر گذرا، اللہ تعالیٰ نے دنیا میں بھی ان دونوں کو ذلیل کیا کہ غزوہ بدر میں دونوں مارے گئے (بغوی) اور آخرت میں ان کے لئے عذاب کا ذکر اس آیت میں کیا گیا ہے کہ جب آخرت کا عذاب سامنے دیکھے گا تو اس وقت ندامت و افسوس سے اپنے ہاتھ کاٹنے لگے گا اور کہے گا کاش میں فلاں یعنی ابی بن خلف کو دوست نہ بناتا۔ (مظہری)
نکتہ : آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے کھانا کھانے کے لئے کلمہ پڑھنے کی شرط لگانے سے معلوم ہوتا ہے کہ کسی کام کے لئے اخلاقی دباؤ ڈالنا درست ہے جیسا کہ بعض اوقات مبلغین حضرات دعوت قبول کرنے کے لئے خدا کے راستہ میں نکلنے کی شرط لگا دیتے ہیں۔ اس واقعہ سے یہ سبق بھی ملتا ہے کہ برے شخص کی دوستی اور صحبت سے بھی اجتناب کرنا چاہیے اس لئے کہ بری صحبت کا اثر جلدی ہوتا ہے، مسند احمد، ترمذی وغیرہ نے حضرت ابو سعید خدری سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا لاً تُصَاحِبْ اِلاَّ مُؤْمِنًا وَلاَ یَاکُلُ مَا لَکَ الاتقی غیر مومن کو اپنا دوست نہ بناؤ اور تمہارا مال (بطور دوستی) صرف متقی آدمی کھائے یعنی غیر متقی سے دوستی نہ کرو اور حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا المرءُ علیٰ دین خلِیْلِہٖ فلینظُرْ من یخالل ہر آدمی (عادۃ) اپنے دوست کے طریقہ پر چلا کرتا ہے اسلئے دوست بنانے سے پہلے خوب غور کرلیا کرو کہ کس کو دوست بنا رہے ہو۔
وقال الرسول۔۔۔۔۔ مھجوراً یعنی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنے پروردگار سے شکایت کریں گے اے میرے پروردگار میری قوم نے اس قرآن کو مہجور متروک کردیا، آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی یہ شکایت قیامت کے روز ہوگی یا اسی دنیا میں اس میں مفسرین کا اختلاف ہے احتمال دونوں ہیں اگلی آیت بظاہر اس کا قرینہ ہے کہ یہ شکایت دنیا ہی میں پیش فرمائی تھی جس کے جواب میں آپ کو تسلی دینے کے لئے اگلی آیت میں فرمایا کَذٰلِکَ جَعَلْنَا لکلِّ نبِّیٍ (الآیۃ)
وقال۔۔۔ نزل (الآیۃ) اللہ اور رسول کے دشمن لوگوں کو گمراہ کرنے کے لئے بےسروپا اور نہایت غیر معقول اعتراض کرتے تھے، کہتے تھے کہ صاحب دوسری کتابوں کی طرح پورا قرآن ایک ہی دفعہ کیوں نہ اتارا گیا ؟ برسوں میں جو تھوڑا تھوڑا کرکے اتارا، کیا اللہ کو کچھ سوچنا پڑتا ہے ؟ اس سے تو شبہ ہوتا ہے کہ خود محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سوچ سوچ کر بناتے ہیں پھر موقع مناسب دیکھ کر تھوڑا تھوڑا سناتے رہتے ہیں۔
قرآن کو بتدریج نازل کرنے کی حکمت : اول حکمت تو یہ بیان فرمائی کہ بتدریج نازل کرنے میں یہ حکمت ہے کہ وقتاً فوقتاً قرآن کے نزول سے آپ کے قلب کو تقویت رہے اور دربار خداوندی سے مسلسل رابطہ رہے، دوم یہ کہ بتدریج نزول کی وجہ سے یاد کرنے میں آسانی ہو، تیسرے یہ کہ اگر کفار آپ پر کوئی نیا اعتراض کریں تو اس کا جواب بروقت نازل کردیا جائے اور آپ کو تسلی بھی دیدی جائے، اور اگر پورا قرآن ایک ہی دفعہ آگیا ہوتا اور اس خاص اعتراض کا جواب اور آپ کے لئے تسلی نازل ہو بھی گئی ہوتی تو بہرحال اس کو قرآن میں تلاش کرنے کی ضرورت پڑتی اور بروقت اس کی طرف ذہن کا متوجہ ہونا بھی ضروری نہیں، ان حکمتوں کے علاوہ بھی حکمتیں ہوسکتی ہیں ان میں انحصار ضروری نہیں۔
10 Tafsir as-Saadi
وہ لوگ جنہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تکذیب کی، جنہوں نے اللہ تعالیٰ کے وعدہ و وعید کو جھٹلایا، جن کے دل میں وعید کا خوف ہے نہ خالق سے ملاقات کی امید۔۔۔ انہوں نے کہا : ﴿ لَوْلَا أُنزِلَ عَلَيْنَا الْمَلَائِكَةُ أَوْ نَرَىٰ رَبَّنَا ﴾ یعنی فرشتے کیوں نہ اترے جو تیری رسالت کی گواہی دیتے اور تیری تائید کرتے یا مستقل رسول نازل ہوتے یا ہم اپنے رب کو دیکھتے وہ ہمارے ساتھ کلام کرتا اور خود کہتا کہ یہ میرا رسول ہے اس کی اتباع کرو؟ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ یہ معارضہ کسی اعتراض کی بناء پر نہیں بلکہ اس کا سبب صرف تکبر، تغلب اور سرکشی ہے ﴿ لَقَدِ اسْتَكْبَرُوا فِي أَنفُسِهِمْ ﴾ ” انہوں نے اپنے آپ کو بہت بڑا سمجھ رکھا ہے۔“ کیونکہ انہوں نے اس قسم کے اعتراض کئے اور اتنی جسارت کا مظاہرہ کیا۔ اے محتاج اور بے بس لوگو ! تم ہو کون جو اللہ تعالیٰ کے دیدار کا مطالبہ کرتے ہو اور سمجھتے ہو کہ رسالت کی صحت کا ثبوت اللہ تعالیٰ کے دیدار پر موقوف ہے۔ اس سے بڑا تکبر اور کیا ہوسکتا ہے؟ ﴿ وَعَتَوْا عُتُوًّا كَبِيرًا ﴾ ” اور انہوں نے بڑی سرکشی کی۔“ یعنی انہوں نے حق کے خلاف قساوت اور صلابت کا رویہ اختیار کیا۔ پس ان کے دل پتھر اور فولاد سے زیادہ سخت تھے وہ حق کے لئے نرم پڑتے تھے نہ خیر خواہی کرنے والوں کی آواز پر کان دھرتے تھے، اس لئے ان کو کسی وعظ و نصیحت نے کوئی فائدہ نہ دیا اور جب ان کے پاس ان کو ان کے انجام سے ڈرانے والا آیا تو انہوں نے اس کی پیروی نہ کی بلکہ انہوں نے مخلوق میں سب سے زیادہ سچی اور خیر خواہ ہستی کا اور اللہ تعالیٰ کی واضح آیات کا اعراض و تکذیب کے ساتھ استقبال کیا، اس سے بڑھ کر اور کونسی سرکشی ہوسکتی ہے؟ بنا بریں ان کے اعمال باطل ہو کر اکارت گئے اور وہ سخت خسارے میں مبتلا ہوگئے۔
11 Mufti Taqi Usmani
jinn logon ko yeh tawaqqo hi nahi hai kay woh ( kissi waqt ) hum say aa-milen gay , woh yun kehtay hain kay : hum per farishtay kiyon nahi utaray jatay-? ya phir aisa kiyon nahi hota kay hum khud apney perwerdigar ko dekh len-? haqeeqat yeh hai kay yeh apney dilon mein apney aap ko boht bara samjhay huye hain , aur enhon ney bari sarkashi ikhtiyar ki hoi hai .