وہ بولے: اے نوح! اگر تم (ان باتوں سے) باز نہ آئے تو تمہیں یقیناً سنگ سار کر دیا جائے گا،
English Sahih:
They said, "If you do not desist, O Noah, you will surely be of those who are stoned."
1 Abul A'ala Maududi
انہوں نے کہا "اے نوحؑ، اگر تو باز نہ آیا تو پھٹکارے ہوئے لوگوں میں شامل ہو کر رہے گا"
2 Ahmed Raza Khan
بولے اے نوح! اگر تم باز نہ آئے تو ضرور سنگسار کیے جاؤ گے
3 Ahmed Ali
کہنے لگے اے نوح اگر تو باز نہ آیا تو ضرور سنگسار کیا جائے گا
4 Ahsanul Bayan
انہوں نے کہا کہ اے نوح! اگر تو باز نہ آیا تو یقیناً تجھے سنگسار کر دیا جائے گا۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
انہوں نے کہا کہ نوح اگر تم باز نہ آؤ گے تو سنگسار کردیئے جاؤ گے
6 Muhammad Junagarhi
انہوں نے کہاکہ اے نوح! اگر تو باز نہ آیا تو یقیناً تجھے سنگسار کردیا جائے گا
7 Muhammad Hussain Najafi
ان لوگوں نے کہا اے نوح! اگر تم باز نہ آئے تو تم ضرور سنگسار کر دیئے جاؤگے۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
ان لوگوں نے کہا کہ نوح اگر تم ان باتوں سے باز نہ آئے تو ہم تمہیں سنگسار کردیں گے
9 Tafsir Jalalayn
انہوں نے کہا کہ نوح اگر تم باز نہ آؤ گے تو سنگسار کر دئیے جاؤ گے
10 Tafsir as-Saadi
نوح علیہ السلام دن رات، کھلے چھپے، انہیں دعوت دیتے رہے مگر وہ دور ہی دور بھاگتے رہے اور کہنے لگے : ﴿لَئِن لَّمْ تَنتَهِ يَا نُوحُ﴾ اے نوح ! اگر تو ہمیں اللہ کی طرف دعوت دینے سے باز نہ آیا ﴿ لَتَكُونَنَّ مِنَ الْمَرْجُومِينَ﴾ ہم تجھے پتھر مار مار کر بری طرح قتل کریں گے، جس طرح کتے کو قتل کیا جاتا ہے۔۔۔ ان کا برا ہو۔۔۔ انہوں نے کتنا برا تقابل کیا ہے۔ وہ ایک خیر خواہ، امین شخص کا تقابل، جو ان کے لئے خود ان سے زیادہ شفیق ہے، بدترین تقابل کر رہے ہیں۔ جب ان کے جرم کی انتہا ہوگئی اور ان کا کفر بہت زیادہ ہوگیا تو ان کے نبی نے ان کے لئے بدعا کی جس نے ان کو گھیر لیا، چنانچہ نوح علیہ السلام نے عرض کیا : ﴿رَّبِّ لَا تَذَرْ عَلَى الْأَرْضِ مِنَ الْكَافِرِينَ دَيَّارًا ﴾ (نوح : 71؍26) ”اے میرے رب کسی کافر کو زمین پر بسا نہ رہنے دے۔“
11 Mufti Taqi Usmani
woh kehney lagay : aey nooh ! agar tum baaz naa aaye to tumhen pathar maar maar ker halak kerdiya jaye ga .
12 Tafsir Ibn Kathir
تذکرہ نوح (علیہ السلام) لمبی مدت تک جناب نوح (علیہ السلام) ان میں رہے دن رات چھپے کھلے انہیں اللہ کی راہ کی دعوت دیتے رہے لیکن جوں جوں آپ (علیہ السلام) اپنی نیکی میں بڑھتے گئے وہ اپنی بدی میں سوار ہوتے گئے بالآخر زور باندھتے باندھتے صاف کہہ دیا کہ اگر اب ہمیں اپنے دین کی دعوت دی تو ہم تجھ پر پتھراؤ کر کے تیری جان لے لیں گے۔ آپ کے ہاتھ بھی جناب باری میں اٹھ گئے قوم کی تکذیب کی شکایت آسمان کی طرف بلند ہوئی۔ اور آپ نے فتح کی دعا کی فرمایا کہ اے اللہ ! میں مغلوب اور عاجز ہوں میری مدد کر میرے ساتھ میرے ساتھیوں کو بھی بچا لے۔ پس جناب باری عزوجل نے آپ کی دعا قبول کی۔ انسانوں جانوروں اور سامان اسباب سے کچھا کچھ بھری ہوئی کشتی میں سوار ہوجانے کا حکم دے دیا۔ یقینا یہ واقعہ بھی عبرت آموز ہے لیکن اکثر لوگ بےیقین ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ رب بڑے غلبے والا لیکن وہ مہربان بھی بہت ہے۔