النمل آية ۲۰
وَتَفَقَّدَ الطَّيْرَ فَقَالَ مَا لِىَ لَاۤ اَرَى الْهُدْهُدَ ۖ اَمْ كَانَ مِنَ الْغَاۤٮِٕبِيْنَ
طاہر القادری:
اور سلیمان (علیہ السلام) نے پرندوں کا جائزہ لیا تو کہنے لگے: مجھے کیا ہوا ہے کہ میں ہدہد کو نہیں دیکھ پا رہا یا وہ (واقعی) غائب ہو گیا ہے،
English Sahih:
And he took attendance of the birds and said, "Why do I not see the hoopoe – or is he among the absent?
1 Abul A'ala Maududi
(ایک اور موقع پر) سلیمانؑ نے پرندوں کا جائزہ لیا اور کہا “کیا بات ہے کہ میں فلاں ہُد ہُد کو نہیں دیکھ رہا ہوں کیا وہ کہیں غائب ہو گیا ہے؟
2 Ahmed Raza Khan
اور پرندوں کا جائزہ لیا تو بولا مجھے کیا ہوا کہ میں ہد ہد کو نہیں دیکھتا یا وہ واقعی حاضر نہیں،
3 Ahmed Ali
اور پرندوں کی حاضری لی تو کہا کیا بات ہے جو میں ہُد ہُد کو نہیں دیکھتا کیا وہ غیر حاضر ہے
4 Ahsanul Bayan
آپ نے پرندوں کی دیکھ بھال کی اور فرمانے لگے یہ کیا بات ہے کہ میں ہدہد کو نہیں دیکھتا؟ کیا واقعی وہ غیر حاضر ہے؟ (١)
٢٠۔١ یعنی موجود تو ہے، مجھے نظر نہیں آرہا یا یہاں موجود ہی نہیں ہے۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
انہوں نے جانوروں کا جائزہ لیا تو کہنے لگے کیا سبب ہے کہ ہُدہُد نظر نہیں آتا۔ کیا کہیں غائب ہوگیا ہے؟
6 Muhammad Junagarhi
آپ نے پرندوں کی دیکھ بھال کی اور فرمانے لگے یہ کیا بات ہے کہ میں ہدہد کو نہیں دیکھتا؟ کیا واقعی وه غیر حاضر ہے؟
7 Muhammad Hussain Najafi
اور سلیمان (ع) نے (ایک دن) پرندوں کا جائزہ لیا تو کہا کیا بات ہے کہ میں ہُدہُد کو نہیں دیکھ رہا ہوں کیا وہ کہیں غائب ہے؟
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
اور سلیمان نے ہد ہد کو تلاش کیا اور وہ نظر نہ آیا تو کہا کہ آخر مجھے کیا ہوگیا ہے کہ میں ہد ہد کو نہیں دیکھ رہا ہوں کیا وہ غائب ہوگیا ہے
9 Tafsir Jalalayn
اور انہوں نے جانوروں کا جائزہ لیا تو کہنے لگے کہ کیا سبب ہے کہ ہدہد نظر نہیں آتا ؟ کیا کہیں غائب ہوگیا ہے
10 Tafsir as-Saadi
چنانچہ فرمایا : ﴿ وَتَفَقَّدَ الطَّيْرَ ﴾ ” اور انہوں نے پرندوں کا جائزہ لیا۔“ یہ چیز آپ کے کامل عزم و حزم، آپ کی افواج کی بہترین تنظیم اور چھوٹے بڑے معاملات میں آپ کی بہترین تدبیر پر دلالت کرتی ہے۔ یہاں تک کہ آپ نے پرندوں کو بھی مہمل نہیں چھوڑا بلکہ آپ نے ان کا بغور معائنہ کیا کہ تمام پرندے حاضر ہیں یا ان میں سے کوئی مفقود ہے؟ یہ ہے آیت کریمہ کا معنی۔ ان مفسرین کا یہ قول صحیح نہیں کہ سلیمان علیہ السلام نے پرندوں کا معائنہ اس لئے کیا تھا تاکہ وہ ہد ہد کو تلاش کریں کہ وہ کہاں ہے؟ جو ان کی رہنمائی کرے کہ آیا پانی قریب ہے یا دور ہے۔ جیسا کہ ہد ہد کے بارے میں ان کا خیال ہے کہ وہ زمین کی کثیف تہوں کے نیچے پانی دیکھ سکتا ہے۔ ان کے اس قول پر کوئی دلیل نہیں بلکہ عقلی اور لفظی دلیل اس کے بطلان پر دلالت کرتی ہے۔ عقلی دلیل یہ ہے کہ عادت، تجربات اور مشاہدات کے ذریعے سے یہ بات معلوم ہے کہ تمام حیوانات میں کوئی حیوان ایسا نہیں جو خرق عادت کے طور پر زمین کی کثیف تہوں کے نیچے پانی دیکھ سکتا ہو۔ اگر ایسا ہوتا تو اللہ تعالیٰ اس کا ذکر ضرور کرتا کیونکہ یہ بہت بڑا معجزہ ہے۔ رہی لفظی دلیل، تو اگر یہی معنی مراد ہوتا تو اللہ تعالیٰ یوں فرماتا :” سلیمان نے ہد ہد کو طلب کیا تاکہ وہ ان کے لئے پانی تلاش کرے جب انہوں نے ہد ہد کو موجود نہ پایا تو انہوں نے کہا جو کہا۔۔۔“ یا عبارت اس طرح ہوتی ” سلیمان نے ہد ہد کے بارے میں تفتیش کی‘‘ یا ’’ہد ہد کے بارے میں تحقیق کی“ اور اس قسم کی دیگر عبارات۔ انہوں نے تو پرندوں کا صرف اس لئے جائزہ لیا تھا تاکہ وہ معلوم کریں کہ ان میں سے کون حاضر اور کون غیر حاضر ہے اور ان میں سے کون اپنے اپنےمقام پر موجود ہے جہاں اس کو متعین کیا گیا تھا۔ نیز حضرت سلیمان علیہ السلام پانی کے محتاج نہ تھے کہ انہیں ہد ہد کے علم ہندسہ کی ضرورت پڑتی۔ اس لئے کہ آپ کے پاس جن اور بڑے بڑے عفریت تھے جو پانی کو خواہ کتنا ہی گہرا کیوں نہ ہوتا زمین کھود کر نکال لاتے۔۔۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کیلئے ہوا کو مسخر کردیا تھا وہ صبح کے وقت ایک مہینے کی راہ تک اور شام کے وقت ایک مہینے کی راہ تک چلتی تھی ان تمام نعمتوں کے ہوتے ہوئے وہ ہد ہد کے کیسے محتاج ہوسکتے تھے؟
یہ جو موجود تفاسیر جو شہرت پا چکی ہیں ان کے سوا کوئی تفسیر معروف ہے نہ پائی جاتی ہے سب مجرد اسرائیلی روایات ہیں اور ان کے ناقلین صحیح معانی سے ان کے تناقض اور صحیح اقوال کے ساتھ ان کی تطبیق سے بے خبر ہیں۔ پھر یہ تفاسیر نقل ہوتی چلی آئیں، متاخرین متقدمین کے اعتماد پر ان کو نقل کرتے رہے حتیٰ کہ ان کے حق ہونے کا یقین آنے لگا۔ پس تفسیر میں ردی اقوال اسی طرح جگہ پاتے ہیں۔
ایک عقل مند اور ذہین شخص خوب جانتا ہے کہ یہ قرآن کریم عربی مبین میں نازل ہوا ہے جس کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ نے عالم و جاہل تمام مخلوق کو خطاب کیا ہے اور ان کو حکم دیا ہے کہ وہ اس کے معانی میں غوروفکر کریں اور ان کو معروف عربی الفاظ کے ساتھ جن کے معانی معروف ہیں تطبیق دینے کی کوشش کریں۔ جن سے اہل عرب نا واقف نہیں۔ اگر کچھ تفسیر اقوال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے علاوہ کسی اور سے منقول ہیں تو ان کو اس اصل پر پرکھنا چاہیے۔ اگر وہ اس اصل کے مطابق ہیں تو ان کو قبول کرلیا جائے کیونکہ الفاظ معانی پر دلالت کرتے ہیں۔ اگر یہ اقوال لفظ اور معنی کی مخالفت کرتے ہیں یا وہ لفظ یا معنی میں سے ایک کی مخالفت کرتے ہیں تو ان کو رد کردے اور ان کے بطلان کا یقین کرے کیونکہ اس کے پاس ایک مسلمہ اصول ہے اور یہ تفسیری اقوال اس اصول کی مخالفت کرتے ہیں اور یہ اصول ہمیں کلام کے معنی اور اس کی دلالت کے ذریعے سے معلوم ہے۔ اور محل استشہاد یہ ہے کہ حضرت سلیمان علیہ السلام کا پرندوں کا معائنہ کرنا اور ہد ہد کو مفقود پانا ان کے کمال حزم و احتیاط، تدبیر سلطنت میں ذاتی عمل دخل اور ان کی ذہانت و فطانت پر دلالت کرتا ہے، یہاں تک کہ ہد ہد جیسے چھوٹے سے پرندے کو مفقود پایا تو فرمایا : ﴿ مَا لِيَ لَا أَرَى الْهُدْهُدَ أَمْ كَانَ مِنَ الْغَائِبِينَ ﴾ ” کیا وجہ ہے کہ ہد ہد نظر نہیں آتا، کیا کہیں غائب ہوگیا ہے؟“ کیا ہد ہد کا نظر نہ آنا میری قلت فطانت کی وجہ سے ہے۔ کیونکہ وہ مخلوق کے بے شمار گروہوں میں چھپا ہوا ہے؟ یا میری بات برمحل ہے کہ وہ میری اجازت اور حکم کے بغیر غیر حاضر ہے؟
11 Mufti Taqi Usmani
aur unhon ney ( aik martaba ) parindon ki haziri li to kaha : kiya baat hai , mujhay hudhud nazar nahi aaraha , kiya woh kahen ghaeeb hogaya hai-?
12 Tafsir Ibn Kathir
ہدہد
ہدہد فوج سلیمان میں مہندس کا کام کرتا تھا وہ بتلاتا تھا کہ پانی کہاں ہے ؟ زمین کے اندر کا پانی اس کو اسطرح نظر آتا تھا جیسے کہ زمین کے اوپر کی چیز لوگوں کو نظر آتی ہے۔ جب سلیمان (علیہ السلام) جنگل میں ہوتے اس سے دریافت فرماتے کہ پانی کہاں ہے ؟ یہ بتادیتا کہ فلاں جگہ ہے۔ اتنا نیچا ہے اتنا اونچا ہے وغیرہ۔ حضرت سلیمان (علیہ السلام) اسی وقت جنات کو حکم دیتے اور کنواں کھود لیا جاتا پانی کی تلاش کا حکم دیا اتفاق سے وہ موجود نہ تھا۔ اس پر آپ نے فرمایا آج ہدہد نظر نہیں آتا کیا پرندوں میں کہیں وہ چھپ گیا جو مجھے نظر نہ آیا۔ یا واقع میں وہ حاضر نہیں ؟ ایک مرتبہ حضرت ابن عباس (رض) سے یہ تفسیر سن کر نافع بن ارزق خارجی نے اعتراض کیا تھا یہ بکواسی ہر وقت حضرت عبداللہ کی باتوں پر بےجا اعتراض کیا کرتا تھا کہنے لگا آج تو تم ہارگئے۔ حضرت عبداللہ نے فرمایا کیوں ؟ اس نے کہا آپ جو یہ فرماتے ہو کہ ہدہد زمین کے تلے کا پانی دیکھ لیتا تھا یہ کیسے صحیح ہوسکتا ہے ایک بچہ جال بچھاکر اسے مٹی سے ڈھک کر دانہ ڈال کر ہدہد کا شکار کرلیتا ہے اگر وہ زمین کے اندر کا پانی دیکھتا ہے تو زمین کے اوپر کا جال اسے کیوں نظر نہیں آتا ؟ آپ نے فرمایا اگر مجھے یہ خیال نہ ہوتا کہ تو یہ سمجھ جائے گا کہ ابن عباس (رض) لاجواب ہوگیا تو مجھے جواب کی ضرورت نہ تھی سن جس وقت قضا آجاتی ہے آنکھیں اندھی ہوجاتی ہیں اور عقل جاتی رہتی ہے۔ نافع لاجواب ہوگیا اور کہا واللہ اب میں آپ پر اعتراض نہ کرونگا۔ حضرت عبداللہ برزی ایک ولی کامل شخص تھے پیر جمعرات کا روزہ پابندی سے رکھا کرتے تھے۔ اسی سال کی عمر تھی ایک آنکھ سے کانے تھے۔ سلیمان بن زید نے ان سے آنکھ کے جانے کا سبب دریافت کیا تو آپ نے اس کے بتانے سے انکار کردیا۔ یہ بھی پیچھے پڑگئے مہینوں گذر گئے نہ وہ بتاتے نہ یہ سوال چھوڑتے آخر تنگ آکر فرمایا لو سن لو میرے پاس لولو خراسانی برزہ میں (جو دمشق کے پاس ایک شہر ہے) آئے اور مجھ سے کہا کہ میں انہیں برزہ کی وادی میں لے جاؤں میں انہیں وہاں لے گیا۔ انہوں نے انگیٹھیاں نکالیں بخور نکالے اور جلانے شروع کئے یہاں تک کہ تمام وادی خوشبو سے مہکنے لگی۔ اور ہر طرف سے سانپوں کی آمد شروع ہوگئی۔ لیکن بےپرواہی سے بیٹھے رہے کسی سانپ کی طرف التفات نہ کرتے تھے۔ تھوڑی دیر میں ایک سانپ آیا جو ہاتھ بھر کا تھا اور اسکی آنکھیں سونے کی طرح چمک رہی تھیں۔ یہ بہت ہی خوش ہوئے اور کہنے لگے اللہ کا شکر ہے ہماری سال بھر محنت ٹھکانے لگی۔ انہوں نے اس سانپ کو لے کر اس کی آنکھوں میں سلائی پھیر کر اپنی آنکھوں میں وہ سلائی پھیرلی میں نے ان سے کہا کہ میری آنکھوں میں بھی یہ سلائی پھیردو۔ انہوں نے انکار کردیا میں نے ان سے منت سماجت کی بہ مشکل وہ راضی ہوئے اور میری داہنی آنکھ میں وہ سلائی پھیر دی اب جو میں دیکھتا ہوں تو زمین مجھے ایک شیشے کی طرح معلوم ہونے لگی جیسی اوپر کی چیزیں نظر آتی تھیں ایسی ہی زمین کے اندر کی چیزیں بھی دیکھ رہا تھا انہوں نے مجھے کہا چل اب آپ ہمارے ساتھ ہی کچھ دورچلے میں نے منظور کرلیا وہ باتیں کرتے ہوئے مجھے ساتھ لئے ہوئے چلے جب میں بستی سے بہت دور نکل گیا تو دونوں نے مجھے دونوں طرف سے پکڑلیا اور ایک نے اپنی انگلی ڈال کر میری آنکھ نکالی اور اسے پھینک دیا۔ اور مجھیے یونہی بندھا ہوا وہیں پٹخ کر دونوں کہیں چل دئیے۔ اتفاقا وہاں سے ایک قافلہ گذرا اور انہوں نے مجھے اس حالت میں دیکھ کر رحم کھایا قیدوبند سے مجھے آزاد کردیا اور میں چلا آیا یہ قصہ ہے میری آنکھ کے جانے کا (ابن عساکر) حضرت سلیمان کے اس ہدہد کا نام عنبر تھا، آپ فرماتے ہیں اگر فی الواقع وہ غیر حاضر ہے تو میں اسے سخت سزادوں گا اسکے پر نچوادوں گا اور اس کو پھنک دوں گا کہ کیڑے مکوڑے کھاجائیں یا میں اسے حلال کردونگا۔ یا یہ کہ وہ اپنے غیر حاضر ہونے کی کوئی معقول وجہ پیش کردے۔ اتنے میں ہدہد آگیا جانوروں نے اسے خبردی کہ آج تیری خیر نہیں۔ بادشاہ سلامت عہد کرچکے ہیں کہ وہ تجھے مار ڈالیں گے۔ اس نے کہا یہ بیان کرو کہ آپ کے الفاظ کیا تھے ؟ انہوں نے بیان کئے تو خوش ہو کر کہنے لگا پھر تو میں بچ جاؤں گا۔ حضرت مجاہد فرماتے ہیں اس کے بچاؤ کی وجہ اس کا اپنی ماں کے ساتھ سلوک تھا۔