اور وہ کہتے ہیں کہ اگر تم سچے ہو تو (بتاؤ) یہ (عذابِ آخرت کا) وعدہ کب پورا ہوگا،
English Sahih:
And they say, "When is [the fulfillment of] this promise, if you should be truthful?"
1 Abul A'ala Maududi
وہ کہتے ہیں کہ "یہ دھمکی کب پُوری ہو گی اگر تم سچے ہو؟"
2 Ahmed Raza Khan
اور کہتے ہیں کب آئے گا یہ وعدہ اگر تم سچے ہو،
3 Ahmed Ali
اور کہتے ہیں یہ وعدہ کب ہوگا اگر تم سچے ہو
4 Ahsanul Bayan
کہتے ہیں کہ یہ وعدہ کب ہے اگر سچے ہو تو بتلا دو۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
اور کہتے ہیں کہ اگر تم سچے ہو تو یہ وعدہ کب پورا ہوگا؟
6 Muhammad Junagarhi
کہتے ہیں کہ یہ وعده کب ہے اگر سچے ہو تو بتلا دو
7 Muhammad Hussain Najafi
اور وہ کہتے ہیں کہ یہ وعدہ وعید کب پورا ہوگا؟ اگر تم سچے ہو؟
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
اور یہ لوگ کہتے ہیں کہ اگر تم سچے ہو تو یہ وعدہ آخر کب پورا ہونے والا ہے
9 Tafsir Jalalayn
اور کہتے ہیں کہ اگر تم سچے ہو تو یہ وعدہ کب پورا ہوگا
10 Tafsir as-Saadi
آخرت اور اس حق کو جھٹلانے والے جسے لے کر رسول مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مبعوث ہوئے ہیں، عذاب کے لئے جلدی مچاتے ہوئے کہتے ہیں : ﴿ مَتَىٰ هٰذَا الْوَعْدُ إِن كُنتُمْ صَادِقِينَ﴾ ” اگر تم سچے ہو تو یہ وعدہ کب پورا ہوگا؟“ یہ ان کی جہالت اور حماقت پر مبنی رائے ہے کیونکہ اس وعدے کا وقوع اور اس کا وقت اللہ تعالیٰ نے اپنی تقدیر کے مطابق مقرر کررکھا ہے۔ اس کا جلدی نہ آنا ان کے کسی مطلوب و مقصود پر دلالت نہیں کرتا۔ اس کے ساتھ ساتھ جس کے بارے میں وہ جلدی مچاتے ہیں اس کے بارے میں ڈراتے ہوئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔
11 Mufti Taqi Usmani
yeh ( tum say ) yun kehtay hain kay : yeh wada kab poora hoga , agar tum sachay ho-?
12 Tafsir Ibn Kathir
قیامت کے منکر مشرک چونکہ قیامت کے آنے کے قائل ہی نہیں۔ جرات سے اسے جلدی طلب کرتے تھے اور کہتے تھے کہ اگر سچے ہو تو بتاؤ وہ کب آئے گی۔ جناب باری کی طرف سے بواسطہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جواب مل رہا ہے کہ ممکن ہے وہ بالکل ہی قریب آگئی ہو۔ جیسے اور آیت میں ہے (عَسٰٓي اَنْ يَّكُوْنَ قَرِيْبًا 51) 17 ۔ الإسراء :51) اور جگہ ہے یہ عذابوں کو جلدی طلب کررہے ہیں اور جہنم تو کافروں کو گھیرے ہوئے ہیں۔ لکم کا لام ردف کے عجل کے معنی کو متضمن ہونے کی وجہ سے ہے۔ جیسے کہ حضرت مجاہد سے مروی ہے پھر فرمایا کہ اللہ کے تو انسانوں پر بہت ہی فضل وکرم ہیں۔ ان کی بیشمار نعمتیں ان کے پاس ہیں تاہم ان میں کے اکثر ناشکرے ہیں۔ جس طرح تمام ظاہر امور اس پر آشکارا ہیں اسی طرح تمام باطنی امور بھی اس پر ظاہر ہیں۔ جیسے فرمایا ( سَوَاۗءٌ مِّنْكُمْ مَّنْ اَسَرَّ الْقَوْلَ وَمَنْ جَهَرَ بِهٖ وَمَنْ هُوَ مُسْتَخْفٍۢ بِالَّيْلِ وَسَارِبٌۢ بِالنَّهَارِ 10) 13 ۔ الرعد :10) ، اور آیت میں ہے ( يَعْلَمُ السِّرَّ وَاَخْفٰي ) 20 ۔ طه :7) اور آیت میں ہے (اَلَا حِيْنَ يَسْتَغْشُوْنَ ثِيَابَھُمْ ۙ يَعْلَمُ مَا يُسِرُّوْنَ وَمَا يُعْلِنُوْنَ ۚ اِنَّهٗ عَلِيْمٌۢ بِذَات الصُّدُوْرِ ) 11 ۔ ھود :5) مطلب یہی ہے کہ ہر ظاہر وباطن کا وہ عالم ہے۔ پھر بیان فرماتا ہے کہ ہر غائب حاضر کا اسے علم ہے وہ علام الغیوب ہے۔ آسمان و زمین کی تمام چیزیں خواہ تم کو ان کا علم ہو یا نہ ہو اللہ کے ہاں کھلی کتاب میں لکھی ہوئی ہیں۔ جیسے فرمان ہے کہ کیا تو نہیں جانتا کہ آسمان و زمین کی ہر ایک چیز کا اللہ عالم ہے۔ سب کچھ کتاب میں موجود ہے اللہ پر سب کچھ آسان ہے۔