القصص آية ۳۳
قَالَ رَبِّ اِنِّىْ قَتَلْتُ مِنْهُمْ نَفْسًا فَاَخَافُ اَنْ يَّقْتُلُوْنِ
طاہر القادری:
(موسٰی علیہ السلام نے) عرض کیا: اے پروردگار! میں نے ان میں سے ایک شخص کو قتل کر ڈالا تھا سو میں ڈرتا ہوں کہ وہ مجھے قتل کرڈالیں گے،
English Sahih:
He said, "My Lord, indeed I killed from among them someone, and I fear they will kill me.
1 Abul A'ala Maududi
موسیٰؑ نے عرض کیا "میرے آقا، میں تو ان کا ایک آدمی قتل کر چکا ہوں، ڈرتا ہوں کہ وہ مجھے مار ڈالیں گے
2 Ahmed Raza Khan
عرض کی اے میرے رب! میں نے ان میں ایک جان مار ڈالی ہے تو ڈرتا ہوں کہ مجھے قتل کردیں،
3 Ahmed Ali
کہا اے میرے رب! میں نے ان کے ایک آدمی کو قتل کیا ہے پس میں ڈرتا ہوں کہ مجھے مارڈ الیں گے
4 Ahsanul Bayan
موسٰی (علیہ السلام) نے کہا پروردگار! میں نے ایک آدمی قتل کر دیا تھا۔ اب مجھے اندیشہ ہے کہ وہ مجھے بھی قتل کر ڈالیں گے (١)
٣٣۔١ یہ خطرہ تھا جو واقع حضرت موسیٰ علیہ السلام کی جان کو لاحق تھا، کیونکہ ان کے ہاتھوں ایک قبطی قتل ہو چکا تھا۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
موسٰی نے کہا اے پروردگار اُن میں کا ایک شخص میرے ہاتھ سے قتل ہوچکا ہے سو مجھے خوف ہے کہ وہ (کہیں) مجھ کو مار نہ ڈالیں
6 Muhammad Junagarhi
موسیٰ (علیہ السلام) نے کہا پروردگار! میں نے ان کا ایک آدمی قتل کر دیا تھا۔ اب مجھے اندیشہ ہے کہ وه مجھے بھی قتل کر ڈالیں
7 Muhammad Hussain Najafi
موسیٰ نے کہا اے میرے پروردگار! میں نے ان کا ایک آدمی قتل کیا تھا ڈرتا ہوں کہ وہ مجھے قتل کر دیں گے۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
موسٰی نے کہا کہ پروردگار میں نے ان کے ایک آدمی کو مار ڈالا ہے تو مجھے خوف ہے کہ یہ مجھے قتل کردیں گے اور کار تبلیغ رک جائے گا
9 Tafsir Jalalayn
موسیٰ نے کہا کہ اے پروردگار ان کا ایک شخص میرے ہاتھ سے قتل ہوچکا ہے سو مجھے خوف ہے کہ وہ (کہیں) مجھ کو مار نہ ڈالیں
آیت نمبر 33 تا 42
ترجمہ : موسیٰ (علیہ السلام) نے عرض کیا اے میرے پروردگار مجھ سے ان کے ایک شخص کا خون ہوگیا تھا اور وہی وہی سابق قبطی تھا مجھے اندیشہ ہے کہ کہیں اس کے عوض میں مجھے بھی قتل کر ڈالیں اور میرا بھائی ہارون مجھ سے زیادہ فصیح اللسان ہے تو اسے بھی (میرا) معاون بنا کر بھیج دیجئے ایک قرأۃ میں ردًا دال کے فتحہ کے ساتھ بغیر ہمزہ کے ہے وہ میری تائید کریں گے یُصَدِّقُنِیْ جزم کے ساتھ جواب دعاء (ارسِلْہٗ کا) اور ایک قرأۃ قاف کے رفع کے ساتھ جملہ ہو کر ردءًا کی صفت ہونے کی وجہ سے مجھے اندیشہ ہے کہ وہ لوگ میری تکذیب کریں، ارشاد ہوا ہم ابھی تمہارے بھائی کو تمہارا قوت بازو بنائے دیتے ہیں (یعنی) تم کو تقویت پہنچائے دیتے ہیں اور ہم تم کو غلبہ عطا کریں گے جس کی وجہ سے وہ تم پر بدنیتی سے دست رس نہ ہوگے ہماری نشانیاں (معجزے) لیکر جاؤ تم اور تمہارے متبعین ان پر غالب رہو گے غرض جب موسیٰ ان لوگوں کے پاس ہماری صریح نشانیاں لے کر آئے بیّنَاتٍ حال ہے ان لوگوں نے کہا یہ تو گھڑا ہوا جادو ہے اور ہم نے نہیں سنا کہ ہمارے اگلے باپ دادوں کے زمانہ میں ایسی بات ہوئی ہو، اور موسیٰ کہنے لگے میرا پروردگار اس شخص کو خوب جانتا ہے جو اس کے پاس سے ہدایت لے کر آتا ہے ایک قرأت میں واؤ کے ساتھ (وقال) ہے اور ایک میں بغیر واؤ کے (قال) (عندہ) کی ضمیر رب کی طرف راجع ہے، اور اس کو (بھی جانتا ہے) جس کے لئے آخرت میں (اچھا) انجام ہے یعنی بہتر انجام ہے آخرت میں، یعنی وہ دونوں صورتوں میں میں ہی ہوں، سو میں جو کچھ لایا ہوں میں اس میں حق پر ہوں، یقیناً ظالم لوگ فلاح نہ پائیں گے یکون میں یا اور تا دونوں قرأتیں ہیں فرعون کہنے لگا اے درباریو ! میں تو تمہارا اپنے سوا کوئی معبود نہیں جانتا، اے ہامان ! تو میری لئے مٹی کو آگ میں (پزاوا) لگوا کر پکوا یعنی پکی اینٹیں بنوا اور میرے لئے ایک اونچی عمارت بنوا اونچا محل تاکہ میں موسیٰ کے خدا کو جھانکوں اس کو دیکھوں اور اس سے واقف ہوجاؤں اور میں تو موسیٰ کو اس کے اس دعویٰ میں کہ (میرے علاوہ کوئی) دوسرا معبود ہے اور یہ کہ وہ اس کا رسول ہے جھوٹا سمجھتا ہوں اور فرعون اور اس کے لشکر نے دنیا میں ناحق سر اٹھا رکھا تھا اور یوں سمجھ رہے تھے کہ ان کو ہمارے پاس لوٹ کر آنا ہی نہیں ہے (یُرْجِعُوْنَ ) معروف اور مجہول دونوں قرأتیں ہیں سو ہم نے اس کو اور اس کے لشکر کو پکڑ کر دریا میں پھینک دیا دریائے شور میں، چناچہ وہ غرق ہوگئے سو دیکھئے ظالموں کا انجام کیسا ہوا ؟ جب وہ ہلاکت کی طرف چلے اور ہم نے ان کو دنیا میں ایسا پیشوا بنایا کہ لوگوں کو شرک کی دعوت کے ذریعہ جہنم کی طرف بلاتے تھے (أئمۃ) میں دونوں ہمزوں کی تحقیق اور دوسرے کو یا سے بدل کر، یعنی شرک میں رئیس بنایا اور قیامت کے روز ان سے عذاب دفع کرکے (مطلقاً ) مدد نہ کئے جائیں گے اور ہم نے اس دنیا میں بھی ان کے پیچھے لعنت رسوائی لگا دی اور قیامت کے روز بھی وہ دھتکارے ہوئے لوگوں میں ہوں گے۔
تحقیق، ترکیب و تفسیری فوائد
قولہ : ردْءًا اَرْسِلْہُ کی ضمیر سے حال ہے بمعنی مددگار جواب الدعاء اصل میں جواب امر کہنا چاہیے تھا مگر ادباً جواب دعاء کہا ہے اس لئے کہ اللہ تعالیٰ کے حضور میں جو امر کے صیغے استعمال ہوتے ہیں وہ دعاء ہی کہلاتے ہیں۔ قولہ : سنَشُدُّ عَضُدَکَ اس میں مجاز مرسل ہے سبب بول کر مسبب مراد لیا گیا ہے اس لئے کہ قوت باز و قوت شخص کو مستلزم ہوتی ہے۔ قولہ : باٰیٰتِنَا یہاں آیات سے عصا اور یدہی مراد ہیں مگر دو پر جمع کا صیغہ بولا گیا ہے اس لئے کہ ان میں سے ہر ایک متعدد آیات پر مشتمل تھا۔
قولہ : بَیِّنَاتٍ آیات سے حال ہے۔ قولہ : اَعْلَمُ ای عَالِمٌ اَعْلَمُ کی تفسیر عالِمٌ سے کرکے ایک سوال مقدر کا جواب دینا مقصود ہے، سوال یہ ہے کہ اسم تفضیل اسم ظاہر کو نصب نہیں دیتا، جواب کا خلاصہ یہ ہے کہ یہاں اسم تفضیل اسم فاعل کے معنی میں ہے وتکونُ عام قرّاء نے تا کے ساتھ پڑھا ہے، لہٗ تکون کی خبر اور عاقبَۃٌ اس کا اسم ہے اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ تکون کے اندر ضمیرھی اس کا اسم ہو اور لَہُ عاقبۃ الدار جملہ ہو کر محل میں خبر کے اور شِقَین شق کا تثنیہ ہے بمعنی کنارہ کے معنی دو کنارے یہاں مَنْ جاء بالھدٰی اور مَنْ یکونَ لہُ عاقبۃُ الدار مراد ہیں۔ قولہ : یَوْمَ القیٰمۃ ھم من المقبوحین یوم القیٰمۃ مقبوحین کے متعلق بھی ہوسکتا ہے مگر ظاہر یہ ہے کہ محذوف کے متعلق ہے تقدیر عبارت یہ ہے قبحوا یوم القیٰمۃِ ھم من المقبوحین، مقبوحِیْنَ قبحوا کی تفسیر کر رہا ہے مقبوحین مقبوح کی جمع ہے جس کے معنی ہیں بگڑا ہوا مطلب یہ ہے کہ قیامت کے دن ان کے چہرے مسخ ہو کر سیاہ اور آنکھیں نیلی ہوجائیں گی، مقبوح اسم مفعول (ک، ف)
تفسیر و تشریح
قال ربی انی۔۔۔ نفسا یہ ایک واقعی خطرہ تھا جو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی جان کو لاحق تھا، کیونکہ ان کے ہاتھ سے ایک قبطی کا قتل، ہوچکا تھا، اسرائیلی روایات کے اعتبار سے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی زبان میں لکنت تھی جس کی وجہ یہ بیان کی گئی ہے کہ بچپن میں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے سامنے آگ کے انگارے اور کھجوریا موتی رکھے گئے تھے تو آپ نے انگارا اٹھا کر منہ میں رکھ لیا تھا جس کی وجہ سے آپ کی زبان جل گئی تھی، رواں گفتگو نہ کرنے کی وجہ کوئی بھی ہو قرآن کریم کی نص سے یہ ثابت ہے کہ حضرت ہارون (علیہ السلام) موسیٰ (علیہ السلام) سے زیادہ فصیح الکلام تھے اور حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی زبان میں گرہ تھی جس کے کھولنے کی دعاء انہوں نے نبوت سے سرفراز ہونے کے بعد کی، حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے بارگاہ خداوندی میں حضرت ہارون (علیہ السلام) کو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا معاون و مددگار بنادیا گیا اور حکم دیدیا کہ تم دونوں فرعون اور فرعونیوں کے پاس جاؤ اور اس کے سامنے دعوت حق پیش کرو اور ڈرنے یا گھبرانے کی ضرورت نہیں ہے ہم تمہاری حفاظت فرمائیں گے فرعون اور اس کے حواری موالی تمہارا کچھ نہ بگاڑ سکیں گے۔
حضرت موسیٰ (علیہ السلام) و ہارون (علیہ السلام) فرعون کے دربار میں : ان دونوں حضرات نے فرعون اور فرعونیوں کو مدلل طریقہ پر دعوت توحید پیش کی فرعون کے تمام شکوک و شبہات کو دفع کیا فرعون جب لا جواب ہوگیا تو کٹ حجتی پر اتر آیا اور اپنے وزیر ہامان کو بلا کر حکم دیا کہ پختہ اینٹوں کی ایک نہایت ہی بلند وبالا عمارت بنواؤ میں اس پر چڑھ کر موسیٰ کے خدا کو دیکھنا چاہتا ہوں۔
بعض مفسرین نے لکھا ہے کہ فرعون کے اس واقعہ سے پہلے پختہ اینٹوں کی تعمیر کا رواج نہ تھا، پختہ اینٹ کی تعمیر فرعون کی ایجاد ہے، تاریخی روایات میں ہے کہ فرعون نے اس محل کی تعمیر کے لئے پچاس ہزار معمار جمع کئے مزدور اور لوہے لکڑی کے کام کرنے والے ان کے علاوہ تھے، اور محل کو اتنا اونچا بنایا کہ اس زمانہ میں اس سے زیادہ بلند عمارت نہیں تھی جب عمارت مکمل ہوگئی تو اللہ تعالیٰ نے جبرئیل کو حکم دیا، انہوں نے ایک ضرب میں اس محل کے تین ٹکڑے کرکے گرا دیا جس میں فرعون کے ہزاروں آدمی دب کر مرگئے۔ (قرطبی بحوالہ معارف)
10 Tafsir as-Saadi
﴿قَالَ﴾ موسیٰ علیہ السلام نے اپنے رب کے حضور معذرت کرتے، رب تعالیٰ نے جو آپ پر ذمہ داری ڈالی تھی اس پر اس سے مدد کی درخواست کرتے اور اس راستے میں پیش آنے والے موانع کا ذکر کرتے ہوئے، تاکہ ان کا رب ان تمام مشکلات کو آسان کردے۔۔۔ عرض کیا : ﴿رَبِّ إِنِّي قَتَلْتُ مِنْهُمْ نَفْسًا﴾ ” اے میرے رب ! میں نے ان کے ایک آدمی کو قتل کیا ہے۔“ یعنی ﴿فَأَخَافُ أَن يَقْتُلُونِ وَأَخِي هَارُونُ هُوَ أَفْصَحُ مِنِّي لِسَانًا فَأَرْسِلْهُ مَعِيَ رِدْءًا ﴾ ” پس مجھے خوف ہے کہ وہ کہیں مجھ کو مار نہ ڈالیں اور ہارون جو میرا بھائی ہے اس کی زبان مجھ سے زیادہ فصیح ہے تو اس کو میرے ساتھ مددگار بنا کر بھیج۔“ یعنی اس کو میرے ساتھ میرا معاون اور مددگار بنا کر بھیج۔
11 Mufti Taqi Usmani
musa ney kaha : meray perwerdigar ! mein ney unn ka aik aadmi qatal kerdiya tha , iss liye mujhay darr hai kay woh mujhay qatal naa kerden .
12 Tafsir Ibn Kathir
یاد ماضی
یہ گزر چکا کہ حضرت موسیٰ فرعون سے خوف کھاکر اس کے شہر سے بھاگ نکلے تھے۔ جب اللہ تعالیٰ نے وہیں اسی کے پاس نبی بن کر جانے کو فرمایا تو آپ کو وہ سب یاد آگیا اور عرض کرنے لگے اے اللہ ان کے ایک آدمی کی جان میرے ہاتھ سے نکل گئی تھی تو ایسانہ ہو کہ وہ بدلے کا نام رکھ کر میرے قتل کے درپے ہوجائیں۔ حضرت موسیٰ نے بچپن کے زمانے میں جب کہ آپ کے سامنے بطور تجربہ کے ایک آگ اور ایک کھجور یا یک موتی رکھا تھا تو آپ نے انگارہ پکڑلیا تھا اور منہ میں ڈال لیا تھا اس واسطے آپ کی زبان میں کچھ کسر رہ گئی تھی اور اسی لیے آپ نے اپنی زبان کی بابت اللہ سے دعا مانگی تھی کہ میری زبان کی گرہ کھول دے تاکہ لوگ میری بات سمجھ سکیں اور میرے بھائی ہارون کو میرا وزیر بنادے اس سے میرا بازو مضبوط کر اور اسے میرے کام میں شریک کر تاکہ نبوت و رسالت کا فریضہ ادا ہو اور تیرے بندوں کو تیری کبریائی کی دعوت دے سکیں۔ یہاں بھی آپ کی دعا منقول ہے کہ آپ نے فرمایا میرے بھائی ہارون کو میرے ساتھ ہی اپنا رسول بناکر بھیجیں وہ میرا معین و وزیر ہوجائے۔ وہ میری باتوں کو باور کرے تاکہ میرا بازو مضبوط رہے دل بڑھا ہوا رہے۔ اور یہ بھی بات ہے کہ دو آوازیں بہ نسبت ایک آواز کے زیادہ مضبوط اور با اثر ہوتی ہیں۔ میں اکیلا رہا تو ڈر ہے کہ کہیں وہ مجھے جھٹلا نہ دیں اور ہارون ساتھ ہوا تو میری باتیں بھی لوگوں کو سمجھا دیا کرے گا۔ جناب باری ارحم الراحمین نے جواب دیا کہ تیری مانگ منظور ہے ہم تیرے بھائی کو تجھ کو سہارادیں گے اور اسے بھی تیرے ساتھ نبی بنادیں گے۔ جیسے اور آیت میں ہے ( قَالَ قَدْ اُوْتِيْتَ سُؤْلَكَ يٰمُوْسٰى 36 ۔ ) 20 ۔ طه :36) موسیٰ تیرا سوال پورا کردیا گیا۔ اور آیت میں ہے ہم نے اپنی رحمت سے اسے اس کے بھائی ہارون کو نبی بنادیا۔ اسی لئے بعض اسلاف کا فرمان ہے کہ کسی بھائی نے اپنے بھائی پر وہ احسان نہیں کیا جو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے حضرت ہارون پر کیا کہ اللہ سے دعا کرکے انہیں نبی بنوادیا۔ یہ موسیٰ (علیہ السلام) کی بڑی بزرگی کی دلیل ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کی ایسی دعا بھی رد نہ کی۔ واقعی آپ اللہ کے نزدیک بڑے ہی مرتبہ والے تھے۔ پھر فرماتا ہے کہ ہم تم دونوں کو زبردست دلیلیں اور کام حجتیں دیں گے فرعونی تمہیں کوئی ایذاء نہیں دے سکتے۔ کیونکہ تم میرا پیغام میرے بندوں کے نام پہنچانے والے ہو۔ ایسوں کو میں خود دشمنوں سے سنبھالتا ہوں۔ ان کا مددگار اور مؤید میں خود بن جاتا ہوں۔ انجام کار تم اور تمہارے ماننے والے ہی غالب آئیں گے۔ جیسے فرمان ہے اللہ لکھ چکا ہے میں اور میرے رسول ہی غالب آئیں گے۔ اللہ تعالیٰ قوت والا عزت والا ہے۔ اور آیت میں ہے ( اِنَّا لَنَنْصُرُ رُسُلَنَا وَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا فِي الْحَيٰوةِ الدُّنْيَا وَيَوْمَ يَقُوْمُ الْاَشْهَادُ 51ۙ ) 40 ۔ غافر :51) ہم اپنے رسولوں اور ایمان والوں کی دنیا کی زندگی میں بھی مدد کرتے ہیں۔ ابن جریر کے نزدیک آیت کا ترجمہ یہ ہے کہ ہمارے دئیے ہوئے غلبہ کی وجہ سے فرعونی تمہیں تکلیف نہ پہنچاسکیں گے اور ہماری دی ہوئی نشانیوں کی وجہ سے غلبہ صرف تمہیں ہی حاصل ہوگا۔ لیکن پہلے جو مطلب بیان ہوا ہے اس سے بھی یہی ثابت ہے تو اس کی کوئی حاجت ہی نہیں۔ واللہ اعلم۔