اور اللہ نے بدر میں تمہاری مدد فرمائی حالانکہ تم (اس وقت) بالکل بے سرو سامان تھے پس اللہ سے ڈرا کرو تاکہ تم شکر گزار بن جاؤ،
English Sahih:
And already had Allah given you victory at [the battle of] Badr while you were weak [i.e., few in number]. Then fear Allah; perhaps you will be grateful.
1 Abul A'ala Maududi
آخر اس سے پہلے جنگ بدر میں اللہ تمہاری مدد کر چکا تھا حالانکہ اس وقت تم بہت کمزور تھے لہٰذا تم کو چاہیے کہ اللہ کی ناشکر ی سے بچو، امید ہے کہ اب تم شکر گزار بنو گے
2 Ahmed Raza Khan
اور بیشک اللہ نے بدر میں تمہاری مدد کی جب تم بالکل بے سر و سامان تھے تو اللہ سے ڈرو کہیں تم شکر گزار ہو،
3 Ahmed Ali
اور الله بدر کی لڑائی میں تمہاری مدد کر چکا ہے حالانکہ تم کمزور تھے پس الله سے ڈرو تاکہ تم شکر کرو
4 Ahsanul Bayan
جنگ بدر میں اللہ تعالٰی نے عین اس وقت تمہاری مدد فرمائی تھی جب کہ تم نہایت گری ہوئی حالت میں تھے اس لیے اللہ ہی سے ڈرو! (نہ کسی اور سے) تاکہ تمہیں شکر گزاری کی توفیق ہو۔
١٢٣۔١ بہ اعتبار قلت تعداد اور قلت سامان کے، کیونکہ جنگ بدر میں مسلمان ٣١٣ تھے اور یہ بھی بےسرو سامان۔ صرف دو گھوڑے اور ستّر اونٹ تھے باقی سب پیدل تھے (ابن کثیر)
5 Fateh Muhammad Jalandhry
اور خدا نے جنگِ بدر میں بھی تمہاری مدد کی تھی اور اس وقت بھی تم بے سرو وسامان تھے پس خدا سے ڈرو (اور ان احسانوں کو یاد کرو) تاکہ شکر کرو
6 Muhammad Junagarhi
جنگ بدر میں اللہ تعالیٰ نے عین اس وقت تمہاری مدد فرمائی تھی جب کہ تم نہایت گری ہوئی حالت میں تھے، اس لئے اللہ ہی سے ڈرو! (نہ کسی اور سے) تاکہ تمہیں شکر گزاری کی توفیق ہو
7 Muhammad Hussain Najafi
بے شک (اس سے پہلے) جنگ بدر میں اللہ تمہاری مدد کر چکا تھا حالانکہ تم (اس وقت) بہت کمزور تھے سو اللہ کی نافرمانی سے ڈرو۔ تاکہ تم شکرگزار بنو۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
اور اللہ نے بدر میں تمہاری مدد کی ہے جب کہ تم کمزور تھے لہذا اللہ سے ڈرو شاید تم شکر گزار بن جاؤ
9 Tafsir Jalalayn
اور خدا نے جنگ بدر میں بھی تمہاری مدد کی تھی اور اس وقت بھی تم بےسروسامان تھے پس خدا سے ڈرو (اور ان احسانوں کو یاد کرو) تاکہ شکر کرو وَلَقَدْ نَصَرَکُمُ اللہُ بِبَدْرٍ وَّاآ۔ نْتُمْ اَذِلَّۃٌ (الآیۃ) مسلمان بدر کی جانب محض قریش کے قافلہ پر جو غیر مسلح تھا چھاپہ مارنے نکلا تھا اس لیے کہ قریش مکہ نے یہ طے کیا تھا کہ اس قافلہ کی تجارت سے جو آمدنی ہوگی وہ مسلمانوں کے خلاف جنگ کی تیاری میں صرف کی جائے گی اسی غرض کے پیش نظر اہل مکہ نے اس قافلہ کی تجارت میں زیادہ سے زیادہ سرمایہ لگانے کی کوشش کی تھی، اسی لیے مسلمانوں نے اس قافلہ پر چھاپہ مار کر پورا مال ضبط کرنے کی کوشش کی اور یہ جنگی اصول کے عین مطابق ہے اور موجودہ دور میں بھی یہی سب کچھ ہوتا ہے، بلکہ صرف بہانہ بنا کر لوگوں اور حکومتوں کے غیر جنگی سامان کو، جنگی سامان بتا کر ضبط کرلیا جاتا ہے۔ غزوہ بدر کا خلاصہ اور اس کی اہمیت : بدر، مدینہ منورہ سے جنوب مغرب میں تقریباً بیس میل کے فاصلہ پر ایک کنویں کا نام ہے دراصل یہ کنواں بدر نامی ایک شخص کی ملکیت تھا اسی شخص کے نام سے اس کنویں کا نام بھی بدر ہوگیا، اس وقت اس کو اہمیت اس لیے حاصل تھی کہ یہاں پانی کی افراط تھی ساحل بحر احمر سے ایک منزل پڑاؤ اور منڈی کا نام ہے یہ مقام شام، مدینہ اور مکہ کی سڑکوں کا تراہا تھا اور قریش کے تجارتی قافلے اسی راستہ سے آمدورفت کرتے تھے۔ توحید اور شرک کے درمیان یہیں سے پہلا معرکہ ١٧ رمضان بروز جمعہ ٦ ھ مطابق ١١ مارچ ٦٢٤ ء کو پیش آیا تھا۔ اس غزوہ نے دنیا کی تاریخ میں ایک عظیم الشان انقلاب پیدا کردیا۔ فرنگی مؤرخوں نے بھی اس کی اہمیت کا اقرار کیا ہے۔ ہسٹورنیس ہسٹری آف دی ورلڈ میں ہے ” فتوحات اسلامی کے سلسلہ میں جنگ بدر انتہائی اہمیت رکھتی ہے “ جلد ٨ ص ١٢٢ (ماجدی) اور امریکی پروفیسر ہٹی (HATTI) کی ” ہسٹری آف دی عربس “ میں ہے، یہ اسلام کی سب سے پہلی فتح مبین تھی۔ (ص ١١٧) مشرکین مکہ کے لشکر کی تعداد اور ان کے مسلح ہونے کی صورت حال کو سن کر مسلمانوں کی صفوں میں گھبراہٹ اور تشویش اور جوش کا ملا جلا ردعمل ہونا ایک قدرتی بات تھی اور ہوا بھی، اور انہوں نے اللہ تعالیٰ سے دعاء اور فریاد کی۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے پہلے ایک ہزار فرشتے اتارے اور مزید کا یہ وعدہ کیا کہ اگر تم صبر وتقویٰ پر قائم رہے تو فرشتوں کی یہ تعداد پانچ ہزار کردی جائے گی۔ کہا جاتا ہے کہ چونکہ مشرکین کا جوش و غضب برقرار نہ رہ سکا اس لیے حسب بشارت تین ہزار فرشتے اتارے گئے اور پانچ ہزار کی تعداد پوری کرنے کی ضرورت پیش نہیں آئی اور بعض مفسرین کہتے ہیں کہ یہ مقدار پوری کی گئی فرشتوں کو نازل کرنے کا مقصد براہ راست لڑائی میں حصہ لینا نہیں تھا بلکہ محض حوصلہ افزائی مقصود تھی ورنہ اگر فرشتوں کے ذریعہ مشرکوں کو ہلاک کرانا ہوتا تو اتنے فرشتے نازل کرنے کی ضرورت نہیں تھے ایک فرشتہ ہی سب کو ختم کردیتا۔ ایک فرشتہ حضرت جبرئیل (علیہ السلام) نے حضرت لوط (علیہ السلام) کی پوری بستی کو تہس نہس کرکے ہلاک کردیا تھا، چونکہ یہ جہاد کا مسئلہ تھا اور جہاد انسانوں ہی کو کرنا ہوتا ہے کہ وہ اجر وثواب کے مستحق ہو سکیں فرشتوں کا کام صرف ہمت افزائی اور حوصلہ بڑھنا تھا جو پورا ہوا۔
10 Tafsir as-Saadi
ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے اپنے مومن بندوں کو اپنا احسان یاد دلایا ہے، اور انہیں اپنی وہ مدد یا ددلائی ہے جو بدر کے موقع پر ہوئی۔ جب وہ کمزور تھے، ان کی تعداد بھی کم تھی، اور سامان بھی۔ جبکہ دشمنوں کی تعداد اور سامان جنگ کی مقدار بہت زیادہ تھی۔ غزوہ بدر ہجرت کے دوسرے سال واقع ہوا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ منورہ سے تین سو دس سے چند افراد زیادہ کی تعداد میں اپنے صحابہ کے ہمراہ روانہ ہوئے۔ ان کے پاس صرف ستر اونٹ اور دو گھوڑے تھے۔ آپ قریش کے تجارتی قافلہ کے تعاقب میں نکلے تھے۔ جو شام سے آرہا تھا۔ مشرکین کو اطلاع ملی تو وہ اپنے قافلے کو بچانے کے لیے پوری طرح تیار ہو کر مکہ مکرمہ سے نکلے۔ وہ تقریباً ایک ہزار جنگ جو تھے جن کے پاس مکمل سامان رسد، بکثرت ہتھیار اور بہت سے گھوڑے موجود تھے۔ ان کا مسلمانوں سے آمنا سامنا ایک چشمے کے پاس ہوا، جسے ” بدر“ کہتے تھے۔ یہ مکہ اور مدینہ کے درمیان واقع ہے۔ جنگ ہوئی تو اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کی عظیم مدد فرمائی۔ چنانچہ انہوں نے مشرکین کے ستر بہادر سردار قتل کئے اور ستر کو جنگی قیدی بنایا اور ان کی لشکر گاہ پر قبضہ کرلیا۔ جیسے سورۃ انفال میں انشاء اللہ بیان ہوگا۔ اس کی تفصیل کا اصل مقام وہی ہے۔ یہاں اللہ تعالیٰ نے اس کا ذکر صرف اس لیے کیا ہے کہ مسلمان اس سے نصیحت حاصل کرتے ہوئے اللہ کا تقویٰ اختیار کریں اور اس کا شکر کریں۔ اس لیے فرمایا : ﴿فَاتَّقُوا اللَّـهَ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ ﴾ ” اللہ ہی سے ڈرو، تاکہ تم شکر گزار بن جاؤ“ کیونکہ جو شخص اللہ سے ڈرتا ہے وہی اس کا شکر ادا کرتا ہے۔ جو تقویٰ ترک کردیتا ہے، وہ شکر گزار نہیں ہوتا۔
11 Mufti Taqi Usmani
Allah ney to ( jang ) badar kay moaqa per aesi halat mein tumhari madad ki thi jab tum bilkul bey sar-o-saman thay . lehaza ( sirf ) Allah ka khof dil mein rakho , takay tum shukar guzaar ban sako .