(اے حبیب! یوں) عرض کیجئے: اے اﷲ، سلطنت کے مالک! تُو جسے چاہے سلطنت عطا فرما دے اور جس سے چاہے سلطنت چھین لے اور تُو جسے چاہے عزت عطا فرما دے اور جسے چاہے ذلّت دے، ساری بھلائی تیرے ہی دستِ قدرت میں ہے، بیشک تُو ہر چیز پر بڑی قدرت والا ہے،
English Sahih:
Say, "O Allah, Owner of Sovereignty, You give sovereignty to whom You will and You take sovereignty away from whom You will. You honor whom You will and You humble whom You will. In Your hand is [all] good. Indeed, You are over all things competent.
1 Abul A'ala Maududi
کہو! خدایا! مُلک کے مالک! تو جسے چاہے، حکومت دے اور جسے چاہے، چھین لے جسے چاہے، عزت بخشے اور جس کو چاہے، ذلیل کر دے بھلائی تیرے اختیار میں ہے بیشک تو ہر چیز پر قادر ہے
2 Ahmed Raza Khan
یوں عرض کر، اے اللہ! ملک کے مالک تو جسے چاہے سلطنت دے اور جس سے چاہے چھین لے، اور جسے چاہے عزت دے اور جسے چاہے ذلت دے، ساری بھلائی تیرے ہی ہاتھ ہے، بیشک تو سب کچھ کرسکتا ہے
3 Ahmed Ali
تو کہہ اے الله! بادشاہی کے مالک! جسے تو چاہتا ہے سلطنت دیتاہے اور جس سے چاہتا ہے سلطنت چھین لیتا ہے جسے تو چاہتا ہے عزت دیتا ہے اور جسے توچاہے ذلیل کرتا ہے سب خوبی تیرے ہاتھ میں ہے بے شک تو ہر چیز قادر ہے
4 Ahsanul Bayan
آپ کہہ دیجئے اے اللہ! اے تمام جہان کے مالک! تو جسے چاہے بادشاہی دے جس سے چاہے سلطنت چھین لے تو جسے چاہے ذلت دے، تیرے ہی ہاتھ میں سب بھلائیاں ہیں (١) بیشک تو ہرچیز پر قادر ہے۔
٢٦۔١ اس آیت میں اللہ تعالٰی کی بےپناہ قوت وطاقت کا اظہار ہے شاہ کو گدا بنا دے، گدا کو شاہ بنا دے، تمام اختیارات کا مالک ہے یعنی تمام بھلائیاں صرف تیرے ہی ہاتھ میں ہیں تیرے سوا کوئی بھلائی دینے والا نہیں شرکاء خالق بھی اگرچہ اللہ تعالٰی ہی ہے۔ لیکن ذکر صرف خیر کا کیا گیا ہے شر کا نہیں اس لئے کہ خیر اللہ کا فضل محض ہے بخلاف شر کے یہ انسان کے اپنے عمل کا بدلہ ہے جو اسے پہنچتا ہے یا اسلئے کہ شر بھی اس کے قضا وقدر کا حصہ ہے جو خیر کو متضمن ہے اس اعتبار سے اس کے تمام افعال خیر ہیں (فتح القدیر)
5 Fateh Muhammad Jalandhry
کہو کہ اے خدا (اے) بادشاہی کے مالک تو جس کو چاہے بادشاہی بخشے اور جس سے چاہے بادشاہی چھین لے اور جس کو چاہے عزت دے اور جسے چاہے ذلیل کرے ہر طرح کی بھلائی تیرے ہی ہاتھ ہے اور بے شک تو ہر چیز پر قادر ہے
6 Muhammad Junagarhi
آپ کہہ دیجئے اے اللہ! اے تمام جہان کے مالک! تو جسے چاہے بادشاہی دے اور جس سے چاہے سلطنت چھین لے اور تو جسے چاہے عزت دے اورجسے چاہے ذلت دے، تیرے ہی ہاتھ میں سب بھلائیاں ہیں، بے شک تو ہر چیز پر قادر ہے
7 Muhammad Hussain Najafi
(اے رسول(ص)!) کہو: اے خدا تمام جہان کے مالک! تو جسے چاہتا ہے حکومت دیتا ہے اور جس سے چاہتا ہے حکومت چھین لیتا ہے۔ تو جسے چاہتا ہے عزت دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے ذلیل کرتا ہے، ہر قسم کی بھلائی تیرے قبضہ میں ہے۔ بے شک تو ہر چیز پر قادر ہے۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
پیغمبر آپ کہئے کہ خدایا تو صاحب هاقتدار ہے جس کو چاہتا ہے اقتدار دیتا ہے اور جس سے چاہتا ہے سلب کرلیتا ہے- جس کو چاہتا ہے عزّت دیتا ہے اور جس کو چاہتا ہے ذلیل کرتا ہے- سارا خیر تیرے ہاتھ میں ہے اور تو ہی ہر شے پر قادر ہے
9 Tafsir Jalalayn
اور کہیے کہ اے خدا (اے) بادشاہی کے مالک تو جس کو چاہے بادشاہی بخش دے اور جس سے چاہے بادشاہی چھین لے اور جس کو چاہے عزت دے اور جسے چاہے ذلیل کرے ہر طرح کی بھلائی تیرے ہی ہاتھ ہے (اور) بیشک تو ہر چیز پر قادر ہے
10 Tafsir as-Saadi
اللہ تعالیٰ اپنے نبی سے فرماتا ہے کہ کہہ دیجیے﴿اللَّـهُمَّ مَالِكَ الْمُلْكِ﴾” اے اللہ ! بادشاہی کے مالک“ یعنی تو بادشاہ ہے جو تمام ملکوں کا مالک ہے۔ بادشاہ کی صفت علی الاطلاق تیرے لئے ہے اور آسمان کی اور زمین کی تمام سلطنت تیری ہی ہے۔ اس میں تبدیلیاں لانا اور انتظام کرنا سب تیرے ہاتھ میں ہے۔ پھر چند تبدیلیاں ذکر کی ہیں جو اکیلے باری تعالیٰ کے اختیار میں ہیں۔ فرمایا﴿ تُؤْتِي الْمُلْكَ مَن تَشَاءُ وَتَنزِعُ الْمُلْكَ مِمَّن تَشَاءُ﴾” تو جسے چاہے بادشاہی دے اور جس سے چاہے سلطنت چھین لے“ اس میں اشارہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ایران کے کسریٰ بادشاہوں سے، اور روم کے قیصر بادشاہوں سے اور ان کے پیرو کاروں سے حکومت چھین کر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو عطا فرمائے گا۔ چنانچہ ایسے ہی ہوا۔ واللہ الحمد۔ لہٰذا حکومت کا مل جانا یا چھن جانا اللہ کی مشیت سے ہوتا ہے۔ یہ فرمان اللہ کی اس سنت کے خلاف نہیں جو اس نے کچھ تکوینی اور دینی اسباب قائم کر رکھے ہیں جن کی وجہ سے حکومت باقی رہتی، ملتی اور ختم ہوجاتی ہے۔ یہ اسباب بھی اللہ کی مشیت کے تابع ہیں۔ کوئی سبب مستقل بالذات نہیں۔ بلکہ تمام اسباب قضاء، و قدر کے تحت ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے بادشاہی کے حصول کے جو اسباب مقرر کئے ہیں ان میں ایمان اور عمل صالح بھی ہیں۔ اس مقصد کے لئے چند ضروری اعمال صالحہ یہ ہیں : مسلمانوں کا اتفاق و اتحاد، جو آلات تیار کرنے اور حاصل کرنے ممکن ہوں، جمع کرنا، صبر و ثبات، باہمی تنازعات سے پرہیز۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ﴿وَعَدَ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنْكُمْ وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِي الْأَرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِينَ مِنْ قَبْلِهِمْ﴾ (النور :24؍55) ” تم میں سے جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کئے، اللہ نے ان سے وعدہ کیا ہے کہ وہ انہیں زمین میں ضرور خلیفہ بنائے گا، جس طرح ان سے پہلے لوگوں کو خلیفہ بنایا تھا“ اللہ نے بتایا ہے کہ مذکورہ خلافت کے حصول کی شرط ایمان اور عمل صالح ہے اور فرمایا ﴿وَأَلَّفَ بَيْنَ قُلُوبِهِمْ ۚ لَوْ أَنفَقْتَ مَا فِي الْأَرْضِ جَمِيعًا مَّا أَلَّفْتَ بَيْنَ قُلُوبِهِمْ﴾ (الانفال :8؍62-63) ” وہی ہے جس نے آپ کو اپنی مدد کے ساتھ اور مومنوں کے ساتھ قوت بخشی اور ان کے دلوں میں محبت ڈال دی“ اور فرمایا ﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا لَقِيتُمْ فِئَةً فَاثْبُتُوا وَاذْكُرُوا اللَّـهَ كَثِيرًا لَّعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ - وَأَطِيعُوا اللَّـهَ وَرَسُولَهُ وَلَا تَنَازَعُوا فَتَفْشَلُوا وَتَذْهَبَ رِيحُكُمْ ۖ وَاصْبِرُوا ۚ إِنَّ اللَّـهَ مَعَ الصَّابِرِينَ﴾ (الانفال :8؍45-46) ” اے مومنو ! جب تم کسی جماعت کا سامنا کرو تو ثابت قدم رہو، اور اللہ کو بہت یاد کرو، تاکہ تم کامیاب ہوجاؤ اور اللہ کی اطاعت کرو اور اس کے رسول کی اور جھگڑا نہ کرو، ورنہ تم بزدل ہوجاؤ گے اور تمہاری ہوا اکھڑ جائے گی اور صبر کرو۔ یقیناً اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔“ یعنی اللہ نے بتایا ہے کہ مومنوں کی باہمی محبت، ثابت قدمی اور اتفاق دشمنوں پر فتح کا باعث ہے۔ اگر آپ مسلمان ملکوں کے حالات پر غور کریں تو ان کی سلطنت ختم ہونے کا بڑا سبب دین سے دوری اور باہمی افتراق ہے جس سے دشمنوں کو حوصلہ ہوا اور ان کے درمیان لڑائی ڈال دی۔ پھر اللہ نے فرمایا: ﴿وَتُعِزُّ مَن تَشَاءُ﴾” تو جسے چاہے (اپنی اطاعت کی وجہ سے) عزت دے“ ﴿وَتُذِلُّ مَن تَشَاءُ﴾ ” اور جسے چاہے (معصیت کی وجہ سے) ذلت دے“ ﴿إِنَّكَ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ﴾ ” بے شک تو ہر چیز پر قادر ہے۔“ کوئی چیز تیرے حکم سے سرتابی نہیں کرسکتی۔ بلکہ سب کچھ تیری قدرت اور مشیت کے تحت ہے
11 Mufti Taqi Usmani
kaho kay : aey Allah ! aey iqtidar kay malik ! to jiss ko chahta hai iqtidar bakhshta hai , aur jiss say chahta hai iqtidar cheen leta hai , aur jiss ko chahta hai izzat bakhshta hai aur jiss ko chahta hai ruswa ker deta hai , tamam tarr bhalai teray hi haath mein hai . yaqeenan tu her cheez per qadir hai .
12 Tafsir Ibn Kathir
مالک الملک کی حمد وثناء اللہ تبارک و تعالیٰ فرماتا ہے کہ اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنے رب کی تعظیم کرنے اور اس کا شکریہ بجا لانے اور اسے اپنے تمام کام سونپنے اور اس کی ذات پاک پر پورے بھروسہ کا اظہار کرنے کے لئے ان الفاظ میں اس کی اعلیٰ صفات بیان کیجئے جو اوپر بیان ہوئی ہیں۔ یعنی اے اللہ تو مالک الملک ہے، تیری ملکیت میں تمام ملک ہے، جسے تو چاہے حکومت دے اور جس سے چاہے اپنا دیا ہوا واپس لے لے، تو ہی دینے اور لینے والا ہے تو جو چاہتا ہے ہوجاتا ہے اور جو نہ چاہے ہو ہی نہیں سکتا، اس آیت میں اس بات کی بھی تنبیہہ اور اس نعمت کے شکر کا بھی حکم ہے جو آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کی امت کو مرحمت فرمائی گئی کہ بنی اسرائیل سے ہٹا کر نبوت نبی عربی قریشی امی مکی حضرت محمد مصطفیٰ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو دے دی گئی اور آپ کو مطلقاً نبیوں کے ختم کرنے والے اور تمام انس و جن کی طرف رسول بن کر آنے والے بنا کر بھیجا، تمام سابقہ انبیاء کی خوبیاں آپ میں جمع کردیں بلکہ ایسی فضیلتیں آپ کو دی گئیں جن سے اور تمام انبیاء بھی محروم رہے خواہ وہ اللہ کے علم کی بابت ہوں یا اس رب کی شریعت کے معاملہ میں ہوں یا گذشتہ اور آنے والی خبروں کے متعلق ہوں، آپ پر اللہ تعالیٰ نے آخرت کے کل حقائق کھول دئیے، آپ کی امت کو مشرق مغرب تک پھیلا دیا آپ نے دن اور آپ کی شریعت کو تمام دینوں اور کل مذہبوں پر غالب کردیا، اللہ تعالیٰ کا درود وسلام آپ پر نازل ہو اب سے لے کر قیامت تک جب تک رات دن کی گردش بھی رہے اللہ آپ پر اپنی رحمتیں دوام کے ساتھ نازل فرماتا رہے۔ آمین، پس فرمایا کہو اے اللہ تو ہی اپنی خلق میں ہیر پھیر کرتا رہتا ہے جو چاہے کر گزرتا ہے، جو لوگ کہتے تھے کہ ان دو بستیوں میں سے کسی بہت بڑے شخص پر اللہ نے اپنا کلام کیوں نازل نہ کیا اس کی تردید کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا آیت (اَهُمْ يَــقْسِمُوْنَ رَحْمَتَ رَبِّكَ ) 43 ۔ الزخرف :32) کیا تیرے رب کی رحمت کو بانٹنے والے یہ لوگ ہیں، جب ان کے رزق تک کے مالک ہم ہیں جسے چاہیں کم دیں جسے چاہیں زیادہ دیں تو پھر ہم پر حکومت کرنے والے یہ کون ؟ کہ فلاں کو نبی کیوں نہ بنایا ؟ نبوت بھی ہماری ملکیت کی چیز ہے ہم ہی جانتے ہیں کہ اس کے دئیے جانے کے قابل کون ہے ؟ جیسے اور جگہ ہے آیت (اَللّٰهُ اَعْلَمُ حَيْثُ يَجْعَلُ رِسَالَتَهٗ ) 6 ۔ الانعام :124) جہاں کہیں اللہ تعالیٰ اپنی رسالت نازل فرماتا ہے اسے وہی سب سے بہتر جانتا ہے، اور جگہ فرمایا (آیت انظر کیف فضلنا بعضھم علی بعض) دیکھ لے کہ ہم نے کسی طرح ان میں آپس میں ایک کو دوسرے پر برتری دے رکھی ہے، پھر فرماتا ہے کہ تو ہی رات کی زیادتی کو دن کے نقصان میں بڑھا کر دن رات کو برابر کردیتا ہے، زمین و آسمان پر سورج چاند پر پورا پورا قبضہ اور تمام تر تصرف تیرا ہی ہے، اسی طرح جاڑے کی گرمی اور گرمی کو جاڑے سے بدلنا بھی تیری قدرت میں ہے، بہارو خزاں پر قادر تو ہی ہے۔ تو ہی ہے کہ زندہ سے مردہ کو اور مردہ سے زندہ کو نکالے کھیتی سے دانے اگاتا ہے اور دانہ سے کھیتوں کو لہلہاتا ہے، کھجور گٹھلی سے اور گٹھلی کھجور سے تو ہی پیدا کرتا ہے مومن کو کافر کے ہاں اور کافر کو مومن کے ہاں تو ہی پیدا کرتا ہے، مرغی انڈے سے اور انڈا مرغی سے اور اسی طرح کی تمام تر چیزیں تیرے ہی قبضہ میں ہیں، تو جسے چاہے اتنا مال دے دے جو نہ گنا جائے نہ احاطہ کیا جائے اور جسے چاہے بھوک کے برابر روٹی بھی نہ دے، ہم مانتے ہیں کہ یہ کام حکمت سے پر ہیں اور تیرے ارادے اور تیری چاہت سے ہی ہوتے ہیں، طبرانی کی حدیث میں ہے اللہ کا اسم اعظم اس (آیت قل اللھم الخ، ) میں ہے کہ جب اس نام سے اس سے دعا کی جائے تو وہ قبول فرما لیتا ہے۔