آل عمران آية ۵۵
اِذْ قَالَ اللّٰهُ يٰعِيْسٰۤى اِنِّىْ مُتَوَفِّيْكَ وَرَافِعُكَ اِلَىَّ وَمُطَهِّرُكَ مِنَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا وَجَاعِلُ الَّذِيْنَ اتَّبَعُوْكَ فَوْقَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْۤا اِلٰى يَوْمِ الْقِيٰمَةِ ۚ ثُمَّ اِلَىَّ مَرْجِعُكُمْ فَاَحْكُمُ بَيْنَكُمْ فِيْمَا كُنْتُمْ فِيْهِ تَخْتَلِفُوْنَ
طاہر القادری:
جب اﷲ نے فرمایا: اے عیسٰی! بیشک میں تمہیں پوری عمر تک پہنچانے والا ہوں اور تمہیں اپنی طرف (آسمان پر) اٹھانے والا ہوں اور تمہیں کافروں سے نجات دلانے والا ہوں اور تمہارے پیروکاروں کو (ان) کافروں پر قیامت تک برتری دینے والا ہوں، پھر تمہیں میری ہی طرف لوٹ کر آنا ہے سو جن باتوں میں تم جھگڑتے تھے میں تمہارے درمیان ان کا فیصلہ کر دوں گا،
English Sahih:
[Mention] when Allah said, "O Jesus, indeed I will take you and raise you to Myself and purify [i.e., free] you from those who disbelieve and make those who follow you [in submission to Allah alone] superior to those who disbelieve until the Day of Resurrection. Then to Me is your return, and I will judge between you concerning that in which you used to differ.
1 Abul A'ala Maududi
(وہ اللہ کی خفیہ تدبیر ہی تھی) جب اُس نے کہا کہ، "اے عیسیٰؑ! اب میں تجھے واپس لے لوں گا اور تجھ کو اپنی طرف اٹھا لوں گا اور جنہوں نے تیرا انکار کیا ہے اُن سے (یعنی ان کی معیت سے اور ان کے گندے ماحول میں ان کے ساتھ رہنے سے) تجھے پاک کر دوں گا اور تیری پیروی کرنے والوں کو قیامت تک ان لوگوں پر بالادست رکھوں گا جنہوں نے تیرا انکار کیا ہے پھر تم سب کو آخر میرے پاس آنا ہے، اُس وقت میں اُن باتوں کا فیصلہ کر دوں گا جن میں تمہارے درمیان اختلاف ہوا ہے
2 Ahmed Raza Khan
یاد کرو جب اللہ نے فرمایا اے عیسیٰ میں تجھے پوری عمر تک پہنچاؤں گا اور تجھے اپنی طرف اٹھالوں گا اور تجھے کافروں سے پاک کردوں گا اور تیرے پیروؤں کو قیامت تک تیرے منکروں پر غلبہ دوں گا پھر تم سب میری طرف پلٹ کر آؤ گے تو میں تم میں فیصلہ فرمادوں گا جس بات میں جھگڑتے ہو،
3 Ahmed Ali
جس وقت الله نے فرمایا اے عیسیٰ! بے شک میں تمہیں وفات دینے والا ہوں اور تمہیں اپنی طرف اٹھانے والا ہوں اور تمہیں کافروں سے پاک کرنے والا ہوں اور جو لوگ تیرے تابعدار ہوں گے انہیں ان لوگوں پر قیامت کے دن تک غالب رکھنے والا ہوں جو تیرے منکر ہیں پھر تم سب کو میری طرف لوٹ کر آنا ہوگا پھر میں تم میں فیصلہ کروں گا جس بات میں تم جھگڑتے تھے
4 Ahsanul Bayan
جب اللہ تعالٰی نے فرمایا کہ اے عیسیٰ! میں تجھے پورا لینے والا ہوں (١) اور تجھے اپنی طرف اٹھانے والا ہوں اور تجھے کافروں سے پاک کرنے والا ہوں (٢) اور تیرے تابعداروں کو کافروں کے اوپر غالب کرنے والا ہوں قیامت کے دن تک (٣) پھر تم سب کا لوٹنا میری ہی طرف ہے میں ہی تمہارے آپس کے تمام تر اختلافات کا فیصلہ کرونگا۔
٥٥۔١ انسان کی موت پر جو وفات کا لفظ بولا جاتا ہے تو اس لئے کہ اس کے جسمانی اختیارات مکمل طور پر سلب کر لئے جاتے ہیں اس اعتبار سے موت اس کے معنی کی مختلف صورتوں میں سے محض ایک صورت ہے۔ نیند میں بھی چونکہ انسانی اختیارات عارضی طور پر معطل کر دیئے جاتے ہیں اس لئے نیند پر بھی قرآن نے وفات کے لفظ کا اطلاق کیا ہے جس سے معلوم ہوا کہ اس کے حقیقی اور اصل معنی پورا پورا لینے کے ہی ہیں۔ یعنی اے عیسیٰ تجھے میں یہودیوں کی سازش سے بچا کر پورا پورا اپنی طرف آسمانوں پر اٹھا لونگا۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا اور پھر جب دوبارہ دنیا میں نزول ہوگا تو اس وقت موت سے ہمکنار کروں گا۔ یعنی یہودیوں کے ہاتھوں تیرا قتل نہیں ہوگا بلکہ تجھے طبعی موت ہی آئے گی۔ (فتح القدیر)
٥٥۔٢ اس سے مراد ان الزامات سے پاکیزگی ہے جن سے یہودی آپ کو متہم کرتے تھے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے سے آپ کی صفائی دنیا میں پیش کر دی جائے گی۔
٥٥۔٣ اس سے مراد یا تو نصاریٰ کا دنیاوی غلبہ ہے جو یہودیوں پر قیامت تک رہے گا گو وہ اپنے غلط عقائد کی وجہ سے نجات اخروی سے محروم ہی رہیں گے یا امت محمدیہ کے افراد کا غلبہ ہے جو درحقیقت حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور دیگر تمام انبیاء کی تصدیق کرتے اور ان کے صحیح دین کی پیروی کرتے ہیں۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
اس وقت خدا نے فرمایا کہ عیسیٰ! میں تمہاری دنیا میں رہنے کی مدت پوری کرکے تم کو اپنی طرف اٹھا لوں گا اور تمہیں کافروں (کی صحبت) سے پاک کر دوں گا اور جو لوگ تمہاری پیروی کریں گے ان کو کافروں پر قیامت تک فائق (وغالب) رکھوں گا پھر تم سب میرے پاس لوٹ کر آؤ گے تو جن باتوں میں تم اختلاف کرتے تھے اس دن تم میں ان کا فیصلہ کردوں گا
6 Muhammad Junagarhi
جب اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اے عیسیٰ! میں تجھے پورا لینے واﻻ ہوں اور تجھے اپنی جانب اٹھانے واﻻ ہوں اور تجھے کافروں سے پاک کرنے واﻻ ہوں اور تیرے تابعداروں کو کافروں کے اوپر غالب کرنے واﻻ ہوں قیامت کے دن تک، پھر تم سب کا لوٹنا میری ہی طرف ہے میں ہی تمہارے آپس کے تمام تر اختلافات کا فیصلہ کروں گا
7 Muhammad Hussain Najafi
(اس وقت کو یاد کرو) جب اللہ نے کہا (اے عیسیٰ) میں تمہیں پورا قبض کرنے والا اور تمہیں اپنی جانب اٹھانے والا ہوں اور تمہیں کافروں سے پاک کرنے والا ہوں اور تمہاری پیروی کرنے والوں کو کافروں پر قیامت تک غالب اور برتر کرنے والا ہوں۔ پھر تم سب کی بازگشت میری طرف ہے تو اس وقت میں تمہارے درمیان ان باتوں کا فیصلہ کروں گا جن میں تم اختلاف کرتے تھے۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
اور جب خدا نے فرمایا کہ عیسٰی علیھ السّلام ہم تمہاری مدّاُ قیام دنیا پوری کرنے والے اور تمہیں اپنی طرف اُٹھالینے والے اور تمھیں کفار کی خباثت سے نجات دلانے والے اور تمھاری پیروی کرنے والوں کو انکار کرنے والوں پر قیامت تک کی برتری دینے والے ہیں- اس کے بعد تم سب کی بازگشت ہماری طرف ہوگی اور ہم تمہارے اختلافات کا صحیح فیصلہ کردیں گے
9 Tafsir Jalalayn
اس وقت خدا نے فرمایا کی عیسیٰ میں تمہاری دنیا میں رہنے کی مدت پوری کرکے تم کو اپنی طرف اٹھالوں گا اور تمہیں کافروں (کی صحبت) سے پاک کردونگا اور جو لوگ تمہاری پیروی کریں گے ان کو کافروں پر قیامت تک فائق (و غالب) رکھوں گا پھر تم سب میرے پاس لوٹ کر آؤ گے تو جن باتوں میں تم میں اختلاف کرتے تھے اس دن تم میں ان کا فیصلہ کردونگا
آیت نمبر ٥٥ تا ٦٣
ترجمہ : (وہ وقت بھی قابل ذکر ہے) جب اللہ نے عیسیٰ (علیہ السلام) سے فرمایا : اے عیسیٰ میں تم کو وفات دینے والا (یعنی) تم کو (اپنے) قبضہ میں لینے والا ہوں اور دنیا سے بغیر موت کے اپنی طرف اٹھانے والا ہوں اور ان لوگوں سے تم کو پاک الگ کرنے والا ہوں جو منکر ہوئے اور ان لوگوں کو جنہوں نے تیری پیروی کی (یعنی) مسلمانوں اور نصاریٰ میں سے جس نے تیری تصدیق کی ان لوگوں پر جو تیرے منکر ہوئے قیامت تک کے لیے غلبہ دینے والا ہوں اور وہ (منکرین) یہود ہیں، وہ (یہود پر) دلیل اور تلوار کے ذریعہ غالب رہیں گے۔ پھر تم سب کی واپسی میری طرف ہوگی سو میں تمہارے درمیان دینی معاملہ میں فیصلہ کروں گا سو جن لوگوں نے کفر کیا تو میں ان کو سخت عذاب دوں گا دنیا میں قتل و قید اور جزیہ کے ذریعہ اور آخرت میں آگ کے ذریعہ اور ان کو کوئی اس عذاب سے بچا نے والا نہیں ہوگا، اور جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کئے تو میں ان کو پورا پورا صلہ دوں گا یاء اور نون کے ساتھ۔ اور اللہ ظالموں کو دوست نہیں رکھتا۔ یعنی ان کو سزا دے گا۔ روایت کیا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ایک بادل بھیجا تو اس نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو اٹھا لیا تو ان کو ان کی والدہ نے پکڑ لیا اور رونے لگیں تو حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) نے ان سے فرمایا : قیامت ہم کو جمع کرے گی، اور یہ واقعہ لیلۃ القدر میں بیت المقدس میں پیش آیا اس وقت عیسیٰ (علیہ السلام) کی عمر تینتیس سال تھی اور آپ کی والدہ اس کے بعد چھ سال بقید حیات رہیں اور ایک حدیث کو شیخین نے روایت کیا کہ آپ قیامت کے قریب نزول فرمائیں گے، اور ہمارے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی شریعت کے مطابق فیصلہ فرمائیں گے اور دجال اور خنزیر کو قتل کریں گے۔ اور صلیب کو توڑ دیں گے اور جزیہ مقرر کریں گے اور مسلم شریف کی حدیث میں ہے کہ عیسیٰ (علیہ السلام) (دنیا میں) سات سال قیام فرمائیں گے۔ اور ابو داؤد طیالسی کی حدیث میں ہے کہ چالیس سال قیام فرمائیں گے۔ اور ان کو وفات دیجائے گی اور ان پر نماز پڑھی جائے گی اور یہ بھی احتمال ہے کہ قبل الرفع اور بعد الرفع دنیا میں قیام کی مجموعی مدت مراد ہو۔ اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) عیسیٰ (علیہ السلام) کا یہ مذکورہ واقعہ جو ہم آپ کو سنا رہے ہیں نشانیوں میں سے ہے (من الآیا) (نتلوہ) کی ” ھاء “ سے حال ہے، اور عامل اس میں ذالک کے معنیٰ (یعنی) ” اُشِیْرُ “ ہیں۔ اور ذکر محکم یعنی قرآن کریم ہے۔ بلاشبہ عیسیٰ (علیہ السلام) کی شان عجیب بغیر باپ کے ان کی تخلیق میں اللہ کے نزدیک آدم (علیہ السلام) کی شان عجیب کے مانند ہے اور یہ عجیب کی اعجب کے ساتھ تشبیہ کے قبیل سے ہے تاکہ مخالف کے لیے مسکت، اور اوقع فی النفس ہو۔ آدم یعنی ان کے جسم کو مٹی سے پیدا فرمایا پھر ان سے کہا بشر ہوجاؤ تو وہ (بشر) ہوگئے، اسی طرح حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) سے فرمایا کہ بغیر باپ کے پیدا ہوجا تو وہ ہوگئے۔ یہ امر حق تیرے رب کی طرف سے ہے، (یہ) مبتداء محذوف کی خبر ہے، ای اَمْر عیسیٰ (علیہ السلام) ۔ لہٰذا اس میں آپ شبہ کرنے والوں میں نہ ہوجانا۔ پھر جو کوئی نصاریٰ میں سے آپ سے اس باب میں حجت کرے بعد اس کے کہ آپ کے بعد اس کے کہ آپ کے پاس عیسیٰ (علیہ السلام) کے معاملہ میں علم پہنچ چکا ہے۔ تو ان سے کہو (اچھا) آؤ ہم اپنے بیٹوں کو بلائیں اور تمہارے بیٹوں کو بھی اور اپنی عورتوں کو بھی اور تمہاری عورتوں کو بھی اور خود ہم تم بھی (آئیں) ان سب کو جمع کریں پھر عاجزی سے دعاء کریں اور جھوٹوں پر اللہ کی لعنت بھیجیں۔ اس طرح کہیں، اے اللہ عیسیٰ (علیہ السلام) کے معاملہ میں جھوٹے پر لعنت فرما، اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جب انہوں نے اس معاملہ میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے جھگڑا کیا، تو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے وفد نجران کو مباہلہ کی دعوت دی، تو ان لوگوں نے کہا کہ ہم اپنے معاملہ میں غور کرلیں۔ پھر ہم آپ کے پاس آئیں گے، تو ان کے صاحب الرائے نے ان سے کہا : تم ان کی نبوت کو پہچان چکے ہو اور واقعہ یہ ہے کہ کسی قوم نے اپنی نبی سے مباہلہ نہیں کیا مگر یہ کہ وہ ہلاک ہوگئی۔ لہٰذا تم اس شخص سے صلح کرلو اور واپس چلو (مشورہ کے بعد) وہ لوگ آپ کے پاس آئے، اور حال یہ ہے کہ آپ (مباہلہ) کے لیے نکل چکے تھے، اور آپ کے ساتھ حسن (رض) اور حسین (رض) اور فاطمہ (رض) اور علی (رض) تھے۔ اور آپ نے ان سے فرمایا جب میں بددعاء کروں تو تم آمین کہنا، تو انہوں نے مباہلہ سے انکار کرکے صلح کرلی۔ روایت کیا ہے اس کو ابو نعیم نے اور روایت کیا ابو داؤد نے کہ انہوں نے دو سو حُلّوں (جوڑوں) پر صلح کرلی۔ آدھے ماہ صفر میں اور بقیہ ماہ رجب میں۔ اور تیس گھوڑوں اور تیس اونٹوں اور ہر قسم کے ہتھیاروں میں سے تیس (تیس) پر (صلح کرلی) اور احمد نے اپنی مسند میں ابن عباس (رض) سے روایت کیا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اگر یہ مباہلہ کرنے والے نکلتے تو اس حال میں لوٹتے کہ نہ مال (باقی) پاتے اور نہ اہل (زندہ) اور طبرانی نے مرفوعاً روایت کیا ہے کہ اگر نکلتے تو جل جاتے۔ بیشک یہ مذکورہ ہی سچی خبر ہے کہ جس میں شک نہیں ہے اور اللہ کے علاوہ کوئی معبود نہیں ہے۔ ” مِنْ “ ، زائدہ ہے۔ بیشک اللہ ہی زبردست ہے اپنے ملک میں حکمت والا ہے۔ اپنی صنعت میں۔ سو اگر یہ (اب بھی) سرتابی کریں۔ (یعنی) ایمان سے اعراض کریں۔ تو بیشک اللہ خوب جانتا ہے مفسدوں کو تو ان کو سزا دے گا اس میں ضمیر کو اسم ظاہر کی جگہ رکھا ہے۔
تحقیق و ترکیب و تسہیل و تفسیری فوائد
قولہ : مُتَوَقِّیْکَ ، مُتَوَفّی، تَوَفُّیٌ (تَفعُّلْ ) سے اسم فاعل واحد مذکر مضاف کَ مضاف الیہ، میں تجھے وفات دینے والا ہوں۔ میں تجھے اپنی گرفت میں لے کر اٹھا لینے والا ہوں۔ میں تجھے سلانے والا ہوں۔ تَوَفی کے معنیٰ پورا پورا لینا، علماء سلف نے اس کی تشریح میں لفظ قبض استعمال کیا ہے۔ یعنی گرفت میں لے لینا، لیکن قبضہ میں اور گرفت میں لینے سے کیا مراد ہے ؟ قبض روح مع البدن یا صرف قبض روح، یعنی مار ڈالنا یا نیند مسلط کرنا مراد ہے، یعنی میں تجھ کو سلا دوں گا پھر نیند کی حالت میں آسمان کی طرف اٹھالوں گا۔ اس معنی کا مستدل اللہ تعالیٰ کا قول ” ھُوَ الَّذِیْ یَتَوَفَّاکُمْ بِاللَّیْلِ “ ہے اللہ تم کو رات کو سلاتا ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ توفّی، کا معنی سلادینے کا آتا ہے، واقعہ بھی اسی طرح ہوا، کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو سلا کر اٹھا لیا (معالم) ابو البقاء نے کلیات میں کہا ہے مُتَوَفّیْکَ وَرَافِعُکَ ، یہ دونوں اگرچہ اسم فاعل کے صیغہ ہیں مگر معنی میں استقبال کے ہیں اور کلام میں تقدیم و تاخیر ہے اصل میں رَافِعُکَ وَمُتَوَفّیْکَ ہے۔ اس لیے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو پہلے آسمان پر اٹھایا گیا پھر آئندہ ان کو موت ہوگی، تفسیر عباسی میں بھی اس کی تائید ہے۔
حضرت امام رازی نے نفیس اور دقیق تفسیر کی ہے، اِنِّی متوفیکَ کے معنیٰ اِنِّی متمم عمرک فحینئذ اتوفّاکَ فَلَا اَتْرُکُھُمْ حَتَّی یقتلوک بل انا رافعکَ الی سمائی ومقرک بملائکتی واصونک عن ان یتمکّنوا من قتلِکَ (کبیر) یعنی اِنّی متوفیک، کا مطلب یہ ہے کہ میں تمہاری عمر پوری کرونگا اور پوری عمر کرنے کے بعد تم کو وفات دوں گا کافروں کے ہاتھوں تمہیں قتل نہ ہونے دوں گا، بلکہ اپنے آسمان کی طرف تم کو اٹھالوں گا اور فرشتوں کے پاس تمہاری قیام گاہ ہے، وہاں تم کو پہنچا دوں گا۔ اور کافروں کے قتل سے تم کو محفوظ رکھوں گا۔
قولہ : مُبعِدُک، مُطَھِّرُکَ ، کی تفسیر مُبْعِدُک سے کرکے اشارہ کردیا کہ ملزوم بول کر لازم مراد ہے اس لیے کہ تطہیر کے لیے ابعاد نجاست مستلزم ہے۔ لہٰذا یہ اعتراض بھی دفع ہوگیا کہ تطہیر کے لیے تلویث لازم ہے اور وہ یہاں مقصود نہیں، جواب کا حاصل یہ کہ مُطِھرک بمعنیٰ مُبْعِدُکَ ہے۔
قولہ : ذَالِکَ نَتْلُوْہُ ، ذالک مبتداء نتلوہ علیک یا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس کی خبر مِن الآیات، نَتْلوہ کی ضمیر سے حال ہے، اور اس کا عامل ذالک کے معنی یعنی اُشِیْرُ ہے۔ قولہ : فکان سے اشارہ کردیا کہ یکون، کان کے معنی میں ہے۔ قولہ : فَوَادِعُوْا ای صالحوا، یعنی مباہلہ مت کرو بلکہ ان سے صلح کرلو۔ قولہ : فَأتوہ تو وہ لوگ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوئے اور صلح کی۔
قولہ : وضع الظاھر موضع المضمر، یعنی اللہ علیم بھِمْ کے بجائے اللہ علیم بالمفسدین فرمایا۔ تاکہ ان کی صفت فساد کی صراحت ہوجائے
قولہ : نَبْتَھِلْ از (اِبْتِھَالْ ) ہم گڑا گڑا کر دعاء کریں گے۔ زمخشری نے لکھا ہے کہ بَھْلَۃ کی اصل دعاء لعنت ہے، پھر مطلقاً دعاء کے معنی ٰ میں استعمال ہونے لگا۔ (لغات القرآن) قولہ : القصص، اسم بمعنی مصدری استعمال ہوتا ہے۔
اللغۃ والبلاغۃ
التقدیم والتاخیر : اِنّی مُتَوَفِّیْکَ وَرَافِعُکَ اِلَیَّ ۔ اس آیت میں تقدیم و تاخیر ہے جو کہ فن بلاغت کا ایک جزء ہے۔ اصل تقدیر اِنّی رافِعُکَ اِلیّ وَمُتَوَقّیْکَ بمعنی بد ذالک۔
قولہ : حَاجَّکَ ، ای خَاصَمَکَ وَجَادَلَک (إفاعلۃ) لا تَقَعُ اِلَّا مِن اثنَیْنِ فَصَاعدًا۔
قولہ : تَعَالوْا امر جمع مذکر حاضر، تم آؤ، اس کا مطلب ہے بلند مقام کی طرف بلانا مطلق بلانے کے معنیٰ میں استعمال ہونے لگا ہے۔ اب مطلقاً ھَلُمَّ کے معنیٰ میں ہے۔
تفسیر و تشریح
اِذْ قَالَ اللہ یٰعِیْسٰی اِنِّیْ مُتَوَفِّیْکَ وَرَافِعُکَ اِلَیَّ ، لفظ مُتَوَفِّیْکَ ، کی تحقیق سابق میں گزر چکی ہے، روح قبض کرنا اس کا مجازی استعمال ہے نہ کہ اصل لغوی معنی۔ یہاں یہ لفظ انگریزی لفظ Dorecall، کے معنی میں مستعمل ہے، یعنی کسی عہدے دار کو اس کے منصب سے واپس بلا لینا چونکہ بنی اسرائیل صدیوں سے مسلسل نافرمانی کر رہے تھے اور بار بار کی تنبیہوں اور فہمائشوں کے باوجود ان کی قومی روش بگڑتی ہی چلی جا رہی تھی پے در پے کئی انبیاء کو قتل کرچکے تھے، ہر اس بندہ صالح کے خون کے پیاسے ہوجاتے تھے جو نیکی اور راستی کی طرف ان کو دعوت دیتا تھا، اس لیے اللہ تعالیٰ نے ان پر حجت تمام کرنے اور انہیں ایک آخری موقع دینے کے لیے حضرت عیسیٰ (علیہما السلام) جیسے دو جلیل القدر پیغمبروں کو بیک وقت مبعوث کیا، جن کے ساتھ مامور من اللہ ہونے کی ایسی کھلی کھلی نشانیاں تھیں کہ ان سے انکار صرف وہی لوگ کرسکتے تھے جو حق و صداقت سے انتہا درجہ کا عناد رکھتے ہوں اور حق کے مقابلہ میں جن کی جسارت و بےباکی حد کو پہنچ چکی ہو، مگر بنی اسرائیل نے اس آخری موقع کو بھی ہاتھ سے کھو دیا، اور صرف اتنا ہی نہیں کیا کہ ان دونوں پیغمبروں کی دعوت رد کردی بلکہ ان کے ایک رئیس نے علی الاعلام حضرت یحییٰ (علیہ السلام) جیسے بلند پایہ انسان کا سر ایک رقاصہ کی فرمائش پر قلم کرا دیا، اور ان کے علماء اور فقہاء نے سازش کرکے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو رومی سلطنت سے سزائے موت دلانے کی کوشش کی، اس لیے بنی اسرائیل کی فہمائش پر مزید اور قوت صرف کرنا بالکل فضول تھا، اس لیے اللہ تعالیٰ نے اپنے پیغمبر کو واپس بلا لیا اور اعلان کرا دیا کہ اب بنی اسرائیل کی سرداری اور ریاست کا دور ختم ہو کر بنی اسماعیل کا دور شروع ہونے والا ہے، اور قیامت تک کے لیے بنی اسرائیل پر ذلت کی زندگی کا فیصلہ لکھ دیا۔
واقعات اور حالات کی رفتار کے اعتبار سے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو اپنا یہ انجام صاف نظر آرہا تھا کہ یہود انہیں گرفتار کئے اور ان پر مقدمہ چلائے بغیر نہ رہیں گے، اور پھر رومیوں کی عدالت میں لے جا کر سزائے موت دلوائیں گے، یہ ارشاد الہیٰ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی تسکین کے لیے اسی گرفتاری کے موقع پر ہو رہا ہے۔
لفظ مُتَوَفِّیْکَ ، سے یہ لازم نہیں آتا کہ موت اسی وقت اور فی الفور واقع ہوگی ہمارے اکابر مفسرین اسی طرف گئے ہیں بلکہ امام رازی نے اسی کو بہتر تفسیر قرار دیا ہے۔ یعنی تمہاری موت تو وقت مقررہ پر جب ہوگی، ہوگی، تمہارے دشمن تمہاری ہلاکت کے منصوبہ میں ہرگز کامیان نہیں ہوسکتے۔ سردست اس کا انتظام یوں کیا جارہا ہے کہ تمہیں ان کے درمیان سے اٹھالیا جائے گا۔ حضرت مسیح (علیہ السلام) کے رفع جسمانی کی صراحت گو قرآن مجید میں موجود نہیں ہے لیکن قریب بصراحت ہونے کے یہ عقیدہ قرآن مجید کی اسی آیت میں موجود ہے اور احادیث نے اسے صاف اور مؤکد کردیا ہے، ابن جریر کی عبارت میں ” لتواتر الاخبار عن رسول اللہ “ کے الفاظ خاص طور پر قابل غور ہیں اس لیے اب جمہور اہل سنت کا یہی عقیدہ ہے۔
حضرت مسیح (علیہ السلام) کی جب پیدائش عام انسانی قاعدہ تو الد وتناسل سے الگ یعنی بغیر باپ کے توسط کے محج نفخہ جبرائیل سے ہوگئی تو اب رفع جسمانی میں آخر اس قدر استبعاد کیا ہے ؟ بلکہ یہ تو بالکل قرین قیاس ہے کہ آپ کا انجام ظاہری بھی معمول عام سے ہٹ کر ہوا ہے۔ اور یہ دلیل تو بالکل ہی بودی ہے کہ رفع آسمانی سے آپ کی افضیلت خصوصاً سید الانبیاء پر لازم آتی ہے، آخر خدا کو معلوم کتنے فرشتے رات دن آسمان پر جاتے رہتے ہیں تو کیا اس بنا پر وہ سب سید الانبیاء سے افضل ہوگئے ؟ ایک مسیحی یورپین فاضل۔ EBUNSEN ڈی بنسن نے پچھلی صدی عیسوی میں ایک مختصر لیکن فاضلانہ کتاب ” اسلام یا حقیقی مسیحیت “ کے نام سے لکھی تھی اس نے اس کے ص : ١٤٣، کے حاشیہ پر اس سے قدیم مسیحی فرقوں میں سے متعدد کے نام کے لے کر لکھا ہے کہ فلاں فلاں فرقہ کا عقیدہ مسیح کے رفع جسمانی کا تھا نہ کہ وفات مسیح کا جس پر اب عیسائی صدیوں سے جمے چلے آرہے ہیں۔ اسی طرح سیل Sale نے بھی اپنے انگریزی ترجمہ کے حاشیہ پر اس عقیدہ کے مسیحی فرقوں کے نام گنائے ہیں۔ حیرت ہے کہ کلمہ گویوں کے ایک جدید فرقہ نے وفات مسیح کا عقیدہ مسیحیوں سے لے لیا ہے اور اسے اپنی خوش فہمی سے ” روشن خیالی “ سمجھ رہا ہے۔ (ماجدی)
مسئلہ حیات عیسیٰ (علیہ السلام) : دنیا میں صرف یہودیوں کا یہ عقیدہ ہے کہ عیسیٰ (علیہ السلام) مقتول اور مصلوب ہو کر دفن ہوگئے اور پھر زندہ نہیں ہوئے۔ ان کے اس خیال کی حقیقت قرآن کریم نے سورة نساء میں واضح کردی ہے۔ اور اس آیت ” وَمَکَرُوْا وَمَکَرَ اللہُ “ میں بھی اس کی طرف اشارہ کردیا ہے کہ حق تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ کے دشمنوں کے کید اور تدبیر کو خود انہیں کی طرف لوٹا دیا کہ جو یہودی حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے قتل کے لیے مکان کے اندر گئے تھے، اللہ تعالیٰ نے ان ہی میں سے ایک شخص کی شکل و صورت تبدیل کرکے بالکل عیسیٰ (علیہ السلام) کی صورت میں ڈھال دی، اور حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو زندہ آسمان پر اٹھا لیا آیت کے الفاظ یہ ہیں، وَمَا قَتَلُوْہُ وَمَا صَلَبُوْہُ وَلکِنْ شُبِّہَ لَھُمْ نہ انہوں نے عیسیٰ (علیہ السلام) کو قتل کیا نہ سولی پر چڑھایا لیکن تدبیر حق نے ان کو شبہ میں ڈال دیا کہ اپنے ہی آدمی کو قتل کرکے خوش ہولیے۔
نصاریٰ کا یہ کہنا تھا کہ عیسیٰ (علیہ السلام) مقتول مصلوب تو ہوگئے تھے مگر پھر دوبارہ زندہ کرکے آسمانوں پر اٹھا لیے گئے، مذکورہ آیت نے ان کے اس غلط خیال کی بھی تردید کردی اور بتلا دیا کہ جیسے یہودی اپنے ہی آدمی کو قتل کرکے خوشیاں منا رہے تھے اس سے یہ دھوکہ عیسائیوں کو بھی لگ گیا کہ قتل ہونے والے عیسیٰ (علیہ السلام) ہیں اس لیے شَبِّہ لھم کے مصداق یہود کی طرح نصاریٰ بھی ہوگئے۔ ان دونوں گروہوں کے بالمقابل اسلام کا وہ عقیدہ ہے جو اس آیت اور دوسری کئی آیتوں میں وضاحت و صراحت سے بیان ہوا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو یہودیوں کے ہاتھ سے نجات دینے کیلئے آسمان پر زندہ اٹھا لیا نہ ان کو قتل کیا جاسکا نہ سولی چڑھایا جاسکا۔ وہ زندہ آسمانوں پر موجود ہیں اور قرب قیامت میں آسمان سے نزول فرما کر یہودیوں پر فتح حاصل کریں گے اور آخر میں طبعی موت سے وفات پائیں گے۔ اسی پر تمام امت مسلمہ کا اجماع و اتفاق ہے حافظ ابن حجر نے تلخیص الحبیر ص : ٣١٩، میں یہ اجماع نقل کیا ہے، قرآن مجید کی متعدد آیات اور حدیث کی متواتر روایات سے یہ عقیدہ اور اس پر اجماع امت سے ثابت ہے۔ (معارف القرآن)
10 Tafsir as-Saadi
﴿إِذْ قَالَ اللَّـهُ يَا عِيسَىٰ إِنِّي مُتَوَفِّيكَ وَرَافِعُكَ إِلَيَّ وَمُطَهِّرُكَ مِنَ الَّذِينَ كَفَرُوا﴾” جب اللہ نے فرمایا: اے عیسیٰ ! میں تجھے پورا لینے والا ہوں، اور تجھے اپنی طرف اٹھانے والا ہوں اور تجھے کافروں سے پاک کرنے والا ہوں۔“ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے اپنے بندے اور اپنے رسول عیسیٰ علیہ السلام کو اپنی طرف آسمانوں پر اٹھا لیا اور کسی اور شخص پر آپ کی مشابہت ڈال دی۔ جس آدمی کو آپ کا ہم شکل بنایا گیا تھا، دشمنوں نے اسے پکڑ کر صلیب پر چڑھایا اور قتل کردیا۔ اس طرح وہ ایک عظیم جرم کے مرتکب ہوئے کیونکہ ان کی نیت حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو شہید کرنے کی تھی اور اپنے خیال میں وہ اس کوشش میں کامیاب بھی رہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : ﴿وَمَا قَتَلُوهُ وَمَا صَلَبُوهُ وَلَـٰكِن شُبِّهَ لَهُمْ ۚ﴾ (النساء :4؍ 157) ” نہ تو انہوں نے اسے قتل کیا، نہ سولی پر چڑھایا، بلکہ ان کے لئے وہی صورت بنا دی گئی تھی“ اس آیت سے اللہ تعالیٰ کا مخلوق سے اوپر ہونا، اور عرش پر حقیقتاً مستوی ہونا ثابت ہوتا ہے، جیسے کہ قرآن و حدیث کی نصوص سے ثابت ہوتا ہے جنہیں اہل سنت نے تسلیم کیا ہے اور اس پر ایمان رکھتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ غالب، قوی اور زبردست ہے۔ جس کا ایک مظہر بنی اسرائیل کا عیسیٰ علیہ السلام کو قتل کرنے کا پختہ ارادہ کرلینے اور پروگرام بنا لینے اور اس میں کوئی ظاہری رکاوٹ نہ ہونے کے باوجود، اس کو عملی جامہ پہنانے میں ناکام رہنا ہے جیسے اللہ کا ارشاد ہے : ﴿وَإِذْ كَفَفْتُ بَنِي إِسْرَائِيلَ عَنكَ إِذْ جِئْتَهُم بِالْبَيِّنَاتِ فَقَالَ الَّذِينَ كَفَرُوا مِنْهُمْ إِنْ هَـٰذَا إِلَّا سِحْرٌ مُّبِينٌ﴾ (المائدہ :5؍ 110) ” اور جب میں نے بنی اسرائیل کو تم سے باز رکھا، جب تم ان کے پاس دلیلیں لے کر آئے تھے۔ پھر ان میں سے جو کافر تھے۔ انہوں نے ہا تھا کہ بجز کھلے جادو کے یہ اور کچھ بھی نہیں۔“ اللہ تعالیٰ حکیم ہے، جو ہر چیز کو اس کے مناسب مقام پر رکھتا ہے۔ بنی اسرائیل کو شبہ میں رکھنے میں بھی اس کی عظیم حکمت پوشیدہ تھی۔ چنانچہ وہ شبہ میں پڑگئے جیسے ارشاد ہے: ﴿وَإِنَّ الَّذِينَ اخْتَلَفُوا فِيهِ لَفِي شَكٍّ مِّنْهُ ۚ مَا لَهُم بِهِ مِنْ عِلْمٍ إِلَّا اتِّبَاعَ الظَّنِّ ۚ وَمَا قَتَلُوهُ يَقِينًا﴾ (النساء :4؍107) ” یقین جانو، عیسیٰ کے بارے میں اختلاف کرنے والے ان کے بارے میں شک میں ہیں انہیں اس کا کوئی یقین نہیں بجز تخمینی باتوں پر عمل کرنے کے۔ اتنا یقینی ہے کہ انہوں نے اسے قتل نہیں کیا۔“ اس کے بعد فرمایا : ﴿وَجَاعِلُ الَّذِينَ اتَّبَعُوكَ فَوْقَ الَّذِينَ كَفَرُوا إِلَىٰ يَوْمِ الْقِيَامَةِ﴾” اور تیرے تابع داروں کو کفاروں کے اوپر رکھنے والا ہوں، قیامت کے دن تک“ پہلے بیان ہوچکا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کے کافروں کے خلاف ان کے مومنوں کی مدد فرمائی۔ پھر عیسیٰ علیہ السلام سے نسبت رکھنے والے نصاریٰ یہودیوں پر ہمیشہ غالب رہے، کیونکہ یہود کی نسبت عیسائی عیسیٰ علیہ السلام کی اتباع سے قریب تر تھے۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو مبعوث فرمایا تو مسلمان عیسیٰ علیہ السلام کے حقیقی متبع بنے۔ تب اللہ تعالیٰ نے یہود و نصاریٰ اور دیگر کفار کے خلاف مسلمانوں کی مدد فرمائی۔ البتہ کسی کسی زمانے میں عیسائی وغیرہ کافر مسلمانوں پر غالب آتے ہیں۔ اس میں اللہ تعالیٰ کی حکمت پوشیدہ ہے اور یہ مسلمانوں کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع سے پہلو تہی کرنے کی سزا ہے۔ ﴿ثُمَّ إِلَيَّ مَرْجِعُكُمْ﴾ ” پھر تم سب کا (یعنی تمام مخلوقات) کا لوٹنا میری ہی طرف ہے۔“ ﴿فَأَحْكُمُ بَيْنَكُمْ فِيمَا كُنتُمْ فِيهِ تَخْتَلِفُونَ﴾ ” پس میں ہی تمہارے آپس کے تمام تر اختلافات کا فیصلہ کروں گا۔“ ہر ایک کا دعویٰ ہے کہ وہی حق پر ہے اور دوسرے سب غلطی پر ہیں۔ یہ سب دعوے ہیں جنہیں دلیل کی ضرورت ہے۔
11 Mufti Taqi Usmani
. ( uss ki tadbeer uss waqt samney aai ) jab Allah ney kaha tha kay : aey essa ! mein tumhen sahih saalim wapis ley lun ga , aur tumhen apni taraf utha lun ga , aur jinn logon ney kufr apna liya hai unn ( ki eeza ) say tumhen pak kerdun ga . aur jinn logon ney tumhari ittaba ki hai , unn ko qayamat kay din tak unn logon per ghalib rakhun ga jinhon ney tumhara inkar kiya hai . phir tum sabb ko meray paas loat ker aana hai , uss waqt mein tumharay darmiyan unn baaton ka faisla kerun ga jinn mein tum ikhtilaf kertay thay .
12 Tafsir Ibn Kathir
اظہارخو دمختاری
قتادہ وغیرہ بعض مفسرین تو فرماتے ہیں مطلب یہ ہے کہ میں تجھے اپنی طرف اٹھا لوں گا پھر اس کے بعد تجھے فوت کروں گا، ابن عباس فرماتے ہیں یعنی میں تجھے مارنے والا ہوں، وہب بن منبہ فرماتے ہیں اللہ تعالیٰ نے آپ کو اٹھاتے وقت دن کے شروع میں تین ساعت تک فوت کردیا تھا، ابن اسحاق کہتے ہیں نصاریٰ کا خیال ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو سات ساعت تک فوت رکھا پھر زندہ کردیا، وہب فرماتے ہیں تین دن تک موت کے بعد پھر زندہ کر کے اٹھا لیا، مطر وراق فرماتے ہیں یعنی میں تجھے دنیا میں پورا پورا کردینے والا ہوں یہاں وفات موت مراد نہیں، اسی طرح ابن جریر فرماتے ہیں تو فی سے یہاں مراد ان کا رفع ہے اور اکثر مفسرین کا قول ہے کہ وفات سے مراد یہاں نیند ہے، جیسے اور جگہ قرآن حکیم میں ہے آیت (وَهُوَ الَّذِيْ يَتَوَفّٰىكُمْ بالَّيْلِ ) 6 ۔ الانعام :60) وہ اللہ ذوالمنن جو تمہیں رات کو فوت کردیتا ہے یعنی سلا دیتا ہے اور جگہ ہے آیت (اَللّٰهُ يَتَوَفَّى الْاَنْفُسَ حِيْنَ مَوْتِهَا وَالَّتِيْ لَمْ تَمُتْ فِيْ مَنَامِهَا) 39 ۔ الزمر :42) یعنی اللہ تعالیٰ ان کی موت کے وقت جانوں کو فوت کرتا ہے اور جو نہیں مرتیں انہیں ان کی نیند کے وقت، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب نیند سے بیدار ہوتے تو فرماتے (حدیث الحمد للہ الذی احیانا بعدما اماتنا) یعنی اللہ عزوجل کا شکر ہے جس نے ہمیں مار ڈالنے کے بعد پھر زندہ کردیا، اور جگہ فرمان باری تعالیٰ وبکفرھم سے شیھدا تک پڑھو جہاں فرمایا گیا ہے ان کے کفر کی وجہ سے اور حضرت مریم پر بہتان عظیم باندھ لینے کی بنا پر اور اس باعث کہ وہ کہتے ہیں ہم نے مسیح عیسیٰ بن مریم رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو قتل کردیا حالانکہ نہ قتل کیا ہے اور نہ صلیب دی لیکن ان کو شبہ میں ڈال دیا گیا موتہ کی ضمیر کا مرجع حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) ہیں یعنی تمام اہل کتاب حضرت عیسیٰ پر ایمان لائیں گے جبکہ وہ قیامت سے پہلے زمین پر اتریں گے اس کا تفصیلی بیان عنقریب آرہا ہے۔ انشاء اللہ، پس اس وقت تمام اہل کتاب ان پر ایمان لائیں گے کیونکہ نہ وہ جزیہ لیں گے نہ سوائے اسلام کے اور کوئی بات قبول کریں گے، ابن ابی حاتم میں حضرت حسن سے (آیت انی متوفیک) کی تفسیر یہ مروی ہے کہ ان پر نیند ڈالی گئی اور نیند کی حالت میں ہی اللہ تعالیٰ نے انہیں اٹھا لیا، حضرت حسن فرماتے ہیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہودیوں سے فرمایا کہ حضرت عیسیٰ مرے نہیں وہ تمہاری طرف قیامت سے پہلے لوٹنے والے ہیں۔ پھر فرماتا ہے میں تجھے اپنی طرف اٹھا کر کافروں کی گرفت سے آزاد کرنے والا ہوں، اور تیرے تابعداروں کو کافروں پر غالب رکھنے والا ہوں قیامت تک، چناچہ ایسا ہی ہوا، جب اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ کو آسمان پر چڑھا لیا تو ان کے بعد ان کے ساتھیوں کے کئی فریق ہوگئے ایک فرقہ تو آپ کی بعثت پر ایمان رکھنے والا تھا کہ آپ اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں اور اس کی ایک بندی کے لڑکے ہیں بعض وہ تھے جنہوں نے غلو سے کام لیا اور بڑھ گئے اور آپ کو اللہ تعالیٰ کا بیٹا کہنے لگے، اوروں نے آپ کو اللہ کہا، دوسروں نے تین میں کا ایک آپ کو بتایا، اللہ تعالیٰ ان کے ان عقائد کا ذکر قرآن مجید میں فرماتا ہے پھر ان کی تردید بھی کردی ہے تین سو سال تک تو یہ اسی طرح رہے، پھر یونان کے بادشاہوں میں سے ایک بادشاہ جو بڑا فیلسوف تھا جس کا نام اسطفلین تھا کہا جاتا ہے کہ صرف اس دین کو بگڑانے کے لئے منافقانہ انداز سے اس دین میں داخل ہوا یا جہالت سے داخل ہوا ہو، بہر صورت اس نے دین مسیح کو بالکل بدل ڈالا اور بڑی تحریف اور تفسیر کی اس دین میں اور کمی زیادہ بھی کر ڈالی، بہت سے قانون ایجاد کئے اور امانت کبریٰ بھی اسی کی ایجاد ہے جو دراصل کمینہ پن کی خیانت ہے، اسی نے اپنے زمانہ میں سور کو حلال کیا اسی کے حکم سے عیسائی مشرق کی طرف نمازیں پڑھنے لگے اسی نے گرجاؤں اور کلیساؤں میں عبادت خانوں اور خانقاہوں میں تصویریں بنوائیں اور اپنے ایک گناہ کے باعث دس روزے روزوں میں بڑھوا دئیے، غرض اس کے زمانہ سے دین مسیح مسیحی دین نہ رہا بلکہ دین اسطفلین ہوگیا، اس نے ظاہری رونق تو خوب دی بارہ ہزار سے زاید تو عبادت گاہیں بنوا دیں اور ایک شہر اپنے نام سے بسایا، ملکیہ گروہ نے اس کی تمام باتیں مان لیں لیکن باوجود ان سب سیاہ کاریوں کے یہودی ان کے ہاتھ تلے رہے اور دراصل نسبتاً حق سے زیادہ قریب یہی تھے گو فی الواقع سارے کے سارے کفار تھے اللہ خالق کل کی ان پر پھٹکار ہو، اب جبکہ ہمارے نبی حضرت محمد مصطفیٰ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اللہ تعالیٰ نے اپنا برگزیدہ بنا کر دنیا میں بھیجا تو آپ پر جو لوگ ایمان لائے ان کا ایمان اللہ تعالیٰ کی ذات پر بھی تھا اس کے فرشتوں پر بھی تھا اس کی کتابوں پر بھی تھا اور اس کے تمام رسولوں پر بھی تھا پس حقیقت میں نبیوں کے سچے تابع فرمان یہی لوگ تھے یعنی امت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ، اس لئے کہ یہ نبی امی عربی خاتم الرسول سید اولاد آدم کے ماننے والے تھے اور حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تعلیم برحق تعلیم کو سچا ماننے کی تھی، لہذا دراصل ہر نبی کے سچے تابعدار اور صحیح معنی میں امتی کہلانے کے مستحق یہی لوگ تھے کیونکہ ان لوگوں نے جو اپنے تئیں عیسیٰ کی امت کہتے تھے تو دین عیسوی کو بالکل مسخ اور فسخ کردیا تھا، علاوہ ازیں پیغمبر آخرالزمان کا دین بھی اور تمام اگلی شریعتوں کا ناسخ تھا پھر محفوظ رہنے والا تھا جس کا ایک شوشہ بھی قیامت تک بدلنے والا نہیں اس لئے اس آیت کے وعدے کے مطابق اللہ تعالیٰ نے کافروں پر اس امت کو غالب کر اور یہ مشرق سے لے کر مغرب تک چھا گئے ملک کو اپنے پاؤں تلے روند دیا اور بڑے بڑے جابر اور کٹر کافروں کی گردنیں مروڑ دیں دولتیں ان کے پیروں میں آگئیں فتح و غنیمت ان کی رکابیں چومنے لگی مدتوں کی پرانی سلطنتوں کے تحت انہوں نے الٹ دئیے، کسریٰ کی عظیم الشان پر شان سلطنت اور ان کے بھڑکتے ہوئے آتش کدے ان کے ہاتھوں ویران اور سرد ہوگئے، قیصر کا تاج و تخت ان اللہ والوں نے تاخت و تاراج کیا اور انہیں مسیح پرستی کا خوب مزا چکھایا اور ان کے خزانوں کو اللہ واحد کی رضامندی میں اور اس کے سچے نبی کے دین کی اشاعت میں دل کھول کر خرچ کئے اور اللہ کے لکھے اور نبی کے وعدے چڑھے ہوئے سورج اور چودھویں کے روشن چاند کی طرح سچے ہوئے لوگوں نے دیکھ لئے، مسیح (علیہ السلام) کے نام کو بدنام کرنے والے مسیح کے نام شیطانوں کو پوجنے والے ان پاکباز اللہ پرستوں کے ہاتھوں مجبور ہو کر شام کے لہلہاتے ہوئے باغات اور آباد شہروں کو ان کے حوالے کر کے بدحواس بھاگتے ہوئے روم میں جا بسے پھر وہاں سے بھی یہ بےعزت کر کے نکالے گئے اور اپنے بادشاہ کے خاص شہر قسطنطنیہ میں پہنچے لیکن پھر وہاں سے بھی ذلیل خوار کر کے نکال دئیے گئے اور انشاء اللہ العزیز اسلام اور اہل اسلام قیامت تک ان پر غالب ہی رہیں گے۔ سب سچوں کے سردار جن کی سچائی پر مہر الٰہی لگ چکی ہے یعنی آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خبر دے چکے ہیں جو اٹل ہے نہ کاٹے کٹے نہ توڑے ٹوٹے، نہ ٹالے ٹلے، فرماتے ہیں کہ آپ کی امت کا آخری گروہ قسطنطنیہ کو فتح کرے گا اور وہاں کے تمام خزانے اپنے قبضے میں لے گا اور رومیوں سے ان کی گھمسان کی لڑائی ہوگی کہ اس کی نظیر سے دنیا خالی ہو (ہماری دعا ہے کہ ہر زمانے میں اللہ قادر کل اس امت کا حامی و ناصر رہے اور روئے زمین کے کفار پر انہیں غالب رکھے اور انہیں سمجھ دے تاکہ یہ اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کی عبادت کریں نہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سوا کسی اور کی اطاعت کریں، یہی اسلام کی اصل ہے اور یہی عروج دینوی کا گر ہے میں نے سب کو علیحدہ کتاب میں جمع کردیا ہے، آگے اللہ تعالیٰ کے قول پر نظر ڈالیے کہ مسیح (علیہ السلام) کے ساتھ کفر کرنے والے یہود اور آپ کی شان میں بڑھ چڑھ کر باتیں بنا کر بہکنے والے نصرانیوں کو قتل و قید کی مار اور سلطنت کے تباہ ہوجانے کی یہاں بھی سزا دی اور آخرت کا عذاب وہاں دیکھ لیں گے جہاں نہ کوئی بچا سکے نہ مدد کرسکے گا لیکن برخلاف ان کے ایمانداروں کو پورا اجر اللہ تعالیٰ عطا فرمائے گا دنیا میں بھی فتح اور نصرت عزت و حرمت عطا ہوگی اور آخرت میں بھی خاص رحمتیں اور نعمتیں ملیں گی، اللہ تعالیٰ ظالموں کو ناپسند رکھتا ہے۔ پھر فرمایا اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یہ تھی حقیقت حضرت عیسیٰ کی ابتداء پیدائش کی اور ان کے امر کی جو اللہ تعالیٰ نے لوح محفوظ سے آپ کی طرف بذریعہ اپنی خاص وحی کے اتار دی جس میں کوئی شک و شبہ نہیں جیسے سورة مریم میں فرمایا، عیسیٰ بن مریم یہی ہیں یہی سچی حقیقت ہے جس میں تم شک و شبہ میں پڑے ہو، اللہ تعالیٰ کو تو لائق ہی نہیں کہ اس کی اولاد ہو وہ اس سے بالکل پاک ہے وہ جو کرنا چاہے کہہ دیتا ہے ہوجا، بس وہ ہوجاتا ہے، اب یہاں بھی اس کے بعد بیان ہو رہا ہے۔