اِنَّ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا بَعْدَ اِيْمَانِهِمْ ثُمَّ ازْدَادُوْا كُفْرًا لَّنْ تُقْبَلَ تَوْبَتُهُمْۚ وَاُولٰۤٮِٕكَ هُمُ الضَّاۤ لُّوْنَ
تفسیر کمالین شرح اردو تفسیر جلالین:
مگر جن لوگوں نے ایمان لانے کے بعد کفر اختیار کیا، پھر اپنے کفر میں بڑھتے چلے گئے ان کی توبہ بھی قبول نہ ہوگی، ایسے لوگ تو پکے گمراہ ہیں
English Sahih:
Indeed, those who disbelieve [i.e., reject the message] after their belief and then increase in disbelief – never will their [claimed] repentance be accepted, and they are the ones astray.
ابوالاعلی مودودی Abul A'ala Maududi
مگر جن لوگوں نے ایمان لانے کے بعد کفر اختیار کیا، پھر اپنے کفر میں بڑھتے چلے گئے ان کی توبہ بھی قبول نہ ہوگی، ایسے لوگ تو پکے گمراہ ہیں
احمد رضا خان Ahmed Raza Khan
بیشک وہ جو ایمان لاکر کافر ہوئے پھر اور کفر میں بڑھے ان کی توبہ ہرگز قبول نہ ہوگی اور وہی ہیں بہکے ہوئے،
احمد علی Ahmed Ali
بے شک جو لوگ ایمان لانے کے بعد منکر ہو گئے پھر انکار میں بڑھتے گئے ان کی توبہ ہر گز قبول نہیں کی جائے گی اور وہی گمراہ ہیں
أحسن البيان Ahsanul Bayan
بیشک جو لوگ (١) اپنے ایمان لانے کے بعد کفر کریں پھر کفر میں بڑھ جائیں ان کی توبہ ہرگز قبول نہ کی جائے گی (٢) یہی گمراہ لوگ ہیں۔
٩٠۔١ اس آیت میں ان کی سزا بیان کی جا رہی ہے جو مرتد ہونے کے بعد توبہ کی توفیق سے محروم رہیں اور کفر پر انتقال ہو۔
٩٠۔٢ اس سے وہ توبہ مراد ہے جو موت کے وقت ہو۔ ورنہ توبہ کا دروازہ تو ہر ایک کے لئے ہر وقت کھلا ہے۔ اس سے پہلی آیت میں بھی قبولیت توبہ کا اثبات ہے۔ علاوہ ازیں قرآن میں اللہ تعالٰی نے بار بار توبہ کی اہمیت اور قبولیت کو بیان فرمایا ہے۔(وہو الذی یقبل التوبۃ عن عبادہ۔) "الشوری ۔۲۵"کیا انہوں نے نہیں جانا کہ اللہ تعالٰی بندوں کی توبہ قبول فرماتا ہے اور احادیث میں بھی یہ مضمون بڑی وضاحت سے بیان ہوا ہے اس لیے اس آیت سے مراد آخری سانس کی توبہ ہے جو نامقبول ہے جیسا کہ قرآن کریم کے ایک اور مقام پر ہے (وَلَيْسَتِ التَّوْبَةُ لِلَّذِيْنَ يَعْمَلُوْنَ السَّـيِّاٰتِ ۚ حَتّٰى اِذَا حَضَرَ اَحَدَھُمُ الْمَوْتُ قَالَ اِنِّىْ تُبْتُ الْــٰٔنَ) 4۔ النساء;18) ان کی توبہ قبول نہیں ہے جو برائی کرتے رہتے ہیں یہاں تک کہ جب ان میں سے ایک کو موت آنے لگتی ہے تو کہتا ہے میری توبہ ۔ حدیث میں بھی ہے ان اللہ یقبل توبۃ العبد مالم یغرغر۔ مسند احمد، ترمذی۔ بحوالہ فیض القدیر شرح الجامع الصغیر۔ اللہ تعالٰی بندے کی توبہ اس وقت تک قبول کرتا ہے جب تک اسے موت کا اچھو نہ لگے یعنی جان کنی کے وقت کی توبہ قبول نہیں۔
جالندہری Fateh Muhammad Jalandhry
جو لوگ ایمان لانے کے بعد کافر ہو گئے پھر کفر میں بڑھتے گئے ایسوں کی توبہ ہرگز قبول نہ ہوگی اور یہ لوگ گمراہ ہیں
محمد جوناگڑھی Muhammad Junagarhi
بےشک جو لوگ اپنے ایمان ﻻنے کے بعد کفر کریں پھر کفر میں بڑھ جائیں، ان کی توبہ ہرگز ہرگز قبول نہ کی جائے گی، یہی گمراه لوگ ہیں
محمد حسین نجفی Muhammad Hussain Najafi
بے شک وہ لوگ جو ایمان لانے کے بعد کافر ہوگئے اور کفر میں بڑھتے ہی چلے گئے ان کی توبہ قبول نہیں ہوگی اور یہی لوگ حقیقی گمراہ ہیں۔
علامہ جوادی Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
جن لوگوں نے ایمان کے بعد کفر اختیار کرلیا اور پھر کفر میں بڑھتے ہی چلے گئے ان کی توبہ ہرگز قبول نہ ہوگی اور وہ حقیقی طور پر گمراہ ہیں
طاہر القادری Tahir ul Qadri
بیشک جن لوگوں نے اپنے ایمان کے بعد کفر کیا پھر وہ کفر میں بڑھتے گئے ان کی توبہ ہرگز قبول نہیں کی جائے گے، اور وہی لوگ گمراہ ہیں،
تفسير ابن كثير Ibn Kathir
جب سانس ختم ہونے کو ہوں تو توبہ قبول نہیں ہوگی
ایمان کے بعد پھر اسی کفر پر مرنے والوں کو پروردگار عالم ڈرا رہا ہے کہ موت کے وقت تمہاری توبہ قبول نہیں ہوگی جیسے اور جگہ ہے آیت (وَلَيْسَتِ التَّوْبَةُ لِلَّذِيْنَ يَعْمَلُوْنَ السَّـيِّاٰتِ ۚ حَتّٰى اِذَا حَضَرَ اَحَدَھُمُ الْمَوْتُ قَالَ اِنِّىْ تُبْتُ الْــٰٔنَ وَلَا الَّذِيْنَ يَمُوْتُوْنَ وَھُمْ كُفَّارٌ ۭاُولٰۗىِٕكَ اَعْتَدْنَا لَھُمْ عَذَابًا اَلِـــيْمًا) 4 ۔ النسآء ;18) آخر دم تک یعنی موت کے وقت تک گناہوں میں مبتلا رہنے والے موت کو دیکھ کر جو توبہ کریں وہ اللہ کے ہاں قبول نہیں اور یہی یہاں ہے کہ ان کی توبہ ہرگز مقبول نہ ہوگی اور یہی لوگ وہ ہیں جو راہ حق سے بھٹک کر باطل راہ پر لگ گئے، حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ کچھ لوگ مسلمان ہوئے پھر مرتد ہوگئے پھر اسلام لائے پھر مرتد ہوگئے پھر اپنی قوم کے پاس آدمی بھیج کر بچھوایا کہ کیا اب ہماری توبہ ہے ؟ انہوں نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سوال کیا اس پر یہ آیت اتری (بزار) اس کی اسناد بہت عمدہ ہے۔ پھر فرماتا ہے کہ کفر پر مرنے والوں کی کوئی نیکی قبول نہیں گو اس نے زمین بھر کر سونا اللہ کی راہ میں خرچ کیا ہو، نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پوچھا گیا کہ عبداللہ بن جذعان جو بڑا مہمان نواز غلام آزاد کرنے والا اور کھانا پینا دینے والا شخص تھا کیا اسے اس کی یہ نیکی کام آئے گی ؟ تو آپ نے فرمایا نہیں اس نے ساری عمر میں ایک دفعہ بھی ( اَنْ يَّغْفِرَ لِيْ خَطِيْۗـــــَٔــتِيْ يَوْمَ الدِّيْنِ ) 26 ۔ الشعراء ;82) نہیں کیا یعنی اے میرے رب میری خطاؤں کو قیامت والے دن بخش جس طرح اس کی خیرات نامقبول ہے اسی طرح فدیہ اور معاوضہ بھی، جیسے اور جگہ ہے (وَّلَا يُقْبَلُ مِنْهَا عَدْلٌ وَّلَا تَنْفَعُهَا شَفَاعَةٌ وَّلَا ھُمْ يُنْصَرُوْنَ ) 2 ۔ البقرۃ ;123) ان سے نہ بدلہ مقبول نہ انہیں سفارش کا نفع اور فرمایا (قُلْ لِّعِبَادِيَ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا يُقِيْمُوا الصَّلٰوةَ وَيُنْفِقُوْا مِمَّا رَزَقْنٰهُمْ سِرًّا وَّعَلَانِيَةً مِّنْ قَبْلِ اَنْ يَّاْتِيَ يَوْمٌ لَّا بَيْعٌ فِيْهِ وَلَا خِلٰلٌ) 14 ۔ ابراہیم ;31) اس دن نہ خرید فروخت نہ موت و محبت اور جگہ ارشاد ہے (اِنَّ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا لَوْ اَنَّ لَهُمْ مَّا فِي الْاَرْضِ جَمِيْعًا) 5 ۔ المائدہ ;36) یعنی اگر کافروں کے پاس زمین میں جو کچھ ہے اور اتنا ہی اور بھی ہو پھر وہ اس سب کو قیامت کے عذابوں کے بدلے فدیہ دیں تو بھی نامقبول ہے ان تکلیف والے الم ناک عذابوں کو سہنا پڑے گا، یہی مضمون یہاں بھی بیان فرمایا گیا ہے بعض نے افتدی کی واؤ کو زائد کہا ہے لیکن واؤ کو عطف کی ماننا اور وہ تفسیر کرنا جو ہم نے کی بہت بہتر ہے واللہ اعلم، پس ثابت ہوا کہ اللہ کے عذاب سے کفار کو کوئی چیز نہیں چھڑا سکتی چاہے وہ بڑے نیک اور نہایت سخی ہوں گو زمین بھر بھر کر سونا راہ اللہ لٹائیں یا پہاڑوں اور ٹیلوں کی مٹی اور ریت نرم زمین اور سخت زمین کی خشکی اور تری کے ہم وزن سونا عذاب کے بدلے دینا چاہیں یا دیں، مسند احمد میں ہے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرماتے ہیں جہنمی سے قیامت کے دن کہا جائے گا کہ زمین پر جو کچھ ہے اگر تیرا ہوجائے تو کیا تو اس کو ان سزاؤں کے بدلے اپنے فدیے میں دے ڈالے گا۔ وہ کہے گا ہاں تو جناب باری کا ارشاد ہوگا کہ میں نے تجھ سے بہ نسبت اس کے بہت ہی کم چاہا تھا، میں نے تجھ سے اس وقت وعدہ لیا تھا جب تو اپنے باپ آدم کی پیٹھ میں تھا کہ میرے ساتھ کسی کو شرک نہ بنانا لیکن تو شرک کئے بغیر نہ رہا۔ یہ حدیث بخاری مسلم میں بھی دوسری سند کے ساتھ ہے، مسند احمد کی ایک اور حدیث میں ہے حضرت انس بن مالک (رض) فرماتے ہیں رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ایک ایسے جنتی کو لایا جائے گا جس سے اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہو تم نے کیسی جگہ پائی ؟ وہ جواب دے گا اللہ بہت ہی بہتر۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا اچھا اور کچھ مانگنا ہو تو مانگو دل میں جو تمنا ہو کہو تو یہ کہے گا باری تعالیٰ میری صرف یہی تمنا ہے اور میرا یہی ایک سوال ہے کہ مجھے دنیا میں پھر بھیج دیا جائے میں تیری راہ میں جہاد کروں اور پھر شہید کیا جاؤں پھر زندہ ہوجاؤں پھر شہید کیا جاؤں دس مرتبہ ایسا ہی ہو کیونکہ وہ شہادت کی فضیلت اور شہید کے مرتبے دیکھ چکا ہوگا اسی طرح ایک جہنمی کو بلایا جائے گا اور اس سے اللہ تعالیٰ فرمائے گا۔ اے ابن آدم تو نے اپنی جگہ کیسی پائی ؟ وہ کہے گا اللہ بہت ہی بری۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا کیا ساری زمین بھر کر سونا دے کر ان عذابوں سے چھوٹنا تجھے پسند ہے ؟ وہ کہے گا ہاں اے باری تعالیٰ اس وقت جناب باری تعالیٰ فرمائے گا تو جھوٹا ہے میں نے تو اس سے بہت ہی کم اور بالکل آسان چیز تجھ سے طلب کی تھی لیکن تو نے اسے بھی نہ کیا چناچہ وہ جہنم میں بھیج دیا جائے گا، پس یہاں فرمایا ان کے لئے تکلیف دہ عذاب ہیں اور ایسا نہیں جو ان عذابوں سے اپنے آپ کو چھڑا سکے یا کوئی ان کی کس طرح مدد کرسکے (اللہ تعالیٰ ہمیں اپنے عذاب سے نجات دے۔ آمین)