آل عمران آية ۹۲
لَنْ تَنَالُوا الْبِرَّ حَتّٰى تُنْفِقُوْا مِمَّا تُحِبُّوْنَ ۗ وَمَا تُنْفِقُوْا مِنْ شَىْءٍ فَاِنَّ اللّٰهَ بِهٖ عَلِيْمٌ
طاہر القادری:
تم ہرگز نیکی کو نہیں پہنچ سکو گے جب تک تم (اللہ کی راہ میں) اپنی محبوب چیزوں میں سے خرچ نہ کرو، اور تم جو کچھ بھی خرچ کرتے ہو بیشک اللہ اسے خوب جاننے والا ہے،
English Sahih:
Never will you attain the good [reward] until you spend [in the way of Allah] from that which you love. And whatever you spend – indeed, Allah is Knowing of it.
1 Abul A'ala Maududi
تم نیکی کو نہیں پہنچ سکتے جب تک کہ اپنی وہ چیزیں (خدا کی راہ میں) خرچ نہ کرو جنہیں تم عزیز رکھتے ہو، اور جو کچھ تم خرچ کرو گے اللہ اس سے بے خبر نہ ہوگا
2 Ahmed Raza Khan
تم ہرگز بھلائی کو نہ پہنچو گے جب تک راہِ خدا میں اپنی پیاری چیز نہ خرچ کرو اور تم جو کچھ خرچ کرو اللہ کو معلوم ہے،
3 Ahmed Ali
ہر گز نیکی میں کمال حاصل نہ کر سکو گے یہاں تک کہ اپنی پیاری چیز سے کچھ خرچ کرو اور جو چیز تم خرچ کرو گے بے شک الله اسے جاننے والا ہے
4 Ahsanul Bayan
جب تم اپنی پسندیدہ چیز سے اللہ تعالٰی کی راہ میں خرچ نہ کرو گے ہرگز بھلائی نہ پاؤ گے (١) اور تم جو خرچ کرو اسے اللہ بخوبی جانتا ہے (٢)۔
٩٢۔١ بر (نیکی بھلائی) سے مراد عمل صالح یا جنت ہے (فتح القدیر) حدیث میں آتا ہے جب یہ آیت نازل ہوئی حضرت ابو طلحہ انصاری رضی اللہ عنہ جو مدینہ کے اصحاب حیثیت میں سے تھے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! بیرحا کا باغ مجھے سب سے زیادہ محبوب ہے، میں اسے اللہ کی رضا کے لئے صدقہ کرتا ہوں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ' وہ تو بہت نفع بخش مال ہے، میری رائے یہ ہے کہ تم اسے اپنے رشتہ داروں میں تقسیم کر دو ' چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے مشورے سے انہوں نے اسے اپنے اقارب اور عم زادوں میں تقسیم کر دیا، اچھی چیز صدقہ کی جائے، یہ افضل اور اکمل درجہ حاصل کرنے کا طریقہ ہے۔ جس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ کمتر چیز یا اپنی ضرورت سے زائد فالتو چیز یا استعمال شدہ پرانی چیز کا صدقہ نہیں کیا جا سکتا یا اس کا اجر نہیں ملے گا۔ اس قسم کی چیزوں کا صدقہ کرنا بھی یقینا جائز اور باعث اجر ہے گو کمال و افضلیت محبوب چیز کے خرچ کرنے میں ہے۔
٩٢۔٢ تم جو کچھ بھی خرچ کرو گے اچھی یا بری چیز، اللہ اسے جانتا ہے، اس کے مطابق جزا سے نوازے گا۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
(مومنو!) جب تک تم ان چیزوں میں سے جو تمھیں عزیز ہیں (راہِ خدا میں) صرف نہ کرو گے کبھی نیکی حاصل نہ کر سکو گے اور جو چیز تم صرف کرو گے خدا اس کو جانتا ہے
6 Muhammad Junagarhi
جب تک تم اپنی پسندیده چیز سے اللہ تعالیٰ کی راه میں خرچ نہ کروگے ہرگز بھلائی نہ پاؤ گے، اور تم جو خرچ کرو اسے اللہ تعالیٰ بخوبی جانتا ہے
7 Muhammad Hussain Najafi
لوگو! تم ہرگز اس وقت تک نیکی (کو حاصل) نہیں کر سکتے جب تک اپنی پسندیدہ چیزوں میں سے کچھ راہِ خدا میں خرچ نہ کرو۔ اور تم (راہِ خدا میں) جو کچھ خرچ کرتے ہو خدا اس کو خوب جانتا ہے۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
تم نیکی کی منزل تک نہیں پہنچ سکتے جب تک اپنی محبوب چیزوں میں سے راسِ خدا میں انفاق نہ کرو اور جو کچھ بھی انفاق کرو گے خدا اس سے بالکل باخبر ہے
9 Tafsir Jalalayn
(مو منو ! ) جب تک تم ان چیزوں میں سے جو تمہیں عزیز ہیں (راہ خدا) میں صرف نہ کرو گے کبھی نیکی حاصل نہ کرسکو گے اور جو چیز تم صرف کرو گے خدا اس کو جانتا ہے۔
آیت نمبر ٩٢ تا ١٠١
ترجمہ : جب تک اپنے محبوب مالوں کو خرچ نہ کرو گے (صدقہ نہ کروگے) ہرگز نیکی کا اجر جو کہ جنت ہے حاصل نہ کرسکو گے اور جو چیز بھی تم خرچ کرتے ہو اللہ اس سے بخوبی واقف ہے لہٰذا وہ اس کی جزاء دے گا، اور نازل ہوئی جب یہودیوں نے یہ بات کہی، کہ تم اس بات کا دعویٰ کرتے ہو کہ تم ملت ابراہیمی پر ہو حالانکہ وہ تو اونٹ کا گوشت اور دودھ کھاتے پیتے نہیں تھے۔ (اور تم کھاتے پیتے ہو) ہر کھانا بنی اسرائیل کے لیے حلال تھا بجز اس کے کہ جس کو اسرائیل (یعقوب) نے اپنے اوپر حرام کرلیا تھا اور وہ اونٹ تھا، ایسا اس وقت کیا تھا کہ جب ان کو عرق النساء کا مرض لاحق ہوگیا تھا (نَساء) فتحہ نون کے ساتھ اور قصر الف کے ساتھ (بروزن عصا) ہے، (حضرت یعقوب (علیہ السلام) نے نذر مانی تھی کہ اگر میں شفاء یاب ہوگیا تو اس کو میں نہ کھاؤں گا، چناچہ انہوں نے اس کو اپنے اوپر ممنوع قرار دے لیا، ایسا تورات نازل ہونے سے قبل کیا تھا اور یہ (واقعہ) ابراہیم (علیہ السلام) کے بعد ہوا، اور یہ حرمت حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے زمانہ میں نہیں تھی جیسا کہ تم سمجھتے ہو۔ تو آپ ان سے کہئے کہ تورات لاؤ اور اس کو پڑھو تاکہ تمہارے قول کی صداقت ظاہر ہوجائے اگر تم اس دعوے میں سچے ہو تو وہ ہ کے بکے رہ گئے اور تورات نہ لائے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا سو جو شخص اس کے یعنی حجت کے ظاہر ہونے کے بعد بھی اللہ پر بہتان تراشی کرے کہ تحریم یعقوب (علیہ السلام) کی جانب سے تھی نہ کہ ابراہیم (علیہ السلام) کے عہد میں تو یہی لوگ ہیں ظالم (یعنی) حق سے باطل کی طرف تجاوز کرنے والے ہیں آپ کہدیجئے کہ دیگر باتوں کی طرح اللہ نے یہ بات بھی سچ فرما دی تو تم سیدھی راہ والے ابراہیم (علیہ السلام) کے دین کی جس پر میں ہوں پیروی کرو یعنی ہر دین سے (اعراض کرکے) دین اسلام کی جانب رخ کرکے اور (حضرت ابراہیم (علیہ السلام) مشرکوں میں سے نہ تھے، اور آئندہ آیت اس وقت نازل ہوئی جب یہود نے کہا تھا کہ ہمارا قبلہ تمہارے قبلے سے قدیم ہے، سب سے پہلا گھر جو معبد کے طور پر لوگوں کے لیے مبارک بنا کر وضع کیا گیا، وہ ہے جو مکہ میں ہے، مکہ، میں ایک لغت بکہ بھی ہے باء کے ساتھ، بکہ کو بکہ اس لیے کہتے ہیں کہ بکہ کے معنی توڑنے، پھوڑنے کے ہیں چونکہ یہ بڑے بڑے حباروں (ظالموں) کی گردنوں کو جو اس کے انہدام کا قصد کریں تو ڑکر رکھ دیتا ہے۔ اس کی تعمیر فرشتوں نے کی تھی اس کے بعد مسجد اقصیٰ تعمیر کی گئی اور ان دونوں کے درمیان چالیس سال کا فاصلہ ہے، جیسا کہ صحیحین کی حدیث میں وارد ہے، اور ایک حدیث میں ہے کہ آسمانوں اور زمینوں کی تخلیق کے وقت سطح آب پر سفید جھاگ کی شکل میں جو چیز نمودار ہوئی تھی وہ کعبہ تھا اس کے بعد زمین کو اس کے نیچے سے پھیلایا گیا، (مُبٰرَکاً ) اَلَّذِی سے حال ہے ای ذابرکۃٍ ، اور اہل عالم کے لیے ہدایت والا ہے اس لیے کہ یہ ان کا قبلہ ہے۔ اس میں کھلی ہوئی نشانیاں ہیں ان ہی میں سے مقام ابراہیم (علیہ السلام) ہے یعنی وہ پتھر کہ تعمیر بیت اللہ کے وقت جس پر (حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کھڑے ہوتے تھے۔ آپ کے قدموں کے اس میں نشان پڑگئے اور زمانہ دراز کے باوجود لوگوں کے بار بار مس کرنے کے باوجود آج تک باقی ہیں۔ اور ان ہی نشانیوں میں سے اس میں نیکیوں کے اجر کا دوگنا ہونا ہے۔ اور کوئی پرندہ اس کے اوپر سے نہیں گزر سکتا۔ اور جو کوئی اس میں داخل ہوجاتا ہے وہ مامون ہوجاتا ہے قتل و ظلم وغیرہ کے لیے اس سے تعرض نہیں کیا جاتا تھا۔ اور لوگوں پر اللہ کے لیے بیت اللہ کا حج واجب ہے (حج) کے مصدر میں جاء کا فتحہ اور کسرہ دو لغت ہیں۔ حَجًّ ، بمعنی قَصَدَ ، اور (مَنِ اسْتَطَاعَ اِلَیْہِ سَبِیْلاً ) النّاس، سے بدل ہے جو وہاں تک پہنچنے کی قدرت رکھتا ہو، (استطاعت) کی تفسیر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے زادو راحلہ (سواری اور سفر خرچ) سے فرمائی۔ روایت کیا اس کو حاکم وغیرہ نے اور جو کوئی اللہ کا کفر کرے اور جو اس پر حج فرض کیا ہے (اس کا منکر ہو) تو اللہ تعالیٰ عالم والوں سے یعنی جن و انس اور ملائکہ اور ان کی عبادت سے بےنیاز ہے۔ آپ کہئے کہ اے اہل کتاب تم اللہ کی آیتوں قرآن کا کیوں انکار کرتے ہو ؟ دارنحالی کہ اللہ تمہارے اعمال پر شاہد ہے تم کو اس کی جزاء دے گا۔ آپ کہئے اے اہل کتاب تم اس شخص کو جو ایمان لا چکا ہے اللہ کے دین سے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تکذیب اور ان کی علامات کو چھپا کر کیوں روکتے ہو ؟ اس راہ (دین) میں کجی نکالتے ہو (عوَجًا) مصدر ہے مُعَوَّجَۃً ، کے معنی میں ہے، یعنی حق سے انحراف کرکے، حالانکہ تم جانتے ہو کہ پسندیدہ اور صحیح دین اسلام ہی ہے جیسا کہ تمہاری کتاب میں موجود ہے۔ اور اللہ تعالیٰ کفر و تکذیب وغیرہ تمہارے اعمال سے بیخبر نہیں ہے اور اس نے تم کو محض ایک وقت تک مہلت دے رکھی ہے پھر تم کو اس کی سزا دے گا (آئندہ آیت اس وقت نازل ہوئی) کہ جب بعض یہودیوں کا گزر اَوْس و خزرج پر ہوا تو ان کی آپسی الفت و محبت نے ان کو غضب ناک کردیا، چناچہ ان یہودیوں نے ان کے زمانہ جاہلیت کی (آپسی) فتنہ کی باتوں کا ذکر چھیڑ دیا جس کی وجہ سے وہ آپس میں جھگڑنے لگے قریب تھا کہ آپس میں خون ریزی ہوجائے۔ اے ایمان والو اگر اہل کتاب کے کسی فریق کی بات مانو گے تو وہ تم کو تمہارے ایمان لانے کے باوجود کافر بنا کر چھوڑیں گے اور تم کس طرح کفر کرسکتے ہو استفہام تعجب اور توبیخ کے لیے ہے، حالانکہ تمہیں اللہ کی آیتیں پڑھ کر سنائی جاتی ہیں اور تمہارے درمیان اس کا رسول موجود ہے اور جو اللہ کو مضبوط پکڑتا ہے تو وہ سیدھی راہ کی طرف ہدایت کیا جاتا ہے۔
تحقیق و ترکیب و تسیل و تفسیری فوائد
قولہ : تَنَالُوْا، تم حاصل کرو گے، تم پاؤ گے (س) مضارع جمع مذکر حاضر، نَالَ یَنَالُ نَیلاً پہنچنا، حاصل کرنا۔
قولہ : ای ثوابہٗ مفسر علام نے مضاف کو مقدر مان کر اشارہ کردیا کہ عبارت حذف مضاف کے ساتھ ہے۔ اس لیے کہ نفس بِرّ تو نیک عمل کرنے کو کہتے ہیں جس کا وجود عمل نیک کرنے سے ہوجاتا ہے البتہ عمل نیک کا اجر وثواب محبوب و پسندیدہ چیز خرچ کرنے سے حاصل ہوتا ہے۔ قولہ : تَصَدَّقُوْا، تُنْفِقُوْا کی تفسیر تَصَدَّقُوْا سے کرکے اشارہ کردیا کہ مطلق انفاق خواہ اپنی ذات پر ہو یا برے کاموں میں ہو مراد نہیں ہے بلکہ فی سبیل اللہ صدقہ کرنا مراد ہے۔ قولہ : مِمَّا تُحِبُّوْنَ ، مَا تبعیضیہ ہے، اس لیے کہ ایک قراءت میں بَعْضَ مَا تُحِبُّوْنَ ہے۔
قولہ : کُلُّ الطَّعَامِ الف لام عہد کا ہے ای کُلُّ الاطعِمۃ الَّتِی کانَتْ تَدِّعِی الیھودُ حُرْمَتَھَا عَلیٰ اِبْرَاھِیْمَ ۔
قولہ : عِر النَساء، عرق النساء اکثر بائیں سرین سے شروع ہو کر گھٹنے اور بعض اوقات ٹخنے تک اتر آتا ہے اگر یہ مرض زیادہ دنوں تک رہے تو مریض لنگڑا ہوجاتا ہے۔ (شرح موجز، اقرائی)
قولہ : اَنا عَلَیْھَا اتباع ابراہیم (علیہ السلام) سے مراد ملت اسلام کی اتباع ہے اس لیے کہ ملت ابراہیمی ملت اسلامی ہی تھی، اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھی اسی ملت ابراہیمی پر تھے۔
قولہ : متَعَبَّدًا، یہ لفظ بڑھا کر اشارہ کردیا کہ اول بیت سے مطلق اول بیت مراد نہیں بلکہ عبادت گاہ کے طور پر اول بیت مراد ہے۔
قولہ : لَلَّذِیْ بِبَکَّۃَ میں لام تاکید ہے اس کو لام مُزْ حَلَقۃ بھی کہتے ہیں۔ دراصل یہ لام مبتداء پر اس کی تاکید کے لیے داخل ہوتا ہے مگر جب مبتدا پر انَّ داخل ہوجاتا ہے تو اِنّ اپنی صدارت کی خاطر اس لام کو خبر کی طرف دھکیل دیتا ہے اس لیے اس لام کا لام مزْ حلقہ کہتے ہیں۔ مکہ اور بکہ بلد حرام کے نام ہیں، یہ دونوں لغت ہیں، اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ بکہ، مقام بیت اللہ کا نام ہے اور مکہ بلد حرام کا نام ہے، اور بعض لوگوں نے کہا ہے کہ مسجد حرام کا نام بکہ پورے حرم کا نام ہے اور بکّہ کو بکہ اس لئے کہتے ہیں کہ اس کے معنی ازدحام الناس کے ہیں طواف کے وقت چونکہ ازدحام ہوتا ہے اسی لیے اس کو بکہ کہتے ہیں، اور بعض حضرات نے کہا ہے کہ بَکَ کے معنی ’ دَقٌ‘ کے معنی ہیں کاٹنا، توڑنا، مروڑنا، اس لیے کہ جس ظالم و جابر نے بھی اس کو ترچھی نگاہ سے دیکھا اور اس کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی اس کی گردن مروڑ دی گئی، اور مکہ، تسمیہ کی وجہ سے بارے میں بعض حضرات نے کہا ہے کہ قلت ماء کی وجہ سے مکہ کہا جاتا ہے، عرب بولتے ہیں مکَّ الفصیل ضَرْعَ اُمِّہٖ جب کہ بچہ ماں کا دودھ پی کر ختم کر دے اور قاموس میں ہے چونکہ مکہ گناہوں کو مٹا دیتا ہے اور یہ تمک الذنوب سے مشتق ہے ای تمحوھا وتزیلُھا۔
مکہ کے بہت سے نام ہیں : (١) مکہ۔ (٢) بکہ۔ (٣) البیت العتیق۔ (٤) البیت الحرام۔ (٥) البلد الامین۔ (٦) المامون۔ (٧) الم الرحیم۔ (٨) امُّ القری۔ (٩) صلاح۔ (١٠) العرش۔ (١١) القادس۔ (١٢) المقدسہ۔ (١٣) البناسۃ۔ (١٤) نون اور باء کے ساتھ۔ (١٥) الحاطمہ۔ (١٦) الرأس۔ (١٧) کو ثاء۔ (١٨) البلدۃ۔ (١٩) البنیۃ۔ (٢٠) الکعبہ۔ (اعراب القرآن)
مجاہد نے کہا کہ، باء میم سے بدل گئی ہے جیسے سَبَدٌ اور سَمَدٌ، اور لازبٌ و لازمٌ میں۔
قولہ : تطلبون السبیل، یہ اس شبہ کا جواب ہے کہ سبیل مذکر ہے لہٰذا تَبْغُوْنَھَا کے بجائے تَبْغُوْنَہٗ ہونا چاہیے۔
جواب : سبیل چونکہ مذکر اور مؤنث دونوں استعمال ہوتا ہے لہٰذا تَبْغُوْنَھا درست ہے۔
قولہ : مصدرٌ بمعنی مُعَوَّجَۃً ، یہ اس سوال کا جواب ہے کہ عِوَجًا، السبیل سے حال ہے حالانکہ اس کا حمل السبیل پر صحیح نہیں ہے۔
جواب : عِوَجًا، مُعَوَّجًا کے معنی میں ہے۔ عِوَج عین کے کسرہ کے ساتھ غیر مجسم اشیاء کی کجی کے لیے استعمال ہوتا ہے مثل عقل فہم اور عَوَج عین کے فتحہ کے ساتھ مجسم اشیاء مثلاً دیوار وغیرہ کی کجی کے لیے استعمال ہوتا ہے۔
اللغۃ والبلاغۃ
قولہ : حِلًّا، (ض) حِلاَّ و حَلالاً ، دونوں مصدر ہیں، بمعنی حلال ہونا۔ قولہ : بکّۃ، میم اور باء چونکہ قریب المخرج ہیں اس لیے میم کو باء سے بدل دیا جیسا کہ لازم کو لازب کرلیا جاتا ہے۔ قولہ : للذی ببکۃ، یہ لام تاکید مزحلقہ ہے، دراصل یہ انَ کی خبر پر داخل ہونے والا وہ لام ہے جس کو اِنّ نے اپنی صدارت کی وجہ سے اپنی خبر کی طرف دھکیل دیا ہے، مزحلقہ کے معنی ہیں دھکیلا ہوا۔
است خدام : مَنْ دخلہ کان آمنًا میں صنعت است خدام ہے اس لیے کہ مقام ابراہیم سے جائے قدم مراد ہے۔ اور اس کی طرف لوٹنے والی دخلہٗ کی ضمیر سے مطلق حرم مراد ہے، اسی کو است خدام کہتے ہیں کہ مرجع سے ایک معنیٰ مراد ہوں اور اس کی طرف لوٹنے والی ضمیر سے دوسرے معنیٰ مراد ہوں۔
تفسیر و تشریح
ربط : سابق میں صدقہ کافر کا ذکر تھا کہ صدقہ اور کسی بھی کارخیر سے ایمان کے بغیر کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔ یہاں مومن کے صدقہ اور کار خیر کا ذکر ہے۔ لَنْ تَنَالُوا الْبِرَّ (بِرّ ) نیکی، بھلائی، یہاں مطلقاً عمل صالح یا جنت مراد ہے۔
آیت مذکورہ اور صحابہ کرام (رض) تعالیی عنہم کا جذبہ عمل : صحابہ کرام (رض) جو کہ قرآن کریم کے اولین مخاطب تھے اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بلاوسطہ شاگرد اور احکام قرآنی پر عمل کرنے کے عاشق، اس آیت کے نازل ہونے پر ہر ایک نے اپنی اپنی محبوب چیزوں پر نظر ڈالی اور ان کو اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کے لیے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے درخواست پیش کرنے لگے، انصار مدینہ میں ایک صحابی ابو طلحہ جو کہ باحیثیت تھے مسجد نبوی کے بالکل قریب بالمقابل ایک بہت عمدہ باغ تھا اس میں ایک کنواں بھی تھا جو کہ بیر حاء کے نام سے مشہور تھا اس کا پانی نہایت عمدہ اور نہایت شیریں تھا، اب اس باغ کی جگہ باب مجیدی کے سامنے اصطفیٰ منزل کے نام سے عمارت بنی ہوئی ہے جس میں زائرین مدینہ قیام کرتے ہیں اس کے شمال مشرق کے گوشہ میں یہ بیر حاء اب تک اسی نام سے موجود ہے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کبھی کبھی اس باغ میں تشریف لے جاتے اور بیرحاء کا پانی نوش فرماتے، آپ کو اس کنویں کا پانی پسند تھا، حضرت طلحہ کا یہ باغ بڑا قیمتی اور زرخیز اور اپنی جائداد میں سب سے زیادہ محبوب تھا، اس آیت کے نازل ہونے کے بعد حضرت ابو طلحہ (رض) آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا میرے تمام اموال میں بیرحاء مجھے سب سے زیادہ محبوب ہے میں اس کو اللہ کی راہ میں خرچ کرنا چاہتا ہوں، آپ جس کام میں پسند فرمائیں اس کو صرف فرما دیں، آپ نے فرمایا وہ تو عظیم الشان منافع کا باغ ہے، میں یہ مناسب سمجھتا ہوں کہ تم اس کو اپنے اقرباء میں تقسیم کرد و، حضرت ابو طلحہ (رض) نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اس مشورہ کو قبول فرما کر اپنے اقرباء میں تقسیم کردیا یہ حدیث بخاری اور مسلم میں مذکور ہے۔ اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ خیرات صرف وہ نہیں یہ جو عام فقراء کو دی جائے، اپنے اہل و عیال اور عزیزو اقارب پر خرچ کرنا بھی بڑی خیرات اور موجب ثواب ہے۔
حضرت زید بن حارثہ (رض) اپنا ایک گھوڑا لیے ہوئے حاضر ہوئے اور عرض کیا مجھے اپنی املاک میں یہ گھوڑا سب سے زیادہ محبوب ہے اس کو اللہ کی راہ میں خرچ کرنا چاہتا ہوں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کو قبول فرما لیا۔ لیکن ان سے لے کر ان ہی کے صاحبزادے اسامہ کو دے دیا، حضرت زید اس پر کچھ دلگیر ہوئے کہ میرا صدقہ میرے ہی گھر واپس آگیا تو آپ نے ان کو تسلی کے لیے فرمایا، اللہ تعالیٰ نے تمہارا یہ صدقہ قبول فرما لیا۔ (مظہری بحوالہ ابن جریر، معارف) ۔ اس آیت سے معلوم ہوا کہ اللہ راہ میں جو صدقہ خیرات بھی ہو خواہ فرض خواہ نفل ان سب میں مکمل فضیلت اور ثواب جب ہی ہے کہ اپنی محبوب اور پیاری چیز کو اللہ کی راہ میں خرچ کرو۔ یہ نہیں کہ صدقہ کو تاوان کی طرح سر سے ٹالنے کے لے فالتو اور بےکار یا خراب چیزوں کا انتخاب کرو۔
فالتو اور حاجت سے زائد چیز بھی خرچ کرنے میں ثواب ہے : اگرچہ اس آیت میں یہ بتلایا گیا ہے کہ خیر کامل اور ثواب عظیم اس پر موقوف ہے کہ اپنی محبوب چیز کو راہ خدا میں صرف کریں، مگر اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ ضرورت سے زائد اور فالتو مال خرچ کرنے میں کوئی اجر وثواب ہی نہیں ہے بلکہ آیت کے آخر میں جو یہ ارشاد ہے ” وَمَا تُنْفِقُوْا مِنْ شِئ فَاِنَّ اللہَ بِہٖ عَلِیْمٌ“ اس آیت کا مفہوم یہ ہے کہ اگرچہ خیر کامل اور صف ابرار میں داخلہ محبوب چیز کے خرچ کرنے پر موقوف ہے لیکن مطلق چواب سے کوئی صدقہ خالی نہیں خواہ محبوب چیز خرچ کریں یا زائد اور فالتو ہاں جو چیز مکروہ اور ممنوع ہے وہ یہ کہ کوئی شخص راہ خدا میں خرچ کرنے کے لیے یہی طریقہ اختیار کرے کہ جب خرچ کرے فالتو اور ناکارہ چیز کا انتخاب کرے۔
10 Tafsir as-Saadi
اس میں اللہ کی طرف سے بندوں کو ترغیب ہے کہ وہ نیکی کے کاموں میں خرچ کریں، چنانچہ فرمایا : ﴿لَن تَنَالُوا الْبِرَّ ﴾” تم ہرگز بھلائی نہ پاؤ گے“ یعنی تم کبھی ’’بر“ حاصل نہیں کرسکو گے۔” بر“ میں ہر قسم کے نیکی اور ثواب کے کام شامل ہیں جو کرنے والے کو جنت میں پہنچاتے ہیں۔﴿حَتَّىٰ تُنفِقُوا مِمَّا تُحِبُّونَ﴾ ” جب تک تم ان چیزوں میں سے جو تمہیں عزیز ہیں (اللہ کی راہ میں) صرف نہ کرو گے۔“ یعنی جب تم مال کی محبت پر اللہ کی محبت کو ترجیح دیتے ہوئے اللہ کی رضامندی کے کاموں میں مال خرچ کرو گے تو اس سے ثابت ہوگا کہ تمہارا ایمان سچا ہے اور تمہارے دلوں میں نیکی اور تقویٰ موجود ہے۔ اس میں عمدہ اشیاء خرچ کرنا بھی شامل ہے اور خود ضرورت مند ہوتے ہوئے ضرورت کی چیز اللہ کی راہ میں دے دینا بھی اور صحت کی حالت میں خرچ کرنا بھی۔ آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ بندے کی نیکی کا معیار دل پسند اشیاء اللہ کی راہ میں خرچ کرنا ہے۔ جس قدر یہ خوبی کم ہوگی اتنا ہی اس کے نیک ہونے میں نقص ہوگا۔ چونکہ بندوں کو ہر انداز سے خرچ کرنے کا ثواب ملتا ہے، کم ہو یا زیادہ، دل پسند چیز ہو یا نہ ہو اور ﴿لَن تَنَالُوا الْبِرَّ حَتَّىٰ تُنفِقُوا مِمَّا تُحِبُّونَ ۚ ﴾ سے یہ وہم پیدا ہوتا ہے کہ جس چیز سے دلی محبت نہ ہو اسے خرچ کرنے پر ثواب نہیں ہوتا۔ اللہ تعالیٰ نے اس وہم کو دور کرنے کے لئے فرمایا : ﴿َمَا تُنفِقُوا مِن شَيْءٍ فَإِنَّ اللَّـهَ بِهِ عَلِيمٌ﴾ ”اور جو کچھ تم خرچ کرو، اللہ اسے بخوبی جانتا ہے۔“ اللہ تمہیں تنگی میں نہیں ڈالتا، بلکہ تمہاری نیت اور چیز کے فائدے کے مطابق تمہیں اس کا ثواب دے دیتا ہے۔
11 Mufti Taqi Usmani
tum naiki kay maqam tak uss waqt tak hergiz nahi phoncho gay jab tak unn cheezon mein say ( Allah kay liye ) kharch naa kero jo tumhen mehboob hain . aur jo kuch bhi tum kharch kero , Allah ussay khoob janta hai .
12 Tafsir Ibn Kathir
سب سے زیادہ پیاری چیز اور صدقہ
حضرت عمرو بن میمون فرماتے ہیں بر سے مراد جنت ہے، یعنی اگر تم اپنی پسند کی چیزیں اللہ تعالیٰ کی راہ میں صدقہ کرتے رہو گے تو تمہیں جنت ملے گی، مسند احمد میں ہے کہ حضرت ابو طلحہ مالدار صحابی تھے مسجد کے سامنے ہی بیئرحا نامی آپ کا ایک باغ تھا جس میں کبھی کبھی آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھی تشریف لے جایا کرتے تھے اور یہاں کا خوش ذائقہ پانی پیا کرتے تھے جب یہ آیت اتری تو حضرت ابو طلحہ (رض) بارگاہ نبوی میں حاضر ہو کر عرض کرنے لگے کہ یا رسول اللہ میرا تو سب سے زیادہ پیارا مال یہی باغ ہے میں آپ کو گواہ کرتا ہوں کہ میں نے اسے اللہ کی راہ میں صدقہ کیا اللہ تعالیٰ مجھے بھلائی عطا فرمائے اور اپنے پاس اسے میرے لئے ذخیرہ کرے آپ کو اختیار ہے جس طرح چاہیں اسے تقسیم کردیں آپ بہت ہی خوش ہوئے اور فرمانے لگے مسلمانوں کو اس سے بہت فائدہ پہنچے گا تم اسے اپنے قرابت داروں میں تقسیم کردو چناچہ حضرت ابو طلحہ نے اسے اپنے رشتہ داروں اور چچا زاد بھائیوں میں بانٹ دیا، بخاری و مسلم میں ہے کہ حضرت عمر فاروق (رض) بھی خدمت رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں حاضر ہوئے اور کہا کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مجھے اپنے تمام مال میں سب سے زیاد مرغوب مال خیبر کی زمین کا حصہ ہے میں اسے راہ اللہ دینا چاہتا ہوں فرمائیے کیا کروں ؟ آپ نے فرمایا اسے وقف کردو اصل روک لو اور پھل وغیرہ راہ اللہ کردو۔ مسند بزاز میں ہے کہ حضرت عبداللہ بن عمر (رض) فرماتے ہیں میں نے اس آیت کی تلاوت کر کے سوچا تو مجھے کوئی چیز ایک کنیز سے زیادہ پیاری نہ تھی۔ میں نے اس لونڈی کو راہ للہ آزاد کردیا، اب تک بھی میرے دل میں اس کی ایسی محبت ہے کہ اگر کسی چیز کو اللہ تعالیٰ کے نام پردے کر پھر لوٹا لینا جائز ہو تو میں کم از کم اس سے نکاح کرلیتا۔