سبا آية ۳۷
وَمَاۤ اَمْوَالُـكُمْ وَلَاۤ اَوْلَادُكُمْ بِالَّتِىْ تُقَرِّبُكُمْ عِنْدَنَا زُلْفٰۤى اِلَّا مَنْ اٰمَنَ وَعَمِلَ صَالِحًـا ۙ فَاُولٰۤٮِٕكَ لَهُمْ جَزَاۤءُ الضِّعْفِ بِمَا عَمِلُوْا وَهُمْ فِى الْغُرُفٰتِ اٰمِنُوْنَ
طاہر القادری:
اور نہ تمہارے مال اس قابل ہیں اور نہ تمہاری اولاد کہ تمہیں ہمارے حضور قرب اور نزدیکی دلا سکیں مگر جو ایمان لایا اور اس نے نیک عمل کئے، پس ایسے ہی لوگوں کے لئے دوگنا اجر ہے ان کے عمل کے بدلے میں اور وہ (جنت کے) بالاخانوں میں امن و امان سے ہوں گے،
English Sahih:
And it is not your wealth or your children that bring you nearer to Us in position, but it is [by being] one who has believed and done righteousness. For them there will be the double reward for what they did, and they will be in the upper chambers [of Paradise], safe [and secure].
1 Abul A'ala Maududi
یہ تمہاری دولت اور تمہاری اولاد نہیں ہے جو تمہیں ہم سے قریب کرتی ہو ہاں مگر جو ایمان لائے اور نیک عمل کرے یہی لوگ ہیں جن کے لیے اُن کے عمل کی دہری جزا ہے، اور وہ بلند و بالا عمارتوں میں اطمینان سے رہیں گے
2 Ahmed Raza Khan
اور تمہارے مال اور تمہاری اولاد اس قابل نہیں کہ تمہیں ہمارے قریب تک پہنچائیں مگر وہ جو ایمان لائے اور نیکی کی ان کے لیے دُونا دُوں (کئی گنا) صلہ ان کے عمل کا بدلہ اور وہ بالاخانوں میں امن و امان سے ہیں
3 Ahmed Ali
اور تمہاے مال اور اولاد ایسی چیز نہیں جو تمہیں مرتبہ میں ہمارے قریب کر دے مگر جو ایمان لایا اور نیک کام کیے پس وہی لوگ ہیں جن کے لئے دگنا بدلہ ہے اس کا جو انہوں نے کیا اور وہی بالاخانوں میں امن سے ہوں گے
4 Ahsanul Bayan
اور تمہارا مال اور اولاد ایسے نہیں کہ تمہیں ہمارے پاس (مرتبوں) قریب کر دیں (١) ہاں جو ایمان لائیں اور نیک عمل کریں (٢) ان کے لئے ان کے اعمال کا دوہرا اجر ہے (٣) اور وہ نڈر و بےخوف ہو کر بالا خانوں میں رہیں گے۔
٣٧۔١ یعنی یہ مال اس بات کی دلیل نہیں ہے کہ ہمیں تم سے محبت ہے اور ہماری بارگاہ میں تمہیں خاص مقام حاصل ہے۔
٣٧۔٢ یعنی ہماری محبت اور قرب حاصل کرنے کا ذریعہ تو صرف ایمان اور عمل صالح ہے جس طرح حدیث میں فرمایا ' اللہ تعالٰی تمہاری شکلیں اور تمہارے مال نہیں دیکھتا، وہ تمہارے دلوں اور عملوں کو دیکھتا ہے (صحیح مسلم)
٣٧۔٣ بلکہ کئی کئی گنا، ایک نیکی کا اجرکم از کم دس گنا مزید سات سو گنا بلکہ اس سے زیادہ تک۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
اور تمہارا مال اور اولاد ایسی چیز نہیں کہ تم کو ہمارا مقرب بنا دیں۔ ہاں (ہمارا مقرب وہ ہے) جو ایمان لایا اور عمل نیک کرتا رہا۔ ایسے ہی لوگوں کو ان کے اعمال کے سبب دگنا بدلہ ملے گا اور وہ خاطر جمع سے بالاخانوں میں بیٹھے ہوں گے
6 Muhammad Junagarhi
اور تمہارے مال اور اوﻻد ایسے نہیں کہ تمہیں ہمارے پاس (مرتبوں سے) قریب کردیں ہاں جو ایمان ﻻئیں اور نیک عمل کریں ان کے لئے ان کے اعمال کا دوہرا اجر ہے اور وه نڈر و بےخوف ہو کر باﻻ خانوں میں رہیں گے
7 Muhammad Hussain Najafi
اور تمہارے مال اور تمہاری اولاد (کوئی ایسی چیز نہیں ہیں) جو تمہیں ہمارا مقرب بارگاہ بنائیں مگر وہ جو ایمان لائے اور نیک عمل کرے (اسے ہمارا قرب حاصل ہوگا) ایسے لوگوں کیلئے ان کے عمل کی دوگنی جزا ہے اور وہ بہشت کے اونچے اونچے درجوں میں امن و اطمینان سے رہیں گے۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
اور تمہارے اموال اور اولاد میں کوئی ایسا نہیں ہے جو تمہیں ہماری بارگاہ میں قریب بناسکے علاوہ ان کے جو ایمان لائے اور انہوں نے نیک اعمال کئے تو ان کے لئے ان کے اعمال کا دہرا بدلہ دیا جائے گا اور وہ جھروکوں میں امن وامان کے ساتھ بیٹھے ہوں گے
9 Tafsir Jalalayn
اور تمہارا مال اور اولاد ایسی چیز نہیں کہ تم کو ہمارا مقرب بنادیں ہاں (ہمارا مقرب وہ ہے) جو ایمان لایا اور عمل نیک کرتا رہا ایسے ہی لوگوں کو ان کے اعمال کے سبب دگنا بدلا ملے گا اور وہ خاطر جمع سے بالا خانوں میں بیٹھے ہوں گے
آیت نمبر 37 تا 45
ترجمہ : اور تمہارے مال و اولاد ایسی چیز نہیں جو تم کو ہمارا مقرب بنادیں، ہاں ! جو ایمان لائیں اور نیک عمل کریں ان کے لئے ان کے اعمال کا دوہرا اجر ہے مثلاً نیک اعمال کی جزاء دس گنا یا اس سے بھی زیادہ اور وہ جنت کے بالا خانوں میں موت وغیرہ سے بےخوف ہوں گے اور ایک قراءت میں اَلغُرْفَۃُ ہے اور یہ معنی میں جمع کے ہے، اور وہ لوگ جو ہماری آیتوں قرآن کے باطل کرنے کی تگ ودو میں ہم کو عاجز سمجھ کر لگے رہتے ہیں، یہ سمجھ کر ہم سے بچ کر نکل جائیں گے، یہی ہیں وہ جو عذاب میں پکڑ کر حاضر کئے جائیں گے، آپ کہہ دیجئے میرا رب اپنے بندوں میں سے جس کی چاہے روزی امتحاناً کشادہ کردیتا ہے اور اسی کی یا جس کی چاہے کشادگی کے بعد ابتلاءً روزی تنگ کردیتا ہے اور تم جو کچھ بھی کارخیر میں خرچ کرو گے اللہ اس کا بدلہ دے گا اور وہ بہترین روزی رساں ہے، کہا جاتا ہے کہ ہر انسان اپنے اہل اعیال کو روزی دیتا ہے یعنی اللہ کے روزق سے اور وہ دن قابل ذکر ہے جس دن اللہ تعالیٰ ان سب مشرکوں کو جمع کرے گا پھر فرشتوں سے ارشاد فرمائے گا کیا یہ لوگ تمہاری عبادت کیا کرتے تھے ؟ دونوں ہمزوں کی تحقیق کے ساتھ اور پہلے ہمزہ کو یاء سے بدل کر اور اس کو ساقط کرکے وہ عرض کریں گے تو شرک سے پاک ہے ہمارا ولی تو تو ہے نہ کہ وہ یعنی ہمارے اور ان کے درمیان ہماری طرف سے کوئی تعلق نہیں ہے بلکہ یہ لوگ تو شیاطین کو پوجتے تھے یعنی ہماری بندگی کرنے میں ان کی اطاعت کرتے تھے ان میں کے اکثر کا انہی پر ایمان تھا یعنی وہ کو کچھ ان سے کہتے تھے اسی کی تصدیق کرتے تھے، اللہ تعالیٰ نے فرمایا کوئی کسی کو یعنی معبود کسی عابد کو نہ شفاعت کا نفع پہنچانے کا اختیار رکھتا ہے اور نہ عذاب دینے کا، اور ہم ظالموں کافروں سے کہہ دیں گے کہ اس آگ کا عذاب چکھو جسے تم جھٹلا رہے تھے اور جب ان لوگوں کے سامنے قرآن کی آیتیں جو صاف صاف ہیں ہمارے نبی محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زبانی پڑھ کر سنائی جاتی ہیں تو کہتے ہیں کہ یہ ایسا شخص ہے کو تم کو تمہارے باپ دادوں کے معبودوں سے یعنی بتوں سے روک دینا چاہتا ہے اور کہتے ہیں کہ یہ قرآن محض اللہ پر لگایا ہوا بہتان ہے، اور کافر اس حق یعنی قرآن کی نسبت جبکہ وہ ان کے پاس آچکا کہتے ہیں کہ یہ محض ایک صریح جادو ہے اللہ تعالیٰ نے فرمایا نہ تو ہم نے ان کو کتابیں دے رکھی ہیں جنہیں یہ پڑھتے ہوں اور نہ ہم نے ان کے پاس آپ سے پہلے کوئی آگاہ کرنے والا بھیجا پھر یہ آپ کو کس طرح جھٹلاتے ہیں، اور ان سے پہلے کے لوگوں نے بھی اور انہیں جو کچھ ہم نے دے رکھا تھا یہ تو اس کے دسویں حصہ کو بھی نہیں پہنچے یعنی قوت اور درازی عمر اور کثرت مال میں بس ان لوگوں نے ان کی طرف بھیجے ہوئے میرے رسولوں کو جھٹلایا (پھردیکھ) ان پر سزا اور ہلاکت کے اعتبار سے میرا عذاب کیسا رہا ؟ یعنی وہ بر موقع ہوا۔
تحقیق و ترکیب وتسہیل وتفسیری فوائد
قولہ : وَمَااَمْوَالُکُمْ وَلاَ اَوْلَادُکُمْ بِالَّتِیْ تُقَرِّبُکُمْ عِنْدَنَا زُلْفٰی، وَمَا اَمْوَالکم جملہ مستانفہ ہے، ماسبق کی تحقیق و تقریر کے لئے لایا گیا ہے، مامشابہ بلیس ہے، اموالکم اپنے معطوف کے ساتھ اس کا اسم ہے، بالتی موصول صلہ سے مل کر اموال واولاد کی صفت ہے اگرچہ موصوف صفت میں بظاہر مطابقت نہیں ہے مگر چونکہ جمع تکسیر خواہ ذوی العقول کی ہو یا غیر ذوی العقول کی واحد مؤنث کے حکم میں ہوتی ہے، اس اعتبار سے موصوف وصفت میں مطابقت ہے اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ بالَّتیْ موصوف محذوف کی صفت ہو، تقدیر عبارت یہ ہو بالْاََ حْوَالِ الَّتِیْ تُقَرِّبُکُمْ مفسر علام نے زُلْفیٰ کی تفسیر قُربیٰ سے کرکے اشارہ کردیا کہ زُلْفیٰ ، تُقَرِّبُکُمْ کا مفعول مطلق بغیر لفظہ ہے ای تُقَرّبٰکم تَقْرِیْبًا .
قولہ : اُولئِٰٓکَ اسم اشارہ مبتدا ہے اور مشارالیہ مَنْ آمَنَ میں مَنْ ہے اور اُولئِٰٓکَ جمع مَنْ کے معنی کے اعتبار سے ہے، دونوں فعلون کو مَنْ کے لفظ کی رعایت سے مفردلائے ہیں۔
قولہ : لَھُمْ خبر مقدم اور جزاء الضعف مبتداء مؤخر، جملہ اسمیہ ہو کر اُولئِٰکَ مبتداء کی خبر ہے اور جَزَاءُ الضِّعْفِ اضافت الموصوف الی الصفت کے قبیل سے ہے ای لھم الجزٌاء المضاعف ایک قراءت میں اَلْغُرْفَۃُ ہے الف لام جنس کا ہونے کی وجہ سے معنی میں جمع کے ہے
قولہ : مقدرین عجزنا ای معتقدین اِنَّنا عَاجِزُوْنَ فَلا نَقْدِرُ علیھِمْ ۔
قولہ : قُلْ اِنَّ رَبِیْ یَبْسُطُ الرِّزْقَ لِمَنْ یَّشاءُ الخ اس آیت کے بارے میں بعض حضرات نے کہا ہے کہ یہ آیت مکر رہے اور ماقبل کی تاکید کے لئے ہے، اور نعض حضرات نے کہا ہے کہ یہ آیت اول کی غیر ہے، اول اشخاص متعددہ کے لئے ہے یعنی کسی کی روزی کشادہ اور کسی کی تنگ کرتا ہے اور یہ آیت شخص واحد کے لئے ہے یعنی ایک ہی شخص کی روزی ایک وقت میں کشادہ کرتا ہے اور اسی شخص کی دوسرے وقت میں تنگ کردیتا ہے۔
قولہ : فَھُوَ یُخلِفُہٗ یعنی اللہ تعالیٰ راہ خدا میں خرچ کئے ہوئے کا بدل اور عوض عطا فرما دیتا ہے۔
قولہ : یقالُ کُلُّ اِنْسانٍ یَرْزُقُ عائِلَتَہٗ یہ ایک سوال مقدر کا جواب ہے۔
سوال : سوال یہ ہے کہ رازقین کو جمع لایا گیا ہے، اس سے معلوم ہوتا ہے رازق کثیر ہیں حالانکہ رازق صرف اللہ تعالیٰ ہے۔
جواب : حقیقی رازق تو اللہ تعالیٰ ہی ہیں چونکہ بندہ بظاہر خدا کے عطا کردہ رزق میں سے اپنے اہل و عیال، نوکرچاکروں کو رزق دیتا ہے
اس لئے مجازاً بندہ کو بھی رازق کہہ دیا جاتا ہے، اسی وجہ سے بندہ کو رازق کہہ سکتے ہیں مگر رزاّق نہیں کہہ سکتے، اس لئے کہ یہ اسماء حسنیٰ مختصہ میں سے ہے۔
قولہ : اکثَرُ ھم بھِمْ مُؤمنون، اکثرھم مبتداء مؤمنون اس کی خبر بھِمْ ، مؤمنونَ سے متعلق ہے اور اکثر سے مراد کل ہیں۔
قولہ : نَقُوْلُ کا عطف لا یَمْلِکُ پر ہے۔
قولہ : وَقَال الَّذِیْنَ کَفَرُوْا یہاں ضمیر لانا بھی کافی ہوسکتا تھا، اس لئے کہ کفار و مشرکین کا ذکر سابق میں ہوچکا ہے، یعنی قَالَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا کے بجائے وَقَالُوْا کہتے مگر چونکہ اس میں ان کی صفت کفر کو ظاہر کرنے کی وجہ سے قباحت وشناعت زیادہ ہے، اس لئے اسم ضمیر کے بجائے اسم ظاہر استعمال کیا ہے۔
قولہ : المِعْشَار دسواں حصہ بعض حضرات نے کہا ہے کہ دسویں کا دسواں یعنی سواوں حصہ، مقصد تحدید نہیں ہے بلکہ بیان قلت ہے اگر فکذبوا رسلی کا عطف کذّبَ الذینَ من قبلھمْ پر ہو تو مابَلَغُوْا مِعْشار ما آتیناھم معطوف اور معطوف علیہ کے درمیان جملہ معترضہ ہوگا۔
تفسیر وتشریح
دنیا کی دولت و عزت کو مقبولیت عنداللہ کی دلیل سمجھنا قدیم شیطانی فریب ہے : ابتداء دنیا کی دولت اور عیش و عشرت کے نشہ میں مخمور رہنے والوں نے ہمیشہ حق کی آواز کی مخالفت اور انبیاء وصلحاء سے عداوت کا طریقہ اختیار کیا ہے، لاماشاء اللہ ! اور اس پر طرہ یہ کہ اہل حق کے مقابلہ میں اپنی موجودہ حالت پر خوش اور مطمئن ہونے کی یہ دلیل بھی دیتے ہیں کہ اگر ہمارے اعمال و عادات اللہ کو پسند نہ ہوتے تو ہمیں دنیا کی دولت، عزت، حکومت کیوں دیتے، قرآن کریم نے اس کا جواب متعدد آیات میں متعدد عنوانات سے دیا ہے، آیات مذکورہ کا نزول بھی اسی طرح کے ایک واقعہ سے متعلق ہے اور اس لغودلیل کا جواب ہے۔
شان نزول : حدیث میں ہے کہ زمانہ جاہلیت میں دو شخص ایک کاروبار میں شریک تھے، ان میں سے ایک دوسری جگہ کسی
ساحلی علاقہ میں چلا گیا، جب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مبعوث ہوئے، آپ کی نبوت و رسالت کا چرچا ہوا تو ساحلی ساتھی نے مکی ساتھی کو خط لکھ کر دریافت کیا کہ ان کے دعوائے نبوت کا تم لوگوں نے کیا اثر لیا، اس پر مکی ساتھی نے جواب لکھا کہ قریش میں سے تو کوئی بھی ان کا تابع نہیں ہوا، صرف غیریب مسکین بےحیثیت لوگ ان کے پیچھے لگے ہیں، ساحلی وہاں کی اپنی تجارت چھوڑ کر مکہ آیا، اور اپنے ساتھی سے کہا مجھے اس کا پتہ بتادو، یہ ساحلی کتب قدیمہ توریت انجیل وغیرہ کا مطالعہ کیا کرتا تھا، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوا اور دریافت کیا کہ آپ کس چیز کی دعوت دیتے ہیں، آپ نے دعوت اسلام کے اہم اجزاء کا ذکر فرمایا، اس شخص نے آپ کی زبان مبارک سے دعوت کے اجزاء سنتے ہی کہا اَشْھَدُ اَنَّکَ رسُوْلُ اللہِ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کی علامت یہ دیکھی کہ جیتنے انبیاء (علیہم السلام) پہلے آئے ہیں سب کے ماننے والے ابتداء میں قوم کے غیریب و فقیر اور دنیا کے اعتبار سے کم حیثیت ہوئے ہیں، اس پر یہ آیت نازل ہوئی مَا اَرْسلنَا فی قریۃ۔ (الآیۃ)
خلاصہ یہ کہ یہ مال و دولت اس کی دلیل نہیں ہے کہ ہمیں تم سے محبت ہے اور ہماری بارگاہ میں تمہیں خاص مقام حاصل ہے، ہماری محبت اور قربت حاصل کرنے کا ذریعہ تو صرف ایمان وعمل صالح ہے، جس طرح حدیث میں فرمایا گیا ہے، اللہ تعالیٰ تمہاری شکلیں اور مال نہیں دیکھتا، وہ تو تمہارے دلوں اور اعمال کو دیکھتا ہے۔ (صحیح مسلم، کتاب البر)
جب یہ بات معلوم ہوگئی کہ مال کی کثرت اور فراوانی مقبولیت عنداللہ کی دلیل نہیں تو اللہ تعالیٰ کھبی کافر کو بھی خوب مال دیتا ہے، لیکن یہ استدراج (ڈھیل) کے طور پر ہوتا ہے، اور کبھی مومن کو تنگ دست رکھتا ہے، مگر اس کے اجروثواب میں اضافہ کرنے کے لئے، اس لئے محض مال کی فراوانی اس کی رضا اور خوشنودی کی اور مال کی کمی تنگی کی دلیل نہیں ہے۔
” اِخلاف “ کے معنی ہیں عوض اور بدلہ دینا، یہ بدلہ دنیا میں بھی ممکن ہے اور آخرت میں تو یقینی ہے، حدیث قدسی میں ہے اَنْفِقْ اُنْفِقُ عَلَیْکَ (صحیح بخاری سورة ہود) تو خرچ کر میں تجھ پر خرچ کروں گا، یعنی بدلہ دوں گا، دو فرشتے ہر روز اعلان کرتے ہیں، ایک کہتا ہے اللّٰھُمَّ اَعْطِ مُمْسِکًا تَلَفًا یا اللہ بخیل کے مال کو ضائع کردے، دوسرا کہتا ہے اللّٰھُمَّ اَعْطِ مُنْفِقًا خَلَقًا اے اللہ خرچ کرنے والے کو بدلہ عطا کر۔ (بخاری، کتاب الزکوٰۃ)
جو خرچ شریعت کے مطابق نہ ہو اس کے بدل کا وعدہ نہیں : حضرت جابر (رض) کی روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا، نیک کام صدقہ ہے اور کوئی آدمی کو اپنے نفس پر یا اپنے عیال پر خرچ کرتا ہے وہ بھی صدقہ کے حکم میں ہے، اور جو شخص کچھ خرچ کرکے اپنی آبرو بچائے وہ بھی صدقہ ہے، اور جو شخص اللہ کے حکم کے مطابق خرچ کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ نے ذمہ لے لیا ہے کہ اس کا بدل اس کو دے گا، مگر وہ خرچ کو فضول (ضرورت سے زائد) ہو یا کسی گناہ کے کام میں ہو اس کے بدل کا وعدہ نہیں۔ حضرت جابر (رض) کے شاگرد ابن المنکدر نے یہ حدیث سن کر ان سے پوچھا کہ آبرو بچانے کے لئے خرچ کا کیا مطلب ہے ؟ جواب دیا کہ جس شخص کے بارے میں یہ خیال ہو کہ اگر نہیں دیں گے تو عیب جوئی کرے گا برا کہتا پھرے گا یا بد گوئی کرے گا۔ (دار قطنی، قرطبی بحوالہ معارف)
وکذب۔۔ قبلھم یہ کفار کو تنبیہ کی جارہی ہے کہ تم نے انکار و تکذیب کا جو راستہ اختیار کیا ہے وہ نہایت خطرناک ہے تم سے پچھلی امتیں بھی اس راستہ پر چل کر تباہ و برباد ہوچکی ہیں، حالانکہ یہ امتیں مال و دولت، قوت و طاقت اور عمر کے لحاظ سے تم سے بڑھ کر تھیں، تم تو ان کے دسویں حصہ کو بھی نہیں پہنچے، لیکن اس کے باوجود وہ اللہ کے عذاب سے نہیں بچ سکیں، اسی مضمون کو سورة احقاف کی آیت ٢٦ میں بھی بیان فرمایا ہے۔
10 Tafsir as-Saadi
﴿وَهُمْ فِي الْغُرُفَاتِ آمِنُونَ﴾ یعنی وہ بہت ہی بلند مرتبہ منازل میں، ہر قسم کے تکدر اور ناخوشگواری سے محفوظ اطمینان سے رہیں گے، انہیں وہاں مختلف قسم کی لذات اور دل پسند چیزیں عطا ہوں گی اور انہیں وہاں سے نکلنے کا خوف ہوگا نہ کوئی حزن و غم۔
11 Mufti Taqi Usmani
aur naa tumharay maal tumhen humarey huzoor koi qurb ata kertay hain aur naa tumhari aulad . haan magar jo emaan laye aur naik amal keray to aesay logon ko unn kay amal ka dohra sawab milay ga , aur woh ( jannat kay ) bala-khanon mein chain keren gay .