فاطر آية ۸
اَفَمَنْ زُيِّنَ لَهٗ سُوْۤءُ عَمَلِهٖ فَرَاٰهُ حَسَنًا ۗ فَاِنَّ اللّٰهَ يُضِلُّ مَنْ يَّشَاۤءُ وَيَهْدِىْ مَنْ يَّشَاۤءُ ۖ فَلَا تَذْهَبْ نَـفْسُكَ عَلَيْهِمْ حَسَرٰتٍ ۗ اِنَّ اللّٰهَ عَلِيْمٌۢ بِمَا يَصْنَـعُوْنَ
طاہر القادری:
بھلا جس شخص کے لئے اس کا برا عمل آراستہ کر دیا گیا ہو اور وہ اسے (حقیقتاً) اچھا سمجھنے لگے (کیا وہ مومنِ صالح جیسا ہو سکتا ہے)، سو بیشک اﷲ جسے چاہتا ہے گمراہ ٹھہرا دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے ہدایت فرماتا ہے، سو (اے جانِ جہاں!) ان پر حسرت اور فرطِ غم میں آپ کی جان نہ جاتی رہے، بیشک وہ جو کچھ سرانجام دیتے ہیں اﷲ اسے خوب جاننے والا ہے،
English Sahih:
Then is one to whom the evil of his deed has been made attractive so he considers it good [like one rightly guided]? For indeed, Allah sends astray whom He wills and guides whom He wills. So do not let yourself perish over them in regret. Indeed, Allah is Knowing of what they do.
1 Abul A'ala Maududi
(بھلا کچھ ٹھکانا ہے اُس شخص کی گمراہی کا) جس کے لیے اُس کا برا عمل خوشنما بنا دیا گیا ہو اور وہ اُسے اچھا سمجھ رہا ہو؟ حقیقت یہ ہے کہ اللہ جسے چاہتا ہے گمراہی میں ڈال دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے راہ راست دکھا دیتا ہے پس (اے نبیؐ) خواہ مخواہ تمہاری جان ان لوگوں کی خاطر غم و افسوس میں نہ گھلے جو کچھ یہ کر رہے ہیں اللہ اُس کو خوب جانتا ہے
2 Ahmed Raza Khan
تو کیا وہ جس کی نگاہ میں اس کا برا کام آراستہ کیا گیا کہ اس نے اسے بھلا سمجھا ہدایت والے کی طرح ہوجائے گا اس لیے اللہ گمراہ کرتا ہے جسے چاہے اور راہ دیتا ہے جسے چاہے، تو تمہاری جان ان پر حسرتوں میں نہ جائے اللہ خوب جانتا ہے جو کچھ وہ کرتے ہیں،
3 Ahmed Ali
بھلا جس کے برے کام بھلے کر دکھائے ہوں پھر وہ ان کو اچھا بھی جانتا ہو (نیک کے برابر ہو سکتا ہے) پھرالله جس کو چاہتا ہے گمراہ کر تا ہے اور جسے چاہتاہے ہدایت کرتا ہے پھر آپ ان پر افسوس کھا کھا کر ہلاک نہ ہوجائیں کیوں کہ الله خوب جانتا ہے جو وہ کر رہے ہیں
4 Ahsanul Bayan
کیا پس وہ شخص جس کے لئے اس کے برے اعمال مزین کر دیئے گئے پس وہ انہیں اچھا سمجھتا ہے (١) (کیا وہ ہدایت یافتہ شخص جیسا ہے)، (یقین مانو) کہ اللہ جسے چاہے گمراہ کرتا ہے اور جسے چاہے راہ راست دکھاتا ہے۔ (۲) پس آپ ان پر غم کھا کھا کر اپنی جان ہلاکت میں نہ ڈالیں (۳) جو کچھ کر رہے ہیں اس سے یقیناً اللہ تعالٰی بخوبی واقف ہے۔(٤)
٨۔١ جس طرح کفار و بدکار ہیں، وہ کفر و شرک فسق اور بدکاری کرتے ہیں اور سمجھتے یہ ہیں کہ وہ اچھا کر رہے ہیں۔ پس ایسا شخص، جس کو اللہ نے گمراہ کر دیا ہو، اس کے بچاؤ کے لئے آپ کے پاس کوئی حیلہ ہے؟ یا یہ اس شخص کے برابر ہے جسے اللہ نے ہدایت سے نوازا ہے؟ جواب نفی میں ہی ہے، نہیں یقینا نہیں۔
۸۔۲ اللہ تعالٰی اپنے عدل کی رو سے اپنی سنت کے مطابق اس کو گمراہ کرتا ہے جو مسلسل اپنے کرتوتوں سے اپنے کو اس کا مستحق ٹھہرا چکتا ہے اور ہدایت اپنے فضل وکرم سے اسے دیتا ہے جو اس کا طالب ہوتا ہے۔
۸۔۳ کیونکہ اللہ تعالٰی کا ہر کام حکمت پر اور علم تام پر مبنی ہے اس لیے کسی کی گمراہی پر اتنا افسوس نہ کریں کہ اپنی جان کو خطرے میں ڈال لیں۔
۸۔٤ یعنی اس سے کوئی قول یا فعل مخفی نہیں ہے مطلب یہ ہے کہ اللہ کا ان کے ساتھ معاملہ علیم وخبیر اور ایک حکیم کی طرح ہے عام بادشاہوں کی طرح کا نہیں ہے جو اپنے اختیارات کا الل ٹپ استعمال کرتے ہیں، کبھی سلام کرنے سے بھی ناراض ہوجاتے ہیں اور کبھی دشنام پر ہی خلعتوں سے نواز دیتے ہیں۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
بھلا جس شخص کو اس کے اعمال بد آراستہ کرکے دکھائے جائیں اور وہ ان کو عمدہ سمجھنے لگے تو (کیا وہ نیکوکار آدمی جیسا ہوسکتا ہے) ۔ بےشک خدا جس کو چاہتا ہے گمراہ کرتا ہے اور جس کو چاہتا ہے ہدایت دیتا ہے۔ تو ان لوگوں پر افسوس کرکے تمہارا دم نہ نکل جائے۔ یہ جو کچھ کرتے ہیں خدا اس سے واقف ہے
6 Muhammad Junagarhi
کیا پس وه شخص جس کے لئے اس کے برے اعمال مزین کردیئے گئے ہیں پس وه انہیں اچھاسمجھتا ہے (کیا وه ہدایت یافتہ شخص جیسا ہے)، (یقین مانو) کہ اللہ جسے چاہے گمراه کرتا ہے اور جسے چاہے راه راست دکھاتا ہے۔ پس آپ کو ان پر غم کھا کھا کر اپنی جان ہلاکت میں نہ ڈالنی چاہیئے، یہ جو کچھ کر رہے ہیں اس سے یقیناً اللہ تعالیٰ بخوبی واقف ہے
7 Muhammad Hussain Najafi
بھلا وہ شخص جس کا برا عمل (اس کی نگاہ میں) خوشنما بنا دیا گیا ہو اور وہ اسے اچھا سمجھنے لگے (کیا وہ ایک مؤمنِ صالح کی مانند ہو سکتا ہے؟ یا کیا اس کی اصلاح کی کوئی امید ہو سکتی ہے؟) بے شک اللہ جسے چاہتا ہے گمراہی میں چھوڑ دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے ہدایت دیتا ہے۔ پس ان (بدبختوں) کے بارے میں افسوس کرتے کرتے آپ کی جان نہ چلی جائے۔ جو کچھ یہ لوگ کر رہے ہیں یقیناً اللہ اسے خوب جانتا ہے۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
تو کیا وہ شخص جس کے بفِے اعمال کو اس طرح آراستہ کردیا گیا کہ وہ اسے اچھا سمجھنے لگا کسی مومن کے برابر ہوسکتا ہے - اللرُجس کو چاہتا ہے گمراہی میں چھوڑ دیتا ہے اور جس کو چاہتا ہے ہدایت دے دیتا ہے تو آپ افسوس کی بنا پر ان کے پیچھے اپنی جان نہ دے دیںاللہ ان کے کاروبار سے خوب باخبر ہے
9 Tafsir Jalalayn
بھلا جس شخص کو اس کے اعمال بد آراستہ کر کے دکھائے جائیں اور وہ ان کو عمدہ سمجھنے لگے تو (کیا وہ نیکو کار آدمی جیسا ہوسکتا ہے ؟ ) بیشک خدا جس کو چاہتا ہے گمراہ کرتا ہے اور جس کو چاہتا ہے ہدایت دیتا ہے تو ان لوگوں پر افسوس کر کے تمہارا دم نہ نکل جائے یہ جو کچھ کرتے ہیں خدا اس سے واقف ہے
آیت نمبر 8 تا 14
ترجمہ : (آئندہ) آیت ابوجہل کے بارے میں نازل ہوئی ہے کیا وہ شخص کہ جس کے سامنے اس کے برے عمل کو تلبیس کے ذریعہ مزین کرکے پیش کیا گیا پھر وہ اس کو نیک عمل سمجھنے لگا (اس شخص کے برابر ہوسکتا ہے جس کو اللہ نے ہدایت دی ہو ؟ نہیں ہوسکتا) مَنْ مبتداء ہے اور اس کی خبر کَمَنْ ھدَاہُ ہے (اس حذف خبر پر) فاِنّ اللہ یُضَلُّ مَنْ یشَاءُ (الآیۃ) دال ہے، یقین مانو اللہ جس کو چاہتا ہے گمراہ کرتا ہے اور جس کو چاہتا ہے ہدایت دیتا ہے تو آپ ان پر یعنی ان لوگوں پر کہ جن کے (اعمال بد) ان کے لئے مزین کردیئے گئے ہیں، اتنا غم نہ کیجئے، کہ ان کی اس بات پر غم کی وجہ سے کہ ایمان نہیں لاتے اپنی جان ہی دیدیں جو کچھ وہ کرتے ہیں اللہ کو سب معلوم ہے سو وہ ان کے اعمال کی سزا دے گا اور اللہ وہی ہے جو ہواؤں کو چلاتا ہے اور ایک قراءت میں اِلرِّیْحَ ہے جو ہوائیں بادلوں کو اٹھاتی ہیں مضارع کا استعمال حالت ماضی کی حکایت کرنے کے لئے لایا گیا ہے یعنی ہوائیں بادلوں کو حرکت دیتی ہیں پھر ہم ان بادلوں کو خشک زمین کی طرف ہانک کرلیجاتے ہیں سُقْنَا میں غیبت سے تکلم کی جانب التفات ہے مَیِّت تشدید اور تخفیف کے ساتھ ہے پھر ہم اس بستی کی زمین کو اس کے مردہ یعنی خشک ہونے کے بعد زندہ کردیتے ہیں یعنی اس میں کھیتی اور گھاس اگادیتے ہیں اسی طرح دوبارہ زندہ ہونا بھی ہے یعنی جی اٹھنا اور زندہ ہونا جو شخص عزت حاصل کرنا چاہتا ہے تو تمامتر عزت اللہ کے لئے ہے یعنی دنیا اور آخرت میں، لہٰذا عزت اسی کی اطاعت سے حاصل ہوسکتی ہے اس کو چاہیے کہ اسی کی اطاعت کرے اچھا کلام اس تک پہنچتا ہے، یعنی وہ اس سے باخبر ہے اور وہ (اچھا کلام) لا الہٰ الا اللہ اور اس کے مثل ہے اور عمل صالح کو وہ بلند کرتا ہے یعنی قبول کرتا ہے اور لوگ نبی کے بارے میں دارلندوہ میں بری سازشیں کررہے ہیں مثلاً آپ کو قید کرنے یا قتل کرنے یا (وطن سے) نکالنے کی، جیسا کہ سورۂانفال میں ذکر کیا گیا، ایسے لوگوں کے لئے سخت ترین عذاب ہے اور ان کا یہ مکر پادر ہوا، یعنی برباد ہوجائے گا (لوگو) اللہ نے تمہیں مٹی سے پیدا کیا تمہارے دادا آدم کو مٹی سے پیدا کرکے، پھر نطفۂ منی سے (پیدا کیا) آدم (علیہ السلام) کی ذریت کو نطفے سے پیدا کرکے پھر تمہارے نرومادہ کے جوڑے بنائے کوئی عورت حاملہ نہیں ہوتی اور نہ وہ جنتی ہے مگر یہ اللہ کے علم میں ہوتا ہے یہ جملہ حالیہ ہے یعنی (اللہ تعالیٰ کے) علم میں ہوتا ہے اور جس معمر شخص کی عمر دراز کی جاتی ہے یعنی طویل العمر شخص کی عمر میں اضافہ نہیں کیا جاتا اور نہ اسی معمر شخص کی عمر سے یا دوسرے معمر شخص کی عمر سے کم کیا جاتا ہے مگر یہ کہ وہ کتاب میں موجود ہوتا ہے اور وہ لوح محفوظ ہے اور اللہ تعالیٰ کے لئے یہ بات بالکل آسان ہے، اور برابر نہیں دو دریا (بلکہ) ایک نہایت شریں تسکین بخش اور پینے میں خوش گوار ہے اور دوسرا نہایت شور اور تلخ اور تم ان دونوں سے تازہ گوشت کھاتے ہو اور وہ مچھلی ہے اور دریائے شور سے، اور کہا گیا ہے دونوں سے، زیورات نکالتے ہو جنہیں تم پہنتے ہو وہ موتی اور مونگے ہیں اور اے مخاطب تو کشتوں کو اس میں شوروشیریں دریا میں دیکھتا ہے کہ پانی کو چیرتی ہوئی چلتی ہیں، یعنی پانی میں چلنے کی وجہ سے اس کو ایک ہی ہوا کے ذریعہ آتے جاتے چیرتی ہیں تاکہ تم تجارت کے ذریعہ اللہ تعالیٰ کا فضل (روزی) طلب کرتا ہے تو رات بڑھ جاتی ہے اور آفتاب وماہتاب کو اسی نے کام میں لگا رکھا ہے ہر ایک اپنے محور پر مدت دراز قیامت تک چلتا رہے گا یہی ہے اللہ تمہارا رب اسی کی سلطنت ہے اور جنہیں تم اس کے سوا پکارتے ہو بندگی کرتے ہو اور وہ بابت ہیں وہ تو کھجور کی گٹھلی کے چھلکے کے بھی مالک نہیں، اگر ان کو پکارو تو وہ تمہاری پکار سنتے ہی نہیں ہیں اور اگر (بالفرض) سن بھی لیں تو فریاد رسی نہیں کرسکتے، یعنی تمہاری پکار کا جواب نہ دیں بلکہ قیامت کے دن تمہارے اس شرک سے صاف انکار کرجائیں گے، یعنی تمہارے ان کو خدا کا شریک ٹھہرانے کا یعنی تم سے تمہاری ان کی بندگی کرنے سے اظہار براءت کردیں گے آپ کو کوئی حق تعالیٰ جیسا خبردار دارین کے احوال کی خبر نہ دے گا اور وہ اللہ ہے۔
تحقیق و ترکیب وتسہیل وتفسیری فوائد
قولہ : اَفَمَنْ زُیِّنَ یہ جملہ مستانفہ ہے ماسبق میں جو دو فریقوں کے انجام کے درمیان فرق کیا گیا ہے، اس کی تائید ہے مَنْ مبتداء ہونے کی وجہ سے محل رفع میں ہے اس کی خبر محذوف ہے تقدیر عبارت یہ ہے اَفَمَنْ زُیِّنَ لَہٗ سوءُ عَمَلِہٖ کَمَنْ لمْ یُزَیَّنْ لَہٗ ، کسائی (رح) تعالیٰ نے کہا ہے کہ ذَھَبَتْ نَفْسُکَ عَلَیْھِمْ حَسَرَاتٍ خبر ہے جو محذوف ہے، اور اللہ تعالیٰ کا قول فلاَ تَذْھَبْ نَفْسکَ علیھم حَسَرَات اس پر دال ہے، اور زجاج نے کَمَنْ ھداہُ اللہ خبر محذوف مانی ہے اول صورت لفظ و معنی میں مطابقت کی وجہ سے افضل ہے۔
قولہ : سوء عملہٖ ای عَمَلُہُ السَیُِّ یہ اضافت صفت الی الموصوف کے قبیل سے ہے۔
قولہ : لاَ ، لاَ کا اضافہ استفہام انکاری کی طرف اشارہ کرنے کے لئے ہے۔
قولہ : حَسَراتٍ . فَلاَ تَذْھَبْ کا مفعول لہ ہے، اور جمع کا استعمال کثرت غم پر دلالت کرنے کے لئے ہے۔
قولہ : عَلَیْھِمْ. تَذْھَبْ کا صلہ ہے، جیسا کہ بولا جاتا ہے مات علیہ حُزْنًا . علیھم کا تعلق حسرات سے درست نہیں ہے، اس لئے کہ مصدر کا معمول مصدر پر مقدم نہیں ہوتا۔ قولہ : اَنْ لاَ یُؤمِنُوْا علیٰ اَنْ لاَ یُؤْمِنُوْا۔
قولہ : لِحِکَایَۃ الحَالِ المَاضِیَۃِ یہ دراصل ایک سوال مقدر کا جواب ہے۔
سوال : سوال یہ ہے کہ اس سے پہلے اَرْسَلَ ماضی کا صیغہ استعمال فرمایا اور اسی مضمون میں فوراً بعد فَتُثِیْرُ مضارع کا صیغہ استعمال فرمایا، اس میں کیا مصلحت ہے ؟
جواب : خلاصہ یہ ہے کہ مضارع کا صیغہ جو کہ حال پر بھی دلالت کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس سے اس صورت عجیبہ وغریبہ کا استحضار کرانا چاہتے ہیں جو اسکی کمال قدرت و حکمت پر دلالت کرتی ہے اور کسی صورت حال یا واقعہ کی ایسی منظر کشی کہ جس سے گذشتہ کا واقعہ نظروں کے سامنے اس طرح ہو کر آجائے گویا کہ یہ واقعہ اسی وقت نظروں کے سامنے ہورہا ہے اسی کو حکایت حال ماضیہ کہتے ہیں۔
قولہ : تثیرُ. اثارہُ سے مضارع واحد مؤنث غائب ہے، وہ ابھارتی ہے، وہ اٹھاتی ہے، حرکت دیتی ہے، التفات عن الغیبۃ الی التکلم کا مطلب یہ ہے اللہ تبارک وتعالیٰ نے اَرْسَلَ غائب جا صیغہ استعمال فرمایا اور سُقْنَا میں متکلم کا صیغہ استعمال فرمایا اور جمع کا استعمال عظمت کے طور پر کیا ہے۔
قولہ : بَلَدٌ . بَلَد کا اطلاق مذکر ومؤنث دونوں پر ہوتا ہے، اور بَلَد اور بَلْدۃ کا اطلاق آباد اور غیر آباد دونوں قسم کی زمین پر بھی ہوتا ہے، یہاں بَلَدٌ مَیِّتٌ سے وہ زمین مراد ہے جس میں گھاس چارا کچھ نہ ہو، مردہ زمین سے خشک بےآب وگیارہ زمین مراد ہے، اور زمین کو زندہ کرنے سے مراد اس کو سرسبز و شاداب کرنا ہے۔
قولہ : من البلد میں مِن بیانیہ ہے کذلِٰکَ لانشور اس میں مردوں کو خشک زمین سے تشبیہ دی ہے اور مردوں کو زندہ کرنے کو زمین کو سرسبز کرنے سے تشبیہ دی ہے۔
قولہ : فَلْیٗطِعْہُ سے شارح نے اشارہ کردیا کہ مَنْ کَانَ میں مَنْ شرطیہ ہے اور فَلْیُطِعْۃُ اس کا جواب مقدر ہے، اور اللہ تعالیٰ کا قول فَلِلّٰہِ الْعِزَّۃُ جَمِیْعًا جواب شرط کی علت ہے۔
قولہ : یَعْلَمُہٗ اس میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ کلام میں مجاز ہے اور صعود بمعنی علم ہے اور علم کو صعود سے تعبیر کرنے کا مقصد قبولیت کی طرف اشارہ کرنا ہے، اس لئے کہ موضع ثواب اوپر ہے اور موضع عذاب نیچے ہے۔
قولہ : اَلَّذِیْنَ یَمْکُرُوْنَ کلمات طیبہ کے بیان کرنے کے بعد یہ کلمات خبیثہ کا بیان ہے۔
قولہ : وَالسَّیِّئَاتُ یہ مفعول مطلق محذوف کی صفت ہے تقدیر عبارت جیسا کہ شارح (رح) تعالیٰ نے المکرات محذوف مان کر اشارہ کردیا ہے ای یمکرون المکرات السیِّئاتِ ، السَّیّئات کا مفعول بہ ہونے کی وجہ سے منصوب ہونا درست نہیں ہے اس لئے کہ یمکرون فعل لازم ہے جو کہ مفعول بہ کو نصب نہیں دے سکتا، بعض حضرات نے کہا ہے کہ یمکرونَ یکسبونَ کے معنی کو متضمن ہونے کی وجہ سے متعدی ہے لہذا اس کا السَّیّئِات کو مفعول بہ ہونے کے اعتبار سے نصب دینا درست ہے۔
قولہ : ومکرُ اولئٰک ترکیب اضافی مبتداء اور یبور اس کی خبر ہے، اور ھُوَ ضمیر فصل ہے خبر سے پہلے ضمیر فصل کے وقوع کے جواز اور عدم جواز میں اختلاف ہے راجح وقوع ہے (اعراب القرآن) یبُوْرُ مضارع واحد مذکر غائب (ن) بَورًا بَوَارًا ہلاک ہونا۔
قولہ : فُرَاتٌ شدِیْدُ العَذُوْبَۃِ نہایت شیریں پانی۔ قولہ : اُجاجٌ شدید الملوحۃ شدید نمکین۔
قولہ : وَمَا یُعَمَّرُ مِنْ مُعَمَّرٍ مانافیہ ہے یُعَمَّرُ فعل مضارع مجہول مِنْ زائدہ اور مُعَمَّرُ نائب فاعل قطمیر اس باریک جھلی کو کہتے ہیں جو گٹھلی پر لپیٹی ہوئی ہوتی ہے، اور بعض حضرات نے اس ریشے کو کہا ہے جو گٹھلی کی دراز میں ہوتا ہے اور بعض نے اس ریشہ کو کہا ہے جو اس سوارخ میں ہوتا ہے جو گٹھلی کی پشت میں ہوتا ہے، مطلب یہ ہے کہ جن کو تم پکارتے ہو اور جن سے امداد کی توقع رکھتے ہو یہ تو ایک حقیر اور معمولی چیز کا بھی اختیار نہیں رکھتے۔
تفسیر وتشریح
شان نزول : امام بغوی ابن عباس (رض) سے نقل کیا ہے کہ یہ آیت اس وقت نازل ہوئی جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ دعا فرمائی کہ ” اے اللہ تو اسلام کو قوت عطا فرما، عمر بن الخطاب کے ذریعہ یا عمرو بن ہشام (ابوجہل) کے ذریعہ “ اللہ تعالیٰ نے ان میں سے عمر بن الخطاب کو ہدایت دیکر اسلام کی قوت اور عزت کا سبب بنادیا۔ (معارف، روح المعانی)
واللہ۔۔۔ الریٰح یعنی جس طرح بادلوں سے بارش برسا کر خسک (مردہ) زمین کو ہم شاداب (زندہ) کردیتے ہیں اسی طرح سے قیامت کے دن تمام مرودں کو بھی ہم زندہ کریں گے، حدیث میں آتا ہے کہ انسان کا پورا جسم بوسیدہ ہوجاتا ہے، صرف ریڑھ کی ہڈی کا چھوٹا سا حصہ محفوظ رہتا ہے، اسی سے اس کی دربارہ تخلیق و ترکیب ہوگی کُلُّ جَسَدِ ابن آدَمَ یَبْلیٰ اِلَّا عَجَبُ الذَّنبِ منہ خُلِقَ ومنہ یُرکَّبُ ۔ (بخاری سورة عم، مسلم کتاب النفس مابین النفحتین)
من۔۔ العزۃ (الآیۃ) یعنی جو چاہے کہ اسے دنیا وآخرت میں عزت ملے تو وہ اللہ کی اطاعت کرے، اس سے اس کا یہ مقصد حاصل ہوجائے گا، اس لئے کہ دنیا وآخرت کا مالک وہی ہے اور تمام عزتیں اسی کے پاس ہیں، جس کو وہ عزت دے وہی عزیز ہوگا، اور جس کو وہ ذلیل کرے کوئی طاقت اس کو عزت نہیں سے سکتی۔
الیہ۔۔ الطیب، الکَلِمُ ، کَلِمَۃٌ کی جمع ہے پاکیزہ اور ستھرے کلمات سے مراد اللہ کی تسبح و تمحید، تلاوت، امر بالمعروف ونہی عن المنکر ہے اور چڑھنے کا مطلب قبول کرنا ہے، فرشتوں کا ان کو لیکر آسمانوں پر چڑھنا ہے تاکہ اللہ ان کی جزاء دے، یَرْفَعُہٗ کی ضمیر کا مرجع کیا ہے، بعض کہتے ہیں الکلم الطیبُ ہے یعنی عمل کلمات طیبات کو اللہ کی طرف بلند کرتا ہے، یعنی زبان سے اللہ کا ذکر (تسبح وتحمید) کچھ نہیں، جب تک اس کے ساتھ عمل صالح یعنی احکام و فرائض کی ادائیگی نہ ہو، بعض کہتے ہیں کہ یرفَعہٗ میں فاعل کی ضمیر اللہ کی طرف راجع ہے، مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ عمل صالح کو کلمات طیبات پر بلند کرتا ہے، اس لئے کہ عمل صالح سے ہی اس بات کا تحقیق ہوتا ہے کہ اس کا مرتکب فی الواقع اللہ کی تسبیح وتحمید میں مخلص ہے۔ (فتح القدیر)
ایک حدیث میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کسی قول کو بغیر نیت کے اور کسی قول، عمل اور نیت کو بغیر مطابقت سنت کے قبول نہیں کرتا (قرطبی) اس سے معلوم ہوا کہ مکمل قبولیت کی شرط سنت کے مطابق ہونا ہے، اگر قول، نیت سب ردست بھی ہوں گے مگر طریقۂ عمل سنت کے مطابق نہ ہو تو قبولیت تامہ حاصل نہیں ہوگی۔
وما۔۔۔ کتاب اس آیت کا مفہوم جمہور مفسرین کے نزدیک یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ جس شخص کو عمر طویل عطا فرماتے ہیں وہ
پہلے ہی لوح محفوظ میں لکھی ہوئی ہے، اسی طرح جس کی عمر کم رکھی جاتی ہے وہ بھی لوح محفوظ میں پہلے ہی سے درج ہے، جس کا حاصل یہ ہے کہ یہاں عمر کا طول وقصر فرد واحد کے متعلق مراد نہیں ہے، بلکہ کلام نوع انسانی کثیر نے نقل کی ہے، اور بعض حضرات نے فرمایا کہ اگر عمر کی کمی زیادتی کو ایک ہی شخص سے متعلق کہا جائے تو عمر میں کمی کرنے کا مطلب یہ ہے کہ ہر شخص کی عمر جو اللہ نے لکھ دی ہے وہ یقینی ہے، اور جو دن گذرتا ہے اس مقررہ مدت میں ایک دن کی کمی کردیتا ہے اسی طرح جتنے دن بلکہ سانس گذرتے رہتے ہیں اس کی عمر کو گھٹاتے رہتے ہیں، یہ تفسیر شعبی، ابن جبیر، ابومالک، ابن عطیہ وغیرہ سے منقول ہے (روح) اس مضمون کو اس شعر میں ادا کیا گیا ہے : ؎
حَیَاتک انفاسٌ تُعَدّ فکلَّمَا مضٰی نفسٌ منھا نقصتْ بہ جزءٌ
” تیری زندگی چند گنے سانسوں کا نام ہے تو جب بھی ایک سانس گذرتا ہے تیری عمر کا ایک جز کم ہوجاتا ہے “
ابن ابی حاتم نے حضرت ابوالدرداء (رض) سے روایت کیا ہے وہ فرماتے ہیں کہ ہم نے اس (مضمون) کا ذکر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے کیا، تو آپ نے فرمایا کہ عمر تو اللہ کے یہاں ایک ہی مقرر ہے، جب مقرر مدت پوری ہوجاتی ہے تو کسی شخص کو ذرا بھی مہلت نہیں دی جاتی، بلکہ زیادت عمر سے مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کو اولاد صالح عطا فرما دیتا ہے وہ اس کے لئے دعا کرتی رہتی ہے، یہ شخص دنیا میں موجود نہیں ہوتا مگر اس کی اولاد صالح کی دعائیں اس شخص کو اس کی قبر میں ملتی رہتی ہیں یعنی اس کو قبر میں فائدہ پہنچتا رہتا ہے اس طرح گویا کہ اس کی عمر بڑھ گئی، خلاصہ یہ ہے کہ جن احادیث میں عمر بڑھنے کا ذکر آیا ہے، اس سے مراد عمر کی برکت کا بڑھ جانا ہے۔
ومن۔۔۔ طریًا (الآیۃ) یعنی دریائے شور و شیریں دونوں سے تمہیں تازہ گوشت کھانے کو ملتا ہے مراد اس سے مچھلی ہے،
اس میں مچھلی کو گوشت سے تعبیر کیا ہے، اس میں اس بات کی جانب اشارہ ہے کہ مچھلی بغیر ذبح کئے ہوئے حلال گوشت ہے اس کو ذبح کرنے کی ضرورت نہیں بخلاف جانوروں کے، اور حلیۃ کے معنی زیور کے ہیں، مراد اس سے موتی ہیں، اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ جس طرح دریائے شور میں ہوتا ہے دریائے شیریں میں بھی ہوتا ہے، یہ جو مشہور ہے کہ موتی دریائے شیریں میں نہیں ہوتا یہ درست نہیں ہے البتہ شیریں دریا میں بہت کم ہوتا ہے۔
تَلْبَسُوْنَھَا میں مذکر کا صیغہ استعمال کرنے سے اس طرف اشارہ ہے کہ موتیوں کا استعمال مردوں کے لئے بھی جائز ہے بخلاف سونے اور چاندی کے، ان کا بطور زیور استعمال کرنا مرودں کے لئے جائز نہیں ہے۔
10 Tafsir as-Saadi
﴿أَفَمَن زُيِّنَ لَهُ﴾ ” کیا پس جس شخص کو مزین کر کے دکھائے جائیں“ اس کے برے اعمال، شیطان نے اس کے برے عمل کو آراستہ کر کے اس کی نگاہ میں خوبصورت بنا دیا ہو ﴿فَرَآهُ حَسَنًا﴾ ” اور وہ ان کو اچھا سمجھنے لگا ہو۔“ یعنی کیا یہ اس شخص کی مانند ہے جس کی اللہ تعالیٰ نے راہ راست اور دین قویم کی طرف راہنمائی فرمائی ہے؟ کیا یہ دونوں برابر ہوسکتے ہیں؟
پہلا شخص وہ ہے جو بد عمل ہے، جو حق کو باطل اور باطل کو حق سمجھتا ہے اور دوسرا شخص وہ ہے جو نیک کام کرتا ہے، جو حق کو حق اور باطل کو باطل سمجھتا ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ ہدایت اور گمراہی صرف اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے۔
﴿فَإِنَّ اللّٰـهَ يُضِلُّ مَن يَشَاءُ وَيَهْدِي مَن يَشَاءُ فَلَا تَذْهَبْ نَفْسُكَ عَلَيْهِمْ﴾ ” بلا شبہ اللہ جسے چاہے گمراہ کرتا ہے اور جسے چاہے راہ راست دکھاتا ہے، لہٰذا آپ اپنے آپ کو ان کے بارے میں ہلکان نہ کریں“ یعنی ان گمراہ لوگوں کے بارے میں جن کے برے اعمال ان کے لئے آراستہ ہوگئے اور شیطان نے ان کو حق سے روک دیا۔ (حسرت) یعنی گمراہ لوگوں پر حسرت و غم سے آپ اپنے آپ کو ہلاک نہ کریں۔ ان کو ہدایت دینا آپ کی ذمہ داری نہیں ہے آپ کا فرض تو صرف پہنچا دینا ہے اور اللہ تعالیٰ ہی ان کو ان کے اعمال کی جزا دے گا۔ ﴿إِنَّ اللّٰـهَ عَلِيمٌ بِمَا يَصْنَعُونَ﴾ ” یہ لوگ جو کچھ کرتے ہیں بے شک اللہ اس سے واقف ہے۔‘‘
11 Mufti Taqi Usmani
bhala batao kay jiss shaks ki nazron mein uss ki bad-amli hi khushnuma bana ker paish ki gaee ho , jiss ki bana per woh uss bad-amli ko acha samajhta ho , ( woh naik aadmi kay barabar kaisay hosakta hai-? ) kiyonkay Allah jiss ko chahta hai , raastay say bhatka deta hai , aur jiss ko chahta hai theek raastay per phoncha deta hai . lehaza ( aey payghumber ) aisa naa ho kay inn ( kafiron ) per afsos kay maaray tumhari jaan hi jati rahey . yaqeen rakho kay jo kuch yeh ker rahey hain , Allah ussay khoob janta hai .