وَنُفِخَ فِى الصُّوْرِ فَاِذَا هُمْ مِّنَ الْاَجْدَاثِ اِلٰى رَبِّهِمْ يَنْسِلُوْنَ
تفسیر کمالین شرح اردو تفسیر جلالین:
پھر ایک صور پھونکا جائے گا اور یکایک یہ اپنے رب کے حضور پیش ہونے کے لیے اپنی قبروں سے نکل پڑیں گے
English Sahih:
And the Horn will be blown; and at once from the graves to their Lord they will hasten.
ابوالاعلی مودودی Abul A'ala Maududi
پھر ایک صور پھونکا جائے گا اور یکایک یہ اپنے رب کے حضور پیش ہونے کے لیے اپنی قبروں سے نکل پڑیں گے
احمد رضا خان Ahmed Raza Khan
اور پھونکا جائے گا صور جبھی وہ قبروں سے اپنے رب کی طرف دوڑتے چلیں گے،
احمد علی Ahmed Ali
اور صور پھونکا جائے گا تو وہ فوراً اپنی قبروں سے نکل کر اپنے رب کی طرف دوڑے چلے آئیں گے
أحسن البيان Ahsanul Bayan
تو صور کے پھونکے جاتے ہی سب (١) اپنی قبروں سے اپنے پروردگار کی طرف (تیز تیز) چلنے لگیں گے۔
٥١۔١ پہلے قول کی بنا پر یہ نفخہ ثانیہ اور دوسرے قول کی بنا پر یہ نفخہ ثالثہ ہوگا، جسےنَفْخَۃُ الْبَعْثِ وَالنُّشُورِ کہتے ہیں، اس سے لوگ قبروں سے زندہ ہو کر اٹھ کھڑے ہونگے۔ (ابن کثیر)
جالندہری Fateh Muhammad Jalandhry
اور (جس وقت) صور پھونکا جائے گا یہ قبروں سے (نکل کر) اپنے پروردگار کی طرف دوڑ پڑیں گے
محمد جوناگڑھی Muhammad Junagarhi
تو صور کے پھونکے جاتے ہی سب کے سب اپنی قبروں سے اپنے پروردگار کی طرف (تیز تیز) چلنے لگیں گے
محمد حسین نجفی Muhammad Hussain Najafi
اور جب (دوبارہ) صور پھونکا جائے گا تو وہ ایک دم اپنی قبروں سے (نکل کر) اپنے پروردگار کی طرف تیز تیز چلنے لگیں گے۔
علامہ جوادی Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
اور پھر جب صور پھونکا جائے گا تو سب کے سب اپنی قبروں سے نکل کر اپنے پروردگار کی طرف چل کھڑے ہوں گے
طاہر القادری Tahir ul Qadri
اور (جس وقت دوبارہ) صُور پھونکا جائے گا تو وہ فوراً قبروں سے نکل کر اپنے رب کی طرف دوڑ پڑیں گے،
تفسير ابن كثير Ibn Kathir
ان آیتوں میں دوسرے نفخہ کا ذکر ہو رہا ہے۔ جس سے مردے جی اٹھیں گے۔ ینسلون کا مصدر نسلان سے ہے اور اس کے معنی تیز چلنے کے ہیں۔ جیسے اور آیت میں ہے ( يَوْمَ يَخْرُجُوْنَ مِنَ الْاَجْدَاثِ سِرَاعًا كَاَنَّهُمْ اِلٰى نُصُبٍ يُّوْفِضُوْنَ 43ۙ ) 70 ۔ المعارج ;43) جس دن یہ قبروں سے نکل کر اس تیزی سے چلیں گے کہ گویا وہ کسی نشان منزل کی طرف لپکے جا رہے ہیں۔ چونکہ دنیا میں انہیں قبروں سے جی اٹھنے کا ہمیشہ انکار رہا تھا اس لئے آج یہ حالت دیکھ کر کہیں گے کہ ہائے افسوس ہمارے سونے کی جگہ سے ہمیں کس نے اٹھایا ؟ اس سے قبر کے عذاب کا نہ ہونا ثابت نہیں ہوتا اس لئے کہ جس ہول و شدت کو جس تکلیف اور مصیبت کو یہ اب دیکھیں گے اس کی بہ نسبت تو قبر کے عذاب بیحد خفیف ہی تھے گویا کہ وہ وہاں آرام میں تھے، بعض بزرگوں نے یہ بھی فرمایا ہے کہ اس سے پہلے ذرا سی دیر کے لئے فی الواقع انہیں نیند آجائے گی، حضرت قتادہ (رض) فرماتے ہیں پہلے نفخہ اور اس دوسرے نفخہ کے درمیان یہ سو جائیں گے، اس لئے اب اٹھ کر یوں کہیں گے، اس کا جواب ایماندار لوگ دیں گے کہ اسی کا وعدہ اللہ نے کیا تھا اور یہی اللہ کے سچے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرمایا کرتے تھے۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ یہ جواب فرشتے دیں گے۔ بہرحال دونوں قولوں میں اس طرح تطبیق بھی ہوسکتی ہے کہ مومن بھی کہیں اور فرشتے بھی کہیں واللہ اعلم۔ عبدالرحمٰن بن زید کہتے ہیں یہ کل قول کافروں کا ہی ہے لیکن صحیح بات وہ ہے جسے ہم نے پہلے نقل کیا جیسے کہ سورة صافات میں ہے کہ یہ کہیں گے ہائے افسوس ہم پر یہ جزا کا دن ہے یہی فیصلہ کا دن ہے جسے ہم جھٹلاتے تھے اور آیت میں ہے ( وَيَوْمَ تَــقُوْمُ السَّاعَةُ يُـقْسِمُ الْمُجْرِمُوْنَ ڏ مَا لَبِثُوْا غَيْرَ سَاعَةٍ ۭ كَذٰلِكَ كَانُوْا يُؤْفَكُوْنَ 55) 30 ۔ الروم ;55) جس دن قیامت برپا ہوگی گنہگار قسمیں کھا کھا کر کہیں گے کہ وہ صرف ایک ساعت ہی رہے ہیں اسی طرح وہ ہمیشہ حق سے پھرے رہے، اس وقت باایمان اور علماء فرمائیں گے تم اللہ کے لکھے ہوئے کے مطابق قیامت کے دن تک رہے یہی قیامت کا دن ہے لیکن تم محض بےعلم ہو۔ تم تو اسے ان ہونی مانتے تھے حالانکہ وہ ہم پر بالکل سہل ہے ایک آواز کی دیر ہے کہ ساری مخلوق ہمارے سامنے موجود ہوجائے گی، جیسے اور آیت میں ہے کہ ایک ڈانٹ کے ساتھ ہی سب میدان میں مجتمع موجود ہوں گے۔ اور آیت میں فرمایا امر قیامت تو مثل آنکھ جھپکانے کے بلکہ اس سے بھی زیادہ قریب ہے، اور جیسے فرمایا (يَوْمَ يَدْعُوْكُمْ فَتَسْتَجِيْبُوْنَ بِحَمْدِهٖ وَتَظُنُّوْنَ اِنْ لَّبِثْتُمْ اِلَّا قَلِيْلًا 52 ) 17 ۔ الإسراء ;52) جس دن وہ تمہیں بلائے گا اور تم اس کی تعریف کرتے ہوئے اسے جواب دو گے اور یقین کرلو گے کہ تم بہت ہی کم مدت رہے۔ الغرض حکم کے ساتھ ہی سب حاضر سامنے موجود۔ اس دن کسی کا کوئی عمل مارا نہ جائے گا، ہر ایک کو اس کے کئے ہوئے اعمال کا ہی بدلہ دیا جائے گا۔