الصافات آية ۱۱۴
وَلَقَدْ مَنَنَّا عَلٰى مُوْسٰى وَهٰرُوْنَۚ
طاہر القادری:
اور بے شک ہم نے موسٰی اور ہارون (علیھما السلام) پر بھی احسان کئے،
English Sahih:
And We did certainly confer favor upon Moses and Aaron.
1 Abul A'ala Maududi
اور ہم نے موسیٰؑ و ہارونؑ پر احسان کیا
2 Ahmed Raza Khan
اور بیشک ہم نے موسیٰ اور ہارون پر احسان فرمایا
3 Ahmed Ali
اور البتہ ہم نےموسیٰ اور ہارون پراحسان کیا
4 Ahsanul Bayan
یقیناً ہم نے موسیٰ اور ہارون (علیہما السلام) پر بڑا احسان کیا (١)۔
١١٤۔١ یعنی انہیں نبوت و رسالت اور دیگر انعامات سے نوازا۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
اور ہم نے موسیٰ اور ہارون پر بھی احسان کئے
6 Muhammad Junagarhi
یقیناً ہم نے موسیٰ اور ہارون (علیہ السلام) پر بڑا احسان کیا
7 Muhammad Hussain Najafi
بے شک ہم نے موسیٰ(ع) و ہارون(ع) پر (بھی) احسان کیا۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
اور ہم نے موسٰی علیھ السّلام اور ہارون علیھ السّلامپر بھی احسان کیا ہے
9 Tafsir Jalalayn
اور ہم نے موسیٰ اور ہارون پر بھی احسان کئے
آیت نمبر 114 تا 138
ترجمہ : اور یقیناً ہم نے موسیٰ و ہارون پر نبوت دے کر بڑا احسان کیا اور ان دونوں کو اور ان کی قوم بنی اسرائیل کو بڑے غم (مصیبت) سے نجات دی، یعنی فرعون کے ان کو غلام بنانے سے، اور ہم نے قبطیوں کے مقابلہ میں ان کی مدد کی تو وہی غالب رہے اور ہم نے ان کو احکام و حدود وغیرہ میں جو اس میں بیان ہوئے ہیں واضح البیان کتاب عطا کی اور وہ تورات ہے اور ہم نے ان دونوں کو راہ مستقیم کی ہدایت دی اور ہم نے ان کیلئے بعد والوں میں ذکر خیر باقی رکھا، اور ہم اسی طرح جس طرح ان کو صلہ دیا نیک کام کرنے والوں کو صلہ دیا کرتے ہیں، بلاشبہ وہ ہمارے مومن بندوں میں سے تھے اور بلاشبہ الیاس (علیہ السلام) (بھی) مرسلین میں سے ہیں، اس کے شروع میں ہمزہ اور بدون ہمزہ (دونوں ہیں) کہا گیا ہے کہ الیاس موسیٰ (علیہ السلام) کے بھائی ہارون کے بھتیجے تھے بَعْلَبَکَّ اور اس کے اطراف کی قوم کی جانب مبعوث ہوئے تھے، اس وقت کو یاد کیجئے جبکہ (الیاس (علیہ السلام) نے اپنی قوم سے فرمایا کیا تم اللہ سے ڈرتے نہیں ہو ؟ کیا تم بعل (نامی بت) کو پکارتے ہو، بعل ان کے ایک سہزی بت کا نام ہے، اور اسی کے نام پر (بعلبک) شہر کا نام رکھا گیا بَکَّ کی جانب اضافت کرکے یعنی تم اس کی بندگی کرتے ہو اور سب سے بہتر خالق کو چھوڑ دیتے ہو، کہ اس کی بندگی نہیں کرتے (وہ) اللہ ہے جو تمہارا اور تمہارے اگلے باپ دادوں کا رب ہے ھُوَ محذوف ماننے کی صورت میں تینوں کے رفع کے ساتھ اور ان کے نصب کے ساتھ اَحْسَنَ سے بدل کی صورت میں، مگر قوم نے اس کو جھٹلا دیا وہ لوگ آگ میں حاضر کئے جائیں گے، سوائے اللہ تعالیٰ کے مخلص یعنی ان میں سے مومن بندوں کے وہ آگ سے نجات پائیں گے، اور ہم نے الیاس (علیہ السلام) کا بعد والوں میں بھی ذکر باقی رکھا، الیاسین پر ہماری طرف سے سلام ہو یہ وہی الیاس ہیں جن کا ذکر سابق میں ہوا ہے، اور کہا گیا ہے کہ الیاس (علیہ السلام) اور وہ جو ان پر ایمان لائے تھے (مراد ہیں) لہٰذا ان کے ساتھ تغلیباً جمع لائی گئی ہے، جیسا کہ مُھَلَّبْ اور اس کی قوم کو (جمع کے طور پر) مُھَلَّبُوْنَ کہتے ہیں، اور ایک قراءت میں آل یٰسین مد کے ساتھ ہے یعنی ان کے اہل اس سے الیاس مراد ہیں ہم اسی طرح جیسا کہ ان کو صلہ دیا نیکو کاروں کا صلہ دیتے ہیں بیشک وہ ہمارے مومن بندوں میں سے ہیں، اور بیشک لوط (علیہ السلام) بھی پیغمبروں میں سے تھے اس وقت کو یاد کرو جب ہم نے انکو اور ان کے سب اہل خانہ کو نجات دی، سوائے ایک بڑھیا کے جو عذاب میں مبتلا ہونے والوں میں باقی رہ گئی پھر ہم نے دوسروں (یعنی) اس کی قوم کے کافروں کو ہلاک کردیا اور تم تو ان پر یعنی اپنے اسفار کے دوران ان کے نشانات (خرابات) اور مکانات پر سے صبح کے وقت یعنی دن میں اور (کبھی) رات میں گزرتے ہو پھر بھی تم اے اہل مکہ نہیں سمجھتے کہ ان پر کیا (قیامت) گزری ؟ کہ تم اس سے عبرت حاصل کرو۔
تحقیق و ترکیب و تسہیل و تفسیری فوائد
قولہ : ولقد مننا یہ جملہ مستانفہ ہے مقصد یہاں سے تیسرے قصہ کا بیان ہے، اس صورت میں واؤ استینافیہ ہوگا اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ عطف قصہ علی القصہ ہو اس صورت میں واؤ عاطفہ ہوگا، لام جواب قسم کیلئے ہے، قسم محذوف ہے، تقدیر عبارت یہ ہے وعزَّتِنَا وجَلالِنا لَقَدْ مَننَّا۔ قولہ : ونصرنا ھُمْ ۔ ھم ضمیر کا مرجع موسیٰ و ہارون (علیہما السلام) اور ان کی قوم ہے۔
قولہ : فکانُوْا ھُمْ الغَالِبُوْنَ ، ھم ضمیر فصل ہے اس کا کوئی محل اعراب نہیں ہے اور الغالبون کانوا کی خبر ہے، اور بعض نے ھم کو کانوا کے واؤ کی تاکید یا بدل بھی قرار دیا ہے۔ (اعراب القرآن)
قولہ ؛ سَلاَمٌ علیٰ موسیٰ وھَارُوْنَ ، سلامٌ مبتداء ہے، تنوین تعظیم کے لئے لہٰذا نکرہ کا مبتداء واقع ہونا صحیح ہے، خبر محذوف ہے اور وہ مِنَّا ہے اور علیٰ موسیٰ وھارون، سلامٌ کے متعلق ہیں، اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ علیٰ موسیٰ وھارون کائنٌ کے متعلق ہو کر مبتداء کی خبر ہو
قولہ : وَاِنَّ الیاس واؤ استینافیہ ہے اور عاطفہ بھی ہوسکتا ہے اس صورت میں عطف قصہ علی القصہ ہوگا۔
قولہ ؛ بالھمز اوَّلہٖ وترکہٖ یعنی ہمزۂ وصل وقطع دونوں درست ہیں، دونوں صورتوں کے جواز کی وجہ یہ ہے کہ الیاس عجمی کلمہ ہے عربی میں استعمال ہونے لگا ہے، اس لئے ہمزہ کے قطعی یا وصلی ہونے کو متعین نہ کرسکے، اسی وجہ سے دونوں قراءتیں جائز ہیں۔
قولہ ؛ اِلاَّ عِبَادَ اللہِ المُخلَصِینَ فاِنِّھم نجوا منھا سے اشارہ کیا کہ اِلاَّ عبادَ اللہِ الخ محضرون کے واؤ سے مستثنیٰ ہے، یعنی جن لوگوں نے حضرت الیاس (علیہ السلام) کی تکذیب کی ان کو جہنم میں حاضر کیا جائے گا، البتہ جنہوں نے تکذیب سے توبہ کرلی ان کو جہنم میں حاضر نہ کیا جائے گا، صاحب لغات القرآن نے کہا ہے کہ کذّبوا کی ضمیر سے مستثنیٰ متصل ہے، اور مخلصین، عِبادَ اللہ کی صفت ہے، جلالین کے محشی لکھتے ہیں کہ اِلاَّ عباد اللہ المخلصین بظاہر مُحْضَرُوْنَ سے استثناء ہے، مگر یہ درست نہیں بلکہ صحیح یہ ہے کہ کذّبوا کے واؤ سے استثناء ہے، اس کا مطلب یہ ہوگا کہ حضرت الیاس (علیہ السلام) کی قوم میں بعض لوگ ایسے بھی تھے جنہوں نے تکذیب نہیں کی، اسی وجہ سے اِلاَّ عباد اللہ سے استثناء کردیا اور مُحْضَرُونَ سے استثناء اس لئے درست نہیں کہ اس سے یہ بات لازم آتی ہے کہ مکذبین میں سے بعض کو مخلص بندوں میں سے ہونے کی وجہ سے حاضر نہیں کیا جائے گا، اور یہ ظاہر الفساد ہے، اور مستثنیٰ منقطع درست نہیں ہے، اس لئے کہ اس صورت میں مطلب یہ ہوگا کہ جن کو حاضر نہیں کیا جائے گا وہ قوم الیاس میں سے نہیں ہیں، اس میں فساد نظم کلام ظاہر ہے۔
تفسیر و تشریح
ذبیح اللہ حضرت اسماعیل (علیہ السلام) کے ذبح سے نجات اور ان پر احسان کے بیان سے فراغت کے بعد اب ان انعامات کا ذکر فرما رہے ہیں، جو حضرت موسیٰ و ہارون (علیہما السلام) پر فرمائے، ان نعمتوں میں جو اللہ تعالیٰ نے ان حضرات پر فرمائیں سب سے زیادہ اہم اور افضل نبوت ہے، اس کے بعد فرعون کے ذلت آمیز غلامی سے نجات کا ذکر ہے، حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا واقعہ متعدد مقامات پر تفصیل و اجمال کے ساتھ بیان ہوا ہے، یہاں واقعہ کی طرف صرف اشارہ ہے، یہاں اس واقعہ کو ذکر کرنے سے اصل یہ بتانا ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے مخلص برگزیدہ اور اطاعت شعار بندوں کی کس طرح مدد فرماتے ہیں، اور انہیں کیسے کیسے انعامات سے نوازتے ہیں، انعامات کی بھی دو قسمیں ہیں، ایک مثبت انعامات یعنی فائدہ پہنچانا وَلَقَدْ مَنَنَّا علیٰ موسیٰ وھارونَ میں اسی انعام کی طرف اشارہ ہے، دوسری قسم منفی انعامات، یعنی نقصان سے بچانا، اگلی آیت میں اسی کی تفصیل ہے۔
حضرت الیاس (علیہ السلام) : وَاِنَّ الیاس لمن المُرْسَلِیْنَ اس سورت میں مذکور قصوں میں سے یہ چوتھا قصہ ہے، حضرت الیاس (علیہ السلام) کا قرآن کریم میں صرف دو جگہ ذکر آیا ہے، ایک سورة انعام میں اور دوسرے سورة صافات کی انہیں آیتوں میں، سورة انعام میں تو صرف انبیاء (علیہم السلام) کی فہرست میں آپ کا اسم گرامی شمار کرایا گیا ہے، اور کوئی واقعہ ذکر نہیں کیا گیا، البتہ یہاں نہایت اختصار کے ساتھ آپ کی دعوت و تبلیغ کا واقعہ بیان فرمایا گیا ہے۔
چونکہ قرآن کریم میں حضرت الیاس (علیہ السلام) کے حالات تفصیل سے مذکور نہیں ہیں، اور نہ مستند احادیث میں آپ کے حالات کا تذکرہ ہے، روایات میں جس قدر بھی آپ کے حالات ملتے ہیں ان میں سے بیشتر اسرائیلی روایات سے ماخوذ ہیں، مفسرین میں سے ایک مختصر جماعت کا کہنا یہ ہے کہ الیاس، حضرت ادریس (علیہ السلام) ہی کا دوسرا نام ہے، اور بعض حضرات کا کہنا ہے کہ الیاس اور خضر (علیہ السلام) ایک ہی ہیں۔ (درمنثور) لیکن محققین نے ان اقوال کی تردید کی ہے، حافظ ابن کثیر نے بھی اپنی تاریخ میں اسی کو صحیح قرار دیا ہے۔
زمانہ بعثت اور مقام : قرآن و حدیث سے یہ بھی پتہ نہیں چلتا کہ آپ کہاں اور کب مبعوث ہوئے تھے ؟ لیکن تاریخی اور اسرائیلی روایات اس پر تقریباً متفق ہیں کہ آپ حضرت حزقیل (علیہ السلام) کے بعد اور حضرت یسع (علیہ السلام) سے پہلے بنی اسرائیل کی طرف مبعوث ہوئے تھے، یہ وہ زمانہ تھا کہ جب حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے جانشینوں کی بدکاری کی وجہ سے بنی اسرائیل کی سلطنت دو حصوں میں تقسیم ہوگئی تھی، ایک حصہ ” یہودیہ “ کہلاتا تھا، اس کا مرکز بیت المقدس تھا، اور دوسرا حصہ ” اسرائیل “ کہلاتا تھا، اور اس کا پایہ تخت سامرہ، موجودہ نابلس تھا، حضرت الیاس (علیہ السلام) اردن کے علاقہ جلعاد میں پیدا ہوئے تھے، اس وقت اسرائیل کے ملک میں جو بادشاہ حکمراں تھا اس کا نام بائبل میں اخی اب اور عربی تاریخ و تفاسیر میں اجب یا اخب مذکور ہے، اس کی بیوی ایزیل، بعل نامی ایک بت کی پرستار تھی، اور اس نے اسرائیل میں بعل کے نام پر ایک بڑی قربان گاہ تعمیر کرکے تمام بنی اسرائیل کو بت پرستی کے راستہ پر لگا دیا تھا، حضرت الیاس (علیہ السلام) کو اللہ کی طرف سے حکم ہوا کہ وہ اس خطہ میں جا کر توحید کی تعلیم دیں، اور اسرائیلیوں کو بت پرستی سے روکیں۔ (تفسیر ابن جریر، وابن کثیر، مظھری اور بائبل کی کتاب سلاطین، معارف)
قوم کے ساتھ کشمکش : دوسرے انبیاء (علیہم السلام) کو بھی اپنی قوم کے ساتھ شدید کشمکش سے دو چار ہونا پڑا، قرآن کریم چونکہ کوئی تاریخ کی کتاب نہیں ہے، اس لئے اس نے اس کشمکش کا مفصل حال بیان کرنے کے بجائے صرف اتنی بات بیان فرمائی جو عبرت اور موعظت کیلئے ضروری تھی، یعنی یہ کہ ان کی قوم نے ان کو جھٹلایا اور چند مخلص بندوں کے سوا کسی نے حضرت الیاس (علیہ السلام) کی بات نہ مانی، اس لئے آخرت میں انہیں ہولناک انجام سے دو چار ہونا پڑے گا۔
بعض مفسرین نے یہاں اس کشمکش کے مفصل حالات بیان فرمائے ہیں، مروجہ تفاسیر میں حضرت الیاس (علیہ السلام) کا سب سے زیادہ مفصل تذکرہ تفسیر مظہری میں علامہ بغوی کے حوالہ سے نقل کیا گیا ہے، اس میں جو واقعات مذکور ہیں وہ تقریباً تمام تر بائبل سے ماخوذ ہیں، دوسری تفسیروں میں بھی ان واقعات کے بعض اجزاء حضرت وہب بن منبہ اور کعب الاحبار وغیرہ کے حوالہ سے بیان ہوئے ہیں، جو اکثر اسرائیلی روایات سے نقل کرتے ہیں۔ (معارف)
ان تمام روایات سے خلاصہ کے طور پر جو بات قدر مشترک نکلتی ہے وہ یہ ہے کہ حضرت الیاس (علیہ السلام) نے اسرائیل کے بادشاہ اخی اب اور اس کی رعایا کو بعل نامی بت کی پرستش سے روک کر توحید کی دعوت دی، مگر چند حق پسندوں کے سوا کسی نے آپ کی دعوت قبول نہیں کی، بلکہ آپ کو طرح طرح سے پریشان کرنے کی کوشش کی، یہاں تک کہ اخی اب اور اس کی بیوی ایزیل نے آپ کے قتل کے منصوبے بنائے، آپ نے ایک دور افتادہ غار میں پناہ لی، اور عرصہ دراز تک وہیں مقیم رہے، اسکے بعد آپ نے دعا فرمائی کہ اسرائیلی قحط کا شکار ہوجائیں تاکہ اس قحط سالی کو دور کرنے کیلئے آپ ان کو معجزات دکھائیں تو شاید وہ ایمان لے آئیں، چناچہ انہیں شدید قحط میں مبتلا کردیا گیا۔
اسکے بعد حضرت الیاس (علیہ السلام) اللہ تعالیٰ کے حکم سے اسرائیل کے بادشاہ اخی اب سے ملے اور اس سے کہا یہ عذاب اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کی وجہ سے ہے، اور اگر تم اب بھی باز آجاؤ تو عذاب دور ہوسکتا ہے، میری صداقت کے امتحان کا بھی یہ بہترین موقع ہے، تم کہتے ہو کہ اسرائیل میں تمہارے معبود بعل کے ساڑھے چار سو نبی ہیں، تم ایک دن سب کو میرے سامنے جمع کرلو، وہ بعل کے نام پر قربانی پیش کریں، اور میں اللہ کے نام پر قربانی کروں گا، جس کی قربانی کو آسمانی آگ جلا دے اس کا دین سچا ہوگا، سب نے اس تجویز کو منظور کرلیا، چناچہ کوہ کرمل کے مقام پر یہ اجتماع ہوا، بعل کے جھوٹے نبیوں نے اپنی قربانی پیش کی اور صبح سے دوپہر تک بعل سے التجا کرتے رہے مگر کوئی جواب نہ ایا، اس کے بعد حضرت الیاس (علیہ السلام) نے اپنی قربانی پیش کی، اس پر آسمانی آگ نازل ہوئی اور اس کو جلا کر خاکستر کردیا، یہ دیکھ کر سب لوگ سجدے میں گرگئے اور ان پر حق واضح ہوگیا، لیکن بعل کے جھوٹے نبی اب بھی نہ مانے اس لئے حضرت الیاس نے ان کو وادئ قیسون میں قتل کرا دیا۔ (معارف)
اس واقعہ کے بعد زوردار بارش ہوئی اور قحط ختم ہوگیا مگر اخی اب کی بیوی ایزیل کی اب بھی آنکھ نہ کھلی، اور بجائے اس کے
کہ ایمان لاتی، حضرت الیاس کے قتل کی تیاری شروع کردی، حضرت الیاس یہ سن کر پھر سامریہ سے روپوش ہوگئے اور کچھ عرصہ بعد اسرائیل کے دوسرے ملک یہودیہ میں تبلیغ شروع کردی چند سال بعد آپ دوبارہ اسرائیل تشریف لائے اور اسرائیل کے بادشاہ اخی اب اور اس کے لڑکے اختر یاہ کو راہ راست پر لانے کی کوشش کی مگر وہ بدستور اپنی بد اعمالیوں میں مبتلا رہے، یہاں تک کہ انہیں بیرونی حملوں اور مہلک بیماریوں کا شکار بنادیا گیا، اس کے بعد اللہ نے اپنے نبی کو واپس بلا لیا۔
کیا حضرت الیاس (علیہ السلام) زندہ ہیں ؟ حضرت الیاس (علیہ السلام) کی موت وحیات کا مسئلہ اہل علم کے نزدیک مختلف فیہ ہے تفسیر مظہری میں علامہ بغوی کے حوالہ سے جو طویل روایت بیان کی گئی ہے اس میں یہ بھی مذکور ہے کہ حضرت الیاس (علیہ السلام) کو ایک آتشیں گھوڑے پر سوار کرکے آسمان کی طرف اٹھالیا گیا، اور وہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی طرح زندہ ہیں، چار انبیاء ایسے ہیں جو زندہ ہیں، دو زمین پر ہیں حضرت خضر اور حضرت الیاس، اور دو آسمانوں میں حضرت عیسیٰ اور حضرت ادریس (در منثور، ص 285/286، ج 5) لیکن حافظ ابن کثیر جیسے محقق علماء نے ان روایات کو صحیح قرار نہیں دیا، حافظ ابن کثیر ان جیسی روایات کے بارے میں لکھتے ہیں : وَھُوَ منَ الإسرَائیلیَاتِ الَّتی لاتصدق ولا تُکذَّبُ بل الظَّاھِرْ انَّ صحَّتھَا بعیدۃٌ یہ اسرائیلی روایتوں میں سے ہے، جن کی نہ تصدیق کی جاسکتی ہے نہ تکذیب، بلکہ ظاہر یہ ہے کہ ان کی صحت بعید ہے۔ (البدایۃ والنھایۃ، ص 338، ج 1)
ایسا معلوم ہوتا ہے کہ کعب الاحبار اور وہب بن منبہ جیسے علماء نے جو اہل کتاب کے علوم کے ماہر تھے، یہی روایتیں مسلمانوں کے سامنے بیان کی ہوں گی جن سے حضرت الیاس (علیہ السلام) کی زندگی کا نظریہ بعض مسلمانوں میں بھی پھیل گیا، ورنہ قران و حدیث میں ایسی کوئی دلیل نہیں ہے، جس سے حضرت الیاس (علیہ السلام) کی زندگی یا آسمان پر اٹھایا جانا ثابت ہوتا ہو، صرف ایک روایت میں مستدرک حاکم میں ملتی ہے، جس میں مذکور ہے کہ تبوک کے راستہ میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ملاقات حضرت الیاس (علیہ السلام) سے ہوئی، لیکن یہ روایت بتصریح محدیثین موضوع ہے، حافظ ذہبی فرماتے ہیں بل ھُوَ موضوعٌ قبَّحَ اللہُ من وضعہٗ وما کنت احسب ولا اجوزُ ان الجھل یبلُغُ بالحاکم الی ان یُصِححَّ ھٰذا۔ بلکہ یہ حدیث موضوع ہے خدا برا کرے اس شخص کا جس نے یہ حدیث وضع کی، اس سے پہلے میرے گمان میں بھی نہ تھا کہ امام حاکم کی بت خبری اس حد تک پہنچ سکتی ہے کہ وہ اس حدیث کو صحیح قرار دیں۔ (درمنثور، ص 286، ج 5)
اتدعون۔۔۔۔ الخالقین ” بعل “ لغت میں شوہر اور مالک وغیرہ کو کہتے ہیں، لیکن یہاں وہ بت مراد ہے جس کو حضرت الیاس (علیہ السلام) کی قوم نے اپنا معبود بنا رکھا تھا، حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے زمانہ میں بھی شام کے علاقہ میں اس بت کی پرستش ہوتی تھی، شام کا مشہور شہر بعلبک بھی اسی نام سے موسوم ہوا، اور بعض لوگوں کا خیال ہے کہ اہل حجاز کا مشہور بت ہبل بھی یہی بعل ہے۔ (قصص القرآن، ص 28، ج 2، معارف)
آیت میں خالق سے مراد صانع ہے، احسن الخالقین ” سب سے اچھا خالق “ کا مطلب یہ نہیں کہ معاذ اللہ کوئی دوسرا بھی خالق ہے، بلکہ مطلب یہ ہے کہ جن جھوٹے معبودوں کو تم نے خالق قرار دیا ہوا ہے، وہ ان سب میں بہتر صانع اور بنانے والا ہے، اس لئے کہ دیگر صانعین صرف اتنا ہی تو کرتے ہیں کہ مختلف اجزاء کو جوڑ توڑ کر اور حل و ترکیب کرکے کوئی چیز تیار کرتے ہیں، مادہ کو پیدا کرکے کسی شئ کو عدم سے وجود میں لانا ان کے بس کی بات نہیں ہے، اور اللہ تعالیٰ معدوم ایشاء کو وجود بخشنے پر قدرت رکھتے ہیں۔ (بیان القرآن ملخصاً )
سلام علی ال یاسینَ نافع اور ابن عامر اور یعقوب وغیرہ نے آل یاسین اضافت کے ساتھ پڑھا ہے، اور مصحف عثمانی میں منفصلاً لکھا ہے جس سے اس قراءت کی تائید ہوتی ہے، مشہور یہ ہے کہ الیاسین، الیاس (علیہ السلام) کا نام ہے، عرب عجمی ناموں کو جب عربی میں استعمال کرتے ہیں تو ان میں کافر ردو بدل اور چھیڑ چھاڑ کرتے ہوئے کافی حذف اضافی کرلیتے ہیں، جیسے سیناء سے سینین کرلیا اسی طرح یہاں بھی الیاس کا الیاسین کرلیا یہودیوں کے نزدیک حضرت الیاس ہی ایلیا کے نام سے مشہور و معروف ہیں
وان لوطاً لمن المرسلینَ ان آیات میں حضرت لوط (علیہ السلام) کا ذکر فرمایا گیا ہے، اس سورت میں مذکورہ واقعات میں سے یہ پانچواں واقعہ ہے، یہ واقعہ پیچھے کئی مقامات پر گزر چکا ہے، اس لئے یہاں تفصیل کی ضرورت نہیں، یہاں اہل مکہ کو خاص طور پر یہ تنبیہ کی گئی ہے اور ان سے کہا جا رہا ہے کہ اے اہل مکہ تم ملک شام کے تجارتی سفر میں ان تباہ شدہ علاقوں سے آتے جاتے گزرتے ہو، جہاں اب بھی بحیرۂ مردار موجود ہے جو کہ نہایت کریہہ و متعفن اور بدبودار ہے، کیا تم انہیں دیکھ کر یہ بات نہیں سمجھتے کہ تکذیب رسل کی وجہ سے ان کا یہ بد انجام ہوا، تو تمہاری اس روش کا انجام بھی اس سے مختلف کیوں ہوگا ؟ تم بھی وہی کام کر رہے ہو جو انہوں نے کیا، تو پھر تم اللہ کے عذاب سے کیوں محفوظ رہو گے ؟
10 Tafsir as-Saadi
اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے دو بندوں اور رسولوں یعنی عمران کے بیٹوں حضرت موسیٰ اور حضرت ہاورن علیہما السلام کا ذکر فرماتا ہے کہ اس نے ان دونوں کو نبوت، رسالت اور دعوت الی اللہ کے منصب پر سرفراز فرمایا، ان کو اور ان کی قوم کو ان کےدشمن فرعون سے نجات دی، ان کے دشمن کو ان کی نظروں کے سامنے سمندر میں غرق کر کے ان کی مدد فرمائی اور ان پر حق و باطل کو واضح کرنے والی کتاب یعنی تو رات نازل کی جو شرعی احکامات، مواعظ اور ہر چیز کی تفصیل پر مشتمل تھی۔ اللہ تعالیٰ نے ان دونوں کی صراط مستقیم کی طرف راہنمائی فرمائی، انہیں دین عطا کیا جو ایسے احکامات و قوانین پر مشتمل تھا، جو اللہ تک پہنچاتے تھے، اللہ تعالیٰ نے ان دونوں کو اس راستے پر گامزن کر کے ان پر احسان فرمایا۔ : ﴿وَتَرَكْنَا عَلَيْهِمَا فِي الْآخِرِينَ سَلَامٌ عَلَىٰ مُوسَىٰ وَهَارُونَ ﴾ ” یعنی انکے بعد آنے والوں میں ان کی مدح، ثنائے حسن اور سلام کو باقی رکھا۔ ان کے اپنے زمانے کے لوگوں میں، ان کی مدح و ثناء کا موجود ہونا زیادہ اولیٰ ہے: ﴿ إِنَّا كَذٰلِكَ نَجْزِي الْمُحْسِنِينَ إِنَّهُمَا مِنْ عِبَادِنَا الْمُؤْمِنِينَ ﴾ ” بے شک ہم نیکو کار لوگوں کو اسی طرح بدلہ دیتے ہیں۔ بے شک وہ دونوں ہمارے مومن بندوں میں شمار ہوتے ہیں۔“
11 Mufti Taqi Usmani
aur beyshak hum ney musa aur Haroon per bhi ehsan kiya .
12 Tafsir Ibn Kathir
حضرت موسیٰ پر انعامات الٰہی۔
اللہ تعالیٰ حضرت موسیٰ اور ہارون پر اپنی نعمتیں جتا رہا ہے کہ انہیں نبوت دی انہیں مع ان کی قوم کے فرعون جیسے طاقتور دشمن سے نجات دی جس نے انہیں بےطرح پست و ذلیل کر رکھا تھا ان کے بچوں کو کاٹ دیتا تھا ان کی لڑکیوں کو رہنے دیتا تھا ان سے ذلیل مزدوریاں کراتا تھا اور بےحیثیت بنا رکھا تھا۔ ایسے بدترین دشمن کو ان کے دیکھتے ہلاک کیا، انہیں اس پر غالب کردیا ان کی زمین و زر کے یہ مالک بن گئے۔ پھر حضرت موسیٰ کو واضح جلی روشن اور بین کتاب عنایت فرمائی جو حق و باطل میں فرق و فیصلہ کرنے والی اور نور و ہدایت والی تھی، ان کے اقوال و افعال میں انہیں استقامت عطا فرمائی اور ان کے بعد والوں میں بھی ان کا ذکر خیر اور ثناء و صفت باقی رکھی کہ ہر زبان ان پر سلام ہی پڑھتی ہے۔ ہم نیک کاروں کو یہی اور ایسے ہی بدلے دیتے ہیں۔ وہ ہمارے مومن بندے تھے۔