ص آية ۱۵
وَمَا يَنْظُرُ هٰۤؤُلَاۤءِ اِلَّا صَيْحَةً وَّاحِدَةً مَّا لَهَا مِنْ فَوَاقٍ
طاہر القادری:
اور یہ سب لوگ ایک نہایت سخت آواز (چنگھاڑ) کا انتظار کر رہے ہیں جس میں کچھ بھی توقّف نہ ہوگا،
English Sahih:
And these [disbelievers] await not but one blast [of the Horn]; for it there will be no delay.
1 Abul A'ala Maududi
یہ لوگ بھی بس ایک دھماکے کے منتظر ہیں جس کے بعد کوئی دوسرا دھماکا نہ ہوگا
2 Ahmed Raza Khan
اور یہ راہ نہیں دیکھتے مگر ایک چیخ کی جسے کوئی پھیر نہیں سکتا،
3 Ahmed Ali
اور یہ ایک ہی چیخ کے منتظر ہیں جسے کچھ دیر نہیں لگے گی
4 Ahsanul Bayan
انہیں صرف ایک چیخ کا انتظار (١) ہے جس میں کوئی توقف (اور ڈھیل) نہیں ہے (٢)
١٥۔١ یعنی صور پھونکنے کا جس سے قیامت برپا ہو جائے گی۔
١٥۔٢ صور پھونکنے کی دیر ہوگی کہ قیامت کا زلزلہ برپا ہو جائے گا۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
اور یہ لوگ تو صرف ایک زور کی آواز کا جس میں (شروع ہوئے پیچھے) کچھ وقفہ نہیں ہوگا، انتظار کرتے ہیں
6 Muhammad Junagarhi
انہیں صرف ایک چیﺦ کا انتظار ہے جس میں کوئی توقف (اور ڈھیل) نہیں ہے
7 Muhammad Hussain Najafi
اور یہ لوگ بس ایک چنگھاڑ (دوسری نَفَخ) کا انتظار کر رہے ہیں جس کے بعد کچھ دیر نہ ہوگی۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
یہ صرف اس بات کا انتظار کررہے ہیں کہ ایک ایسی چنگھاڑ بلند ہوجائے جس سے ادنیٰ مہلت بھی نہ مل سکے
9 Tafsir Jalalayn
اور یہ لوگ تو صرف ایک زور کی آواز کا جس میں (شروع ہوئے پیچھے) کچھ وقفہ نہیں ہوگا انتظار کرتے ہیں
آیت نمبر 15 تا 26
ترجمہ : انہیں یعنی کفار مکہ کو ایک چیخ کا انتظار ہے، اور وہ قیامت کا نفخہ ہوگا، جو ان پر عذاب نازل کرے گا، اور اس نفخہ کے لئے تو توقف نہ ہوگا فَوَاق میں فاؔ، فتحہ اور ضمہ کے ساتھ ہے، جب آیۃ فَامَّا مَن اُوتِیَ کتابہٗ بیمینہٖ نازل ہوئی تو انہوں نے کہا اے ہمارے پروردگار تو ہمارا حصہ یعنی نامہ اعمال حساب کے دن سے پہلے (دنیا ہی) میں دیدے یہ بات انہوں نے تمسخر کے طور پر کہی، اللہ تعالیٰ نے فرمایا آپ ان کی باتوں پر صبر کیجئے، اور ہمارے بندے داؤد کو یاد کیجئے جو عبادت میں بڑے قوی تھے، ایک دن روزہ رکھتے اور ایک دن افطار کرتے تو آدھی رات قیام کرتے اور رات کو تہائی حصہ سوتے اور (پھر) رات کو چھٹا حصہ قیام کرتے یقیناً وہ اللہ کی مرضیات کی طرف بہت رجوع کرنے والے تھے ہم نے پہاڑوں کو اس کے تابع کر رکھا تھا، کہ اس کے ساتھ شام کو عشاء کی نماز کے وقت اور اشتراق یعنی اشراق کی نماز کے وقت اور وہ یہ کہ سورج خوب چمکدار ہوجائے اور اس کی روشنی انتہاء پر پہنچ جائے، تسبیح خوانی کرتے تھے اور پرندوں کو اس کے تابع کردیا تھا، اس کے پاس جمع ہو کر سب کے سب اس کے ساتھ تسبیح پڑھتے اور پہاڑوں اور پرندوں میں سے سب کے سب تسبیح خوانی میں اس کے زیر فرمان تھے، اور ہم نے اس کو حکومت کو پہرے داروں اور لشکروں کے ذریعہ قوت بخشی تھی، ان کی محراب کی ہر رات تیس ہزار محافظ نگرانی کرتے تھے، اور اسے حکمت یعنی نبوت اور معاملات میں اصابت رائے عطا کی تھی اور خطاب فیصل یعنی مقصد میں بیان شافی عطا کیا، ھَلْ استفہام کے معنی میں ہے، اور یہاں تعجب کے لئے ہے، اور کلام آئندہ کو غور سے سننے کا شوق دلانے کے لئے ہے، اور کیا تجھے سے محمد جھگڑنے والوں کی خبر ملی جبکہ وہ داؤد (علیہ السلام) کی محراب یعنی عبادت خانہ کی دیوار پھاند کر عبادت خانہ میں آگئے، جبکہ ان کو داؤد (علیہ السلام) کے پاس دروزوں سے جانے سے روک دیا گیا، حضرت داؤد (علیہ السلام) کے عبادت میں مشغول ہونے کی وجہ سے یعنی کیا تم کو ان کی خبر اور ان کا قصہ پہنچا جب یہ داؤد (علیہ السلام) کے پاس پہنچے تو وہ ان سے گھبرا گئے، تو (آنے والوں نے) کہا گھبرائیے نہیں ہم دونوں فریق مقدمہ ہیں، اور کہا گیا ہے کہ خصمان سے مراد فریقان ہے، تاکہ ماقبل (تسوّروا) کی ضمیر جمع کے مطابق ہوجائے اور کہا گیا ہے تثنیہ کے معنی میں ہے، اور خصم کا اطلاق ایک اور ایک سے زیادہ پر ہوتا ہے اور وہ دونوں فرشتے تھے، جو مدعی اور مدعا علیہ کی شکل میں آئے تھے، اور جو کچھ مذکور ہوا وہ ان دونوں کے لئے (قرآن) میں علی سبیل الفرض واقع ہوا ہے، کہ داؤد (علیہ السلام) اس لغزش پر متنبہ ہوجائیں جو ان سے صادر ہوئی، اور داؤد (علیہ السلام) کی ننانوے بیویاں تھیں، اور ایسے شخص کی بیوی بھی طلب کی جس کے پاس اس کے علاوہ اور کوئی بیوی نہیں تھی، اور اس سے (داؤد (علیہ السلام) نے) نکاح کرکے ہمبستری بھی کرلی، ہم میں سے ایک نے دوسرے پر زیادتی کی ہے، سو آپ ہمارے درمیان حق کے ساتھ فیصلہ کر دیجئے اور ناانصافی نہ کیجئے اور ہمیں سیدھی راہ بتا دیجئے (یعنی) درمیانی سیدھا راستہ (سنئے) یہ میرا بھائی یعنی دینی بھائی ہے اس کے پاس ننانوے دنبیاں ہیں عورت کو دنبی سے تعبیر کر رہا تھا اور میرے ایک ہی دنبی ہے، لیکن یہ مجھ سے کہہ رہا ہے کہ یہ ایک دنبی بھی مجھے دیدے یعنی مجھے ان کا کفیل بنا دے اور یہ گفتگو یعنی بحث و مباحثہ میں مجھ پر غالب آگیا ہے اور فریق ثانی (یعنی مدعا علیہ) نے اس کا اقرار کرلیا آپ نے فرمایا اس کا اپنی دنبیوں میں تیری دنبی ملا لینے کا سوال بیشک تیرے اوپر ایک ظلم ہے اور بیشک اکثر شرکاء (ایسے ہی ہوتے ہیں) کہ ایک دوسرے پر ظلم کرتے ہیں، سوائے ان کے جو ایمان لائے اور جنہوں نے نیک عمل کئے اور ایسے لوگ بہت کم ہیں ما تاکید قلت کے لئے ہے، چناچہ دونوں فرشتوں نے اپنی اصلی صورت میں آسمان کی طرف چڑھتے ہوئے کہا، اس شخص نے تو خود ہی اپنے خلاف فیصلہ کرلیا، تو اس وقت حضرت داؤد (علیہ السلام) متنبہ ہوئے، اور حضرت داؤد (علیہ السلام) سمجھ گئے، اللہ تعالیٰ نے فرمایا اور داؤد نے یقین کرلیا کہ ہم نے انہیں آزمایا ہے یعنی ان کو آزمائش میں ڈالا ہے، بایں طور کہ اس عورت کی محبت کے فتنہ میں مبتلا کردیا ہے، پھر تو اپنے رب سے استغفار کرنے لگے اور سجدے میں گرپڑے اور اپنے مولیٰ کی طرف رجوع کیا، تو ہم نے بھی ان کا وہ قصور معاف کردیا یقیناً وہ ہمارے نزدیک بڑے مرتبہ والے ہیں، یعنی دنیا میں زیادہ نیکیوں والے ہیں اور آخرت میں بہت اچھے ٹھکانوں والے ہیں اے داؤد ہم نے تم کو زمین میں خلیفہ بنادیا تاکہ لوگوں کے معاملات کی تدبیر کرو تو لوگوں کے درمیان حق کے ساتھ فیصلے کرو اور خواہشات کی پیروی نہ کرو یعنی نفسانی خواہشات کی ورنہ وہ تمہیں اللہ کی راہ سے یعنی ان دلائل سے جو اس کی توحید پر دلالت کرتے ہیں بھٹکا دے گا، یقیناً جو لوگ اللہ کی راہ سے یعنی ایمان سے بھٹک جاتے ہیں ان کے لئے سخت عذاب ہے، ان کے یوم حسان کو بھلا دینے کی وجہ سے جس (نسیان) پر ان کا ترک ایمان مرتب ہوا، اگر یہ لوگ یوم حساب کا یقین کرلیتے تو دنیا (ہی) میں ایمان لے آتے۔
تحقیق و ترکیب و تسہیل و تفسیری فوائد
قولہ : فواق فا کے فتحہ اور ضمہ کے ساتھ، ای الرجوع، یہ اسم فعل ہے، اس کی جمع افوِقۃٌ وآفقۃٌ ہے، درمیانی وقفہ، دو مرتبہ دودھ دوہنے کے درمیان کا وقفہ، ایک مرتبہ دوہنے کے بعد بچہ کو دودھ پینے کے لئے چھوڑ دیا جاتا ہے، بچہ کے پینے سے جانور کے تھنوں میں دوبارہ دودھ اتر آتا ہے، دوہنے والا، بچہ کو ہٹا کر دوبارہ دودھ دوہ لیتا ہے، اسی درمیانی وقفہ کا نام فواق ہے (قاموس) یہاں مراد سکون، وقفہ ہے، یا رجوع مراد ہے جیسا کہ محلی نے مراد لیا ہے، یعنی نفخۂ قیامت بلا توقف تسلسل کے ساتھ ہوگا۔
قولہ : مالھَا ما نافیہ ہے اور لَھَا خبر مقدم ہے من زائدہ ہے، اور فواق، اسم مجرور لفظاً ما کا اسم یا مبتداء مؤخر ہونے کی وجہ سے محلاً مرفوع ہے، جملہ ما لھَا من فواقٍ ، صیحۃً کی صفت ہونے کی وجہ سے محل میں نصب کے ہے۔
قولہ : ذالایدِ ، ایدٌ بیعٌ کے وزن پر آد یئید سے مصدر مفرد ہے، اذَا قوی واشتدَّ یہ یدٌ کی جمع نہیں ہے۔ (صاوی)
قولہ : انَّہٗ اواب یہ حضرت داؤد (علیہ السلام) کے دین میں قوی ہونے کی علت ہے۔ قولہ : یُسبّحْنَ یہ الجبال سے حال ہے۔
قولہ : والطیر محشورۃً ، الجبالَ پر عطف ہونے کی وجہ سے منصوب ہے اور بعض نے مبتدا، خبر ہونے کی وجہ سے مرفوع کہا ہے۔
قولہ : کلٌّ لہٗ اواب، لہٗ کا مرجع حضرت داؤد (علیہ السلام) ہیں جیسا کہ مفسر علام کی عبارت سے معلوم ہوتا ہے، ایں صورت میں مطلب یہ ہوگا کہ پہاڑ اور پرندے تسبیح خوانی میں حضرت داؤد (علیہ السلام) کے حکم کے تابع تھے، داؤد (علیہ السلام) کی تسبیح خوانی کی وجہ سے۔ جب حضرت داؤد (علیہ السلام) ان کو تسبیح خوانی کا حکم فرماتے تو وہ تسبیح خوانی میں حضرت داؤد کے ساتھ مصروف ہوجاتے، اس صورت میں اوّاب، مسبِّحٌ کے معنی میں ہوگا، دوسری صورت یہ کہ لَہٗ کا مرجع باری تعالیٰ کو قرار دیا جائے تو اس صورت میں مطلب یہ ہوگا کہ حضرت داؤد (علیہ السلام) اور پہاڑو پرندے اللہ کی طرف رجوع کرنے والے اور تسبیح خواں ہوتے تھے، علامہ محلی کی عبادت سے معلوم ہوتا ہے کہ لَہٗ ، اواب کا صلہ ہے، (جمل) یہ جملہ مستانفہ ہے ما سبق کے مضمون کی تاکید اور اجمال کی تفصیل کیلئے لایا گیا ہے۔
قولہ : بالحُرَّسِ ، حاء کے ضمہ اور راء مشدد کے فتحہ کے ساتھ حارس کی جمع ہے، اور دونوں کے فتحہ کے ساتھ حَرَسٌ بروزن خَدَمٌ بمعنی خدام، نوکر چاکر۔
قولہ : ھل اتاک، ھل استفہامیہ تعجبیہ ہے یعنی مخاطب کو تعجب میں ڈالنے کیلئے یا آئندہ کلام کو سننے کا شوق دلانے کیلئے ہے، یہ ایسا ہی ہے کہ جب کوئی عجیب خبر سنائی ہوتی ہے تو مخاطب کو متوجہ کرنے کیلئے کہتے ہیں، ھل تعلم ؟ ما وَقَعَ الیوم اردو محاورہ میں کہتے ہیں، کچھ معلوم ؟ آج ایساہو گیا۔
قولہ : تَسَوَّرُوا ماضی جمع مذکر غائب، انہوں نے دیوار کو پھاندا، دیوار پھاند کر داخل ہوئے، اذتَسَوَّرُوْا مضاف محذوف کا ظرف ہے، تقدیر عبارت یہ ہے ھلَ اتاکَ نبؤُ تَخَاصم الخصم اذ تسوّرُوا۔
قولہ : اذ دخلوا یہ پہلے اذ سے بدل ہے، اور تَسوَّرُوا کا بدل بھی ہوسکتا ہے۔ قولہ : خبرھم وقصتھم یہ نبؤٌ کی تفسیر ہے۔
قولہ : قیلَ فریطانِ لیُطَابِقَ ما قبلَہٗ یہ ایک سوال مقدر کا جواب ہے، سوال یہ ہے کہ تسوروا جمع کا صیغہ استعمال ہوا ہے، اور خصمان تنبیہ، دونوں میں مطابقت نہیں ہے، حالانکہ مصداق دونوں کا ایک ہی ہے، جواب کا حاصل یہ ہے کہ خصمان سے مراد فریقان ہے اور ہر فریق کئی افراد پر مشتمل ہوتا ہے تب ہی اس کو فریق کہتے ہیں، لہٰذا دونوں میں کوئی مخالفت نہیں ہے، دوسرا جواب یہ بھی دیا گیا ہے، کہ خصم مصدر بھی ہے، اس لئے اس کا اطلاق واحد، تثنیہ، جمع سب پر ہوتا ہے۔
قولہ : وقیل اثنان والضمیر بمعناھا مذکورہ اعتراض کا یہ تیسرا جواب ہے، اس کا خلاصہ یہ ہے کہ دیوار پھاند کر آنے والے دو ہی تھے، تسوروا میں جمع سے مافوق الواحد مراد ہے، جس کا اطلاق دو پر بھی ہوسکتا ہے۔
قولہ : وقَعَ لھَمَا ما ذُکِرَ علیٰ سبیل الفرض مفسر علام کا مقصد اس عبارت سے ایک اعتراض کا جواب ہے۔
اعتراض : دو فرشتے مذکورہ مسئلہ میں مدعی اور مدعا علیہ بن کر آئے اور انہوں نے حضرت داؤد (علیہ السلام) کی عدالت میں ایک ایسا مقدمہ پیش کیا کہ جس کا سرے سے کوئی وجود ہی نہیں تھا، جو سراسر کذب و معصیت تھا، حالانکہ فرشتے معصوم ہیں، ان سے معصیت کا صدور نہیں ہوسکتا ؟
جواب : جواب کا خلاصہ یہ ہے کہ کذب و معصیت اس وقت ہوگا جب حقیقتاً کسی واقعہ کی خبر دینا مقصود ہوتا، یہاں تو تنبیہ کے لئے ایک فرضی صورت تصور کرلی گئی تھی، اس میں خلاف واقعہ کذب و دروغ گوئی کا سوال ہی نہیں ہے، یہ ایسا ہی ہے کہ استاد بچوں کو سمجھانے کیلئے بطور مثال کہتا ہے ضَرَبَ زیدٌ عمراً ، واشترٰی بکر دارًا حالانکہ نہ یہاں ضرب ہے اور نہ شراء یہاں بھی داؤد (علیہ السلام) کیلئے تعریض و تنبیہ مقصود تھی نہ کہ بیان واقعہ۔
قولہ : واقرَّہُ الآخرُ اس عبارت کے اضافہ کا مقصد ایک سوال کا جواب دینا ہے، سوال یہ ہے کہ حضرت داؤد (علیہ السلام) نے مدعا علیہ کا بیان سنے بغیر نیز گواہوں کی گواہی کے بغیر کس طرح یکطرفہ فیصلہ کردیا ؟
جواب : جواب کا حاصل یہ ہے کہ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ مدعا علیہ نے مدعی کے دعوے کو تسلیم کرلیا تھا، اور جب مدعا علیہ مدعی کا دعویٰ تسلیم کرلے تو پھر نہ گواہوں کی ضرورت ہوتی ہے اور نہ بیان صفائی کی۔
قولہ : قلیل ما ھُمْ ، قلیل خبر مقدم ہے ما تاکید قلت کیلئے زائدہ ہے، ھُمْ مبتدا مؤخر ہے۔ قولہ : زُلفٰی درجہ، مرتبہ، زلفٰی بروزن قُربٰی مصدر ہے۔ (لغات القرآن)
تفسیر و تشریح
وما ینظر الخ ینَظُرُ بمعنی ینتَظِرُ ہے، وقوع یقینی کو بیان کرنے کے لئے ینتظرُ کا مجازاً ینظُرُ سے تعبیر کردیا ہے، اس تعبیر کی علت یہ ہے کہ اس نفخہ کا وقوع اس قدر یقینی ہے گویا کہ وہ ایسا امر محسوس ہے جو آنکھوں سے نظر آسکتا ہے، رسولوں کی تکذیب کرنے والی سابقہ امتوں کی ہلاکت و بربادی کا ذکر کرنے کے بعد کفار مکہ کے عقاب و عذاب کو بیان فرما رہے ہیں، یعنی جب نہایت طاقتور اور دنیوی وسائل سے مالا مال قوموں کو رسولوں کی تکذیب کی پاداش میں ہلاک کرکے صفحۂ ہستی سے مٹا دیا گیا، تو کفار مکہ کی ان کے مقابلہ میں کیا حقیقت و حیثیت ہے، اسم اشارہ ھٰولآء جو کہ قریب کیلئے ہے، لا کر کفار مکہ کی تحقیر کی طرف اشارہ کرنا مقصود ہے نفخہ سے مراد نفخہ ثانیہ ہے، جس کے ذریعہ قیامت برپا ہوگی۔ (روح المعانی)
ما لھا من فواق یعنی اسرافیل (علیہ السلام) کا صور پھونکنا اس قدر تسلسل کے ساتھ ہوگا کہ اس میں کوئی وقفہ نہیں ہوگا اور نہ صور پھونکنے کے بعد وقفہ ہوگا، بلکہ فوراً ہی زلزلہ قیامت شروع ہوجائے گا عَجَّلْ لنا قطنا، قطٌّ کے معنی حصہ کے ہیں، یہاں مراد نامۂ عمل ہے، مطلب یہ ہے کہ اے ہمارے پروردگار ہمارے نامۂ اعمال کے مطابق ہمارے حصہ میں اچھی یا بری جزاء یا سزا جو بھی ہے، روز قیامت سے پہلے دنیا ہی میں دیدے، اور یہ عذاب طلبی استہزاء کے طور پر تھی اس لئے کہ یہ لوگ وقوع قیامت کو عقلاً ناممکن سمجھتے تھے۔ ذا الایدِ ، اَیْدٌ، یدٌ بمعنی ہاتھ کی جمع نہیں ہے، بلکہ آد یئیدُ کا مصدر ہے اور معنی قوت و شدت کے ہیں اسی سے تائید بمعنی تقویت ہے، یہاں دینی قوت اور صلاحیت مراد ہے۔
کفار کی تکذ یب وا ستہز اء سے آ نحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو جو صدمہ ہوتا تھا، اسے دور کرکے تسلی دینے کے لئے عموماً اللہ تعالیٰ نے پچھلے انبیاء علیہم الالسما کے واقعات سنائے ہیں، چناچہ یہاں بھی آپ کو صبر کی تلقین فرما کر بعض انبیاء (علیہم السلام) کے واقعات ذکر کئے گئے ہیں جن میں سے پہلا واقعہ حضرت داؤد (علیہ السلام) کا ہے۔
انا سخرنا الجبال معہٗ الخ اس آیت میں پہاڑوں اور پرندوں کے حضرت داؤد (علیہ السلام) کے ساتھ شریک تسبیح ہونے کا تذکرہ ہے، اس کی تشریح سورة انبیاء اور سورة سبا میں گزر چکی ہے، یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ پہاڑوں اور پرندوں کی تسبیح کو باری تعالیٰ نے یہاں اس طرح ذکر فرمایا ہے، کہ یہ حضرت داؤد (علیہ السلام) پر ایک خاص انعام تھا، سوال یہ ہے کہ یہ حضرت داؤد (علیہ السلام) کے لئے نعمت کیسے ہوئی ؟ پہاڑوں اور پرندوں کی تسبیح سے حضرت داؤد (علیہ السلام) کو کیا خاص فائدہ پہنچا ؟
اس کا ایک جواب تو یہ ہے کہ اس سے داؤد (علیہ السلام) کا معجزہ ظاہر ہوا، اور ظاہر ہے کہ یہ ایک بڑا انعام ہے، اس کے علاوہ حضرت تھانوی (رح) نے ایک لطیف توجیہ یہ فرمائی ہے کہ پہاڑوں اور پرندوں کی تسبیح سے ذکر و شغل کا ایک خاص کیف پیدا ہوتا تھا، جس سے عبادت میں نشاط اور تازگی اور ہمت پیدا ہوتی ہے، اجتماعی ذکر کا ایک فائدہ یہ بھی ہے کہ ذکر کی برکتوں کا ایک دوسرے پر انعکاس ہوتا ہے۔
واٰتینٰہُ الحکمۃ وفصل الخطاب ” حکمت “ سے مراد دانائی ہے یعنی ہم نے داؤد (علیہ السلام) کو عقل و فہم کی دولت بخشی تھی اور بعض حضرات نے حکمت سے نبوت مراد لی ہے، فصل الخطاب کی مختلف تفسیریں بیان کی گئی ہیں، بعض نے کہا ہے کہ اس سے مراد زور بیان اور قوت خطاب ہے، کہا جاتا ہے کہ خطبوں میں حمد و صلوٰۃ کے بعد ” امابعد “ کا کلمہ سب سے پہلے حضرت داؤد (علیہ السلام) نے استعمال فرمایا تھا اور بعض حضرات نے فصل خطاب سے بہترین قوت فیصلہ مراد لی ہے، درحقیقت ان تمام الفاظ میں کوئی تضاد نہیں ہے۔
ھل اتک نبؤا الخصم الخ ” محراب “ سے مراد خلوت کانہ ہے، جس میں حضرت داؤد (علیہ السلام) یکسوئی کے ساتھ تنہائی میں عبادت کیا کرتے تھے، دروازے پر پہرے دار ہوتے تھے تاکہ کوئی امدر آکر عبادت میں مخل نہ ہو، مگر دو جھگڑا کرنے والے بجائے دروازہ سے آنے کے دیوار پھاند کر عقب سے اندر داخل ہوگئے، جس کی وجہ سے حضرت داؤد (علیہ السلام) کو ایک گونہ خوف محسوس ہوا، خوف کی وجہ ظاہر ہے کہ دروازہ سے آنے کے بجائے عقب سے دیوار پھاند کر اندر آئے، دوسری بات یہ ہے کہ ایسی نازیبا نامناسب حرکت کرتے ہوئے بادشاہ وقت سے بھی خوف محسوس نہیں کیا۔
طبعی خوف نبوت کے منافی نہیں : ظاہری اسباب کے مطابق خوف والی چیز سے خوف کھانا انسانی طبیعت کا فطری تقاضہ ہے یہ نہ منصب نبوت کے خلاف ہے اور نہ توحید کے منافی جو خوف منصب نبوت و توحید کے منافی ہے وہ، وہ خوف ہے جو ماورائے اسباب ہو، اس کو یوں بھی کہا جاسکتا ہے ایک ہوتا ہے خوف اور ایک ہوتی ہے خشیت، خوف نبوت و توحید کے منافی نہیں ہے البتہ خشیت توحید و رسالت کے منافی ہے، آنے والوں نے تسلی دی اور عرض کیا گھبرانے کی ضرورت نہیں ہے، ہمارے درمیان ایک جھگڑا ہے ہم آپ سے فیصلہ کرانے آئے ہیں، آپ ہمارے درمیان حق کے ساتھ فیصلہ فرمائیں اور راہ راست کی جانب ہماری راہنمائی بھی فرمائیں میرے اور میرے اس بھائی کے درمیان مختلف فیہ معاملہ یہ ہے کہ میرے پاس ایک دنبی ہے اور اس کے پاس ننانوے دنبیاں ہیں، یہ مجھے اس بات پر مجبور کرتا ہے کہ میں اپنی دنبی بھی اس کو دیدوں اور گفتگو میں یہ مجھ پر غالب آگیا ہے یعنی جس طرح اس کے پاس مال زیادہ ہے، زبان کے اعتبار سے بھی مجھ سے زیادہ تیز ہے اور اسی تیزی و طراری کی وجہ سے لوگوں کو قائل کرلیتا ہے، اور اپنی بات منوا لیتا ہے، اس نے مجھے بھی دبا لیا ہے۔
قال لقد۔۔۔۔ بعَاجِہٖ داؤد (علیہ السلام) نے فرمایا اس نے جو تیری دنبی اپنی دنبیوں میں ملانے کی درخواست کی ہے یہ واقعی تجھ پر ظلم ہے، یہاں دو باتیں قابل غور ہیں ایک تو یہ کہ حضرت داؤد (علیہ السلام) نے یہ فقرہ، صرف مدعی کی بات سن کر ارشاد فرمایا مدعا علیہ کا بیان نہیں سنا، بعض حضرات نے فرمایا یہی وہ لغزش ہے جس پر آپ نے استغفار فرمایا، مطلب یہ ہے کہ اول آپ کو دونوں فریقوں کی بات سننی چاہیے تھی اس کے بعد آپ کوئی بات فرماتے، مگر آپ نے ابھی مدعا علیہ کی کوئی بات نہیں سنی اور مدعی کی حمایت میں اپنا رخ ظاہر فرما دیا جو کہ عدل و انصاف کے تقاضوں کے منافی ہے۔
نیز یہ بھی ممکن ہے کہ آنے والوں نے حضرت داؤد (علیہ السلام) سے عدالتی فیصلہ طلب کیا ہو لیکن نہ وہ وقت عدالت کا تھا اور نہ وہ قضا کی مجلس تھی، اس لئے حضرت داؤد (علیہ السلام) نے قاضی کی حیثیت سے نہیں بلکہ مفتی کی حیثیت سے فتویٰ دیا اور مفتی کا کام واقعہ کی تحقیق کرنا نہیں ہوتا بلکہ سوال کے مطابق جواب دینا ہوتا ہے۔ دوسری غور طلب بات یہ ہے کہ حضرت داؤد (علیہ السلام) نے ایک شخص کے محض دنبی مانگنے کو ظلم قرار دیدیا حالانکہ بظاہر کسی سے کوئی چیز مانگنا کوئی جرم نہیں ہے، وجہ یہ ہے کہ صورت سوال کی تھی، لیکن جس قولی اور عملی دباؤ کے ساتھ یہ سوال کیا جارہا تھا، اس کی موجودگی میں اس کی حیثیت غصب کی سی تھی، اسی لئے آپ نے اس سوال کو ظلم فرمایا۔
فاستغفر ربہ وخرَّ راکعًا واناب یعنی حضرت داؤد (علیہ السلام) نے اپنے رب سے استغفار کیا اور سجدہ میں گرگئے، حضرت داؤد (علیہ السلام) کا یہ کونسا کام تھا جس پر انہیں کوتاہی کا احساس ہوا، اور اظہار ندامت کرنی پڑی، اور اللہ نے ان کو معاف فرمادیا، نہ قرآن مجید میں اس اجمال کی تفصیل ہے اور نہ کسی مستند حدیث میں اس کی کوئی وضاحت اس لئے بعض مفسرین نے تو اسرائیلی روایات کو بنیاد بنا کر ایسی باتیں بھی لکھ دی ہیں جو ایک نبی کی شان اور عصمت انبیاء کے خلاف ہیں، البتہ بعض مفسرین مثلاً ابن کثیر نے یہ موقف اختیار کیا کہ جب قرآن و حدیث اس معاملہ میں خاموش ہیں تو ہمیں بھی اس کی تفصیلات کی کرید میں پڑنے کی ضرورت نہیں ہے۔
پھر مفسرین کا ایک گروہ وہ ہے جو اس واقعہ کی بعض جزئیات بیان کرتا ہے کہ قرآن کے اجمال کی کچھ توضیح ہوجائے، تاہم تمام مفسرین بھی کسی ایک بیان پر متفق نہیں ہیں، بعض کہتے ہیں کہ حضرت داؤد (علیہ السلام) نے اپنے فوجی افسر کو حکم دیا تھا کہ وہ اپنی بیوی کو طلاق دیدے، اور یہ اس زمانہ کے عرف میں کوئی معیوب بات نہیں تھی، حضرت داؤد (علیہ السلام) کو اس عورت کی خوبیوں اور کمالات کا علم ہوا تھا جس کی وجہ سے ان کے اندر یہ خواہش پیدا ہوئی کہ اس عورت کو تو ملکہ ہونا چاہیے، نہ کہ ایک عام سی عورت تاکہ اس کی خوبیوں اور کمالات سے پورا ملک فیضیاب ہو سکے، یہ خواہش خواہ کتنے ہی اچھے جذبے کی بنیاد پر ہو لیکن ایک تو متعدد بیویوں کی موجودگی میں یہ نامناسب سی بات لگتی ہے، دوسرے بادشاہ وقت کی جانب سے اس کے اظہار میں جبر کا پہلو بھی شامل ہوجاتا ہے، اس لئے حضرت داؤد (علیہ السلام) کو ایک تمثیلی واقعہ سے اس کے نامناسب ہونے کا احساس دلایا گیا، اور حضرت داؤد (علیہ السلام) کو فی الواقع اس پر تنبہ ہو بھی گیا۔
بعض حضرات کا کہنا ہے کہ آنے والے دو فرشتے تھے، جو ایک فرضی مقدمہ لے کر حضرت داؤد (علیہ السلام) کی خدمت میں حاضر ہوئے تھے، داؤد (علیہ السلام) سے کوتاہی یہ ہوئی کہ مدعی کا بیان سن کر ہی اپنی رائے کا اظہار کردیا اور مدعا علیہ کی بات سننے کی ضرورت محسوس نہیں کی، اللہ تعالیٰ نے رفع درجات کے لئے اس آزمائش میں انہیں ڈالا، اس غلطی کا احساس ہوتے ہی وہ سمجھ گئے کہ یہ آزمائش تھی جو اللہ کی طرف سے ان پر آئی، اور فوراً ہی بارگاہ الٰہی میں جھک گئے۔
بعض حضرات کہتے ہیں کہ آنے والے فرشتے نہیں تھے بلکہ انسان ہی تھے اور یہ کوئی فرضی واقعہ نہیں، ایک حقیقی جھگڑا تھا، جس کے فیصلے کے لئے وہ آئے تھے، اور اس طرح ان کی صبر و تحمل کا امتحان لیا گیا، کیونکہ اس واقعہ میں ناگواری اور اشتعال طبع کے کئی پہلو تھے، ایک تو بلا اجازت بجائے دروازے کے دیوار پھاند کر عقب سے آنا، دوسرے عبادت کے مخصوص اوقات میں آکر مخل ہونا، تیسرا ان کا طرز تکلم بھی ان کی حاکمانہ شان کے خلاف تھا، مثلاً یہ کہ زیادتیؔ نہ کرنا، انصابؔ سے فیصلہ کرنا وغیرہ وغیرہ، لیکن اللہ نے آپ کو توفیق دی کہ آپ مشتعل نہیں ہوئے، اور کمال صبر و تحمل کا مظاہرہ فرمایا، لیکن دل میں طبعی ناگواری کا جو ہلکا سا احساس پیدا ہوا، اس کو بھی اپنی کوتاہی پر محمول کیا، یعنی یہ اللہ کی طرف سے آزمائش تھی اس لئے یہ طبعی انقباض بھی نہیں ہونا چاہیے تھا، جس پر حضرت داؤد (علیہ السلام) نے توبہ و استغفار کی۔
خلاصۂ کلام : محقق اور محتاط مفسرین نے ان آیات کی تشریح میں یہ فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے خاص حکمت و مصلحت سے اپنے جلیل القدر پیغمبر کی اس لغزش و آزمائش کی تفصیل کو صیغۂ راز میں رکھا ہے، ہمیں بھی اس کے پیچھے نہیں پڑنا چاہیے اور جنتی بات قرآن میں مذکور ہے صرف اسی پر ایمان رکھنا چاہیے، حافظ ابن کثیر جیسے محقق و محتاط مفسر نے اپنی تفسیر میں اسی پر عمل کرتے ہوئے واقعہ کی تفصیل سے خاموشی اختیار فرمائی ہے، اور کوئی شک نہیں کہ یہ سب سے محتاط اور سلامتی کا راستہ ہے اسی لئے علماء سلف سے منقول ہے (ابھمُوا ما ابھمہُ اللہُ ) یعنی اللہ نے جس کو مبہم رکھا ہے تم بھی اس کو مبہم ہی رکھو، اسی میں حکمت و مصلحت ہے، اور یہ ظاہر ہے کہ اس سے مراد ایسے معاملات کا ابہام ہے جن سے ہمارے عمل اور حلال و حرام کا تعلق نہ ہو، اور جن معاملات سے مسلمانوں کے عمل کا تعلق ہے اس ابہام کو خود رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے قول و فعل سے رفع کردیا۔
البتہ بعض مفسرین نے روایات و آثار کی روشنی میں اس امتحان و آزمائش کو متعین کرنے کی کوشش کی ہے اس سلسلہ میں ایک عامیانہ روایت تو یہ مشہور ہے کہ حضرت داؤد (علیہ السلام) کی نظر ایک مرتبہ سپہ سالار، اورِیا کی بیوی پر پڑگئی تھی، جس سے ان کے دل میں اس سے نکاح کرنے کی خواہش پیدا ہوئی، اور حضرت داؤد (علیہ السلام) نے اور یا کو قتل کرانے کی غرض سے ایک خطرناک سفر پر روانہ کردیا، جس میں وہ قتل ہوگیا، اس کے بعد داؤد (علیہ السلام) نے اس کی بیوی سے شادی کرلی، اس عمل پر تنبیہ کرنے کے لئے یہ دو فرشتے انسانی شکل میں بھیجے گئے۔
لیکن یہ روایات بلاشبہ ان خرافات میں سے ہیں جو یہودیوں کے زیر اثر مسلمانوں میں پھیل گئی تھیں، یہ روایات دراصل بائبل کی کتاب سموئیل باب دوم کے صفحہ نمبر (11) سے ماخوذ ہیں، فرق صرف اتنا ہے کہ بائبل میں کھلم کھلا حضرت داؤد (علیہ السلام) پر یہ الزام لگایا گیا ہے کہ (نعوذ باللہ) حضرت داؤد (علیہ السلام) نے اور یا کی بیوی سے نکاح کرنے سے پہلے ہی زنا کا ارتکاب کیا تھا، ان تفسیری روایات میں زنا کے جز کو حذف کردیا گیا ہے۔
سجدۂ تلاوت کے چند مسائل : فاستغفر ربَّہٗ وخَرَّ راکِعًا وانابَ اس آیت میں ” رکوع “ کا لفظ استعمال ہوا ہے، اس کے لغوی معنی جھکنے کے ہیں، اکثر مفسرین کے نزدیک اس سے سجدہ مراد ہے، احناف کے نزدیک اس آیت کی تلاوت سے سجدہ واجب ہوجاتا ہے
رکوع سے سجدۂ تلاوت ادا ہوجاتا ہے : امام ابوحنیفہ (رح) نے اس آیت سے یہ استدلال کیا ہے کہ اگر نماز میں آیت سجدہ تلاوت کی گئی ہے تو رکوع میں سجدہ کی نیت کرلینے سے سجدۂ تلاوت ادا ہوجاتا ہے، اس لئے کہ یہاں باری تعالیٰ نے سجدہ کے لئے رکوع کا لفظ استعمال فرمایا ہے، جو اس بات کی دلیل ہے کہ رکوع بھی سجدہ کے قائم مقام ہوسکتا ہے، لیکن اس سلسلہ میں چند ضروری مسائل یار رکھنے چاہئیں۔
مسئلہ : نماز کے فرض رکوع کے ذریعہ سجدہ صرف اس صورت میں ادا ہوسکتا ہے کہ جب آیت سجدہ نماز میں پڑھی گئی ہو، نماز سے باہر آیت سجدہ تلاوت کی ہوئی کا سجدہ نماز میں ادا نہیں ہوسکتا، اسلئے کہ رکوع صرف نماز ہی میں عبادت ہے، نماز سے باہر نہ مشروع ہے اور نہ عبادت۔ (بدائع، معارف)
مسئلہ : رکوع میں سجدہ صرف اسی وقت ادا ہوگا جب کہ آیت سجدہ تلاوت کرنے کے فوراً بعد یا زیادہ سے زیادہ دو تین آیتیں مزید تلاوت کرکے رکوع کرلیا ہو، اور اگر آیت سجدہ تلاوت کرنے کے بعد طویل قراءت کی ہو تو رکوع میں سجدۂ تلاوت ادا نہ ہوگا۔
مسئلہ : اگر رکوع میں سجدۂ تلاوت ادا کرنے کا ارادہ ہو تو رکوع میں جاتے وقت ہی سجدۂ تلاوت کی نیت کرلینی چاہیے، ورنہ اس رکوع سے سجدہ تلاوت ادا نہ ہوگا۔
مسئلہ : افضل بہرحال یہی ہے کہ سجدۂ تلاوت کو نماز کے فرض رکوع میں ادا کرنے کے بجائے مستقل سجدہ سے ادا کیا جائے، اور سجدے سے اٹھ کر ایک دو آیتیں تلاوت کرکے پھر سجدہ کرے۔ (بدائع، معارف)
فائدہ : اس واقعہ سے متعلق ایک اور بات قابل ذکر ہے کہ حضرت داؤد (علیہ السلام) کی لغزش خواہ کچھ رہی ہو، اللہ تعالیٰ براہ راست وحی کے ذریعہ آپ کو اس پر متنبہ فرما سکتے تھے، لیکن اس کے بجائے ایک مقدمہ بھیج کر تنبیہ کے لئے ایک خاص طریقہ کیوں اختیار کیا گیا ؟ درحقیقت اس طریقہ پر غور کرنے سے امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ انجام دینے والوں کو یہ ہدایت کی گئی ہے کہ کسی شخص کو اس کی غلطی پر تنبیہ کے لئے حکمت سے کام لینے کی ضرورت ہے، اور اس کیلئے ایسا طریقہ اختیار کرنا زیادہ بہتر ہے جس سے متعلقہ شخص خود بخود اپنی غلطی کو محسوس کرلے اور اسے زبانی تنبیہ کی ضرورت پیش نہ آئے، اور اس کے لئے ایسی تمثیلات سے کام لینا زیادہ مؤثر ہوتا ہے، جس سے کسی کی دل آزاری بھی نہ ہو، اور ضروری بات بھی واضح ہوجائے۔
10 Tafsir as-Saadi
﴿صَيْحَةً وَاحِدَةً مَّا لَهَا مِن فَوَاقٍ﴾ ” صرف ایک زور کی آواز کا جس میں کوئی وقفہ نہیں ہوگا۔‘‘ یعنی اب اس عذاب کو روکنا اور اس کا واپس ہونا ممکن نہیں۔ اگر یہ اپنے شرک اور انھی اعمال پر قائم رہے تو یہ چنگھاڑ انہیں ہلاک کر کے ان کا استیصال کر ڈالے گی۔
11 Mufti Taqi Usmani
aur ( makkah kay ) yeh log ( bhi ) bus aik aesi chinghaarr ka intizar ker rahey hain jiss mein koi waqfa nahi hoga .