ص آية ۶۵
قُلْ اِنَّمَاۤ اَنَاۡ مُنْذِرٌ ۖ وَّمَا مِنْ اِلٰهٍ اِلَّا اللّٰهُ الْوَاحِدُ الْقَهَّارُ
طاہر القادری:
فرما دیجئے: میں تو صرف ڈر سنانے والا ہوں، اور اﷲ کے سوا کوئی معبود نہیں جو یکتا سب پر غالب ہے،
English Sahih:
Say, [O Muhammad], "I am only a warner, and there is not any deity except Allah, the One, the Prevailing,
1 Abul A'ala Maududi
(اے نبیؐ) اِن سے کہو، "میں تو بس خبردار کر دینے والا ہوں کوئی حقیقی معبود نہیں مگر اللہ، جو یکتا ہے، سب پر غالب
2 Ahmed Raza Khan
تم فرماؤ میں ڈر سنانے والا ہی ہوں اور معبود کوئی نہیں مگر ایک اللہ سب پر غالب،
3 Ahmed Ali
کہہ دو میں تو ایک ڈرانے والا ہوں اور الله کے سوا کوئی اور معبود نہیں ہے ایک ہے بڑا غالب
4 Ahsanul Bayan
کہہ دیجئے! کہ میں تو صرف خبردار کرنے والا ہوں (١) اور بجز اللہ واحد غالب کے کوئی لائق عبادت نہیں۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
کہہ دو کہ میں تو صرف ہدایت کرنے والا ہوں۔ اور خدائے یکتا اور غالب کے سوا کوئی معبود نہیں
6 Muhammad Junagarhi
کہہ دیجئے! کہ میں تو صرف خبردار کرنے واﻻ ہوں اور بجز اللہ واحد غالب کے اور کوئی ﻻئق عبادت نہیں
7 Muhammad Hussain Najafi
آپ کہہ دیجئے! کہ میں تو صرف (عذابِ خدا سے) ایک ڈرانے والا ہوں اور اللہ کے سوا جو یکتا اور غالب ہے اور کوئی خدا نہیں ہے۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
آپ کہہ دیجئے کہ میں تو صرف ڈرانے والا ہوں اور خدائے واحد و قہار کے علاوہ کوئی دوسرا خدا نہیں ہے
9 Tafsir Jalalayn
کہہ دو کہ میں تو صرف ہدایت کرنے والا ہوں اور خدائے یکتا اور غالب کے سوا کوئی معبود نہیں
آیت نمبر 65 تا 88
ترجمہ : اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کفار مکہ سے کہہ دیجئے میں تو صرف آگاہ کرنے والا آگ سے ڈرانے والا ہوں اپنی مخلوق پر غالب واحد کے سوا کوئی لائق عبادت نہیں جو پروردگار ہے آسمانوں اور زمین کا اور جو کچھ ان کے درمیان میں ہے، جو غالب ہے اپنے امر پر اور بخشنے والا ہے اپنے اولیاء کو ان سے کہہ دیجئے یہ بہت بڑی خبر ہے جس سے تم اعراض کر رہے ہو یعنی قرآن جس کی میں نے تم کو خبر دی، اور میں اس میں تمہارے لئے وہ خبر لایا ہوں جس کا علم بجز وحی کے نہیں ہوسکتا اور وہ خبر مَا کَانَ لِیَ من علمٍ بالملأ الا علیٰ اذ یختصمونَ ہے، مجھے ملاء اعلیٰ یعنی عالم ملائکہ کا علم نہیں تھا جبکہ فرشتے شان آدم میں گفتگو کر رہے تھے جبکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا تھا کہ میں زمین میں اپنا خلیفہ بنانا چاہتا ہوں میری طرف فقط یہی وحی کی جاتی ہے کہ میں تو صرف صاف صاف آگاہ کرنے والا ہوں، اس وقت کا تذکرہ کیجئے جب آپ کے رب نے فرشتوں سے ارشاد فرمایا کہ میں مٹی سے ایک انسان پیدا کرنے والا ہوں، اور وہ آدم ہیں سو جب میں اسے ٹھیک ٹھاک کرلوں یعنی مکمل کرلوں اور اس میں اپنی روح جاری کر دوں اور وہ زندہ ہوجائے، اور روح کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف یہ آدم کے شرف کے طور پر ہے اور روح ایک لطیف جسم ہے، روح کے انسان میں سرایت کرنے کی وجہ سے انسان زندہ ہوجاتا ہے تو تم سب اس کے سامنے سجدہ میں گرپڑنا (یعنی) جھک کر سلامی کا سجدہ (کرنا) چناچہ تمام فرشتوں نے سجدہ کیا اس میں دو تاکید ہیں مگر ابلیس نے نہ کیا، اور وہ جنات کا جد اعلیٰ ہے، فرشتوں کے درمیان رہتا تھا، اس نے تکبر کیا اور وہ اللہ کے علم میں کافروں میں سے تھا (اللہ تعالیٰ نے) فرمایا اے ابلیس تجھے اس کو سجدہ کرنے سے کس نے روکا جسے میں اپنے دست قدرت سے بلاواسطہ پیدا کیا، میں نے اس کی تخلیق کی کفالت کی اور یہ آدم کا (دوسرا) اعزاز ہے، ورنہ تو ہر مخلوق کی کفالت اللہ ہی کرتا ہے، کیا تو کچھ گھمنڈ میں آگیا ؟ یا تو بڑے مرتبہ والوں میں سے ہے ؟ یعنی تکبر کرنے والوں میں سے ہے، سو تو نے متکبرین میں سے ہونے کی وجہ سے سجدہ کرنے سے انکار کیا، تو شیطان نے جواب دیا میں اس سے بہتر ہوں اس لئے کہ تو نے مجھے آگ سے بنایا اور اس کو مٹی سے بنایا، ارشاد ہوا تو یہاں سے جنت سے اور کہا گیا ہے آسمانوں سے نکل جا تو مردود ہوا، اور تیرے اوپر یوم جزاء تک میری پھٹکار ہے کہنے لگا اے میرے رب لوگوں کے اٹھ کھڑے ہونے کے دن تک مجھے مہلت دیدیجئے، اللہ تعالیٰ نے فرمایا تو مہلت والوں میں سے ہے متعین وقت کے دن تک پہلا صور پھونکے جانے کے وقت تک کہنے لگا تیری عزت کی قسم میں ان سب کو یقیناً بہکا دوں گا بجز تیرے ان بندوں کے جو چیدہ یعنی مومنین میں سے ہوں فرمایا سچ تو یہ ہے اور میں سچ ہی کہا کرتا ہوں، دونوں کے نصب کے ساتھ اور اول کے رفع اور ثانی کے نصب کے ساتھ، اس کا نصب بعد والے فعل کی وجہ سے ہوگا، اور اول کا نصب کہا گیا ہے کہ فعل مذکور کی وجہ سے ہے، اور کہا گیا ہے کہ مصدریت کی وجہ سے ہے اَی اُحِقُّ الحقَّ اور کہا گیا ہے کہ صرف قسم کے حذف کی وجہ سے (منصوب) ہے اور رفع اس لئے ہے کہ وہ مبتداء محذوف الخبر ہے ای فالحقُ منّی اور کہا گیا ہے فالحق قسمی اور جواب قسم لاملئَنَ جھنَم الخ ہے میں جہنم کو تجھ سے اور تیری ذریت سے بھر دوں گا اور ان تمام لوگوں سے جو تیری اتباع کریں گے، کہہ دیجئے کہ میں اس پیغام رسانی پر تم سے کوئی صلہ نہیں چاہتا اور نہ میں قرآن کے بارے میں تکلف کرنے والوں میں سے ہوں یعنی اپنی طرف سے (افتراءً ) کوئی بات کہنے والوں میں سے نہیں ہوں، یہ یعنی قرآن تو تمام جہان والوں یعنی جن و انس ذوی العقول کے لئے نصیحت ہے نہ کہ ملائکہ کیلئے اے کفار مکہ ! اس خبر کی صداقت کچھ ہی دیر بعد یعنی قیامت کے دن سمجھ لوگے اور علِمَ بمعنی عَرَفَ ہے، اور اس کے شروع میں لام قسم مقدر کا ہے، ای واللہ (لتَعْلَمُنَّ ) ۔
تحقیق و ترکیب و تسہیل و تفسیری فوائد
قل انما انا مُنذِرٌ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نذیر بھی ہیں اور بشیر بھی، حالانکہ یہاں آپ کی صفت نذیر میں حصر کیا گیا ہے، اس کی کیا وجہ ہے ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ اس وقت چونکہ مخاطب مشرکین ہیں اور ان کے مناسب آپ کا نذیر ہونا ہے، اسی لئے یہاں صفت نذیر کو خاص طور سے بیان کیا گیا ہے، انَّما انا مُنذِرٌ میں حصر اضافی ہے نہ کہ حقیقی ای انَّما انا منذر لاساحرٌ ولا شاعرٌ ولا کاھنٌ وغیر ذٰلک اس حصر سے ان صفات کی نفی کرنا مقصود ہے جن کو کفار آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کیلئے ثابت کرتے تھے نہ کہ انذار کے علاوہ تمام صفات کی۔
قولہ : انَّما انا مُنذِرٌ سے العَزِیْزُ الْغَفَّارُ تک قُل کا مقولہ ہے اس مقولہ میں اللہ تبارک و تعالیٰ کے پانچ اوصاف بیان کئے گئے جو سب کے سب توحید باری تعالیٰ پر دلالت کرتے ہیں (1) الواحد (2) القھار (3) رب السمٰوات والارض وما بینھما (4) العزیز (5) الغفار۔
قولہ : قل ھو نبأ عظیم۔ قُل کا تکرار اس بات کی طرف اشارہ کرنے کے لئے ہے کہ مامور بہ جلیل القدر اور عظیم الشان امور میں سے ہے اس کی طرف امراً وایتماراً توجہ ضروری ہے۔
قولہ : ای القرآن یہ ھو نبأ عظیم میں ھُو کی تفسیر ہے، یعنی قرآن عظیم الشان کثیر الفائدہ خبر ہے جس کی میں نے تم کو خبر دی ہے اور جس میں میں ایسی خبر لایا ہوں کہ جو وحی کے بغیر معلوم نہیں ہوسکتی، لہٰذا اس سے میرے دعوائے رسالت کی تصدیق ہوتی ہے۔
قولہ : وھو۔ (ما کان لِی من علم الخ) مفسر علام نے ھو کا مرجع ما کان لی من علم الخ کو قرار دیا ہے مگر یہ درست نہیں ہے، بلکہ اس کا مرجع انِّی جاعلٌ فی الارض خلیفۃٌ الخ ہے، البتہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ ما کان لی من علمٍ بالملأ الا علیٰ کو ما لا یعلم کی تمہید کے طور پر ذکر کیا گیا ہے، مطلب یہ ہے کہ وہ خبر کہ جس کا علم وحی کے بغیر نہیں ہوسکتا وہ اللہ کا وہ فرمان ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے ملأ اعلیٰ میں فرشتوں سے فرمایا تھا، انِّی جاعلٌ فی الارض خلیفۃٌ اور اس پر فرشتوں کا یہ جواب اتجعل فیھا من یُّفسدُ فیھَا اسی طرح اللہ تبارک و تعالیٰ کے ارشاد قال یا ابلیسُ ما منعک ان تسجُد لما خلقت بیدی کے جواب میں ابلیس کا انا خیرٌ منہ خلقتنِی من تارٍ وخلقتَہٗ من طینٍ کہنا مذکورہ بالا گفتگو اور سوال و جواب وہ گفتگو ہے جو عالم بالا میں اللہ تبارک و تعالیٰ اور فرشتوں کے درمیان ہوئی تھی، اس نجی اور ملأ اعلیٰ کی گفتگو کی خبر دینا وحی کے سوا نہیں ہوسکتا، جو کہ آپ کی نبوت کی صداقت کا ناقابل تردید ثبوت ہے۔ (صاوی، جمل، فتح القدیر شوکانی)
قولہ : الآن اس کلمہ کے اضافہ سے مفسر علام کا مقصد ایک سوال کا جواب ہے، سوال یہ ہے کہ مَن العالینَ کے معنی من المتکبرین کے ہیں اور استکبرتَ کے معنی بھی تکبر کے ہیں، لہٰذا تکرار لازم آیا ہے، جواب کا حاصل یہ ہے کہ اتَرَکتَ السُّجُودَ لاستکبارکَ الحادث ام استکبارک القدیم المستمر مطلب یہ کہ آدم (علیہ السلام) کو سجدہ کرنے سے انکار تیرے جبلی اور قدیم تکبر کی وجہ سے ہے یا تکبر حادث جدید کی وجہ سے، لہٰذا تکرار نہیں ہے۔
سوال : رجیم، مطرودٌ کے معنی میں ہے جیسا کہ شارح نے صراحت کی ہے اور آگے فرمایا گیا اِنَّ علیکَ لعنَتِی اِلیٰ یومِ الدّینِ لعنت کے معنی بھی طرد کے ہیں لہٰذا یہاں بھی تکرار لازم آتا ہے۔
جواب : رجیم کے معنی طرد من الجنۃ او السماء ہیں اور لعنت کے معنی طرد من الرحمۃ کے ہیں، لہٰذا تکرار نہیں ہے۔
قولہ ؛ قال فالحقُّ والحقَّ اقولُ سابق جملوں کے مانند یہ جملہ بھی مستانفہ ہے اور فاء استینافیہ ہے مفسر علام نے مذکورہ جملے کی دو ترکیبوں کی طرف اشارہ کیا ہے (1) الحق دونوں جگہ منصوب (2) اول مرفوع، ثانی منصوب، ثانی کا ناصب اقول فعل مؤخر، اور اول کا ناصب بعض نے کہا ہے اس کا ناصب بھی اقول فعل مؤخر ہی ہے، اور بعض نے کہا مصدریت کی وجہ سے منصوب ہے ای اُحِقُّ اور بعض نے کہا ہے کہ حرف قسم کے حذف کی وجہ سے منصوب ہے ای اقسم بالحق فعل اور حرف قسم دونوں کو حذف کردیا جس کی وجہ سے حق منصوب ہوگیا، خلاصہ یہ کہ نصب ثانی کی صرف ایک ہی وجہ ہے اور وہ ہے (اقول) فعل مؤخر اور الحقَّ اول کے منصوب ہونے کی تین وجہ ہیں (1) ایک تو فعل مؤخر یعنی (اقول) کی وجہ سے (2) دوسرے حرف قسم کے حذف کی وجہ سے (3) تیسرے مصدریت کی وجہ سے اول کے رفع کی دو وجہیں ہیں (1) مبتداء ہونے کی وجہ سے مرفوع ای الحق منی (2) خبر ہونے کی وجہ سے ای انا الحقُّ قسم کی صورت میں جواب قسم لأملانَّ جھنم ہوگا۔
جمہور نے الحقَّ کو دونوں جگہ منصوب پڑھا ہے، نصب کی وجہ مقسم بہٖ سے حرف خافض کا حذف ہے، تقدیر عبارت یہ ہے اقسم بالحق فعل اور حرف جر دونوں کو حذف کردیا اس وجہ سے الحقَّ منصوب ہوگیا یعنی منصوب بنزع الخافض بعض حضرات نے فعل اغراء (آمادہ کرنا) کی وجہ سے منصوب پڑھا ہے، ای الزِمُوا الحَقَّ الزِمُوا الحقَّ یا دونوں مصدریت کی وجہ سے منصوب ہیں، مصدر سابق جملہ لاملئَنَّ کی تاکید کے لئے ہے ای اُحقُّ الحقَّ اور اعمش واعصم وغیرہ نے اول کو رفع اور ثانی کو نصب پڑھا ہے، اول کا رفع مبتداء ہونے کی صورت میں خبر یا تو محذوف ہوگی جیسے فالحقُّ منِّی یا مذکور ہوگی اور وہ لأملانَّ جھنَّمَ ہے یا فالحقُّ مبتداء محذوف کی خبر ہونے کی وجہ سے مرفوع ہوگا اور وہ مبتداء أنا ہے مثلاً اور ثانی کا نصب بعد میں مذکور (اقولُ ) فعل کی وجہ سے ہوگا، ای أنا اقول الحقَّ اس صورت میں فعل کی تکرار تاکید کے لئے ہوگی، اور فراء نے فالحقُّ کو حقًّا مصدر کے معنی میں ہونے کی وجہ سے منصوب پڑھا ہے، ای حقًّا لأملانَّ جھنم۔ (فتح القدیر شوکانی ملخصاً )
قولہ : المتقولین، تقول (تفعُّل) بناؤٹی باتیں کرنا، دروغ گوئی سے کام لینا۔
قولہ : دون الملائکۃ قرآن تمام عالموں کے لئے نصیحت ہے عالم میں انس، جن، ملائکہ سب داخل ہیں، مگر یہاں ملائکہ کو دون الملائکۃ کہہ کر عالم سے خارج کردیا، اس لئے کہ قرآن کو اہل عالم کیلئے ذکر اور نصیحت کہا گیا ہے، اور ذکر و موعظت اور تخویف جن و انس کے لئے تو مناسب ہے مگر ملائکہ کے مناسب نہیں ہے۔
قولہ : عَلِمَ بمعنی عرف مفسر (رح) تعالیٰ کا مقصد اس عبارت سے ایک سوال مقدر کا جواب دینا ہے، سوال یہ ہے کہ علم متعدی بدو مفعول ہوتا ہے، یہاں متعدی بیک مفعول ہے اسلئے کہ تعلَمُنَّ کا صرف ایک مفعول ہے اور وہ نَبَأ ہے جواب کا ما حصل یہ ہے کہ عَلِمَ بمعنی عَرفَ ہے، ولتَعْلَمُنَّ میں لام جواب قسم کا ہے اور قسم واللہ محذوف ہے بعض حضرات نے کہا ہے کہ علم اپنے باب پر ہے یعنی متعدی بدو مفعول ہے اور دوسرا مفعول بعد حینٍ ہے۔
تفسیر و تشریح
قل انما انا منذر (الآیۃ) یعنی میں وہ نہیں ہوں جو تم گمان کرتے ہو، یعنی ساحر، کاہن، شاعر، وغیرہ نہیں ہوں بلکہ میں تو تمہیں اللہ کے عذاب اور اس کے عتاب سے ڈرانے والا ہوں، اور میں تمہیں جس عذاب اخروی سے ڈرا رہا ہوں اور توحید کی دعوت دے رہا ہوں یہ بڑی عظیم خبر ہے، اس سے اعراض و غفلت نہ برتو، اس پر تو بڑی سنجیدگی اور متانت سے غور کرنے کی ضرورت ہے
ما کان۔۔۔۔ یختصمون ملأ اعلیٰ سے مراد عالم ملائکہ ہے یعنی مجھے عالم بالا کی کچھ بھی خبر نہ تھی، جبکہ وہ گفتگو کر رہے تھے، یعنی یہ بات میری رسالت کی واضح دلیل ہے کہ میں تمہیں عالم بالا کی ایسی باتیں بیان کرتا ہوں جو وحی کے سوا کسی بھی ذریعہ سے معلوم نہیں ہوسکتیں، ان باتوں میں سے ایک تو وہ گفتگو ہے جو تخلیق آدم کے وقت اللہ تعالیٰ اور فرشتوں کے درمیان ہوئی تھی، جس کا تذکرہ سورة بقرہ میں آچکا ہے، فرشتوں نے کہا تھا اتجعَلُ فیھا من یُّفسدُ فیھا ویسفک الدماءَ کیا آپ زمین میں ایسے انسان کو پیدا کر رہے ہیں جو وہاں فساد برپا کرے گا اور خون ریزی مچائے گا، اس گفتگو کو یہاں ” اختصام “ کے لفظ سے تعبیر کیا گیا ہے۔
اذ قال۔۔۔۔ من طینٍ میں مٹی سے ایک بشر بنانے والا ہوں، بشر کو بشر اس لئے کہتے ہیں کہ اس کی مباشرت زمین کے ساتھ ہے یعنی زمین ہی سے اس کی پوری وابستگی ہے، وہ سب کچھ زمین ہی پر کرتا ہے اور آخر کار پیوند خاک ہوجاتا ہے، یا بشر کو بشر اس لئے کہتے ہیں کہ وہ ظاہر البشرہ ہوتا ہے۔ یہاں تخلیق آدم کا جو واقعہ ذکر کیا گیا ہے، اس سے اللہ تعالیٰ اور فرشتوں کی مذکورہ گفتگو کی طرف اشارہ کے ساتھ ساتھ اس بات کی طرف بھی توجہ دلائی گئی ہے کہ جس طرح ابلیس نے محض حسد وتکبر کی وجہ سے حضرت آدم (علیہ السلام) کو سجدہ کرنے سے انکار کردیا تھا، اسی طرح مشرکین عرب بھی حسد و تکر کی وجہ سے آپ کی بات نہیں مان رہے، اور جو انجام ابلیس کا ہوا وہی انجام ان کا بھی ہوسکتا ہے۔ (تفسیر ابن کثیر، معارف)
لما خلقت بیدیَّ حق تعالیٰ نے حضرت آدم (علیہ السلام) کے بارے میں فرمایا کہ میں نے انہیں اپنے ہاتھوں سے پیدا کیا جمہور کا اس بات پر اتفاق ہے کہ ہاتھوں سے مراد دست قدرت ہے نہ کہ انسانوں جیسے ہاتھ، اس لئے کہ اللہ تعالیٰ اعضاء اور جوارح سے پاک ہے اور عربی زبان میں یَدٌ کا لفظ قدرت کے معنی میں بکثرت استعمال ہوتا ہے، مثلاً ارشاد ہے بیدہٖ عُقدَۃُ النکاحِ یوں تو کائنات کی ہر شئ دست قدرت ہی سے پیدا ہوئی ہے، مگر آدم (علیہ السلام) کے اظہار شرف کیلئے اپنی طرف نسبت فرمائی ہے جیسے کعبہ کو بیت اللہ اور حضرت صالح (علیہ السلام) کی اونٹنی کو ناقۃ اللہ اور حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کا کلمۃ اللہ یا روح اللہ کہا گیا ہے، یہاں بھی حضرت آدم (علیہ السلام) کی فضیلت کرنے کے لئے آدم کی تخلیق کی نسبت اپنی طرف فرمائی ہے۔
وما انا من المتکلفین اور میں بناوٹ کرنے والوں میں سے نہیں ہوں کہ میں اپنی طرف سے گھڑ کر اللہ کی طرف ایسی بات منسوب کر دوں جو اس نے نہ کہی ہو، یا میں تمہیں ایسی بات کی طرف دعوت دوں کہ جس کا حکم اس نے مجھے نہ دیا ہو، میں تو کسی کمی بیشی کے بغیر اللہ کے احکام تم تک پہنچاتا ہوں، حضرت عبد اللہ بن مسعود (رض) فرماتے ہیں جس کو کسی بات کا علم نہ ہو اس کی بابت کہہ دینا چاہیے ” اللہ اعلم “ یہ کہنا بھی علم ہی ہے، اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے پیغمبر سے کہا کہہ دیجئے وما انا من المتکلفین۔ (ابن کثیر) ۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ تکلف و تصنع شرعاً مذموم اور ناپسندیدہ ہے، عام معاملات میں بھی تصنع و تکلف سے اجتناب کرنا چاہیے، اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا نُھِیْنَا عن التکلف صحیح بخاری 17293، حضرت سلمان فارسی (رض) فرماتے ہیں نَھَانَا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان نتکلَّفَ للضیف آپ نے مہمانوں کیلئے تکلف کرنے سے منع فرمایا۔ (صحیح الجامع الصغیر للالبانی) ۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ لباس، خوراک، رہائش، اور دیگر معاملات میں تکلفات جو آج کل معیار زندگی بلند کرنے کے عنوان سے اصحاب حیثیت کا شعار اور طریقہ بن گیا ہے اسلامی تعلیمات کے خلاف ہے، اسلام میں سادگی اور بےتکلفی اختیار کرنے کی تلقین و ترغیب ہے۔
10 Tafsir as-Saadi
﴿ قُلْ﴾ اے رسول ! اگر یہ جھٹلانے والے لوگ آپ سے ایسی چیز کا مطالبہ کرتے ہیں جو آپ کے اختیار میں نہیں، تو ان سے کہہ دیجئے! ﴿إِنَّمَا أَنَا مُنذِرٌ﴾ ” میں تو صرف متنبہ کرنے والا ہوں۔‘‘ میرے پاس جو کچھ ہے یہ اس کی انتہا ہے۔ رہا تمہارا مطالبہ، تو یہ اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہے، مگر میں تمہیں نیکی کا حکم دیتا ہوں، برائی سے روکتا ہوں، میں تمہیں خیر کی ترغیب دیتا ہوں اور شر سے ہٹاتا ہوں، لہٰذا جو کوئی ہدایت کی راہ اختیار کرتا ہے تو یہ اس کے اپنے لئے ہے اور جو گمراہ ہوتا ہے تو اس کا وبال اسی پر ہے۔ ﴿وَمَا مِنْ إِلَـٰهٍ إِلَّا اللّٰـهُ﴾ یعنی اللہ کے سوا کوئی ایسی ہستی نہیں، جس کی عبادت کی جائے اور وہ عبادت کی مستحق ہو۔ ﴿الْوَاحِدُ الْقَهَّارُ﴾ ” وہ واحد وقہار ہے۔‘‘
11 Mufti Taqi Usmani
. ( aey payghumber ! ) keh do kay : mein to aik khabrdar kernay wala hun , aur uss Allah kay siwa koi ibadat kay laeeq nahi jo aik hai , jo sabb per ghalib hai ,
12 Tafsir Ibn Kathir
نبی (علیہ السلام) کا خواب۔
اللہ تعالیٰ اپنے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حکم فرماتا ہے کہ کافروں سے کہہ دو کہ میری نسبت تمہارے خیالات محض غلط ہیں میں تو تمہیں ڈر کی خبر پہچانے والا ہوں۔ اللہ وحدہ لا شریک لہ کے سوا اور کوئی قابل پرستش نہیں وہ اکیلا ہے وہ ہر چیز پر غالب ہے، ہر چیز اس کے ماتحت ہے۔ وہ زمین و آسمان اور ہر چیز کا مالک ہے اور سب تصرفات اسی کے قبضے میں ہیں۔ وہ عزتوں والا ہے اور باوجود اس عظمت و عزت کے بڑا بخشنے والا ہے۔ یہ بہت بڑی چیز ہے یعنی میرا رسول بن کر تمہاری طرف آنا پھر تم اے غافلو اس سے اعراض کر رہے ہو۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ یہ بڑی چیز ہے یعنی قرآن کریم۔ حضرت آدم (علیہ السلام) کے بارے میں فرشتوں میں جو کچھ اختلاف ہوا اگر رب کی وحی میرے پاس نہ آئی ہوتی تو مجھے اس کی بابت کیا علم ہوتا ؟ ابلیس کا آپ کو سجدہ کرنے سے منکر ہونا اور رب کے سامنے اس کی مخالفت کرنا اور اپنی بڑائی جتانا وغیرہ ان سب باتوں کو میں کیا جانوں ؟ مسند احمد میں ہے ایک دن صبح کی نماز میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بہت دیر لگا دی یہاں تک کہ سورج طلوع ہونے کا وقت آگیا پھر بہت جلدی کرتے ہوئے آئے تکبیر کہی گئی اور آپ نے ہلکی نماز پڑھائی۔ پھر ہم سے فرمایا ذرا دیر ٹھہرے رہو پھر ہماری طرف متوجہ ہو کر فرمایا رات کو میں تہجد کی نماز پڑھ رہا تھا جو مجھے اونگھ آنے لگی یہاں تک کہ میں جاگا میں نے دیکھا کہ گویا میں اپنے رب کے پاس ہوں میں نے اپنے پروردگار کو بہرتین عمدہ صورت میں دیکھا مجھ سے جناب باری نے دریافت فرمایا جانتے ہو عالم بالا کے فرشتے اس وقت کس امر میں گفتگو اور سوال و جواب کر رہے ہیں ؟ میں نے کہا میرے رب مجھے کیا خبر ؟ تین مرتبہ کے سوال جواب کے بعد میں میں نے دیکھا کہ میرے دونوں مونڈھوں کے درمیان اللہ عزوجل نے اپنا ہاتھ رکھا یہاں تک کہ انگلیوں کی ٹھنڈک مجھے میرے سینے میں محسوس ہوئی اور مجھ پر ہر ایک چیز روشن ہوگئی پھر مجھ سے سوال کیا اب بتاؤ ملاء اعلیٰ میں کیا بات چیت ہو رہی ہے ؟ میں نے کہا گناہوں کے کفارے کی۔ فرمایا پھر تم بتاؤ کفارے کیا کیا ہیں ؟ میں نے کہا نماز با جماعت کے لئے قدم اٹھا کر جانا۔ نمازوں کے بعد مسجدوں میں بیٹھے رہنا اور دل کے نہ چاہئے پر بھی کامل وضو کرنا۔ پھر مجھ سے میرے اللہ نے پوچھا درجے کیا ہیں ؟ میں نے کہا کھانا کھلانا۔ نرم کلامی کرنا اور راتوں کو جب لوگ سوئے پڑے ہوں نماز پڑھنا۔ اب مجھ سے میرے رب نے فرمایا مانگ کیا مانگتا ہے ؟ میں نے کہا میں نیکیوں کا کرنا برائیوں کا چھوڑنا مسکینوں سے محبت رکھنا اور تیری بخشش، تیرا رحم اور تیرا ارادہ جب کسی قوم کی آزمائش کا فتنے کے ساتھ ہو تو اسے فتنے میں مبتلا ہونے سے پہلے موت، تیری محبت اور تجھ سے محبت رکھنے والوں کی محبت اور ان کاموں کی چاہت جو تیری محبت سے قریب کرنے والے ہوں مانگتا ہوں اس کے بعد حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا یہ سراسر حق ہے اسے پڑھو پڑھاؤ سیکھو سکھاؤ۔ یہ حدیث خواب کی ہے اور مشہور بھی یہی ہے بعض نے کہا ہے یہ جاگتے کا واقعہ ہے لیکن یہ غلط ہے بلکہ صحیح یہ ہے کہ یہ واقعہ خواب کا ہے اور یہ بھی خیال رہے کہ قرآن میں فرشتوں کی جس بات کا رد و بدل کرنا اس آیت میں مذکور ہے وہ یہ نہیں جو اس حدیث میں ہے بلکہ یہ سوال تو وہ ہے جس کا ذکر اس کے بعد ہی ہے ملاحظہ ہوں اگلی آیتیں۔