النساء آية ۱۱۰
وَ مَنْ يَّعْمَلْ سُوْۤءًا اَوْ يَظْلِمْ نَفْسَهٗ ثُمَّ يَسْتَغْفِرِ اللّٰهَ يَجِدِ اللّٰهَ غَفُوْرًا رَّحِيْمًا
طاہر القادری:
اور جو کوئی برا کام کرے یا اپنی جان پر ظلم کرے پھر اللہ سے بخشش طلب کرے وہ اللہ کو بڑا بخشنے والا نہایت مہربان پائے گا،
English Sahih:
And whoever does a wrong or wrongs himself but then seeks forgiveness of Allah will find Allah Forgiving and Merciful.
1 Abul A'ala Maududi
اگر کوئی شخص برا فعل کر گزرے یا اپنے نفس پر ظلم کر جائے اور اس کے بعد اللہ سے درگزر کی درخواست کرے تو اللہ کو درگزر کرنے والا اور رحیم پائے گا
2 Ahmed Raza Khan
اور جو کوئی برائی یا اپنی جان پر ظلم کرے پھر اللہ سے بخشش چاہے تو اللہ کو بخشنے والا مہربان پائے گا،
3 Ahmed Ali
اور جو کوئی برا فعل کرے یا اپنے نفس پر ظلم کرے پھراس کے بعد اللهسےبخشوائے تو الله کو بخشنے والا مہربان پائے
4 Ahsanul Bayan
جو شخص کوئی برائی کرے یا اپنی جان پر ظلم کرے پھر اللہ سے استغفار کرے تو اللہ کو بخشنے والا، مہربانی کرنے والا پائے گا۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
اور جو شخص کوئی برا کام کر بیٹھے یا اپنے حق میں ظلم کرلے پھر خدا سے بخشش مانگے تو خدا کو بخشنے والا اور مہربان پائے گا
6 Muhammad Junagarhi
جو شخص کوئی برائی کرے یا اپنی جان پر ﻇلم کرے پھر اللہ سے استغفار کرے تو وه اللہ کو بخشنے واﻻ، مہربانی کرنے واﻻ پائے گا
7 Muhammad Hussain Najafi
اور جو کوئی برائی کرے یا قبیح کام کرے یا کوئی اپنے اوپر ظلم کرے (گناہ کا ارتکاب کرے) پھر اللہ سے مغفرت طلب کرے، تو وہ اللہ کو بڑا بخشنے والا اور بڑا رحم کرنے والا پائے گا۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
اور جو بھی کسی کے ساتھ برائی کرے گا یا اپنے نفس پر ظلم کرے گا اس کے بعد استغفار کرے گا تو خدا کو غفور اور رحیم پائے گا
9 Tafsir Jalalayn
اور جو شخص کوئی برا کام کر بیٹھے یا اپنے حق میں ظلم کرلے پھر خدا سے بخشش مانگے تو خدا کو بخشنے والا (اور) مہربان پائے گا
10 Tafsir as-Saadi
پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ﴿وَمَن يَعْمَلْ سُوءًا أَوْ يَظْلِمْ نَفْسَهُ ثُمَّ يَسْتَغْفِرِ اللَّـهَ يَجِدِ اللَّـهَ غَفُورًا رَّحِيمًا﴾ ” اور جو شخص کوئی برا کام کر بیٹھے یا اپنے حق میں ظلم کرلے، پھر اللہ سے بخشش مانگے تو اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔“ یعنی جو کوئی اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کی جرأت کرتے ہوئے گناہ کا ارتکاب کرتا ہے پھر اللہ تعالیٰ سے ایسی مغفرت طلب کرتا ہے جو گناہ کے اقرار، اس پرپشیمانی، اس گناہ سے رک جانے اور اس گناہ کو دوبارہ نہ کرنے کے عزم کو مستلزم ہے تو ایسے ہی شخص کے ساتھ اس ہستی نے مغفرت اور رحمت کا وعدہ کیا ہے جو وعدہ خلافی نہیں کرتی۔ پس اس سے جو گناہ صادر ہوچکا ہوتا ہے وہ اس کو معاف کردیتا ہے نیز اس عیب اور نقص کو اس سے زائل کردیتا ہے جو اس گناہ پر مترتب ہوتا ہے اور اس کے سابقہ اعمال صالحہ اس کو لوٹا دیتا ہے اور مستقبل میں اسے مزید اعمال صالحہ کی توفیق عطا کرتا ہے۔ اس کے اور اپنی توفیق کے درمیان اس کے گزشتہ گناہ کو حائل نہیں ہونے دیتا۔ کیونکہ اس نے اس گناہ کو بخش دیا ہے اور جب وہ گناہ کو بخش دیتا ہے تو وہ ہر اس چیز کو بخش دیتا ہے جو اس گناہ کے نتیجے میں مرتب ہوتی ہے۔
آپ کو معلوم ہونا چاہئے کہ ” براعمل“ علی الاطلاق تمام گناہوں کو، خواہ وہ چھوٹے ہوں یا بڑے ہوں، شامل ہے اور (سوء) ” برائی“ اس لیے کہا گیا ہے کیونکہ برے عمل کے مرتکب کو اس پر مترتب ہونے والا عذاب برا لگتا ہے۔ نیز برا عمل فی نفسہ برا ہے، اچھا نہیں ہے۔ اسی طرح نفس کا ظلم علی الاطلاق شرک اور اس سے کم تر ظلم وغیرہ سب کو شامل ہے، مگر ان میں سے ایک کو دوسرے کے ساتھ مقرون کیا جائے تو ہر ایک کی اس کے مناسب حال تفسیر کی جائے گی۔
یہاں برے عمل کی تفسیر ” ظلم‘‘ کی جائے گی جو لوگوں کو برا لگتا ہے اور وہ ہے خون مال اور عزت و ناموس میں ان کا ایک دوسرے پر ظلم اور نفس کے ظلم کی تفسیر ” ظلم اور گناہ“ بیان کی جائے گی جس کا تعلق اللہ تعالیٰ اور بندے کے درمیان ہے۔ نفس کے ظلم کو ظلم اس لیے کہا گیا ہے کیونکہ انسان اپنے نفس کا مالک نہیں کہ وہ جس طرح چاہے اس میں تصرف کرے۔ انسان کے نفس کا مالک تو اللہ تعالیٰ ہے، اس نے یہ نفس اپنے بندے کو امانت کے طور پر عطا کر کے اسے حکم دیا ہے کہ وہ اسے انصاف وعدل کی راہ پر گامزن کرے اور علم و عمل کے اعتبار سے اس سے صراط مستقیم کا التزام کروائے۔ جس چیز کا اسے حکم دیا گیا ہے وہ اسے سکھائے اور جو اس پر واجب ہے اس سے اس پر عمل کروائے۔ اس کے علاوہ کسی اور راستے میں اس کی سعی اور کوشش اپنے نفس پر ظلم، خیانت اس عدل کے راستے سے انحراف ہے جس کی ضد ظلم و جور ہے۔
11 Mufti Taqi Usmani
aur jo shaks koi bura kaam ker guzray ya apni jaan per zulm ker bethay , phir Allah say moaafi maang ley to woh Allah ko boht bakhshney wala , bara meharban paye ga .
12 Tafsir Ibn Kathir
سچی توبہ کبھی مسترد نہیں ہوتی
اللہ تعالیٰ اپنا کرم اور اپنی مہربانی کو بیان فرماتا ہے کہ جس گناہ سے جو کوئی توبہ کرے اللہ اس کی طرف مہربانی سے رجوع کرتا ہے، ہر وہ شخص جو رب کی طرف جھکے رب اپنی مہربانی سے اور اپنی وسعت رحمت سے اسے ڈھانپ لیتا ہے اور اس کے صغیرہ کبیرہ گناہ کو بخشش دیتا ہے، چاہے وہ گناہ آسمان و زمین اور پہاڑوں سے بھی بڑے ہوں، بنو اسرائیل میں جب کوئی گناہ کرتا تو اس کے دروازے پر قدرتی حروف میں کفارہ لکھا ہوا نظر آجاتا جو اسے ادا کرنا پڑتا اور انہیں یہ بھی حکم تھا کہ ان کے کپڑے پر اگر پیشاب لگ جائے تو اتنا کپڑا کتروا ڈالیں اللہ نے اس امت پر آسانی کردی پانی سے دھو لینا ہی کپڑے کی پاکی رکھی اور توبہ کر لیناہی گناہ کی معافی، ایک عورت نے حضرت عبداللہ بن مفضل سے سوال کیا کہ عورت نے بدکاری کی پھر جب بچہ ہوا تو اسے مار ڈالا آپ نے فرمایا اس کی سزا جہنم ہے وہ روتی ہوئی واپس چلی تو آپ نے اسے بلایا اور (وَمَنْ يَّعْمَلْ سُوْۗءًا اَوْ يَظْلِمْ نَفْسَهٗ ثُمَّ يَسْتَغْفِرِ اللّٰهَ يَجِدِ اللّٰهَ غَفُوْرًا رَّحِيْمًا) 4 ۔ النسآء :110) پڑھ کر سنائی تو اس نے اپنے آنسو پونچھ ڈالے اور واپس لوٹ گئی، حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرماتے ہیں جس مسلمان سے کوئی گناہ سرزد ہوجائے پھر وہ وضو کرکے دو رکعت نماز ادا کرکے اللہ سے استغفار کرے تو اللہ اس کے اس گناہ کو بخش دیتا ہے پھر آپ نے یہ آیت اور ( وَالَّذِيْنَ اِذَا فَعَلُوْا فَاحِشَةً اَوْ ظَلَمُوْٓا اَنْفُسَھُمْ ذَكَرُوا اللّٰهَ فَاسْتَغْفَرُوْا لِذُنُوْبِھِمْ ۠ وَ مَنْ يَّغْفِرُ الذُّنُوْبَ اِلَّا اللّٰهُ ڞ وَلَمْ يُصِرُّوْا عَلٰي مَا فَعَلُوْا وَھُمْ يَعْلَمُوْنَ ) 3 ۔ آل عمران :135) کی تلاوت کی۔ اس حدیث کا پورا بیان ہم نے مسند ابوبکر میں کردیا ہے اور کچھ بیان سورة آل عمران کی تفسیر میں بھی گذرا ہے، حضرت ابو درداء فرماتے ہیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی عادت مبارک تھی کہ مجلس میں سے اٹھ کر اپنے کسی کام کے لئے کبھی جاتے اور واپس تشریف لانے کا ارادہ بھی ہوتا جوتی یا کپڑا کچھ نہ کچھ چھوڑ جاتے، ایک مرتبہ آپ اپنی جوتی چھوڑے ہوئے اٹھے ڈولچی پانی کی ساتھ لے چلے میں بھی آپ کے پیچھے ہو لیا آپ کچھ دور جا کر بغیر حاجت پوری کئے واپس آئے اور فرمانے لگے۔ میرے پاس میرے رب کی طرف سے ایک آنے والا آیا اور مجھے یہ پیغام دے گیا، پھر آپ نے (وَمَنْ يَّعْمَلْ سُوْۗءًا اَوْ يَظْلِمْ نَفْسَهٗ ثُمَّ يَسْتَغْفِرِ اللّٰهَ يَجِدِ اللّٰهَ غَفُوْرًا رَّحِيْمًا) 4 ۔ النسآء :110) پڑھی اور فرمایا میں اپنے صحابہ کو یہ خوشخبری سنانے کے لئے راستے میں ہی لوٹ آیا ہوں اس سے پہلے چونکہ (وَمَنْ يَّعْمَلْ سُوْۗءًا اَوْ يَظْلِمْ نَفْسَهٗ ثُمَّ يَسْتَغْفِرِ اللّٰهَ يَجِدِ اللّٰهَ غَفُوْرًا رَّحِيْمًا) 4 ۔ النسآء :110) یعنی ہر برائی کرنے والے کو اس کی برائی کا بدلہ ملے گا اتر چکی تھی اس لئے صحابہ بہت پریشان تھے، میں نے کہا یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کسی نے زنا کیا ہو ؟ چوری کی ہو ؟ پھر وہ استفغار کرے تو اسے بھی اللہ بخش دے گا ؟ آپ نے فرمایا ہاں، میں نے دوبارہ پوچھا آپ نے کہا ہاں میں نے سہ بارہ دریافت کیا تو آپ نے فرمایا ہاں گو ابو دراداء کی ناک خاک آلود ہو، پس حضرت ابو درداء جب یہ حدیث بیان کرتے اپنی ناک پر مار کر بتاتے۔ اس کی اسناد ضعیف ہے اور یہ حدیث غریب ہے۔ پھر فرمایا گناہ کرنے والا اپنا ہی برا کرتا ہے جیسے اور جگہ ہے کوئی دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھائے گا، ایک دوسرے کو نفع نہ پہنچا سکے گا، ہر شخص انپے کرتوت کا ذمہ دار ہے، کوئی بوجھ بٹائی نہ ہوگا، اللہ کا علم، اللہ کی حکمت اور الٰہی عدل و رحمت کے خلاف ہے کہ ایک گناہ کرے اور دوسرا پکڑا جائے۔ پھر فرماتا ہے جو خود برا کام کرکے کسی بےگناہ کے سر تھوپ دے جیسے بنوابیرق نے لبید کا نام لے دیا جو واقعہ تفصیل وار اس سے اگلی آیت کی تفسیر میں بیان ہوچکا ہے، یا مراد زید بن سمین یہودی ہے جیسے بعض اور مفسرین کا خیال ہے کہ اس چوری کی تہمت اس قبیلے نے اس بےگناہ شخص کے ذمہ لگائی تھی اور خود ہی خائن اور ظلم تھے، آیت گوشان نزول کے اعتبار سے خاص ہے لیکن حکم کے اعتبار سے عام ہے جو بھی ایسا کرے وہ اللہ کی سزا کا مستحق ہے۔ اس کے بعد کی ( آیت ولولا الخ، ) کا تعلق بھی اسی واقعہ سے ہے یعنی لبید بن عروہ اور ان کے ساتھیوں نے بنوابیرق کے چوروں کی حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے برات اور ان کی پاکدامنی کا اظہار کرکے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اصلیت سے دور رکھنے کا سارا کام پورا کرلیا تھا، لیکن اللہ تعالیٰ نے جو آپ کی عصمت کا حقیقی نگہبان ہے آپ کو اس خطرناک موقعہ پر خائنوں کی طرف داری سے بچا لیا اور اصلی واقعہ صاف کردیا۔ کتاب سے مراد قرآن اور حکم سے مراد سنت ہے۔ نزول وحی سے پہلے آپ جو نہ جانتے تھے ان کا علم پروردگار نے آپ کو بذریعہ وحی کردیا جیسے اور آیت میں ہے وکذلک اوجینا الیک روحا من امرنا سے پوری سوت تک اور آیت میں ہے (وَمَا كُنْتَ تَرْجُوْٓا اَنْ يُّلْقٰٓى اِلَيْكَ الْكِتٰبُ اِلَّا رَحْمَةً مِّنْ رَّبِّكَ فَلَا تَكُوْنَنَّ ظَهِيْرًا لِّـلْكٰفِرِيْنَ ) 28 ۔ القصص :86) اسی لئے یہاں بھی فرمایا۔ یہ سب باتیں اللہ کا فضل ہیں جو آپ کے شامل حال ہے۔