النساء آية ۱۱۶
اِنَّ اللّٰهَ لَا يَغْفِرُ اَنْ يُّشْرَكَ بِهٖ وَيَغْفِرُ مَا دُوْنَ ذٰلِكَ لِمَنْ يَّشَاۤءُ ۗ وَمَنْ يُّشْرِكْ بِاللّٰهِ فَقَدْ ضَلَّ ضَلٰلًاۢ بَعِيْدًا
طاہر القادری:
بیشک اللہ اس (بات) کو معاف نہیں کرتا کہ اس کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرایا جائے اور جو (گناہ) اس سے نیچے ہے جس کے لئے چاہے معاف فرما دیتا ہے، اور جو کوئی اللہ کے ساتھ شرک کرے وہ واقعی دور کی گمراہی میں بھٹک گیا،
English Sahih:
Indeed, Allah does not forgive association with Him, but He forgives what is less than that for whom He wills. And he who associates others with Allah has certainly gone far astray.
1 Abul A'ala Maududi
اللہ کے ہاں بس شرک ہی کی بخشش نہیں ہے، اس کے سوا اور سب کچھ معاف ہوسکتا ہے جسے وہ معاف کرنا چاہے جس نے اللہ کے ساتھ کسی کو شریک ٹھیرایا وہ تو گمراہی میں بہت دور نکل گیا
2 Ahmed Raza Khan
اللہ اسے نہیں بخشتا کہ اس کا کوئی شریک ٹھہرایا جائے اور اس سے نیچے جو کچھ ہے جسے چاہے معاف فرما دیتا ہے اور جو اللہ کا شریک ٹھہرائے وہ دور کی گمراہی میں پڑا،
3 Ahmed Ali
بے شک الله اس کو نہیں بخشتا جو کسی کو اس کا شریک بنائے اس کے سوا جسے چاہے بخش دے اور جس نے الله کا شریک ٹھیرایا وہ بڑی دور کی گمراہی میں جا پڑا
4 Ahsanul Bayan
اسے اللہ تعالٰی قطعًا نہ بخشے گا کہ اس کے ساتھ شریک مقرر کیا جائے ہاں شرک کے علاوہ گناہ جس کے چاہے معاف فرما دیتا ہے اور اللہ کے ساتھ شریک کرنے والا بہت دور کی گمراہی میں جا پڑا۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
خدا اس کے گناہ کو نہیں بخشے گا کہ کسی کو اس کا شریک بنایا جائے اور اس کے سوا (اور گناہ) جس کو چاہیے گا بخش دے گا۔ اور جس نے خدا کے ساتھ شریک بنایا وہ رستے سے دور جا پڑا
6 Muhammad Junagarhi
اسے اللہ تعالیٰ قطعاً نہ بخشے گا کہ اس کے ساتھ شرک مقرر کیا جائے، ہاں شرک کے علاوه گناه جس کے چاہے معاف فرما دیتا ہے اور اللہ کے ساتھ شریک کرنے واﻻ بہت دور کی گمراہی میں جا پڑا
7 Muhammad Hussain Najafi
بے شک اللہ اس جرم کو نہیں بخشتا کہ اس کے ساتھ شرک کیا جائے اور اس کے سوا (جو کم درجہ کے جرائم ہیں) جس کے لئے چاہتا ہے، بخش دیتا ہے۔ اور جو کسی کو اس کا شریک ٹھرائے، وہ گمراہ ہوا (اور اس میں) بہت دور نکل گیا۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
خدا اس بات کو معاف نہیں کرسکتا کہ اس کا شریک قرار دیا جائے اور اس کے علاوہ جس کو چاہے بخش سکتا ہے اور جو خدا کا شریک قرار دے گا وہ گمراہی میں بہت دور تک چلا گیا ہے
9 Tafsir Jalalayn
خدا اس گناہ کو نہیں بخشے گا کہ کسی کو اس کا شریک بنایا جائے اور اسکے سوا (اور گناہ) جس کو چاہے گا بخش دیگا اور جس نے خدا کے ساتھ شریک بنایا وہ راستے سے دور جا پڑا
آیت نمبر ١١٦ تا ١٢٦
ترجمہ : اللہ تعالیٰ قطعاً معاف نہ کرے گا اس بات کو کہ اس کے ساتھ شرک کیا جائے (ہاں) شرک کے علاوہ گناہ جس کے چاہے گا معاف کردے گا، اور جو اللہ کے ساتھ شرک کرتا ہے وہ حق سے دور جا پڑتا ہے مشرک اللہ کو چھوڑ کر عورتوں یعنی (دیویوں) کی بندگی (پوجا) کرتے ہیں، جیسا کہ لات کی اور عزّیٰ کی اور مناة کی، ان کی عبادت نہیں ہے مگر سرکش شیطان کی عبادت جو حد طاعت سے خارج ہونیوالا ہے بتوں کی عبادت میں مشرکوں کے شیطان کی بات ماننے کی وجہ سے اور وہ ابلیس ہے، اللہ نے اس پر لعنت فرمائی یعنی اس کو اپنی رحمت سے دور کردیا، اور وہ شیطان کہہ چکا ہے کہ میں تیرے بندوں میں سے اپنا مقرر حصہ لے کر رہوں گا (یعنی) میں ان کو اپنی اطاعت کی دعوت دوں گا، اور وسوسہ کے ذریعہ میں انھیں حق سے ضرور گمراہ کرکے رہوں گا اور میں ان میں طول حیات کی (باطل) آرزو ضرور ڈالوں گا اور یہ کہ بعث و حساب ہو نیوالا نہیں ہے، اور یہ کہ میں ان کو حکم دوں گا کہ جانوروں کے کانوں کو شگاف دیں چناچہ ایسا بحائر میں کیا گیا، (بحیرہ وہ اونٹنی کہ جس نے چار مرتبہ نر جننے کے بعد پانچویں مرتبہ مادہ جنا ہو) اور میں ان سے کہوں گا کہ اللہ کی مخلوق کو (یعنی) اس کے دین کو کفر کے ذریعہ اور حرام کردہ کو حلال کرکے اور حلال کو حرام کرکے بگاڑ دیں، اور جو شخص اللہ کو چھوڑ کر شیطان کو رفیق بنا ئیگا یعنی اس سے دوستی کرے گا اور اس کی اطاعت کرے گا، وہ یقینا کھلے نقصان میں پڑے گا، اس کے دائمی عذاب کی طرف لوٹنے کی وجہ سے، وہ ان سے زندگی بھر (زبانی) وعدے کرتا رہیگا اور ان کو دنیا میں آرزو پوری ہونے کی امید دلاتارہیگا، اور یہ کہ بعث و حساب کچھ ہو نیوالا نہیں ہے، ان سے شیطان کے وعدے سراسر فریب کاریاں ہیں یہ وہ لوگ ہیں کہ ان کا ٹھکانہ جہنم ہے جہاں سے انھیں چھٹکارہ نہ ملے گا، اور جو ایمان لائیں گے اور نیک عمل کریں گے تو ہم ان کو ایسی جنت میں داخل کریں کے جن میں نہریں جاری ہوں گی اور جن میں وہ ہمیشہ ہمیش رہیں گے اللہ کا وعدہ حق ہے یعنی اللہ نے ان سے وعدہ کیا ہے جو سراسر حق ہے اور اللہ سے زیادہ سچی بات کس کی ہے ؟ کسی کی نہیں، اور جب مسلمانوں اور اہل کتاب نے فخر کیا تو (آئندہ) آیت نازل ہوئی اور (ایمان و اطاعت) کا مدار (اے مسلمانوں) نہ تمہاری آرزؤں پر ہے نہ اہل کتاب کی آرزؤں پر بلکہ عمل صالح پر ہے، جو برے عمل کرے گا اس کو سزا دی جائیگی یا تو آخرت میں یا دنیا میں آزمائش اور محنت کے ساتھ جیسا کہ حدیث میں وارد ہے، وہ اللہ کی سوا کسی کو اپنا دوست نہ پائیگا، کہ اس حفاظت کرسکے، اور نہ مدگار کہ اس کا دفاع کرسکے، اور جو کوئی کچھ بھی نیک عمل کرے گا خواہ مرد ہو یا عورت اور مومن بھی ہو تو ایسے سب لوگ جنت میں جائیں گے (یدخلون) مجہول اور معروف دونوں ہیں، اور ان پر ذرہ برابر (یعنی) بقدر گٹھلی کے شگاف کے بھی ان پر ظلم نہ کیا جا ئیگا، اور دین میں اس سے بہتر کون ہے ؟ کوئی نہیں، جو اپنا رخ اللہ کی طرف کردے، یعنی اس کا فرمانبردار ہوجائے اور اپنا عمل (اللہ کیلئے) خالص کرلے، اور وہ محسن موحد بھی ہو اور ابراہیم راست روکے مذہب کی جو کہ ملت اسلام کے مطابق ہے مطابق ہے پیروی کرے حال یہ کہ وہ تمام ادیان سے بےرخی کرکے صحیح دین کی طرف رخ کرے، اور اللہ نے ابراہیم کو تو اپنا دوست بنالیا یعنی اس سے خالص محبت کرنے والا اور اللہ ہی کی ملک ہے جو کچھ زمینوں اور آسمانوں میں ہے ملکیت کے اعتبار سے اور تخلیق کے اعتبار سے اور مملوکیت کے اعتبار سے اور اللہ ہر شئی کا علم وقدرت کے اعتبار سے احاطہ کئے ہوئے ہے یعنی وہ اس صفت کے ساتھ ہمیشہ متصف ہے۔
تحقیق و ترکیب و تسہیل و تفسیری فوائد
قولہ : مَرِیْدًا (ن ک) صفت مشبہ، سرکش، ہر خیر سے خالی، اِنَّ اللہ لَا یَغْفِر اَنْ یُشرکَ بہ یہ کلام مستانف ہے شرک کو معاف نہ کرنے کی تاکید کے لئے لایا گیا ہے۔
قولہ : لَعَنَہ \& اللہ \&، یہ شیطاناً کی دوسری صفت ہے پہلی مریدًا ہے۔
قولہ : اُمَنِّیَّنَّھُمْ ، میں ان کو امیدیں دلاؤں گا، ان کے دلوں میں لمبی لمبی تمنائیں ڈالوں گا، تمنیّة سے مضارع واحد متکلم بانون تاکید ثقیلہ۔
قولہ : یُبَتِّکُنُّ مضارع مذکر غائب بانون تاکید ثقیلہ، تَبْتیک، (تفصیل) مادہ بَتْک، وہ خوب کاٹیں گے۔
قولہ : بَحَابِٔر، بَحیرة کی جمع ہے وہ اونٹنی جو مسلسل چار مرتبہ نرجنے اور پانچوں بار مادہ جنے، ایسی اونٹنی کے کان چیر کر مشرکین بتوں کے نام پر آزاد چھوڑدیتے تھے اور اس سے خدمت لینا گناہ سمجھتے تھے، بحر کے مادہ میں چونکہ وسعت اور کثرت کے معنی ملحوظ ہیں اس لئے جس اونٹنی کے اچھی طرح کان چیر دیئے گئے ہوں اسکو بحیرہ کہتے ہیں یہ فعیل بمعنی مفعول ہے۔
قولہ : دِیْنَہ \&، خلق کی تفسیر دین سے کرنے میں ایک سوال کے جواب کی طرف اشارہ ہے۔
سوال : مشرکین کا کوئی دین حق تھا ہی نہیں پھر اس کے بدلنے کا کیا سوال پیدا ہوتا ہے ؟
جواب : دین سے مراد دین فطرت ہے جو شخص کے اندر موجود ہوتا ہے، اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے \&\& ولا تبدیل لخلق اللہ ای لدین اللہ \&\&.
قولہ : یَعِدُھم، اور یُمَنِّیھِمْ ، ان دونوں کے مفعول مخدوف ہیں جن کو مفسرّ علاّم نے ظاہر کردیا ہے۔
قولہ : عَنْھا مَحِیْھا، عنھا، مخدوف کے متعلق ہے اور مَحِیصًا سے حال ہے ای کائناً عَنْھا، یَجدُؤنَ کے متعلق اس لئے نہیں ہوسکتا کہ یجدون کا صلہ عن نہیں آتا، اور نہ محیصًا کے متعلق ہوسکتا ہے اسلئے کہ محیصًا یا تو اسم مکان ہے جو کہ عمل نہیں کرتا یا مصد رہے اور مصدر کا معمول مصدر پر مقدم نہیں ہوسکتا۔
تفسیر و تشریح
اِنَّ اللہ لا یغفر اَنْ یُشْرک بہ، (الآیة) ان آیات میں یہ بات واضح کی جارہی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے یہاں ایسے شخص کے لئے معافی اور رحمت کی قطعاً گنجائش نہیں جس نے شرک و کفر کیا ہو۔
شرک و کفر کی سزا دائمی کیوں ؟ یہاں بعض لوگوں کو یہ شبہ ہوا ہے کہ سزا بقدر عمل ہونی چاہیے جو جرم کفر و شرک کیا ہے وہ محدود مدت عمر کے اندر کیا ہے تو اس کی سزا غیر محدود و دائمی کیوں ہوئی ؟
جواب : یہ ہے کہ کفر و شرک کرنے والا چونکہ کفر کو کوئی جرم ہی نہیں سمجھتا بلکہ نیکی سمجھتا ہے اسلئے اس کا عزم و قصد بھی یہی ہوتا ہے کہ وہ ہمیشہ اسی حال پر قائم رہے گا، اور جب مرتے دم تک وہ اس پر قائم رہا تو اس نے اپنے اختیار کی حد تک اپنا جرم دائمی کرلیا اس لئے سزا بھی دائمی ہوئی۔
شیطان کو معبود بنا نیکا مطلب : معروف معنی میں کوئی شیطان کو معبود نہیں بناتا کہ اس کے سامنے سر بسجدہ ہو کر مراسم بندگی ادا کرتا ہو اور اس کو الوہیتہ کا درجہ دیتا ہو البتہ شیطان کو معبود بنانے کی صورت یہ ہے کہ آدمی اپنے نفس کی باگ ڈور شیطان کے ہاتھ میں دیدیتا ہے اور جدھر وہ چلاتا ہے ادھر ہی چلتا ہے، گویا کہ یہ اس کا بندہ ہے اور وہ اس کا خدا، شیطان ان سے وعدہ کرتا ہے اور ان کو تمناؤں میں الجھا دیتا ہے، انسان کو سمجھنا چاہیے کہ بہکانے اور سبز باغ دکھانے کے سوا شیطان کے پاس اور کچھ نہیں ہے، جو لوگ اس کے فریب میں مبتلا ہیں ان کا ٹھکانہ دوزخ ہے۔
مسلمانوں اور اہل کتاب کے درمیان ایک مفاخرانہ گفتگو : لَیْسَ بِا مَا نیکم ولا اَمَانی اَھْل الکتاب، ان آیات میں ایک مکالمہ کا ذکر ہے جو مسلمانوں اور اہل کتاب کے درمیان ہوا تھا، پھر اس مکالمہ پر محاکمہ کیا گیا ہے آخر میں اللہ کے نزدیک مقبول اور افضل و اعلیٰ ہونے کا ایک معیار بتایا گیا ہے۔
حضرت قتادہ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ کچھ مسلمانوں اور اہل کتاب کے درمیان مفاخرت کی گفتگو ہونے لگی، اہل کتاب نے کہا ہم تم سے افضل و اشرف ہیں کیونکہ ہمارے نبی تمہارے نبی سے پہلے ہیں اور ہماری کتاب تمہاری کتاب سے پہلے ہے، مسلمانوں نے کہا ہم تم سے افضل ہیں اسلئے کہ ہمارے بنی خاتم النبین ہیں اور ہماری کتاب آخری کتاب ہے جس نے سب کتابوں کو منسوخ کردیا ہے اس پر یہ آیت نازل ہوئی \&\& لَیْسَ باما نیکم الخ \&\& یعنی یہ تفاخروتعلّی کسی کو زیب نہیں دیتی اور محض خیالات اور تمناؤں سے کوئی کسی پر افضل نہیں ہوتا بلکہ مدار اعمال پر ہے۔
10 Tafsir as-Saadi
وہ گناہ جو شرک سے کمتر ہیں وہ اللہ تعالیٰ کی مشیت کے تابع ہیں اگر اللہ تعالیٰ چاہے گا تو اپنی رحمت اور حکمت سے ان گناہوں کو بخش دے گا اور اگر چاہے گا تو اپنے عدل و حکمت سے ان کو عذاب دے گا۔
اس آیت کریمہ سے اس بات پر استدلال کیا گیا ہے کہ اجماع امت حجت ہے نیز یہ کہ وہ خطا سے محفوظ ہے۔ اس استدلال کی بنیاد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مومنین کے راستے کی مخالفت کرنے پر جہنم اور خذ لان کی وعید سنائی ہے اور مومنین کا راستہ مفرد اور مضاف ہے جو ان عقائد و اعمال پر مشتمل ہے جن پر تمام اہل ایمان عمل پیرا ہیں۔ جب تمام اہل ایمان کسی چیز کے وجوب، استحباب، تحریم، کراہت یا جواز پر متفق ہیں تو یہی ان کا راستہ ہے اور جو کوئی اہل ایمان کے کسی چیز پر انعقاد اجماع کے بعد ان کی مخالفت کرتا ہے تو وہ اہل ایمان کے راستے کے علاوہ کسی اور راستے پر گامزن ہے۔ اجماع امت کے حجت ہونے پر یہ آیت کریمہ بھی دلالت کرتی ہے﴿إِنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا لَن تُغْنِيَ عَنْهُمْ أَمْوَالُهُمْ وَلَا أَوْلَادُهُم مِّنَ اللَّـهِ شَيْئًا ۖ وَأُولَـٰئِكَ هُمْ وَقُودُ النَّارِ﴾(آل عمران :3؍ 110) ” تم بہترین امت ہو جو لوگوں کی ہدایت کے لئے پیدا کی گئی ہو تم نیکی کا حکم دیتے ہو اور برائی سے روکتے ہو۔“ اس آیت کریمہ میں استدلال کا پہلو یہ ہے کہ اس امت کے اہل ایمان صرف نیکی ہی کا حکم دیتے ہیں، لہٰذا جب وہ کسی چیز کے وجوب یا استحباب پر متفق ہوجاتے ہیں تو یہ گویا وہ چیز ہے جس کا انہیں حکم دیا گیا۔ پس آیت کریمہ کی نص سے متعین ہوگیا کہ وہ معاملہ معروف ہی ہوگا اور معروف کے علاوہ جو کچھ ہے وہ منکر ہے۔ اسی طرح جب وہ کسی چیز سے منع کرنے پر متفق ہوجاتے ہیں تو وہ انہی باتوں میں سے ہے جن سے انہیں روکا گیا ہے، پس وہ یقیناً منکر ہے۔ اسی کی نظیر اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد ہے: ﴿ وَكَذٰلِكَ جَعَلْنَاكُمْ أُمَّةً وَسَطًا لِّتَكُونُوا شُهَدَاءَ عَلَى النَّاسِ ﴾(البقرۃ:2؍143) ” اور اسی طرح ہم نے تمہیں ” امت وسط“ بنایا تاکہ تم لوگوں پر گواہ بنو۔“ پس اللہ تبارک و تعالیٰ نے آگاہ فرمایا ہے کہ اس نے اس امت کو معتدل اور بہترین امت بنایا ہے تاکہ وہ ہر چیز کے بارے میں لوگوں پر گواہ بنیں۔ جب وہ کسی حکم کے بارے میں یہ گواہی دیں کہ یہ حکم اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے یا اللہ تعالیٰ نے اس سے منع کیا ہے یا اس نے اس کو مباح قرار دیا ہے، تو ان کی شہادت معتبر اور معصوم ہے کیونکہ وہ جس چیز کی شہادت دے رہے تھے اس کا علم رکھتے ہیں اور اپنی شہادت میں عادل ہیں۔ اگر معاملہ اس کے برعکس ہوتا تو وہ اپنی شہادت میں عادل اور اس کا علم رکھنے والے نہ ہوتے اور اللہ تعالیٰ کا یہ قول بھی اس کی نظیر ہے۔ ﴿ فَإِن تَنَازَعْتُمْ فِي شَيْءٍ فَرُدُّوهُ إِلَى اللَّـهِ وَالرَّسُولِ﴾ (النساء :4؍59) ’’اگر کسی بات میں تم میں اختلاف واقع ہوجائے تو معاملے کو اللہ اور اس کے رسول کی طرف لوٹا دو۔ “
آیت کریمہ سے یہ مفہوم نکلتا ہے کہ جس معاملہ میں ان کے درمیان کوئی اختلاف نہیں بلکہ اتفاق ہے، اسے وہ اللہ اور اس کے رسول کی طرف لوٹانے پر مامور نہیں ہیں۔ ایسا معاملہ قرآن اور سنت کے موافق ہی ہوگا، مخالف نہیں ہوسکتا۔ ان دلائل سے قطعی طور پر یہ مستفاد ہوتا ہے کہ اس امت کا اجماع حجت ہے۔
اسی لئے اللہ تعالیٰ نے مشرکین کی گمراہی کی برائی بیان کرتے ہوئے فرمایا :
11 Mufti Taqi Usmani
beyshak Allah iss baat ko nahi bakhshta kay uss kay sath kissi ko shareek thehraya jaye , aur iss say kamtar her gunah ki jiss kay liye chahta hai bakhshish ker deta hai . aur jo shaks Allah kay sath kissi ko shareek thehrata hai , woh raah-e-raast say bhatak ker boht door jaa girta hai .
12 Tafsir Ibn Kathir
مشرک کی پہچان اور ان کا انجام
اس سورت کے شروع میں پہلی آیت کے متعلق ہم پوری تفسیر کرچکے ہیں اور وہیں اس آیت سے تعلق رکھنے والی حدیثیں بھی بیان کردی ہیں، حضرت علی فرمایا کرتے تھے قرآن کی کوئی آیت مجھے اس آیت سے زیادہ محبوب نہیں (ترمذی) مشرکین سے دنیا اور آخرت کی بھلائی دور ہوجاتی ہے اور وہ راہ حق سے دور ہوجاتے ہیں وہ اپنے آپ کو اور اپنے دونوں جہانوں کو برباد کرلیتے ہیں، یہ مشرکین عورتوں کے پرستار ہیں، حضرت کعب فرماتے ہیں ہر صنم کے ساتھ ایک جنبیہ عورت ہے، حضرت عائشہ فرماتی ہیں اِنَاثًا سے مراد بت ہیں، یہ قول اور بھی مفسرین کا ہے، ضحاک کا قول ہے کہ مشرک فرشتوں کو پوجتے تھے اور انہیں اللہ کی لڑکیاں مانتے تھے اور کہتے تھے کہ ان کی عبادت ہے ہماری اصل غرض اللہ عزوجل کی نزدیکی حاصل کرنا ہے اور ان کی تصویریں عورتوں کی شکل پر بناتے تھے پھر حکم کرتے تھے اور تقلید کرتے تھے اور کہتے تھے کہ یہ صورتیں فرشتوں کی ہیں جو اللہ کی لڑکیاں ہیں۔ یہ تفسیر (اَفَرَءَيْتُمُ اللّٰتَ وَالْعُزّٰى) 53 ۔ النجم :24) کے مضمون سے خوب ملتی ہے جہاں ان کے بتوں کے نام لے کر اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ یہ خوب انصاف ہے کہ لڑکے تو تمہارے اور لڑکیاں میری ؟ اور آیت میں ہے (وَجَعَلُوا الْمَلٰۗىِٕكَةَ الَّذِيْنَ هُمْ عِبٰدُ الرَّحْمٰنِ اِنَاثًا ۭاَشَهِدُوْا خَلْقَهُمْ ۭ سَـتُكْتَبُ شَهَادَتُهُمْ وَيُسْــَٔــلُوْنَ ) 43 ۔ الزخرف :19) ان لوگوں نے اللہ تعالیٰ اور جنات میں نسب نکالے ہیں، ابن عباس فرماتے ہیں مراد مردے ہیں، حسن فرماتے ہیں ہر بےروح چیز اناث ہے خواہ خشک لکڑی ہو خواہ پتھر ہو، لیکن یہ قول غریب ہے۔ پھر ارشاد ہے کہ دراصل یہ شیطانی پوجا کے پھندے میں تھے، شیطان کو رب نے اپنی رحمت سے کردیا اور اپنی بارگاہ سے نکال باہر کیا ہے، اس نے بھی بیڑا اٹھا رکھا ہے کہ اللہ کے بندوں کو معقول تعداد میں بہکائے، قتادہ فرماتے ہیں یعنی ہر ہزار میں سے نو سو ننانوے کو جنم میں اپنے ساتھ لے جائے گا، ایک بچ رہے گا جو جنت کا مستحق ہوگا، شیطان نے کہا ہے کہ میں انہیں حق سے بہکاؤں گا اور انہیں امید دلاتا رہوں گا یہ توبہ ترک کر بیٹھیں گے، خواہشوں کے پیچھے پڑجائیں گے موت کو بھول بیٹھیں گے نفس پروری اور آخرت سے غافل ہوجائیں گے، جانوروں کے کان کاٹ کر یا سوراخ دار کرکے اللہ کے سوا دوسروں کے نام کرنے کی انہیں تلقین کروں گا، اللہ کی بنائی ہوئی صورتوں کو بگاڑنا سکھاؤں گا جیسے جانوروں کو خصی کرنا۔ ایک حدیث میں اس سے بھی ممانعت آئی ہے (شاید مراد اس سے نل منقطع کرنے کی غرض سے ایسا کرنا ہے) ایک معنی یہ بھی کئے گئے ہیں کہ چہرے پر گودنا گدوانا، جو صحیح مسلم کی حدیث میں ممنوع ہے اور جس کے کرنے والے پر اللہ کی لعنت وارد ہوئی ہے، ابن مسعود سے صحیح سند سے مروی ہے کہ گود نے والیوں اور گدوانے والیوں، پیشانی کے بال نوچنے والیوں اور نچوانے والیوں اور دانتوں میں کشادگی کرنے والیوں پر جو حسن و خوبصورتی کے لئے اللہ کی بناوٹ کو بگاڑتی ہیں اللہ کی لعنت ہے میں ان پر لعنت کیوں نہ بھیجوں ؟ جن پر رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے لعنت کی ہے اور جو کتاب اللہ میں موجود ہے پھر آپ نے ( وَمَآ اٰتٰىكُمُ الرَّسُوْلُ فَخُذُوْهُ ۤ وَمَا نَهٰىكُمْ عَنْهُ فَانْتَهُوْا ۚ وَاتَّقُوا اللّٰهَ ۭ اِنَّ اللّٰهَ شَدِيْدُ الْعِقَابِ ) 59 ۔ الحشر :7) پڑھی بعض اور مفسرین کرام سے مروی ہے کہ مراد اللہ کے دین کو بدل دینا ہے جیسے اور آیت میں ہے (فَاَقِمْ وَجْهَكَ للدِّيْنِ حَنِيْفًا ۭ فِطْرَتَ اللّٰهِ الَّتِيْ فَطَرَ النَّاسَ عَلَيْهَا ۭ لَا تَبْدِيْلَ لِخَلْقِ اللّٰهِ ۭ ذٰلِكَ الدِّيْنُ الْـقَيِّمُ ڎ وَلٰكِنَّ اَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُوْنَ ) 30 ۔ الروم :30) یعنی اپنا چہرہ قائم رکھ کر اللہ کے یکطرفہ دین کا رخ اختیار کرنا یہ اللہ کی وہ فطرت ہے جس پر تمام انسانوں کو اس نے پیدا کیا ہے اللہ کی خلق میں کوئی تبدیلی نہیں، اس سے پچھلے (آخری) جملے کو اگر امر کے معنی میں لیا جائے تو یہ تفسیر ٹھیک ہوجاتی ہے یعنی اللہ کی فطرف کو نہ بدلو لوگوں کو میں نے جس فطرف پر پیدا کیا ہے اسی پر رہنے دو ، بخاری ومسلم میں ہے ہر بچہ فطرت پر پیدا ہوتا ہے لیکن اس کے ماں باپ پھر اسے یہودی یا نصرانی یا مجوسی بنا لیتے ہیں جیسے بکری کا صحیح سالم بچہ بےعیب ہوتا ہے لیکن پھر لوگ اس کے کان وغیرہ کاٹ دیتے ہیں اور اسے عیب دار کردیتے ہیں، صحیح مسلم میں ہے اللہ عزوجل فرماتا ہے میں نے اپنے بندوں کو یکسوئی والے دین پر پیدا کیا لیکن شیطان نے آکر انہیں بہکا دیا پھر میں نے اپنے حلال کو ان پر حرام کردیا۔ شیطان کو دوست بنانے والا اپنا نقصان کرنے والا ہے جس نقصان کی کبھی تلافی نہ ہو سکے۔ کیونکہ شیطان انہیں سبز باغ دکھاتا رہتا ہے غلط راہوں میں ان کی فلاح وبہود کا یقین دلاتا ہے دراصل وہ بڑا فریب اور صاف دھوکا ہوتا ہے، چناچہ شیطان قیامت کے دن صاف کہے گا اللہ کے وعدے سچے تھے اور میں تو وعدہ خلاف ہوں ہی میرا کوئی زور تم پر تھا ہی نہیں میری پکار کو سنتے ہی کیوں تم مست و بےعقل بن گئے ؟ اب مجھے کیوں کو ستے ہو ؟ اپنے آپ کو برا کہو۔ شیطانی وعدوں کو صحیح جاننے والے اس کی دلائی ہوئی اُمیدوں کو پوری ہونے والی سمجھنے والے آخرش جہنم واصل ہو نگے جہاں سے چھٹکارا محال ہوگا۔ ان بدبختوں کے ذکر کے بعد اب نیک لوگوں کا حال بیان ہو رہا ہے کہ جو دل سے میرے ماننے والے ہیں اور جسم سے میری تابعداری کرنے والے ہیں میرے احکام پر عمل کرتے ہیں میری منع کردہ چیزوں سے باز رہتے ہیں میں انہیں اپنی نعمتیں دوں گا انہیں جنتوں میں لے جاؤں گا جن کی نہریں جہاں یہ چاہیں خود بخود بہنے لگیں جن میں زوال، کمی یا نقصان بھی نہیں ہے، اللہ کا یہ وعدہ اصل اور بالکل سچا ہے اور یقینا ہونے والا ہے اللہ سے زیادہ سچی بات اور کس کی ہوگی ؟ اس کے سوا کوئی معبود برحق نہیں نہ ہی کوئی اس کے سوا مربی ہے، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنے خطبے میں فرمایا کرتے تھے سب سے زیادہ سچی بات اللہ کا کلام ہے اور سب سے بہتر ہدایت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ہدایت ہے اور تمام کاموں میں سب سے برا کام دین میں نئی بات نکالنا ہے اور ہر ایسی نئی بات کا نام بدعت ہے اور ہر بدعت گمراہی اور ہر گمراہی جہنم میں ہے۔