وہ (منافق) جو تمہاری (فتح و شکست کی) تاک میں رہتے ہیں، پھر اگر تمہیں اللہ کی طرف سے فتح نصیب ہو جائے تو کہتے ہیں: کیا ہم تمہارے ساتھ نہ تھے؟ اور اگر کافروں کو (ظاہری فتح میں سے) کچھ حصہ مل گیا تو (ان سے) کہتے ہیں: کیا ہم تم پر غالب نہیں ہو گئے تھے اور (اس کے باوجود) کیا ہم نے تمہیں مسلمانوں (کے ہاتھوں نقصان) سے نہیں بچایا؟ پس اللہ تمہارے درمیان قیامت کے دن فیصلہ فرمائے گا، اور اللہ کافروں کو مسلمانوں پر (غلبہ پانے کی) ہرگز کوئی راہ نہ دے گا،
English Sahih:
Those who wait [and watch] you. Then if you gain a victory from Allah, they say, "Were we not with you?" But if the disbelievers have a success, they say [to them], "Did we not gain the advantage over you, but we protected you from the believers?" Allah will judge between [all of] you on the Day of Resurrection, and never will Allah give the disbelievers over the believers a way [to overcome them].
1 Abul A'ala Maududi
یہ منافق تمہارے معاملہ میں انتظار کر رہے ہیں (کہ اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے) اگر اللہ کی طرف سے فتح تمہاری ہوئی تو آ کر کہیں گے کہ کیا ہم تمہارے ساتھ نہ تھے؟ ا گر کافروں کا پلہ بھاری رہا تو اُن سے کہیں گے کہ کیا ہم تمہارے خلاف لڑنے پر قادر نہ تھے اور پھر بھی ہم نے تم کو مسلمانوں سے بچایا؟ بس اللہ ہی تمہارے اور ان کے معاملہ کا فیصلہ قیامت کے روز کرے گا اور (اس فیصلہ میں) اللہ نے کافروں کے لیے مسلمانوں پر غالب آنے کی ہرگز کوئی سبیل نہیں رکھی ہے
2 Ahmed Raza Khan
وہ جو تمہاری حالت تکا کرتے ہیں تو اگر اللہ کی طرف سے تم کو فتح ملے کہیں کیا ہم تمہارے ساتھ نہ تھے اور اگر کافروں کا حصہ ہو تو ان سے کہیں کیا ہمیں تم پر قابو نہ تھا اور ہم نے تمہیں مسلمانوں سے بچایا تو اللہ تم سب میں قیامت کے دن فیصلہ کردے گا اور اللہ کافروں کو مسلمان پر کوئی راہ نہ دے گا
3 Ahmed Ali
وہ منافق جو تمہارے متعلق انتظار کرتے ہیں پھر اگر تمہیں الله کی طرف سے فتح ہو تو کہتے ہیں کیا ہم تمہارے ساتھ نہ تھےاور اگر کافرو ں کو کچھ حصہ مل جائے تو کہتے ہیں کیا ہم تم پر غالب نہ آنے لگے تھے اور کیا ہم نے تمہیں مسلمانوں سے بچا نہیں لیا سو الله تمہارا اور ان کا قیامت میں فیصلہ کرے گا اور (وہاں) الله کافروں کو مسلمانوں کے مقابلہ میں ہرگز غالب نہیں کرے گا
4 Ahsanul Bayan
یہ لوگ تمہارے انجام کار کا انتظار کرتے رہتے ہیں پھر اگر تمہیں اللہ فتح دے تو یہ کہتے ہیں کہ کیا ہم تمہارے ساتھی نہیں اور اگر کافروں کو تھوڑا غلبہ مل جائے تو (ان سے) کہتے ہیں کہ ہم تم پر غالب نہ آنے لگے تھے اور کیا ہم نے تمہیں مسلمانوں کے ہاتھوں سے نہ بچایا تھا (١) پس قیامت میں خود اللہ تعالٰی تمہارے درمیان فیصلہ کرے گا (٢) اور اللہ تعالٰی کافروں کو ایمان والوں پر ہرگز راہ نہ دے گا۔
١٤١۔١ یعنی ہم تم پر غالب آنے لگے تھے لیکن تمہیں اپنا ساتھی سمجھ کر چھوڑ دیا اور مسلمانوں کا ساتھ چھوڑ کر ہم نے تمہیں مسلمانوں کے ہاتھوں سے بچایا۔ مطلب یہ کہ تمہیں غلبہ ہماری اس دوغلی پولیسی کے نتیجے میں حاصل ہوا ہے۔ جو ہم نے مسلمانوں کو ظاہری طور پر شامل ہو کر اپنائے رکھی۔ لیکن درپردہ ان کو نقصان پہنچانے میں ہم نے کوئی کوتاہی اور کمی نہیں کی تاآنکہ تم ان پر غالب آگئے۔ یہ منافقین کا قول ہے جو انہوں نے کافروں سے کہا۔ ۱٤۱۔۱ یعنی دنیا میں تم نے دھوکے اور فریب سے وقتی طور پر کچھ کامیابی حاصل کرلی۔ لیکن قیامت والے دن اللہ تعالٰی کا فیصلہ ان باطنی جذبات وکیفیات کی روشنی میں ہوگا جنہیں تم سینوں میں چھپائے ہوئے تھے اس لئے کہ اللہ تعالٰی تو سینوں کے رازوں کو بھی خوب جانتا ہے اور پھر اس پر جو وہ سزا دے گا تو معلوم ہوگا کہ دنیا میں منافقت اختیار کر کے نہایت خسارے کا سودا کیا تھا جس پر جہنم کا دائمی عذاب بھگتنا ہوگا۔ ١٤١۔٢ یعنی غلبہ نہ دے گا۔ اس کے مختلف مفہوم بیان کئے گئے ہیں (١) اہل اسلام کا غلبہ قیامت والے دن ہوگا (٢) حجت اور دلائل کے اعتبار سے کافر مسلمانوں پر غالب نہیں آسکتے (٣) کافروں کا ایسا غلبہ نہیں ہوگا کہ مسلمانوں کی دولت و شوکت کا بالکل ہی خاتمہ ہو جائے گا اور حرف غلط کی طرح دنیا کے نقشے سے ہی محو ہو جائیں گے۔ ایک حدیث صحیحہ سے بھی اس مفہوم کی تائید ہوتی ہے (٤) جب تک مسلمان اپنے دین کے عامل، باطل سے غیر راضی اور منکرات سے روکنے والے رہیں گے، کافر ان پر غالب نہ آسکیں گے۔ امام ابن العربی فرماتے ہیں ' یہ سب سے عمدہ معنی ہے کیونکہ اللہ تعالٰی کا فرمان ہے (وَمَا اَصَابَکُمْ مُّصِیبَۃٍ فَبَمَا کَسَبَتْ اَیْدِیْکُمْ) جو مصیبت تم پر واقع ہوتی ہے تمہارے اپنے فعلوں کی وجہ سے (فتح القدیر) گویا مسلمانوں کی اپنی کوتاہیوں کا نتیجہ ہے۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
جو تم کو دیکھتے رہتے ہیں اگر خدا کی طرف سے تم کو فتح ملے تو کہتے ہیں کیا ہم تمہارے ساتھ نہ تھے۔ اور اگر کافروں کو (فتح) نصیب ہو تو (ان سے) کہتے ہیں کیا ہم تم پر غالب نہیں تھے اور تم کو مسلمانوں (کے ہاتھ) سے بچایا نہیں۔ تو خدا تم میں قیامت کے دن فیصلہ کردے گا۔ اور خدا کافروں کو مومنوں پر ہرگز غلبہ نہیں دے گا
6 Muhammad Junagarhi
یہ لوگ تمہارے انجام کار کا انتظار کرتے رہتے ہیں پھر اگر تمہیں اللہ فتح دے تو یہ کہتے ہیں کہ کیا ہم تمہارے ساتھی نہیں اور اگر کافروں کو تھوڑا سا غلبہ مل جائے تو (ان سے) کہتے ہیں کہ ہم تم پر غالب نہ آنے لگے تھے اور کیا ہم نے تمہیں مسلمانوں کے ہاتھوں سے نہ بچایا تھا؟ پس قیامت میں خود اللہ تعالیٰ تمہارے درمیان فیصلہ کرے گا اور اللہ تعالیٰ کافروں کو ایمان والوں پر ہرگز راه نہ دے گا
7 Muhammad Hussain Najafi
یہ وہ لوگ ہیں جو تمہارے (انجام) کے منتظر رہتے ہیں۔ پھر اگر تمہیں اللہ کی طرف سے فتح و فیروزی حاصل ہوگئی تو کہتے ہیں کیا ہم تمہارے ساتھ نہ تھے؟ اور اگر کافروں کو (فتح کا) کچھ حصہ مل گیا تو (کافروں سے) کہتے ہیں۔ کیا ہم تم پر غالب نہیں آنے لگے تھے؟ اور کیا ہم نے تمہیں مسلمانوں سے نہیں بچایا؟ اب اللہ ہی قیامت کے دن تمہارے درمیان فیصلہ کرے گا۔ اور اللہ کبھی کافروں کے لیے مسلمانوں پر غالب آنے کا کوئی راستہ نہیں رکھے گا۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
یہ منافقین تمہارے حالات کا انتظار کرتے رہتے ہیں کہ تمہیں خدا کی طرف سے فتح نصیب ہو تو کہیں گے کیا ہم تمہارے ساتھ نہیں تھے اور اگر کفاّر کو کوئی حصّہ مل جائے گا تو ان سے کہیں گے کہ کیا ہم تم پر غالب نہیں آگئے تھے اور تمہیں مومنین سے بچا نہیں لیا تھا تو اب خدا ہی قیامت کے دن تمہارے درمیان فیصلہ کرے گا اور خدا کفاّر کے لئے صاحبان هایمان کے خلاف کوئی راہ نہیں دے سکتا
9 Tafsir Jalalayn
جو تم کو دیکھتے رہتے ہیں اگر خدا کی طرف سے تم کو فتح ملے تو کہتے ہیں کیا ہم تمہارے ساتھ نہ تھے ؟ اور اگر کافروں کو فتح نصیب ہو تو (ان سے) کہتے ہیں کیا ہم تم پر غالب نہیں تھے ؟ اور تم کو مسلمانوں کے ہاتھ سے بچایا نہیں ؟ تو خدا تم میں قیامت کے دن فیصلہ کر دے گا اور خدا کافروں کو مومنوں پر ہرگز غلبہ نہیں دے گا
10 Tafsir as-Saadi
پھر اللہ تبارک و تعالیٰ نے ذکر فرمایا کہ منافقین کی کفار کے ساتھ موالات اور اہل ایمان کے ساتھ عداوت متحقق ہے۔ ﴿الَّذِينَ يَتَرَبَّصُونَ بِكُمْ﴾ ” جو تم کو دیکھتے رہتے ہیں۔“ یعنی مستقبل میں تمہارے اچھے یا برے حالات کے منتظر ہیں۔ انہوں نے اپنے نفاق کے مطابق ہر حالت کے بارے میں جواب تیار کر رکھا ہے۔ ﴿فَإِن كَانَ لَكُمْ فَتْحٌ مِّنَ اللَّـهِ قَالُوا أَلَمْ نَكُن مَّعَكُمْ﴾ ” پھر اگر اللہ تمہیں فتح دے تو یہ کہتے ہیں کیا ہم تمہارے ساتھ نہیں تھے؟“ وہ ظاہر کریں گے کہ وہ ظاہری اور باطنی طور پر اہل ایمان کے ساتھ تھے تاکہ طعن و تشنیع سے بچ سکیں، نیز فے اور مال غنیمت میں سے حصہ وصول کرسکیں اور ان کے ساتھ مل کر وہ محفوظ رہیں۔ ﴿وَإِن كَانَ لِلْكَافِرِينَ نَصِيبٌ﴾” اور اگر کافروں کو کچھ حصہ مل جائے“ اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا کہ اگر کافروں کی فتح ہو کیونکہ ان کو ایسی فتح حاصل نہیں ہوتی جو ان کی دائمی نصرت کی ابتداء ہو۔ اگر ان کے لئے کوئی حصہ ہوتا ہے تو اس کی انتہا یہ ہے کہ وہ عارضی ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کی حکمت ہے، چنانچہ جب یہ صورتحال ہوتی ہے ﴿قَالُوا أَلَمْ نَسْتَحْوِذْ عَلَيْكُمْ﴾ ” تو کہتے ہیں کہ کیا ہم تم پر غالب نہ تھے“ ﴿وَنَمْنَعْكُم مِّنَ الْمُؤْمِنِينَ﴾ ” تم کو مسلمان کے ہاتھوں سے بچایا نہیں؟“ یعنی وہ کفار کے پاس بناوٹ اور تصنع سے کام لے کر ان سے کہتے تھے کہ قدرت اور طاقت کے باوجود انہوں نے ان سے لڑائی نہیں کی اور ان کو مسلمانوں سے بچائے رکھا اور وہ ہر لحاظ سے جنگ کے لئے گھر سے نکلنے سے رکے رہے، لڑائی سے گریز کرتے رہے اور مسلمانوں کے دشمنوں کی مدد کرتے رہے اور ان کے بارے میں یہ تمام امور معروف ہیں۔ ﴿فَاللّٰهُ يَحْكُمُ بَيْنَكُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ﴾ ” پس اللہ تعالیٰ قیامت کے روز ان کے درمیان فیصلہ کرے گا“ اور اہل ایمان کو، ظاہری اور باطنی طور پر، بدلے میں جنت عطا کرے گا اور منافق مردوں اور منافق عورتوں، مشرک مردوں اور مشرک عورتوں کو جہنم کے عذاب میں مبتلا کرے گا۔ ﴿وَلَن يَجْعَلَ اللّٰهُ لِلْكَافِرِينَ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ سَبِيلًا﴾ ” اور اللہ کافروں کو مومنوں پر ہرگز غلبہ نہیں دے گا۔“ یعنی اللہ کفار کو اہل ایمان پر کبھی تسلط اور غلبہ عطا نہیں کرے گا، بلکہ اہل ایمان کی ایک جماعت ہمیشہ حق پر قائم رہے گی۔ اللہ اس جماعت کی مدد کرے گا، جو ان سے علیحدہ ہوگا اور ان کی مخالفت کرے گا وہ ان کا کوئی نقصان نہیں کرسکے گا۔ اہل ایمان کی فتح و نصرت کے اسباب پیدا ہوتے چلے جائیں گے اور کفار کا تسلط ختم ہوتا چلا جائے گا اور اس کا واضح طور پر مشاہدہ ہوچکا ہے۔ حتیٰ کہ بعض مسلمان، جن پر کفار حکومت کرتے ہیں وہ ان کے ہاں قابل احترام ہیں وہ ان کے دین سے کوئی تعرض نہیں کرتے وہ ان کے ہاں کمزور اور ماتحت بن کر نہیں رہتے۔ بلکہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان کو پوری عزت عطا کی گئی ہے۔ اول و آخر اور ظاہر و باطن میں ہر قسم کی تعریف اللہ کے لئے ہے۔
11 Mufti Taqi Usmani
. ( aey musalmano ! ) yeh woh log hain jo tumharay ( anjam kay ) intizar mein bethay rehtay hain . chunacheh agar tumhen Allah ki taraf say fatah milay to ( tum say ) kehtay hain kay kiya hum tumharay sath naa thay ? aur agar kafiron ko ( fatah ) naseeb ho to ( unn say ) kehtay hain kay kiya hum ney tum per qaboo nahi paaliya tha-? aur kiya ( iss kay bawajood ) hum ney tumhen musalmanon say nahi bachaya bus abb to Allah hi qayamat kay din tumharay aur unn kay darmiyan faisla keray ga , aur Allah kafiron kay liye musalmanon per ghalib aaney ka hergiz koi raasta nahi rakhay ga .
12 Tafsir Ibn Kathir
عمل میں صفر دعویٰ میں اصلی مسلمان منافقوں کی بد باطنی کا ذکر ہے کہ مسلمانوں کی بربادی اس کی پستی کی تلاش میں لگے رہتے ہیں ٹوہ لیتے رہتے ہیں، اگر کسی جہاد میں مسلمان کامیاب و کامران ہوگئے اللہ کی مدد سے یہ غالب آگئے تو ان کے پیٹ میں گھسنے کے لئے آ آ کر کہتے ہیں کیوں جی ہم بھی تو تمہارے ساتھی ہیں اور اگر کسی وقت مسلمانوں کی آزمائش کے لئے اللہ جل شانہ نے کافروں کو غلبہ دے دیا جیسے احد میں ہوا تھا گو انجام کار حق ہی غالب رہا تو یہ ان کی طرف لپکتے ہیں اور کہتے ہیں دیکھو پوشیدہ طور پر تو ہم تمہاری تائید ہی کرتے رہے اور انہیں نقصان پہنچاتے رہے یہ ہماری ہی چالاکی تھی جس کی بدولت آج تم نے ان پر فتح پا لی۔ یہ ہیں ان کے کرتوت کہ دو کشتیوں میں پاؤں رکھ چھوڑتے ہیں " دھوبی کا کتا گھر کا نہ گھاٹ کا " گو یہ اپنی اس مکاری کو اپنے لئے باعث فخر جانتے ہوں لیکن دراصل یہ سرا ان کی بےایمانی اور کم یقینی کی دلیل ہے بھلا کچا رنگ کب تک رہتا ہے ؟ گاجر کی پونگی کب تک بجے گی ؟ کاغذ کی ناؤ کب تک چلے گی ؟ وقت آ رہا ہے کہ اپنے کئے پر نادم ہوں گے اپنی بیوقوفی پر ہاتھ ملیں گے اپنے شرمناک کرتوت پر ٹسوے بہائیں گے اللہ کا سچا فیصلہ سن لیں گے اور تمام بھلائیوں سے ناامید ہوجائیں گے۔ بھرم کھل جائے گا ہر راز فاش ہوجائے گا اندر کا باہر آجائے گا یہ پالیسی اور حکمت عملی یہ مصلحت وقت اور مقتضائے موقعہ نہایت ڈراؤنی صورت سے سامنے آجائے گا اور عالم الغیب کے بےپناہ عذابوں کا شکار بن جائیں گے ناممکن ہے کہ کافروں کو اللہ تعالیٰ مومنوں پر غالب کر دے، حضرت علی سے ایک شخص نے اس کا مطلب پوچھا تو آپ نے اول جملے کے ساتھ ملا کر پڑھ دیا۔ مطلب یہ تھا کہ قیامت کے دن ایسا نہ ہوگا، یہ بھی مروی ہے کہ سبیل سے مراد حجت ہے، لیکن تاہم اس کے ظاہری معنی مراد لینے میں بھی کوئی مانع نہیں یعنی یہ ناممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ اب سے لے کر قیامت تک کوئی ایسا وقت لائے کہ کافر اس قدر غلبہ حاصل کرلیں کہ مسلمانوں کا نام مٹا دیں یہ اور بات ہے کہ کسی جگہ کسی وقت دنیاوی طور پر انہیں غلبہ مل جائے لیکن انجام کار مسلمانوں کے حق میں ہی مفید ہوگا دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی فرمان الٰہی ہے ( اِنَّا لَنَنْصُرُ رُسُلَنَا وَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا فِي الْحَيٰوةِ الدُّنْيَا وَيَوْمَ يَقُوْمُ الْاَشْهَادُ ) 40 ۔ غافر :51) ہم اپنے رسولوں اور ایماندار بندوں کو مدد دنیا میں بھی ضرور دیں گے اور یہ معنی لینے میں ایک لطافت یہ بھی ہے کہ منافقوں کے دلوں میں مسلمانوں کو ذلت اور بربادی کا شکار دیکھنے کا جو انتظار تھا مایوس کردیا گیا کہ کفار کو مسلمانوں پر اللہ تعالیٰ اس طرح غالب نہیں کرے گا کہ تم پھولے نہ سماؤ اور کچھ لوگ جس ڈر سے مسلمانوں کا ساتھ کھلے طور پر نہ دیتے تھے ان کے ڈر کو بھی زائل کردیا کہ تم یہ نہ سمجھو کہ کسی وقت بھی مسلمان مٹ جائیں گے اسی مطلب کی وضاحت (فَتَرَى الَّذِيْنَ فِيْ قُلُوْبِهِمْ مَّرَضٌ يُّسَارِعُوْنَ فِيْهِمْ يَقُوْلُوْنَ نَخْشٰٓى اَنْ تُصِيْبَنَا دَاۗىِٕرَةٌ) 5 ۔ المائدہ :52) میں کردی ہے۔ اس آیت کریمہ سے حضرات علماء کرام نے اس امر پر بھی استدلال کیا ہے کہ مسلمان غلام کو کافر کے ہاتھ بیچنا جائز نہیں، کیونکہ اس صورت میں ایک کافر کو ایک مسلمان پر غالب کردینا ہے اور اس میں مسلمان کی ذلت ہے جن بعض ذی علم حضرات نے اس سودے کو جائز رکھا ہے ان کا فیصلہ ہے کہ وہ اپنی ملک سے اس کو اسی وقت آزاد کر دے۔