النساء آية ۱۴۲
اِنَّ الْمُنٰفِقِيْنَ يُخٰدِعُوْنَ اللّٰهَ وَهُوَ خَادِعُهُمْ ۚ وَاِذَا قَامُوْۤا اِلَى الصَّلٰوةِ قَامُوْا كُسَالٰى ۙ يُرَاۤءُوْنَ النَّاسَ وَلَا يَذْكُرُوْنَ اللّٰهَ اِلَّا قَلِيْلًا ۖ
طاہر القادری:
بیشک منافق (بزعمِ خویش) اللہ کو دھوکہ دینا چاہتے ہیں حالانکہ وہ انہیں (اپنے ہی) دھوکے کی سزا دینے والا ہے، اور جب وہ نماز کے لئے کھڑے ہوتے ہیں تو سستی کے ساتھ (محض) لوگوں کو دکھانے کیلئے کھڑے ہوتے ہیں اور اللہ کویاد (بھی) نہیں کرتے مگر تھوڑا،
English Sahih:
Indeed, the hypocrites [think to] deceive Allah, but He is deceiving them. And when they stand for prayer, they stand lazily, showing [themselves to] the people and not remembering Allah except a little,
1 Abul A'ala Maududi
یہ منافق اللہ کے ساتھ دھوکہ بازی کر رہے ہیں حالانکہ در حقیقت اللہ ہی نے انہیں دھوکہ میں ڈال رکھا ہے جب یہ نماز کے لیے اٹھتے ہں تو کسمساتے ہوئے محض لوگوں کو دکھانے کی خاطر اٹھتے ہیں اور خدا کو کم ہی یاد کرتے ہیں
2 Ahmed Raza Khan
بیشک منافق لوگ اپنے گمان میں اللہ کو فریب دیا چاہتے ہیں اور وہی انہیں غافل کرکے مارے گا اور جب نماز کو کھڑے ہوں تو ہارے جی سے لوگوں کو دکھاوا کرتے ہیں اور اللہ کو یاد نہیں کرتے مگر تھوڑا
3 Ahmed Ali
منافق الله کو فریب دیتے ہیں اور وہی ان کو فریب دے گا اور جب وہ نماز میں کھڑے ہوتے ہیں تو سست بن کر کھڑے ہوتے ہیں لوگو ں کو دکھا تے ہیں اور الله کو بہت کم یاد کرتے ہیں
4 Ahsanul Bayan
بیشک منافق اللہ سے چال بازیاں کر رہے ہیں اور وہ انہیں اس چالبازی کا بدلہ دینے والا ہے (١) اور جب نماز کو کھڑے ہوتے ہیں تو بڑی کاہلی کی حالت میں کھڑے ہوتے ہیں (٢) صرف لوگوں کو دکھاتے ہیں (٣) اور یاد الٰہی تو یونہی برائے نام کرتے ہیں (٤)۔
١٤٢۔١ اس کی مختصر تشریح سورہ بقرہ میں ہو چکی ہے۔
١٤٢۔٢ نماز اسلام کا اہم ترین رکن ہے اور اشرف ترین فرض ہے اور اس میں بھی کاہلی اور سستی کا مظاہرہ کرتے تھے، کیونکہ ان کا قلب ایمان، خشیت الٰہی اور خلوص سے محروم تھا۔ یہی وجہ تھی کہ عشاء اور فجر کی نماز بطور خاص ان پر بہت بھاری تھی جیسا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے، منافق پر عشاء اور فجر کی نماز سب سے بھاری ہے۔
١٤٢۔٣ یہ نماز بھی وہ صرف ریاکاری اور دکھلاوے کے لئے پڑھتے تھے تاکہ مسلمانوں کو فریب دے سکیں۔
١٤٢۔٤ اللہ کا ذکر تو برائے نام کرتے ہیں یا نماز مختصر سی پڑھتے ہیں، جب نماز اخلاص، خشیت الٰہی اور خشوع سے خالی ہو تو اطمینان سے نماز کی ادائیگی نہایت گراں ہوتی ہے۔ جیسا کہ (البقرہ۔٤٥) سے واضح ہے۔ حدیث میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ' یہ منافق کی نماز ہے، یہ منافق کی نماز ہے، یہ منافق کی نماز ہے کہ بیٹھا ہوا سورج کا انتظار کرتا رہتا ہے، یہاں تک کہ جب سورج شیطان کے دو سینگوں کے درمیان (طلوع کے قریب) ہو جاتا ہے تو اٹھتا ہے اور چار ٹھونگیں مار لیتا ہے (صحیح مسلم)
5 Fateh Muhammad Jalandhry
منافق (ان چالوں سے اپنے نزدیک) خدا کو دھوکا دیتے ہیں (یہ اس کو کیا دھوکا دیں گے) وہ انہیں کو دھوکے میں ڈالنے والا ہے اور جب یہ نماز کو کھڑے ہوتے ہیں تو سست اور کاہل ہو کر (صرف) لوگوں کے دکھانے کو اور خدا کی یاد ہی نہیں کرتے مگر بہت کم
6 Muhammad Junagarhi
بے شک منافق اللہ سے چالبازیاں کر رہے ہیں اور وه انہیں اس چالبازی کا بدلہ دینے واﻻ ہے اور جب نماز کو کھڑے ہوتے ہیں تو بڑی کاہلی کی حالت میں کھڑے ہوتے ہیں صرف لوگوں کو دکھاتے ہیں، اور یاد الٰہی تو یوں ہی سی برائے نام کرتے ہیں
7 Muhammad Hussain Najafi
منافق (بزعم خود) خدا کو دھوکہ دے رہے ہیں۔ حالانکہ وہ انہیں دھوکے میں رکھ رہا ہے (انہیں ان کی دھوکہ بازی کی سزا دینے والا ہے) اور جب وہ نماز کے لئے کھڑے ہوتے ہیں۔ تو بے دلی اور کاہلی کے ساتھ وہ بھی خلوص نیت سے نہیں بلکہ محض لوگوں کو دکھانے کے لیے۔ اور اللہ کو یاد نہیں کرتے مگر تھوڑ۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
منافقین خدا کو دھوکہ دینا چاہتے ہیں اور خدا ان کو دھوکہ میں رکھنے والا ہے اور یہ نماز کے لئے اٹھتے بھی ہیں تو سستی کے ساتھ- لوگوں کو دکھانے کے لئے عمل کرتے ہیں اور اللہ کو بہت کم یاد کرتے ہیں
9 Tafsir Jalalayn
منافق (ان چالوں سے اپنے نزدیک) خدا کو دھوکا دیتے ہیں (یہ اس کو کیا دھوکا دیں گے) وہ انہیں کو دھوکے میں ڈالنے والا ہے اور جب یہ نماز کو کھڑے ہوتے ہیں تو سست اور کاہل ہو کر (صرف) لوگوں کے دکھانے کو اور خدا کی یاد ہی نہیں کرتے مگر بہت کم
آیات نمبر ١٤٢ تا ١٤٧
ترجمہ : بیشک منافقین اپنے پوشیدہ کفر کے خلاف ظاہر کرکے تاکہ اپنے اوپر سے دینوی احکام کو دفع کو سکیں اللہ کے ساتھ چال چل رہے ہیں اور وہ انھیں ان کی چالبازی کا بدلہ دینے والا ہے چناچہ وہ دنیا میں اللہ کے اپنے بنی کو ان کے پوشیدہ کفر پر مطلع کرنے کی وجہ سے رسوا ہوں گے اور آخرت میں سزا دیئے جائیں گے، اور جب یہ لوگ مومنوں کے ساتھ نماز کے لئے کھڑے ہوتے ہیں تو بہت ہی کاہلی سے کھڑے ہوتے ہیں (اپنی نماز) لوگوں کو دکھاتے ہیں اور اللہ کا ذکر تو بس یوں ہی برائے نام کرتے ہیں کفر اور ایمان کے درمیان معلق ہیں نہ (پورے) کافروں کی طرف منسوب ہیں اور نہ مومنوں کی طرف اور اللہ جسے گمراہ رکھے تو، تو اس کے لئے ہدایت کا کوئی راستہ نہ پائیگا، اے ایمان والو ! مومنوں کو چھوڑ کر کافروں کو دوست نہ بناؤ کیا تم چاہتے ہو کہ ان کی دوستی سے اپنے اوپر اپنے نفاق پر صریح حجت قائم کرلو، یقینا منافق دوزخ کے سب سے نیچے طبقہ میں ہوں گے، اور وہ جہنم کا سب سے نیچے کا طبقہ ہے، اور تو ان کا کوئی مددگار نہ پائیگا یعنی عذاب سے بچانے والا مگر وہ لوگ جو نفاق سے توبہ کرلیں اور اپنے عمل کی اصلاح کرلیں اور اللہ کی رسی کو تھامے رہیں اور اپنے دین کو اللہ کے لئے ریا کاری سے خالص کریں تو یہ لوگ جنتوں میں مومنوں کے ساتھ ہوں گے اور اللہ مومن کو عنقریب اجر عظیم دے گا اور وہ جنت ہے اللہ تم کو سزا دے کر کیا کرے گا ؟ اگر تم اس کی نعمتوں کی شکر گذاری کرتے رہو اور ایمان رکھو اور استفہام بمعنی نفی ہے یعنی تم کو سزا نہ دے گا، اور اللہ تعالیٰ مومنوں کو اجر عطاکرکے ان کے اعمال کا بڑا قدردان ہے اور اپنی مخلوق سے باخبر ہے۔
تحقیق و ترکیب و تسہیل و تفسیری فواید
قولہ : یُجازِیْھِمْ ، یہ ایک سوال مقدر کا جواب ہے۔
سوال : یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف خداع کی نسبت درست نہیں ہے اسلئے کہ خداع صفت قبیح ہے اللہ تعالیٰ اس سے وراء الوراء ہے۔
جواب : یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے لئے خداع کا استعمال مشاکلت کے طور پر ہے یہ جزاء السیئة سیئة کے قبیل سے ہے، یعنی جزاء خداع کو خداع سے تعبیر کردیا گیا ہے۔
قولہ : کُسَالیٰ ، کَسْلان کی جمع ہے، سست کاہل۔
قولہ : یُرَائُ ؤنَ جمع مذکر غائب (مفاعلة) وہ دکھاوا کرتے ہیں۔
قولہ : مَنْسُوْبِیْنَ ، اس اضافہ کا مقصد اس اعتراض کا جواب ہے کہ \&\& لا اِلیٰ ھٰؤ لائ \&\& میں حرف لا کا، حرف اِلیٰ پر داخل ہونا لازم آرہا ہے، حالانکہ حرف کا حرف پر داخل ہونا درست نہیں ہے۔
جواب : لا، اِلیٰ پر داخل نہیں ہے بلکہ منسوبین پر داخل ہے۔
قولہ : المَکَان .
سوال : اَلدّرکِ ، کی تفسیر مفسرّ علاّم نے طبقة کی بجائے مکان سے کیوں کی ؟
جواب : الا سفل چونکہ مذکر ہے لہذا دَرْک بمعنی طبقة کی صفت واقع نہیں ہوسکتی۔
قولہ : وَالاِ سْتِفْھَامُ بِمَعْنَی النَّفْیِ ، یعنی اللہ کے قول مایفعل اللہ بِعَذَابِکُمْ. میں استفہام بمعنی نفی ہے لہذا یہ اعتراض ختم ہوگیا کہ استفہام اللہ کے لئے محال ہے۔
قولہ : بِالاِثَابَةِ ، یہ اس شبہ کا جواب ہے کہ شکر نعمت منعم کے اظہار کو کہتے ہیں اور یہ ذات باری کے لئے محال ہے۔
جواب : یہاں شکر سے عمل کا اجر وثواب عطاء کرکے قدردانی مقصود ہے۔
تفسیر وتشریح
اِنَّ المنافقین یخٰدِعونَ اللہ وَھُو خَادِعُھمْ وَاِذَا قامُوْا اِلی الصلوةِ قاموا کُسَالیٰ نماز اسلام کا اہم ترین رکن اور افضل ترین فرض ہے منافقین اس میں بھی کاہلی اور سستی کرتے تھے کیونکہ ان کا قلب ایمان، خلوص، خشیت الہٰی سے عاری تھا یہی وجہ تھی کہ عشاء اور فجر کی نماز ان کر خاص طور پر گراں گذرتی تھی، جیسا کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا فرمان ہے اثقل الصلوةِ علی المنافقین صلوة العشاء وصلوة الفجر (صحیح بخاری) منافقین پر عشاء اور فجر کی نماز سب سے زیادہ گراں گذرتی ہے۔
نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانہ میں کوئی شخص مسلمانوں کی جماعت میں شمار ہی نہیں ہوسکتا تھا جب تک کہ وہ نماز کا پابند نہ ہو جس طرح تمام دینوی جماعتیں اور تنظی میں اپنے اجتماعات میں کسی رکن کے بلا عذر شریک نہ ہونے کو اس کی جماعت سے عدم دلچسپی پر محمول کرتی ہیں اور مسلسل چند اجتماعات سے غیر حاضر رہنے سے اسے ممبری سے خارج کردیتی ہیں اسی طرح اسلامی جماعت کے کسی رکن کا نماز باجماعت سے بلا عذر شرعی غیر حاضر رہنا اس زمانہ میں اس بات کی صریح دلیل سمجھا جاتا تھا کہ وہ مسلمان نہیں ہے ایک حدیث میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا \&\& کہ جو شخص مسلسل تین جمعوں میں شریک نہ ہو وہ مسلمان نہیں ہے \&\& یہی وجہ تھی کہ سخت سے سخت منافق کو بھی نماز با جماعت سے غیر حاضری کی ہمت نہیں ہوتی تھی البتہ جو چیز ان کو سچے ایمان سے تمیز کرتی تھی وہ تھی کہ سچے مومن ذوق و شوق سے آتے تھے اور وقت سے پہلے ہی مسجدوں میں پہنچ جاتے تھے اور نماز سے فارغ ہونے کے بعد بھی مسجدوں میں ٹھہرے رہتے تھے، بخلاف منافقوں کے کہ اذان ہوتے ہی ان کی جان پر بن آتی تھی اور دل پر جبر کرکے اٹھتے تھے، ان کے قدم گراں ہوجاتے تھے ایسا معلوم ہوتا کہ وہ اپنے آپ کو زبردستی کھینچ کر لارہے ہیں۔
مسئلہ : قاموا کسالی، جس کسل کی یہاں مذمت ہے وہ اعتقادی کسل ہے اور جو باوجود اعتقاد صحیح کے کس ہو وہ اس سے خارج ہے پھر اگر عذر سے ہو مثلاً مرض، تعب، غلبہ نوم تو قابل مذمت بھی نہیں اور اگر بغیر عذر ہو تو مذمت ہے۔ (بیان القرآن)
اور منافقین سستی و کاہلی کے ساتھ نماز پڑھتے تھے وہ صرف ریا کاری کے لئے پڑھتے تھے تاکہ مسلمانوں کو فریب دے سکیں۔
10 Tafsir as-Saadi
اللہ تبارک و تعالیٰ منافقین کی قبیح صفات اور مکروہ علامات کے بارے میں آگاہ فرماتا ہے نیز یہ کہ ان کا طریق اللہ کو فریب دینا ہے یعنی بظاہر وہ مومن ہیں مگر باطن میں کافر ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ وہ اللہ تعالیٰ کو دھوکہ دے دیں گے اور اللہ تعالیٰ کو ان کے کرتوتوں کا علم نہیں اور وہ ان کا دھوکا اپنے بندوں پر ظاہر نہیں کرے گا حالانکہ اللہ تعالیٰ خود ان کو دھوکے میں مبتلا کر رہا ہے۔ ان کا مجرد یہ حال ہونا اور اس راستے پر گامزن رہنا ان کا اپنے آپ کو دھوکے میں مبتلا کرنا ہے بھلا اس سے بڑا دھوکہ اور کیا ہوسکتا ہے کہ کوئی شخص پوری دوڑ دھوپ کرے مگر اس کا ماحصل رسوائی، ذلت اور محرومی کے سوا کچھ نہ ہو۔ یہ چیز اس شخص کی کم عقلی پر دلالت کرتی ہے کہ وہ معصیت کا ارتکاب کرتا ہے اور اسے نیکی خیال کرتا ہے اور اسے بڑی عقل مندی اور چال بازی سمجھتا ہے۔ اللہ ہی جانتا ہے کہ جہالت اور خذلان اسے کس انجام پر پہنچائیں گے۔
قیامت کے روز ان کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا دھوکہ یہ ہوگا۔ جس کا ذکر اللہ تعالیٰ نے یوں فرمایا ہے :
﴿یَوْمَ یَقُوْلُ الْمُنٰفِقُوْنَ وَالْمُنٰفِقٰتُ لِلَّذِیْنَ اٰمَنُوا انْظُرُوْنَا نَقْتَبِسْ مِنْ نُّوْرِکُمْ٠ۚ قِیْلَ ارْجِعُوْا وَرَاۗءَکُمْ فَالْتَمِسُوْا نُوْرًا٠ۭ فَضُرِبَ بَیْنَہُمْ بِسُوْرٍ لَّہٗ بَابٌ٠ۭ بَاطِنُہٗ فِیْہِ الرَّحْمَۃُ وَظَاہِرُہٗ مِنْ قِبَلِہِ الْعَذَابُ١٣ۭ یُنَادُوْنَہُمْ اَلَمْ نَکُنْ مَّعَکُمْ﴾ (سورہ حدید آیت57؍ 13-14)
” اس روز منافق مرد اور منافق عورتیں اہل ایمان سے کہیں گے ٹھہرو ! ہم بھی تمہارے نور سے روشنی حاصل کرلیں ! ان سے کہا جائے گا پیچھے لوٹ جاؤ اور وہاں روشنی تلاش کرو، پھر ان کے درمیان ایک دیوار کھڑی کردی جائے گی جس میں ایک دروازہ ہوگا جس کے اندروین جانب رحمت ہوگی اور بیروین جانب عذاب، منافق پکارپکار کر اہل ایمان سے کہیں گے کیا ہم تمہارے ساتھ نہ تھے؟“
ان منافقین کی صفات یہ ہیں۔ ﴿وَإِذَا قَامُوا إِلَى الصَّلَاةِ﴾” جب وہ نماز کے لئے کھڑے ہوتے ہیں۔“ نماز جو کہ سب سے بڑی عملی نیکی ہے۔ اگر وہ نماز کے لئے کھڑے ہو ہی جاتے ہیں﴿قَامُوا كُسَالَىٰ﴾ ” تو سست ہو کر۔“ یعنی بوجھل پن کے ساتھ تنگ دل اور زچ ہو کر اٹھتے ہیں۔
” کاہلی“ کا اطلاق ان پر تب ہوتا ہے جب ان کے دلوں میں رغبت کا فقدان ہو، اگر ان کے دل اللہ تعالیٰ اور اس کے ثواب کی طرف رغبت سے خالی نہ ہوتے اور ان میں ایمان معدوم نہ ہوتا تو ان سے سستی اور کسل مندی کبھی صادر نہ ہوتی۔ ﴿يُرَاءُونَ النَّاسَ﴾ ” لوگوں کے دکھانے کو۔“ یعنی یہ ان کی فطرت ہے اور یہی ان کے اعمال کا مصدر ہے۔ ان کے اعمال لوگوں کے دکھاوے کے لئے ہیں ان کا مقصد محض ریا کاری اور لوگوں سے تعظیم اور احترام حاصل کرنا ہے۔ اپنے اعمال کو اللہ کے لئے خالص نہیں کرتے۔ لہٰذا فرمایا : ﴿وَلَا يَذْكُرُونَ اللَّـهَ إِلَّا قَلِيلًا﴾ ” اور اللہ کا ذکر نہیں کرتے مگر بہت کم۔“ کیونکہ ان کے دل ریا سے لبریز ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا ذکر اور اس کا التزام صرف مومن ہی کرسکتا ہے، کیونکہ اس کا دل اللہ تعالیٰ کی محبت اور عظمت سے لبریز ہے۔
11 Mufti Taqi Usmani
yeh munafiq Allah kay sath dhoka bazi kertay hain , halankay Allah ney unhen dhokay mein daal rakha hai . aur jab yeh log namaz kay liye kharray hotay hain to kusmusatay huye kharray hotay hain , logon kay samney dikhawa kertay hain , aur Allah ko thora hi yaad kertay hain
12 Tafsir Ibn Kathir
دو ریوڑ کے درمیان کی بکری
سورة بقرہ کے شروع میں بھی (يُخٰدِعُوْنَ اللّٰهَ وَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا ۚ وَمَا يَخْدَعُوْنَ اِلَّآ اَنْفُسَھُمْ وَمَا يَشْعُرُوْنَ ) 2 ۔ البقرۃ :9) اسی مضمون کی گذر چکی ہے، یہاں بھی یہی بیان ہو رہا ہے کہ یہ کم سمجھ منافق اس اللہ تعالیٰ کے سامنے چالیں چلتے ہیں جو سینوں میں چھپی ہوئی باتوں اور دل کے پوشیدہ رازوں سے آگاہ ہے۔ کم فہمی سے یہ خیال کئے بیٹھے ہیں کہ جس طرح ان کی منافقت اس دنیا میں چل گئی اور مسلمانوں میں ملے جلے رہے اسی طرح اللہ تعالیٰ کے پاس بھی یہ مکاری چل جائے گی۔ چناچہ قرآن میں ہے کہ قیامت کے دن بھی یہ لوگ اللہ خبیر وعلیم کے سامنے اپنی یک رنگی کی قسمیں کھائیں گے جیسے یہاں کھاتے ہیں لیکن اس عالم الغیب کے سامنے یہ ناکارہ قسمیں ہرگز کارآمد نہیں ہوسکتیں۔ اللہ بھی انہیں دھوکے میں رکھ رہا ہے وہ ڈھیل دیتا ہے حوصلہ افزائی کرتا ہے یہ پھولے نہیں سماتے خوش ہوتے ہیں اور اپنے لئے اسے اچھائی سمجھتے ہیں، قیامت میں بھی ان کا یہی حال ہوگا مسلمانوں کے نور کے سہارے میں ہوں گے وہ آگے نکل جائیں گے یہ آوازیں دیں گے کہ ٹھہرو ہم بھی تمہاری روشنی میں چلیں جواب ملے گا کہ پیچھے مڑ جاؤ اور روشنی تلاش کر لاؤ یہ مڑیں گے ادھر حجاب حائل ہوجائے گا۔ مسلمانوں کی جانب رحمت اور ان کے لئے زحمت، حدیث شریف میں ہے جو سنائے گا اللہ بھی اسے سنائے گا اور جو ریا کاری کرے گا اللہ بھی اسے ویسا ہی دکھائے گا۔ ایک اور حدیث میں ہے ان منافقوں میں وہ بھی ہوں گے کہ لوگوں کے سامنے اللہ تعالیٰ ان کی نسبت فرمائے گا کہ انہیں جنت میں لے جاؤ فرشتے لے جا کر دوزخ میں ڈال دیں گے اللہ اپنی پناہ میں رکھے۔ پھر ان منافقوں کی بد ذوقی کا حال بیان ہو رہا ہے کہ انہیں نماز جیسی بہترین عبادت میں بھی یکسوئی اور خشوع و خضوع نصیب نہیں ہوتا کیونکہ نیک نیتی حسن عمل، حقیقی ایمان، سچا یقین، ان میں ہے ہی نہیں حضرت ابن عباس تھکے ماندے بدن سے کسما کر نماز پڑھنا مکروہ جانتے تھے اور فرماتے تھے نمازی کو چاہئے کہ ذوق و شوق سے راضی خوشی پوری رغبت اور انتہائی توجہ کے ساتھ نماز میں کھڑا ہو اور یقین مانے کہ اس کی آواز پر اللہ تعالیٰ کے کان ہیں، اسکی طلب پوری کرنے کو اللہ تعالیٰ تیار ہے، یہ تو ہوئی ان منافقوں کی ظاہری حالت کہ تھکے ہارے تنگ دلی کے ساتھ بطور بیگار ٹالنے کے نماز کے لئے آئے پھر اندرونی حالت یہ ہے کہ اخلاص سے کوسوں دور ہیں رب سے کوئی تعلق نہیں رکھتے نمازی مشہور ہونے کے لئے لوگوں میں اپنے ایمان کو ظاہر کرنے کے لئے نماز پڑھ رہے ہیں، بھلا ان صنم آشنا دل والوں کو نماز میں کیا ملے گا ؟ یہی وجہ ہے کہ ان نمازوں میں جن میں لوگ ایک دوسرے کو کم دیکھ سکیں یہ غیر حاضر رہتے ہیں مثلاً عشاء کی نماز اور فجر کی نماز، بخاری مسلم میں ہے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرماتے ہیں سب سے زیادہ بوجھل نماز منافقوں پر عشاء اور فجر کی ہے، اگر دراصل یہ ان نمازوں کے فضائل کے دل سے قائل ہوتے تو گھٹنوں کے بل بھی چل کر آنا پڑتا یہ ضرور آجاتے ہیں تو ارادہ کر رہا ہوں کہ تکبیر کہلوا کر کسی کو اپنی امامت کی جگہ کھڑا کر کے نماز شروع کرا کر کچھ لوگوں سے لکڑیاں اٹھوا کر ان کے گھروں میں جاؤں جو جماعت میں شامل نہیں ہوتے اور لکڑیاں ان کے گھروں کے اردگرد لگا کر حکم دوں کہ آگ لگا دو اور ان کے گھروں کو جلا دو ، ایک روایت میں ہے اللہ تعالیٰ کی قسم اگر انہیں ایک چرب ہڈی یا دو اچھے کھر ملنے کی امید ہو تو دوڑے چلے آئیں لیکن آخرت کی اور اللہ کے ثوابوں کی انہیں اتنی بھی قدر نہیں۔ اگر بال بچوں اور عورتوں کا جو گھروں میں رہتی ہیں مجھے خیال نہ ہوتا تو قطعاً میں ان کے گھر جلا دیتا، ابو یعلی میں ہے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرماتے ہیں جو شخص لوگوں کی موجودگی میں نماز کو سنوار کر ٹھہر ٹھہر کر ادا کرے لیکن جب کوئی نہ ہو تو بری طرح نماز پڑھ لے یہ وہ ہے جس نے اپنے رب کی اہانت کی۔ پھر فرمایا یہ لوگ ذکر اللہ بھی بہت ہی کم کرتے ہیں یعنی نماز میں ان کا دل نہیں لگتا، یہ اپنی کہی ہوئی بات سمجھتے بھی نہیں، بلکہ غافل دل اور بےپرواہ نفس سے نماز پڑھ لیتے ہیں، آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرماتے ہیں یہ نماز منافق کی ہے یہ نماز منافق کی ہے کہ بیٹھا ہوا سورج کی طرف دیکھ رہا ہے یہاں تک کہ جب وہ ڈوبنے لگا اور شیطان نے اپنے دونوں سینگ اس کے اردگرد لگا دیئے تو یہ کھڑا ہوا اور جلدی جلدی چار رکعت پڑھ لیں جن میں اللہ کا ذکر برائے نام ہی کیا (مسلم وغیرہ) یہ منافق متحیر اور ششدر و پریشان حال ہیں ایمان اور کفر کے درمیان ان کا دل ڈانوا ڈول ہو رہا ہے نہ تو صاف طور سے مسلمانوں کے ساتھی ہیں نہ بالکل کفار کے ساتھ کبھی نور ایمان چمک اٹھا تو اسلام کی صداقت کرنے لگے کبھی کفر کی اندھیریاں غالب آگئیں تو ایمان سے الگ تھلگ ہوگئے۔ نہ تو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے صحابہ کی طرف ہیں نہ یہودیوں کی جانب۔ رسول مقبول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے کہ منافق کی مثال ایسی ہے جیسی دو ریوڑ کے درمیان کی بکری کہ کبھی تو وہ میں میں کرتی اس ریوڑ کی طرف دوڑتی ہے کبھی اس طرف اس کے نزدیک ابھی طے نہیں ہوا کہ ان میں جائے یا اس کے پیچھے لگے۔ ایک روایت میں ہے کہ اس معنی کی حدیث حضرت عبید بن عمیر نے حضرت عبداللہ بن عمر کی موجودگی میں کچھ الفاظ کے ہیر پھیر سے بیان کی تو حضرت عبداللہ نے اپنے سنے ہوئے الفاظ دوہرا کر کہا یوں نہیں بلکہ دراصل حدیث یوں ہے جس پر حضرت عبید ناراض ہوئے (ممکن ہے ایک بزرگ نے ایک طرح کے الفاظ سنے ہوں دوسرے نے دوسری قسم کے) ابن ابی حاتم میں ہے مومن کافر اور منافق کی مثال ان تین شخصوں جیسی ہے جو ایک دریا پر گئے ایک تو کنارے ہی کھڑا رہ گیا دوسرا پار ہو کر منزل مقصود کو پہنچ گیا تیسرا اتر چلا مگر جب بیچوں بیچ پہنچا تو ادھر والے نے پکارنا شروع کیا کہ کہاں ہلاک ہونے جا رہا ہے ادھر آ واپس چلا آ، ادھر والے نے آواز دی جاؤ نجات کے ساتھ منزل مقصود پر میری طرف پہنچ جاؤ آدھا راستہ طے کرچکے ہو اب یہ حیران ہو کر کبھی ادھر دیکھتا ہے کبھی ادھر نظر ڈالتا ہے تذبذب ہے کہ کدھر جاؤں کدھر نہ جاؤں ؟ اتنے میں ایک زبردست موج آئی اور بہا کرلے گئی اور وہ غوطے کھا کھا کر مرگیا، پس پار جانے والا مسلمان ہے کنارے کھڑا بلانے والا کافر ہے اور موج میں ڈوب مرنے والا منافق ہے، اور حدیث میں ہے منافق کی مثال اس بکری جیسی ہے جو ہرے بھرے ٹیلے پر بکریوں کو دیکھ کر آئی اور سونگھ کر چل دی، پھر دوسرے ٹیلے پر چڑھی اور سونگھ کر آگئی۔ پھر فرمایا جسے اللہ ہی راہ حق سے پھیر دے اس کا ولی و مرشد کون ہے ؟ اس کے گمراہ کردہ کو کون راہ دکھا سکے ؟ اللہ نے منافقوں کو ان کی بدترین بدعملی کے باعث راستی سے دھکیل دیا ہے اب نہ کوئی انہیں راہ راست پر لاسکے نہ چھٹکارا دلا سکے، اللہ کی مرضی کے خلاف کون کرسکتا ہے وہ سب پر حاکم ہے اسی پر کسی کی حکومت نہیں۔