اور تمہاری بیویوں کی بیٹیاں۔ اور زیر تربیت لڑکیاں تمہاری
who
ٱلَّٰتِى
وہ جو
(are) in
فِى
میں
your guardianship
حُجُورِكُم
تمہاری گودوں میں ہیں
of
مِّن
سے
your women
نِّسَآئِكُمُ
تمہاری بیویوں میں
whom
ٱلَّٰتِى
وہ جو
you had relations
دَخَلْتُم
دخول کیا تم نے
with them
بِهِنَّ
ساتھ ان کے
but if
فَإِن
پھر اگر
not
لَّمْ
نہیں
you had
تَكُونُوا۟
تم ہو
relations
دَخَلْتُم
دخول کرچکے
with them
بِهِنَّ
ان پر
then (there is) no
فَلَا
تو نہیں
sin
جُنَاحَ
کوئی گناہ
on you
عَلَيْكُمْ
تم پر
And wives
وَحَلَٰٓئِلُ
اور بیویاں
(of) your sons
أَبْنَآئِكُمُ
تمہارے بیٹوں کی
those who
ٱلَّذِينَ
وہ جو
(are) from
مِنْ
سے
your loins
أَصْلَٰبِكُمْ
تمہاری پشت سے ہیں
and that
وَأَن
اور یہ کہ
you gather together
تَجْمَعُوا۟
تم جمع کرو
[between]
بَيْنَ
درمیان
two sisters
ٱلْأُخْتَيْنِ
دو بہنوں کے
except
إِلَّا
مگر
what
مَا
جو
has
قَدْ
تحقیق
passed before
سَلَفَۗ
گزر چکا
Indeed
إِنَّ
بیشک
Allah
ٱللَّهَ
اللہ
is
كَانَ
ہے
Oft-Forgiving
غَفُورًا
بخشنے والا
Most-Merciful
رَّحِيمًا
مہربان
تفسیر کمالین شرح اردو تفسیر جلالین:
تم پر تمہاری مائیں اور بیٹیاں اور بہنیں اور پھوپھیاں اور خالائیں اور بھتیجیاں اور بھانجیاں اور وہ مائیں جنہوں نے تم کو دودھ پلایا اور رضاعی بہنیں اور ساسیں حرام کردی گئی ہیں اور جن عورتوں سے تم مباشرت کرچکے ہو ان کی لڑکیاں جنہیں تم پرورش کرتے ہو (وہ بھی حرام ہیں) ہاں اگر ان کے ساتھ تم نے مباشرت نہ کی ہو تو (تو ان کی لڑکیوں کے ساتھ نکاح کرلینے میں) تم پر کچھ گناہ نہیں تمہارے صلبی بیٹوں کی عورتیں بھی اور دو بہنوں کا اکٹھا کرنا بھی (حرام ہے) مگر جو ہوچکا (سو ہوچکا) بیشک خدا بخشنے والا (اور) رحم والا ہے لفظ اُمّھَاتُکم کے عموم میں دادیاں اور نانیاں سب داخل ہیں، اسی طرح بنْتکم، میں اپنی صلبی لڑکیاں اور لڑکے کی لڑکی اور لڑکی کی لڑکی بھی حرام ہے۔ خلاصہ یہ کہ بیٹیم پوتی، پڑپوتی، نواسی پڑنواسی ان سب سے نکاح حرام ہے، اور سوتیلی لڑکی جو دوسرے شوہر کی ہو اور بیوی ساتھ لائی ہو اس سے نکاح کرنے نہ کرنے میں تفصیل ہے جو آگے آرہی ہے اور جو لڑکا لڑکی صلبی نہ ہو بلکہ گود لے کر پال لیا ہو ان سے اور ان کی اولاد سے نکاح جائز ہے بشرطیکہ کسی دوسرے طریقہ سے حرمت نہ آئی ہو، اسی طرح اگر کسی شخص نے کسی عورت سے زنا کیا تو اس نطفہ سے جو لڑکی پیدا ہو وہ بھی بیٹی کے حکم میں ہے، اس سے بھی نکاح درست نہیں۔ وَاَخَوَاتُکُمْ ، اپنی حقیقی بہن سے نکاح حرام ہے، اور علاتی اور اخیافی بہن سے بھی نکاح حرام ہے۔ وَعَمّٰتُکُمْ ، اپنے باپ کی حقیقی بہن نیز علاقی یا اخیافی بہن ان تینوں سے نکاح حرام ہے غرضیکہ تینوں قسم کی پھوپھیوں سے نکاح نہیں ہوسکتا۔ وَخٰلٰتَکُمْ ، اپنی والدہ کی بہن (خالہ) خواہ حقیقی ہو یا علاقی یا اخیافی کسی سے بھی نکاح نہیں ہوسکتا۔ وَبَنٰتُ الْأَخ، بھائی کی لڑکیوں یعنی بھتیجیوں سے بھی نکاح حرام ہے خواہ حقیقی ہوں یا علاقی واخیافی۔ وَبَنٰتُ الْاُخْتِ ، بہن کی لڑکیوں یعنی بھانجیوں سے بھی نکاح حرام ہے اور یہاں بھی وہی تعمیم ہے کہ خواہ حقیقی بھانجی ہو یا علاقی واخیافی۔ وَاُمَّھٰتُکُمُ الّٰتِی اَرْضَعْنَکُمْ ، اور جن عورتوں کا دودھ تم نے پیا ہے اگرچہ وہ حقیقی مائیں نہ ہوں وہ بھی حرمت نکاح کے بارے میں والدہ کے حکم میں ہیں اور ان سے بھی نکاح حرام ہے تھوڑا دودھ پیا ہو یا زیادہ ایک مرتبہ یا متعدد بار، فقہاء کی اصطلاح میں اس کو حرمت رضاعت سے تعبیر کرتے ہیں۔ حرمت رضاعت کی مدت : یہ بات یاد رکھنا ضروری ہے کہ حرمت رضاعت اسی زمانہ میں دودھ پینے سے ثابت ہوتی ہے جو دودھ پینے کا زمانہ ہوتا ہے، حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے ” اِنَّمَا الرضاعَۃُ مِنَ المجاعَۃِ “ یعنی رضاعت سے جو حرمت ثابت ہوگی وہ اسی زمانہ کے دودھ پینے سے ہوگی جس زمانہ میں دودھ پینے سے بچے کا نشو و نما ہوتا ہے۔ (بخاری و مسلم) اور یہ مدت امام ابوحنیفہ (رح) تعالیٰ کے نزدیک بچے کی پیدائش سے لیکر ڈھائی سال تک ہے اور دیگر فقہاء کے نزدیک جس میں امام ابوحنیفہ کے مخصوص شاگرد امام ابویوسف اور امام محمد رحمہا اللہ تعالیٰ بھی ہیں اس بات کے قائل ہیں کہ اس مدت کے بعد دودھ پینے سے حرمت رضاعت ثابت نہیں ہوتی۔ وَاَخَوَاتُکُمْ مِّنَ الرَّضَاعَۃِ ، یعنی رضاعت کے رشتہ سے جو بہن ہے اس سے بھی نکاح کرنا حرام ہے تفصیل اس کی یوں ہے کہ جب کسی لڑکے یا لڑکی نے ایام رضاعت میں عورت کا دودھ پی لیا تو وہ عورت ان کی رضاعی ماں بن گئی، اور اس عورت کا شوہر ان کا رضاعی باپ بن گیا، اور اس عورت کی بہنیں ان کی خالائیں بن گئیں اور اس عورت کے جیٹھ دیور ان بثوں کے رضاعی چچا بن گئے، اور اس عورت کے شوہر کی بہنیں ان بچوں کی پھوپھیاں بن گئیں، اور ان میں باہم حرمت رضاعت ثابت ہوگئی، نسب کے رشتہ سے جو نکاح آپس میں حرام ہے، رضاعت کے رشتہ سے بھی حرام ہوجاتا ہے، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے ” اِنَّ اللہ حَرّمَ مِنَ الحضانۃ مَا حَرّم مِنَ النسب۔ (مشکوۃ) مسئلہ : جس طرح رضاعی بہن سے نکاح نہیں ہوسکتا رضاعی بھانجی سے بھی نکاح نہیں ہوسکتا۔ مسئلہ : رضاعی بھائی یا رضاعی بہن کی نسبی ماں سے نکاح جائز ہے اور نسبی بہن کی رضاعی ماں سے بھی نکاح جائز ہے اور رضاعی بہن کی نسبی بہن اور نسبی بہن کی رضعی بہن سے بھی نکاح جائز ہے۔ مسئلہ : منہ یا ناک کے ذریعہ ایام رضاعت میں دودھ اندر جانے سے حرمت ثابت ہوجاتی ہے اور اگر اور کسی راستہ سے دودھ پہنچا دیا جائے یا دودھ کا انجکشن لگا دیا جائے تو حرمت رضاعت ثابت نہ ہوگی۔ (معارف القرآن) مسئلہ : دودھ اگر دوا میں یا بکری یا گائے بھینس کے دودھ میں ملا ہوا ہو تو اس سے حرمت رضاعت اس وقت ثابت ہوگی جب عورت کا دودھ غالب یا برابر ہو لیکن اگر عورت کا دودھ کم ہے تو حرمت ثابت نہ ہوگی۔ مسئلہ : اگر مرد کے دودھ نکل آئے اور بچہ پی لے تو اس سے حرمت ثابت نہ ہوگی۔ مسئلہ : اگر دودھ پینے کا شک ہو تو حرمت رضاعت ثابت نہ ہوگی۔ اگر بچے کے منہ میں پستان دیا لیکن دودھ جانے کا یقین نہ ہو تو اس سے حرمت رضاعت ثابت نہ ہوگی۔ مسئلہ : اگر کسی شخص نے کسی عورت سے نکاح کرلیا کسی دوسری عورت نے کہا کہ میں نے تم دونوں کو دودھ پلایا ہے تو اگر دونوں اس کی تصدیق کریں تو نکاح فاسدہونیکا فیصلہ کرلیا جائیگا اور اگر یہ دونوں اس کی تکذیب کریں اور عورت دیندار خدا ترس ہو تو فساد نکاح کا فیصلہ نہ ہوگا، لیکن طلاق دے کہ مفارقت کرلینا افضل ہے۔ مسئلہ : رضاعت کے ثبوت کیلئے دو دیندار مردوں کی گواہی ضروری ہے ایک مرد یا ایک عورت کی گواہی سے رضاعت ثابت نہ ہوگی، مگر احتیاط افضل ہے۔ مسئلہ : جس طرح دو دیندار مردوں کی گواہی سے رضاعت ثابت ہوجاتی ہے اسی طرح ایک مرد اور ایک دیندار عورت کی گواہی سے بھی حرمت رضاعت ثابت ہوجاتی ہے۔ وَاُمَّھَاتُ نِسَآئِکُمْ ، بیویوں کی مائیں (خوشدامن) شوہر پر حرام ہیں، اس کی تفصیل یہ ہے کہ اس میں بیویوں کی نانیاں، دادیاں، نسبی ہوں یا رضاعی سب داخل ہیں۔ مسئلہ : جس طرح بیویوں کی مائیں حرام ہیں اسی طرح اس عورت کی ماں بھی حرام ہے جس سے شبہ میں ہم بستری کی ہو، یا جس کے ساتھ زنا کیا ہو یا اس کو شہوت کے ساتھ چھوا ہو۔ مسئلہ : نفس نکاح ہی سے بیوی کی ماں حرام ہوجاتی ہے حرمت کیلئے دخول وغیرہ ضروری نہیں۔ وَرَبَآئِبُکُمْ الّٰتِیْ فِیْ حُجُورِکُمْ (الآیۃ) جس عورت کے ساتھ نکاح کیا اور نکاح کے بعد ہم بستری بھی کی تو اس عورت کی لڑکی جو دوسرے شوہر سے ہے اسی طرح اس کی پوتی، نواسی، حرام ہوگئیں لیکن اگر ہمبستری نہیں کی، صرف نکاح ہوا تو مذکورہ قسمیں حرام نہ ہوں گی، لیکن نکاح کے بعد اگر اس کو شہوت کے ساتھ چھوا، یا اس کے اندام نہانی کی طرف شہوت کی نگاہ سے دیکھا تو یہ بھی ہمبستری کے حکم میں ہے اس سے بھی اس عورت کی لڑکی وغیرہ حرام ہوجاتی ہے۔ وَحَلَآئِلُ اَبْنَائِکُمْ الَّذِیْنَ مِنْ اَصْلاَبِکُمْ ، بیٹے کی بیوی حرام ہے اور بیٹے کے عموم میں پوتا اور نواسا بھی داخل ہے، لہٰذا ان کی بیویوں سے نکاح جائز نہیں۔ مسئلہ : متنبی کی بیوی سے نکاح حلال ہے، اور رضاعی بیٹا بھی حقیقی بیٹے کے حکم میں داخل ہے۔ واَنْ تَجْمَعُوْا بِیْنَ الْاُخْتَیْنِ ، دو بہنوں کو نکاح میں جمع کرنا حرام ہے، خواہ حقیقی بہنیں ہوں یا علاتی یا اخیافی، نسب کے اعتبار سے ہوں یا رضاعت کے اعتبار سے البتہ طلاق ہوجانے کے بعد دوسری بہن سے نکاح جائز ہے لیکن یہ جواز عدت گزرنے کے بعد ہے عدت کے دوران نکاح جائز نہیں۔ مسئلہ : جس طرح ایک ساتھ دو بہنوں کو ایک شخص کے نکاح میں جمع کرنا حرام ہے اسی طرح پھوپھی بھتیجی، خالہ بھانجی کو ایک شخص کے نکاح میں جمع کرنا حرام ہے۔ مسئلہ : فقہاء کرام نے بطور قاعدہ کلیہ یہ لکھا ہے کہ ہر ایسی دو عورتیں جن میں سے اگر کسی ایک کو مرد فرض کیا جائے تو شرعاً ان دونوں کے درمیان نکاح جائز نہ ہو اس طرح کی دو عورتیں ایک مرد کے نکاح میں جمع نہیں ہوسکتیں۔ تم بحمداللہ
English Sahih:
Prohibited to you [for marriage] are your mothers, your daughters, your sisters, your father's sisters, your mother's sisters, your brother's daughters, your sister's daughters, your [milk] mothers who nursed you, your sisters through nursing, your wives' mothers, and your step-daughters under your guardianship [born] of your wives unto whom you have gone in. But if you have not gone in unto them, there is no sin upon you. And [also prohibited are] the wives of your sons who are from your [own] loins, and that you take [in marriage] two sisters simultaneously, except for what has already occurred. Indeed, Allah is ever Forgiving and Merciful.
تم پر حرام کی گئیں تمہاری مائیں، بیٹیاں، بہنیں، پھوپھیاں، خالائیں، بھتیجیاں، بھانجیاں، اور تمہاری وہ مائیں جنہوں نے تم کو دودھ پلایا ہو، اور تمہاری دودھ شریک بہنیں، اور تمہاری بیویوں کی مائیں، اور تمہاری بیویوں کی لڑکیاں جنہوں نے تمہاری گودوں میں پرورش پائی ہے اُن بیویوں کی لڑکیاں جن سے تمہارا تعلق زن و شو ہو چکا ہو ورنہ اگر (صرف نکاح ہوا ہو اور) تعلق زن و شو نہ ہوا ہو تو (ا نہیں چھوڑ کر ان کی لڑکیوں سے نکاح کر لینے میں) تم پر کوئی مواخذہ نہیں ہے اور تمہارے اُن بیٹوں کی بیویاں جو تمہاری صلب سے ہوں اور یہ بھی تم پر حرام کیا گیا ہے کہ ایک نکاح میں دو بہنوں کو جمع کرو، مگر جو پہلے ہو گیا سو ہو گیا، اللہ بخشنے والا اور رحم کرنے والا ہے
2 Ahmed Raza Khan
حرام ہوئیں تم پر تمہاری مائیں اور بیٹیاں اور بہنیں اور پھوپھیاں اور خالائیں اور بھتیجیاں اور بھانجیاں اور تمہاری مائیں جنہوں نے دودھ پلایا اور دودھ کی بہنیں اور عورتوں کی مائیں اور ان کی بیٹیاں جو تمہاری گود میں ہیں ان بیبیوں سے جن سے تم صحبت کرچکے ہو تو پھر اگر تم نے ان سے صحبت نہ کی ہو تو ان کی بیٹیوں سے حرج نہیں اور تمہاری نسلی بیٹوں کی بیبیں اور دو بہنیں اکٹھی کرنا مگر جو ہو گزرا بیشک اللہ بخشنے والا مہربان ہے،
3 Ahmed Ali
تم پر تمہاری مائیں اور بیٹیاں اور بہنیں اور پھوپھیاں اور خالائیں اور بھتیجیاں اور بھانجیاں اور جن ماؤں نے تمہیں دودھ پلایا اور تمہاری دودھ شریک بہنیں اور تمہاری عورتوں کی مائیں اور ان کی بیٹیاں جنہوں نے تمہاری گود میں پرورش پائی ہے ان بیویو ں کی لڑکیاں جن سے تمہار تعلق زن و شو ہو چکاہے اور اگر تعلق زن و شو نہ ہوا ہو تو تم پر اس نکاح میں کچھ گناہ نہیں اور تمہارے بیٹو ں کی عورتیں جو تمہاری پشت سے ہیں یہ سب عورتیں تم پر حرام ہیں اور دو بہنوں کو (ایک نکاح میں) اکھٹا کرنا حرام ہے مگر جو پہلے ہو چکا بے شک الله بخشنے والا مہربان ہے
4 Ahsanul Bayan
حرام کی گئی ہیں (١) تم پر تمہاری مائیں اور تمہاری لڑکیاں اور تمہاری بہنیں، تمہاری پھوپھیاں اور تمہاری خالائیں اور بھائی کی لڑکیاں اور تمہاری وہ مائیں جنہوں نے تمہیں دودھ پلایا ہو اور تمہاری دودھ شریک بہنیں اور تمہاری ساس اور تمہاری وہ پرورش کردہ لڑکیاں جو تمہاری گود میں ہیں تمہاری ان عورتوں سے جن سے تم دخول کرچکے ہو ہاں اگر تم نے ان سے جماع نہ کیا ہو تو تم پر کوئی گناہ نہیں اور تمہارے بیٹوں کی بیویاں اور تمہارا دو بہنوں کا جمع کرنا۔ ہاں جو گزر چکا سو گزر چکا، یقیناً اللہ تعالٰی بخشنے والامہربان ہے۔
٢٣۔١ جن عورتوں سے نکاح کرنا حرام ہے ان کی تفصیل بیان کی جارہی ہے۔ ان میں سات محرمات نسبی، اور سات رضاعی اور چار سسرالی بھی ہیں۔ ان کے علاوہ حدیث رسول سے ثابت ہے کہ بھتیجی اور پھوپھی اور بھانجی اور خالہ کو ایک نکاح میں جمع کرنا حرام ہے۔ سات نسبی محرمات میں مائیں، بیٹیاں، بہنیں، پھوپھیاں، خالائیں بھتیجی اور بھانجی ہیں اور سات رضاعی محرمات میں رضاعی مائیں، رضاعی بیٹیاں، رضاعی بہنیں، رضاعی پھوپھیاں، رضاعی خالائیں رضاعی بھتیجیاں اور رضاعی بھانجیاں اور سسرالی محرمات میں ساس، (مدخولہ بیوی کے پہلے خاوند کی لڑکیاں)، بہو اور دو سگی بہنوں کا جمع کرنا ہے ان کے علاوہ باب کی منکوحہ (جس کا ذکر اس سے پہلی آیات میں ہے) اور حدیث کے مطابق بیوی جب تک عقد نکاح میں ہے اس کی پھوپھی اور اس کی خالہ اور اس کی بھتیجی اور اس کی بھانجی سے بھی نکاح حرام ہے محرمات نسبی کی تفصیل امھات (مائیں) میں ماؤں کی مائیں (نانیاں) ان کی دادیاں اور باپ کی مائیں (دادیاں، پردادیاں اور ان سے آگے تک) شامل ہیں بنات (بیٹیاں) میں پوتیاں نواسیاں اور پوتیوں، نواسیوں کی بیٹیاں (نیچے تک) شامل ہیں زنا سے پیدا ہونے والی لڑکی بیٹی میں شامل ہے یا نہیں اس میں اختلاف ہے ائمہ ثلاثہ اسے بیٹی میں شامل کرتے ہیں اور اس سے نکاح کو حرام سمجھتے ہیں البتہ امام شافعی کہتے ہیں کہ وہ بنت شرعی نہیں ہے پس جس طرح (يُوْصِيْكُمُ اللّٰهُ فِيْٓ اَوْلَادِكُمْ) 4۔ النساء;11) (اللہ تعالٰی تمہیں اولاد میں مال متروکہ تقسیم کرنے کا حکم دیتا ہے) میں داخل نہیں اور بالاجماع وہ وارث نہیں اسی طرح وہ اس آیت میں بھی داخل نہیں۔ واللہ اعلم (ابن کثیر) اخوات (بہنیں) عینی ہوں یا اخیافی و علاتی، عمات (پھوپھیاں) اس میں باپ کی سب مذکر اصول یعنی نانا، دادا کی تینوں قسموں کی بہنیں شامل ہیں۔ خالات (خلائیں) اس میں ماں کی سب مؤنث اصول (یعنی نانی دادی) کی تینوں قسموں کی بہنیں شامل ہیں۔ بھتیجیاں، اس میں تینوں قسم کے بھائیوں کی اولاد بواسطہ اور بلاواسطہ (یا صلبی و فرعی) شامل ہیں۔ بھانجیاں اس میں تینوں قسم کی بہنوں کی اولاد بواسطہ و بلاواسطہ یاصلبی و فرعی) شامل ہیں۔ قسم دوم، محرمات رضاعیہ;رضاعی ماں، جس کا دودھ تم نے مدت رضاعت (یعنی ڈھائی سال) کے اندر پیا ہو۔ رضاعی بہن، وہ عورت جسے تمہاری حقیقی یا رضاعی ماں نے دودھ پلایا، تمہارے ساتھ پلایا یا تم سے پہلے یا بعد میں تمہارے اور بہن بھائیوں کے ساتھ پلایا۔ یا جس عورت کی حقیقی ماں نے تمہیں دودھ پلایا،چاہے مختلف اوقات میں پلایا ہو۔ رضاعت سے بھی وہ تمام رشتے حرام ہو جائیں گے جو نسب سے حرام ہوتے ہیں۔ اس کی تفصیل یہ ہے کہ رضاعی ماں بننے والی عورت کی نسبی و رضاعی اولاد دودھ پینے والے بچے کی بہن بھائی، اس عورت کا شوہر اس کا باپ اور اس مرد کی بہنیں اس کی پھوپھیاں اس عورت کی بہنیں خالائیں اور اس عورت کے جیٹھ، دیور اس کے رضاعی چچا، تایا بن جائیں گے اور اس دودھ پینے والے بچے کی نسبی بہن بھائی وغیرہ اس گھرانہ پر رضاعت کی بنا پر حرام نہ ہونگے۔ قسم سوم سسرالی محرمات;بیوی کی ماں یعنی ساس (اس میں بیوی کی نانی دادی بھی داخل ہے)، اگر کسی عورت سے نکاح کر کے بغیر ہم بستری کے ہی طلاق دے دی ہو تب بھی اس کی ماں (ساس) سے نکاح حرام ہوگا۔ التبہ کسی عورت سے نکاح کر کے اسے بغیر مباشرت کے طلاق دے دی ہو تو اس کی لڑکی سے اس کا نکاح جائز ہوگا۔ (فتح القدیر) ربیبۃ;بیوی کے پہلے خاوند سے لڑکی۔ اسکی حرمت مشروط ہے۔ یعنی اس کی ماں سے اگر مباشرت کر لی گئی ہوگی تو ربیبہ سے نکاح حرام بصورت دیگر حلال ہوگا۔ فی حجورکم (وہ ربیبہ جو تمہاری گود میں پرورش پائیں) یہ قید غالب احوال کے اعتبار سے ہے بطور شرط کے نہیں ہے اگر یہ لڑکی کسی اور جگہ بھی زیر پرورش یا مقیم ہوگی۔ تب بھی اس سے نکاح حرام ہوگا۔ حلائل یہ حلیلۃ کی جمع ہے یہ حل یحل (اترنا) ہے فعیلۃ کے وزن پر بمعنی فاعلۃ ہے۔ بیوی کو حلیلہ اس لئے کہا گیا ہے کہ اس کا محل (جائے قیام) خاوند کے ساتھ ہی ہوتا ہے یعنی جہاں خاوند اترتا یا قیام کرتا ہے یہ بھی وہیں اترتی یا قیام کرتی ہے، بیٹوں میں پوتے نواسے بھی داخل ہیں یعنی انکی بیویوں سے بھی نکاح حرام ہوگا، اسی طرح رضاعی اولاد کے جوڑے بھی حرام ہوں گے، من اصلابکم (تمہارے صلبی بیٹوں کی بیویوں) کی قید سے یہ واضح ہوگیا کہ لے پالک بیٹوں کی بیویوں سے نکاح حرام نہیں ہے، دو بہنیں (رضاعی ہوں یا نسبی) ان سے بیک وقت نکاح حرام ہے البتہ ایک کی وفات کے بعد یا طلاق کی صورت میں عدت گزرنے کے بعد دوسری بہن سے نکاح جائز ہے۔ اسی طرح چاربیویوں میں سے ایک کو طلاق دینے سے پانچویں نکاح کی اجازت نہیں جب تک طلاق یافتہ عورت عدت سے فارغ نہ ہو جائے۔ ملحوظہ; زنا سے حرمت ثابت ہوگی یا نہیں؟ اس میں اہل علم کا ختلاف ہے اکثر اہل علم کا قول ہے کہ اگر کسی شخص نے کسی عورت سے بدکاری کی تو اس بدکاری کی وجہ سے وہ عورت اس پر حرام نہیں ہوگی اسی طرح اگر اپنی بیوی کی ماں (ساس) سے یا اسکی بیٹی سے (جو دوسرے خاوند سے ہو) زنا کرلے گا تو اسکی بیوی اس پر حرام نہیں ہوگی (دلائل کے لئے دیکھئے، فتح القدیر) احناف اور دیگر بعض علماء کی رائے میں زنا کاری سے بھی حرمت ثابت ہو جائے گی۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
تم پر تمہاری مائیں اور بیٹیاں اور بہنیں اور پھوپھیاں اور خالائیں اور بھتیجیاں اور بھانجیاں اور وہ مائیں جنہوں نے تم کو دودھ پلایا ہو اور رضاعی بہنیں اور ساسیں حرام کر دی گئی ہیں اور جن عورتوں سے تم مباشرت کر چکے ہو ان کی لڑکیاں جنہیں تم پرورش کرتے (ہو وہ بھی تم پر حرام ہیں) ہاں اگر ان کے ساتھ تم نے مباشرت نہ کی ہو تو (ان کی لڑکیوں کے ساتھ نکاح کر لینے میں) تم پر کچھ گناہ نہیں اور تمہارے صلبی بیٹوں کی عورتیں بھی اور دو بہنوں کا اکٹھا کرنا بھی (حرام ہے) مگر جو ہو چکا (سو ہو چکا) بے شک خدا بخشنے والا (اور) رحم کرنے والا ہے
6 Muhammad Junagarhi
حرام کی گئیں تم پر تمہاری مائیں اور تمہاری لڑکیاں اور تمہاری بہنیں، تمہاری پھوپھیاں اور تمہاری خاﻻئیں اور بھائی کی لڑکیاں اور بہن کی لڑکیاں اور تمہاری وه مائیں جنہوں نے تمہیں دودھ پلایا ہو اور تمہاری دودھ شریک بہنیں اور تمہاری ساس اور تمہاری وه پرورش کرده لڑکیاں جو تمہاری گود میں ہیں، تمہاری ان عورتوں سے جن سے تم دخول کر چکے ہو، ہاں اگر تم نے ان سے جماع نہ کیا ہو تو تم پر کوئی گناه نہیں اور تمہارے صلبی سگے بیٹوں کی بیویاں اور تمہارا دو بہنوں کا جمع کرنا ہاں جو گزر چکا سو گزر چکا، یقیناً اللہ تعالیٰ بخشنے واﻻ مہربان ہے
7 Muhammad Hussain Najafi
تم پر حرام کر دی گئی ہیں تمہاری مائیں، تمہاری بیٹیاں، تمہاری بہنیں، تمہاری پھوپھیاں، تمہاری خالائیں، بھتیجیاں، بھانجیاں اور تمہاری وہ مائیں جنہوں نے تمہیں دودھ پلایا ہے۔ اور تمہاری رضاعی (دودھ شریک) بہنیں اور تمہاری بیویوں کی مائیں (خوشدامنیں) اور تمہاری ان بیویوں کی جن سے تم نے مباشرت کی ہے وہ لڑکیاں جو تمہاری گودوں میں پرورش پا رہی ہیں اور اگر صرف نکاح ہوا ہے مگر مباشرت نہیں ہوئی ہے۔ تو پھر (ان کی لڑکیوں سے نکاح کرنے میں) کوئی مضائقہ نہیں ہے۔ اور تمہارے صلبی بیٹوں کی بیویاں (بہوؤیں) اور یہ بھی حرام قرار دیا گیا کہ دو بہنوں کو ایک نکاح میں اکھٹا کرو۔ مگر جو پہلے ہو چکا ہے۔ بے شک اللہ بڑا بخشنے والا اور بڑا رحم کرنے والا ہے۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
تمہارے اوپر تمہاری مائیں, بیٹیاں, بہنیں, پھوپھیاں, خالائیں, بھتیجیاں, بھانجیاں, وہ مائیں جنہوں نے تم کو دودھ پلایا ہے, تمہاری رضاعی(دودھ شریک) بہنیں, تمہاری بیویوں کی مائیں, تمہاری پروردہ عورتیں جو تمہاری آغوش میں ہیں اور ان عورتوں کی اولاد, جن سے تم نے دخول کیا ہے ہاں اگر دخول نہیں کیا ہے تو کوئی حرج نہیں ہے اور تمہارے فرزندوں کی بیویاں جو فرزند تمہارے صلب سے ہیں اور دو بہنوں کا ایک ساتھ جمع کرنا سب حرام کردیا گیا ہے علاوہ اس کے جو اس سے پہلے ہوچکا ہے کہ خدا بہت بخشنے والا اور مہربان ہے
9 Tahir ul Qadri
تم پر تمہاری مائیں اور تمہاری بیٹیاں اور تمہاری بہنیں اور تمہاری پھوپھیاں اور تمہاری خالائیں اور بھتیجیاں اور بھانجیاں اور تمہاری (وہ) مائیں جنہوں نے تمہیں دودھ پلایا ہو اور تمہاری رضاعت میں شریک بہنیں اور تمہاری بیویوں کی مائیں (سب) حرام کر دی گئی ہیں، اور (اسی طرح) تمہاری گود میں پرورش پانے والی وہ لڑکیاں جو تمہاری ان عورتوں (کے بطن) سے ہیں جن سے تم صحبت کر چکے ہو (بھی حرام ہیں)، پھر اگر تم نے ان سے صحبت نہ کی ہو تو تم پر (ان کی لڑکیوں سے نکاح کرنے میں) کوئی حرج نہیں، اور تمہارے ان بیٹوں کی بیویاں (بھی تم پر حرام ہیں) جو تمہاری پشت سے ہیں، اور یہ (بھی حرام ہے) کہ تم دو بہنوں کو ایک ساتھ (نکاح میں) جمع کرو سوائے اس کے کہ جو دورِ جہالت میں گزر چکا۔ بیشک اللہ بڑا بخشنے والا مہربان ہے،
10 Tafsir as-Saadi
یہ آیات کریمہ نسبی محرمات، رضاعی محرمات اور سسرالی قرابت کی بنا پر محرمات، جمع کرنے کی بنا پر محرمات اور حلال عورتوں کے احکام پر مشتمل ہیں۔ نسب کے اعتبار سے حرام عورتیں سات ہیں، جن کا اللہ تعالیٰ نے ذکر فرمایا ہے۔ (١) ماں : اس میں ہر وہ عورت داخل ہے جس سے آپ پیدا ہوئے ہیں خواہ وہ کتنی ہی دور اوپر چلی جائیں۔ (٢) بیٹی : بیٹی کے رشتے میں ہر وہ عورت داخل ہے جس کو آپ نے جنم دیا ہے۔ (خواہ وہ کس قدر نیچے تک چلی جائیں) (٣) بہن : اس رشتے میں تمام حقیقی، اخیافی (ماں شریک) اور علاتی (باپ شریک) بہنیں شامل ہیں۔ (٤) پھوپھی : ہر وہ عورت جو آپ کے باپ یا دادا کی بہن ہے خواہ وہ کتنی ہی دور اوپر تک چلی جائیں۔ (٥) خالہ : ہر وہ عورت جو آپ کی ماں یا آپ کی نانی کی بہن ہے خواہ کتنی ہی دور اوپر تک چلی جائیں، خواہ وہ وارث ہے یا نہیں ہے۔ (٦، ٧) اسی طرح بھائی کی بیٹیاں (بھتیجیاں) اور بہن کی بیٹیاں (بھانجیاں) خواہ کتنی ہی دور تک نیچے چلی جائیں۔ یہ وہ سات محرمات ہیں جو نسب کے اعتبار سے حرام ہیں اور ان کی حرمت پر علماء کا اجماع ہے جیسا کہ آیت کریمہ کی نص سے ظاہر ہے۔ ان مذکورہ عورتوں کے علاوہ عورتیں اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد میں داخل ہیں ﴿وَأُحِلَّ لَكُم مَّا وَرَاءَ ذٰلِكُمْ ﴾ (النساء :4؍24) ” ان محرمات عورتوں کے سوا دیگر تمام عورتیں تمہارے لیے حلال کردی گئیں“ مثلاً پھوپھی کی بیٹی، چچا کی بیٹی، ماموں کی بیٹی اور خالہ کی بیٹی۔ جہاں تک رضاعت کے اعتبار سے محرمات کا تعلق ہے تو اللہ تعالیٰ نے ان آیات کریمہ میں رضاعی ماں اور رضاعی بہن کا ذکر فرمایا ہے۔ مگر اس تحریم میں رضاعی ماں کی ماں بھی شامل ہے حالانکہ حرمت کا باعث دودھ اس کا نہیں بلکہ وہ تو دودھ کے مالک یعنی رضاعی ماں کے شوہر کا ہے۔ یہ تنبیہ اس امر پر دلالت کرتی ہے کہ رضاعی ماں کا شوہر (یعنی دودھ کا مالک) دودھ پینے والے کا (رضاعی) باپ ہے۔ جب رضاعی باپ ہونا اور ماں ہونا ثابت ہوگیا تو انکی بہنوں وغیرہ اور ان کے اصول و فروع کی حرمت ثابت ہوگئی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( يَحْرُمُ مِنَ الرَّضَاعِ مَا يَحْرُمُ مِنَ النَّسَبِ)) [صحیح مسلم، الرضاع، باب یحرم من الرضاعة ۔۔۔ح :1444 وسنن النسائی‘ النکاح، یحرمن الرضاع‘ ح:4؍ 33] ” جو رشتہ نسب کے اعتبار سے حرام ہے وہ رشتہ رضاعت کے اعتبار سے بھی حرام ہے۔“ پس یہ تحریم دودھ پلانے والی کی جہت سے اور اس کے خاوند کی جہت سے پھیلے گی۔ جیسا کہ وہ تحریم نسبی اقارب میں پھیلتی ہے اور یہ تحریم دودھ پینے والے بچے میں صرف اس کی اولاد تک پھیلے گی۔ مگر اس شرط کے ساتھ کہ بچے نے اپنے دو سال کی عمر میں کم از کم پانچ بار دودھ پیا ہو۔ جیسا کہ سنت نے واضح کیا ہے۔ سسرالی قرابت کے اعتبار سے حرام رشتے چار ہیں۔ باپ دادا کی بیویاں : خواہ وہ کتنی ہی دور اوپر تک چلے جائیں۔ بیٹیوں کی بیویاں : خواہ کتنی ہی دور نیچے تک چلے جائیں، خواہ وہ وارث ہوں یا محجوب۔ بیوی کی ماں : خواہ کتنی ہی دور اوپر تک چلی جائیں۔ یہ تین رشتے مجرد نکاح سے حرام ہوجاتے ہیں۔ چوتھا رشتہ سوتیلی بیٹی کا ہے۔ سوتیلی بیٹی بیوی کے پچھلے شوہر سے بیوی کی بیٹی ہے۔ خواہ کتنی ہی دور نیچے چلی جائیں۔ یہ سوتیلی بیٹی اس وقت تک حرام نہیں ہوتی جب تک کہ اس کی ماں سے خلوت صحیحہ نہ ہوئی ہو۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿وَرَبَائِبُكُمُ اللَّاتِي فِي حُجُورِكُم مِّن نِّسَائِكُمُ اللَّاتِي دَخَلْتُم بِهِنَّ﴾ ” اور تمہاری پرورش کردہ وہ لڑکیاں جو تمہاری گود میں ہیں، تمہاری ان عورتوں سے جن سے تم دخول (خلوت صحیحہ) کرچکے ہو۔ “ جمہور اہل علم کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ﴿اللَّاتِي فِي حُجُورِكُم ﴾” جو تمہاری پرورش میں ہیں“ کی قید ہے جس میں غالب احوال کا اعتبار کیا گیا ہے اس کا مفہوم مخالف معتبر نہیں۔ بنا بریں سوتیلی بیٹی خواہ سوتیلے باپ کے گھر میں نہ وہ تب بھی حرام ہے۔ البتہ اس تنقید کے دو فائدے ہیں۔ (اول) اس میں سوتیلی بیٹی کی تحریم کی حکمت کی طرف اشارہ ہے گویا وہ بھی صلبی بیٹی کی طرح ہے۔ لہٰذا اس کی اباحت بہت ہی قبیح بات ہے۔ (ثانی) اس میں اس امر کی دلیل ہے کہ سوتیلی بیٹی کے ساتھ تنہائی اور خلوت جائز ہے کیونکہ وہ صلبی اور نسبی بیٹیوں کی مانند ہے۔ اللہ اعلم۔ رہا ایک ساتھ نکاح میں جمع کرنے سے ممنوع اور حرام رشتے تو اللہ تعالیٰ نے دو بہنوں کو جمع کرنے کا ذکر فرمایا ہے اور ان کے جمع کرنے کو حرام ٹھہرایا ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیوی اور اس کی پھوپھی، بیوی اور اس کی خالہ کو ایک ساتھ نکاح میں رکھنے کو حرام ٹھہرایا ہے۔ پس ہر وہ دو عورتیں جن کے مابین رحم کا رشتہ ہے، اگر ان دونوں عورتوں میں سے ایک کو مرد اور دوسری کو عورت مان لیا جائے تو وہ دونوں ایک دوسرے کے لیے حرام ہوں، تو ان دونوں کو جمع کرنا حرام ہوگا اور یہ اس لیے کہ اس صورت میں باہم قطع رحمی کے اسباب ہیں۔
11 Mufti Taqi Usmani
tum per haram kerdi gaee hain tumhari mayen , tumhari betiyan , tumhari behney , tumhari phoopiyan , tumhari khalaayen , aur bhateejiyan aur bhanjiyan , aur tumhari woh mayen jinhon ney tumhen doodh pilaya hai , aur tumhari doodh shareek behney , aur tumhari biwiyon ki mayen , aur tumharay zair-e-perwerish tumhari soteli betiyan jo tumhari unn biwiyon ( kay pet ) say hon jinn kay sath tum ney khilwat ki ho . haan agar tum ney unn kay sath khilwat naa ki ho ( aur unhen talaq dey di ho ya unn ka intiqal hogaya ho ) to tum per ( unn ki larkiyon say nikah kernay mein ) koi gunah nahi hai , neez tumharay sulbi beton ki biwiyan bhi tum per haram hain , aur yeh baat bhi haram hai kay tum do behnon ko aik sath nikah mein jama kero , albatta jo kuch pehlay hochuka woh hochuka . beyshak Allah boht moaaf kernay wala , bara meharban hai .
12 Tafsir Ibn Kathir
کون سی عورتیں مردوں پر حرام ہیں ؟ نسبی، رضاعی اور سسرالی رشتے سے جو عورتیں مرد پر حرام ہیں ان کا بیان آیہ کریمہ میں ہو رہا ہے، حضرت ابن عباس فرماتے ہیں سات عورتیں بوجہ نسب حرام ہیں اور سات بوجہ سسرال کے پھر آپ نے اس آیت کی تلاوت کی جس میں بہن کی لڑکیوں تک نسبی رشتوں کا ذکر ہے جمہور علماء کرام نے اس آیت سے استدلال کیا ہے کہ زنا سے جو لڑکی پیدا ہوئی وہ بھی اس زانی پر حرام ہے کیونکہ یہ بھی بیٹی ہے اور بیٹیاں حرام ہیں، یہی مذہب ابوحنیفہ مالک اور احمد بن حنبل کا ہے، امام شافعی سے کچھ اس کی اباحت میں بھی بحث کی گئی ہے اس لئے کہ شرعاً یہ بیٹی نہیں پس جیسے کہ ورثے کے حوالے سے یہ بیٹی کے حکم سے خارج ہے اور ورثہ نہیں پاتی اسی طرح اس آیت حرمت میں بھی وہ داخل نہیں ہے واللہ اعلم، (صحیح مذہب وہی ہے جس پر جمہور ہیں۔ (مترجم) پھر فرماتا ہے کہ جس طرح تم پر تمہاری سگی ماں حرام ہے اسی طرح رضاعی ماں بھی حرام ہے بخاری و مسلم میں ہے کہ رضاعت بھی اسے حرام کرتی ہے جسے ولادت حرام کرتی ہے صحیح مسلم میں ہے رضاعت سے بھی وہ حرام ہے جو نسب سے ہے، بعض فقہاء نے اس میں سے چار صورتیں بعض نے چھ صورتیں مخصوص کی ہیں جو احکام کی فروع کی کتابوں میں مذکور ہیں لیکن تحقیقی بات یہ ہے کہ اس میں سے کچھ بھی مخصوص نہیں اس لئے کہ اسی کے مانند بعض صورتیں نسبت میں بھی پائی جاتی ہیں اور ان صورتوں میں سے بعض صرف سسرالی رشتہ کی وجہ سے حرام ہیں لہذا حدیث پر اعتراض خارج از بحث ہے والحمد للہ۔ آئمہ کا اس میں بھی اختلاف ہے کہ کتنی مرتبہ دودھ پینے سے حرمت ثبات ہوتی ہے، بعض تو کہتے ہیں کہ تعداد معین نہیں دودھ پیتے ہی حرمت ثابت ہوگئی امام مالک یہی فرماتے ہیں، ابن عمر سعید بن مسیب عروہ بن زبیر اور زہری کا قول بھی یہی ہے، دلیل یہ ہے کہ رضاعت یہاں عام ہے بعض کہتے ہیں تین مرتبہ جب پئے تو حرمت ثابت ہوگئی، جیسے کہ صحیح مسلم میں ہے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ایک مرتبہ کا چوسنا یا دو مرتبہ کا پی لینا حرام نہیں کرتا یہ حدیث مختلف الفاظ سے مروی ہے، امام احمد، اسحاق بن راہویہ، ابو عبیدہ، ابو ثور بھی یہی فرماتے ہیں، حضرت علی، حضرت عائشہ، حضرت ام الفضل، حضرت ابن زبیر، سلیمان بن یسار، سعید بن جبیر رحمہم اللہ سے بھی یہی مروی ہے بعض کہتے ہیں پانچ مرتبہ کے دودھ پینے سے حرمت ثابت ہوتی ہے اس سے کم نہیں، اس کی دلیل صحیح مسلم کی یہ روایت ہے حضرت عائشہ صدیقہ (رض) فرماتے ہیں کہ پہلے قرآن میں دس مرتبہ کی دودھ پلائی پر حرمت کا حکم اترا تھا پھر وہ منسوخ ہو کر پانچ رہ گئے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے فوت ہونے تک وہ قرآن میں پڑھا جاتا رہا دوسری دلیل سہلہ بنت سہیل کی روایت ہے کہ ان کو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حکم دیا کہ حضرت سالم کو جو حضرت ابو حذیفہ کے مولی تھے پانچ مرتبہ دودھ پلا دیں، حضرت عائشہ اسی حدیث کے مطابق جس عورت کے گھر کسی کا آنا جانا دیکھتیں اسے یہی حکم دیتیں، امام شافعی اور ان کے اصحاب کا فرمان بھی یہی ہے کہ پانچ مرتبہ دودھ پینا معتبر ہے (مترجم کی تحقیق میں بھی راجح قول یہی ہے واللہ اعلم) یہ بھی یاد رہے کہ جمہور کا مذہب یہ ہے کہ یہ رضاعت دودھ چھٹنے سے پہلے یعنی دو سال کے اندر اندر کی عمر میں ہو، اس کا مفصل بیان آیت (حولین کاملین) کی تفسیر میں سورة بقرہ میں گزر چکا ہے، پھر اس میں بھی اختلاف ہے کہ اس رضاعت کا اثر رضاعی ماں کے خاوند تک بھی پہنچے گا یا نہیں ؟ تو جمہور کا اور آئمہ اربعہ کا فرمان تو یہ ہے کہ پہنچے گا اور بعض سلف کا قول ہے کہ صرف دودھ پلانے والی تک ہی رہے گا اور رضاعی باپ تک نہیں پہنچے گا اس کی تفصیل کی جگہ احکام کی بڑے بڑی کتابیں ہیں نہ کہ تفسیر (صحیح قول جمہور کا ہے واللہ اعلم۔ مترجم) پھر فرماتا ہے ساس حرام ہے جس لڑکی سے نکاح ہوا مجرد نکاح ہونے کے سبب اس کی ماں اس پر حرام ہوگئی خواہ صحبت کرے یا نہ کرے، ہاں جس عورت کے ساتھ نکاح کرتا ہے اور اس کی لڑکی اس کے اگلے خاوند سے اس کے ساتھ ہے تو اگر اس سے صحبت کی تو وہ لڑکی حرام ہوگی اگر مجامعت سے پہلے ہی اس عورت کو طلاق دے دی تو وہ لڑکی اس پر حرام نہیں، اسی لئے اس آیت میں یہ قید لگائی بعض لوگوں نے ضمیر کو ساس اور اس کی پرورش کی ہوئی لڑکیوں دونوں کی طرف لوٹایا ہے وہ کہتے ہیں کہ ساس بھی اس وقت حرام ہوتی ہے جب اس کی لڑکی سے اس کے داماد نے خلوت کی ورنہ نہیں، صرف عقد سے نہ تو عورت کی ماں حرام ہوتی ہے نہ عورت کی بیٹی، حضرت علی فرماتے ہیں کہ جس شخص نے کسی لڑکی سے نکاح کیا پھر دخول سے پہلے ہی طلاق دے دی تو وہ اس کی ماں سے نکاح کرسکتا ہے جیسے کہ ربیبہ لڑکی سے اس کی ماں کو اسی طرح کی طلاق دینے کے بعد نکاح کرسکتا ہے حضرت زید بن ثابت سے بھی یہی منقول ہے ایک اور روایت میں بھی آپ سے مروی ہے آپ فرماتے تھے جب وہ عورت غیر مدخولہ مرجائے اور یہ خاوند اس کی میراث لے لے تو پھر اس کی ماں کو لانا مکروہ ہے ہاں اگر دخول سے پہلے طلاق دے دی ہے تو اگر چاہے نکاح کرسکتا ہے حضرت ابوبکر بن کنانہ فرماتے ہیں کہ میرا نکاح میرے باپ نے طائف کی ایک عورت سے کرایا ابھی رخصتی نہیں ہوئی تھی کہ اس کا باپ میرا چچا فوت ہوگیا اس کی بیوی یعنی میری ساس بیوہ ہوگئی وہ بہت مالدار تھیں میرے باپ نے مجھے مشورہ دیا کہ اس لڑکی کو چھوڑ دوں اور اس کی ماں سے نکاح کرلوں میں نے حضرت ابن عباس سے یہ مسئلہ پوچھا تو آپ نے فرمایا تمہارے لئے یہ جائز ہے پھر میں نے حضرت ابن عمر سے پوچھا تو انہوں نے فرمایا یہ جائز نہیں میں نے اپنے والد سے ذکر کیا انہوں نے تو امیر معاویہ کو ہی سوال کیا حضرت امیر معاویہ نے تحریر فرمایا کہ میں نہ تو حرام کو حلال کروں نہ حلال کر حرام تم جانو اور تمہارا کام تم حالت دیکھ رہے ہو معاملہ کے تمام پہلو تمہاری نگاہوں کے سامنے ہیں۔ عورتیں اس کے علاوہ بھی بہت ہیں۔ غرض نہ اجازت دی نہ انکار کیا چناچہ میرے باپ نے اپنا خیال اس کی ماں کی طرف سے ہٹا لیا حضرت عبداللہ بن زبیر فرماتے ہیں کہ عورت کی لڑکی اور عورت کی ماں کا حکم ایک ہی ہے اگر عورت سے دخول نہ کیا ہو تو یہ دونوں حلال ہیں، لیکن اس کی اسناد میں مبہم راوی ہے، حضرت مجاہد کا بھی یہی قول ہے، ابن جبیر اور حضرت ابن عباس بھی اسی طرف گئے ہیں، حضرت معاویہ نے اس میں توقف فرمایا ہے شافعیوں میں سے ابو الحسن احمد بن محمد بن صابونی سے بھی بقول رافعی یہی مروی ہے حضرت عبداللہ بن مسعود سے بھی اسی کے مثل مروی ہے لیکن پھر آپ نے اپنے اس قول سے رجوع کرلیا ہے طبرانی میں ہے کہ قبیلہ فزارہ کی شاخ قبیلہ بنو کمخ کے ایک شخص نے ایک عورت سے نکاح کیا پھر اس کی بیوہ ماں کے حسن پر فریفتہ ہوا تو حضرت ابن مسعود سے مسئلہ پوچھا کہ کیا مجھے اس کی ماں سے نکاح کرنا جائز ہے آپ نے فرمایا ہاں چناچہ اس نے اس لڑکی کو طلاق دے کر اس کی ماں سے نکاح کرلیا اس سے اولاد بھی ہوئی پھر حضرت ابن مسعود مدینہ آئے اور اس مسئلہ کی تحقیق کی تو معلوم ہوا کہ یہ حلال نہیں چناچہ آپ واپس کوفے گئے اور اس سے کہا کہ اس عورت کو الگ کر دے یہ تجھ پر حرام ہے اس نے اس فرمان کی تعمیل کی اور اسے الگ کردیا جمہور علماء اس طرف ہیں لڑکی تو صرف عقد نکاح سے حرام نہیں ہوتی تاوقتیکہ اس کی ماں سے مباشرت نہ کی ہو ہاں ماں صرف لڑکی کے عقد نکاح ہوتے ہی حرام ہوجاتی ہے گو مباشرت نہ ہوئی ہو، حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ جب کوئی شخص اپنی بیوی کو دخول سے پہلے طلاق دے دے یا وہ عورت مرجائے تو اس کی ماں اس پر حلال نہیں چونکہ مبہم ہے اس لئے اسے ناپسند فرمایا، حضرت ابن مسعود، عمران بن حصین، مسروق، طاؤس، عکرمہ، عطا، حسن، مکحول، ابن سیرین، قتادہ اور زہری سے بھی اسی طرح مروی ہے، چاروں اماموں ساتوں فقہاء اور جمہور علماء سلف و خلف کا یہی مذہب ہے والحمد للہ امام ابن جریج فرماتے ہیں ٹھیک قول انہی حضرات کا ہے جو ساس کو دونوں صورتوں میں حرام بتلاتے ہیں اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کی حرمت کے ساتھ دخول کی شرط نہیں لگائی جیسے کہ لڑکی کی ماں کے لئے یہ شرط لگائی ہے پھر اس پر اجماع ہے جو ایسی دلیل ہے کہ اس کا خلاف کرنا اس وقت جائز ہی نہیں جب کہ اس پر اتفاق ہو اور ایک غریب حدیث میں بھی یہ مروی ہے گو اس کی سند میں کلام ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جبکہ کوئی مرد کسی عورت سے نکاح کرے اگر اس نے اس کی ماں سے نکاح کیا ہے پھر ملنے سے پہلے ہی اسے طلاق دے دی ہے تو اگر چاہے اس کی لڑکی سے نکاح کرسکتا ہے، گو اس حدیث کی سند کمزور ہے لیکن اس مسئلہ پر اجماع ہوچکا ہے جو اس کی صحت پر ایسا گواہ ہے جس کے بعد دوسری گواہی کی ضرورت نہیں، (ٹھیک مسئلہ یہی ہے واللہ اعلم۔ مترجم) پھر فرماتا ہے تمہاری پرورش کی ہوئی وہ لڑکیاں جو تمہاری گود میں ہوں وہ بھی تم پر حرام ہیں بشرطیکہ تم نے ان سوتیلی لڑکیوں کی ماں سے صحبت کی ہو جمہور کا فرمان ہے کہ خواہ گود میں پلی ہوں حرام ہیں چونکہ عموماً ایسی لڑکیاں اپنی ماں کے ساتھ ہی ہوتی ہیں اور اپنے سوتیلے باپوں کے ہاں ہی پرورش پاتی ہیں اس لئے یہ کہہ دیا گیا ہے یہ کوئی قید نہیں جیسے اس آیت میں ہے آیت (ولا تکرہوا فتیاتکم علی البغاء ان اردن تحصنا) یعنی تمہاری لونڈیاں اگر پاکدامن رہنا چاہتی ہوں تو تم انہیں بدکاری پر بےبس نہ کرو، یہاں بھی یہ قید کہ اگر وہ پاکدامن رہنا چاہیں صرف بااعتبار واقعہ کے غلبہ کے ہے یہ نہیں کہ اگر وہ خود ایسی نہ ہوں تو انہیں بدکاری پر آمادہ کرو، اسی طرح اس آیت میں ہے کہ گود میں چاہے نہ ہوں پھر بھی حرام ہی ہیں۔ بخاری و مسلم میں ہے کہ حضرت ام حبیبہ نے کہا یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ میری بہن ابو سفیان کی لڑکی عزہ سے نکاح کرلیجئے۔ آپ نے فرمایا کیا تم یہ چاہتی ہو ؟ ام المومنین نے کہا ہاں میں آپ کو خالی تو رکھ نہیں سکتی پھر میں اس بھلائی میں اپنی بہن کو ہی کیوں نہ شامل کروں ؟ آپ نے فرمایا ان کی وہ بیٹی جو ام سلمہ سے ہے ؟ کہا ہاں۔ فرمایا اولاً تو وہ مجھ پر اس وجہ سے حرام ہے کہ وہ میری ربیبہ ہے جو میرے ہاں پرورش پا رہی ہے دوسری یہ کہ اگر ایسا نہ ہوتا تو بھی وہ مجھ پر حرام تھیں اس لئے کہ وہ میرے دودھ شریک بھائی کی بیٹی میری بھتیجی ہیں۔ مجھے اور اس کے باپ ابو سلمہ کو ثوبیہ نے دودھ پلایا ہے۔ خبردار اپنی بیٹیاں اور اپنی بہنیں مجھ پر پیش نہ کرو، بخاری کی روایت ہے یہ الفاظ ہیں کہ اگر میرا نکاح ام سلمہ جسے نہ ہوا ہوتا تو بھی وہ مجھ پر حلال نہ تھیں، یعنی صرف نکاح کو آپ نے حرمت کا اصل قرار دیا، یہی مذہب چاروں اماموں ساتوں فقیہوں اور جمہور سلف و خلف کا ہے، یہ بھی کہا گیا ہے کہ اگر وہ اس کے ہاں پر پرورش پاتی ہو تو بھی حرام ہے ورنہ نہیں، حضرت مالک بن اوس بن حدثان فرماتے ہیں میری بیوی اولاد چھوڑ کر مرگئیں مجھے ان سے بہت محبت تھی اس وجہ سے ان کی موت کا مجھے بڑا صدمہ ہوا حضرت علی سے میری اتفاقیہ ملاقات ہوئی تو آپ نے مجھے مغموم پا کر دریافت کیا کہ کیا بات ہے ؟ میں نے واقعہ سنایا تو آپ نے فرمایا تجھ سے پہلے خاوند سے بھی اس کی کوئی اولاد ہے ؟ میں نے کہا ہاں ایک لڑکی ہے اور وہ طائف میں رہتی ہے فرمایا پھر اس سے نکاح کرلو میں نے قرآن کریم کی آیت پڑھی کہ پھر اس کا کیا مطلب ہوگا ؟ آپ نے فرمایا یہ تو اس وقت ہے جبکہ اس نے تیرے ہاں پرورش پائی ہو اور وہ بقول تمہارے طائف میں رہتی ہے تیرے پاس ہے ہی نہیں گو اس کی اسناد صحیح ہے لیکن یہ قول بالکل غریب ہے، حضرت امام مالک کا بھی یہی قول بتایا ہے، ابن حزم نے بھی اسی کو اختیار کیا ہے، ہمارے شیخ حافظ ابو عبداللہ نسبی نے ہم سے کہا کہ میں نے یہ بات شیخ امام تقی الدین ابن تیمیہ کے سامنے پیش کی تو آپ نے اسے بہت مشکل محسوس کیا اور توقف فرمایا واللہ اعلم۔ حجور سے مراد گھر ہے جیسے کہ حضرت ابو عبیدہ سے مروی ہے کہ ہاں جو کنیز ملکیت میں ہو اور اس کے ساتھ اس کی لڑکی ہو اس کے بارے میں حضرت عمر سے سوال ہوا کہ ایک کے بعد دوسری جائز ہوگی یا نہیں ؟ تو آپ نے فرمایا اسے پسند نہیں کرتا، اس کی سند منقطع ہے، حضرت ابن عباس (رض) نے ایسے ہی سوال کے جواب میں فرمایا ہے ایک آیت سے یہ حلال معلوم ہوتی ہے دوسری آیت سے حرام اس لئے میں تو ایسا ہرگز نہ کروں، شیخ ابو عمر بن عبداللہ فرماتے ہیں کہ علماء میں اس مسئلہ میں کوئی اختلاف نہیں کہ کسی کو حلال نہیں کہ کسی عورت سے پھر اس کی لڑکی سے بھی اسی ملکیت کی بنا پر وطی کرے اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے اسے نکاح میں بھی حرام قرار دے دیا ہے یہ آیت ملاحظہ ہو اور علماء کے نزدیک ملکیت احکام نکاح کے تابع ہے مگر جو روایت حضرت عمر اور حضرت ابن عباس سے کی جاتی ہے لیکن آئمہ فتاویٰ اور ان کے تابعین میں سے کوئی بھی اس پر متفق نہیں۔ حضرت قتادہ فرماتے ہیں ربیبہ کی لڑکی اور اس لڑکی کی لڑکی اس طرح جس قدر نیچے یہ رشتہ چلا جائے سب حرام ہیں، حضرت ابو العالیہ سے بھی اسی طرح یہ روایت قتادہ مروی ہے آیت (دخلتم بہن) سے مراد حضرت ابن عباس تو فرماتے ہیں ان سے نکاح کرنا ہے حضرت عطا فرماتے ہیں کہ وہ رخصت کر دئے جائیں کپڑا ہٹا دیا جائے چھیڑ ہوجائے اور ارادے سے مرد بیٹھ جائے ابن جریج نے سوال کیا کہ اگر یہ کام عورت ہی کے گھر میں ہوا ہو فرمایا وہاں یہاں دونوں کا حکم ایک ہی ہے ایسا اگر ہوگیا تو اس کی لڑکی اس پر حرام ہوگئی۔ امام ابن جریر فرماتے ہیں کہ صرف خلوت اور تنہائی ہوجانے سے اس کی لڑکی کی حرمت ثابت نہیں ہوتی اگر مباشرت کرنے اور ہاتھ لگانے سے اور شہوت سے اس کے عضو کی طرف دیکھنے سے پہلے ہی طلاق دے دی ہے تو تمام کے اجماع سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ لڑکی اس پر حرام نہ ہوگی تاوقتیکہ جماع نہ ہوا ہو۔ پھر فرمایا تمہاری بہوئیں بھی تم پر حرام ہیں جو تمہاری اولاد کی بیویاں ہوں یعنی لے پالک لڑکوں کی بیویاں حرام نہیں، ہاں سگے لڑکے کی بیوی یعنی بہو اپنے کسر پر حرام ہے جیسے اور جگہ ہے آیت (فلما قضی زید منہا وطرا زوجنکہا لکیلا یکون علی المومنین حرج فی ازواج ادعیائہم الخ، یعنی جب زید نے اس سے اپنی حاجت پوری کرلی تو ہم نے اسے تیرے نکاح میں دے دیا تاکہ مومنوں پر ان کے لے پالک لڑکوں کی بیویوں کے بارے میں کوئی تنگی نہ رہے، حضرت عطاء فرماتے ہیں کہ ہم سنا کرتے تھے کہ جب آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت زید کی بیوی سے نکاح کرلیا تو مکہ کے مشرکوں نے کائیں کائیں شروع کردی اس پر یہ آیت اور آیت (وَمَا جَعَلَ اَدْعِيَاۗءَكُمْ اَبْنَاۗءَكُمْ ) 33 ۔ الاحزاب :4) اور آیت (مَا كَانَ مُحَـمَّـدٌ اَبَآ اَحَدٍ مِّنْ رِّجَالِكُمْ وَلٰكِنْ رَّسُوْلَ اللّٰهِ وَخَاتَمَ النَّـبِيّٖنَ ۭ وَكَان اللّٰهُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِــيْمًا) 33 ۔ الاحزاب :40) نازل ہوئیں یعنی بیشک صلبی لڑکے کی بیوی حرام ہے۔ تمہارے لئے پالک لڑکے شرعاً تمہاری اولاد کے حکم میں نہیں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں سے کسی مرد کے باپ نہیں، حسن بن محمد فرماتے ہیں کہ یہ آیتیں مبہم ہیں جیسے تمہارے لڑکوں کی بیویاں تمہاری ساسیں، حضرت طاؤس ابراہیم زہری اور مکحول سے بھی اسی طرح مروی ہے میرے خیال میں مبہم سے مراد عام ہیں۔ یعنی مدخول بہا اور غیر مدخول دونوں ہی شامل ہیں اور صرف نکاح کرتے ہی حرمت ثابت ہوجاتی ہے۔ خواہ صحبت ہوئی ہو یا نہ ہوئی ہو اس مسئلہ پر اتفاق ہے اگر کوئی شخص سوال کرے کہ رضاعی بیٹے کی حرمت کیسے ثابت ہوگی کیونکہ آیت میں تو صلبی بیٹے کا ذکر ہے تو جواب یہ ہے کہ وہ حرمت آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اس حدیث سے ثابت ہے کہ آپ نے فرمایا رضاعت سے وہ حرام ہے جو نسبت سے حرام ہے۔ جمہور کا مذہب یہی ہے کہ رضاعی بیٹے کی بیوی بھی حرام ہے بعض لوگوں نے تو اس پر اجماع نقل کیا ہے۔ پھر فرماتا ہے دو بہنوں کا نکاح میں جمع کرنا بھی تم پر حرام ہے اسی طرح ملکیت کی لونڈیوں کا حکم ہے کہ دو بہنوں سے ایک ہی وقت وطی حرام ہے مگر جاہلیت کے زمانہ میں جو ہوچکا اس سے ہم درگزر کرتے ہیں پس معلوم ہوا کہ اب یہ کام آئندہ کسی وقت جائز نہیں، جیسے اور جگہ ہے آیت (لَا يَذُوْقُوْنَ فِيْهَا الْمَوْتَ اِلَّا الْمَوْتَةَ الْاُوْلٰى ۚ وَوَقٰىهُمْ عَذَابَ الْجَحِيْمِ ) 44 ۔ الدخان :56) یعنی وہاں موت نہیں آئے گی ہاں پہلی موت جو آنی تھی سو آچکی تو معلوم ہوا کہ اب آئندہ کبھی موت نہیں آئے گی، صحابہ تابعین ائمہ اور سلف و خلف کے علماء کرام کا اجماع ہے کہ دو بہنوں سے ایک ساتھ نکاح کرنا حرام ہے اور جو شخص مسلمان ہو اور اس کے نکاح میں دو بہنیں ہوں تو اسے اختیار دیا جائے گا کہ ایک کو رکھ لے اور دوسری کو طلاق دے دے اور یہ اسے کرنا ہی پڑے گا حضرت فیروز فرماتے ہیں میں جب مسلمان ہوا تو میرے نکاح میں دو عورتیں تھیں جو آپس میں بہنیں تھیں پس آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مجھے حکم دیا کہ ان میں سے ایک کو طلاق دے دو (مسند احمد) ابن ماجہ ابو داؤد اور ترمذی میں بھی یہ حدیث ہے ترمذی میں بھی یہ ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ان میں سے جسے چاہو ایک کو رکھ لو اور ایک کو طلاق دے دو ، امام ترمذی اسے حسن کہتے ہیں، ابن ماجہ میں ابو خراش کا ایسا واقعہ بھی مذکور ہے ممکن ہے کہ ضحاک بن فیروز کی کنیت ابو خراش ہو اور یہ واقعہ ایک ہی ہو اور اس کے خلاف بھی ممکن ہے حضرت دیلمی نے رسول مقبول صلعم سے عرض کیا کہ یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میرے نکاح میں دو بہنیں ہیں آپ نے فرمایا ان سے جسے چاہو ایک کو طلاق دے دو (ابن مردویہ) پس دیلمی سے مراد ضحاک بن فیروز ہیں (رض) یہ یمن کے ان سرداروں میں سے تھے جنہوں نے اسود عنسی متنبی ملعون کو قتل کیا چناچہ دو لونڈیوں کو جو آپس میں سگی بہنیں ہوں ایک ساتھ جمع کرنا ان سے وطی کرنا بھی حرام ہے، اس کی دلیل اس آیت کا عموم ہے جو بیویوں اور اور لونڈیوں پر مشتمل ہے حضرت ابن مسعود سے اس کا سوال ہوا تو آپ نے مکروہ بتایا سائل نے کہا قرآن میں جو ہے آیت (اِلَّا مَامَلَكَتْ اَيْمَانُكُمْ ) 4 ۔ النسآء :24) یعنی وہ جو جن کے تمہارے دائیں ہاتھ مالک ہیں اس پر حضرت ابن مسعود نے فرمایا تیرا اونٹ بھی تو تیرے داہنے ہاتھ کی ملکیت میں ہے جمہور کا قول بھی یہی مشہور ہے اور آئمہ اربعہ وغیرہ بھی یہی فرماتے ہیں گو بعض سلف نے اس مسئلہ میں توقف فرمایا ہے حضرت عثمان بن عفان سے جب یہ مسئلہ پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا ایک آیت اسے حلال کرتی ہے دوسری حرام میں تو اس سے منع کرتا سائل وہاں سے نکلا تو راستے میں ایک صحابی سے ملاقات ہوئی اس نے ان سے بھی یہی سوال کیا انہوں نے فرمایا اگر مجھے کچھ اختیار ہوتا تو میں ایسا کرنے والے کو عبرت ناک سزا دیتا، حضرت امام مالک فرماتے ہیں میرا گمان ہے کہ یہ فرمانے والے غالباً علی کا نام اس لئے نہیں لیا کہ وہ عبدالملک بن مروان کا مصاحب تھا اور ان لوگوں پر آپ کا نام بھاری پڑتا تھا حضرت الیاس بن عامر کہتے ہیں میں نے حضرت علی بن ابی طالب سے سوال کیا کہ میری ملکیت میں دو لونڈیاں ہیں دونوں آپس میں سگی بہنیں ہیں ایک سے میں نے تعلقات قائم کر رکھے ہیں اور میرے ہاں اس سے اولاد بھی ہوئی ہے اب میرا جی چاہتا ہے کہ اس کی بہن سے جو میری لونڈی ہے اپنے تعلقات قائم کروں تو فرمائیے شریعت کا اس میں کیا حکم ہے ؟ آپ نے فرمایا پہلی لونڈی کو آزاد کر کے پھر اس کی بہن سے یہ تعلقات قائم کرسکتے ہو، اس نے کہا اور لوگ تو کہتے ہیں کہ میں اس کا نکاح کرا دوں پھر اس کی بہن سے مل سکتا ہوں، حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے فرمایا دیکھو اس صورت میں بھی خرابی ہے وہ یہ کہ اگر اس کا خاوند اسے طلاق دے دے یا انتقال کر جائے تو وہ پھر لوٹ کر تمہاری طرف آجائے گی، اسے تو آزاد کردینے میں ہی سلامتی ہے، پھر آپ نے میرا ہاتھ پکڑ کر فرمایا سنو آزاد عورتوں اور لونڈیوں کے احکام حلت و حرمت کے لحاظ سے یکساں ہیں ہاں البتہ تعداد میں فرق ہے یعنی آزاد عورتیں چار سے زیادہ جمع نہیں کرسکتے اور لونڈیوں میں کوئی تعداد کی قید نہیں اور دودھ پلائی کے رشتہ سے بھی اس رشتہ کی وہ تمام عورتیں حرام ہوجاتی ہیں جو نسل اور نسب کی وجہ سے حرام ہیں (اس کے بعد تفسیر ابن کثیر کے اصل عربی نسخے میں کچھ عبارت چھوٹی ہوئی ہے بہ ظاہر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ وہ عبارت یوں ہوگی کہ یہ روایت ایسی ہے کہ اگر کوئی شخص مشرق سے یا مغرب سے صرف اس روایت کو سننے کے لئے سفر کر کے آئے اور سن کے جائے تو بھی اس کا سفر اس کے لئے سود مند رہے گا اور اس نے گویا بہت سستے داموں بیش بہا چیز حاصل کی۔ واللہ اعلم۔ مترجم) یہ یاد رہے کہ حصرت علی سے بھی اسی طرح مروی ہی جس طرح حصرت عثمان سے مروی ہے چناچہ ابن مردونیہ میں ہے کہ آپ نے فرمایا دو لونڈیوں کو جو آپس میں بہنیں ہوں ایک ہی وقت جمع کر کے ان سے مباشرت کرنا ایک آیت سے حرام ہوتا ہے اور دوسری سے حلال حضرت ابن عباس فرماتے ہیں لونڈیاں مجھ پر میری قرابت کی وجہ سے جو ان سے ہے بعض اور لونڈیوں کو حرام کردیتی ہیں لیکن انہیں خود آپس میں جو قرابت ہو اس سے مجھ پر حرام نہیں ہوتیں، جاہلیت والے بھی ان عورتوں کو حرام سمجھتے تھے جنہیں تم حرام سمجھتے ہو مگر اپنے باپ کی بیوی کو جو ان کی سگی ماں نہ ہو اور دو بہنوں کو ایک ساتھ ایک وقت میں نکاح میں جمع کرنا وہ حرام نہیں سمجھتے تھے لیکن اسلام نے آکر ان دونوں کو بھی حرام قرار دیا اس وجہ سے ان دونوں کی حرمت کے بیان کے ساتھ ہی فرما دیا کہ جو نکاح ہوچکے وہ ہوچکے حضرت ابن مسعود (رض) فرماتے ہیں کہ جو آزاد عورتیں حرام ہیں وہی لونڈیاں بھی حرام ہیں ہاں تعداد میں حکم ایک نہیں یعنی آزاد عورتیں چار سے زیادہ جمع نہیں کرسکتے لونڈیوں کے لئے یہ حد نہیں، حضرت شعی بھی یہی فرماتے ہیں ابو عمرو فرماتے ہیں حضرت عثمان (رض) نے اس بارے میں جو فرمایا ہے وہی سلف کی ایک جماعت بھی کہتی ہے جن میں سے حضرت ابن عباس بھی ہیں لیکن اولاً تو اس کی نقل میں خود انہی حضرات سے بہت کچھ اختلاف ہوا ہے دوسرے یہ کہ اس قول کی طرف سمجھدار پختہ کار علماء کرام نے مطلقاً توجہ نہیں فرمائی اور نہ اسے قبول کیا حجاز عراق شام بلکہ مشرق و مغرب کے تمام فقہاء اس کے خلاف ہیں سوائے ان چند کے جنہوں نے الفاظ کو دیکھ، سوچ سمجھ اور غور و خوض کئے بغیر ان سے علیحدگی اختیار کی ہے اور اس اجماع کی مخالفت کی ہے کامل علم والوں اور سچی سمجھ بوجھ والوں کا تو اتفاق ہے کہ دو بہنوں کو جس طرح نکاح میں جمع نہیں کرسکتے دو لونڈیوں کو بھی جو آپس میں بہنیں ہوں بہ وجہ ملکیت کے ایک ساتھ نکاح میں نہیں لاسکتے اسی طرح مسلمانوں کا اجماع ہے کہ اس آیت میں ماں بیٹی بہن وغیرہ حرام کی گئی ہیں ان سے جس طرح نکاح حرام ہے اسی طرح اگر یہ لونڈیاں بن کر ما تحتی میں ہوں تو بھی جنسی اختلاط حرام ہے غرض نکاح اور ملکیت کے بعد کی دونوں حالتوں میں یہ سب کی سب برابر ہیں، نہ ان سے نکاح کر کے میل جول حلال نہ ملکیت کے بعد میل جول حلال اسی طرح ٹھیک یہی حکم ہے کہ دو بہنوں کے جمع کرنے ساس اور دوسرے خاوند سے اپنی عورت کی لڑکی ہو اس کے بارے میں خود ان کے جمہور کا بھی یہی مذہب ہے اور یہی دلیل ان چند مخالفین پر پوری سند اور کامل حجت ہے الغرض دو بہنوں کو ایک وقت نکاح میں رکھنا بھی حرام اور دو بہنوں کو بطور لونڈی کہہ کر ان سے ملنا جلنا بھی حرام۔