وَلِكُلٍّ جَعَلْنَا مَوَالِىَ مِمَّا تَرَكَ الْوَالِدٰنِ وَالْاَقْرَبُوْنَ ۗ وَالَّذِيْنَ عَقَدَتْ اَيْمَانُكُمْ فَاٰ تُوْهُمْ نَصِيْبَهُمْۗ اِنَّ اللّٰهَ كَانَ عَلٰى كُلِّ شَىْءٍ شَهِيْدًا ۙ
تفسیر کمالین شرح اردو تفسیر جلالین:
اور ہم نے ہر اُس ترکے کے حق دار مقرر کر دیے ہیں جو والدین اور رشتہ دار چھوڑیں اب رہے وہ لوگ جن سے تمہارے عہد و پیمان ہوں تو ان کا حصہ انہیں دو، یقیناً اللہ ہر چیز پر نگراں ہے
English Sahih:
And for all, We have made heirs to what is left by parents and relatives. And to those whom your oaths have bound [to you] – give them their share. Indeed Allah is ever, over all things, a Witness.
ابوالاعلی مودودی Abul A'ala Maududi
اور ہم نے ہر اُس ترکے کے حق دار مقرر کر دیے ہیں جو والدین اور رشتہ دار چھوڑیں اب رہے وہ لوگ جن سے تمہارے عہد و پیمان ہوں تو ان کا حصہ انہیں دو، یقیناً اللہ ہر چیز پر نگراں ہے
احمد رضا خان Ahmed Raza Khan
اور ہم نے سب کے لئے مال کے مستحق بنادیے ہیں جو کچھ چھوڑ جائیں ماں باپ اور قرابت والے اور وہ جن سے تمہارا حلف بندھ چکا انہیں ان کا حصہ دو، بیشک ہر چیز اللہ کے سامنے ہے،
احمد علی Ahmed Ali
اور ہر شخص کے ہم نے وارث مقرر کر دیئے ہیں اس مال کے جو ماں باپ یا رشتہ دار چھوڑ کر مریں اور وہ لوگ جن سے تمہارے عہد و پیمان ہوں تو انہیں ان کا حصہ دے دو بے شک الله ہر چیز پر گواہ ہے
أحسن البيان Ahsanul Bayan
ماں باپ یا قرابت دار جو چھوڑ مریں اس کے وارث ہم نے ہر شخص کے لئے مقرر کر دئیے ہیں (١) جن سے تم نے اپنے ہاتھوں معاہدہ کیا ہے انہیں ان کا حصہ دو (٢) حقیقتاً اللہ تعالٰی ہرچیز پر حاضر ہے۔
٣٣۔١ مَوَالِیْ، مولیٰ کی جمع ہے مولیٰ کے کئی معنی ہیں دوست، آزاد کردہ غلام، چچازاد، پڑوسی، لیکن یہاں اس سے مراد ورثاء ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ ہر مرد اور عورت جو کچھ چھوڑ جائیں گے، اس کے وارث ان کے ماں باپ اور دیگر قریبی رشتہ دار ہونگے۔
٣٣۔٢ اس آیت کے محکم یا منسوخ ہونے کے بارے میں مفسرین کا اختلاف ہے۔ ابن جریر طبری وغیرہ اسے غیر منسوخ(محکم) مانتے ہیں اور اَیْمَانُکُمْ (معاہدہ) سے مراد وہ حلف اور معاہدہ لیتے ہیں جو ایک دوسرے کی مدد کے لئے اسلام سے قبل دو اشخاص یا دو قبیلوں کے درمیان ہوا اور اسلام کے بعد بھی وہ چلا آرہا تھا۔ نصیبھم (حصہ) سے مراد اسی حلف اور معاہدے کی پابندی کے مطابق تعاون و تناصر کا حصہ ہے اور ابن کثیر اور دیگر مفسرین کے نزدیک یہ آیت منسوخ ہے۔ کیونکہ اَیْمَانُکُمْ سے ان کے نزدیک وہ معاہدہ ہے جو ہجرت کے بعد ایک انصاری اور مہاجر کے درمیان اخوت کی صورت میں ہوا تھا۔ اس میں ایک مہاجر، انصاری کے مال کا اس کے رشتہ داروں کی بجائے، وارث ہوتا تھا، لیکن یہ چونکہ ایک عارضی انتظام تھا، اس لیے پھر (وَاُولُوا الْاَرْحَامِ بَعْضُهُمْ اَوْلٰى بِبَعْضٍ فِيْ كِتٰبِ اللّٰهِ) 33۔ الاحزاب;6) رشتے دار اللہ کے حکم کی رو سے ایک دوسرے کے زیادہ حقدار ہیں، نازل فرما کر اسے منسوخ کر دیا گیا ہے۔ اب "فاتوھم نصیبھم" سے مراد دوستی و محبت اور ایک دوسرے کی مدد ہے اور بطور وصیت کچھ دے دینا بھی اس میں شامل ہے۔ موالات عقد، موالات حلف یا موالات اخوت میں اب وراثت کا تصور نہیں ہوگا اہل علم کے ایک گروہ نے اس سے مراد ایسے شخصوں کو لیا جن میں سے کم از کم ایک لاوارث ہے۔ اور ایک دوسرے شخص سے یہ طے کرتا ہے کہ میں تمہارا مولی ہوں۔ اگر کوئی جنایت کروں تو میری مدد کرنا اور اگر مارا جاؤں تو میری دیت لے لینا۔ اس لاوارث کی وفات کے بعد اس کا مال مزکورہ شخص لے گا۔ بشرطیکہ واقعتا اس کا کوئی وارث نہ ہو۔ بعض دوسرے اہل علم نے اس آیت کا ایک اور معنی بیان کیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ "ۭوَالَّذِيْنَ عَقَدَتْ اَيْمَانُكُمْ "4۔ النساء;33) سے مراد بیوی اور شوہر ہیں اور اس کا عطف الاقربون پر ہے۔ معنی یہ ہیں کہ ماں باپ نے قرابت داروں نے اور جن کو تمہارا عہد و پیمان آپس میں باندھ چکا ہے یعنی شوہر یا بیوی انہوں نے جو کچھ میراث میں چھوڑا اس کے حقدار یعنی حصے دار ہم نے مقرر کر دیئے ہیں۔ لہذا ان حقداروں کو ان کے حصے دے دو گویا پیچھے آیات میراث میں تفصیلا جو حصے بیان کیے گئے تھے یہاں اجمالا ان کی ادائیگی کی مزید تاکید کی گئی ہے۔
جالندہری Fateh Muhammad Jalandhry
اور جو مال ماں باپ اور رشتہ دار چھوڑ مریں تو (حق داروں میں تقسیم کردو کہ) ہم نے ہر ایک کے حقدار مقرر کردیئے ہیں اور جن لوگوں سے تم عہد کرچکے ہو ان کو بھی ان کا حصہ دو بےشک خدا ہر چیز کے سامنے ہے
محمد جوناگڑھی Muhammad Junagarhi
ماں باپ یا قرابت دار جو چھوڑ مریں اس کے وارث ہم نے ہر شخص کے مقرر کر دیئے ہیں اور جن سے تم نے اپنے ہاتھوں معاہده کیا ہے انہیں ان کا حصہ دو حقیقتاً اللہ تعالیٰ ہر چیز پر حاضر ہے
محمد حسین نجفی Muhammad Hussain Najafi
اور ہم نے ہر شخص کے لئے وارث مقرر کر دیئے ہیں، جو کچھ ماں، باپ اور قریب ترین رشتہ دار اور جن سے تم نے عہدوپیمان کر رکھا ہے۔ چھوڑ جائیں انہیں (وارثوں کو) ان کا حصہ دو۔ بے شک اللہ ہر چیز پر گواہ (مطلع) ہے۔
علامہ جوادی Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
اور جو کچھ ماں باپ یا اقربا نے چھوڑا ہے ہم نے سب کے لئے ولی و وارث مقرر کردئیے ہیں اور جن سے تم نے عہد و پیمان کیا ہے ان کا حصہ ّبھی انہیں دے دو بیشک اللہ ہر شے پر گواہ اور نگراں ہے
طاہر القادری Tahir ul Qadri
اور ہم نے سب کے لئے ماں باپ اور قریبی رشتہ داروں کے چھوڑے ہوئے مال میں حق دار (یعنی وارث) مقرر کر دیئے ہیں، اور جن سے تمہارا معاہدہ ہو چکا ہے سو اُنہیں ان کا حصہ دے دو، بیشک اللہ ہر چیز کا مشاہدہ فرمانے والا ہے،
تفسير ابن كثير Ibn Kathir
مسئلہ وارثت میں موالی ؟ وارث اور عصبہ کی وضاحت و اصلاحات
بہت سے مفسرین سے مروی ہے کہ موالی سے مراد وارث ہیں بعض کہتے ہیں عصبہ مراد ہیں ؟ چچا کی اولاد کو بھی موالی کہا جاتا ہے جیسے حضرت فضل بن عباس کے شعر میں ہے۔ پس مطلب آیت کا یہ ہوا کہ اے لوگو ! تم میں سے ہر ایک کے لئے ہم نے عصبہ مقرر کر دئیے ہیں جو اس مال کے وارث ہوں گے جسے ان کے ماں باپ اور قرابتدار چھوڑ مریں اور تمہارے منہ بولے بھائی ہیں تم جن کی قسمیں کھا کر بھائی بنے ہو اور وہ تمہارے بھائی بنے ہیں انہیں ان کی میراث کا حصہ دو جیسے کہ قسموں کے وقت تم میں عہد و پیمان ہوچکا تھا، یہ حکم ابتدائے اسلام میں تھا پھر منسوخ ہوگیا اور حکم ہوا کہ جن سے عہد و پیمان ہوئے وہ نبھائے جائیں اور بھولے نہ جائیں لیکن میراث انہیں نہیں ملے گی صحیح بخاری شریف میں حضرت ابن عباس (رض) سے مروی ہے کہ موالی سے مراد وارث ہیں اور بعد کے جملہ سے مراد یہ ہے کہ مہاجرین جب مدینہ شریف میں تشریف لائے تو یہ دستور تھا کہ ہر مہاجر اپنے انصاری بھائی بند کا وارث ہوتا اس کے ذو رحم رشتہ دار وارث نہ ہوتے پس آیت نے اس طریقے کو منسوخ قرار دیا اور حکم ہوا کہ ان کی مدد کرو انہیں فائدہ پہنچاؤ ان کی خیر خواہی کرو لیکن میراث انہیں نہیں ملے گی ہاں وصیت کر جاؤ۔ قبل از اسلام یہ دستور تھا کہ دو شخصوں میں عہد و پیمان ہوجاتا تھا کہ میں تیرا وارث اور تو میرا وارث اسی طرح قبائل عرب عہد و پیمان کرلیتے تھے پس حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جاہلیت کی قسمیں اور اس قسم کے عہد اس آیت نے منسوخ قرار دے دیئے اور فرمایا معاہدوں والوں کی بہ نسبت ذی رحم رشتہ دار کتاب اللہ کے حکم سے زیادہ ترجیح کے مستحق ہیں۔ ایک روایت میں ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جاہلیت کی قسموں اور عہدوں کے بارے میں یہاں تک تاکید فرمائی کہ اگر مجھے سرخ اونٹ دئیے جائیں اور اس قسم کے توڑنے کو کہا جائے جو دارالندوہ میں ہوئی تھی تو میں اسے بھی پسند نہیں کرتا، ابن جریر میں ہے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرماتے ہیں میں اپنے بچپنے میں اپنے ماموؤں کے ساتھ حلف طیبین میں شامل تھا میں اس قسم کو سرخ اونٹوں کے بدلے بھی توڑنا پسند نہیں کرتا پس یاد رہے کہ قریش و انصار میں جو تعلق رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے قائم کیا تھا وہ صرف الفت و یگانگت پیدا کرنے کے لئے تھا، لوگوں کے سوال کے جواب میں بھی حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا یہ فرمان مروی ہے کہ جاہلیت کے حلف نبھاؤ۔ لیکن اب اسلام میں رسم حلف کالعدم قرار دے دی گئی ہے فتح مکہ والے دن بھی آپ نے کھڑے ہو کر اپنے خطبہ میں اسی بات کا اعلان فرمایا داؤد بن حصین (رح) کہتے ہیں میں حضرت ام سعد بنت ربیع (رض) سے قرآن پڑھتا تھا میرے ساتھ ان کے پوتے موسیٰ بن سعد بھی پڑھتے تھے جو حضرت ابوبکر کی گود میں یتیمی کے ایام گزار رہے تھے میں نے جب اس آیت میں عاقدت پڑھا تو مجھے میری استانی جی نے روکا اور فرمایا عقدت پڑھو اور یاد رکھو یہ آیت حضرت ابوبکر (رض) اور ان کے صاحبزادے حضرت عبدالرحمن (رض) کے بارے میں نازل ہوئی ہے کہ عبدالرحمن اسلام کے منکر تھے حضرت صدیق (رض) نے قسم کھالی کہ انہیں وارث نہ کریں گے بالآخر جب یہ مسلمانوں کے بےانتہا حسن اعمال سے اسلام کی طرف آمادہ ہوئے اور مسلمان ہوگئے تو جناب صدیق (رض) کو حکم ہوا کہ انہیں ان کے ورثے کے حصے سے محروم نہ فرمائیں لیکن یہ قوم غریب ہے اور صحیح قول پہلا ہی ہے الغرض اس آیت اور ان احادیث سے ان کا قول رد ہوتا ہے جو قسم اور وعدوں کی بنا پر آج بھی ورثہ پہنچنے کے قائل ہیں جیسے کہ امام ابو حنفیہ (رح) اور ان کے ساتھیوں کا خیال ہے اور امام احمد (رح) سے بھی اس قسم کی ایک روایت ہے۔ جسے جمہور اور امام مالک اور امام شافعی سے صحیح قرار دیا ہے اور مشہور قول کی بنا پر امام احمد کا بھی اسے صحیح مانتے ہیں، پس آیت میں ارشاد ہے کہ ہر شخص کے وارث اس کے قرابتی لوگ ہیں اور کوئی نہیں۔ بخاری و مسلم میں ہے رسول مقبول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرماتے ہیں حصہ دار وارثوں کو ان کے حصوں کے مطابق دے کر پھر جو بچ رہے تو عصبہ کو ملے اور وارث وہ ہیں جن کا ذکر فرائض کی دو آیتوں میں ہے اور جن سے تم سے مضبوط عہد و پیمان اور قسموں کا تبادلہ ہے یعنی آس آیت کے نازل ہونے سے پہلے کے وعدے اور قسمیں ہوں خواہ اس آیت کے اترنے کے بعد ہوں سب کا یہی حکم ہے کہ ایسے حلف برداروں کو میراث نہ ملے اور بقول حضرت ابن عباس (رض) ان کا حصہ نصرت امداد خیر خواہی اور وصیت ہے میراث نہیں آپ فرماتے ہیں لوگ عہدو پیمان کرلیا کرتے تھے کہ ان میں سے جو پہلے مرے گا بعد والا اس کا وارث بنے گا پس اللہ تبارک و تعالیٰ نے (وَاُولُوا الْاَرْحَامِ بَعْضُهُمْ اَوْلٰى بِبَعْضٍ فِيْ كِتٰبِ اللّٰهِ مِنَ الْمُؤْمِنِيْنَ وَالْمُهٰجِرِيْنَ اِلَّآ اَنْ تَفْعَلُوْٓا اِلٰٓى اَوْلِيٰۗىِٕكُمْ مَّعْرُوْفًا) 33 ۔ الاحزاب ;6) نازل فرما کر حکم دیا کہ ذی رحم محرم ایک سے اولی ہے البتہ اپنے دوستوں کے ساتھ حسن سلوک کرو یعنی اگر ان سے مال کا تیسرا حصہ دینے کی وصیت کر جاؤ تو جائز ہے یہی معروف و مشہور امر اور بہت سے سلف سے بھی مروی ہے کہ یہ آیت منسوخ ہے اور ناسخ (وَاُولُوا الْاَرْحَامِ بَعْضُهُمْ اَوْلٰى بِبَعْضٍ فِيْ كِتٰبِ اللّٰهِ مِنَ الْمُؤْمِنِيْنَ وَالْمُهٰجِرِيْنَ اِلَّآ اَنْ تَفْعَلُوْٓا اِلٰٓى اَوْلِيٰۗىِٕكُمْ مَّعْرُوْفًا) 33 ۔ الاحزاب ;6) والی ہے۔ حضرت سعید بن جبیر (رح) فرماتے ہیں انہیں ان کا حصہ دو یعنی میراث۔ حضرت ابوبکر (رض) نے ایک صاحب کو اپنا بیٹا بناتے تھے اور انہیں اپنی جائیداد کا جائز وارث قرار دیتے تھے پس اللہ تعالیٰ نے ان کا حصہ وصیت میں تو برقرار رکھا میراث کا مستحق موالی یعنی ذی رحم محرم رشتہ داروں اور عصبہ کو قرار دے دیا اور سابقہ رسم کو ناپسند فرمایا کہ صرف زبانی دعوؤں اور بنائے ہوئے بیٹوں کو ورثہ نہ دیا جائے ہاں ان کے لئے وصیت میں سے دے سکتے ہو۔ امام ابن جریر (رح) فرماتے ہیں میرے نزدیک مختار قول یہ ہے کہ انہیں حصہ دو یعنی نصرت نصیحت اور معونت کا یہ نہیں کہ انہیں ان کے ورثہ کا حصہ دو تو یہ معنی کرنے سے پھر آیت کو منسوخ بتلانے کی وجہ باقی نہیں رہتی نہ یہ کہنا پڑتا ہے کہ یہ حکم پہلے تھا اب نہیں رہا۔ بلکہ آیت کی دلالت صرف اسی امر پر ہے کہ جو عہد و پیمان آپس میں امداد و اعانت کے خیر خواہی اور بھلائی کے ہوتے تھے انہیں وفا کرو پس یہ آیت محکم اور غیر منسوخ ہے لیکن امام صاحب کے قول میں ذرا اشکال سے اس لئے کہ اس میں تو شک نہیں کہ بعض عہد و پیمان صرف نصرت و امداد کے ہی ہوتے تھے لیکن اس میں بھی شک نہیں کہ بعض عہد و پیمان ورثے کے بھی ہوتے تھے جیسے کہ بہت سے سلف صالحین سے مروی ہے اور جیسے کہ ابن عباس (رض) کی تفسیر بھی منقولی ہیں۔ جس میں انہوں نے صاف فرمایا ہے کہ مہاجر انصار کا وارث ہوتا تھا اس کے قرابتی لوگ وارث نہیں ہوتے تھے نہ ذی رحم رشتہ دار وارث ہوتے تھے یہاں تک کہ یہ منسوخ ہوگیا پھر امام صاحب کیسے فرما سکتے ہیں کہ یہ آیت محکم اور غیر محکم منسوخ ہے واللہ تعالیٰ اعلم۔