اِنَّ اللّٰهَ لَا يَظْلِمُ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ ۚ وَاِنْ تَكُ حَسَنَةً يُّضٰعِفْهَا وَيُؤْتِ مِنْ لَّدُنْهُ اَجْرًا عَظِيْمًا
تفسیر کمالین شرح اردو تفسیر جلالین:
اللہ کسی پر ذرہ برابر بھی ظلم نہیں کرتا اگر کوئی ایک نیکی کرے تو اللہ اُسے دو چند کرتا ہے اور پھر اپنی طرف سے بڑا اجر عطا فرماتا ہے
English Sahih:
Indeed, Allah does not do injustice, [even] as much as an atom's weight; while if there is a good deed, He multiplies it and gives from Himself a great reward.
ابوالاعلی مودودی Abul A'ala Maududi
اللہ کسی پر ذرہ برابر بھی ظلم نہیں کرتا اگر کوئی ایک نیکی کرے تو اللہ اُسے دو چند کرتا ہے اور پھر اپنی طرف سے بڑا اجر عطا فرماتا ہے
احمد رضا خان Ahmed Raza Khan
اللہ ایک ذرہ بھر ظلم نہیں فرماتا اور اگر کوئی نیکی ہو تو اسے دونی کرتا اور اپنے پاس سے بڑا ثواب دیتا ہے،
احمد علی Ahmed Ali
بے شک الله کسی کا ایک ذرہ برابر بھی حق نہیں رکھتا اور اگر نیکی ہو تو اس کو دگنا کر دیتا ہے اور اپنے ہاں سے بڑا ثواب دیتا ہے
أحسن البيان Ahsanul Bayan
بیشک اللہ تعالٰی ایک ذرہ برابر ظلم نہیں کرتا اور اگر نیکی ہو تو اسے دوگنی کر دیتا ہے اور خاص اپنے پاس سے بڑا ثواب دیتا ہے۔
جالندہری Fateh Muhammad Jalandhry
خدا کسی کی ذرا بھی حق تلفی نہیں کرتا اور اگر نیکی (کی) ہوگی تو اس کو دوچند کردے گا اور اپنے ہاں سے اجرعظیم بخشے گا
محمد جوناگڑھی Muhammad Junagarhi
بے شک اللہ تعالیٰ ایک ذره برابر ﻇلم نہیں کرتا اور اگر نیکی ہو تو اسے دوگنی کر دیتا ہے اور خاص اپنے پاس سے بہت بڑا ﺛواب دیتا ہے
محمد حسین نجفی Muhammad Hussain Najafi
بے شک اللہ ذرہ برابر (کسی پر) ظلم نہیں کرتا اور اگر وہ (ذرہ برابر) نیکی ہو تو اسے دوگنا (بلکہ چوگنا) کر دیتا ہے اور اپنی طرف سے بہت بڑا اجر عطا فرماتا ہے۔
علامہ جوادی Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
اللہ کسی پر ذرہ برابر ظلم نہیں کرتا- انسان کے پاس نیکی ہوتی ہے تو اسے دوگنا کردیتا ہے اور اپنے پاس سے اجر عظیم عطا کرتا ہے
طاہر القادری Tahir ul Qadri
بیشک اللہ ذرّہ برابر بھی ظلم نہیں کرتا، اور اگر کوئی نیکی ہو تو اسے دوگنا کر دیتا ہے اور اپنے پاس سے بڑا اجر عطا فرماتا ہے،
تفسير ابن كثير Ibn Kathir
بےمثال خریدار ؟
باری تعالیٰ رب العالمین فرماتا ہے کہ میں کسی پر ظلم نہیں کرتا، کسی کی نیکی کو ضائع نہیں کرتا، بلکہ بڑھا چڑھا کر قیامت کے روز اس کا اجر وثواب عطا فرماؤں گا جیسے اور آیت میں ہے (وَنَضَعُ الْمَوَازِيْنَ الْقِسْطَ لِيَوْمِ الْقِيٰمَةِ فَلَا تُظْلَمُ نَفْسٌ شَـيْــــــًٔا) 21 ۔ الانبیآء ;47) ہم عدل کی ترازو رکھیں گے۔ اور فرمایا کہ حضرت لقمان نے اپنے صاحبزادے سے فرمایا تھا (يٰبُنَيَّ اِنَّهَآ اِنْ تَكُ مِثْقَالَ حَبَّةٍ مِّنْ خَرْدَلٍ فَتَكُنْ فِيْ صَخْـرَةٍ اَوْ فِي السَّمٰوٰتِ اَوْ فِي الْاَرْضِ يَاْتِ بِهَا اللّٰهُ ۭ اِنَّ اللّٰهَ لَطِيْفٌ خَبِيْرٌ) 31 ۔ لقمان ;16) اے بیٹے اگر کوئی چیز رائی کے دانے برابر ہو گو وہ کسی پتھر میں یا آسمانوں میں ہو یا زمین کے اندر ہو اللہ سے اسے لا حاضر کرے گا، بیشک اللہ تعالیٰ باریک بین خریدار ہے۔ اور جگہ فرمایا (يَوْمَىِٕذٍ يَّصْدُرُ النَّاسُ اَشْتَاتًا ڏ لِّيُرَوْا اَعْمَالَهُم) 99 ۔ الزلزال ;6) اس دن لوگ اپنے مختلف احوال پر لوٹیں گے تاکہ انہیں ان کے اعمال دکھائے جائیں پس جس نے ذرہ برابر نیکی کی ہوگی وہ اسے دیکھ لے گا اور جس نے ذرہ برابر برائی کی ہوگی وہ اسے دیکھ لے گا، بخاری و مسلم کی شفاعت کے ذکر والی مطول حدیث میں ہے کہ پھر اللہ فرمائے گا لوٹ کر جاؤ اور جس کے دل میں رائی کے دانے برابر ایمان دیکھو اسے جہنم سے نکال لاؤ۔ پس بہت سی مخلوق جہنم سے آزاد ہوگی حضرت ابو سعید یہ حدیث بیان فرما کر فرماتے اگر تم چاہو تو آیت قرآنی کے اس جملے کو پڑھ لو (اِنَّ اللّٰهَ لَا يَظْلِمُ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ ۚ وَاِنْ تَكُ حَسَنَةً يُّضٰعِفْھَا وَيُؤْتِ مِنْ لَّدُنْهُ اَجْرًا عَظِيْمًا) 4 ۔ النسآء ;40) ابن ابی حاتم میں حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) کا فرمان مروی ہے کہ قیامت کے دن کسی اللہ کے بندے یا بندی کو لایا جائے گا اور ایک پکارنے والا سب اہل محشر کو با آواز بلند سنا کر کہے گا یہ فلاں کا بیٹا یا بیٹی ہے اس کا نام یہ ہے جس کسی کا کوئی حق اس کے ذمہ باقی ہو یا آئے اور لے جائے اس وقت یہ حالت ہوگی کہ عورت چاہے گی کہ اس کا کوئی حق اس کے باپ پر یا ماں پر یا بھائی پر یا شوہر پر ہو تو دوڑ کر آئے اور لے رشتے ناتے کٹ جائیں گے کوئی کسی کا پر سان حال نہ ہوگا اللہ تعالیٰ اپنا جو حق چاہے معاف فرما دے گا لیکن لوگوں کے حقوق میں سے کوئی حق معاف نہ فرمائے گا اسی طرح جب کوئی حقدار آئے گا تو فریق ثانی سے کہا جائے گا کہ ان کے حق ادا کر یہ کہے گا دنیا تو ختم ہوچکی آج میرے ہاتھ میں کیا ہے جو میں دوں ؟ پس اس کے نیک اعمال لئے جائیں گے اور حقداروں کو دئیے جائیں گے اور ہر ایک کا حق اسی طرح ادا کیا جائے گا اب یہ شخص اگر اللہ کا دوست ہے تو اس کے پاس ایک رائی کے دانے برابر نیکی بچ رہے گی جسے بڑھا چڑھا کر صرف اسی کی بنا پر اللہ تعالیٰ اسے جنت میں لے جائے گا پھر آپ نے اسی آیت کی تلاوت کی اور اگر وہ بندہ اللہ کا دوست نہیں ہے بلکہ بدبخت اور سرکش ہے تو یہ حال ہوگا کہ فرشتہ کہے گا کہ باری تعالیٰ اس کی سب نیکیاں ختم ہوگئیں اور ابھی حقدار باقی رہ گئے حکم ہوگا کہ ان کی برائیاں لے کر اس پر لاد دو پھر اسے جہنم واصل کرو اعاذنا اللہ منہا۔ اس موقوف اثر کے بعض شواہد مرفوع احادیث میں بھی موجود ہیں۔ ابن ابی حاتم میں ابن عمر (رض) کا فرمان ہے کہ ( آیت " من جاء بالحسنۃ فلہ عشر امثالھا " ) اعراب کے بارے میں اتری ہے اس پر ان سے سوال ہوا کہ پھر مہاجرین کے بارے میں کیا ہے آپ نے فرمایا اس سے بہت ہی اچھی (اِنَّ اللّٰهَ لَا يَظْلِمُ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ ۚ وَاِنْ تَكُ حَسَنَةً يُّضٰعِفْھَا وَيُؤْتِ مِنْ لَّدُنْهُ اَجْرًا عَظِيْمًا) 4 ۔ النسآء ;40) حضرت سعید بن جبیر (رح) فرماتے ہیں مشرک کے بھی عذابوں میں اس کے باعث کمی کردی جاتی ہے ہاں جہنم سے نکلے گا تو نہیں، چناچہ صحیح حدیث میں ہے کہ حضرت عباس (رض) نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پوچھا یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ کے چچا ابو طالب کی پشت پناہ بنے ہوئے تھے آپ کو لوگوں کی ایذاؤں سے بچاتے رہتے تھے آپ کی طرف سے ان سے لڑتے تھے تو کیا انہیں کچھ نفع بھی پہنچے گا آپ نے فرمایا ہاں وہ بہت تھوڑی سی آگ میں ہے اور اگر میرا یہ تعلق نہ ہوتا تو جہنم کے نیچے کے طبقے میں ہوتا۔ لیکن یہ بہت ممکن ہے کہ یہ فائدہ صرف ابو طالب کے لئے ہی ہو یعنی اور کفار اس حکم میں نہ ہوں اس لئے کہ مسند طیالسی کی حدیث میں ہے اللہ تعالیٰ مومن کی کسی نیکی پر ظلم نہیں کرتا دنیا میں روزی وغیرہ کی صورت میں اس کے پاس کوئی نیکی نہ ہوگی اجر عظیم سے مراد اس آیت میں جنت ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنے فضل و کرم لطف و رحم سے اپنی رضامندی عطا فرمائے اور جنت نصیب کرے۔ آمین مسند احمد کی ایک غریب حدیث میں ہے حضرت ابو عثمان (رح) فرماتے ہیں مجھے خبر ملی کہ حضرت ابوہریرہ (رض) نے فرمایا ہے اللہ تعالیٰ اپنے مومن بندے کو ایک نیکی کے بدلے ایک لاکھ نیکی کا ثواب دے گا مجھے بڑا تعجب ہوا اور میں نے کہا حضرت ابوہریرہ (رض) سے مل کر ان سے خود پوچھ آؤں چناچہ میں نے سامان سفر درست کیا اور اس روایت کی چھان بین کے لئے روانہ ہوا معلوم ہوا کہ وہ تو حج کو گئے ہیں تو میں بھی حج کی نیت سے وہاں پہنچا ملاقات ہوئی تو میں نے کہا ابوہریرہ (رض) میں نے سنا آپ نے ایسی حدیث بیان کی ہے ؟ کیا یہ سچ ہے ؟ آپ نے فرمایا کیا تمہیں تعجب معلوم ہوتا ہے ؟ تم نے قرآن میں نہیں پڑھا ؟ کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے جو شخص اللہ کو اچھا قرض دے اللہ اسے بہت بہت بڑھا کر عنایت فرماتا ہے اور دوسری آیت میں ساری دنیا کو کم کہا گیا ہے اللہ تعالیٰ کی قسم میں نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سنا ہے کہ ایک نیکی کو بڑھا کر اس کے بدلے دو لاکھ ملیں گی۔ یہ حدیث اور طریقوں سے بھی مروی ہے، پھر قیامت کے دن کی سختی اور ہولناکی بیان فرما رہا ہے کہ اس دن انبیاء (علیہ السلام) کو بطور گواہ کے پیش کیا جائے گا جیسے اور آیت میں ہے (وَاَشْرَقَتِ الْاَرْضُ بِنُوْرِ رَبِّهَا وَوُضِعَ الْكِتٰبُ وَجِايْۗءَ بالنَّـبِيّٖنَ وَالشُّهَدَاۗءِ وَقُضِيَ بَيْنَهُمْ بالْحَــقِّ وَهُمْ لَا يُظْلَمُوْنَ ) 39 ۔ الزمر ;69) زمین اپنے رب کے نور سے چمکنے لگے گی نامہ اعمال دئیے جائیں گے اور نبیوں اور گواہوں کو لاکھڑا کریں گے، صحیح بخاری شریف میں ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) سے فرمایا مجھے کچھ قرآن پڑھ کر سناؤ حضرت عبداللہ نے کہا یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں آپ کو پڑھ کر سناؤں گا آپ پر تو اترا ہی ہے فرمایا ہاں لیکن میرا جی چاہتا ہے کہ دوسرے سے سنوں پس میں نے سورة نساء کی تلاوت شروع کی پڑھتے پڑھتے جب میں نے اس آیت فکیف کی تلاوت کی تو آپ نے فرمایا بس کرو میں نے دیکھا کہ آپ کی آنکھوں سے آنسو جاری تھے۔ حضرت محمد بن فضالہ انصاری (رض) فرماتے ہیں کہ قبیلہ بنی ظفر کے پاس رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آئے اور اس چٹان پر بیٹھ گئے جواب تک انکے محلے میں ہے آپ کے ساتھ ابن مسعود (رض) معاذ بن جبل (رض) اور دیگر صحابہ (رض) بھی تھے آپ نے ایک قاری سے فرمایا قرآن پڑھو پڑھتے پڑھتے جب اس آیت فکیف تک پہنچا تو آپ اس قدر روئے کہ دونوں رخسار اور داڑھی تر ہوگئی اور عرض کرنے لگے یا رب جو موجود ہیں ان پر تو خیر میری گواہی ہوگی لیکن جن لوگوں کو میں نے دیکھا ہی نہیں ان کی بابت کیسے ؟ ( ابن ابی حاتم) ابن جریر میں ہے کہ آپ نے فرمایا میں ان پر گواہ ہوں جب تک کہ ان میں ہوں پس جب تو مجھے فوت کرے گا تب تو تو ہی ان پر نگہبان ہے، ابو عبداللہ قرطبی (رح) نے اپنی کتاب تذکرہ میں باب باندھا ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اپنی امت پر شہادت کے بارے میں کیا آیا ہے ؟ اس میں حضرت سعید بن مسیب (رح) کا یہ قول لائے ہیں کہ ہر دن صبح شام نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر آپ کی امت کے اعمال پیش کئے جاتے ہیں مع ناموں کے پاس آپس قیامت کے دن ان سب پر گواہی دیں گے پھر یہی آیت تلاوت فرمائی لیکن اولاً تو یہ حضرت سعید کا خود کا قول ہے، دوسرے یہ کہ اس کی سند میں انقطاع ہے، اس میں ایک راوی مبہم ہے جس کا نام ہی نہیں تیسرے یہ حدیث مرضوع کے بیان ہی نہیں کرتے ہاں امام قرطبی (رح) اسے قبول کرتے ہیں وہ اس کے لانے کے بعد فرماتے ہیں کہ پہلے گزر چکا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے سامنے ہر چیز اور ہر جمعرات کو اعمال پیش کئے جاتے ہیں پس وہ انبیاء پر اور ماں باپ پر ہر جمعہ کو پیش کئے جاتے ہیں اور اس میں کوئی تعارض نہیں ممکن ہے کہ ہمارے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ہر جمعہ کو بھی پیش ہوتے ہوں اور ہر دن بھی (ٹھیک یہی ہے کہ یہ بات صحت کے ساتھ ثابت نہیں واللہ اعلم۔ مترجم) پھر فرماتا ہے کہ اس دن کافر کہے گا کاش میں کسی زمین میں سما جاؤں پھر زمین برابر ہوجائے گی۔ کافر ناقابل برداشت ہولناکیوں رسوائیوں اور ڈانٹ ڈپٹ سے گھبرا اٹھے گا، جیسے اور آیت میں ہے (يَّوْمَ يَنْظُرُ الْمَرْءُ مَا قَدَّمَتْ يَدٰهُ وَيَقُوْلُ الْكٰفِرُ يٰلَيْتَــنِيْ كُنْتُ تُرٰبًا) 78 ۔ النبأ ;40) جس دن انسان اپنے آگے بھیجے ہوئے اعمال اپنی آنکھوں دیکھ لے گا اور کافر کہے گا کاش کہ میں مٹی ہوگیا ہوتا۔ پھر فرمایا یہ ان تمام بد افعالیوں کا اس دن اقرار کریں گے جو انہوں نے کی تھیں اور ایک چیز بھی پوشیدہ نہ رکھیں گے ایک شخص نے حضرت ابن عباس (رض) ما سے کہا حضرت ایک جگہ تو قرآن میں ہے کہ مشرکین قیامت کے دن کہیں گے ( وَاللّٰهِ رَبِّنَا مَا كُنَّا مُشْرِكِيْنَ ) 6 ۔ الانعام ;23) کی قسم رب کی قسم ہم نے شرک نہیں کیا اور دوسری جگہ ہے کہ (وَلَا يَكْتُمُوْنَ اللّٰهَ حَدِيْثًا) 4 ۔ النسآء ;42) اللہ سے بات بھی نہ چھپائیں گے پھر ان دونوں آیتوں کا کیا مطلب ہے ؟ آپ نے فرمایا اس کا اور وقت ہے اس کا وقت اور ہے اور جب موحدوں کو جنت میں جاتے ہوئے دیکھیں گے تو کہیں گے آؤ تم بھی اپنے شرک کا انکار کرو کیا عجب کام چل جائے۔ پھر ان کے منہ پر مہریں لگ جائیں گی اور ہاتھ پاؤں بولنے لگیں گے اب اللہ تعالیٰ سے ایک بات بھی نہ چھپائیں گے (ابن جریر) مسند عبدالزاق میں ہے کہ اس شخص نے آن کر کہا تھا بہت سی چیزیں مجھ پر قرآن میں مختلف نظر آ رہا ہے، آپ نے فرمایا کیا مطلب تجھے کیا قرآن میں شک ہے ؟ اس نے کہا شک تو نہیں ہاں میری سمجھ میں اختلاف نظر آ رہا ہے، آپ نے فرمایا جہاں جہاں اختلاف تجھے نظر آیا ہو ان مقامات کو پیش کر تو اس نے یہ دو آیتیں کی تطبیق سمجھا دی۔ ایک اور روایت میں سائل کا نام بھی آیا ہے کہ وہ حضرت نافع بن ارزق تھے یہ بھی ہے کہ حضرت ابن عباس (رض) نے ان سے یہ بھی فرمایا کہ شاید تم کسی ایسی مجلس سے آ رہے ہو جہاں ان کا تذکرہ ہو رہا ہوگا یا تم نے کیا ہوگا کہ میں جاتا ہوں اور ابن عباس سے دریافت کرتا ہوں اگر میرا یہ گمان صحیح ہے تو تمہیں لازم ہے کہ جواب سن کر انہیں بھی جا کر سنادو پھر یہی جواب دیا۔