النساء آية ۵۸
اِنَّ اللّٰهَ يَأْمُرُكُمْ اَنْ تُؤَدُّوا الْاَمٰنٰتِ اِلٰۤى اَهْلِهَا ۙ وَاِذَا حَكَمْتُمْ بَيْنَ النَّاسِ اَنْ تَحْكُمُوْا بِالْعَدْلِ ۗ اِنَّ اللّٰهَ نِعِمَّا يَعِظُكُمْ بِهٖ ۗ اِنَّ اللّٰهَ كَانَ سَمِيْعًۢا بَصِيْرًا
طاہر القادری:
بیشک اللہ تمہیں حکم دیتا ہے کہ امانتیں انہی لوگوں کے سپرد کرو جو ان کے اہل ہیں، اور جب تم لوگوں کے درمیان فیصلہ کرو تو عدل کے ساتھ فیصلہ کیا کرو، بیشک اللہ تمہیں کیا ہی اچھی نصیحت فرماتا ہے، بیشک اللہ خوب سننے والا خوب دیکھنے والا ہے،
English Sahih:
Indeed, Allah commands you to render trusts to whom they are due and when you judge between people to judge with justice. Excellent is that which Allah instructs you. Indeed, Allah is ever Hearing and Seeing.
1 Abul A'ala Maududi
مسلمانو! اللہ تمہیں حکم دیتا ہے کہ امانتیں اہل امانت کے سپرد کرو، اور جب لوگوں کے درمیان فیصلہ کرو تو عدل کے ساتھ کرو، اللہ تم کو نہایت عمدہ نصیحت کرتا ہے اور یقیناً اللہ سب کچھ سنتا اور دیکھتا ہے
2 Ahmed Raza Khan
بیشک اللہ تمہیں حکم دیتا ہے کہ امانتیں جن کی ہیں انہیں سپرد کرو اور یہ کہ جب تم لوگوں میں فیصلہ کرو تو انصاف کے ساتھ فیصلہ کرو بیشک اللہ تمہیں کیا ہی خوب نصیحت فرماتا ہے، بیشک اللہ سنتا دیکھتا ہے،
3 Ahmed Ali
بے شک الله تمہیں حکم دیتا ہے کہ امانتیں امانت والوں کو پہنچا دو اور جب لوگوں کے درمیان فیصلہ کرو تو انصاف سے فیصلہ کرو بے شک تمہیں نہایت اچھی نصیحت کرتا ہے بے شک الله سننے والا دیکھنے والا ہے
4 Ahsanul Bayan
اللہ تعالٰی تمہیں تاکیدی حکم دیتا ہے کہ امانت والوں کی امانتیں انہیں پہنچاؤ (١) اور جب لوگوں کا فیصلہ کرو تو عدل اور انصاف سے فیصلہ کرو (٢) یقیناً وہ بہتر چیز ہے جس کی نصیحت تمہیں اللہ تعالٰی کر رہا ہے، (۳) بیشک اللہ تعالٰی سنتا ہے دیکھتا ہے۔
٥٨۔١ اکثر مفسرین کے نزدیک یہ آیت حضرت عثمان بن طلحہ رضی اللہ کی شان میں، جو خاندانی طور پر خانہ کعبہ کے دربان و کلید برادر چلے آرہے تھے، نازل ہوئی ہے مکہ فتح ہونے کے بعد جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خانہ کعبہ میں تشریف لائے تو طواف کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عثمان بن طلحہ رضی اللہ عنہ کو جو صلح حدیبیہ کے موقع پر مسلمان ہو چکے تھے طلب فرمایا اور انہیں خانہ کعبہ کی چابیاں دے کر فرمایا ' یہ تمہاری چابیاں ہیں آج کا دن وفا اور نیکی کا دن ہے۔ آیت کا یہ سبب نزول اگرچہ خاص ہے لیکن اس کا حکم عام ہے اور اس کے مخاطب عوام اور حکام دونوں ہیں۔ دونوں کو تاکید ہے کہ امانتیں انہیں پہنچاؤ جو امانتوں کے اہل ہیں۔ اس میں ایک تو وہ امانتیں شامل ہیں جو کسی نہ کسی کے پاس رکھوائی ہوں۔ ان میں خیانت نہ کی جائے بلکہ باحفاظت عندالطلب لوٹا دی جائیں۔ دوسرے عہدے اور مناسب منصب اہل لوگوں کو دیئے جائیں، محض سیاسی بنیاد یا نسلی و وطنی بنیاد یا قرابت و خاندان کی بنیاد پر عہدہ منصب دینا اس آیت کے خلاف ہے۔
٥٨۔٢ اس میں احکام کو بطور خاص عدل و انصاف کا حکم دیا گیا ہے۔ ایک حدیث میں ہے۔ حاکم جب تک ظلم نہ کرے اللہ اس کے ساتھ ہوتا ہے اور جب وہ ظلم کا ارتکاب شروع کر دیتا ہے تو اللہ اسے اس کے اپنے نفس کے حوالے کر دیتا ہے (سنن ابن ماجہ کتاب الاحکام)
٥٨۔٣یعنی امانتیں اہل لوگوں کے سپرد کرنا اور عدل اور انصاف مہیا کرنا۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
خدا تم کو حکم دیتا ہے کہ امانت والوں کی امانتیں ان کے حوالے کردیا کرو اور جب لوگوں میں فیصلہ کرنے لگو تو انصاف سے فیصلہ کیا کرو خدا تمہیں بہت خوب نصیحت کرتا ہے بےشک خدا سنتا اور دیکھتا ہے
6 Muhammad Junagarhi
اللہ تعالیٰ تمہیں تاکیدی حکم دیتا ہے کہ امانت والوں کی امانتیں انہیں پہنچاؤ! اور جب لوگوں کا فیصلہ کرو تو عدل وانصاف سے فیصلہ کرو! یقیناً وه بہتر چیز ہے جس کی نصیحت تمہیں اللہ تعالیٰ کر رہا ہے۔ بے شک اللہ تعالیٰ سنتا ہے، دیکھتا ہے
7 Muhammad Hussain Najafi
(اے مسلمانو) اللہ تمہیں حکم دیتا ہے کہ امانتیں اہل امانت کو ادا کرو۔ اور جب لوگوں کے درمیان فیصلہ کرو تو عدل کے ساتھ کرو۔ بے شک اللہ تمہیں بہت ہی اچھی بات کی نصیحت کرتا ہے۔ بے شک اللہ بڑا سننے والا، بڑا دیکھنے والا ہے۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
بیشک اللہ تمہیں حکم دیتا ہے کہ امانتوں کو ان کے اہل تک پہنچا دو اور جب کوئی فیصلہ کرو تو انصاف کے ساتھ کرو اللہ تمہیں بہترین نصیحت کرتا ہے بیشک اللہ سمیع بھی ہے اور بصیر بھی
9 Tafsir Jalalayn
خدا تم کو حکم دیتا ہے کہ امانت والوں کی امانتیں ان کے حوالے کردیا کرو اور جب لوگوں میں فیصلہ کرنے لگو تو انصاف سے فیصلہ کیا کرو خدا تمہیں بہت خوب نصیحت کرتا ہے بیشک خدا سنتا (اور) دیکھتا ہے
شان نزول : اِنَّ اللہ یأمرکم اَن تؤ دوا الامانات الی اھلھا، اس آیت کے نزول کا ایک خاص واقعہ ہے، یہ بات تو معلوم ہی ہے کہ اسلام کی آمد سے پہلے کعبہ کی خدمت بڑی عزت کی بات سمجھی جاتی تھی، اور بیت اللہ کی مختلف خدمتیں مختلف لوگوں میں تقسیم کی جاتی تھیں، حاجیوں کو پانی پلانے کی خدمت آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے چچا حضرت عباس (رض) کے سپرد تھی، جس کو سقایہ کہا جاتا تھا، اسی طرح بیت اللہ کی کلید برادری کی خدمت عثمان بن طلحہ کے سپرد تھی، اس کو حجابت اور سدانت کہا جاتا تھا، اور یہ خدمت پشتہا پشت سے خاندان بنو طلحہ میں چلی آرہی تھی جب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت ہوئی تو اس وقت یہ خدمت عثمان بن طلحہ سے متعلق تھی، اب آگے اس واقعہ کی روداد خود عثمان بن طلحہ کی زبانی سنئے۔
عثمان بن طلحہ کی کہانی خود ان ہی کی زبانی : ہجرت سے قبل ایک روز آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مجھ سے ملے اور مجھے اسلام قبول کرنے کی دعوت دی، میں نے نہایت گستاخانہ جواب دیا، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے میرے جواب پر کچھ نہ فرمایا اور نہ ناگواری کا اظہار فرمایا، میرا یہ دستور تھا کہ پیر اور جمعرات کے دن عام زیارت کے لئے بیت اللہ کو کھولا کرتا تھا، ایک روز کسی موقعہ پر بیت اللہ کھلا ہوا تھا لوگ زیارت کررہے تھے آپ نے بھی اندر جانا چاہا میں نے اس موقعہ پر جو کچھ میرے منہ میں آیا خوب بکا، آپ نے اس پر بھی سکونت فرمایا، صرف اسقدر فرمایا کہ عثمان ! ایسا بھی ہوسکتا ہے کہ ایک روز بیت اللہ کی کنجیاں میرے ہاتھ میں ہوں اور میں جسے چاہوں دوں، میں نے کہا یہ تو تب ہی ہوسکتا ہے کہ قریش پامال ہوچکے ہوں، آپ نے فرمایا نہیں بلکہ وہ آبرومند ہوچکے ہوں گے، آپ اس قدر فرما کر بیت اللہ کے اندر تشریف لے گئے ادھر میرا دل بےقابو ہوگیا مجھے یقین ہوگیا کہ جو کچھ فرما دیا گیا بس وہی ہوگا۔ (تفسیر ھدایت القرآن ملخصا)
عثمان بن طلحہ فرماتے ہیں کہ میں نے اسی وقت اسلام لانیکا ارادہ کرلیا، لیکن جب میں نے اپنی قوم کے تیور بدلے ہوئے دیکھے اور سب کے سب مجھے ملامت کرنے لگے تو میں اپنا ارادہ پورا نہ کرسکا، جب مکہ فتح ہوا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مجھے بلا کر بیت اللہ کی کنجی طلب فرمائی میں نے پیش کردی۔
بعض روایات میں ہے کہ عثمان بیت اللہ کی کنجی لیکر بیت اللہ کے اوپر چڑھ گئے تھے حضرت علی کرم اللہ و جہہ نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حکم کی تعمیل کے لئے زبردستی کنجی ان کے ہاتھ سے لیکر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو دیدی تھی، جب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بیت اللہ میں نماز پڑھ کر باہر تشریف لائے تو پھر کنجی مجھے واپس کرتے ہوئے فرمایا کہ لو اب یہ کنجی ہمیشہ قیامت تک تمہارے ہی خاندان میں رہے گی، جو شخص تم سے کنجیاں لے وہ ظالم ہوگا، اور فرمایا کہ بیت اللہ کی اس خدمت کے صلہ میں تمہیں جو مال مل جائے اس کو شرعی قاعدہ کے مطابق خرچ کرو۔ (معارف)
عثمان بن طلحہ کہتے ہیں کہ جب میں کنجی لے کر خوشی خوشی چلنے لگا تو آپ نے پھر مجھے آواز دی اور فرمایا کیوں عثمان جو بات میں نے کہی تھی وہ پوری ہوئی یا نہیں ؟ اب مجھے وہ بات یاد آگئی جو آپ نے ہجرت سے پہلے فرمائی تھی، ایک روز تم یہ کنجی میرے ہاتھ میں دیکھو گے، میں نے عرض کیا بیشک آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد پورا ہوا اور اسی وقت میں کلمہ پڑھکر مسلمان ہوگیا۔
حضرت عمر فاروق فرماتے ہیں کہ اس روز جب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بیت اللہ سے باہر تشریف لائے تو یہ آیت آپ کی زبان پر تھی، اِنَّ اللہ یأمر کم اَنْ تؤ دوا الاماناتِ الی اَھْلھا .
امانت کا لفظ عربی زبان میں بڑا وسع مفہوم رکھتا ہے، ہر قسم کی ذمہ داریاں اس کے تحت آتی ہیں، خواہ حقوق اللہ سے متعلق ہوں یا حقوق العباد سے، فرائض سے متعلق ہوں یا سنن ومندوبات سے متعلق، امام رازی نے صراحت کے ساتھ لکھا ہے کہ امانت کے تحت اعتقادیات معاملات اور اخلاقیات سب ہی آگئے۔
حق دار ہی کو امانت سو نپنی چاہیے : اس آیت میں اس بات کی بھی وضاحت کردی گئی کہ امانتیں ان لوگوں کو سپرد کرنی چاہئیں کہ جن میں بارامانات اٹھانے کی صلاحیت ہو ضمناً اس سے یہ بات بھی نکل آئی کہ نظام شریعت میں سعی و سفارش نیز اقرباپروری وغیرہ کی کوئی گنجائش نہیں ہے، حکومت میں عہدے صرف انھیں کو ملنے چاہئیں جو ان خدمتوں اور منصبوں کے واقعی اہل ہوں۔
وَاِذاحکمتم بین الناس أن تحکمو ابالعدل (الآیة) اس میں حکام کو بطور خاص عدل و انصاف کا حکم دیا گیا ہے، ایک حدیث میں ہے کہ حاکم جب تک ظلم نہ کرے اللہ اس کے ساتھ ہوتا ہے جب وہ ظلم کا ارتکاب کرنے لگتا ہے تو اللہ اس کو اس کے نفس کے حوالہ کردیتا ہے۔ (سنن ابن ماجہ کتاب الاحکام)
یہود کی یہ عادت بھی کہ امانت میں خیانت کرتے اور مقدمات کے فیصلوں میں رشوت وغیرہ کی وجہ سے طرفداری کرتے، یہود شخصی اور قومی اغراض کے لئے بےتکلف انصاف کے گلے پر چھری پھیردیتے، اس لئے مسلمانوں کو مذکورہ دونوں باتوں سے روکا گیا ہے۔
منقول ہے کہ فتح مکہ کے دن آپ نے خانہ کعبہ میں داخل ہونا چاہا تو عثمان بن طلحہ کلید بردار خانہ کعبہ نے کنجی دینے سے انکار کردیا تو حضرت علی (رض) نے زبردستی ان سے چھین کر دروازہ کھول دیا، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب فارغ ہو کر باہر تشریف لائے تو حضرت عباس (رض) نے آپ سے درخواست کی کہ کعبة اللہ کی کنجی مجھے عنایت فرمائیں اس پر یہ آیت نازل ہوئی اور کنجی آپ نے عثمان بن طلحہ کو دیدی، تفصیل سابق میں گذر چکی ہے۔
وَاِذحکمتم بین الناس اَنَ تحکموابالعدل : اس جملہ میں حق تعالیٰ نے بین الناس فرمایا ہے، بین المسلمین یا بین المؤمنین نہیں فرمایا، اس میں اشارہ ہے کہ مقدمات کے فیصلوں میں انسان مساوی ہیں، مسلم ہوں یا غیر مسلم دوست ہوں یا دشمن وطنی ہوں یا غیر وطنی ہم رنگ وہم زبان ہوں یا نہ ہوں فیصلہ کرنے والوں کا فرض ہے کہ ان سب تعلقات سے الگ ہو کر جو بھی حق و انصاف کا تقاضہ ہو وہ فیصلہ کریں۔
10 Tafsir as-Saadi
ہر وہ چیز جس پر انسان کو امین بنایا جائے اور اس کے انتظام کی ذمہ داری اس کے سپرد کی جائے، امانت کہلاتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو حکم دیا ہے کہ وہ امانتیں بغیر کسی کمی اور بغیر کسی ٹال مٹول کے پوری کی پوری ادا کردیں۔ اس میں عہدوں کی امانت، اموال کی امانت، بھید اور رازوں کی امانت اور ان مامورات کی امانت جنہیں اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں جانتا، سب شامل ہیں۔ فقہاء کہتے ہیں کہ جس کسی کے پاس کوئی امانت رکھی جائے اس پر اس کی حفاظت کرنا واجب ہے۔ چونکہ امانت کی حفاظت کئے بغیر اس کو واپس ادا کرنا ممکن نہیں، اس لیے حفاظت واجب ہے۔ اللہ تعالیٰ کے ارشاد ﴿إِلَىٰ أَهْلِهَا ﴾ ” اس کے مالک کی طرف“ میں اس بات کی دلیل ہے کہ امانت صرف اسی شخص کو لوٹائی جائے اور ادا کی جائے جو اس کا مالک ہے اور وکیل مالک ہی کے قائم مقام ہے۔ اگر وہ امانت مالک کے سوا کسی اور شخص کے حوالے کر دے تو اس نے امانت ادا نہیں کی۔
﴿وَإِذَا حَكَمْتُم بَيْنَ النَّاسِ أَن تَحْكُمُوا بِالْعَدْلِ ﴾ ” اور جب تم لوگوں کے درمیان فیصلہ کرو تو انصاف کے مطابق کرو“ یہ حکم ان کے درمیا ن قتل کے مقدمات، مالی مقدمات اور عزت و آبرو کے مقدمات، خواہ یہ چھوٹے ہوں یا بڑے، سب کو شامل ہے اور اس کا اطلاق قریب، بعید، صالح، فاجر، دوست اور دشمن سب پر ہوتا ہے۔ وہ عدل جس کا اللہ تبارک و تعالیٰ نے اس آیت کریمہ میں حکم دیا ہے اس سے مراد حدود و احکام میں عدل کے وہ ضابطے ہیں جن کو اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان پر مشروع فرمایا ہے۔ یہ حکم معرفت عدل کو مستلزم ہے تاکہ اس کے مطابق فیصلہ کیا جا سکے۔
چونکہ یہ احکام بہت اچھے اور عدل و انصاف پر مبنی ہیں اس لیے اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرمایا : ﴿إِنَّ اللَّـهَ نِعِمَّا يَعِظُكُم بِهِ ۗ إِنَّ اللَّـهَ كَانَ سَمِيعًا بَصِيرًا ﴾ ” اللہ تم کو اچھی نصیحت کرتا ہے، بے شک اللہ سننے والا دیکھنے والا ہے“ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اپنے اوامرو نواہی کی مدح و تعریف ہے کیونکہ یہ اوامرو نواہی دنیا و آخرت کے مصالح کے حصول اور دنیا و آخرت کی مضرتوں کو دور کرنے پر مشتمل ہیں کیونکہ ان اوامرو نواہی کو مشروع کرنے والی ہستی سمیع و بصیر ہے۔ جس سے کوئی چیز چھپی ہوئی نہیں ہے وہ اپنے بندوں کے ان مصالح کو جانتا ہے جو وہ خود نہیں جانتے۔
11 Mufti Taqi Usmani
. ( musalmano ! ) yaqeenan Allah tumhen hukum deta hai kay tum amanaten unn kay haq daaron tak phonchao , aur jab logon kay darmiyan faisla kero to insaf kay sath faisla kero . yaqeen jano Allah tum ko jiss baat ki naseehat kerta hai woh boht achi hoti hai . beyshak Allah her baat ko sunta aur her cheez ko dekhta hai .
12 Tafsir Ibn Kathir
امانت اور عدل و انصاف
رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرماتے ہیں جو تیرے ساتھ امانت داری کا برتاؤ کرے تو اس کی امانت ادا کر اور جو تیرے ساتھ خیانت کرے تو اس سے خیانت مت کر ( مسند احمد و سنن) آیت کے الفاظ وسیع المعنی ہیں۔ ان میں اللہ تعالیٰ عزوجل کے حقوق کی ادائیگی بھی شامل ہے جیسے روزہ نماز زکوٰۃ کفارہ نذر وغیرہ، اور بندوں کے آپس کے کل حقوق بھی شامل ہیں جیسے امانت دار کا حق اسے دلوایا جائے گا یہاں تک کہ بےسینگ والی بکری کو اگر سینگوں والی بکری نے مارا ہے تو اس کا بدلہ بھی اسے دلوایا جائے گا حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) فرماتے ہیں کہ شہادت کی وجہ سے تمام گناہ مٹ جاتے ہیں مگر امانت نہیں مٹنے لگی کوئی شخص اللہ کی راہ میں شہید بھی ہوا تو اسے بھی قیامت کے دن لایا جائے گا اور کہا جائے گا کہ اپنی امانت ادا کر وہ جواب دے گا کہ دنیا تو اب ہے نہیں میں کہاں سے اسے ادا کروں ؟ فرماتے ہیں پھر وہ چیز اسے جہنم کی تہہ میں نظر آئے گی اور کہا جائے گا کہ جا اسے لے آ وہ اسے اپنے کندھے پر لاد کرلے چلے گا لیکن وہ گرپڑے گی وہ پھر اسے لینے جائے گا بس اسی عذاب میں وہ مبتلا رہے گا حضرت زاذان اس روایت کو سن کر حضرت براء (رض) کے پاس آ کر بیان کرتے ہیں وہ کہتے ہیں میرے بھائی نے سچ کہا پھر قرآن کی اس آیت کو پڑھتے ہیں ابن عباس (رض) وغیرہ فرماتے ہیں ہر نیک و بد کے لئے پر یہی حکم ہے، ابو العالیہ فرماتے ہیں جس چیز کا حکم دیا گیا اور جس چیز سے منع کیا گیا وہ سب امانت ہے۔ حضرت ابی بن کعب (رض) فرماتے ہیں عورت اپنی شرم گاہ کی امانت دار ہے، ربیع بن انس (رض) فرماتے ہیں جو جو معاملات تیرے اور دوسرے لوگوں کے درمیان ہوں وہ سب اسی میں شامل ہے، حضرت ابن عباس (رض) فرماتے ہیں اس میں یہ بھی داخل ہے کہ سلطان عید والے دن عورتوں کو خطبہ سنائے۔ اس آیت کی شان نزول میں مروی ہے کہ جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مکہ فتح کیا اور اطمینان کے ساتھ بیت اللہ شریف میں آئے تو اپنی اونٹنی پر سوار ہو کر طواف کیا۔ حجرا سود کو اپنی لکڑی سے چھوتے تھے اس کے بعد عثمان بن طلحہ (رض) کو جو کعبہ کی کنجی برادر تھے بلایا ان سے کنجی طلب کی انہوں نے دینا چاہی اتنے میں حضرت عباس (رض) نے کہا یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اب یہ مجھے سونپئے تاکہ میرے گھرانے میں زمزم کا پانی پلانا اور کعبہ کی کنجی رکھنا دونوں ہی باتیں رہیں یہ سنتے ہی حضرت عثمان بن طلحہ (رض) نے اپنا ہاتھ روک لیا حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دوبارہ طلب کی پھر وہی واقعہ ہوا آپ نے سہ بارہ طلب کی حضرت عثمان نے یہ کہہ کر دے دی کہ اللہ کی امانت آپ کو دیتا ہوں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کعبہ کا دروازہ کھول اندر گئے وہاں جتنے بت اور تصویریں تھیں سب توڑ کر پھینک دیں حضرت ابراہیم کا بت بھی تھا جس کے ہاتھ فال کے تیر تھی آپ نے فرمایا اللہ ان مشرکین کو غارت کرے بھلا خلیل اللہ کو ان سیروں سے کیا سروکار ؟ پھر ان تمام چیزوں کو برباد کر کے ان کی جگہ پانی ڈال کر ان کے نام و نشان مٹا کر آپ باہر آئے کعبہ کے دروازے پر کھڑے ہو کر آپ نے کہا کوئی معبود نہیں بجز اللہ کے وہ اکیلا ہے جس کا کوئی شریک نہیں اس نے اپنے وعدے کو سچا کیا اپنے بندے کی مدد کی اور تام لشکروں کو اسی اکیلے نے شکست دی پھر آپ نے ایک لمبا خطبہ دیا جس میں یہ بھی فرمایا کہ جاہلیت کے تمام جھگڑے اب میرے پاؤں تلے کچل دئیے گئے خواہ مالی ہوں خواہ جانی ہوں بیت اللہ کی چوکیداری کا اور حاجیوں کو پانی پلانے کا منصب جوں کا توں باقی رہے گا اس خطبہ کو پورا کر کے آپ بیٹھے ہی تھے جو حضرت علی (رض) نے آگے بڑھ کر کہا حضور چابی مجھے عنایت فرمائی جائے تاکہ بیت اللہ کی چوکیداری کا اور حاجیوں کو زمزم پلانے کا منصب دونوں یکجا ہوجائیں لیکن آپ نے انہیں نہ دی مقام ابراہیم کو کعبہ کے اندر سے نکال کر آپ نے کعبہ کی دیوار سے ملا کر رکھ دیا اور اوروں سے کہہ دیا کہ تمہارا قبلہ یہی ہے پھر آپ طواف میں مشغول ہوگئے ابھی وہ چند پھیرے ہی پھرے تھے جو حضرت جبرائیل نازل ہوئیے اور آپ نے اپنی زبان مبارک سے اس آیت کی تلاوت شروع کی، اس پر حضرت عمر (رض) نے فرمایا میرے ماں باپ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر فدا ہوں میں نے تو اس سے پہلے آپ کو اس آیت کی تلاوت کرتے نہیں سنا اب آپ نے حضرت عثمان بن طلحہ (رض) کو بلایا اور انہیں کنجی سونپ دی اور فرمایا آج کا دن وفا کا نیکی اور سلوک کا دن ہے یہ وہی عثمان بن طلحہ (رض) وہی ہیں جن کی نسل میں آج تک کعبۃ اللہ کی کنجی چلی آتی ہے یہ صلح حدیبیہ اور فتح مکہ کے درمیان اسلام لائے جب ہی خالد بن ولید اور عمرو بن عاص بھی مسلمان ہوئے تھے ان کا چچا عثمان بن طلحہ احمد کی لڑائی میں مشرکوں کے ساتھ تھا بلکہ ان کا جھنڈا بردار تھا اور وہیں بحالت کفر مارا گیا تھا۔ الغرض مشہور تو یہی ہے کہ یہ آیت اسی بارے میں اتری ہے اب خواہ اس بارے میں نازل ہوئی ہو یا نہ ہوئی ہو بہرصورت اس کا حکم عام ہے جیسے حضرت عبداللہ بن عباس (رض) اور حضرت محمد بن حنفیہ کا قول ہے کہ ہر شخص کو دوسرے کی امانت کی ادائیگی کا حکم ہے پھر ارشاد ہے کہ فیصلے عدل کے ساتھ کرو حاکموں کو احکم الحاکمین کا حکم ہو رہا ہے کہ کسی حالت میں عدل کا دامن نہ چھوڑو، حدیث میں ہے اللہ حاکم کے ساتھ ہوتا ہے جب تک کہ وہ ظلم نہ کرے جب ظلم کرتا ہے تو اسے اسی کا طرف سونپ دیتا ہے، ایک اثر میں ہے ایک دن کا عدل چالیس سال کی عبادت کے برابر ہے، پھر فرماتا ہے یہ ادائیگی امانات کا اور عدل و انصاف کا حکم اور اسی طرح شریعت کے تمام احکام اور تمام ممنوعات تمہارے لئے بہترین اور نافع چیزیں ہیں جن کا امر پروردگار نے تمہیں دیا ہے ( ابن ابی حاتم) اور روایت میں ہے حضرت ابوہریرہ (رض) نے اس آیت کے آخری الفاظ پڑھتے ہوئے اپنا انگوٹھا اپنے کان میں رکھا اور شہادت کی انگلی اپنی آنکھ پر رکھی (یعنی اشارے سے سننا دیکھنا کان اور آنکھ پر انگلی رکھ کر بتا کر) فرمایا میں نے اسی طرح پڑھتے اور کرتے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو دیکھا ہے، راوی حدیث حضرت ابو زکریا (رح) فرماتے ہیں ہمارے استاد مضری (رح) نے بھی اسی طرح پڑھ کر اشارہ کر کے ہمیں بتایا اپنے داہنے ہاتھ کا انگوٹھا اپنی دائیں آنکھ پر رکھا اور اس کے پاس کی انگلی اپنے داہنے کان پر رکھی ( ابن ابی حاتم) یہ حدیث اسی طرح امام ابو داؤد نے بھی روایت کی ہے اور امام ابن حبان نے بھی اپنی صحیح میں اسے نقل کیا ہے۔ اور حاکم نے مستدرک میں اور ابن مردویہ نے اپنی تفسیر میں بھی اسے وارد کیا ہے، اس کی سند میں جو ابو یونس ہیں وہ حضرت ابوہریرہ (رض) کے مولی ہیں اور ان کا نام سلیم بن جیر (رح) ہے۔