مردوں کے لئے اس (مال) میں سے حصہ ہے جو ماں باپ اور قریبی رشتہ داروں نے چھوڑا ہو اور عورتوں کے لئے (بھی) ماں باپ اور قریبی رشتہ داروں کے ترکہ میں سے حصہ ہے۔ وہ ترکہ تھوڑا ہو یا زیادہ (اللہ کا) مقرر کردہ حصہ ہے،
English Sahih:
For men is a share of what the parents and close relatives leave, and for women is a share of what the parents and close relatives leave, be it little or much – an obligatory share.
1 Abul A'ala Maududi
مردوں کے لیے اُس مال میں حصہ ہے جو ماں باپ اور رشتہ داروں نے چھوڑا ہو، اور عورتوں کے لیے بھی اُس مال میں حصہ ہے جو ماں باپ اور رشتہ داروں نے چھوڑا ہو، خواہ تھوڑا ہو یا بہت، اور یہ حصہ (اللہ کی طرف سے) مقرر ہے
2 Ahmed Raza Khan
مردوں کے لئے حصہ ہے اس میں سے جو چھوڑ گئے ماں باپ اور قرابت والے اور عورتوں کے لئے حصہ ہے اس میں سے جو چھوڑ گئے ماں باپ اور قرابت والے ترکہ تھوڑا ہو یا بہت، حصہ ہے اندازہ باندھا ہوا
3 Ahmed Ali
مردوں کا اس مال میں حصہ ہے جو ماں باپ اور رشتہ داروں نے چھوڑا ہو اور عورتوں کا بھی اس مال میں حصہ ہے جو ماں باپ اور رشتہ دارو ں نے چھوڑا ہو تھوڑا ہو یہ بہت یہ حصہ مقرر ہے
4 Ahsanul Bayan
(۱) ماں باپ اور خویش واقارب کے ترکہ میں مردوں کا حصہ بھی ہے اور عورتوں کا بھی (جو مال ماں باپ اور خویش و اقارب چھوڑ کر مریں) خواہ وہ مال کم ہو یا زیادہ (اس میں) حصہ مقرر کیا ہوا ہے (۲)۔
٧۔١ اسلام سے قبل ایک یہ ظلم بھی روا رکھا جاتا تھا کہ عورتوں اور چھوٹے بچوں کو وراثت سے حصہ نہیں دیا جاتا تھا اور صرف بڑے لڑکے جو لڑنے کے قابل ہوتے، سارے مال کے وارث قرار پاتے۔ اس آیت میں اللہ تعالٰی نے فرمایا کہ مردوں کی طرح عورتوں اور بچے بچیاں اپنے والدین اور اقارب کے مال میں حصہ دار ہونگے انہیں محروم نہیں کیا جائے گا۔ تاہم یہ الگ بات ہے کہ لڑکی کا حصہ لڑکے کے حصے سے نصف ہے (جیساکہ ۳آیات کے بعد مذکورہے) یہ عورت پر ظلم نہیں ہے، نہ اس کا استخفاف ہے بلکہ اسلام کا یہ قانونِ میراث عدل وانصاف کے تقاضوں کے عین مطابق ہے۔ کیونکہ عورت کو اسلام نے معاش کی ذمہ داری سے فارغ رکھا ہے اور مرد کو اس کا کفیل بنایا ہے۔ علاوہ ازیں عورت کے پاس مہر کی صورت میں مال آتا ہے جو ایک مرد ہی اسے ادا کرتا ہے۔ اس لحاظ سے عورت کے مقابلے میں مرد پر کئی گنا زیادہ مالی ذمہ داریاں ہیں۔ اس لئے اگر عورت کا حصہ نصف کے بجائے مرد کے برابر ہوتا تو یہ مرد پر ظلم ہوتا۔ لیکن اللہ تعالٰی نے کسی پر بھی ظلم نہیں کیا ہے کیونکہ وہ عادل بھی ہے اور حکیم بھی۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
جو مال ماں باپ اور رشتہ دار چھوڑ مریں تھوڑا ہو یا بہت۔ اس میں مردوں کا بھی حصہ ہے اور عورتوں کا بھی یہ حصے (خدا کے) مقرر کئے ہوئے ہیں
6 Muhammad Junagarhi
ماں باپ اور خویش واقارب کے ترکہ میں مردوں کا حصہ بھی ہے اور عورتوں کا بھی۔ (جو مال ماں باپ اور خویش واقارب چھوڑ مریں) خواه وه مال کم ہو یا زیاده (اس میں) حصہ مقرر کیا ہوا ہے
7 Muhammad Hussain Najafi
مردوں کے لیے اس ترکہ سے حصہ ہے جو ماں باپ اور رشتہ دار چھوڑ جائیں۔ اور عورتوں کے لیے بھی حصہ ہے اس ترکہ سے جو ماں باپ اور رشتہ دار چھوڑ جائیں خواہ وہ (ترکہ) تھوڑا ہو یا زیادہ یہ حصہ (خدا کی طرف سے) لازمی مقرر ہے۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
مردوں کے لئے ان کے والدین اور اقربا کے ترکہ میں ایک حصہّ ہے اور عورتوں کے لئے بھی ان کے والدین اور اقربا کے ترکہ میں سے ایک حصہّ ہے وہ مال بہت ہو یا تھوڑا یہ حصہّ بطور فریضہ ہے
9 Tafsir Jalalayn
جو مال ماں باپ اور رشتہ دار چھوڑ مریں تھوڑا ہو یا بہت اس میں مردوں کا بھی حصہ ہے اور عورتوں کا بھی۔ یہ حصے (خدا کے) مقرر کیے ہوئے ہیں۔ لِلرِّجَالِ نَصِیْبٌ مِّمَّا تَرَکَ الْوَالِدَانِ (الآیۃ) اسلام سے قبل ایک یہ ظلم بھی رواہ رکھا جاتا تھا کہ عورتوں اور چھوٹے بچوں کو وراثت سے حصہ نہیں دیا جاتا تھا، صرف بڑے لڑکے جو لڑنے کے قابل ہوتے تھے تمام مال کے وارث قرار پاتے تھے۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ مردوں کی طرح عورتیں اور بچے، بچیاں اپنے والدین اور اقارب کے مال میں حصہ دار ہوں گے، انہیں محروم نہیں کیا جائے گا یہ الگ بات ہے کہ لڑکی کا حصہ لڑکے کے حصہ سے نصف ہے، یہ عورت پر ظلم نہیں ہے نہ اس کا استخفاف ہے، بلکہ اسلام کا یہ قانون میراث، عدل و انصاف کے تقاضوں کے عین مطابق ہے کیونکہ عورت کو اسلام نے معاش کی ذمہ داری سے فارغ رکھا ہے اور مرد کو اس کا کفیل بنایا ہے علاوہ ازیں عورت کے پاس مہر کی صورت میں مال آتا ہے اس لحاظ سے عورت کے مقابلہ میں مرد پر کئی گنا زیادہ مالی ذمہ داریاں ہیں اسلئے اگر عورت کا حصہ نصف کے بجائے مرد کے برابر ہوتا تو یہ مرد پر ظلم ہوتا لیکن اللہ تعالیٰ نے کسی پر بھی ظلم نہیں کیا کیونکہ وہ عادل بھی ہے اور حکیم بھی۔
10 Tafsir as-Saadi
زمانہ جاہلیت میں عرب، اپنی جابریت اور قساوت قلبی کی وجہ سے کمزوروں یعنی عورتوں اور بچوں کو وراثت میں حصہ نہیں دیتے تھے۔ وہ صرف طاقتور مردوں کو میراث دیا کرتے تھے ان کے زعم کے مطابق یہ لوگ جنگ وجدل اور لوٹ مار میں حصہ لینے کے قابل تھے۔ پس حکمت والے رب رحیم نے ارادہ فرمایا کہ اپنے بندوں کے لیے وراثت کا ایسا قانون بنا دے جس میں ان کے مرد اور عورتیں، طاقتور اور کمزور سب مساوی ہوں۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے اس قانون کو بیان کرنے سے پہلے ایک مجمل حکم بیان کیا تاکہ نفوس اس قانون میراث کو قبول کرنے کے لیے تیار ہوجائیں۔ جب نفوس اس کو قبول کرنے کے لیے تیار ہوگئے اور وہ وحشت زائل ہوگئی جس کا سبب بری عادات تھیں تو اس اجمال کی تفصیل آگئی۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿لِّلرِّجَالِ نَصِيبٌ ﴾ یعنی مردوں کے لیے حصہ ہے ﴿مِّمَّا تَرَكَ الْوَالِدَانِ﴾ یعنی ان میں سے جو کچھ ماں اور باپ پیچھے (ترکہ میں) چھوڑ جاتے ہیں ﴿وَالْأَقْرَبُونَ﴾ ”اور رشتہ دار“ یعنی خاص کے بعد عام کا ذکر کیا ہے ﴿وَلِلنِّسَاءِ نَصِيبٌ مِّمَّا تَرَكَ الْوَالِدَانِ وَالْأَقْرَبُونَ ﴾ ” اور عورتوں کے لیے بھی اس ترکے میں حصہ ہے جو والدین اور دیگر اقارب چھوڑ کر فوت ہوتے ہیں“ گویا کہ سوال کیا گیا کہ یہ حصہ عرف عام اور عادت کی طرف راجع ہے اور لوگ جو چاہیں ورثاء کو دے دیں؟ یا میراث کے حصے مقرر شدہ ہیں؟ پس اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿نَصِيبًا مَّفْرُوضًا ﴾یعنی اللہ تعالیٰ نے، جو علم اور حکمت والا ہے ہر ایک کا حصہ مقرر کردیا ہے۔ ان مقرر کردہ حصوں کا انشاء اللہ عنقریب ذکر آئے گا۔ یہاں ایک اور وہم کا خدشہ ہے، شاید کوئی سمجھے کہ عورتوں اور بچوں کو صرف مال کثیر کی صورت میں حصہ ملے گا اللہ تعالیٰ نے اپنے اس ارشاد کے ذریعے سے اس وہم کا ازالہ کردیا ﴿مِمَّا قَلَّ مِنْهُ أَوْ كَثُرَ﴾” خواہ یہ ترکہ تھوڑا ہو یا بہت۔“ نہایت ہی بابرکت ہے اللہ تعالیٰ جو سب سے اچھا فیصلہ کرنے والا ہے۔
11 Mufti Taqi Usmani
mardon kay liye bhi uss maal mein hissa hai jo walaiden aur qareeb tareen rishta daaron ney chorra ho , aur aurton kay liye bhi uss maal mein hissa hai jo walaiden aur qareeb tareen rishta daaron ney chorra ho , chahye woh ( tarka ) thora ho ya ziyada , yeh hissa ( Allah ki taraf say ) muqarrar hai .