(اے انسان! اپنی تربیت یوں کر کہ) جب تجھے کوئی بھلائی پہنچے تو (سمجھ کہ) وہ اللہ کی طرف سے ہے (اسے اپنے حسنِ تدبیر کی طرف منسوب نہ کر)، اور جب تجھے کوئی برائی پہنچے تو (سمجھ کہ) وہ تیری اپنی طرف سے ہے (یعنی اسے اپنی خرابئ نفس کی طرف منسوب کر)، اور (اے محبوب!) ہم نے آپ کو تمام انسانوں کے لئے رسول بنا کر بھیجا ہے، اور (آپ کی رسالت پر) اللہ گواہی میں کافی ہے،
English Sahih:
What comes to you of good is from Allah, but what comes to you of evil, [O man], is from yourself. And We have sent you, [O Muhammad], to the people as a messenger, and sufficient is Allah as Witness.
1 Abul A'ala Maududi
اے انسان! تجھے جو بھلائی بھی حاصل ہوتی ہے اللہ کی عنایت سے ہوتی ہے، اور جو مصیبت تجھ پر آتی ہے وہ تیرے اپنے کسب و عمل کی بدولت ہے اے محمدؐ! ہم نے تم کو لوگوں کے لیے رسول بنا کر بھیجا ہے اوراس پر خدا کی گواہی کافی ہے
2 Ahmed Raza Khan
اے سننے والے تجھے جو بھلائی پہنچے وہ اللہ کی طرف سے ہے اور جو برائی پہنچے وہ تیری اپنی طرف سے ہے اور اے محبوب ہم نے تمہیں سب لوگوں کے لئے رسول بھیجا اور اللہ کافی ہے گواہ
3 Ahmed Ali
تجھے جو بھی بھلائی پہنچے وہ الله کی طرف سے ہے اور جو تجھے برائی پہنچے وہ تیرے نفس کی طرف سے ہے ہم نے تجھے لوگوں کو پیغام پہنچانے واا بنا کر بھیجا ہے اور الله کی گواہی کافی ہے
4 Ahsanul Bayan
تجھے جو بھلائی ملتی ہے وہ اللہ تعالٰی کی طرف سے ہے (١) اور جو برائی پہنچتی ہے وہ تیرے اپنے نفس کی طرف سے ہے (٢) ہم نے تجھے تمام لوگوں کو پیغام پہنچانے والا بنا کر بھیجا ہے اور اللہ تعالٰی گواہ کافی ہے۔
٧٩۔١یعنی اس کے فضل و کرم سے ہے یعنی کسی نیکی یا اطاعت کا صلہ نہیں ہے، کیونکہ نیکی کی توفیق بھی دینے والا اللہ تعالٰی ہی ہے۔ علاوہ ازیں اس کی نعمتیں اتنی بےپایاں ہیں کہ ایک انسان کی عبادت و اطاعت اس کے مقابلے میں کوئی حیثیت نہیں رکھتی۔ اس لئے ایک حدیث میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جنت میں جو بھی جائے گا، محض اللہ کی رحمت سے جائے گا اپنے عمل کی وجہ سے نہیں صحابہ اکرام رضوان اللہ علھیم اجمعین نے عرض کیا یارسول اللہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بھی اللہ کی رحمت کے بغیر جنت میں نہیں جائیں گے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ' ہاں جب تک اللہ مجھے بھی اپنے، دامان رحمت میں نہیں ڈھانک لے گا جنت میں نہیں جاؤں گا ' (صحیح بخاری) ٧٩۔٢۔ یہ برائی بھی اگرچہ اللہ کی مشیت سے ہی آتی ہے۔ جیسا کہ "کل من عند اللہ" سے واضح ہے لیکن یہ برائی کسی گناہ کی عقبیت یا اس کا صلہ ہوتی ہے۔ اس لئے فرمایا یہ تمہارے نفس سے ہے یعنی تمہاری غلطیوں، کوتاہیوں اور گناہوں کا نتیجہ ہے۔ جس طرح فرمایا تمہیں جو مصیبت پہنچتی ہے، وہ تمہارے اپنے عملوں کا نتیجہ ہے اور بہت سے گناہ تو معاف ہی فرما دیتا ہے۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
اے (آدم زاد) تجھ کو جو فائدہ پہنچے وہ خدا کی طرف سے ہے اور جو نقصان پہنچے وہ تیری ہی (شامت اعمال) کی وجہ سے ہے اور (اے محمدﷺ) ہم نے تم کو لوگوں (کی ہدایت) کے لئے پیغمبر بنا کر بھیجا ہے اور (اس بات کا) خدا ہی گواہ کافی ہے
6 Muhammad Junagarhi
تجھے جو بھلائی ملتی ہے وه اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے اور جو برائی پہنچتی ہے وه تیرے اپنے نفس کی طرف سے ہے، ہم نے تجھے تمام لوگوں کو پیغام پہنچانے واﻻ بنا کر بھیجا ہے اور اللہ تعالیٰ گواه کافی ہے
7 Muhammad Hussain Najafi
آپ کو جو بھلائی پہنچتی ہے۔ وہ تو اللہ کی طرف سے ہے اور آپ کو جو تکلیف پہنچتی ہے۔ وہ تمہاری وجہ سے ہے اور ہم نے آپ کو تمام لوگوں کی طرف رسول بنا کر بھیجا ہے اور گواہی کے لیے اللہ کافی ہے۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
تم تک جو بھی اچھائی اور کامیابی پہنچی ہے وہ اللہ کی طرف سے ہے اور جو بھی برائی پہنچی ہے وہ خود تمہاری طرف سے ہے .... اور اے پیغمبرہم نے آپ کو لوگوں کے لئے رسول بنایا ہے اور خدا گواہی کے لئے کافی ہے
9 Tafsir Jalalayn
(اے آدم زاد) تجھ کو جو فائدہ پہنچے وہ خدا کی طرف سے ہے اور جو نقصان پہنچے وہ تیری ہی (شامت اعمال کی) وجہ سے ہے اور (اے محمد) ہم نے تم کو لوگوں (کی ہدایت) کے لیے پیغمبر بنا کر بھیجا ہے اور (اس بات کا) خدا ہی گواہ کافی ہے
10 Tafsir as-Saadi
پھر اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرمایا : ﴿مَّا أَصَابَكَ مِنْ حَسَنَةٍ﴾” تجھ کو جو فائدہ پہنچے۔“ یعنی دنیا و آخرت میں تجھے جو بھلائی حاصل ہوتی ہے ﴿فَمِنَ اللَّـهِ ۖ﴾ ” وہ لوگ تعالیٰ کی طرف سے ہے۔“ وہی ہے جس نے اس بھلائی سے نوازا اور اس کے اسباب پیدا کر کے اس کے حصول کو آسان بنایا ﴿وَمَا أَصَابَكَ مِن سَيِّئَةٍ﴾” اور تجھے جو نقصان پہنچے۔“ یعنی دنیا و آخرت میں تجھے جو برائی پہنچتی ہے﴿فَمِن نَّفْسِكَ﴾ ” وہ تیری طرف سے ہے۔ “ یعنی تیرے اپنے گناہوں کی وجہ سے اور تیری اپنی کمائی ہے اور جو اللہ تعالیٰ معاف کردیتا ہے وہ اس سے بہت زیادہ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں پر اپنے فضل و احسان کے دروازے کھول دیئے ہیں۔ اس نے ان کو حکم دیا ہے کہ وہ اس کے فضل و کرم سے بہرہ مند ہونے کے لیے ان دروازوں میں داخل ہوں اور انہیں آگاہ فرمایا ہے کہ گناہ اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم کے حصول سے مانع ہیں۔ اس لیے جب بندہ گناہ کرتا ہے تو اسے صرف اپنے نفس کو ملامت کرنی چاہئے کیونکہ اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم کے حصول سے تو وہ خود مانع ہوا۔ پھر اللہ تعالیٰ نے جناب محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کی عمومیت کے بارے میں خبر دیتے ہوئے فرمایا: ﴿وَأَرْسَلْنَاكَ لِلنَّاسِ رَسُولًا ۚ وَكَفَىٰ بِاللَّـهِ شَهِيدًا ﴾ ” اور اے محمد ! صلی اللہ علیہ وسلم ہم نے آپ کو لوگوں کے لیے رسول بنا کر بھیجا ہے اور (اس بات کا) اللہ ہی گواہ کافی ہے۔‘‘ اللہ تعالیٰ کی شہادت اس بات پر کافی ہے کہ آپ اللہ تعالیٰ کے سچے رسول ہیں اللہ تعالیٰ نے اپنی فتح و نصرت، بڑے بڑے معجزات اور روشن براہین و دلائل کے ساتھ آپ کی تائید فرمائی اور یہ علی الاطلاق سب سے بڑی شہادت ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ﴿قُلْ أَيُّ شَيْءٍ أَكْبَرُ شَهَادَةً ۖ قُلِ اللَّـهُ ۖ شَهِيدٌ بَيْنِي وَبَيْنَكُمْ﴾(الانعام :6؍19) ” ان سے پوچھو کہ سب سے بڑی شہادت کس چیز کی ہے۔ کہہ دو کہ اللہ تعالیٰ ہی میرے اور تمہارے درمیان گواہ ہے۔ “ جب اسے یہ معلوم ہوجائے کہ اللہ تعالیٰ کا علم کامل، اس کی قدرت تام اور اس کی حکمت عظیم ہے اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کو اپنی تائید سے نوازا اور نصرت عظیم کے ذریعے سے اس کی مدد فرمائی اسے یقین ہوجائے گا کہ آپ اللہ تعالیٰ کے رسول ہیں۔ ورنہ اگر آپ نے جھوٹ گھڑا ہوتا تو اللہ تعالیٰ آپ کو دائیں ہاتھ سے پکڑتا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی رگ جاں کاٹ دیتا ۔
11 Mufti Taqi Usmani
tumhen jo koi achai phonchti hai to woh mehaz Allah ki taraf say hoti hai aur jo koi burai phonchti hai , woh to tumharay apney sabab say hoti hai , aur ( aey payghumber ! ) hum ney tumhen logon kay paas Rasool bana ker bheja hai , aur Allah ( iss baat ki ) gawahi denay kay liye kafi hai .