النساء آية ۸۸
فَمَا لَـكُمْ فِىْ الْمُنٰفِقِيْنَ فِئَـتَيْنِ وَاللّٰهُ اَرْكَسَهُمْ بِمَا كَسَبُوْاۗ اَ تُرِيْدُوْنَ اَنْ تَهْدُوْا مَنْ اَضَلَّ اللّٰهُ ۗ وَمَنْ يُّضْلِلِ اللّٰهُ فَلَنْ تَجِدَ لَهٗ سَبِيْلًا
طاہر القادری:
پس تمہیں کیا ہوگیا ہے کہ منافقوں کے بارے میں تم دو گروہ ہو گئے ہو حالانکہ اللہ نے ان کے اپنے کرتوتوں کے باعث ان (کی عقل اور سوچ) کو اوندھا کر دیا ہے۔ کیا تم اس شخص کو راہِ راست پر لانا چاہتے ہو جسے اللہ نے گمراہ ٹھہرا دیا ہے، اور (اے مخاطب!) جسے اللہ گمراہ ٹھہرا دے تو اس کے لئے ہرگز کوئی راہِ (ہدایت) نہیں پاسکتا،
English Sahih:
What is [the matter] with you [that you are] two groups concerning the hypocrites, while Allah has made them fall back [into error and disbelief] for what they earned. Do you wish to guide those whom Allah has sent astray? And he whom Allah sends astray – never will you find for him a way [of guidance].
1 Abul A'ala Maududi
پھر یہ تمہیں کیا ہو گیا ہے کہ منافقین کے بارے میں تمہارے درمیان دو رائیں پائی جاتی ہیں، حالانکہ جو برائیاں اُنہوں نے کمائی ہیں اُن کی بدولت اللہ انہیں الٹا پھیر چکا ہے کیا تم چاہتے ہو کہ جسے اللہ نے ہدایت نہیں بخشی اُسے تم ہدایت بخش دو؟ حالانکہ جس کو اللہ نے راستہ سے ہٹا دیا اُس کے لیے تم کوئی راستہ نہیں پاسکتے
2 Ahmed Raza Khan
تو تمہیں کیا ہوا کہ منافقوں کے بارے میں دو فریق ہوگئے اور اللہ نے انہیں اوندھا کردیا ان کے کوتکوں (کرتوتوں) کے سبب کیا یہ چاہتے ہیں کہ اسے راہ دکھاؤ جسے اللہ نے گمراہ کیا اور جسے اللہ گمراہ کرے تو ہرگز اس کے لئے راہ نہ پائے گا،
3 Ahmed Ali
پھر تمہیں کیا ہو گیا ہے کہ منافقوں کے معاملہ میں دو گروہ ہو رہے ہیں اور الله نے ان کے اعمال کے سبب سےانہیں الٹ دیا ہے کیا تم چاہتے ہو جسے الله نے گمراہ کیا ہو اسے راہ پر لاؤ اور جسے الله گمراہ کرے تو اس کے لیے ہرگز کوئی راہ نہیں پائے گا
4 Ahsanul Bayan
تمہیں کیا ہوگیا ہے؟ کہ منافقوں میں دو گروہ ہو رہے ہو؟ (١) انہیں تو ان کے اعمال کی وجہ سے اللہ تعالٰی نے اوندھا کر دیا ہے۔ (٢) اب کیا تم یہ منصوبے بنا رہے ہو کہ اللہ تعالٰی کے گمراہ کئے ہوؤں کو تم راہ راست پر لا کھڑا کرو، جسے اللہ تعالٰی راہ بھلا دے تو ہرگز اس کے لئے کوئی راہ نہ پائے گا (٣)
٨٨۔١ یہ استفہام انکار کے لئے ہے یعنی تمہارے درمیان ان منافقین کے بارے میں اختلاف نہیں ہونا چاہیے تھا۔ ان منافقین سے مراد وہ ہیں جو احد کی جنگ میں مدینہ سے کچھ دور جا کر واپس آگئے تھے، ہماری بات نہیں مانی گئی (صحیح بخاری سورہ، نساء صحیح مسلم، کتاب المنافقین) جیسا کہ تفصیل میں پہلے گزر چکی ہے۔ ان منافقین کے بارے میں اس وقت مسلمانوں کے دو گروہ بن گئے، ایک گروہ کا کہنا ہے کہ ہمیں ان منافقین سے (بھی) لڑنا چاہئے، دوسرا گروہ اسے مصلحت کے خلاف سمجھتا تھا۔
٨٨۔٢ کَسَبُوا (اعمال) سے مراد رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت اور جہاد سے اعراض ہے۔ ارکَسھُمْ۔ اوندھا کر دیا یعنی جس کفر و ضلالت سے نکلے تھے، اسی میں مبتلا کر دیا، یا اس کے سبب ہلاک کر دیا۔
٨٨۔٣ جس کو اللہ گمراہ کر دے یعنی مسلسل کفر و عناد کی وجہ سے ان کے دلوں پر مہر لگا دے، انہیں کوئی راہ یاب نہیں کر سکتا۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
تو کیا سبب ہے کہ تم منافقوں کے بارے میں دو گروہ ہو رہے ہو حالانکہ خدا نے ان کو ان کے کرتوتوں کے سبب اوندھا کردیا ہے کیا تم چاہتے ہو کہ جس شخص کو خدا نے گمراہ کردیا ہے اس کو رستے پر لے آؤ اور جس شخص کو خدا گمراہ کردے تو اس کے لئے کبھی بھی رستہ نہیں پاؤ گے
6 Muhammad Junagarhi
تمہیں کیا ہوگیا ہے؟ کہ منافقوں کے بارے میں دو گروه ہو رہے ہو؟ انہیں تو ان کے اعمال کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے اوندھا کر دیا ہے۔ اب کیا تم یہ منصوبے باندھ رہے ہو کہ اللہ تعالیٰ کے گمراه کئے ہوؤں کو تم راه راست پر ﻻکھڑا کرو، جسے اللہ تعالیٰ راه بھلا دے تو ہرگز اس کے لئے کوئی راه نہ پائے گا
7 Muhammad Hussain Najafi
تمہیں کیا ہوگیا ہے کہ تم منافقین کے بارے میں دو گروہ ہوگئے ہو۔ حالانکہ اللہ نے انہیں ان کے کرتوتوں کی وجہ سے (ان کے کفر کی طرف) الٹا پھیر دیا ہے۔ کیا تم چاہتے ہو کہ اسے ہدایت دو جس سے اس کی بدعملی کی وجہ سے خدا نے توفیق ہدایت سلب کر لی ہے۔ اور جس سے اللہ توفیق ہدایت سلب کرے، تم اس کے لیے (ہدایت کا) راستہ نہیں پاؤگے۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
آخر تمہیں کیا ہوگیا ہے کہ منافقین کے بارے میں دو گروہ ہوگئے ہو جب کہ اللہ نے ان کے اعمال کی بنا پر انہیں اُلٹ دیا ہے کیا تم اسے ہدایت دینا چاہتے ہو خدا نے جسے گمراہی پر چھوڑ دیا ہے- حالانکہ جسے خدا گمراہی میں چھوڑ دے اس کے لئے تم کوئی راستہ نہیں نکال سکتے
9 Tafsir Jalalayn
تو کیا سبب ہے کہ تم منافقوں کے بارے میں دو گروہ ہو ہے ہو حالانکہ خدا نے ان کو ان کے کرتوتوں کے سبب اوندھا کردیا ہے ؟ کیا تم چاہتے ہو کہ جس شخص کو خدا نے گمراہ کردیا ہے اس کو راستے پر لے آؤ ؟ اور جس شخص کو خدا گمراہ کر دے تم اس کے لیے کبھی بھی راستہ نہ پاؤ گے
آیت نمبر ٨٨ تا ٩١
ترجمہ : اور جب لوگ اُحُدْ سے لوٹے تو لوگوں نے ان کے بارے میں اختلاف کیا، ایک فریق نے کہا ان کو قتل کرو اور دوسرے فریق نے کہا مت قتل کرو، تو یہ آیت نازل ہوئی، (فَمَالکم) تمہارا کیا حال ہے کہ تم منافقین کے بارے میں دو جماعت ہوگئے اللہ نے ان کو ان کے کفر و معاصی کی ندولت واپس پھیر دیا کیا تم چاہتے ہو کہ جن کو اللہ نے گمراہ کردیا تم راہ راست پر لے آؤ یعنی تم ان کو من جملہ ہدایت یافتہ لوگوں میں شمار کرتے ہو، استفہام دونوں جگہ انکاری ہے، اور جس کو اللہ گمراہ کردے اس کے لئے تو ہرگز ہدایت کا راستہ نہ پائیگا یہ لوگ تو دل سے چاہتے ہیں کہ تم بھی کفر کرو جس طرح یہ لوگ کفر کررہے ہیں تاکہ وہ اور تم کفر میں برابر ہوجاؤ سو تم ان میں سے کسی کو دوست نہ بنانا کہ ان سے دوستی کرنے لگو، اگرچہ وہ ایمان کا اظہار کریں، جب تک اللہ تعالیٰ کے راستہ میں صحیح طور پر ہجرت کریں جو ان کے ایمان کو محقق کردے، اور اگر وہ رو گردانی کریں اور اگر وہ موجودہ نفاق ہی پر قائم رہیں تو ان کو قید کرو اور کہیں انھیں پاؤ قتل کرو ان میں سے کسی کو دوست نہ بناؤ کہ ان سے دوستی کرنے لگو، اور نہ مددگار بناؤ کہ ان سے دشمن کے مقابلہ میں مدد لینے لگو، سوائے ان لوگوں کے جو ان لوگوں سے جا ملیں کہ ان کے اور تمہارے درمیان معاہدہ امن ہے اور ان کا جو ان سے جاملے ہیں جیسا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہلال بن عویمر اسلمی سے معاہدہ فرمایا تھا، یا وہ لوگ اسطرح آتے ہیں کہ ان کے سینے اس سے تنگ ہو رہے ہیں کہ وہ اپنی قوم کے ساتھ ہو کر تم سے لڑیں یا تمہارے ساتھ ہو کر اپنی قوم سے لڑیں، یعنی وہ تمہارے ساتھ اور ان کے ساتھ قتال کرنے سے رکے ہوئے ہیں، لہذا تم ان سے قید وقتل کرکے تعرض نہ کرو یہ حکم اور اس کا مابعد آیت سیف سے منسوخ ہے اور اگر اللہ کو تم پر ان کا غلبہ منظور ہوتا تو وہ ان کو ان کے دلوں کو قوی کرکے تمہارے اوپر غالب کردیتا تو وہ ضرور لڑتے لیکن اس کو منظور نہ ہوا جس کی وجہ سے اس نے ان کے دلوں میں رعب ڈالدیا، پس اگر وہ تمہیں چھوڑے رہیں اور تم سے قتال نہ کریں اور تمہارے ساتھ سلامت روی رکھیں، یعنی تمہارے تابع فرمان رہیں، تو اللہ نے ان کے خلاف تمہارے لئے قیدوقتل کی کوئی راہ نہیں رکھی اور عنقریب تم کچھ اور لوگ بھی پاؤ گے جو چاہتے ہیں کہ تمہارے سامنے ایمان کا اظہار کرکے تم سے بھی امن میں رہیں، اور جب اپنی قوم کے پاس جائیں تو (اظہار) کفر کے ذریعہ اپنی قوم سے بھی سے بھی امن میں رہیں اور اَسَدْ اور غطفان ہیں، اور انھیں جب کبھی فتنہ شرک کی طرف بلایا جاتا ہے تو وہ اس کی طرف پلٹ پڑتے ہیں یعنی اس میں شدت کے ساتھ واقع ہوجاتے ہیں، پس اگر ترک قتال کرکے تم کو چھوڑے نہ رکھیں اور نہ تم سے اپنے ہاتھوں کو روکے رکھیں، تو تم ان کو قید کرو اور انھیں جہاں کہیں پاؤ قتل کرو یہی لوگ تو ہیں کہ جن کے خلاف ہم نے تم کو کھلی گرفت دیدی ہے یعنی ان کے قتل وقید پر ان کی غداری کی وجہ سے کھلی اور وضح دلیل دیدی ہے۔
تحقیق و ترکیب وتسہیل وتفسیری فوائد
قولہ : مَاشَانُکُمْ ، دخولِ حرف علی الحرف سے بچنے کے لئے مفسرعلام نے شان مضاف محذوف مانا ہے۔
قولہ : صِرْتُمْ ، اس کے حذف میں اشارہ ہے کہ فِی المنفقین، صرتُمْ محذوف کے متعلق ہے اور فِئَتَیْنِ صِرتم کی خبر ہونے کی وجہ سے منصوب ہے اور جملہ ہو کر مالکم مبتداء کی خبر ہے۔
قولہ : تَمنَّوا، وَدُّوا، کی تفسیر تَمنَّوْا سے کرکے بتادیا کہ اگر وَدُّ کے بعد لَوْ واقع ہو تو تمنا کے معنی میں ہوتا ہے،
قولہ : یَلْجَأُوْنَ مفسرّ علاّم نے یَصِلون، کی تفسیر یَلْجَأن سے تصحیح صلہ کے لئے کی ہے۔
قولہ : اوالّذِیْنَ اس میں اشارہ ہے کہ جائُ وکم کا عطف یصلون پر ہے نہ کہ قوم کی صفت پر۔
قولہ : وقد حَصِرتْ ، قد محذوف مان کر ان لوگوں پر رد کرنا مقصود ہے جو حَصِرت کو قوماً محذوف کی صفت مانتے ہیں، اس لئے کہ اس میں بلا ضروت حذف لازم آتا ہے بلکہ حَصِرت جَاء وکم کی ضمیر سے حال ہے، اور ماضی جب حال واقع ہو تو قَدْ ضروری ہوتا ہے خواہ لفظاً ہو یا معنی اسی لئے مفسرّ علاّم نے قد مقدر مانا ہے۔
قولہ : عن، حصِرت چونکہ متعدی بنفسہ نہیں ہوتا اس لئے عَنْ محذوف ماننا ضروری ہے۔
تفسیر وتشریح
فَمَالکم فی المنافقین فئتَیْنِ ، یہ استفہام انکاری ہے یعنی تمہارے درمیان ان منافقوں کے بارے میں اختلاف نہیں ہونا چاہیے تھا، ان منافقین سے وہ منافقین مراد ہیں جو غزوہ احد میں مدینہ سے کچھ دور جا کر واپس آگئے تھے، اور بہانہ یہ کیا تھا کہ مشورہ میں ہماری بات نہیں مانی گئی۔ (صحیح بخاری صحیح مسلم)
ان منافقوں کے بارے میں مسلمانوں کے گروہ ہوگئے تھے، ایک گروہ کا کہنا تھا کہ ہمیں ان منافقوں سے بھی لڑنا چاہیے دوسرا اسے مصلحت کے خلاف سمجھتا تھا۔
شان نزول : مذکورہ آیت میں تین فرقوں کے واقعات کی طرف اشارہ ہے جو مندرجہ ذیل روایت سے معلوم ہوں گے۔
پہلی روایت : عبداللہ بن حمید نے مجاہد سے روایت کی ہے کہ بعض مشرکین مکہ سے مدینہ آئے اور ظاہر یہ کیا کہ ہم مسلمان اور مہاجر ہو کر آئے ہیں، پھر مرتد ہوگئے، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسباب تجارت لانیکا بہانہ کرکے مکہ چلے گئے اور واپس نہیں آئے، ان کے بارے میں مسلمانوں کی رائے مختلف ہوئی، بعض نے کہا یہ کافر ہیں بعض نے کہا مومن ہیں اللہ تعالیٰ نے ان کا کافر ہونا فَمَالکم فی المنافقین، میں بیان فرمایا اور ان کے قتل کا حکم دیا ہے۔
منافقین کو گو قتل نہیں کیا جاتا تھا مگر یہ اسی وقت تک تھا کہ ان کا نفاق ظاہر نہ ہو مگر جب یہ لوگ مکہ واپس چلے گئے اور ان کا ارتداد ظاہر ہوگیا تو ایک جماعت نے ان کے قتل کا مشورہ دیا، اور جنہوں نے مسلمان کہا شاہد حسن ظن کی وجہ سے کہا ہو اور ان کے دلائل ارتداد میں کوئی تاویل کی ہو اس لئے ان کے قتل نہ کرنے کا مشورہ دیا ہو۔
دوسری روایت : دوسری روایت ابن ابی شیبہ نے حسن سے روایت کی ہے کہ سراقہ بن مالک مدلجی نے واقعہ بدرواحد کے بعد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حضور میں آکر درخواست کی کہ ہماری قوم بنی مدلج سے صلح کرلیجئے، آپ نے خالد بن ولید کو تکمیل کے لئے وہاں بھیجا مضمون صلح مندرجہ ذیل تھا۔
ہم لوگ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے خلاف کسی کی مدد نہ کریں گے اور اگر قریش مسلمان ہوجائیں گے تو ہم بھی ہوجائیں گے اور جو قومیں ہم سے متحد ہوں گی وہ بھی اس معاہدہ میں ہمارے شریک ہیں۔
اس پر آیت وَدُّوالوتکفرون الخ نازل ہوئی۔
10 Tafsir as-Saadi
ان آیات کریمہ میں مذکورہ منافقین سے مراد وہ منافقین ہیں جو اپنے اسلام کا اظہار کرتے تھے اور اپنے کفر کے ساتھ ساتھ انہوں نے ہجرت بھی نہیں کی۔
[حاشیہ الف (یعنی ایک دوسرے نسخے کے حاشیے میں) میں یہ عبارت مذکور ہے کہ ’’صحیحین میں حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جنگ احد کے لیے نکلے تو آپ کے ساتھ جانے والوں میں سے کچھ لوگ واپس ہوگئے۔ ان کے بارے میں صحابہ کرام کے دو گروہ بن گئے۔ ایک گروہ کہتا تھا کہ ہم ان کو قتل کریں گے جبکہ دوسرا گروہ کہتا تھا کہ نہیں۔ پس اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی ﴿فَمَا لَكُمْ فِي الْمُنَافِقِينَ فِئَتَيْنِ ﴾ ” پس تمہیں کیا ہے کہ منافقین کے بارے میں دو گروہ ہو رہے ہو“ (اس موقع پر) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :” بے شک مدینہ پاک ہے اور بلاشبہ مدینہ بدطنیت افراد کو اس طرح نکال باہر کرتا ہے جس طرح آگ لوہے کی میل کو دور کردیتی ہے۔“ اس اضافے کی جگہ پر دلالت کرنے والی کوئی علامت یہاں موجود نہیں۔ محقق پتہ نہیں اس سے فاضل محقق کا مطلب کیا ہے؟ ورنہ اس حدیث کی مناسبت تو آیت ﴿فَمَا لَكُمْ فِي الْمُنَافِقِينَ ۔۔۔﴾ کے ساتھ بالکل واضح ہے، کیونکہ اس سے شان نزول کی وضاحت ہو رہی ہے۔ (ص۔ ی) ]
ان کے بارے میں صحابہ کرام میں اشتباہ واقع ہوگیا، چنانچہ بعض صحابہ رضی اللہ عنہم ان منافقین کے اظہار اسلام کے باعث ان کے ساتھ قتال اور قطع موالات میں حرج سمجھتے تھے اور بعض صحابہ کو چونکہ ان کے افعال کے قرینے سے ان کے احوال کا علم تھا اس لیے انہوں نے ان پر کفر کا حکم لگایا۔ اللہ تعالیٰ نے اس معاملہ کے بارے میں آگاہ فرمایا کہ تمہارے لیے مناسب نہیں کہ تم ان کے بارے میں کسی شک و شبہ میں مبتلا ہو، بلکہ ان کا معاملہ بالکل واضح ہے اور اس میں کوئی اشکال نہیں کہ وہ منافق ہیں۔ وہ اپنے کفر کا بار بار اظہار کرچکے ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ وہ یہ بھی چاہتے ہیں کہ تم بھی کافر بن کر انہی کی مانند ہوجاؤ۔ پس جب تمہارے سامنے یہ حقیقت واضح ہوگئی
11 Mufti Taqi Usmani
phir tumhen kiya hogaya kay munafiqeen kay baaray mein tum do giroh ban gaye-? , halankay unhon ney jaisay kaam kiye hain unn ki bana per Allah ney unn ko ondha kerdiya hai . kiya tum yeh chahtay ho kay aesay shaks ko hidayat per lao jissay Allah ( uss ki khuwaish kay mutabiq ) gumrahi mein mubtala ker-chuka aur jissay Allah gumrahi mein mubtala kerday , uss kay liye tum hergiz kabhi koi bhalai ka raasta nahi paaskatay .
12 Tafsir Ibn Kathir
منافقوں سے ہوشیار رہو
اس میں اختلاف ہے کہ منافقوں کے کس معاملہ میں مسلمانوں کے درمیان دو قسم کے خیالات داخل ہوئے تھے، حضرت زید بن ثابت (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب میدان احد میں تشریف لے گئے تب آپ کے ساتھ منافق بھی تھے جو جنگ سے پہلے ہی لوٹ آئے تھے ان کے بارے میں بعض مسلمان تو کہتے تھے کہ انہیں قتل کردینا چاہیے اور بعض کہتے تھے نہیں یہ بھی ایماندار ہیں، اس پر یہ آیت اتری تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا یہ شہر طیبہ ہے جو خود بخود میل کچیل کو اس طرح دور کر دے گا جس طرح بھٹی لوہے کے میل کچیل کو چھانٹ دیتی ہے۔ (بخاری و مسلم) ابن اسحاق میں ہے کہ کل لشکر جنگ احد میں ایک ہزار کا تھا، عبداللہ بن ابی سلول تین سو آدمیوں کو اپنے ہمراہ لے کر واپس لوٹ آیا تھا اور حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ پھر سات سو ہی رہ گئے تھے، حضرت ابن عباس (رض) فرماتے ہیں مکہ سے نکلے، انہیں یقین تھا کہ اصحاب رسول سے ان کی کوئی روک ٹوک نہیں ہوگی کیونکہ بظاہر کلمہ کے قائل تھے ادھر جب مدنی مسلمانوں کو اس کا علم ہوا تو ان میں سے بعض کہنے لگے ان نامرادوں سے پہلے جہاد کرو یہ ہمارے دشمنوں کے طرف دار ہیں اور بعض نے کہا سبحان اللہ جو لوگ تم جیسا کلمہ پڑھتے ہیں تم ان سے لڑو گے ؟ صرف اس وجہ سے کہ انہوں نے ہجرت نہیں کی اور اپنے گھر نہیں چھوڑے، ہم کس طرح ان کے خون اور ان کے مال اپنے اوپر حلال کرسکتے ہیں ؟ ان کا یہ اختلاف رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے ہوا آپ خاموش تھے جو یہ آیت نازل ہوئی (ابن ابی حاتم) حضرت سعید بن معاذ کے لڑکے فرماتے ہیں حضرت عائشہ صدیقہ (رض) پر جب تہمت لگائی گئی اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے منبر پر کھڑے ہو کر فرمایا کوئی ہے جو مجھے عبداللہ بن ابی کی ایذاء سے بچائے اس پر اوس و خزرج کے درمیان جو اختلاف ہوا اس کی بابت یہ آیت نازل ہوئی ہے، ان کی ہدایت کی کوئی راہ نہیں۔ یہ تو چاہتے ہیں کہ سچے مسلمان بھی ان جیسے گمراہ ہوجائیں ان کے دلوں میں اس قدر عداوت ہے، تو تمہیں ممانعت کی جاتی ہے کہ جب تک یہ ہجرت نہ کریں انہیں اپنا نہ سمجھو، یہ خیال نہ کرو کہ یہ تمہارے دوست اور مددگار ہیں، بلکہ یہ خود اس لائق ہیں کہ ان سے باقاعدہ جہاد کیا جائے۔ پھر ان میں سے ان حضرات کا استثنا کیا جاتا ہے جو کسی ایسی قوم کی پناہ میں چلے جائیں جس سے مسلمانوں کا عہد و پیمان صلح و سلوک ہو تو ان کا حکم بھی وہی ہوگا جو معاہدہ والی قوم کا ہے، سراقہ بن مالک مدلجی فرماتے ہیں جب جنگ بدر اور جنگ احد میں مسلمان غالب آئے اور آس پاس کے لوگوں میں اسلام کی بخوبی اشاعت ہوگئی تو مجھے معلوم ہوا کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارادہ ہے کہ خالد بن ولید کو ایک لشکر دے کر میری قوم بنو مدلج کی گوشمالی کے لئے روانہ فرمائیں تو میں آپ کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہا میں آپ کو احسان یاد دلاتا ہوں لوگوں نے مجھ سے کہا خاموش رہ لیکن حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اسے کہنے دو ، کہو کیا کہنا چاہتے ہو ؟ میں نے کہا مجھے معلوم ہوا ہے کہ آپ میری قوم کی طرف لشکر بھیجنے والے ہیں میں چاہتا ہوں کہ آپ ان سے صلح کرلیں اس بات پر کہ اگر قریش اسلام لائیں تو یہ بھی مسلمان ہوجائیں گے اور اگر وہ اسلام نہ لائیں تو ان پر بھی آپ چڑھائی نہ کریں، حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت خالد بن ولید کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے کر فرمایا ان کے ساتھ جاؤ اور ان کے کہنے کے مطابق ان کی قوم سے صلح کر آؤ پس اس بات پر صلح ہوگئی کہ وہ دشمنان دین کی کسی قسم کی مدد نہ کریں اور اگر قریش اسلام لائیں تو یہ بھی مسلمان ہوجائیں پس اللہ نے یہ آیت اتاری کہ یہ چاہتے ہیں کہ تم بھی کفر کرو جیسے وہ کفر کرتے ہیں پھر تم اور وہ برابر ہوجائیں پس ان میں سے کسی کو دوست نہ جانو، یہی روایت ابن مردویہ میں ہے کہ تم بھی کفر کرو جیسے وہ کفر کرتے ہیں پھر تم وہ برابر ہوجاؤ پس ان میں سے کسی کو دوست نہ جانو، یہی روایت ابن مردویہ میں ہے اور ان میں ہی آیت ( اِلَّا الَّذِيْنَ يَصِلُوْنَ اِلٰى قَوْمٍۢ بَيْنَكُمْ وَبَيْنَھُمْ مِّيْثَاقٌ اَوْ جَاۗءُوْكُمْ حَصِرَتْ صُدُوْرُھُمْ اَنْ يُّقَاتِلُوْكُمْ اَوْ يُقَاتِلُوْا قَوْمَھُمْ ) 4 ۔ النسآء :90) نازل ہوئی پس جو بھی ان سے مل جاتا وہ انہی کی طرح پر امن رہتا کلام کے الفاظ سے زیادہ مناسبت اسی کو ہے، صحیح بخاری شریف میں صلح حدیبیہ کے قصے میں ہے کہ پھر جو چاہتا ہے کہ کفار کی جماعت میں داخل ہوجاتا ہے اور امن پالیتا ہے جو چاہتا ہے مدنی مسلمانوں سے ملتا اور عہد نامہ کی وجہ سے مامون ہوجاتا ہے حضرت ابن عباس (رض) کا قول ہے کہ اس حکم کو پھر اس آیت نے منسوخ کردیا کہ (فَاِذَا انْسَلَخَ الْاَشْهُرُ الْحُرُمُ فَاقْتُلُوا الْمُشْرِكِيْنَ حَيْثُ وَجَدْتُّمُــوْهُمْ وَخُذُوْهُمْ وَاحْصُرُوْهُمْ وَاقْعُدُوْا لَهُمْ كُلَّ مَرْصَدٍ ۚ فَاِنْ تَابُوْا وَاَقَامُوا الصَّلٰوةَ وَاٰتَوُا الزَّكٰوةَ فَخَــلُّوْا سَـبِيْلَهُمْ ۭاِنَّ اللّٰهَ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ) 9 ۔ التوبہ :5) یعنی جب حرمت والے مہینے گزر جائیں تو مشرکین سے جہاد کرو جہاں کہیں انہیں پاؤ۔ ایک دوسری جماعت کا ذکر ہو رہا ہے جسے مستثنیٰ کیا ہے جو میدان میں لائے جاتے ہیں لیکن یہ بیچارے بےبس ہوتے ہیں وہ نہ تو تم سے لڑنا چاہتے ہیں نہ تمہارے ساتھ مل کر اپنی قوم سے لڑنا پسند کرتے ہیں بلکہ وہ ایسے بیچ کے لوگ ہیں جو نہ تمہارے دشمن کہے جاسکتے ہیں نہ دوست۔ یہ بھی اللہ کا فضل ہے کہ اس نے ان لوگوں کو تم پر مسلط نہیں کیا اگر وہ جاہتا تو انہیں زور و طاقت دیتا اور ان کے دل میں ڈال دیتا کہ وہ تم سے لڑیں پس اگر یہ تمہاری لڑائی سے باز رہیں اور صلح و صفائی سے یکسو ہوجائیں تو تمہیں بھی ان سے لڑنے کی اجازت نہیں، اسی قسم کے لوگ تھے جو بدر والے دن بنو ہاشم کے قبیلے میں سے مشرکین کے ساتھ آئے تھے جو دل سے اسے ناپسند رکھتے تھے جیسے حضرت عباس (رض) وغیرہ یہی وجہ تھی کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت عباس (رض) کے قتل کو منع فرما دیا تھا اور حکم دیا تھا کہ انہیں زندہ گرفتار کرلیا جائے۔ پھر ایک اور گروہ کا ذکر کیا جاتا ہے جو بظاہر تو اوپر والوں جیسا ہے لیکن دراصل نیت میں بہت کھوٹ ہے یہ لوگ منافق ہیں حضور کے پاس آکر اسلام ظاہر کر کے اپنے جان و مال مسلمانوں سے محفوظ کرا لیتے ہیں ادھر کفار میں مل کر ان کے معبودان باطل کی پرستش کر کے ان میں سے ہونا ظاہر کر کے ان سے فائدہ اٹھاتے رہتے ہیں تاکہ ان کے ہاتھوں سے بھی امن میں رہیں، دراصل یہ لوگ کافر ہیں، جیسے اور جگہ ہے اپنے شیاطین کے پاس تنہائی میں جا کر کہتے ہیں ہم تمہارے ساتھ ہیں یہاں بھی فرماتا ہے کہ جب کبھی فتنہ انگیزی کی طرف لوٹائے جاتے ہیں تو جی کھول کر پوری سرگرمی سے اس میں حصہ لیتے ہیں جیسے کوئی اوندھے منہ گرا ہوا ہو۔ " فتنہ " سے مراد یہاں شرک ہے حضرت مجاہد فرماتے ہیں کہ یہ لوگ بھی مکہ والے تھے یہاں آ کر بطور ریا کاری کے اسلام قبول کرتے تھے وہاں جا کر ان کے بت پوجتے تھے تو مسلمانوں کو فرمایا جاتا ہے کہ اگر یہ اپنی دوغلی روش سے باز نہ آئیں ایذاء رسانی سے ہاتھ نہ روکیں صلح نہ کریں تو انہیں امن امان نہ دو ان سے بھی جہاد کرو، انہیں بھی قیدی بناؤ اور جہاں پاؤ قتل کردو، بیشک ان پر ہم نے تمہیں ظاہر غلبہ اور کھلی حجت عطا فرمائی ہے۔