المؤمن آية ۷۹
اَللّٰهُ الَّذِىْ جَعَلَ لَكُمُ الْاَنْعَامَ لِتَرْكَبُوْا مِنْهَا وَمِنْهَا تَأْكُلُوْنَۖ
طاہر القادری:
اﷲ ہی ہے جس نے تمہارے لئے چوپائے بنائے تاکہ تم اُن میں سے بعض پر سواری کرو اور اِن میں سے بعض کو تم کھاتے ہو،
English Sahih:
It is Allah who made for you the grazing animals upon which you ride, and some of them you eat.
1 Abul A'ala Maududi
اللہ ہی نے تمہارے لیے یہ مویشی جانور بنائے ہیں تاکہ ان میں سے کسی پر تم سوار ہو اور کسی کا گوشت کھاؤ
2 Ahmed Raza Khan
اللہ ہے جس نے تمہارے لیے چوپائے بنائے کہ کسی پر سوار ہو اور کسی کا گوشت کھاؤ،
3 Ahmed Ali
الله ہی ہے جس نے تمہارے لیے چوپائے بنائے تاکہ تم ان میں سے بعض پر سوار ہو اور بعض کو تم کھاتے ہو
4 Ahsanul Bayan
اللہ وہ ہے جس نے تمہارے لئے چوپائے پیدا کئے (۱) جن میں سے بعض پر تم سوار ہوتے ہو اور بعض کو تم کھاتے ہو۔ (۲)
٧٩۔١ اللہ تعالٰی اپنی ان گنت نعمتوں میں سے بعض نعمتوں کا تذکرہ فرما رہا ہے چوپائے سے مراد اونٹ، گائے، بکری اور بھیڑ ہے یہ نر مادہ مل کر آٹھ ہیں جیسا کہ سورہ انعام میں ہے
٧٩۔۲ یہ سواری کے کام بھی آتے ہیں، ان کا دودھ بھی پیا جاتا ہے (جیسے بکری، گائے اور اونٹنی کا دودھ) ان کا گوشت انسان کی مرغوب ترین غذا ہے اور بار برداری کا کام بھی ان سے لیا جاتا ہے۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
خدا ہی تو ہے جس نے تمہارے لئے چارپائے بنائے تاکہ ان میں سے بعض پر سوار ہو اور بعض کو تم کھاتے ہو
6 Muhammad Junagarhi
اللہ وه ہے جس نے تمہارے لیے چوپائے پیدا کیے جن میں سے بعض پر تم سوار ہوتے ہو اور بعض کو تم کھاتے ہو
7 Muhammad Hussain Najafi
اللہ وہی ہے جس نے تمہارے لئے چوپائے بنائے ہیں تاکہ تم ان میں سے بعض پر سوار ہو اور بعض کا (گوشت) کھاؤ۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
اللہ ہی وہ ہے جس نے چوپایوں کو تمہارے لئے خلق کیا ہے جن میں سے بعض پر تم سواری کرتے ہو اور بعض کو کھانے میں استعمال کرتے ہو
9 Tafsir Jalalayn
خدا ہی تو ہے جس نے تمہارے لئے چارپائے بنائے تاکہ ان میں سے بعض پر سوار ہو اور بعض کو تم کھاتے ہو
آیت نمبر 79 تا 85
ترجمہ : اللہ وہ ہے جس نے تمہارے لئے چوپائے (مویشی) پیدا کئے کہا گیا ہے کہ یہاں (انعام) سے خاص طور پر اونٹ مراد ہے اور ظاہر یہی ہے اور بقروغنم بھی معراد ہوسکتے ہیں تاکہ ان میں سے بعض پر تم سواری کرو اور بعض کو ان میں سے کھاتے ہو اور تمہارے لئے ان میں اور بھی بہت منافع ہیں (مثلاً ) دودھ، نسل، اونٹ کے بال، اور اون تاکہ تم ان پر سوار ہو کر اپنی دلی مراد کو حاصل کرو اور وہ (مختلف) شہروں تک بوجھ لاد کرلیجاتا ہے، اور ان سواریوں پر خشکی میں اور کشتیوں پر دریا میں چڑھے پھرتے ہو اور وہ تمہیں اپنی (قدرت کی) نشانیاں دکھاتا ہے، پس تم وحدانیت پت دلالت کرنے والی کون کون سی نشانیوں کا انکار کرتے رہو گے ؟ استفہام تو بخیی ہے، اور اَیٌّ مذکر کا استعمال بہ نسبت اَیَّۃٌ مؤنث کے زیادہ مشہور ہے، کیا ان لوگوں نے زمین میں چل پھر کر نہیں دیکھا کہ ان سے پہلوں کا انجام کیسا ہوا، حالانکہ وہ ان سے تعداد میں زیادہ اور قوت اور یادگاروں (مثلاً ) قلعوں میں بڑھے ہوئے تھے، ان کی کمائی ان کے کچھ کام نہ آئی پس جب کبھی ان کے پاس ان کے رسول کھلے معجزات لے کر آئے تو کافر بطور استہزاء اور منکرین کے ضحک کے طور پر اس علم سے خوش ہوئے جو رسولوں کے پاس تھا بالآخر جس عذاب کو مذاق میں اڑا رہے تھے، وہی عذاب ان پر پلٹ پڑا، چناچہ جب انہوں نے ہمارے عذاب کی شدت کو دیکھا تو کہنے لگے ہم اللہ واحد پر ایمان لائے، اور جن جن کو ہم شریک ٹھہرا رہے تھے، ان سب کا انکار کیا، لیکن ہمارے عذاب کو دیکھ لینے کے بعد ان کو ان کے ایمان بےنفع نہیں دیا، اللہ نے اپنا یہی معمول مقرر کر رکھا ہے (سُنَّتَ ) کا نصب مصدریت کی بناء پر ہے، اسی (مصدر) کے لفظ سے فعل مقدر کی وجہ سے جو امتوں میں اس کے بندوں میں برابر چلا آرہا ہے، یہ ظاہر ہوگیا، حال یہ کہ وہ اس سے پہلے ہمہ وقت خاسر تھے۔
تحقیق و ترکیب وتسہیل وتفسیری فوائد
قولہ : اَلْاَنْعَام مویشی یہ نَعْمٌ کی جمع ہے، اس کے اصل معنی تو اونٹ کے ہیں، مگر بھیڑ، بکری، گائے بھینس پر بھی اس کا اطلاق ہوتا ہے، بشرطیکہ ان میں اونٹ بھی ہو، اونٹ چونکہ عرب کے نزدیک بہت بڑی نعمت ہے، اس لئے اس کا نام نعم بمعنی نعمت
ہوا۔ (لغات القرآن) قولہ : دَرٌّ دودھ۔ قولہ : اَلٌوَبَرْ اونٹ اور خرگوش کے بال (ج) اَوْبَارٌ۔ قولہ : وَعلی الفُلکِ ۔
سوال : فِی الفُلْکِ کیوں نہیں کہا ؟ جیسا کہ حضرت نوح (علیہ السلام) کے واقعہ میں کہا ہے قُلْنَا احْمِلْ فِیْھَا مِنْ کُلّ زَوْجَیْنِ ۔
جواب : تاکہ عَلَیْھَا حَاجَۃً کا تقابل صحیح ہوجائے، اس کو صنعت ازدواج کہتے ہیں۔
قولہ : اَیَّ اٰیٰتِ اللہ . اَیَّ ، تُنْکِرُوْنَ کا مفعول مقدم ہونے کی وجہ سے منصوب ہے ایٌّ کو مقدم کرنا واجب ہے، اس لئے کہ یہ صدارت کلام چاہتا ہے۔
قولہ : تذکیر أیٍّ اَشھَرُ مِن تانیثِہ اس اضافہ کا مقصد ایک سوال کا جواب ہے۔
سوال : اَیَّۃُ آیٰتِ اللہ کیوں نہیں کہا، جبکہ مضاف الیہ اٰیٰتِ اللہِ کا مقتضٰی یہ تھا کہ اَیَّ کے بجائے اَیَّۃَ ہو۔
جواب : اسماء جامدہ میں مذکر ومؤنث میں تفریق غریب ہے جیسا کہ حمارٌ وحمارۃ میں تفریق غریب ہے دوسری وجہ یہ ہے کہ اَیٌّ کا استعمال بہ نسبت اَیَّۃٌ کے اکثر واشھر ہے زمخشری نے کہا ہے وقد جاءت علی اللغۃ المستفیضہ یعنی اَیُّ کا استعمال کثیر ہے۔
قولہ : اَفَلَمْ یَسیْرُوْاالخ یہاں سے تو بخیی مضمون شروع فرما رہے ہیں، فاء عاطفہ ہے ہمزہ محذوف پر داخل ہے، تقدیر عبارت یہ ہے کہ أعجزُوْا فَلَمْ یَسِیْرُوَا الخ۔
قولہ : کَیْفَ کَانَّ عاقِبَۃُ الَّذِینَ من قَبْلِھِمْ. کَیْفَ ، کانَ کی خبر مقدم اور عاقبۃُ اسم مؤخر ہے۔
قولہ : مَصَانِعُ زیر زمین ذخیرۂ آبی کے بڑے بڑے حوض، ڈیم، قلعے۔ (جمل)
قولہ : فَمَا اغنیٰ عَنْھُمْ مَا کَانوا یَکْسِبُوْنَ پہلا مانافیہ اور استفہام انکاری، دونوں ہوسکتا ہے، یعنی ان کی کمائی ان کے کچھ کام نہ آئی، استفہامیہ کی صورت میں ترجمہ یہ ہوگا، ان کی کمائی ان کے کیا کام آئی ؟ ماکانوا یکسبون کا ما مصدریہ اور موصولہ دونوں جائز ہے، پہلا فما اغنیٰ کا مفعول ہونے کی وجہ سے منصوب ہے۔
قولہ : فَرِحُوا ای کفار بما عِنْدَھم ای الرُسُل من العلمِ علم سے وہ علم وحی مراد ہے جو انبیاء (علیہم السلام) کے پاس تھا اور اس علم پر کافروں کے خوش ہونے کا مطلب یہ ہے کہ کافروں نے استہزاء اور تمسخر کے طور پر خوشی کا اظہار کیا، اور دلیل اس کی ان کا وحی سے اعراض کرنا اور قبول نہ کرنا ہے، مفسر علام نے بھی یہی معنی مراد لئے ہیں، اور یہی معنی اللہ تعالیٰ کے قول وَحَاقَ بِھِم مَا کَانُوْا بہٖ یَسْتَھْزِءُوْنَ کے مطابق ہیں، بعض مفسرین نے عِنْدَھُمْ کی ضمیر کو کفار کی طرف لوٹایا ہے، اور علم سے مراد بزعم خویش لاَ بَعْثَ وَلاَ حِسَابَ کا علم مراد ہے، یا علم سے مراد امور دنیا کا علم ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے کفار کے بارے میں فرمایا یَعْلِمُوْنَ ظاھِرًا مِنَ الحیٰوۃ الدنیاوھم عَنِ الْآخِرَۃِ ھُمْ غَافِلُوْنَ ۔
قولہ : سُنَّتَ اللہِ مصدر من لفظہٖ . سُنَّتَ فعل مقدر کی وجہ سے منصوب ہے، اور فعل مقدر مصدر کے ہم لفظ ہے ای سَنَّ اللہُ ذٰلک
سُنَّۃً ماضیۃً ما ضیۃً فی العباد۔
قولہ : ھُنَالِکَ ای عندرؤیتھم العذاب یہ اسم مکان ہے، زمان کے لئے مستعار لیا گیا ہے۔
قولہ : تَبَیَّنَ خُسر انُھُمْ یہ ایک سوال مقدر کا جواب ہے۔
سوال : خَسِرَ ھنالک سے معلوم ہوتا ہے کہ کفار اور مشرکین اس وقت خائب و خاسر ہوئے اس سے پہلے خائب و خاسر نہیں تھے۔
جواب : جواب کا خلاصہ یہ ہے کہ کفار ہر وقت اور ہر زمانہ میں خائب و خاسر رہے مگر اس خسران وحر مان کا ظہور اب ہوا، خود ان کو اور دوسروں کو پتہ چل گیا کہ آخرت کا خسران و حرمان ہی حقیقی خسران و نقصان ہے۔
تفسیر وتشریح
اللہ۔۔ لکم (الآیۃ) اللہ تعالیٰ اپنی اَن گنت اور بیشمار نعمتوں میں میں سے بعض کا تذکرہ فرما رہے ہیں، چوپایوں سے مراد اونٹ گائے، بیل، بھیڑ، بکری ہیں، یہ سواری کے کام بھی آتے ہیں اور ان کا دودھ بھی پیا جاتا ہے، اور ان میں سے بعض سے بار برداری کا کام بھی لیا جاتا ہے، اس کے علاوہ بھی ان میں تمہارے لئے بہت سے منافع ہیں، مثلاً گوشت، پوست، اون، بال، ہڈی وغیرہ سے بہت سی مفید، کارآمد اور نفع بخش اشیاء تیار کی جاتی ہیں، نیز تم ان پر خشکی میں سوار ہو کر اور سامان تجارت لاد کر دور دراز کا سفر کرتے ہو اور اپنی دلی مراد حاصل کرتے ہو، اور دریائی سفر میں کشتیوں کو استعمال کرتے ہو، سفینہ اور اونٹ میں بڑی قریبی مناسبت ہے یہی وجہ ہے کہ اونٹ کو سفینۃ الصحراء کہا جاتا ہے۔
مسئلہ : ہر جانور سے فائدہ اٹھانا جائز ہے، اس کی دلیل یہ ہے کہ انعام عام ہے ہر چوپائے کو شامل ہے، اور جَعَلَ لکُمْ میں لام نفع کے لئے ہے، اس سے یہ معلوم ہوگیا کہ ہاتھی کی سواری جائز ہے، البتہ خنزیر چونکہ نص قطعی سے نجس العین ہے، لہٰذا اس سے کسی قسم کا انتفاع درست نہیں ہے۔
نکتہ : منافع چونکہ جمع منکور ہے، لہٰذا مفید اسغراق نہیں، اس سے معلوم ہوا کہ چوپایوں سے ہر قسم کا استفادہ درست نہیں اور مِنْھا تاکلون میں من تبعیضیہ کا بھی تقاضہ ہے، کہ بعض منافع کو خارج کیا جائے۔
مسئلہ : کتے کی قیمت مکروہ ہے (الیسر التفاسیر، تائب (رح) تعالیٰ ) اور اسکے پالنے میں تفصیل ہے جسکی تفصیل کا مقام کتب فقہ ہیں
وَیُرِیکُمْ اٰیٰتِہٖ اللہ تعالیٰ ان کو ایسی نشانیاں دکھاتا ہے جو اس کی قدرت اور وحدانیت پر دلالت کرتی ہیں، اور یہ نشانیاں اتنی عام اور کثیر اور واضح ہیں کہ جن کا کوئی انکار کرنے کی قدرت نہیں رکھتا۔
بحث : علم کا اطلاق قرآن میں علوم آسمانی پر کیا گیا ہے، اور یہ کفار سے منتقی ہے، تو پھر فَرِحُوْا بِمَا عِنْدَھُمْ من العلم کا کیا مطلب ؟
جواب : (١) یہاں علم سے علم مراد ہے یعنی تجارت و صنعت وغیرہ کا علم جس میں یہ لوگ فی الواقع ماہر تھے، اور قرآن کریم نے ان کے اس علم کا سورة روم میں اس طرح تذکرہ فرمایا ہے یَعْلَمُوْنَ ظَاھِرًا مِنَ الحیٰوۃِ الدنیا وَھُمْ عَنِ الآخرۃِ ھُمْ غٰفِلُوْنَ یعنی یہ لوگ دنیا کی ظاہری زندگی اور اس کے منافع حاصل کرنے کو تو خوب جانتے اور سمجھتے ہیں، مگر آخرت جہاں ہمیشہ رہنا ہے، اور جہاں کی
راحت وکلفت دائمی ہے، اس سے بالکل جاہل اور غافل ہیں۔
جواب : (٢) یا بزعم خویش ان کے مزعومات، توہمات و شبہات اور باطل دعوے جن باتوں کو وہ علم سمجھتے تھے وہ علم مراد ہو
حالانکہ وہ علم نہیں بلکہ جہل مرکب ہے، جیسا کہ مجاہد سے مروی ہے کہ کفار کہا کرتے تھے کہ ہم جانتے ہیں کہ بعث و حساب کچھ ہونے والا نہیں ہے، وہ لوگ انکار بعث و حساب کو علم سمجھے ہوئے تھے، ان کے اس علم کو جو درحقیقت جہل ہے علم کہا گیا ہے۔
جواب : (٣) یا ان کے باطل مزعومات کو استہزاء علم کہا گیا ہے۔ (ایسرالتفاسیر، تائب (رح) تعالیٰ )
فلما۔۔ باسنا (الآیۃ) یعنی اللہ تعالیٰ کا یہ دستور اور معمول ہے کہ آخرت کا عذاب دیکھنے کے بعد ایمان و توبہ قبول نہیں فرماتے، معائنۂ عذاب کے بعد ان پر بھی واضح ہوگیا کہ اب سوائے خسارے اور ہلاکت کے ہمارے مقدر میں کچھ نہیں، یہ مضمون قرآن کریم میں متعدد جگہ بیان ہوا ہے، حدیث شریف میں وارد ہے یقبل اللہ توبۃ العبدِ مالم یغرغر (ابن کثیر) حالت نزع سے پہلے پہلے اللہ تعالیٰ توبہ قبول فرماتے ہیں۔
٭تم بحمد اللہ ٭
10 Tafsir as-Saadi
اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر اپنے احسانات کا ذکر کرتا ہے کہ اس نے ان کے لئے چوپائے پیدا کئے جن پر ان کے مفادات کا دار و مدار ہے۔ ان میں سے کچھ مویشیوں کو وہ سواری اور نقل و حمل کے لئے استعمال کرتے ہیں۔ کچھ چوپایوں کا گوشت کھاتے اور ان کا دودھ پیتے ہیں۔ کچھ مویشیوں کی اون سے گرمی حاصل کرتے ہیں۔ ان کے بالوں، پشم اور اون سے آلات اور استعمال کا سامان بناتے ہیں اور ان سے دیگر فوائد حاصل کرتے ہیں۔
11 Mufti Taqi Usmani
Allah woh hai jiss ney tumharay liye maweshi peda kiye , takay unn mein say kuch per tum sawari kero , aur unhi mein say woh bhi hain jinhen tum khatay ho .
12 Tafsir Ibn Kathir
ہر مخلوق خالق کائنات پر دلیل ہے۔
انعام یعنی اونٹ گائے بکری اللہ تعالیٰ نے انسان کے طرح طرح کے نفع کیلئے پیدا کئے ہیں سواریوں کے کام آتے ہیں کھائے جاتے ہیں۔ اونٹ سواری کا کام بھی دے کھایا بھی جائے، دودھ بھی دے، بوجھ بھی ڈھوئے اور دور دراز کے سفر بہ آسانی سے کرا دیئے۔ گائے کا گوشت کھانے کے کام بھی آئے دودھ بھی دے۔ ہل بھی جتے، بکری کا گوشت بھی کھایا جائے اور دودھ بھی پیا جائے۔ پھر ان کے سب کے بال بیسیوں کاموں میں آئیں۔ جیسے کہ سورة انعام سورة نحل وغیرہ میں بیان ہوچکا ہے۔ یہاں بھی یہ منافع بطور انعام گنوائے جا رہے ہیں، دنیا جہاں میں اور اس کے گوشے گوشے میں اور کائنات کے ذرے ذرے میں اور خود تمہاری جانوں میں اس اللہ کی نشانیاں موجود ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ اس کی ان گنت نشانیوں میں سے ایک کا بھی کوئی شخص صحیح معنی میں انکاری نہیں ہوسکتا یہ اور بات ہے کہ ضد اور اکڑ سے کام لے اور آنکھوں پر ٹھیکری رکھ لے۔