حم السجدہ آية ۹
قُلْ اَٮِٕنَّكُمْ لَتَكْفُرُوْنَ بِالَّذِىْ خَلَقَ الْاَرْضَ فِىْ يَوْمَيْنِ وَتَجْعَلُوْنَ لَهٗۤ اَنْدَادًاۗ ذٰلِكَ رَبُّ الْعٰلَمِيْنَۚ
طاہر القادری:
فرما دیجئے: کیا تم اس (اﷲ) کا انکار کرتے ہو جس نے زمین کو دو دِن (یعنی دو مدّتوں) میں پیدا فرمایا اور تم اُس کے لئے ہمسر ٹھہراتے ہو، وہی سارے جہانوں کا پروردگار ہے،
English Sahih:
Say, "Do you indeed disbelieve in He who created the earth in two days and attribute to Him equals? That is the Lord of the worlds."
1 Abul A'ala Maududi
اے نبیؐ! اِن سے کہو، کیا تم اُس خدا سے کفر کرتے ہو اور دوسروں کو اُس کا ہمسر ٹھیراتے ہو جس نے زمین کو دو دنوں میں بنا دیا؟ وہی تو سارے جہان والوں کا رب ہے
2 Ahmed Raza Khan
تم فرماؤ کیا تم لوگ اس کا انکار رکھتے ہو جس نے دو دن میں زمین بنائی اور اس کے ہمسر ٹھہراتے رہو وہ ہے سارے جہان کا رب
3 Ahmed Ali
کہہ دو کیا تم اس کا انکار کرتے ہو جس نے دو دن میں زمین بنائی اور تم اس کے لیے شریک ٹھیراتے ہو وہی سب جہانوں کا پروردگار ہے
4 Ahsanul Bayan
آپ کہہ دیجئے! کہ تم اس اللہ کا انکار کرتے ہو اور تم اس کے شریک مقرر کرتے ہو جس نے دو دن میں زمین پیدا کر دی (٤) سارے جہانوں کا پروردگار وہی ہے۔
۹۔۱ قرآن مجید میں متعدد مقامات پر ذکر کیا گیا ہے کہ اللہ نےآسمانوں اور زمین کو چھ دن میں پیدا فرمایا یہاں اس کی کچھ تفصیل بیان فرمائی گئی ہے فرمایا زمین کو دو دن میں بنایا اس سے مراد ہیں یوم الاحد اتوار اور یوم الاثنین سورہ نازعات میں کہا گیا ہے والارض بعد ذلک دحہا جس سے بظاہر معلوم ہوتا ہے کہ زمین کو آسمان کے بعد بنایا گیا ہے جب کہ یہاں زمین کی تخلیق کا ذکر آسمان کی تخلیق سے پہلے کیا گیا ہے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے اس کی وضاحت اس طرح فرمائی ہے کہ تخلیق اور چیز ہے اور دحی جو اصل میں دحو ہے بچھانا یا پھیلانا اور چیز زمین کی تخلیق آسمان سے پہلے ہوئی جیسا کہ یہاں بھی بیان کیا گیا اور دحو کا مطلب ہے کہ زمین کو رہائش کے قابل بنانے کے لیے اس میں پانی کے ذخائر رکھے گئے اسے پیداواری ضروریات کا مخزن بنایا گیا۔ (اَخْرَجَ مِنْهَا مَاۗءَهَا وَمَرْعٰىهَا) 79۔ النازعات;31) اس میں پہاڑ ٹیلے اور جمادات رکھے گئے یہ عمل آسمان کی تخلیق کے بعد دوسرے دو دنوں میں کیا گیا یوں زمین اور اس کے متعلقات کی تخلیق پورے چار دنوں میں مکمل ہوئی۔ (صحیح بخاری، تفسیر سورہ حم) السجدۃ
5 Fateh Muhammad Jalandhry
کہو کیا تم اس سے انکار کرتے ہو جس نے زمین کو دو دن میں پیدا کیا۔ اور (بتوں کو) اس کا مدمقابل بناتے ہو۔ وہی تو سارے جہان کا مالک ہے
6 Muhammad Junagarhi
آپ کہہ دیجئے! کہ کیا تم اس (اللہ) کا انکار کرتے ہو اور تم اس کے شریک مقرر کرتے ہو جس نے دو دن میں زمین پیدا کردی، سارے جہانوں کا پروردگار وہی ہے
7 Muhammad Hussain Najafi
آپ(ص) کہہ دیجئے! کیا تم اس ذات کا انکار کرتے ہو جس نے زمین کو پیدا کیا اور دوسروں کو اس کا ہمسر قرار دیتے ہو؟ وہی تو سارے جہانوں کا پروردگار ہے۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
آپ کہہ دیجئے کہ کیا تم لوگ اس خدا کا انکار کرتے ہو جس نے ساری زمین کو دو دن میں پیدا کردیا ہے اور اس کا مثل قرار دیتے ہوئے جب کہ وہ عالمین کا پالنے والا ہے
9 Tafsir Jalalayn
کہو کیا تم اس سے انکار کرتے ہو جس نے زمین کو دو دن میں پیدا کیا اور (بتوں کو) اس کا مدمقابل بناتے ہو وہی تو سارے جہانوں کا مالک ہے
آیت نمبر 9 تا 18
ترجمہ : آپ کہہ دیجئے ! کہ کیا تم اس (اللہ) کا انکار کرتے ہو، اور اس کے شریک ٹھہراتے ہو جس نے زمین دو روز میں پیدا کردی یعنی اتوار اور پیر میں اَئِنَّکُمْ میں دوسرے ہمزہ کی تحقیق و تسہیل کے ساتھ اور دونوں صورتوں میں ان کے درمیان الف داخل کرکے تمام جہانوں کا مالک وہی ہے عالمین عالَم کی جمع اور وہ اللہ کے علاوہ ہے عالمین عالَمْ مختلف الانواع ہونے کی وجہ سے جمع اور ذوی العقول کو (غیر ذوی العقول پر) غلبہ دینے کی وجہ سے یاء ونون کے ساتھ لایا گیا ہے، اور اس نے زمین میں اس کے اوپر جمے رہنے والے پہاڑ رکھ دیئے یہ جملہ مستانفہ ہے، اس کا عطف الذی کے صلہ پر فصل بالاجنبی کی وجہ سے جائز نہیں ہے اور اس میں پانی اور کھیتی (دودھ دینے والے) جانوروں کے ذریعہ برکت دی اور اس میں (رہنے والے) انسانوں اور جانوروں کی روزی کی تجویز بھی سی (زمین) میں کردی (مکمل) چار دن میں یعنی جَعْلِ جبال و تقدیر اقوات کل چاردن میں اور جعل کے ساتھ جو مذکورہ ہے یعنی تقدیر اقوات (وہ) دو دن میں اور وہ سہ شنبہ اور چہار شنبہ ہیں (اس طرح جعل اور تقدیر مل کر چار دن پورے ہوئے) سواءً مصدریت کی وجہ سے منصوب ہے یعنی چار دن پورے، نہ زائد اور نہ کم، ارض ومافیھا کی تخلیق کے بارے میں (یہ حصر) معلوم کرنے والوں کے لئے پھر آسمان کی طرف متوجہ ہوا اور وہ دھواں یعنی اٹھتی ہوئی بھاپ (سی) تھی (اللہ نے) اس سے یعنی آسمان اور زمین سے فرمایا کہ تم دونوں تعمیل کرو میری مراد کی جو تم سے ہے خوشی سے یا زبردستی محل میں حال کے ہیں یعنی حال یہ ہے کہ دونوں خوشی سے آؤ یا نا خوشی سے، دونوں نے کہا مع ان چیزوں کے جو ہم میں ہیں ہم خوشی سے حاضر ہیں اس میں مذکورہ ذوی العقول کو غلبہ دیا گیا ہے، یا ان دونوں کو خطاب کی وجہ سے ذوی العقول کے درجہ میں اتارلیا گیا ہے، پس دو دن میں سات آسمان بنادیئے، جمعرات اور جمعہ کے دن میں، جمہ کی آخری ساعت میں اس کی تخلیق سے فارغ ہوگیا، اور اسی دن آدم (علیہ السلام) کو پیدا فرمایا اور اسی وجہ سے یہاں مکمل دن نہیں فرمایا فَقَضٰھُنَّ کی ضمیر السَّمَاء کی طرف راجع ہے، اس لئے کہ سماء مایؤل کے اعتبار سے جمع ہے یعنی آسمان کو سات آسمان بنادیا، (اس تاویل کے بعد) جو یہاں ہے وہ ان آیات کے مطابق ہوگیا جن میں زمین و آسمان کی تخلیق کا بوجھ دن میں ذکر ہے ہر آسمان میں اس کے مناسب حکم بھیج دیا وہ حکم جس کا ان میں رہنے والوں کو حکم دیا گیا، وہ (حکم) طاعت اور عبادت ہے اور ہم نے آسمان دنیا کو تاروں سے زینت دی، اور حفاظت کی حِفظًا فعل مقدر کی وجہ سے منصوب ہے تقدیر عبارت یہ ہے، حَفِظْنَاھا حفظًا عن استراق الشیاطین السمع بالشھُبِ یعنی ہم نے شہاب کے ذریعہ آسمانوں کی شیاطین سے چوری سے باتیں سننے سے حفاظت کردی یہ منصوبہ بندی اپنے ملک میں غالب (اور) اپنی مخلوق سے باخبر کی ہے اگر اس بیان کے بعد بھی کفار مکہ ایمان سے دو گردانی کریں تو کہہ دیجئے کہ میں تمہیں اس کڑک (عذاب آسمانی) سے ذراتا ہوں کہ جو عادیوں اور ثمودیوں کی کڑک کے مانند ہوگا یعنی اس عذاب سے ڈرتا ہوں جو تم کو ہلاک کردے گا (اور) وہ اس عذاب کے مثل ہوگا جس نے ان کو ہلاک کردیا جبکہ ان کے پاس آگے سے بھی اور پیچھے سے بھی پیغمبر آئے یعنی یکے بعد دیگرے تو ان لوگوں نے انکار کیا جیسا کہ عنقریب آتا ہے، اور (عذاب سے) ہلاکت آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانہ میں ہوئی، نہ کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بعد کہ تم اللہ کے سوا کسی کی بندگی نہ کرو تو انہوں نے جواب دیا اگر ہمارا پروردگار چاہتا تو فرشتوں کو بھیجتا ہم تو بزعم شما تمہاری رسالت کے بالکل منکر ہیں سو عاد نے تو حق زمین میں سرکشی شروع کردی اور جب ان کو ڈرایا گیا تو کہنے لگے ہم سے زیادہ زور آور کون ہے ؟ یعنی کوئی نہیں، ان میں کا تنہا شخص پہاڑ سے ایک بڑی چٹان کو اکھاڑ کیتا تھا (اور) جہاں چاہتا اٹھا کر رکھ دیتا کیا وہ یہ نہیں جانتے کہ جس نے انہیں پیدا کیا ہے وہ ان سے (بہت زیادہ) زور آور ہے اور وہ (آخر تک) ہماری آیتوں یعنی معجزوں کا انکار ہی کرتے رہے، بالآخر ہم نے ان پر ایک تیز وتند سرد، سخت آواز بلا بارش والی آندھی منحوس دنوں میں بھیج دی، جاء کے کسرہ اور سکون کے ساتھ یعنی ان کے لئے نامبارک دنوں میں کہ انہیں دنیوی زندگی میں ذلت کے عذاب کا مزہ چکھائیں اور (یقین مانو) کہ آخرت کا عذاب اس سے بہت زیادہ رسوائی والا ہے اور ان کی عذاب سے بچا کر مدد نہیں کی جائے گی، رہے ثمود تو ہم ان کی بھی رہبری کی یعنی ہدایت کا راستہ ان کے لئے واضح کردیا، پھر بھی انہوں نے اندھے پن یعنی کفر کو ہدایت کے مقابلہ میں پسند کیا جس بناء پر انہیں ذلت کے عذاب کی کڑک نے ان کے کرتوتوں کے باعث پکڑ لیا اور ہم نے اس صاعقہ سے ایمان والوں اور اللہ سے ڈرنے والوں کو بچالیا۔
تحقیق و ترکیب وتسہیل وتفسیری فوائد
قولہ : اَئِنَّکُمْ اس میں چار قراءتیں ہیں، مگر مفسرعلام کی عبارت سے صرف دو معلوم ہورہی ہیں، پہلا ہمزہ تو ہمیشہ محقق ہی ہوتا ہے البتہ دوسرے میں تحقیق و تسہیل دونوں جائز ہیں، دونوں صورتوں میں دونوں ہمزوں کے درمیان الف داخل کرکے، یہ دو قراءتیں ہوگئیں، حالانکہ ترک ادخال الف کی صورت میں دو قراءتیں اور ہیں اس طرح چار قراءتیں ہوتی ہیں، لہٰذا علام اگر وترکہٖ کا اضافہ فرمادیتے تو مذکورہ چاروں قراءتوں کی طرف اشارہ ہوجاتا، اصل عبارت یوں ہوتی چاہیے واِدخال الف وترکہٖ (ای ادخالَ ) بینھا وبین الاولیٰ بوَجْھَیْھَا۔
قولہ : أئِنَّکُمْ لَتَکْفُرُنَ ہمزہ استفہامیہ انکاریہ ہے اِنَّ اور لام تاکید کے لئے ہیں، ہمزہ صدارت کلام کے مطالبہ کی وجہ سے مقدم کردیا گیا ہے کُمْ اِنَّ کا اسم برائے تاکید ہے، تَکْفُرونَ جملہ ہو کر اَنَّ کی خبر ہے، اور تَجْعَلُوْنَ کا عطف تکفُرونَ پر ہے۔
قولہ : کَہٗ ، تَجْعَلُوْنَ کا مفعول ثانی ہونے کی وجہ سے محلاً منصوب ہے، اور اَندَادًا مفعول اول ہے ذٰلک مبتداء ہے اس کا مشارٌ الیہ الَّذِیْ ہے، اپنے صلہ کے ساتھ متصف ہونے کے اعتبار سے (مراد اللہ تعالیٰ ہے) ۔
قولہ : وَجَعَلَ فیھَا رَوَاسِیَ میں صحیح قول کے مطابق واؤ عاطفہ ہے، اور جَعَلَ کا عطف خَلَقَ پر ہے مگر ابوالبقاء وغیرہ نے واؤ کے عاطفہ ہونے سے انکار کیا ہے، اور واؤ کو استینافہ مانتے ہوئے کلام کو مستانف مانا ہے، انکار کیوجہ یہ بیان کی ہے کہ اگر جَعَلَ لا خلَقَ پر عطف کیا گیا تو اَلَّذِیْ موصول کے تحت داخل ہونے کی وجہ سے جزء صلہ ہوگا اور یہ جائز نہیں ہے اسلئے کہ وَیَجْعِلُوْنَ لَہُ الخ جملہ معترضہ ہے، اور صلہ کے تام ہونے سے پہلے درمیان صلہ میں فصل بالا جنبی جائز نہیں ہے، بعض حضرات نے جَعَلَ کا عطف خَلَقَ پر جائز کہا ہے، اور ابوالبقاء کے انکار کا یہ جواب دیا ہے کہ یہ دو عاطفہ جملوں کے درمیان آنے والے جملہ معترضہ کے مشابہ ہے، اور دو معطوف جملوں کے درمیان جملہ معترضہ کا وقوع کثیر ہے، لہٰذا صحیح بات یہ ہے کہ خَلَقَ پر جَعَلَ کے عطف پر کوئی اعتراض نہیں ہے (اعراب القرآن)
قولہ : فِی یَوْمَیْنِ ای فی مقدار یومین اس لئے کہ یوم کا وجود طلوع و غروب شمس سے ہوتا ہے اور شمس کا اس وقت وجود نہیں تھا تو یوم کا وجود کیسے ہوسکتا تھا۔ قولہ : جمع لِاِِ خْتِلاَفِ اَنْوَاعِہٖ ۔ فائدہ : مذکورہ عبارت کے اضافہ کا مقصد ایک سوال کا جواب ہے
سوال : عَالَم اسم جنس ہے جسکا اطلاق ماسوی اللہ پر ہوتا ہے، اور جمع کیلئے کم از کم تین افراد کا ہونا ضروری ہے، حلان کہ عَالَم ایک ہے۔
جواب : عالم کے چونکہ انواع مختلف ہیں، مثلاً عالم ملائکہ، عالم دنیا، عالم آخرت، عالم انس، عالم جن وغیرہ اختلاف انواع کا اعتبار کرتے ہوئے، العالمین کو جمع لایا گیا ہے۔
فائدہ : تَغلیباً لِلْعُقَلاءِ اس عبارت سے بھی ایک شبہ کا دفع مقصود ہے۔
شبہ : عالم ذوی العقول اور غیر ذوی العقول دونوں کا مجموعہ ہے اور عالم میں غالب اکثریت غیر ذوی العقول کی ہے، لہٰذا اس کی جمع یاء ونون کے ساتھ نہیں آنی چاہیے، اس لئے کہ یاء نون کے ساتھ ذوی العقول کی جمع آتی ہے۔
دفع : عالَم میں اگرچہ غیرذوی العقول کی تعداد ذوی العقول کے مقابلہ میں بہت زیادہ ہے، مگر عقل ایک ایسا قیمتی جو ہر ہے جو تمام صفات پر غالب اور فائق ہے اس صفت کے مقابلہ میں تمام صفات ہیچ اور بےکار ہیں، اس لئے ذوی العقول کی قلت کے باوجود غیر ذوی العقول پر غلبہ دیکر یاء نون کے ساتھ جمع لائے ہیں۔
قولہ : وَجَعَلَ مستانفٌ ولا یجوزُ عطفہٗ اس کی تحقیق اوپرگذرچ کی ہے۔
قولہ : فی تمام اربعۃِ ایَّامِ دو دن سابق، جن میں تخلیق ارض کا ذکر ہے اور دون لاحق جن میں تقدیر اقوات (روزی) کا ذکر ہے، اس طرح دونوں کی مل کر مجموعی تعداد چار دن ہوئی، نہ کہ صرف تقدیر اقوات چار دن میں، اس لئے کہ آئندہ تخلیق سبع سمٰوات کا ذکر آرہا ہے اور اس کی تخلیق کی مدت بھی دو دن بتائی گئی ہے، اگر تقدیر اقوات کی مدت چار دن تسلیم کرلی جائے جیسا کہ بظاہر معلوم ہوتا ہے تو ایام تخلیق کی مجموعی تعداد آٹھ ہوجائے گی، حالانکہ دیگر آیات میں چھ یوم میں کل کائنات کی تخلیق کی صراحت ہے، مثلاً خَلَقَ السمَوات والارض فی ستۃ ایام۔
قولہ : سوَاءً منصوب علی المصدریۃ، سواءً فعل محذوف استَوَتْ کا مصدر بلفظہٖ ہونے کی وجہ سے منصوب ہے، اور جملہ ہو کر ایامٍ کی صفت ہے۔
قولہ : للسَّائِلین اس کا تعلق سواءً سے ہے ای مستویَۃً لِلسَّائِلین ای جواب السائلین فیھا سواء لا یتغیَّر بسائلٍ بزیادَۃٍ ولا نَقصٍ (صاوی) بعض حضرات نے للسائلین کا تعلق محذوف سے کیا ہے، تقدیر عبارت یہ ہے کہ ھٰذا الحصر للسائلین۔ (ترویح الارواح)
قولہ : ثُمَّ اسْتَوٰی الی السماء۔
سوال : اس سے معلوم ہوتا ہے کہ آسمان کی تخلیق زمین کی تخلیق کے بعد ہے اور اللہ تعالیٰ کے قول والارْضَ بَعْدَ ذٰلِکَ دَحٰھَا سے اس کا عکس معلوم ہوتا ہے کہ زمین کی تخلیق سے آسمان کی تخلیق پہلے ہے۔
جواب : اللہ تعالیٰ کے قول والأرضَ بعدِذٰلک دَحٰھا سے مراد زمین کا پھیلانا ہے، یعنی زمین کے مادہ کی تخلیق تو آسمان کی تخلیق سے پہلے ہے مگر زمین کا پھیلانا بعد میں ہے، لہٰذا کوئی تعارض نہیں ہے۔
قولہ : مرادی . یعنی تاثیر فی السماء و تاثیر فی الارض جو کہ میری مراد ہے اس کی تعمیل کرو . قولہ : طَائِعِیْنَ فیہ تَغْلِیْب المذکر العاقل الخ .
فائدہ : اس عبارت کے اضافہ کا مقصد ایک شبہ کو دفع کرنا ہے۔
شبہ : ارض اور سماء لا یعقل ہونے کی وجہ سے واحد مؤنث کے حکم میں ہیں، لہٰذا طَائِعَتَیْنِ کہنا چاہیے تھا۔
دفع : ارض و سماء اگرچہ مؤنث ہیں مگر یہ دونوں ذوی العقول دونوں پر مشتمل ہیں، لہٰذا ذوی العقول کی فضیلت کی وجہ سے ذوی العقول کو غیر ذوی العقول پر غلبہ دیکر مذکر کی جمع لائی گئی ہے۔
قولہ : اونُزِّلَتَا میں مذکورہ اعتراض کا یہ دوسرا جواب ہے، اس جواب کا خلاصہ یہ ہے کہ اِئْتِیَا کہہ کر جب زمین و آسمان کو مخاطب بنایا گیا، تو ان کو ذوی العقول کے درجہ میں اتار لیا گیا، اسی لئے اس کی جمع یاء نون کے ساتھ لائے، یہی مطلب ہے مفسر (رح) تعالیٰ کے قول اَوْنُزِّلَتَا لِخِطَابِھِنَا منزلَتَہٗ ۔ قولہ : لَاِنَّھَا فی معنی الجمع اس عبارت کے اضافہ کا مقصد ایک شبہ کو دفع کرنا ہے۔
شبہ : فقضٰھُنَّ کی ضمیر، السماء کی طرف راجع ہے جو کہ واحد مؤنث کے حکم میں ہے، لہٰذا اس کا مقتضٰی یہ تھا کہ فقَضَاھَا کہتے۔
دفع : دفع کا خلاصہ یہ ہے کہ سماء قضا و تصییر کے بعد چونکہ سات ہونے والے ہیں لہٰذا مایؤل کے اعتبار سے جمع مان کر قضٰھُنَّ کو جمع مؤنث کا صیغہ لائے۔ قولہ : اَلْاٰئِلِۃُ اِلَیْہِ یہ آل یؤولُ سے اسم کا صیغہ ہے لوٹنے والی۔
قولہ : وَافَقَ ، وَافَقَ فعل ماضی مَا ھُنَا اس کا فاعل آیات وافَقَ کا مفعول۔
قولہ : اَمْرَھا اَلَّذِیْ اُمِرَبہ فیھا مِنَ الطاعۃِ والعِبَادَۃِ . اَمْرَھَا بترکیب اضافی موصوف اَلَّذِیْ موصول اَمِرَ فعل ماضی مجہول بِہٖ ، اُمِرَ سے متعلق مَنْ موصولہ فِیْھَا، موجودٌ کے متعلق ہو کر صلہ، موصول صلہ سے مل کر اُمِرَ کا نائب فاعل، فعل اپنے متعلق اور نائب فاعل سے مل کر مبیَّنْ مِنْ بیانیہ الطاعۃ العبادۃ معطوف معطوف عٰلیہ سے مل کر اَلَّذِی مبیَّن کا بیان، مُبَیَّنْ اپنے بیان سے مل کر اَمْرَھا کی صفت موصوف باصفت جملہ ہو کر اَوحٰی کا مفعول بہ۔ قولہ : شُھُبٌ شِھَابٌ کی جمع ہے، آگ کا شعلہ، روشن ستارہ۔
قولہ : أنْ ، اَنْ میں تین وجہ ہوسکتی ہیں (١) مخففہ عن المثقلہ اس صورت میں ضمیر شان اسم محذوف ہوگا، ای اَنَّہٗ لا تعبدوا (٢) مصدریہ ناصب للمضارع، لا ناھِیَہ (٣) مفسّرہ اس لئے کہ مجیئ الرُسُل قول کا احتمال رکھتا ہے اس لئے کہ ان مفسرہ کے لئے ضروری ہے کہ اس سے پہلے قول یا قول کے ہم معنی یا قول پر دلالت کرنے والا کوئی لفظ ہو، اگر مجیئ رسل کی دلالت قول پر نہ مانی جائے تو اَنْ تفسیر یہ ماننا صحیح نہ ہوگا۔ قولہ : وکانوا بایٰتِنَا اس کا عطف فَاسْتَکْبَرُوْا پر ہے۔
قولہ : صَرْ صَرًا، صِرٌّ پالا، ٹھِر، لودِ سموم، علامہ خازن بغدادی لکھتے ہیں، صرٌّ میں دو جہتیں ہیں (١) اکثر مفسرین اور اہل لغت کا قول یہ ہے کہ صرٌّ سخت ٹھنڈا کو کہتے ہیں، حضرت ابن عباس (رض) اور قتادہ وغیرہ نے یہی کہا ہے (٢) گرم لو کو مہلک ہو، حضرت ابن عباس (رض) سے ایک روایت ایسی بھی ہے، اہل لغت میں ابن انباری کا بھی یہی قول ہے، قاضی بیضاوی نے کہا ہے اس کا اطلاق سرد ہوا کے لئے شائع ہے، جیسے صَرْ صَرْ یہ اصل میں مصدر ہے جو بطور صفت مستعمل ہے (لغات القرآن ملخصاً ) مفسر علام نے باردۃ شدید الصوت کہہ کر دونوں معنی کو جمع کردیا۔ قولہ : مشئوم یہ سعید کی ضد ہے منحوس، نامبارک۔
قولہ : ولَعذاب الآخرۃ، اَحْزٰ ی، اَخزیٰ دراصل معذب کی صفت ہے، عذاب کی طرف بطور مبالغہ اسناد مجازی ہے، اس لئے کہ عذاب رسوائی کا سبب ہے نہ کہ خود رسوائی، سبب بول کر مسبب مراد ہے۔
قولہ : بَیَّنَا لَھُمْ طریق الھُدٰی یہ جملہ فَھَدَیٌنَا ھُمْ کی تفسیر ہے اس کا مقصد اس بات کی طرف اشارہ کرنا ہے کہ یہاں ہدایت سے مراد اراء تِ طریق ہے نہ کہ ایصال الی المطلوب۔ قولہ : منھا ای من الصاعقۃ التی نزلت بثمودَ ۔
تفسیر وتشریح
قل۔۔۔ یومین . قرآن کریم میں متعدد مقامات پر ذکر کیا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے زمین اور آسمانوں کو چھ دن میں پیدا فرمایا، یہاں اس کی کچھ تفصیل اور ترتیب بیان فرمائی گئی ہے، فرمایا : زمین کو دو دن میں بنایا، دو دن سے یوم الاحد (اتوار) اور یوم الاثنین (پیر) مراد ہیں، سورة نازعات میں فرمایا گیا ہے، وَالْاَرْضَ بَعدَذٰلِکَ دَحٰھَا بظاہر اس سے معلوم ہوتا ہے کہ زمین کو آسمانوں کے بعد بنایا گیا ہے، جبکہ یہاں زمین کی تخلیق کا ذکر آسمانوں کی تخلیق سے پہلے کیا گیا ہے۔
حضرت ابن عباس (رض) کی وضاحت : حضرت ابن عباس (رض) نے وضاحت اس طرح فرمائی ہے کہ تخلیق اور چیز ہے دَحٰی جو اصل میں دَحْوٌ ہے، اس کے معنی ہیں بچھانا پھیلانا، اور چیز ہے، زمین کی تخلیق آسمان سے پہلے ہوئی ہے، جیسا کہ یہاں بھی بیان کیا گیا ہے، اور دَحْوٌ کا مطلب ہے زمین رہائش کے قابل بنانے کے لئے اس میں پانی کے ذخائر رکھے گئے، اسے پیداوارِ ضروریات کا مخزن بنایا گیا اَخْرَجَ مِنْھَا مَاءَھَا وَمَرْعٰھَا نیز اس میں اس نے پہاڑ، ٹیلے، جمادات نیز معدنیات رکھے، یہ عمل آسمان کی تخلیق کے بعد دوسرے مرحلہ میں دونوں میں کیا گیا، اس طریقہ سے زمین اور اس کے متعلقات کی تخلیق پورے چاردن میں مکمل ہوئی۔ (صحیح بخاری تفسیر سورة حٰمٓ السجدہ)
پہاڑوں کو زمین ہی میں سے پیدا کرکے زمین میں پیوست کردیا تاکہ توازن قائم رہے اور بےترتیب حرکت نہ کرے اور
رہائش کے قابل رہے، اللہ تبارک و تعالیٰ نے زمین میں برکت رکھ دی اور زمین میں بسنے والی تمام مخلوق کے لئے اس کے حسب حال روزی مقدر فرمادی، پانی کی کثرت، انواع و اقسام کے رزق، معدنیات اور دیگر بہت سی مفید اور کار آمد اشیاء زمین میں ودیعت فرمادیں، اور رب العالمین کی اس تقدیر کا سلسلہ اتنا وسیع ہے کہ کوئی زبان اسے بیان نہیں کرسکتی، کوئی قلم اسے رقم نہیں کرسکتا، اور کوئی کیلکولیٹر اسے کیلولیٹ (شمار) نہیں کرسکتا، تخلیق ارض کے اولاً دو دن اور زمین کو پھیلانے اور قابل رہائش بنانے کے دو دن یہ سب مل کر چار دن ہوئے، سواءً کا مطلب ہے ٹھیک چاردن یعنی پوچھنے والوں کو بتلادو کہ تخلیق اور دَحْوٌ (پھیلانے) کا کام ٹھیک چاردن میں ہوا، یا اس کا مطلب یہ ہے کہ سائلین کے لئے یہ مکمل اور پورا جواب ہے۔
ثُمَّ اسْتَوٰی الَی السَّماءِ پھر آسمان کی (تخلیق) کی طرف متوجہ ہوا، آسمانوں کا مادہ دھوئیں اور بھاپ کی شکل میں تھا، حکم فرمایا تم دونوں میرے حکم کی تکمیل کے لئے مطیع و منقاد ہوجاؤ، برضا ورغبت یا طوعاً وکرہاً ، بہرحال امر الہٰی بجالانا ہے، دونوں نے عرض کیا ہم دونوں برضا ورغبت حاضر ہیں، پھر ان کو دو دن یعنی جمعرات وجمعہ میں سات آسمان بنادیا، اور ان کو چراغوں یعنی ستاروں سے مزین کردیا، جب آسمان جیسی مخلوق مطیع و فرمانبردار ہو تو انسان کی سرکشی کیسی ناز یبا حرکت ہے نیز اس سے یہ بھی معلوم ہوگیا کہ نطق بشر کا خاصہ نہیں بلکہ حیوانات و نباتات اور جمادات میں بھی پایا جاتا ہے، البتہ نطق کی کیفیت اور نوعیت مختلف ہے، حیوانات میں تو ظاہر اور مشاہد ہے کہ آپس میں ایک دوسرے کی بات سمجھتے ہیں، ہاں یہ فرق تو ہوسکتا ہے کہ انسان ہر امر میں مدرک اور ناطق ہو اور دیگر چیزیں خاص طور پر اپنے ہی سے متعلق امور میں مدرک ہوں۔ (خلاصہ التفاسیر، تائب)
بعض مفسرین حضرات نے زمین و آسمان سے خطاب اور ان کی طرف سے جواب کو مجاز پر محمول کیا ہے، یعنی ہر کام کے کئے تیار پائے گئے، مگر ابن عطیہ اور دیگر محققین مفسرین نے فرمایا اس میں کوئی مجاز نہیں ہے، سب اپنی حقیقت پر ہے، اللہ تبارک و تعالیٰ نے آسمان و زمین میں شعور و ادراک پیدا فرمادیا تھا کہ جس کی وجہ سے خطاب کو سمجھیں اور جواب دینے کی صلاحیت پیدا ہوگئی تھی، ابن کثیر نے یہ قول بھی نقل کیا ہے کہ زمین کی طرف سے یہ جواب اس حصہ نے دیا جس پر بعد میں بیت اللہ کی تعمیر ہوئی اور آسمان کی طرف سے اس حصہ نے جواب دیا تھا جس کے بالمقابل بیت العمور ہے۔
اذ۔۔۔ خلفھم رسولوں کے آگے پیچھے سے آنے کا مطلب یہ ہے کہ یکے بعد دیگرے متعدد اور مسلسل رسول آئے اگر ایک رسول رحصت ہوتا تھا تو دوسرا آتا تھا، اور اس کا یہ مطلب بھی ہوسکتا ہے کہ ان کے رسولوں نے ان کو ہر طرح سے ہر وقت اور ہرحال میں سمجھایا، ماضی کی مجرم قوموں کے عبرتناک واقعات بھی سنائے اور آئندہ کے حادثات اور ہولناک عذاب سے ڈرایا بھی، اور سب نے ایک ہی پیغام سنایا کہ ایک اللہ ہی کہ عبادت کرو مگر عاد وثمود نے ایک نہ سنی، الٹا یہ الزام رکھ دیا کہ تم تو ہماری طرح کے انسان ہو، اس لئے ہم تمہیں نبی نہیں مان سکتے، اللہ کو اگر نبی بھیجنا تھا تو فرشتوں کو بھیجتا نہ کہ انسان کو۔ جب ہود (علیہ السلام) نے اپنی قوم کو انذار و تنبیہ کے لئے عذاب سے ڈرایا تو سرکشی پر اتر آئے اور کہنے لگے ہم بڑے طاقتور اور زور آور اور بڑے قد آور ہیں، ہم عذاب کو روکنے کی صلاحیت اور طاقت رکھتے ہیں۔
فَاَرْسَلْنَا عَلَیْھِمْ رِیْحًا صَرْ صَرًا فی اَیَّامٍ نَّحِسَاتٍ ، صَرْصَرْ ، صُرَّۃٌ سے ہے اس کے معنی شدید آواز کے ہیں، یعنی نہایت تندوتیز ہوا جس میں آواز بھی ہو، بعض حضرات نے فرمایا یہ صَرٌّ سے مشتق ہے جسکے معنی برد یعنی شدید ٹھنڈک کے ہیں جسکو پالا بھی کہتے ہیں۔
فی۔۔ نحسات . ضحاک (رض) نے فرمایا کہ ان لوگوں پر الہ تعالیٰ نے تین سال تک بارش بالکل بند کردی اور تیز و تند خشک ہوائیں چلتی رہیں، اور آٹھ دن اور راتوں تک مسلسل ہوا کا شدید طوفان رہا بعض روایات میں ہے کہ یہ طوفان آخر شوال
میں ایک بدھ سے شروع ہو کر دوسرے بدھ تک رہا اور جس کسی قوم پر عذاب آیا ہے وہ بدھ ہی کے دن آیا ہے (قرطبی، مظھری)
کسی چیز میں نحوست کا مطلب : اصول اسلام اور احادیث سے ثابت ہے کہ دن و رات میں کوئی بھی منحوس نہیں، تو پھر قوم عاد پر طوفان باد کے ایام کو منحوس فرمانے کا کیا مطلب ہے ؟
جواب : اپنی ذات کے اعتبار سے کوئی شئ منحوس نہیں، قوم عاد پر طوفان باد کو منحوس کہنے کا مطلب یہ ہے کہ یہ ایام ان کی بد اعمالیوں کے سبب سے ان کے حق میں منحوس ہوگئے تھے، اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ یہ ایام سب کے لئے نحس ہوں۔ (مظھری)
نحِسَاتٍ کا ترجمہ بعض نے متواتر پے در پے بھی کیا ہے، اور بعض نے سخت اور بعض نے گرد و غبار والے اور بعض نے نحوست والے ترجمہ کیا ہے۔
10 Tafsir as-Saadi
اللہ تبارک و تعالیٰ تعجب کے ساتھ کفار کے کفر کا انکار کرتا ہے جنہوں نے اللہ تعالیٰ کے ہر سر گھڑ رکھے ہیں اور ان کو اللہ تعالیٰ کا شریک ٹھہرایا ہوا ہے، ان کی عبادت کرتے ہیں، انہیں رب عظیم اور مالک کریم کے برابر گردانتے ہیں، جس نے اتنی بڑی زمین کو صرف دو دن میں پیدا کیا، پھر دو دن میں اس کو ہموار کیا، اس کے اندر بڑے بڑے پہاڑ رکھ دیے جو اسے مٹنے، ہلنے اور عدم استقرار سے روکتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اس کی تخلیق کی تکمیل کی، پھر پھیلا کر ہموار کیا، اس میں سے خوراک اور اس کی توابعات نکالیں۔
11 Mufti Taqi Usmani
keh do kay : kiya tum waqaee uss zaat kay sath kufr ka moamla kertay ho jiss ney zameen ko do din mein peda kiya , aur uss kay sath doosron ko shareek thehratay ho-? woh zaat to saray jahano ki perwerish kernay wali hai .
12 Tafsir Ibn Kathir
تخلیق کائنات کا مرحلہ وار ذکر۔
ہر چیز کا خالق ہر چیز کا مالک ہر چیز پر حاکم ہر چیز پر قادر صرف اللہ ہے۔ پس عبادتیں بھی صرف اسی کی کرنی چاہئیں۔ اس نے زمین جیسی وسیع مخلوق کو اپنی کمال قدرت سے صرف دو دن میں پیدا کردیا ہے۔ تمہیں نہ اس کے ساتھ کفر کرنا چاہے نہ شرک۔ جس طرح سب کا پیدا کرنے والا وہی ایک ہے۔ ٹھیک اسی طرح سب کا پالنے والا بھی وہی ایک ہے۔ یہ تفصیل یاد رہے کہ اور آیتوں میں زمین و آسمان کا چھ دن میں پیدا کرنا بیان ہوا ہے۔ اور یہاں اس کی پیدائش کا وقت الگ بیان ہو رہا ہے۔ پس معلوم ہوا کہ پہلے زمین بنائی گئی۔ عمارت کا قاعدہ یہی ہے کہ پہلے بنیادیں اور نیچے کا حصہ تیار کیا جاتا ہے پھر اوپر کا حصہ اور چھت بنائی جاتی ہے۔ چناچہ کلام اللہ شریف کی ایک اور آیت میں ہے اللہ وہ ہے جس نے تمہارے لئے زمین میں جو کچھ ہے پیدا کرکے پھر آسمانوں کی طرف توجہ فرمائی اور انہیں ٹھیک سات آسمان بنا دیئے۔ ہاں سورة نازعات میں ( وَالْاَرْضَ بَعْدَ ذٰلِكَ دَحٰىهَا 30ۭ ) 79 ۔ النازعات :30) ہے پہلے آسمان کی پیدائش کا ذکر ہے پھر فرمایا ہے کہ زمین کو اس کے بعد بچھایا۔ اس سے مراد زمین میں سے پانی چارہ نکالنا اور پہاڑوں کا گاڑنا ہے جیسے کہ اس کے بعد کا بیان ہے۔ یعنی پیدا پہلے زمین کی گئی پھر آسمان پھر زمین کو ٹھیک ٹھاک کیا۔ لہذا دونوں آیتوں میں کوئی فرق نہیں۔ صحیح بخاری شریف میں ہے کہ ایک شخص نے حضرت عبداللہ بن عباس سے پوچھا کی بعض آیتوں میں مجھے کچھ اختلاف سا نظر آتا ہے چناچہ ایک آیت میں ہے (فَلَآ اَنْسَابَ بَيْنَهُمْ يَوْمَىِٕذٍ وَّلَا يَتَسَاۗءَلُوْنَ\010\01 ) 23 ۔ المؤمنون :101) یعنی قیامت کے دن آپس کے نسب نہ ہوں گے اور نہ ایک دوسرے سے سوال کرے گا۔ دوسری آیت میں ہے ( وَاَقْبَلَ بَعْضُهُمْ عَلٰي بَعْضٍ يَّتَسَاۗءَلُوْنَ 27 ) 37 ۔ الصافات :27) یعنی بعض آپس میں ایک دوسرے کی طرف متوجہ ہو کر پوچھ گچھ کریں گے۔ ایک آیت میں ہے (وَلَا يَكْتُمُوْنَ اللّٰهَ حَدِيْثًا 42 ) 4 ۔ النسآء :42) یعنی اللہ سے کوئی بات چھپائیں گے نہیں۔ دوسری آیت میں ہے کہ مشرکین کہیں گے (وَاللّٰهِ رَبِّنَا مَا كُنَّا مُشْرِكِيْنَ 23) 6 ۔ الانعام :23) اللہ کی قسم ہم نے شرک نہیں کیا۔ ایک آیت میں ہے زمین کو آسمان کے بعد بچھایا ( وَالْاَرْضَ بَعْدَ ذٰلِكَ دَحٰىهَا 30ۭ ) 79 ۔ النازعات :30) دوسری آیت ( قُلْ اَؤُنَبِّئُكُمْ بِخَيْرٍ مِّنْ ذٰلِكُمْ 15ۚ ) 3 ۔ آل عمران :15) ، میں پہلے زمین کی پیدائش پھر آسمان کی پیدائش کا ذکر ہے۔ ایک تو ان آیتوں کا صحیح مطلب بتائے جس سے اختلاف اٹھ جائے۔ دوسرے یہ جو فرمایا ہے (اللّٰهُ عَزِيْزًا حَكِـيْمًا\015\08 ) 4 ۔ النسآء :158) تو کیا یہ مطلب ہے کہ اللہ ایسا تھا ؟ اس کے جواب میں آپ نے فرمایا کہ جن دو آیتوں میں سے ایک میں آپس کا سوال جواب ہے اور ایک میں ان کا انکار ہے۔ یہ دو وقت ہیں صور میں دو نفخے پھونکے جائیں گے ایک کے بعد آپس کی پوچھ گچھ کچھ نہ ہوگی ایک کے بعد آپس میں ایک دوسرے سے سوالات ہوں گے۔ جن دو دوسری آیتوں میں ایک میں بات کے نہ چھپانے کا اور ایک میں چھپانے کا ذکر ہے یہ بھی دو موقعے ہیں جب مشرکین دیکھیں گے کہ موحدوں کے گناہ بخش دیئے گئے تو کہنے لگے کہ ہم مشرک نہ تھے۔ لیکن جب منہ پر مہر لگ جائیں گی اور اعضاء بدن گواہی دینے لگیں گے تو اب کچھ بھی نہ چھپے گا۔ اور خود اپنے کرتوت کے اقراری ہوجائیں گے اور کہنے لگیں گے کاش کے ہم زمین کے برابر کردیئے جاتے۔ آسمان و زمین کی پیدائش کی ترتیب بیان میں بھی دراصل کچھ اختلاف نہیں پہلے دو دن میں زمین بنائی گئی پھر آسمان کو دو دن میں بنایا گیا پھر زمین کی چیزیں پانی، چارہ، پہاڑ، کنکر، ریت، جمادات، ٹیلے وغیرہ دو دن میں پیدا کئے یہی معنی لفظ دحاھا کے ہیں۔ پس زمین کی پوری پیدائش چار دن میں ہوئی۔ اور دو دن میں آسمان۔ اور جو نام اللہ تعالیٰ نے اپنے لئے مقرر کئے ہیں ان کا بیان فرمایا ہے وہ ہمیشہ ایسا ہی رہے گا۔ اللہ کا کوئی ارادہ پورا ہوئے بغیر نہیں رہتا۔ پس قرآن میں ہرگز اختلاف نہیں۔ اس کا ایک ایک لفظ اللہ کی طرف سے ہے، زمین کو اللہ تعالیٰ نے دو دن میں پیدا کیا ہے یعنی اتوار اور پیر کے دن، اور زمین میں زمین کے اوپر ہی پہاڑ بنا دیئے اور زمین کو اس نے بابرکت بنایا، تم اس میں بیج بوتے ہو درخت اور پھل وغیرہ اس میں سے پیدا ہوتے ہیں۔ اور اہل زمین کو جن چیزوں کی احتیاج ہے وہ اسی میں سے پیدا ہوتی رہتی ہیں زمین کی یہ درستگی منگل بدھ کے دن ہوئی۔ چار دن میں زمین کی پیدائش ختم ہوئی۔ جو لوگ اس کی معلومات حاصل کرنا چاہتے تھے انہیں پورا جواب مل گیا۔ زمین کے ہر حصے میں اس نے وہ چیز مہیا کردی جو وہاں والوں کے لائق تھی۔ مثلاً عصب یمن میں۔ سابوری میں ابور میں۔ طیالسہ رے میں۔ یہی مطلب آیت کے آخری جملے کا ہے۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ جس کی جو حاجت تھی اللہ تعالیٰ نے اس کیلئے مہیا کردی۔ اس معنی کی تائید اللہ کے اس فرمان سے ہوتی ہے ( وَاٰتٰىكُمْ مِّنْ كُلِّ مَا سَاَلْتُمُوْهُ 34 ) 14 ۔ ابراھیم :34) تم نے جو جو مانگا اللہ نے تمہیں دیا۔ واللہ اعلم، پھر جناب باری نے آسمان کی طرف توجہ فرمائی وہ دھویں کی شکل میں تھا، زمین کے پیدا کئے جانے کے وقت پانی کے جو ابخرات اٹھے تھے۔ اب دونوں سے فرمایا کہ یا تو میرے حکم کو مانو اور جو میں کہتا ہوں ہوجاؤ خوشی سے یا ناخوشی سے، حضرت ابن عباس فرماتے ہیں مثلاً آسمانوں کو حکم ہوا کہ سورج چاند ستارے طلوع کرے زمین سے فرمایا اپنی نہریں جاری کر اپنے پھل اگا وغیرہ۔ دونوں فرمانبرداری کیلئے راضی خوشی تیار ہوگئے۔ اور عرض کیا کہ ہم مع اس تمام مخلوق کے جسے تو رچانے والا ہے تابع فرمان ہے۔ اور کہا گیا ہے کہ انہیں قائم مقام کلام کرنے والوں کیلئے کیا گیا اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ زمین کے اس حصے نے کلام کیا جہاں کعبہ بنایا گیا ہے اور آسمان کے اس حصے نے کلام کیا جو ٹھیک اس کے اوپر ہے۔ واللہ اعلم۔ امام حسن بصری فرماتے ہیں اگر آسمان و زمین اطاعت گزاری کا اقرار نہ کرتے تو انہیں سزا ہوتی جس کا احساس بھی انہیں ہوتا۔ پس دو دن میں ساتوں آسمان اس نے بنا دیئے یعنی جمعرات اور جمعہ کے دن۔ اور ہر آسمان میں اس نے جو جو چیزیں اور جیسے جیسے فرشتے مقرر کرنے چاہے مقرر فرما دیئے اور دنیا کے آسمان کو اس نے ستاروں سے مزین کردیا جو زمین پر چمکتے رہتے ہیں اور جو ان شیاطین کی نگہبانی کرتے ہیں جو ملاء اعلیٰ کی باتیں سننے کیلئے اوپر چڑھنا چاہتے ہیں۔ یہ تدبیرو اندازہ اس اللہ کا قائم کردہ ہے جو سب پر غالب ہے جو کائنات کے ایک ایک چپے کی ہر چھپی کھلی حرکت کو جانتا ہے۔ ابن جریر کی روایت میں ہے یہودیوں نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے آسمان و زمین کی پیدائش کی بابت سوال کیا تو آپ نے فرمایا کہ اتوار اور پیر کے دن اللہ تعالیٰ نے زمین کو پیدا کیا اور پہاڑوں کو منگل کے دن پیدا کیا اور جتنے نفعات اس میں ہیں اور بدھ کے دن درختوں کو پانی کو شہروں کو اور آبادی اور ویرانے کو پیدا کیا تو یہ چار دن ہوئے۔ اسے بیان فرما کر پھر آپ نے اسی آیت کی تلاوت کی اور فرمایا کہ جمعرات والے دن آسمان کو پیدا کیا اور جمعہ کے دن ستاروں کو اور سورج چاند کو اور فرشتوں کو پیدا کیا تین ساعت کے باقی رہنے تک۔ پھر دوسری ساعت میں ہر چیز میں آفت ڈالی جس سے لوگ فائدہ اٹھاتے ہیں۔ اور تیسری میں آدم کو پیدا کیا انہیں جنت میں بسایا ابلیس کو انہیں سجدہ کرنے کا حکم دیا۔ اور آخری ساعت میں وہاں سے نکال دیا۔ یہودیوں نے کہا اچھا حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پھر اس کے بعد کیا ہوا ؟ فرمایا پھر عرش پر مستوی ہوگیا انہوں نے کہا سب تو ٹھیک کہا لیکن آخری بات یہ کہی کہ پھر آرام حاصل کیا۔ اس پر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سخت ناراض ہوئے اور یہ آیت اتری ( وَلَــقَدْ خَلَقْنَا السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ وَمَا بَيْنَهُمَا فِيْ سِتَّةِ اَيَّامٍ ڰ وَّمَا مَسَّنَا مِنْ لُّغُوْبٍ 38) 50 ۔ ق :38) یعنی ہم نے آسمان و زمین اور جو ان کے درمیان ہے سب کو چھ دن میں پیدا کیا اور ہمیں کوئی تھکان نہیں ہوئی۔ تو ان کی باتوں پر صبر کر۔ یہ حدیث غریب ہے۔ اور روایت میں ہے حضرت ابوہریرہ فرماتے ہیں میرا ہاتھ پکڑ کر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے مٹی کو ہفتے کے روز پیدا کیا اس میں پہاڑوں کو اتوار کے دن رکھا درخت پیر والے دن پیدا کئے مکروہات کو منگل کے دن نور کو بدھ کے دن پیدا کیا اور جانوروں کو زمین میں جمعرات کے دن پھیلا دیا اور جمعہ کے دن عصر کے بعد جمعہ کی آخری ساعت حضرت آدم کو پیدا کیا اور کل مخلوقات پوری ہوئی۔ مسلم اور نسائی میں یہ حدیث ہے لیکن یہ بھی غرائب صحیح میں سے ہے۔ اور امام بخاری نے تاریخ میں اسے معلل بتایا ہے اور فرمایا ہے کہ اسے بعض راویوں نے حضرت ابوہریرہ سے اور انہوں نے اسے کعب احبار سے روایت کیا ہے اور یہی زیادہ صحیح ہے۔