کیا آپ کے رب کی رحمتِ (نبوّت) کو یہ لوگ تقسیم کرتے ہیں؟ ہم اِن کے درمیان دنیوی زندگی میں ان کے (اسبابِ) معیشت کو تقسیم کرتے ہیں اور ہم ہی ان میں سے بعض کو بعض پر (وسائل و دولت میں) درجات کی فوقیت دیتے ہیں، (کیا ہم یہ اس لئے کرتے ہیں) کہ ان میں سے بعض (جو امیر ہیں) بعض (غریبوں) کا مذاق اڑائیں (یہ غربت کا تمسخر ہے کہ تم اس وجہ سے کسی کو رحمتِ نبوت کا حق دار ہی نہ سمجھو)، اور آپ کے رب کی رحمت اس (دولت) سے بہتر ہے جسے وہ جمع کرتے (اور گھمنڈ کرتے) ہیں،
English Sahih:
Do they distribute the mercy of your Lord? It is We who have apportioned among them their livelihood in the life of this world and have raised some of them above others in degrees [of rank] that they may make use of one another for service. But the mercy of your Lord is better than whatever they accumulate.
1 Abul A'ala Maududi
کیا تیرے رب کی رحمت یہ لوگ تقسیم کرتے ہیں؟ دنیا کی زندگی میں اِن کی گزر بسر کے ذرائع تو ہم نے اِن کے درمیان تقسیم کیے ہیں، اور اِن میں سے کچھ لوگوں کو کچھ دوسرے لوگوں پر ہم نے بدرجہا فوقیت دی ہے تاکہ یہ ایک دوسرے سے خدمت لیں اور تیرے رب کی رحمت اُس دولت سے زیادہ قیمتی ہے جو (اِن کے رئیس) سمیٹ رہے ہیں
2 Ahmed Raza Khan
کیا تمہارے رب کی رحمت وہ بانٹتے ہیں ہم نے ان میں ان کی زیست کا سامان دنیا کی زندگی میں بانٹا اور ان میں ایک دوسرے پر درجوں بلندی دی کہ ان میں ایک دوسرے کی ہنسی بنائے اور تمہارے رب کی رحمت ان کی جمع جتھا سے بہتر
3 Ahmed Ali
کیا وہ آپ کے رب کی رحمت تقسیم کرتے ہیں ان کی روزی تو ہم نے ان کے درمیان دنیا کی زندگی میں تقسیم کی ہے اور ہم نے بعض کے بعض پر درجے بلند کیے تاکہ ایک دوسرے کو محکوم بنا کررکھے اور آپ کے رب کی رحمت اس سے کہیں بہتر ہے جو وہ جمع کرتے ہیں
4 Ahsanul Bayan
کیا آپ کے رب کی رحمت کو یہ تقسیم کرتے ہیں؟ ہم نے ہی ان کی زندگانی دنیا کی روزی ان میں تقسیم کی ہے اور ایک کو دوسرے سے بلند کیا ہے تاکہ ایک دوسرے کو ماتحت کر لے جسے یہ لوگ سمیٹتے پھرتے ہیں اس سے آپ کے رب کی رحمت بہت ہی بہتر ہے (١)
٣٢۔١ اس رحمت سے مراد آخرت کی وہ نعمتیں ہیں جو اللہ نے اپنے نیک بندوں کے لئے تیار کر رکھی ہیں۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
کیا یہ لوگ تمہارے پروردگار کی رحمت کو بانٹتے ہیں؟ ہم نے ان میں ان کی معیشت کو دنیا کی زندگی میں تقسیم کردیا اور ایک کے دوسرے پر درجے بلند کئے تاکہ ایک دوسرے سے خدمت لے اور جو کچھ یہ جمع کرتے ہیں تمہارے پروردگار کی رحمت اس سے کہیں بہتر ہے
6 Muhammad Junagarhi
کیا آپ کے رب کی رحمت کو یہ تقسیم کرتے ہیں؟ ہم نے ہی ان کی زندگانیٴ دنیا کی روزی ان میں تقسیم کی ہے اور ایک کو دوسرے سے بلند کیا ہے تاکہ ایک دوسرے کو ماتحت کر لے جسے یہ لوگ سمیٹتے پھرتے ہیں اس سے آپ کے رب کی رحمت بہت ہی بہتر ہے
7 Muhammad Hussain Najafi
کیا یہ لوگ آپ کے پروردگار کی رحمت تقسیم کرتے ہیں؟ (حالانکہ) دنیاوی زندگی میں ان کے درمیان ان کی روزی ہم نے تقسیم کر دی ہے اور ہم نے بعض کو بعض پر کئی درجے فوقیت دی ہے تاکہ وہ ایک دوسرے سے خد متلے سکیں اور آپ کے پروردگار کی رحمت اس مال و دولت سے بہتر ہے جو وہ جمع کرتے ہیں۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
تو کیا یہی لوگ رحمت پروردگار کو تقسیم کررہے ہیں حالانکہ ہم نے ہی ان کے درمیان معیشت کو زندگانی دنیا میں تقسیم کیا ہے اور بعض کو بعض سے اونچا بنایا ہے تاکہ ایک دوسرے سے کام لے سکیں اور رحمت پروردگار ان کے جمع کئے ہوئے مال و متاع سے کہیں زیادہ بہتر ہے
9 Tafsir Jalalayn
کیا یہ لوگ تمہارے پروردگار کی رحمت کو بانٹتے ہیں ؟ ہم نے ان میں ان کی معیشت کو دنیا کی زندگی میں تقسیم کردیا اور ایک کے دوسرے پر درجے بلند کئے تاکہ ایک دوسرے سے خدمت لے اور جو کچھ یہ جمع کرتے ہیں تمہارے پروردگار کی رحمت اس سے کہیں بہتر ہے
10 Tafsir as-Saadi
﴿ أَهُمْ يَقْسِمُونَ رَحْمَتَ رَبِّكَ ﴾ یعنی کیا وہ اللہ تعالیٰ کی رحمت کے خزانچی ہیں اور ان کے ہاتھ میں اس کی رحمت کی تدبیر ہے کہ جس کو چاہیں نبوت اور رسالت عطا کردیں اور جس کو چاہیں اس سے محروم کردیں؟ ﴿ نَحْنُ قَسَمْنَا بَيْنَهُم مَّعِيشَتَهُمْ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَرَفَعْنَا بَعْضَهُمْ فَوْقَ بَعْضٍ دَرَجَاتٍ ﴾ ” ہم نے ان میں سے ان کی معیشت کو دنیا کی زندگی میں تقسیم کیا اور ایک کے دوسرے پر درجے بلند کئے“ یعنی اس دنیاوی زندگی میں ﴿ وَ ﴾ ” اور“ حال یہ ہے کہ ﴿ وَرَحْمَتُ رَبِّكَ خَيْرٌ مِّمَّا يَجْمَعُونَ ﴾ ” آپ کے رب کی رحمت اس (دنیا)سے بہتر ہے جو یہ اکٹھی کر رہے ہیں۔ “ جب بندوں کی معیشت اور ان کا دنیاوی رزق اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے، وہی اسے اپنے بندوں کے درمیان تقسیم کرتا ہے، اپنی حکمت کے تقاضے کے مطابق جس کو چاہتا ہے اس کے رزق کو کشادہ کردیتا ہے اور جس کو چاہتا ہے اس کے رزق کو تنگ کردیتا ہے تو اس کی رحمت دینی جس میں سب سے اعلیٰ و افضل چیز نبوت اور رسالت ہے، اس بات کی زیادہ مستحق ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہو۔ پس اللہ تعالیٰ زیادہ جانتا ہے کہ وہ اپنی رسالت سے کسے سرفراز فرمائے۔ پس معلوم ہوا کہ کفار کا اعتراض لغو اور ساقط ہے۔ تمام دینی اور دنیاوی معاملات کی تدبیر اکیلے اللہ تعالیٰ ہی کے دست قدرت میں ہے۔ یہ ان کے اعتراض کی غلطی پر توجہ دلانا ہے جو ان کے اختیار میں نہیں، یہ تو محض ان کا ظلم اور حق کو ٹھکرانا ہے۔ رہا ان کا یہ کہنا ﴿ لَوْلَا نُزِّلَ هَـٰذَا الْقُرْآنُ عَلَىٰ رَجُلٍ مِّنَ الْقَرْيَتَيْنِ عَظِيمٍ ﴾ ” اگر وہ لوگوں کے حقائق اور انسانی صفات کی معرفت رکھتے جن کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ اور مخلوق کے ہاں انسان کی بلند قدر و منزلت اور عظمت کا انداز ہ کیاجاتا ہے تو انہیں معلوم ہوجاتا کہ حضرت محمد بن عبداللہ بن عبدالمطلب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم لوگوں میں عظیم ترین قدر و منزلت کے حامل، فخر میں سب سے اعلیٰ، عقل میں سب سے کامل، علم میں سب سے بڑھ کر، رائے اور عزم و حزم میں جلیل ترین، اخلاق میں بہترین، آپ کی رحمت کا دامن وسیع ترین، سب سے زیادہ شفقت رکھنے والے، سب سے زیادہ ہدایت یافتہ اور سب سے زیادہ متقی ہیں۔ آپ دائرہ کمال کے مرکز اور انسانی اوصاف کی انتہائی بلندیوں پر فائز ہیں، آگاہ رہو ! کہ علی الاطلاق آپ ہی مرد کائنات ہیں۔ اس بات کو آپ کے دوست اور دشمن سب جانتے ہیں، پس یہ مشرکین آپ پر کسی شخص کو کیوں کر فضیلت دے رہے ہیں جس میں ذرہ بھر یہ کمالات نہیں؟ اور اس کے جرم و حماقت کی انتہا یہ ہے کہ اس نے صنم، پتھر اور درخت کو اپنا معبود بنا لیا ہے،اس کی عبادت کرتا ہے، مصائب و حاجات میں اس کو پکارتا اور اس کا قرب حاصل کرتا ہے جو اس کو کوئی نقصان پہنچا سکتا ہے نہ نفع، وہ کچھ عطا کرسکتا ہے نہ کسی چیز سے محروم کرسکتا ہے وہ سرا سر اپنے مالک (عابد) پر بوجھ ہے اور کسی ایسے شخص کا محتاج ہے جو اس کے مصالح کی دیکھ بھال کرے۔ کیا یہ بیوقوفوں اور پاگلوں کا فعل نہیں؟ ایسے شخص کو کیوں کر عظیم قرار دیا جاسکتا ہے؟ یا خاتم المرسلین اور بنی آدم کے سردار حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر کیوں کر فضیلت دی جاتی ہے؟ لیکن وہ لوگ جنہوں نے کفر کا رویہ اختیار کیا ہوا ہے سمجھتے ہی نہیں۔ اس آیت کریمہ میں بندوں کی ایک دوسرے پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطا کردہ فضیلت میں پنہاں اس کی حکمت کی طرف اشارہ ہے ﴿لِّيَتَّخِذَ بَعْضُهُم بَعْضًا سُخْرِيًّا ﴾ ” تاکہ ایک دوسرے سے خدمت لے۔“ یعنی تاکہ وہ کاموں اور صنعت و حرفت میں ایک دوسرے سے خدمت لیں، اگر مال کے لحاظ سے تمام لوگ برابر ہوتے تو وہ ایک دوسرے کے محتاج نہ رہتے اور اس طرح ان کے بہت سے مصالح اور منافع معطل ہو کر رہ جاتے۔ اس آیت کریمہ میں اس بات کی دلیل ہے کہ دینی نعمت دنیاوی نعمت سے بہتر ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے ایک دوسری آیت میں فرمایا: ﴿ قُلْ بِفَضْلِ اللّٰـهِ وَبِرَحْمَتِهِ فَبِذَٰلِكَ فَلْيَفْرَحُوا هُوَ خَيْرٌ مِّمَّا يَجْمَعُونَ ﴾(یونس:10؍58) ” کہہ دیجیے کہ یہ اللہ کا فضل و کرم اور اس کی رحمت ہے، اسی پر ان کو خوش ہونا چاہئے یہ ان چیزوں سے بہتر ہے جن کو یہ جمع کرتے ہیں۔ “
11 Mufti Taqi Usmani
bhala kiya yeh log hain jo tumharay perwerdigar ki rehmat taqseem keren gay-? dunyawi zindagi mein inn ki rozi kay zaraye bhi hum ney hi inn kay darmiyan taqseem ker rakhay hain , aur hum ney hi inn mein say aik ko doosray per darjaat mein foqiyat di hai , takay woh aik doosray say kaam ley saken . aur tumharay perwerdigar ki rehmat to uss ( dolat ) say kahen behtar cheez hai jo yeh jama ker rahey hain .