الزخرف آية ۵۷
وَلَمَّا ضُرِبَ ابْنُ مَرْيَمَ مَثَلًا اِذَا قَوْمُكَ مِنْهُ يَصِدُّوْنَ
طاہر القادری:
اور جب (عیسٰی) ابنِ مریم (علیہما السلام) کی مثال بیان کی جائے تو اس وقت آپ کی قوم (کے لوگ) اس سے (خوشی کے مارے) ہنستے ہیں،
English Sahih:
And when the son of Mary was presented as an example, immediately your people laughed aloud.
1 Abul A'ala Maududi
اور جونہی کہ ابن مریم کی مثال دی گئی، تمہاری قوم کے لوگوں نے اس پر غل مچا دیا
2 Ahmed Raza Khan
اور جب ابنِ مریم کی مثال بیان کی جائے، جبھی تمہاری قوم اس سے ہنسنے لگتے ہیں
3 Ahmed Ali
اورجب ابن مریم کی مثال بیان کی گئی تو اسی وقت آپ کی قوم کے لوگ اس سے کھلکھلا کر ہنسنے لگے
4 Ahsanul Bayan
اور جب ابن مریم کی مثال بیان کی گئی تو اس سے تیری قوم (خوشی سے) چیخنے لگی ہے۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
اور جب مریم کے بیٹے (عیسیٰ) کا حال بیان کیا گیا تو تمہاری قوم کے لوگ اس سے چِلا اُٹھے
6 Muhammad Junagarhi
اور جب ابن مریم کی مثال بیان کی گئی تو اس سے تیری قوم (خوشی سے) چیخنے لگی ہے
7 Muhammad Hussain Najafi
اور جب ابنِ مریم (ع) (عیسےٰ(ع)) کی مثال دی گئی تو ایک دم آپ(ص) کی قوم والے چیخنے چلا نے لگے۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
اور جب ابن مریم کو مثال میں پیش کیا گیا تو آپ کی قوم شور مچانے لگی
9 Tafsir Jalalayn
اور جب مریم کے بیٹے (عیسیٰ ) کا حال بیان کیا گیا تو تمہاری قوم کے لوگ اس سے چلا اٹھے
آیت نمبر ٥٧ تا ٦٧
ترجمہ : اور جب ابن مریم کی مثال بیان کی گئی (یعنی) جب اللہ تعالیٰ کا قول اِنَّکُمْ وَمَا تَعْبُدُوْنَ مِنْ دُونِ اللہِ حَصَبُ جَھَنّمَ نازل ہوئی تو مشرک کہنے لگے کہ ہم اس بات پر راضی ہیں کہ ہمارے معبود بھی عیسیٰ (علیہ السلام) کے ساتھ (جہنم میں) ہوں، اس لئے کہ اللہ کے علاوہ ان کی بھی بندگی کی گئی تو (اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تیری مشرک قوم اس مثال کو سن کر (مارے خوشی کے) چیخنے لگی اور انہوں نے کہا کہ ہمارے معبود بہتر ہیں یا وہ یعنی عیسیٰ (علیہ السلام) ، ہم اس بات پر راضی ہیں کہ ہمارے معبود (جہنم) میں عیسیٰ کے ساتھ ہوں تجھ پر ان کا یہ اعتراض کرنا محض باطل طریقہ پر جھگڑنے کی غرض سے ہے، ان کی اس بات سے واقف ہونے کی وجہ سے کہ ما غیر ذوی العقول کے لئے ہے، لہٰذا اس میں عیسیٰ (علیہ السلام) شامل نہیں ہیں بلکہ یہ لوگ ہیں ہی جھگڑالو سخت جھگڑنے والے، عیسیٰ ( (علیہ السلام) بھی) صرف بندے ہی ہیں جن پر ہم نے نبوت کے ذریعہ احسان فرمایا اور ہم نے ان کو بغیر باپ پیدا ہونے کی وجہ سے بنی اسرائیل کے لئے نشان (قدرت) بنادیا یعنی مثال کے مانند ان کے عجیب طریقہ سے پیدا ہونے کی وجہ سے اسی سے اللہ تعالیٰ کی قدرت پر استدلال کیا جاتا ہے جس کا وہ ارادہ کرے اگر ہم چاہتے تم سے فرشتے پیدا کردیتے جو (تمہاری) جانشینی کرتے، اس طریقہ پر کہ ہم تو کو ہلاک کردیتے ہیں اور وہ یعنی عیسیٰ (علیہ السلام) قیامت کی علامت ہے اس کے نزول سے (قیامت) کا علم حاصل ہوگا، لہٰذا تم قیامت کے بارے میں شک نہ کرو نون رفع جازم کی وجہ سے اور واؤ ضمیر التقاء ساکنین کی وجہ سے حذف کردیا گیا تَمْتَرُنَّ (معنی میں) تَشُکُّنَّ کے ہے، اور ان سے کہہ دو کہ توحید کے بارے میں میری اتباع کرو یہی جس کا میں تم کو حکم دے رہا ہوں، سیدھی راہ ہے شیطان تمہیں اللہ کے دین سے روک نہ دے یقیناً وہ تمہارا صریح دشمن ہے (یعنی) کھلی عداوت والا ہے اور جب عیسیٰ معجزات اور احکام لے کر آئے تو فرمایا کہ میں تمہارے پاس نبوت اور انجیل کے احکام لے کر آیا ہوں تاکہ جن بعض چیزوں میں تم اختلاف کر رہے ہو ان کو واضح کر دوں، مثلاً تورات کے دینی احکام وغیرہ، چناچہ آپ نے ان کے لئے دین کے معاملہ کو واضح کردیا، پس تم اللہ سے ڈرو اور میرا کہنا مانو بلاشبہ میرا اور تمہارا رب اللہ ہی ہے پس تم سب اسی کی بندگی کرو، راہ راست یہی ہے پس جماعتوں نے آپس میں عیسیٰ علیہ الصلاٰۃ والسلام کے بارے میں اختلاف، آیا وہ خدا ہے یا خدا کا بیٹا ہے یا تین میں کا تیسرا ہے، سو ظالموں (یعنی) کافروں کے لئے خرابی ہے اس سبب سے جو لوگوں نے عیسیٰ (علیہ السلام) کے بارے میں کہا تکلیف والے دن کے عذاب سے وَیْلٌ کلمہ عذاب ہے، یہ کفار مکہ صرف قیامت کے منتظر ہیں کہ ان پر اچانک آپڑے (تاتِیَھُمْ ) السَّاعۃ سے بدل ہے اور انہیں اس کے آنے کی پہلے سے خبر بھی نہ ہو اس دن معصوف کی بنیاد پر دنیا میں دوستی رکھنے والے ایک دوسرے کے دشمن بن جائیں گے۔ یومَئِذٍ کا تعلق بَعضُھُم لِبَعضٍ عدُو سے ہے مگر متقین آپس میں ایک دو سرے کے دشمن نہ ہوں گے یعنی جن کی دوستی اللہ کے لئے ہوگی، اس کی اطاعت پر تو وہ آپس میں دوست ہوں گے۔
تحقیق و ترکیب وتسہیل وتفسیری فوائد
قولہ : ضُرِبَ ابنُ مَرْ یَمَ مَثَلاً ای شُبِّہَ ابنُ ، مرْیَمَ بالأصنامِ مفسر علام نے ضُرِب کی تفسیر جُعِلَ سے کر کے اشارہ کردیا کہ ضُرِبَ بمعنی جُعِلَ متعدی بدو مفعول ہے، پہلا مفعول ابن مریم ہے، جو کہ نائب فاعل ہے اور دوسرا مفعول مثلاً ہے اذا مفاجاتیہ ہے اور قومُکَ مبتداء مِنہُ یَصِدُّوْنَ کے متعلق ہے، اور یَصِدُّوْنَ جملہ ہو کر خبر ہے۔
قولہ : یَصِدُّونَ صاد کے کسرہ کے ساتھ، مضارع جمع مذکر غائب (ض) وہ چیختے چلاتے ہیں (لغات القرآن) خوشی سے شور مچاتے ہیں (اعراب القرآن) اور بعض حضرات نے یَصُدّونَ صاد کے ضمہ کے ساتھ پڑھا ہے، اس وقت صُدُوْدٌ سے مشتق ہوگا، وہ اعراض کرتے ہیں۔
قولہ : اِلاَّ جَدَلاً ، ما ضَرَبُوا کا مفعول لہٗ ہے۔
قولہ : ھُوَ اللہُ یہ قول نصاریٰ میں سے فرقہ یعقوبیہ کا ہے اَوْ ابن اللہ یہ قول نصاریٰ میں سے فرقہ مرقوسیہ کا ہے، اَوْ ثَالِثُ ثَلاَ ثَۃ یہ قول نصاریٰ کے تیسرے فرقہ ملکانیہ کا ہے۔ (جمل)
قولہ : اَلْاَخِلاَّءُ یہ خلیل کی جمع ہے بمعنی دوست۔
قولہ : علی المعصیۃ اگر اخلاَّءُ کو معصیۃ کے ساتھ مقید کیا جائے جیسا کہ مفسر علام نے کیا ہے تو اِلاَّ المتقین مستثنیٰ منقطع ہوگا، اس لئے کہ متقیوں کی دوستی معصیۃ کی وجہ سے نہیں ہوتی، اس صورت میں مستثنیٰ ، مستثنیٰ منہ کی جنس سے نہیں ہوگا، اور بعض حضرات نے اخلاَّءُ سے مطلقاً دوست مراد لیا ہے، اس صورت میں متقین بھی مستثنیٰ منہ میں داخل ہوں گے، جس کی وجہ سے مستثنیٰ متصل کہلائے گا۔
قولہ : متعلق بقولہ بَعْضُھُمْ لِبعض عدُوٌّ یعنی یومَئِذٍ کا تعلق عُدُوُّ سے ہے اس لئے کہ یومَئِذٍ عَدُوٌّ کا ظرف مقدم ہے۔
سوال : عَدُوٌّ صیغہ صفت کا ہونے کی وجہ سے عامل ضعیف ہے، یہ اسی وقت عمل کرتا ہے جب اس کا معمول ترتیب سے یعنی اس کے بعد واقع ہو، حالانکہ یہاں یومَئِذٍ جو کہ عَدُوٌّ کا ظرف ہے، مقدم واقع ہے، لہٰذا عَدُوٌّ عامل ضعیف ہونے کی وجہ سے یومَئِذٍ میں عمل نہیں کرے گا۔
جواب : ظروف میں چونکہ توسع ہے لہٰذا اس میں تقدیم کے باوجود عامل ضعیف بھی عمل کرسکتا ہے۔
شبہ : ظرف کے مقدم ہونے کے علاوہ عامل اور معمول کے درمیان مبتداء ثانی یعنی بعضھم لبعض کا فصل بھی ہے۔
دفع : مبتداء کا فصل بھی عمل سے مانع نہیں ہے۔
تفسیر و تشریح
شان نزول : وَلَمَّا ضُرِبَ ابْنُ مَرْیَمَ مَثَلاً اِذَا قَوْمُکَ مِنْہُ یَصِدُّوْنَ ان آیات کے شان نزول میں مفسرین نے تین روایتیں بیان فرمائی ہیں، ایک یہ کہ ایک مرتبہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے قبیلہ قریش کے لوگوں سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا یا معشر قریشٍ لا خیْرَ فی اَحدٍ یُعْبَدْ مِن دون اللہ اللہ یعنی اے قریش کے لوگو ! اللہ کے سوا جس کی عبادت کی جاتی ہے اس میں کوئی خیر نہیں، اس پر مشرکین نے کہا نصاریٰ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی عبادت کرتے ہیں، لیکن آپ خود تسلیم کرتے ہیں کہ وہ خدا کے نیک بندے اور نبی تھے، ان کے اس اعتراض کے جواب میں یہ آیت نازل ہوئی۔ (قرطبی)
دوسری روایت : دوسری روایت یہ ہے کہ جب قرآن کریم کی آیت اِنّکم وَمَا تَعْبُدُوْنَ مِن دُوْن اللہِ حصبُ جھنَّمَ بلاشبہ اے مشرکو ! تم اور جن کی تم بندگی کرتے ہو وہ جہنم کا ایندھن بنیں گے، نازل ہوئی، تو اس پر عبد اللہ بن زِبَعْریٰ نے جو اس وقت کافر تھے، بعد میں ایمان لائے، یہ کہا کہ اس آیت کا تو میرے پاس بہترین جواب ہے، اور وہ یہ کہ نصاریٰ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی عبادت کرتے ہیں اور یہود عزیر (علیہ السلام) کی، کیا یہ دونوں بھی جہنم کا ایندھن بنیں گے، یہ بات سن کر قریش کے مشرکین بہت خوش ہوئے، اس پر اللہ تعالیٰ نے ایک تو یہ آیت نازل فرمائی اِنّ الذین سبقت لھم منّا الحسنیٰ اولئکَ عنھا مبعدون اور دوسری سورة زخرف کی مذکورہ آیت۔ (ابن کثیر)
تیسری روایت : یہ کہ ایک مرتبہ مشرکین مکہ نے یہ بےہودہ خیال ظاہر کیا کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خدائی کا دعویٰ کرنا چاہتے ہیں، ان کی مرضی یہ ہے کہ جس طرح نصاریٰ حضرت مسیح (علیہ السلام) کی اور یہود حضرت عزیر (علیہ السلام) کی بندگی کرتے ہیں ہم بھی ان کی بندگی کریں، اس پر مذکورہ بالا آیت نازل ہوئی، درحقیقت تینوں روایتوں میں کوئی تضاد نہیں، کفار نے تینوں ہی باتیں کہی ہوں گی، جن کے جواب میں اللہ تعالیٰ نے ایسی جامع آیت نازل فرمادی جس سے ان کے تینوں اعتراضوں کا جواب ہوگیا۔
غرضیکہ شرک کی مذمت اور جھوٹے معبودوں کی تردید و بےوقعتی کی وضاحت کے لئے جب مشرکین مکہ سے کہا جاتا کہ تمہارے ساتھ تمہارے معبود بھی جہنم میں جائیں گے تو اس سے مراد پتھر کی وہ مورتیاں ہوتی ہیں جن کی وہ عبادت کرتے تھے، نہ کہ وہ نیک لوگ جو کہ اپنی زندگیوں میں لوگوں کو توحید کی دعوت دیتے رہے، مگر ان کی وفات کے بعد ان کے معتقدین نے انہیں بھی معبود سمجھنا شروع کردیا، ان کی بابت تو قرآن کریم ہی نے واضح کردیا کہ یہ جہنم سے دور رہیں گے، اِنَّ الذین سَبَقَتْ لھُم مِنّا الحُسنیٰ اولئکَ عَنْھَا مُبْعَدُوْنَ (الانبیاء) کیونکہ اس میں ان کا اپنا کوئی قصور نہیں تھا، اسی لئے قرآن نے ان کے لئے جو لفظ استعمال کیا ہے وہ لفظ ما ہے، جو غیر عاقل کے لئے استعمال ہوتا ہے اِنّکم وما تعبُدُونَ مِن دون اللہ حصب جھنمَ (الانبیاء) اس سے انبیاء (علیہم السلام) اور وہ صالحین نکل گئے جن کو لوگوں نے اپنے طور پر معبود بنائے رکھا ہوگا، یعنی یہ تو ممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کی شکل بنائی ہوئی مورتیوں کو بھی دیگر مورتیوں کے ساتھ جہنم میں ڈال دے، لیکن یہ شخصیات تو بہرحال جہنم سے دور ہی رہیں گی، لیکن مشرکین نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زبان مبارک سے حضرت مسیح (علیہ السلام) کا ذکر خیر سن کر یہ کٹ حجتی اور مجادلہ کرتے کہ جب حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) قابل مدح ہیں، حالانکہ عیسائیوں نے انہیں معبود بنایا ہوا ہے، تو پھر ہمارے معبود کیوں قابل مذمت ہیں، کیا وہ بھی قابل مدح نہیں، یا اگر ہمارے معبود جہنم میں جائیں گے تو حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) اور حضرت عزیر (علیہ السلام) بھی پھر جہنم میں جائیں گے، یہ سن کر مشرکین مکہ کا خوشی کے مارے چلانا اور شور مچانا محض جدل اور کٹ حجتی تھا، جس کا مطلب ہی یہ ہوتا ہے کہ جھگڑنے والا جانتا ہے، کہ اس کے کوئی دلیل نہیں ہے محض اپنی بات کی پچ میں بحث و تکرار کرتا ہے۔
وجَعلْنٰہُ مَثَلاً لِبنی اسرائیل ایک تو اس اعتبار سے کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو بغیر باپ کے پیدا فرمایا، دوسرے خود حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو ایسے معجزے دئیے گئے کہ جن کے اعتبار سے وہ نبی اسرائیل کے لئے نشان قدرت تھے مثلاً احیاء موتیٰ ، اندھوں کو بینا کرنا، کوڑھیوں اور مریضوں کو تندرست کرنا وغیرہ۔
وَلَو نَشآء لَجَعلْنَا مِنْکُمْ مَلٰئِکۃ ً فی الْاَرضِ یَخلفونَ یہ نصاریٰ کے اس مغالطہ کا جواب ہے جس کی بناء پر انہوں نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو معبود قرار دیا تھا، انہوں نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے بغیر باپ کے پیدا ہونے سے ان کی خدائی پر استدلال کیا تھا، باری تعالیٰ ان کی تردید میں فرماتے ہیں کہ یہ تو محض ہماری قدرت کا ایک مظاہرہ تھا، جس کی اب تک کوئی نظیر نہیں، اور وہ یہ کہ انسانوں سے فرشتے پیدا کردیں اور زمین پر تمہاری جگہ فرشتوں کو آباد کردیں، جو تمہاری ہی طرح ایک دوسرے کی جانشینی کریں، مطلب یہ کہ فرشتوں کا آسمان پر رہنا ایسا شرف نہیں ہے کہ ان کی عبادت کی جائے، یہ تو ہماری مشیت ہے کہ فرشتوں کو آسمانوں پر اور انسانوں کو زمین پر آباد کیا، ہم چاہیں تو فرشتوں کو زمین پر بھی آباد کرسکتے ہیں، لہٰذا مسیح (علیہ السلام) کا بغیر باپ کے پیدا ہونا، علامت معبودیت نہیں، بلکہ قیامت کے علم و علامت میں سے ہے لہٰذا تم وقوع قیامت میں تردد نہ کرو اور میری بات مانو۔
لیکن اکثر مفسرین نے اس کا مطلب یہ بیان کیا ہے کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کا دوبارہ آسمان سے نازل ہونا قیامت کی علامت ہے، چناچہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کا آخری زمانہ میں آسمان سے نزول فرمانا اور دجال کو قتل کرنا احادیث متواترہ سے ثابت ہے۔
فاختلف الاحزاب من بینھم (الآیۃ) یہاں احزاب سے مراد یہودونصاریٰ ہیں، یہودیوں نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی تنقیص کی اور انہیں نعوذ باللہ ولد الزنا قرار دیا، جبکہ عیسائیوں نے غلو سے کام لے کر انہیں معبود بنا لیا، یہ بھی ہوسکتا ہے کہ احزاب سے عیسائیوں کے فرقے مراد ہیں جو حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے بارے میں آپس میں شدید اختلاف رکھتے ہیں، کوئی فرقہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو “ ابن اللہ ” اور بعض “ اللہ ”، اور بعض “ ثالث ثلاثۃ ” کہتا ہے اور ایک فرقہ مسلمانوں کی طرح حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو اللہ کا بندہ اور اس کا رسول تسلیم کرتا ہے۔
اَلاخِلاَّءُ یومَئِذٍ بعضھم لبعضٍ عدوٌّ کیونکہ کافروں کی دوستی کفروفسق کی بنیاد پر ہوتی ہے اور یہی کفر و فسق ان کے عذاب کا باعث ہوگا اور ایک دوسری کو قیامت کے دن مورد الزام ٹھہرائیں گے، اور ایک دوسرے کے دشمن ہوجائیں گے اس کے برعکس، اہل ایمان وتقویٰ کی باہمی محبت چونکہ دین اور رضائے الٰہی کی بنیاد پر ہوتی ہے، اور دین خیر وثواب کا باعث ہے اس سے ان کی دوستی میں کوئی خلل و انقطاع نہیں ہوگا، بلکہ آپس میں ایک دوسرے کے شفیع اور معین ہوں گے۔
10 Tafsir as-Saadi
اللہ تبارک و تعالیٰ فرماتا ہے : ﴿ وَلَمَّا ضُرِبَ ابْنُ مَرْيَمَ مَثَلًا﴾ ” اور جب مریم کے بیٹے کی مثال بیان کی گئی۔“ یعنی جب ابن مریم علیہ السلام کی عبادت سے منع کیا گیا اور اس کی عبادت کو بتوں کی عبادت قرار دیا گیا۔ ﴿إِذَا قَوْمُكَ﴾ ” تو آپ کی قوم کے لوگ“ جو آپ کو جھٹلانے والے ہیں ﴿ مِنْهُ ﴾ یعنی اس ضرب المثل کی وجہ سے ﴿يَصِدُّونَ ﴾ آپ کے ساتھ جھگڑا کرتے ہیں، چیختے چلاتے اور سمجھتے ہیں کہ انہوں نے دلیل کے ذریعے سے غلبہ حاصل کرلیا ہے۔
11 Mufti Taqi Usmani
aur jab ( essa ) ibn-e-maryam ki misal di gaee to tumhari qoam kay log yakayak shor machaney lagay .
12 Tafsir Ibn Kathir
قیامت کے قریب نزول عیسیٰ (علیہ السلام)
(یصدون) کے معنی حضرت ابن عباس مجاہد عکرمہ اور ضحاک نے کئے ہیں کہ وہ ہنسنے لگے یعنی اس سے انہیں تعجب معلوم ہوا۔ قتادہ فرماتے ہیں گھبرا کر بول پڑے۔ ابراہیم نخعی کا قول ہے منہ پھیرنے لگے اس کی وجہ جو امام محمد بن اسحاق نے اپنی سیرت میں بیان کی ہے وہ یہ ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ولید بن مغیرہ وغیرہ قریشیوں کے پاس تشریف فرما تھے جو نضر بن حارث آگیا اور آپ سے کچھ باتیں کرنے لگا جس میں وہ لاجواب ہوگیا پھر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے قرآن کریم کی آیت ( اِنَّكُمْ وَمَا تَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ حَصَبُ جَهَنَّمَ ۭ اَنْتُمْ لَهَا وٰرِدُوْنَ 98) 21 ۔ الأنبیاء :98) ، آیتوں تک پڑھ کر سنائیں یعنی تم اور تمہارے معبود سب جہنم میں جھونک دئیے جاؤ گے پھر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) وہاں سے چلے گئے تھوڑی ہی دیر میں عبداللہ بن زہیری تمیمی آیا تو ولید بن مغیرہ نے اس سے کہا نضر بن حارث تو ابن عبدالمطلب سے ہار گیا اور بالآخر ابن عبدالمطلب ہمیں اور ہمارے معبودوں کو جہنم کا ایندھن کہتے ہوئے چلے گئے۔ اس نے کہا اگر میں ہوتا تو خود انہیں لاجواب کردیتا جاؤ ذرا ان سے پوچھو تو کہ جب ہم اور ہمارے سارے معبود دوزخی ہیں تو لازم آیا کہ سارے فرشتے اور حضرت عزیر اور حضرت مسیح بھی جہنم میں جائیں گے کیونکہ ہم فرشتوں کو پوجتے ہیں یہود حضرت عزیر کی پرستش کرتے ہیں نصرانی حضرت عیسیٰ کی عبادت کرتے ہیں۔ اس پر مجلس کے کفار بہت خوش ہوئے اور کہا ہاں یہ جواب بہت ٹھیک ہے۔ لیکن جب حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تک یہ بات پہنچی تو آپ نے فرمایا ہر وہ شخص جو غیر اللہ کی عبادت کرے اور ہر وہ شخص جو اپنی عبادت اپنی خوشی سے کرائے یہ دونوں عابد و معبود جہنمی ہیں۔ فرشتوں یا نبیوں نے نہ اپنی عبادت کا حکم دیا نہ وہ اس سے خوش۔ ان کے نام سے دراصل یہ شیطان کی عبادت کرتے ہیں وہی انہیں شرک کا حکم دیتا ہے۔ اور یہ بجا لاتے ہیں اس پر آیت ( اِنَّ الَّذِيْنَ سَبَقَتْ لَهُمْ مِّنَّا الْحُسْنٰٓى ۙ اُولٰۗىِٕكَ عَنْهَا مُبْعَدُوْنَ\010\01ۙ ) 21 ۔ الأنبیاء :101) ، نازل ہوئی یعنی حضرت عیسیٰ ، حضرت عزیر، اور ان کے علاوہ جن احبارو رہبان کی پرستش یہ لوگ کرتے ہیں اور خود وہ اللہ کی اطاعت پر تھے شرک سے بیزار اور اس سے روکنے والے تھے اور ان کے بعد گمراہوں جاہلوں نے انہیں معبود بنا لیا تو وہ محض بےقصور ہیں اور فرشتوں کو جو مشرکین اللہ کی بیٹیاں مان کر پوجتے تھے ان کی تردید میں آیت ( وَقَالُوا اتَّخَذَ الرَّحْمٰنُ وَلَدًا 88ۭ ) 19 ۔ مریم :88) ، سے کئی آیتوں تک نازل ہوئیں اور ان کے اس باطل عقیدے کی پوری تردید کردی اور حضرت عیسیٰ کے بارے میں اس نے جو جواب دیا تھا جس پر مشرکین خوش ہوئے تھے یہ آیتیں اتریں کہ اس قول کو سنتے ہی کہ معبودان باطل بھی اپنے عابدوں کے ساتھ جہنم میں جائیں گے انہوں نے جھٹ سے حضرت عیسیٰ کی ذات گرامی کو پیش کردیا اور یہ سنتے ہی مارے خوشی کے آپ کی قوم کے مشرک اچھل پڑے اور بڑھ بڑھ کر باتیں بنانے لگے کہ ہم نے دبا لیا۔ ان سے کہو کہ حضرت عیسیٰ نے کسی سے اپنی یا کسی اور کی پرستش نہیں کرائی وہ تو خود برابر ہماری غلامی میں لگے رہے اور ہم نے بھی انہیں اپنی بہترین نعمتیں عطا فرمائیں۔ ان کے ہاتھوں جو معجزات دنیا کو دکھائے وہ قیامت کی دلیل تھے حضرت ابن عباس سے ابن جریر میں ہے کہ مشرکین نے اپنے معبودوں کا جہنمی ہونا حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زبانی سن کر کہا کہ پھر آپ ابن مریم کی نسبت کیا کہتے ہیں ؟ آپ نے فرمایا وہ اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں اب کوئی جواب ان کے پاس نہ رہا تو کہنے لگے واللہ یہ تو چاہتے ہیں کہ جس طرح عیسائیوں نے حضرت عیسیٰ کو اللہ مان لیا ہے ہم بھی انہیں رب مان لیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے یہ تو صرف بکواس ہے کھسیانے ہو کر بےتکی باتیں کرنے لگے ہیں۔ مسند احمد میں ہے کہ ایک مرتبہ حضرت ابن عباس نے فرمایا کہ قرآن میں ایک آیت ہے مجھ سے کسی نے اس کی تفسیر نہیں پوچھی۔ میں نہیں جانتا کہ کیا ہر ایک اسے جانتا ہے یا نہ جان کر پھر بھی جاننے کی کوشش نہیں کرتے ؟ پھر اور باتیں بیان فرماتے رہے یہاں تک کہ مجلس ختم ہوئی اور آپ چلے گئے۔ اب ہمیں بڑا افسوس ہونے لگا کہ وہ آیت تو پھر بھی رہ گئی اور ہم میں سے کسی نے دریافت ہی نہ کیا۔ اس پر ابن عقیل انصاری کے مولیٰ ابو یحییٰ نے کہا کہ اچھا کل صبح جب تشریف لائیں گے تو میں پوچھ لوں گا۔ دوسرے دن جو آئے تو میں نے ان کی کل کی بات دہرائی اور ان سے دریافت کیا کہ وہ کونسی آیت ہے ؟ آپ نے فرمایا ہاں سنو ! حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک مرتبہ قریش سے فرمایا کوئی ایسا نہیں جس کی عبادت اللہ کے سوا کی جاتی ہو اور اس میں خیر ہو۔ اس پر قریش نے کہا کیا عیسائی حضرت عیسیٰ کی عبادت نہیں کرتے ؟ اور کیا آپ حضرت عیسیٰ کو اللہ کا نبی اور اس کا برگذیدہ نیک بندہ نہیں مانتے ؟ پھر اس کا کیا مطلب ہوا کہ اللہ کے سوا جس کی عبادت کی جاتی ہے وہ خیر سے خالی ہے ؟ اس پر یہ آیتیں اتریں۔ کہ جب عیسیٰ بن مریم کا ذکر آیا تو لوگ ہنسنے لگے۔ وہ قیامت کا علم ہیں یعنی عیسیٰ بن مریم کا قیامت کے دن سے پہلے نکلنا ابن ابی حاتم میں بھی یہ روایت پچھلے جملے کے علاوہ ہے۔ حضرت قتادہ فرماتے ہیں ان کے اس قول کا کہ کیا ہمارے معبود بہتر ہیں یا وہ۔ مطلب یہ ہے کہ ہمارے معبود محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بہترے ہیں یہ تو اپنے آپ کو پجوانا چاہتے ہیں، ابن مسعود کی قرأت میں (ام ھذا) ہے۔ اللہ فرماتا ہے یہ ان کا مناظرہ نہیں بلکہ مجادلہ اور مکابرہ ہے یعنی بےدلیل جھگڑا اور بےوجہ حجت بازی ہے خود یہ جانتے ہیں کہ نہ یہ مطلب ہے نہ ہمارا یہ اعتراض اس پر وارد ہوتا ہے۔ اس لئے اولاً تو آیت میں لفظ (ما) ہے جو غیر ذوی العقول کے لئے ہے دوسرے یہ کہ آیت میں خطاب کفار قریش سے ہے جو اصنام و انداد یعنی بتوں اور پتھروں کو پوجتے تھے وہ مسیح کے پجاری نہ تھے جو یہ اعتراض برمحل مانا جائے پس یہ صرف جدل ہے یعنی وہ بات کہتے ہیں جس کے غیر صحیح ہونے کو ان کے اپنے دل کو بھی یقین ہے۔ ترمذی وغیرہ میں فرمان رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہے کہ کوئی قوم اس وقت تک ہلاک نہیں ہوتی جب تک بےدلیل حجت بازی اس میں نہ آجائے۔ پھر آپ نے اسی آیت کی تلاوت کی ابن ابی حاتم میں اس حدیث کے شروع میں یہ بھی ہے کہ ہر امت کی گمراہی کی پہلی بات اپنے نبی کے بعد تقدیر کا انکار کرنا ہے۔ ابن جریر میں ہے کہ ایک بار حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) صحابہ کے مجمع میں آئے اس وقت وہ قرآن کی آیتوں میں بحث کر رہے تھے۔ آپ سخت غضبناک ہوئے اور فرمایا اس طرح اللہ کی کتاب کی آیتوں کو ایک دوسری کے ساتھ ٹکراؤ نہیں یاد رکھو جھگڑے کی اسی عادت نے اگلے لوگوں کو گمراہ کردیا۔ پھر آپ نے آیت (مَا ضَرَبُوْهُ لَكَ اِلَّا جَدَلًا ۭ بَلْ هُمْ قَوْمٌ خَصِمُوْنَ 58) 43 ۔ الزخرف :58) کی تلاوت فرمائی پھر ارشاد ہوتا ہے کہ حضرت عیسیٰ اللہ عزوجل کے بندوں میں سے ایک بندے تھے۔ جن پر نبوت و رسالت کا انعام باری تعالیٰ ہوا تھا اور انہیں اللہ کی قدرت کی نشانی بنا کر بنی اسرائیل کی طرف بھیجا گیا تھا تاکہ وہ جان لیں کہ اللہ جو چاہے اس پر قادر ہے پھر ارشاد ہوتا ہے کہ اگر ہم چاہتے تو تمہارے جانشین بنا کر فرشتوں کو اس زمین میں آباد کردیتے۔ یا یہ کہ جس طرح تم ایک دوسرے کے جانشین ہوتے ہو یہی بات ان میں کردیتے مطلب دونوں صورتوں میں ایک ہی ہے۔ مجاہد فرماتے ہیں یعنی بجائے تمہارے زمین کی آبادی ان سے ہوتی ہے اس کے بعد جو فرمایا ہے کہ وہ قیامت کی نشانی ہے اس کا مطلب جو ابن اسحاق نے بیان کیا ہے وہ کچھ ٹھیک نہیں۔ اور اس سے بھی زیادہ دور کی بات یہ ہے کہ بقول قتادہ حضرت حسن بصری اور حضرت سعید بن جبیر کہتے ہیں کہہ کی ضمیر کا مرجع عائد ہے حضرت عیسیٰ پر۔ یعنی حضرت عیسیٰ قیامت کی ایک نشانی ہیں۔ اس لئے کہ اوپر سے ہی آپ کا بیان چلا آرہا ہے اور یہ بھی واضح رہے کہ مراد یہاں حضرت عیسیٰ کا قیامت سے پہلے کا نازل ہونا ہے جیسے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے فرمایا آیت ( وَاِنْ مِّنْ اَهْلِ الْكِتٰبِ اِلَّا لَيُؤْمِنَنَّ بِهٖ قَبْلَ مَوْتِهٖ ۚ وَيَوْمَ الْقِيٰمَةِ يَكُوْنُ عَلَيْهِمْ شَهِيْدًا\015\09ۚ ) 4 ۔ النسآء :159) یعنی ان کی موت سے پہلے ایک ایک اہل کتاب ان پر ایمان لائے گا۔ یعنی حضرت عیسیٰ کی موت سے پہلے قیامت کے دن یہ ان پر گواہ ہوں گے۔ اس مطلب کی پوری وضاحت اسی آیت کی دوسری قرأت سے ہوتی ہے جس میں ہے ( وَاِنَّهٗ لَعِلْمٌ لِّلسَّاعَةِ فَلَا تَمْتَرُنَّ بِهَا وَاتَّبِعُوْنِ ۭ ھٰذَا صِرَاطٌ مُّسْتَقِيْمٌ 61) 43 ۔ الزخرف :61) یعنی جناب روح اللہ قیامت کے قائم ہونے کا نشان اور علامت ہیں۔ حضرت مجاہد فرماتے ہیں یہ نشان ہیں قیامت کے لئے حضرت عیسیٰ بن مریم کا قیامت سے پہلے آنا۔ اسی طرح روایت کی گئی ہے۔ حضرت ابوہریرہ سے اور حضرت عباس سے اور یہی مروی ہے ابو لعالیہ، ابو مالک، عکرمہ، حسن، قتادہ ضحاک وغیرہ سے رحم اللہ تعالیٰ ۔ اور متواتر احادیث میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے خبر دی ہے کہ قیامت کے دن سے پہلے حضرت عیسیٰ امام عادل اور حاکم باانصاف ہو کر نازل ہوں گے۔ پس تم قیامت کا آنا یقینی جانو اس میں شک شبہ نہ کرو اور جو خبریں تمہیں دے رہا ہوں اس میں میری تابعداری کرو یہی صراط مستقیم ہے کہیں ایسا نہ ہو کہ شیطان جو تمہارا کھلا دشمن ہے تمہیں صحیح راہ سے اور میری واجب اتباع سے روک دے حضرت عیسیٰ نے اپنی قوم سے کہا تھا کہ میں حکمت یعنی نبوت لے کر تمہارے پاس آیا ہوں اور دینی امور میں جو اختلافات تم نے ڈال رکھے ہیں۔ میں اس میں جو حق ہے اسے ظاہر کرنے کے لئے بھیجا گیا ہوں۔ ابن جریر یہی فرماتے ہیں اور یہی قول بہتر اور پختہ ہے پھر امام صاحب نے ان لوگوں کے قول کی تردید کی ہے جو کہتے ہیں کہ بعض کا لفظ یہاں پر کل کے معنی میں ہے اور اس کی دلیل میں بعید شاعر کا ایک شعر پیش کرتے ہیں۔ لیکن وہاں بھی بعض سے مراد قائل کا خود اپنا نفس ہے نہ کہ سب نفس۔ امام صاحب نے شعر کا جو مطلب بیان کیا ہے یہ بھی ممکن ہے۔ پھر فرمایا جو میں تمہیں حکم دیتا ہوں اس میں اللہ کا لحاظ رکھو اس سے ڈرتے رہو اور میری اطاعت گذاری کرو جو لایا ہوں اسے مانو یقین مانو کہ تم سب اور خود میں اس کے غلام ہیں اس کے محتاج ہیں اس کے در کے فقیر ہیں اس کی عبادت ہم سب پر فرض ہے وہ واحد لاشریک ہے۔ بس یہی توحید کی راہ راہ مستقیم ہے اب لوگ آپس میں متفرق ہوگئے بعض تو کلمۃ اللہ کو اللہ کا بندہ اور رسول ہی کہتے تھے اور یہی حق والی جماعت تھی اور بعض نے ان کی نسبت دعویٰ کیا کہ وہ اللہ کے فرزند ہیں۔ اور بعض نے کہا آپ ہی اللہ ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان دونوں دعوں سے پاک ہے اور بلندو برتر ہے۔ اسی لئے ارشاد فرماتا ہے کہ ان ظالموں کے لئے خرابی ہے قیامت والے دن انہیں المناک عذاب اور دردناک سزائیں ہوں گی۔