الاحقاف آية ۲۷
وَلَقَدْ اَهْلَكْنَا مَا حَوْلَـكُمْ مِّنَ الْقُرٰى وَصَرَّفْنَا الْاٰيٰتِ لَعَلَّهُمْ يَرْجِعُوْنَ
طاہر القادری:
اور (اے اہلِ مکہّ!) بیشک ہم نے کتنی ہی بستیوں کو ہلاک کر ڈالا جو تمہارے اردگرد تھیں اور ہم نے اپنی نشانیاں بار بار ظاہر کیں تاکہ وہ (کفر سے) رجوع کر لیں،
English Sahih:
And We have already destroyed what surrounds you of [those] cities, and We have diversified the signs [or verses] that perhaps they might return [from disbelief].
1 Abul A'ala Maududi
تمہارے گرد و پیش کے علاقوں میں بہت سی بستیوں کو ہم ہلاک کر چکے ہیں ہم نے اپنی آیات بھیج کر بار بار طرح طرح سے اُن کو سمجھایا، شاید کہ وہ باز آ جائیں
2 Ahmed Raza Khan
اور بیشک ہم نے ہلاک کردیں تمہارے آس پاس کی بستیاں اور طرح طرح کی نشانیاں لائے کہ وہ باز آئیں
3 Ahmed Ali
اور ہم ہلاک کر چکے ہیں جو تمہارے آس پاس بستیاں ہیں اور طرح طرح کے اپنے نشان قدرت بھی دکھائے تاکہ وہ باز آجائيں
4 Ahsanul Bayan
اور یقیناً ہم نے تمہارے آس پاس کی بستیاں تباہ کر دیں (١) اور طرح طرح کی ہم نے اپنی نشانیاں بیان کر دیں تاکہ وہ رجوع کرلیں (٢)۔
٢٧۔١ آس پاس سے عاد، ثمود اور لوط کی وہ بستیاں مراد ہیں جو حجاز کے قریب ہی تھیں، یمن اور شام و فلسطین کی طرف آتے جاتے ان سے ان کا گزر ہوتا تھا۔
٢٧۔٢ یعنی ہم نے مختلف انداز سے اور مختلف انوواع کے دلائل ان کے سامنے پیش کئے کہ شاید وہ توبہ کرلیں۔ لیکن وہ ٹس سے مس نہیں ہوئے۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
اور تمہارے اردگرد کی بستیوں کو ہم نے ہلاک کر دیا۔ اور بار بار (اپنی) نشانیاں ظاہر کردیں تاکہ وہ رجوع کریں
6 Muhammad Junagarhi
اور یقیناً ہم نے تمہارے آس پاس کی بستیاں تباه کر دیں اور طرح طرح کی ہم نے اپنی نشانیاں بیان کر دیں تاکہ وه رجوع کر لیں
7 Muhammad Hussain Najafi
اور ہم نے تمہارے اردگرد کی کئی بستیوں کو ہلاک و برباد کر دیا اور ہم نے اپنی (قدرت کی) نشانیاں پھیر پھیر کر(مختلف انداز سے) پیش کیں تاکہ وہ باز آجائیں۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
اور یقینا ہم نے تمہارے گرد بہت سی بستیوں کو تباہ کردیا ہے اور اپنی نشانیوں کو پلٹ پلٹ کر دکھلایا ہے کہ شاید یہ حق کی طرف واپس آجائیں
9 Tafsir Jalalayn
اور تمہارے اردگرد کی بستیوں کو ہم نے ہلاک کردیا اور بار بار (اپنی) نشانیاں ظاہر کردیں تاکہ وہ رجوع کریں
ترجمہ : اور یقیناً ہم نے تمہارے آس پاس کی (بہت سی) بستیوں کو یعنی بستی والوں کو مثلاً ثمود اور عاد اور قوم لوط کو ہلاک کردیا اور ہم نے آیتوں کو یعنی واضح حجتوں کو طرح طرح سے بیان کردیا تاکہ وہ (کفر و شرک سے) باز آجائیں، تو انہوں نے ان سے عذاب کو دفع کر کے ان کی مدد کیوں نہ کی ؟ جن کو اللہ کے علاوہ اللہ کا تقرب حاصل کرنے کے لئے اپنا معبود بنا رکھا تھا، اور وہ بت ہیں اتخذوا کا مفعول، ضمیر محذوف ہے جو موصول کی طرف لوٹ رہی ہے اور وہ ھم ہے اقرباناً مفعول ثانی ہے اور الھۃ اس سے بدل ہے بلکہ وہ نزول عذاب کے وقت ان سے غائب ہوگئے اور یہ یعنی بتوں کو تقرب کے لئے معبود بنا لینا ان کا جھوٹ اور افتراء محض ہے اور مامصدر یہ ہے یا موصولہ اور عائد محذوف ہے اور وہ فیہ کی ضمیر ہے اور یاد کرو جب ہم نے جنوں کی جماتع کو آپ کی طرف متوجہ کیا وہ جن نصیبین یمن کے یا نینوا کے رہنے وایل تھے اور ان کی تعداد سات یا نو تھی اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بطن نخلہ میں اپنے اصحاب کو فجر کی نماز پڑھا رہے تھے (رواہ الشیخان) تاکہ وہ قرآن سنیں جب وہ نبی کے پاس پہنچ گئے تو انہوں نے آپس میں کہا خاموش ہوجائو اور کان لگا کر سنو چناچہ جب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قرأت سے فارغ ہوگئے تو وہ اپن قوم کے پاس عذاب سے ڈرانے والے بن کر اگر وہ ایمان نہ لائے واپس چلے گئے اور وہ یہود تھے اور انہوں نے کہا اے ہماری وقم ہم نے ایسی کتاب قرآن سنی ہے جو موسیٰ علیہ الصلاۃ السلام کے بعد نازل کی گئی ہے اور اپنے سے پہلی کتابوں کی مثلاً تورات کی تصدیق کرتی ہے حق یعنی اسلام کا کہا مانو اس پر ایمان لائو گے تو اللہ تعالیٰ تمہارے گناہوں کو معاف کر دے گا، یعن بعض گناہوں کو اس لئے کہ گناہوں میں حقوق العباد بھی ہیں وہ صاحب حق کی رضا مندی کے بغیر معاف نہیں کئے جاسکتے، اور تمہیں درد ناک عذاب سے پناہ دے گا، اور جو شخص اللہ کے داعی کی بات نہ مانے گا تو وہ اللہ کو زمین میں عاجز نہیں کرسکتا، یعنی اس سے بھاگ کر اللہ کو عاجز نہیں کرسکتا نہ اس کی پکڑ سے بچ کر نکل سکتا اور اس بات کو نہ ماننے والے کے لئے اللہ کے سوا نہ مددگار ہوں گے کہ اس سے اس عذاب کو دفع کرسکیں، یہ لوگ یعنی بات نہ ماننے والے کے لئے اللہ کے سوا نہ مددگار ہوں گے کہ اس سے اس عذاب کو دفع کرسکیں، یہ لوگ یعنی بات نہ ماننے والے کھلی گمراہی میں ہیں کیا یہ منکرین بعث اس بات کو نہیں جانتے ؟ کہ جس اللہ نے آسمان اور زمین پیدا کئے اور ان کے پیدا کرنے میں تھکا نہیں یعنی اس سے عاجز نہیں ہوا، کیا وہ اس بات پر قادر نہیں کہ مردوں کو زندہ کرسکے، کیوں نہیں ؟ بیشک وہ مردوں کے زندہ کرنے پر قادر ہے، بقدر ان کی خبر ہے اور کلام الیس اللہ بقادر کی قوت میں ہے، بلاشبہ وہ ہر شئی پر قادر ہے وہ لوگ جنہوں نے کفر کا جس دن آگ کے سامنے لائے جائیں گے بائیں طور کہ ان کو آگ میں عذاب دیا جائے گا، تو ان سے کہا جائے گا کیا یہ عذاب حق نہیں ہے ؟ جواب دیں گے ہاں قسم ہے ہمارے رب کی (حق ہے) (اللہ) فرمائے گا اب اپنے کفر کے بدلے عذاب کا مزا چکھو، پس (اے پیغمبر ! ) اپنی قوم کی اذیت پر ایسا ہی صبر کرو جیسا کہ آپ سے پہلے اولوا العزم پیغمبروں نے صبر کیا (یعنی) ثابت قدم رہنے والوں اور تکالیف پر صبر کرنے والوں جیسا (صبر کرو) تو آپ بھی اولوالعزم ہوں گے، اور من بیانیہ ہے اس صرت میں کل کے کل اولوا الزم ہوں گے اور کہا گیا ہے کہ من تبعیضیہ ہے تو آدم (علیہ السلام) ان میں شمار نہ ہوں گے، اللہ تعالیٰ کے قول ولم نجدلہ عزماً کی وجہ سے نہ یونس (علیہ السلام) اولا العزم پیغمبروں میں شمار ہوں گے اللہ تعالیٰ کے قول ولاتکن کصاحب الحوت کی وجہ سے اور آپ ان کے لئے (عذاب طلب کرنے میں) جلدی نہ کریں، یعنی اپنی قوم پر نزول عذاب کے بارے میں جلدینہ کریں، کہا گیا ہے کہ گویا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان سے تنگ آگئے تھے جس کی وجہ سے آپ نے ان پر نزول عذاب کو پسند فرمایا، لہٰذا آپ کو صبر کا اور عذاب طلب کرنے میں عجلت کو ترک کرنے کا حکم دیا گیا، اس لئے کہ وہ تو ان پر لامحالہ نازل ہونے ہی والا ہے، جس روز یہ لوگ آخرت کے اس عذاب ک دیکھ لیں گے جس کا ان سے وعدہ کیا جاتا رہا ہے تو انہیں یوں معلوم ہوگا وہ دنیا میں ان کے خیال میں دن کی ایک گھڑی ہی رہے تھے، یہ قرآن تمہاری طرف اللہ کی طرف سے تبلیغ ہے، پس عذاب دیکھنے کے وقت فاسق کافر کے علاوہ کوئی ہلاک نہ کیا جائے گا۔
تحقیق و ترکیب و تسہیل و تفسیری فوائد
قولہ :۔ ولقد اھلکنا ماحولکم من القریٰ یہ کلام مستانف ہے، مشرکین مکہ سے خطاب ہے لام، قسم محذوف کے جواب پر ہے من القریٰ ، ماکا بیان ہے اھلھا کے اضافہ کا مقصد حذف مضاف کی طرف اشارہ ہے۔
قولہ :۔ الذین اتخذا، الذین اسم موصول اتخذوا جملہ ہو کر اس کا صلہ موصول صلہ سے مل کر، نصر کا فاعل، اتخذوا کا مفعول اول ھم محذوف ہے اور ثانی قرباناً ہے اور الھۃ، قرباناً سے بدل ہے کما صرح بہ المفسر، قرباناً باب تفعیل کا مصدر ہے اور یہ صحیح ہے کہ الھۃ اتخذوا کا مفعول ثانی ہو اور قرباناً حال یا مفعول لہ ہو۔
قولہ :۔ صلوا ای الاصنام اور بعض حضرات نے ضلوا کا فاعل کفار کو قرار دیا ہے یعنی عابدین، معبودین کو ترک کردیں گے اور ان سے اظہار بیزاری کریں گے (اول اولیٰ ہے) ۔ (فتح القدیر)
قولہ :۔ نفراً بمعنی جماعت جو تین سے زیادہ اور دس سے کم ہوں، جمع انفار
قولہ :۔ من الجن یہ نفراً کی صفت اول ہے اور یستمعون القرآن صفت ثانی ہے۔
قولہ :۔ حضروہ ضمیر کا مرجع قرآن اور نبی دونوں ہوسکتے ہیں۔
قولہ :۔ فلما قضی جمہور نے مجہول پڑھا ہے اور حبیب بن عبید نے معروف پڑھا ہے مجہول کی صورت میں حضروہ کی ضمیر قرآن کی طرف اور معروف کی صورت میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف راجع ہوگی۔ (فتح القدیر شو کانی)
قولہ :۔ منذرین حال مقدرہ ہونے کی وجہ سے منصوب ہے، ای مقدرین الانذار، نصیبین یمن کا ایک قریہ ہے، نینویٰ نون مک سورة اور یاء ساکنہ کے ساتھ اور نون ثانی میں فتحہ اور ضمیہ دونوں جائز ہیں، آخر میں الف مقصورہ ہے۔
قولہ :۔ ببطن نخل مفسر علام نے اس واقعہ کی نسبت بطن نخل کی جانب کی ہے، اس میں تسامح ہے اس لئے کہ وہ مقام جہاں جنات کے قرآن سننے کا مذکورہ واقعہ پیش آیا تھا وہ بطن نخلہ تھا اسی کو نحلہ بھی کہا جاتا تھا اور یہ مقام مکہ سے طائف کے راستہ میں ایک رات کی مسافت پر واقع ہے اور بطن نخل وہ مقام ہے جہاں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے صلوۃ خوف پڑھی تھی اور یہ مقام مدینہ سے دو منزل کی دوری پر واقع ہے۔ (حمل)
قولہ :۔ فی ضلال مبین یہاں جنات کا کلام پورا ہوگیا اولم یروا سے اللہ کا کلام شروع ہوتا ہے۔
قولہ :۔ وزیدت الباء فیہ لان الکلام فی قوۃ الیس اللہ بقادر علامہ محلی کا مقصد اس عبارت کے اضافہ سے ایک اعتراض کا دفع ہے، اعتراض یہ ہے کہ باء کلام نفی کے بعد زائد ہوتی ہے اور جو ان کے تحت ہے وہ مثبت ہے، لہٰذا بقادر میں باء لانا درست نہیں ہے۔
جواب : جواب کا ماحصل یہ ہے کہ نفی آیت کے شروع اولم یروا میں واقع ہے اور جو کچھ اس کے بعد وہ بھی نفی کے تحت ہے گویا کہ کلام الیس اللہ بقادر کی قوت میں ہے لہٰذا باء کا داخل کرنا جائز ہے اور یہی وجہ ہے کہ اس کا جواب اللہ تعالیٰ کے قول بلی انہ علی کل شیء قدیر میں بلی سے دیا گیا ہے، یہ اس بات کی علامت ہے کہ کلام قوت میں نفی کے ہے اس لئے کہ بلی کے ذریعہ کلام منفی کا ہی جواب آتا ہے۔
قولہ : یقال لھم علامہ محلی نے یقال لھم محذوف مان کر اشارہ کردیا کہ یوم کا ناصب یقال فعل محذوف ہے اور یوم یعرض سے الیس ھذا بالحق تک یقال کا مقولہ ہے۔
قولہ : وربنا میں وائو قسمیہ برائے تاکید ہے۔
قولہ : ذو والثبات یہ اولوا العزم کی تفسیر ہے اس کے معنی ہیں عالی ہمت، ثابت قدم، اگر من کو بیانیہ مانا جائے تو تمام انبیاء (علیہ السلام) اولوا العزم میں شامل ہوں گے اور بعض حضرات نے من کو تبعیضیہ لیا ہے، اس صورت میں بعض انبیاء اولوا العزم سے مستثنیٰ ہوں گے، کما اشار الیہ المفسر رحمتہ اللہ تعالیٰ
قولہ : فاصبر جواب شرط ہے، فاء جزائیہ ہے، شرط محذوف ہے ای اذا کان عاقبۃ امر الکفار ما ذکر، فاصبر علی اذاھم قیل کانہ ضجر مناسب ہوتا کہ مفسر علام کانہ کو حذف کردیتے۔ (صاوی)
قولہ : یوم یرون یہ لم یلبثوا کا ظرف ہے لطولہ، لم یلبثوا کی تعلیل مقدم ہے۔
قولہ : ھذا القرآن بلاغ، ھذا القران محذوف مان کر اشارہ کردیا کہ بلاغ مبتداء محذوف کی خبر اور وبلاغ اسم للتبلیغ (ترویح الارواح)
تفسیر و تشریح
ربط آیات :
ولقد اھلکنا ماحولکم من القری اس کے مخاطب اہل مکہ میں اور حولھا سے مکہ کے آس پاس عاد وثمود و قوم لوط کی وہ بستیاں مراد ہیں جو حجاز کے قریب ہی تھیں اور یمن و شام و فلسطین کی طرف آتے جاتے مکہ والوں کا ان سے گذر ہوتا تھا، اس سے پہلی آیات میں قوم عاد کی ہلاکت و بربادی کا قصہ بڑی تفصیل کے ساتھ مذکور تھا، آئندہ آیات میں دوسری ایسی قوموں کا ذکر ہے جن کے کفر و مخالفت انبیاء کی وجہ سے عذاب آئے اور ہلاک ہوئے ان کی اجڑی بستیوں کے نشانات و خرابات بھی اہل مکہ کے سفر کے دوران راستے میں پڑتے تھے ان سے عبرت حاصل کرنے کے لئے ان اکا اجمالی حال ان آیات میں مذکو رہے۔
10 Tafsir as-Saadi
اللہ تبارک و تعالیٰ عرب کے مشرکین اور دیگر مشرکین کو ڈراتا ہے کہ اس نے انبیاء کی تکذیب کرنے والی ان قوموں کو تباہ و برباد کردیا جو ان مشرکین کے ارد گرد آباد تھیں بلکہ ان میں سے بہت سی قومیں تو جزیرۃ العرب میں آباد تھیں، مثلاً عاد اور ثمود وغیرہ، اللہ تعالیٰ نے ان کو اپنی نشانیاں دکھائیں یعنی انہیں ہر نوع کی نشانیاں پیش کیں۔ ﴿ لَعَلَّهُمْ يَرْجِعُونَ ﴾ شاید کہ وہ اپنے کفر اور تکذیب کے رویے سے باز آجائیں۔ جب وہ ایمان نہ لائے تو اللہ تعالیٰ نے ان کو اس طرح پکڑا جس طرح زبردست اور قدرت رکھنے والی ہستی پکڑتی ہے، ان کے ان خداؤں نے ان کو کوئی فائدہ نہ دیا جن کو وہ اللہ کے بغیر پکارا کرتے تھے۔
11 Mufti Taqi Usmani
aur hum ney aur bastiyon ko bhi halak kiya hai jo tumharay ird-gird waqay then , jabkay hum tarah tarah ki nishaniyan ( unn kay ) samney laa-chukay thay , takay woh baaz aajayen .