محمد آية ۱
اَلَّذِيْنَ كَفَرُوْا وَصَدُّوْا عَنْ سَبِيْلِ اللّٰهِ اَضَلَّ اَعْمَالَهُمْ
طاہر القادری:
جن لوگوں نے کفر کیا اور (دوسروں کو) اﷲ کی راہ سے روکا (تو) اﷲ نے ان کے اعمال (اخروی اجر کے لحاظ سے) برباد کر دیئے،
English Sahih:
Those who disbelieve and avert [people] from the way of Allah – He will waste their deeds.
1 Abul A'ala Maududi
جن لوگوں نے کفر کیا اور اللہ کے راستے سے روکا، اللہ نے ان کے اعمال کو رائیگاں کر دیا
2 Ahmed Raza Khan
جنہوں نے کفر کیا اور اللہ کی راہ سے روکا اللہ نے ان کے عمل برباد کیے
3 Ahmed Ali
وہ لوگ جو منکر ہوئے اورانہوں نے لوگوں کو بھی الله کے راستہ سے روکا تو الله نے ان کے اعمال برباد کر دیئے
4 Ahsanul Bayan
جن لوگوں نے کفر کیا اور اللہ کی راہ سے روکا (١) اللہ نے ان کے اعمال برباد کر دیئے۔ (۲)
١۔١ بعض نے اس سے مراد کفار قریش اور بعض نے اہل کتاب لئے ہیں۔ لیکن یہ عام ہے ان کے ساتھ سارے ہی کفار اس میں داخل ہیں۔
۱۔۲ اس کا ایک مطلب تو یہ ہے کہ انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف جو سازشیں کیں اللہ نے انہیں ناکام بنا دیا اور انہی پر ان کو الٹ دیا دوسرا مطلب ہے کہ ان میں جو بعض مکارم اخلاق پائے جاتے تھے مثلا صلہ رحمی قیدیوں کو آزاد کرنا مہمان نوازی وغیرہ یا خانہ کعبہ اور حجاج کی خدمت ان کا کوئی صلہ انہیں آخرت میں نہیں ملے گا۔ کیونکہ ایمان کے بغیر اعمال پر اجر و ثواب مرتب نہیں ہوگا۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
جن لوگوں نے کفر کیا اور (اَوروں کو) خدا کے رستے سے روکا۔ خدا نے ان کے اعمال برباد کر دیئے
6 Muhammad Junagarhi
جن لوگوں نے کفر کیا اور اللہ کی راه سے روکا اللہ نے ان کے اعمال برباد کر دیئے
7 Muhammad Hussain Najafi
جن لوگوں نے کفر کیا اور (دوسرے لوگوں کو بھی) اللہ کے راستے سے روکا اس (اللہ) نے ان کے اعمال کو رائیگاں کر دیا۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
جن لوگوں نے کفر کیا اور لوگوں کو راسِ خدا سے روکا خدا نے ان کے اعمال کو برباد کردیا
9 Tafsir Jalalayn
جن لوگوں نے کفر کیا اور (اوروں کو) خدا کے راستے سے روکا خدا نے انکے اعمال برباد کر دئیے
ترجمہ : شروع کرتا ہوں اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے اہل مکہ میں سے جن لوگوں نے کفر کیا اور دوسروں کو اللہ کے راستہ یعنی ایمان سے روکا اللہ نے ان کے اعمال برباد کردیئے، مثلاً کھانا کھلانا اور صلہ رحمی کرنا، تو ان اعمال کا آخرت میں کچھ اجر نہ پائیں گے، البتہ دنیا میں ان کو اللہ کی مہربانی سے ان اعمال کا صلہ دیا جائے گا، اور وہ لوگ یعنی انصار وغیرہ ایمان لائے اور نیک اعمال کئے اور جو محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر نازل کیا گیا ہے یعنی قرآن اس پر بھی ایمان لائے اور وہ ان کے رب کی طرف سے حق ہے تو اللہ نے ان کے گناہ معاف کردیئے اور ان کے حال کی اصلاح کردی تو وہ اس کی نافرمانی نہیں کرتے، یہ یعنی اعمال کو برباد کرنا اور گناہوں کو معاف کرنا اس سبب سے ہے کہ جن لوگوں نے کفر کیا تو انہوں نے باطل شیطان کی اتباع کی اور جو لوگ ایمان لائے انہوں نے اپنے رب کی جانب سے حق یعنی قرآن کی اتباع کی کذلک یعنی اس بیان کے مانند اللہ تعالیٰ لوگوں کے احوال کو بیان فرماتا ہے چناچہ کافر کے عمل کو برباد کردیتا ہے اور مومن کی خطائوں کو معاف کردیتا ہے، جب کافروں سے تمہاری مڈ بھیڑ ہو تو گردنوں پر وار کرو (ضرب) مصدر بلفظ الفعل اپنے فعل کے عوض میں ہے یعنی فاضربوا رقابھم یعنی ان کو قتل کرو اور قتل کو گردن مارنے سے تعبیر کرنے کی وجہ یہ ہے کہ قتل اکثر گردن مارنے سے (با آسانی) ہوتا ہے جب ان کو اچھی طرح کچل دو یعنی ان کو خوب قتل کردو ان کے بندھن خوب کس دو یعنی قتل کرنا بند کردو اور ان کو قید کرلو (وثاق) وہ شئی جس کے ذریعہ قیدیوں کو باندھا جاتا ہے (رسی وغیرہ) (پھر اختیار ہے) خواہ احسان رکھ کر چھوڑ دو (منا) اپنے فعل کا مصدر لفظ ہے اور اپنے فعل کے عوض میں ہے یعنی بغیر کچھ لئے ان پر احسان کر کے چھوڑ دو یا ان سے فدیہ لے لو یعنی فدیہ میں ان سے مال لے لو یا مسلمان قیدیوں کا تبادلہ کرلو یہاں تک کہ جنگ یعنی جنگ کرنے والے اپنے ہتھیار ڈال دیں تاآنکہ کافر مسلمان ہوجائیں یا معاہدہ میں شریک ہوجائیں اور یہ قتل اور قید کی غایت ہے ذلک مبتداء مقدر کی خبر ہے ای الامر ذلک یعنی ان کے معاملہ میں حکم یہی ہے اور اگر اللہ چاہتا تو (خود) ہی بغیر قتال کے ان سے بدلہ لے لیتا لیکن تم کو قتال کا حکم دیا تاکہ تم میں سے بعض کو ان میں سے بعض کے ذریعہ آزمائے سو تم میں جو شہید کردیا جائے وہ جنت کی طرف چلا جائے اور جو ان میں سے قتل کیا جائے وہ جہنم کی طرف چلا جائے، جو لوگ اللہ کے راستہ میں شہید کر دئے جاتے ہیں اللہ تعالیٰ ان کے اعمال کو ہرگز ضائع نہ کرے گا اور ایک قرأت میں قاتلوا ہے (یہ) آیت یوم احد میں نازل ہوئی، حال یہ کہ مسلمانوں میں قتل اور زخم عام ہوگئے تھے، عنقریب اللہ تعالیٰ ان کی دنیا و آخرت میں ایسی چیز کی طرف رہنمائی کرے گا جو ان کے لئے نافع ہوگی، اور دنیا و آخرت میں ان کے حال کی اصلاح کرے گا، اور دنیا میں جو کچھ ہے (ہدایۃ و اصلاح حال وغیرہ) اس کے لئے ہے جو شہید نہیں ہوا اور جو مقتول نہیں ہوئے ان کو مقتولین میں تغلیباً شامل کردیا گیا ہے اور ان کو ایسی جنت میں داخل فرمائے گا جس کی ان کو شناخت کرا دے گا چناچہ وہ جنت میں اپنے مکانوں کی طرف اور اپنی ازواج کی طرف اور اپنے خدام کی طرف بغیر معلوم کئے پہنچ جائیں گے اے ایمان والو ! اگر تم اللہ کی مدد کرو گے یعنی اس کے دین اور اس کے رسول کی (مدد کرو گے) تو وہ تم کو تمہارے دشمن پر غالب کرے گا اور تم کو ثابت قدم رکھے گا یعنی معرکہ میں تم کو قائم رکھے گا اور اہل مکہ میں سے جنہوں نے کفر کیا وہ ہلاک ہوئے (والذین کفروا) مبتدا ہے اور تعسوا اس کی خبر ہے، اس حذف خبر پر فتعسالھم دلالت کرتا ہے تو ان کے لئے اللہ کی طرف سے ہلاکت اور زیاں کاری ہے اور ان کے اعمال ضائع ہوئے اس کا عطف تعسوا پر ہے یہ ہلاکت اور حبط اعمال اس وجہ سے ہے کہ انہوں نے اس کو ناپسند کیا جس کو اللہ نے نازل فرمایا یعنی قرآن کو جو احکام پر مشتمل ہے تو اللہ تعالیٰ نے ان کے اعمال ضائع کردیئے کیا یہ لوگ زمین میں چلے پھرے نہیں اور انہوں نے دیکھا نہیں کہ جو لوگ ان سے پہلے گذر چکے ہیں ان کا کیا انجام ہوا ؟ اللہ نے ان کو ہلاک کردیا یعنی خود ان کو اور ان کی اولاد کو اور ان کے اموال کو ہلاک (وبرباد) کردیا اور کافروں کے لئے اسی طرح کی سزائیں ہیں یعنی ان سے پہلے لوگوں جیسی سزائیں ہیں یہ یعنی مومنین کی نصرت اور کافروں پر غضب اس وجہ سے ہے کہ اللہ ایمان والوں مولیٰ (یعنی) ولی اور مددگار ہے اور یہ کہ کافروں کا کوئی کار ساز نہیں۔
تحقیق و ترکیب و تسہیل و تفسیری فوائد
اس سوت کا نام سورة قتال ہے ترتیب مصحفی کے اعتبار سے اس کا نمبر ٤٧ ہے اور یہ نام آیت نمبر ٢٠ کے فرقے وذکر فیھ القتال سے ماخوذ ہے، اس کے دو نام اور ہیں، ایک محمد اور دوسرا الذین کفروا۔
قولہ : صدوا لازم اور متعدی دونوں مستعمل ہے یعنی خود رکنا اور دوسروں کو روکنا، اور الذین کفروا سے مراد کفار قریش ہیں۔
قولہ : اضل اعمالھم ای ابطلھا و جعلھا ضایعۃ
قولہ : والذین امنوا وعملوا الصلحت، عملوا الصلحت کا عطف امنوا پر کیا گیا ہے اس میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ عمل صالح حقیقت ایمان کا جز نہیں ہے اس لئے کہ عطف مغایرت کو چاہتا ہے، البتہ عمل صالح کمال ایمان کے لئے شرط کے درجہ میں ہے (کماھو مختار الاشاعرۃ)
قولہ : وامنوا بما نزل علی محمد یہ عطف خاص علی العام کے قبیل سے ہے مقصد اس کا معطوف کی اہمیت اور عظمت کو ظاہر کرنا ہے اور اس بات کی طرف بھی اشارہ ہے کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت پر اور جو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لے کر آئے ہیں اس پر ایمان لائے بغیر ایمان تام نہیں ہوگا، یعنی اگر کوئی توحید اور لوازمات توحید اور لوازمات دین نیز انبیاء سابقین پر ایمان رکھتا ہو مگر محد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت کا قائل نہ ہو تو اس کا یہ ایمان عنداللہ مقبول نہ ہوگا۔
قولہ : والذین امنوا مبتدا ہے اور کفر عنھم سیاتھم اس کی خبر ہے اور وھو الحق من ربھم مبتدا و خبر کے درمیان جملہ معترضہ ہے۔
قولہ : ذلک مبتدا ہے اور بان الذین کفروا الخ مبتدا کی خبر ہے۔
قولہ : فاذا لقیتم الذین کفروا فضرب الرقاب ظرف یعنی اذا لقیتم کا عامل محذوف ہے اور ضرب الرقاب کا بھی وہی عامل ہے، تقدیر عبارت یہ ہے فاضربو الرقاب وقت ملاقاتکم العدو
قولہ : فضرب الرقاب اس میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ ضرب مصدر اپنے فعل امر اضربوا کا نائب ہے اس لئے کہ اس کی اصل فاضربوا الرقاب ضرباً ہے فعل حذف کیا گیا مصدر کو مفعول کی جانب مضاف کر کے فعل کے قائم مقام کردیا گیا، اس میں اختصار کے ساتھ ساتھ تاکید بھی ہے۔
قولہ : اذا اثخنتموھم جب تم ان کو اچھی طرح قتل کر چکو اثخنتموا اثخان سے ماضی جمع مذکر حاضر، ھم ضمیر جمع مذکر غائب، ای اکترتم فیھم القتل اور مصباح میں اثخن فی الارض، سار الی العدو
قولہ : الوثاق بالفتح وا لکسر، مایوثق بہ رسی وغیرہ، جمع وثق جیسے عناق کی جمع عنق
قولہ : وھذہ غایتہ للقتل والاسر یعنی جب حرب ہتھیار ڈالدے اور دشمن کے دم خم، بالکل ختم ہوجائیں تو قتل و قید موقوف کردو۔
قولہ : والذین قتلوا مبتداء ہے اور فلن یضل اعمالھم مبتداء کی خبر ہے۔
قولہ : لیبلو بعضکم ببعض یہ امر بالقتال کی علت ہے۔
قولہ : وما فی الدنیا لمن لم یقتل و ادرحوا فی قتلوا تغلیبا یہ ایک اعتراض کا جواب ہے، اعتراض یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے قول یصلح بالھم کی تفسیر حالھم فیھما ای فی الدین ولآخرۃ سے کی ہے، ھم سے مراد مقتولین فی الحرب ہیں، ظاہر ہے کہ دنیا میں اصلاح حال سے مراد وہ چیزیں ہیں جو دنیا میں نافع ہوں، مثلاً عمل صالح، اخلاص، ہدایت مگر اس قسم کی اصلاح حال تو ان کے لئے ہوسکتی ہے جو مقتول نہ ہوئے ہوں (تنبیہ) اس بات کا خیال رہے کہ مذکورہ اعتراض قتلوا والی قرأت پر ہوگا اور اگر قاتلوا والی قرأت لی جائے تو کوئی اعتراض نہ ہوگا۔
جواب :۔ جواب کا حاصل یہ ہے کہ یہاں قتلوا سے وہ مجاہدین مراد ہیں جو مقتول نہیں ہوئے مگر جہاد میں شریک رہے، اسی کی تائید قاتلوا والی قرأت سے ہوتی ہے قاتلین کو مقتولین میں تغلیبا داخل کردیا گیا ہے اب آیت کا مطلب یہ ہوگا کہ جو مجاہدین زندہ بچ گئے ہیں اللہ تعالیٰ ان کے حال کی اصلاح دنیا میں فرمائے گا اور جو راہ خدا میں شہید ہوگئے ہیں ان کے حال کی اصلاح جنت میں فرمائے گا۔
قولہ : یثبت اقدامکم کی تفسیر یثبتکم سے کر کے اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ جزء بول کر کل یعنی ذات مراد ہے، ذات کو اقدام سے تعبیر کرنے کی وجہ یہ ہے کہ ثبات اور تزلزل کا اثر اولاً قدموں میں نمایاں ہوتا ہے۔
قولہ : المعترک، معترک سے میدان کا رزار مراد ہے۔
قولہ : ذلک مبتداء اور بان اللہ اس کی خبر ہے۔
تفسیر و تشریع
اس سورت کے تین نام ہیں : (١) سورة محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) (٢) دوسرا سورة قتال اس لئے کہ اس میں قتال کے احکام مذکور ہیں، (٣) تیسرا الذین کفروا یہ نام سورت کے اول کلمے ہی سے ماخوذ ہے، اس سورت کا زمانہ نزول ہجرت کے فوراً بعد ہے، حضرت ابن عباس (رض) سے مروی ہے کہ کاین من قریۃ مکی ہے اس لئے کہ اس کا نزول اس وقت ہوا کہ جب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بارادہ ہجرت مکہ سے نکلے اور مکہ کمکرمہ اور بیت اللہ پر نظر ڈال کر آپ نے فرمایا کہ ساری دنیا کے شہروں میں مجھے تو ہی محبوب ہے اگر اہل مکہ مجھے یہاں سے نہ نکالتے تو میں اپنے اختیار سے اے مکہ ! تجھے ہرگز نہ چھوڑتا، مفسرین کی اصطلاح کے مطابق جو آیات سفر ہجرت کے دوران نازل ہوئی ہیں وہ مکی ہی کہلاتی ہیں۔
صدوا عن سبیل اللہ، صد کے معنی دوسروں کو روکنے اور خود رکنے کے ہیں، سبیل اللہ سے اسلام مراد ہے، دوسروں کو راہ خدا سے روکنے کی مختلف صورتیں ہیں، ایک صورت یہ ہے کہ زبردستی کسی کو ایمان لانے سے روک دے، دوسری صورت یہ ہے کہ ایمان لانے والوں پر ایسا ظلم و ستم ڈھایا جائے کہ ان کے لئے ایمان پر قائم رہنا اور دوسروں کو ایسے خوفناک حالات میں ایمان لانا مشکل ہوجائے، تیسری صورت یہ کہ لوگوں کو مختلف طریقوں سے دین اور اہل دین کے خلاف ورغلائے اور ایسے وسوسے ڈالے کہ لوگ اس دین سے بدگمان ہوجائیں، یا اسلام اور مسلمانوں کے خلاف ایسا پروپیگنڈا چھیڑ دے کہ اسلام بد نام ہو کر رہ جائے اور لوگوں کے ذہنوں میں اسلام کی صحیح اور صاف صورت آنے کے بجائے غلط اور گندی صورت ذہن نشین ہوجائے جس کے نتیجہ میں لوگ اسلام کے قریب آنے کے بجائے دور ہونے لگیں اور محبت کے بجائے نفرت کرنے لگیں، موجودہ دور میں یہ صورت زیادہ رائج ہے یہ بھی صداوا عن سبیل اللہ میں شامل ہے۔
اضل اعمالھم اس کا ایک مطلب تو یہ ہے کہ مشرکین مکہ میں جو مکارم اخلاق پائے جاتے تھے مثلاً صلہ رحمی، قیدیوں کو آزاد کرنا، یتیموں اور بیوائوں کی مدد کرنا، بےسہاروں کو سہارا دینا، مہمان نوازی وغیرہ، یا خانہ کعبہ کی پاسبانی اور حجاج کی خدمت کرنا، ان کاموں کا صلہ انہیں آخرت میں نہیں ملے گا، اس لئے کہ آخرت کا اجر وثواب ایمان کے بغیر مرتب نہیں ہوگا، اور دوسرا مطلب یہ ہے کہ ان لوگوں نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے خلاف جو سازشیں کیں اللہ نے انہیں ناکام بنادیا بلکہ ان کی سازش کو ان ہی پر پلٹ دیا، تیسرا مطلب یہ ہے کہ راہ حق کو روکنے اور کفر و شرک کو عرب میں زندہ رکھنے کے لئے جو کوشش وہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے مقابل ہمیں کر رہے تھے، اللہ نے ان کو رائیگاں کردیا ان کی ساری تدبیریں محض تیر بےہدف ہو کر رہ گئیں، اب وہ اپنے مقصد کو ہرگز حاصل نہ کرسکیں گے۔
10 Tafsir as-Saadi
یہ آیات کریمہ اہل ایمان کے ثواب، نافرمانوں کے عذاب، اس کے سبب اور مخلوق کو اس سے عبرت حاصل کرنے کے ذکر پر مشتمل ہیں، چنانچہ فرمایا : ﴿ لَّذِينَ كَفَرُوا وَصَدُّوا عَن سَبِيلِ اللّٰـهِ ﴾ یہ رؤسائے کفر اور ائمہ ضلالت ہیں جنہوں نے اللہ تعالیٰ اور اس کی آیات کا انکار کیا ہے اور اللہ تعالیٰ کے راستے یعنی انبیاء و رسل اور ان کی دعوت سے اپنے آپ کو اور دوسروں کو روک رکھا ہے۔ ﴿ أَضَلَّ أَعْمَالَهُمْ ﴾ یہی لوگ ہیں جن کے اعمال کو اللہ تعالیٰ نے باطل کردیا اور اس سبب سے ان کو بدبختی میں مبتلا کردیا۔ یہ ان کے اعمال کو شامل ہے جو یہ لوگ اس لئے کرتے تھے تاکہ حق اور اولیاء اللہ کے خلاف سازشیں کریں۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے فریب اور سازشوں کو ان کے سینوں ہی میں دبا دیا اور وہ اپنے مقصد کو نہ پاسکے اور ان کے وہ اعمال جن پر وہ ثواب کی امید رکھتے تھے، اللہ تعالیٰ ان کو اکارت کردے گا۔ اس کا سبب یہ ہے کہ انہوں نے باطل کی پیروی کی اور اس سے مراد ہر وہ غایت مطلوب ہے، جس سے اللہ تعالیٰ کی رضا مقصود نہ ہو، مثلاً: بتوں اور خود ساختہ معبودوں کی عبادت۔ چونکہ باطل کی مدد کے لئے کیے گئے تمام اعمال باطل ہوتے ہیں اس لئے ان کے لئے کیے گئے، تمام اعمال اکارت ہیں۔
11 Mufti Taqi Usmani
jinn logon ney kufr ikhtiyar kerliya hai , aur doosron ko Allah kay raastay say roka hai , Allah ney unn kay aemal ikarat kerdiye hain .
12 Tafsir Ibn Kathir
ارشاد ہوتا ہے کہ جن لوگوں نے خود بھی اللہ کی آیتوں کا انکار کیا اور دوسروں کو بھی راہ اللہ سے روکا اللہ تعالیٰ نے ان کے اعمال ضائع کر دئیے ان کی نیکیاں بیکار ہوگئیں، جیسے فرمان ہے ہم نے ان کے اعمال پہلے ہی غارت و برباد کر دئیے ہیں اور جو لوگ ایمان لائے دل سے اور شرع کے مطابق اعمال کئے بدن سے یعنی ظاہر و باطن دونوں اللہ کی طرف جھکا دئیے۔ اور اس وحی الہٰی کو بھی مان لیا جو موجودہ آخر الزمان پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر اتاری گئی ہے۔ اور جو فی الواقع رب کی طرف سے ہی ہے اور جو سراسر حق و صداقت ہی ہے۔ ان کی برائیاں برباد ہیں اور ان کے حال کی اصلاح کا ذمہ دار خود اللہ ہے اس سے معلوم ہوا کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے نبی ہو چکنے کے بعد ایمان کی شرط آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر اور قرآن پر ایمان لانا بھی ہے۔ حدیث کا حکم ہے کہ جس کی چھینک پر حمد کرنے کا جواب دیا گیا ہو اسے چاہیے کہ دعا (یھدیکم اللہ ویصلح بالکم) کہے یعنی اللہ تمہیں ہدایت دے اور تمہاری حالت سنوار دے پھر فرماتا ہے کفار کے اعمال غارت کردینے کی مومنوں کی برائیاں معاف فرما دینے اور ان کی شان سنوار دینے کی وجہ یہ ہے کہ کفار تو ناحق کو اختیار کرتے ہیں حق کو چھوڑ کر اور مومن ناحق کو پرے پھینک کر حق کی پابندی کرتے ہیں اسی طرح اللہ تعالیٰ لوگوں کے انجام کو بیان فرماتا ہے اور اللہ سبحانہ وتعالیٰ خوب جاننے والا ہے۔