عنقریب دیہاتیوں میں سے وہ لوگ جو (حدیبیہ میں شرکت سے) پیچھے رہ گئے تھے آپ سے (معذرۃً یہ) کہیں گے کہ ہمارے اموال اور اہل و عیال نے ہمیں مشغول کر رکھا تھا (اس لئے ہم آپ کی معیت سے محروم رہ گئے) سو آپ ہمارے لئے بخشش طلب کریں۔ یہ لوگ اپنی زبانوں سے وہ (باتیں) کہتے ہیں جو ان کے دلوں میں نہیں ہیں۔ آپ فرما دیں کہ کون ہے جو تمہیں اﷲ کے (فیصلے کے) خلاف بچانے کا اختیار رکھتا ہو اگر اس نے تمہارے نقصان کا ارادہ فرما لیا ہو یا تمہارے نفع کا ارادہ فرما لیا ہو، بلکہ اﷲ تمہارے کاموں سے اچھی طرح باخبر ہے،
English Sahih:
Those who remained behind of the bedouins will say to you, "Our properties and our families occupied us, so ask forgiveness for us." They say with their tongues what is not within their hearts. Say, "Then who could prevent Allah at all if He intended for you harm or intended for you benefit? Rather, ever is Allah, of what you do, Aware.
1 Abul A'ala Maududi
اے نبیؐ، بدوی عربوں میں سے جو لوگ پیچھے چھوڑ دیے گئے تھے اب وہ آ کر ضرور تم سے کہیں گے کہ "ہمیں اپنے اموال اور بال بچوں کی فکر نے مشغول کر رکھا تھا، آپ ہمارے لیے مغفرت کی دعا فرمائیں" یہ لوگ اپنی زبانوں سے وہ باتیں کہتے ہیں جو ان کے دلوں میں نہیں ہوتیں ان سے کہنا "اچھا، یہی بات ہے تو کون تمہارے معاملہ میں اللہ کے فیصلے کو روک دینے کا کچھ بھی اختیار رکھتا ہے اگر وہ تمہیں کوئی نقصان پہنچانا چاہے یا نفع بخشنا چاہے؟ تمہارے اعمال سے تو اللہ ہی باخبر ہے
2 Ahmed Raza Khan
اب تم سے کہیں گے جو گنوار (اعرابی) پیچھے رہ گئے تھے کہ ہمیں ہمارے مال اور ہمارے گھر والوں نے مشغول رکھا اب حضور ہماری مغفرت چاہیں اپنی زبانوں سے وہ بات کہتے ہیں جو ان کے دلوں میں نہیں تم فرماؤ تو اللہ کے سامنے کسے تمہارا کچھ اختیار ہے اگر وہ تمہارا برا چاہے یا تمہاری بھلائی کا ارادہ فرمائے، بلکہ اللہ کو تمہارے کاموں کی خبر ہے،
3 Ahmed Ali
عنقریب آ پ سے وہ لوگ کہیں گے جو بدویوں میں سے پیچھے رہ گئے تھے کہ ہمیں ہمارے اور اہل و عیال نے مشغول رکھا ہے آپ ہمارے لیے مغفرت مانگیئے وہ اپنی زبانوں سے وہ بات کہتے ہیں جو ان کے دلوں میں نہیں ہے کہدو وہ کون ہے جو الله کے سامنے تمہارے لیے کسی چیز کا (کچھ بھی) اختیار رکھتا ہوگا اگر الله تمہیں کوئی نقصان یا کوئی نفع پہنچانا چاہے بلکہ الله تمہارے سب اعمال پر خبردار ہے
4 Ahsanul Bayan
دہاتیوں میں سے جو لوگ پیچھے چھوڑ دیئے گئے تھے وہ اب تجھ سے کہیں گے کہ ہم اپنے مال اور بال بچوں میں لگے رہ گئے پس آپ ہمارے لئے مغفرت طلب کیجئے (۱) یہ لوگ اپنی زبانوں سے وہ کہتے ہیں جو ان کے دلوں میں نہیں ہے، (۲) آپ جواب دیجئے کہ تمہارے لئے اللہ کی طرف سے کسی چیز کا بھی اختیار کون رکھتا ہے اگر وہ تمہیں نقصان پہنچانا چاہے (۳) یا تمہیں کوئی نفع دینا (٤) چاہے ، بلکہ تم جو کچھ کر رہے ہو اس سے اللہ خوب باخبر ہے (۵)۔
۱۱ ۔۱ اس سے مدینے کے اطراف میں آباد قبیلے غفار مزینہ جہینہ اسلم اور وئل مراد ہیں جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے خواب دیکھنے کے بعد جس کی تفصیل آگے آئے گی عمرے کے لیے مکہ جانے کی عام منادی کرا دی مذکورہ قبیلوں نے سوچا کہ موجودہ حالات تو مکہ جانے کے لیے ساز گار نہیں ہیں وہاں ابھی کافروں کا غلبہ ہے اور مسلمان کمزور ہیں نیز مسلمان عمرے کے لیے پورے طور پر ہتھیار بند ہو کر بھی نہیں جا سکتے اگر ایسے میں کافروں نے مسلمانوں کے ساتھ لڑنے کا فیصلہ کر لیا تو مسلمان خالی ہاتھ ان کا مقابلہ کس طرح کریں گے اس وقت مکے جانے کا مطلب اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈالنا ہے چنانچہ یہ لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ عمرے کے لیے نہیں گئے اللہ تعالٰی ان کی بابت فرما رہا ہے کہ یہ تجھ سے مشغو لیتوں کا عذر پیش کر کے طلب مغفرت کی التجائیں کریں گے ۔ ۱۱۔۲ یعنی زبانوں پر تو یہ ہے کہ ہمارے پیچھے ہمارے گھروں کی اور بیوی بچوں کی نگرانی کرنے والا کوئی نہیں تھا اس لیے ہمیں خود ہی رکنا پڑا لیکن حقیقت میں ان کا پیچھے رہنا نفاق اور اندیشہ موت کی وجہ سے تھا ١١۔۳ یعنی اگر اللہ تمہارے مال ضائع کرنے اور تمہارے اہل کو ہلاک کرنے کا فیصلہ کر لے تو کیا تم سے کوئی اختیار رکھتا ہے کہ وہ اللہ کو ایسا نہ کرنے دے۔ ۱۱۔٤ یعنی تمہیں مدد پہنچانا اور تمہیں غنیمت سے نوازنا چاہے تو کوئی روک سکتا ہے یہ دراصل مذکورہ متخلفین پیچھے رہ جانے والوں کا رد ہے جنہوں نے یہ گمان کر لیا تھا کہ وہ اگر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نہیں گئے تو نقصان سے محفوظ اور منافع سے بہرہ ور ہوں گے حالا نکہ نفع وضرر کا سارا اختیار اللہ کے ہاتھ میں ہے ۔ ١١۔۵ یعنی تمہیں تمہارے عملوں کی پوری جزا دے گا۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
جو گنوار پیچھے رہ گئے وہ تم سے کہیں گے کہ ہم کو ہمارے مال اور اہل وعیال نے روک رکھا آپ ہمارے لئے (خدا سے) بخشش مانگیں۔ یہ لوگ اپنی زبان سے وہ بات کہتے ہیں جو ان کے دل میں نہیں ہے۔ کہہ دو کہ اگر خدا تم (لوگوں) کو نقصان پہنچانا چاہے یا تمہیں فائدہ پہنچانے کا ارادہ فرمائے تو کون ہے جو اس کے سامنے تمہارے لئے کسی بات کا کچھ اختیار رکھے (کوئی نہیں) بلکہ جو کچھ تم کرتے ہو خدا اس سے واقف ہے
6 Muhammad Junagarhi
دیہاتیوں میں سے جو لوگ پیچھے چھوڑ دیئے گئے تھے وه اب تجھ سے کہیں گے کہ ہم اپنے مال اور بال بچوں میں لگے ره گئے پس آپ ہمارے لئے مغفرت طلب کیجئے۔ یہ لوگ اپنی زبانوں سے وه کہتے ہیں جو ان کے دلوں میں نہیں ہے۔ آپ جواب دے دیجئے کہ تمہارے لئے اللہ کی طرف سے کسی چیز کا بھی اختیار کون رکھتا ہے اگر وه تمہیں نقصان پہنچانا چاہے تو یا تمہیں کوئی نفع دینا چاہے تو، بلکہ تم جو کچھ کر رہے ہو اس سے اللہ خوب باخبر ہے
7 Muhammad Hussain Najafi
صحرائی عربوں میں سے جو (سفرِ حدیبیہ میں) پیچھے چھوڑ دئیے گئے تھے وہ عنقریب کہیں گے کہ ہمارے مال اور اہل و عیال نے ہمیں مشغول رکھا (اس لئے آپ(ص) کے ہمراہ نہ جا سکے) تو آپ(ص) ہمارے لئے (خدا سے) بخشش کی دعا کیجئے! وہ اپنی زبانوں سے وہ بات کہتے ہیں جو ان کے دلوں میں نہیں ہے آپ(ص) کہیے! کون ہے جو اللہ کے مقابلے میں تمہارے لئے کچھ اختیار رکھتا ہے؟ اگر وہ تمہیں نقصان پہنچانا چاہے یانفع پہنچانا چاہے بلکہ تم جو کچھ کرتے ہو اللہ اس سے خوب باخبر ہے۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
عنقریب یہ پیچھے رہ جانے والے گنوار آپ سے کہیں گے کہ ہمارے اموال اور اولاد نے مصروف کرلیا تھا لہٰذا آپ ہمارے حق میں استغفار کردیں. یہ اپنی زبان سے وہ کہہ رہے ہیں جو یقینا ان کے دل میں نہیں ہے تو آپ کہہ دیجئے کہ اگر خدا تمہیں نقصان پہنچانا چاہے یا فائدہ ہی پہنچانا چاہے تو کون ہے جو اس کے مقابلہ میں تمہارے امور کا اختیار رکھتا ہے .حقیقت یہ ہے کہ اللہ تمہارے اعمال سے خوب باخبر ہے
9 Tafsir Jalalayn
جو اعراب پیچھے رہ گئے وہ تم سے کہیں گے کہ ہم کو ہمارے مال اور اہل و عیال نے روک رکھا آپ ہمارے لئے (خدا سے) بخشش مانگیں یہ لوگ اپنی زبان سے وہ بات کہتے ہیں جو ان کے دل میں نہیں ہے کہہ دو کہ اگر خدا تم (لوگوں) کو نقصان پہنچانا چاہے یا تمہیں فائدہ پہنچانے کا ارادہ فرمائے تو کون ہے جو اس کے سامنے تمہارے لیے کسی بات کا کچھ اختیار رکھے ؟ (کوئی نہیں) بلکہ جو کچھ تم کرتے ہو خدا اس سے واقف ہے ترجمہ :۔ اطراف مدینہ کے جو دیہاتی (سفر حدیبیہ میں شرکت سے) پیچھے رہ گئے تھے یعنی وہ دیہاتی جن کو اللہ نے آپ کی معیت سے پیچھے کردیا (یعنی محروم کردیا) تھا، جبکہ حدیبیہ کے سال آپ نے ان سے اپنی معیت میں مکہ کی طرف نکلنے کے لئے قریش کے تعارض کے اندیشہ کے پیش نظر چلنے کے لئے فرمایا تھا وہ عنقریب کہیں گے کہ ہمارے مال و عیال نے آپ کے ساتھ نکلنے سے مشغول رکھا، تو آپ ہمارے لئے آپ کے ساتھ نہ نکلنے پر اللہ تعالیٰ سے معافی کی دعاء فرما دیجیے، اللہ تعالیٰ نے ان کی تکذیب کرتے ہوئے فرمایا : یہ جو معافی طلب کرنے کے لئے اب جو کہہ رہے ہیں اور اس سے پہلے جو عذر بیان کیا یہ بات محض زبان پر ہے دل میں نہیں ہے لہٰذا وہ اپنے عذر بیان کرنے میں جھوٹے ہیں، آپ کہہ دیجیے کہ تمہارے لئے اللہ کی طرف سے کسی چیز کا بھی کون اختیار رکھتا ہے ؟ استفہام بمعنی نفی ہے یعنی کوئی اختیار نہیں رکھتا، اگر وہ تمہیں نقصان پہنچانے کا ارادہ کرے (ضر) ضاد کے فتحہ اور ضمہ کے ساتھ یا تمہیں نفع پہنچانے کا ارادہ کرے، بلکہ جو کچھ تم کر رہے ہو اللہ تعالیٰ اس سے باخبر ہے یعنی وہ اس صفت سے ہمیشہ متصف ہے بلکہ تم تو یہ سمجھے ہوئے تھے کہ رسول اور مومنین اپنے اہل ویعال میں کبھی لوٹ کر نہ آویں گے (بل) دونوں جگہ پر ایک غرض سے دوسری غرض کی طرف انتقال کے لئے ہے اور یہ بات تمہارے دلوں کو اچھی بھی معلوم ہوتی تھی کہ ان لوگوں کا قتل کے ذریعہ صفایا کردیا جائے کہ ان کو لوٹنا نصیب ہی نہ ہو اور تم نے یہ اور اسی جیسے اور (بہت سے) برے گمان کر رکھے تھے اور تم لوگ ہو ہی ہلاک ہونے والے لوگ بورابئر کی جمع ہے یعنی اس بدگمانی کی وجہ سے عند اللہ ہلاک ہونے والا اور جو شخص الہ اور اس کے رسول پر ایمان نہ لائے گا تو ہم نے ان کافروں کے لئے دوزخ کی سخت آگ تیار رکھی ہے آسمانوں اور زمین کی بادشاہ کا مالک اللہ ہی ہے وہ جسے چاہے معاف کرے اور جسے چاہے سزا دے جب تم مال غنیمت اور وہ خیبر کا مال غنیمت ہے لینے جائو گے تو یہی پیچھے چھوڑے ہوئے لوگ عنقریب کہیں گے کہ ہم کو بھی اپنے ساتھ چلنے کی اجازت دیدیجیے تاکہ ہم بھی مال غنیمت میں سے کچھ حاصل کریں وہ چاہتے ہیں کہ اس طریقہ سے اللہ کے حکم کو بدل ڈالیں اور ایک قرأت میں کلم اللہ ہے، لام کے کسرہ کے ساتھ یعنی خصوص طور پر اہل حدیبیہ کے لئے خیبر کے مال غنیمت کے وعدوں کو (بدل ڈالیں) آپ کہہ دیجیے کہ اللہ تعالیٰ ہمارے حدیبیہ سے لوٹنے سے پہلے ہی فرما چکا ہے کہ تم ہمارے ساتھ ہرگز نہیں چل سکتے تو عنقریب (اس کے جواب میں) کہیں گے (یہ بات نہیں) بلکہ تم ہمارے او پر اس بات سے حسد کرتے ہو کہ تمہارے ساتھ ہم کو بھی مال غنیمت مل جائے اسی لئے تم یہ بات کہہ رہو ہو (یہ بات نہیں ہے) اصل بات یہ ہے کہ ان لوگوں میں سے دین کی بات بہت کم لوگ سمجھتے ہیں، آپ ان پیچھے چھوڑے ہوئے اعرابیوں سے کہہ دو کہ آزمائش کے طور پر عنقریب تم کو ایک سخت جنگجو قوم (سے مقابلہ) کے لئے بلایا جائے گا کہا گیا ہے کہ وہ یمامہ کے باشندے بنو حنیفہ ہیں اور کہا گیا ہے کہ فارس اور روم ہیں، حال یہ کہ تم ان سے لڑو گے یہ حال مقدرہ ہے اور حالت قتال ہی حقیقت میں مدعو الیہا ہے یا وہ مسلمان ہوجائیں تو پھر تم ان سے قتال نہ کرو گے، پس اگر تم ان سے قتال کرنے میں اطاعت کرو گے تو اللہ تم کو بہت بہتر اجر عطا فرمائے گا اور اگر تم روگردانی کرو گے جیسا کہ پہلے روگردانی کرچکے ہو تو وہ تم کو درد ناک سزا دے گا، نہ اندھے پر کوئی گناہ ہے اور نہ لنگڑے پر کوئی گناہ ہے اور نہ مریض پر کوئی گناہ ہے، ترک جہاد میں اور جو اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرے گا تو اس کو اللہ ایسی جنت میں داخل کرے گا جس میں نہریں بہتی ہوں گی (یدخلہ) میں یاء اور نون دونوں قراءتیں ہیں اور جو روگردانی کرے گا وہ اس کو درد ناک عذاب دے گا (یعذبہ) یاء اور نون کے ساتھ ہے۔ تحقیق و ترکیب و تسہیل و تفسیری فوائد قولہ :۔ حول المدینۃ یہ الاعرب کی صفت ہے، المقیمین حول المدینۃ حال بھی ہوسکتا ہے، تقدیر عبارت یہ ہوگی کائنین حول المدینۃ قولہ :۔ اذا رجعت یہ سیقولون کا ظرف ہے، ای سیقولون اذا رجعت من الحدیبیۃ قولہ :۔ بل فی الموضعین للانتقال الخ بل دونوں جگہ ایک مضمون سے دوسرے مضمون کی طرف انتقال کے لئے ہے، بل اول سے پہلے مخلفون کے اعتزاز میں تکذیب کا بیان ہے اور بل کے بعد ان کے عذر بارد اور تخلف پر وعید کا بیان ہے، دوسرے بل کے بعد اس سبب کا بیان ہے جس نے ان کو تخلف اور عذر بارد پر آمادہ کیا اور یہ ترقی فی الرد کے طور پر ہے۔ قولہ :۔ لن تتبعونا یہ جملہ نہی کے معنی میں ہے ای لاتتبعا معنا قولہ :۔ کذلک قال اللہ، ای حکم اللہ یعنی اللہ تع الیٰ نے حدیبیہ سے لوٹنے سے پہلے حکم فرما دیا کہ غزوہ خیبر میں وہی لوگ شریک ہوں گے جو سفر حدیبیہ میں شریک ہوئے ہیں اور وہی خیبر کے مال غنیمت کے مستحق ہوں گے۔ قولہ :۔ فسیقولون بل تحسدوننا یعنی ہم کو خیبر کے مال غنیمت میں شریک نہ کرنے کا حکم، حکم خداوندی نہیں ہے بلکہ یہ ہم پر تمہارے حسد کا نتیجہ ہے۔ تفسیر و تشریع سیقول لک المخلفون من الاعراب اعراب سے وہ قبیلے مراد ہیں جو مدینہ کے اطراف میں آباد تھے مثلاً غفار، مزینہ، جہینہ اور اسلم، جب آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے خواب دیکھنے کے بعد (جس کی تفصیل گذر چکی ہے) عام منادی کرا دی تو مذکورہ نیز مسلمان عمرہ کے لئے پورے طور پر ہتھیار بند ہو کر بھی نہیں جاسکتے، اگر خدانخواستہ کافر آمادہ پیکار ہوگئے تو مسلمان ان کا مقابلہ کیسے کریں گے ؟ اس وقت مکہ جانے کا مطلب ہے خود کو ہلاکت میں ڈالنا، چناچہ یہ لوگ عمرہ کے لئے نہیں نکلے اسی کے لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ یہ تجھ سے اے محمد مشغولیتوں کا عذر پیش کر کے مغفرت کی التجا کریں گے۔ یریدون ان یبدلوا کلام اللہ اس سے مراد خیبر کے غنائم کا اہل حدیبیہ کے لئے مخصوص ہنا ہے، اس کے بعد فرمایا کذلکم قال اللہ من قبل اس سے بھی مقصد خیبر کے اموال غنائم کے اہل حدیبیہ کے ساتھ تخصیص کی تائید ہے، مگر سوال یہ ہے کہ قرآن کریم میں تو کہیں اس تخصیص کا ذکر نہیں ہے پھر اس تخصیص کے وعدہ کو کلام اللہ اور قال اللہ کو کہنا کیسے صحیح ہے ؟ جواب : علماء تفسیر نے فرمایا ہے کہ اس تخصیص کا ذکر اگرچہ وحی متلو (قرآن) میں نہیں ہے البتہ وحی غیر متلو (حدیث) کے ذریعہ سفر حدیبیہ میں فرمایا تھا اسی کو اس جگہ کلام اللہ اور قال اللہ کو سے تعبیر کردیا گیا ہے۔ قل لن تتبعونا ساتھ چلنے کی ممانعت جو کہ سابقہ جملہ سے بالکل واضح ہے یہ ممانعت صرف غزوہ خیبر کے ساتھ خاص ہے، دیگر غزوات میں شرکت کی ممانعت نہیں ہے یہی وجہ ہے کہ قبیلہ جہینہ اور مزینہ بعد میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ غزوات میں شریک ہوئے ہیں، صلح حدیبیہ کے واقعہ کی تفصیل مع مباحث سورت کے شروع میں گذر چکی ہے۔
10 Tafsir as-Saadi
اللہ تبارک و تعالیٰ نے ضعیف الایمان بدویوں کی مذمت بیان کی ہے جو جہاد فی سبیل اللہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو چھوڑ کر پیچھے بیٹھ رہے، ان کے دلوں میں مرض اور اللہ تعالیٰ کے بارے میں بدگمانی تھی۔ نیز وہ یہ بھی سمجھتے تھے کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس معذرت کرلیں گے کہ ان کے مال اور اہل و عیال کی مصروفیات نے ان کو اللہ تعالیٰ کے راستے میں جہاد کے لئے نکلنے سے روکے رکھا اور وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے درخواست کرلیں گے کہ آپ ان کے لئے استغفار کریں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿يَقُولُونَ بِأَلْسِنَتِهِم مَّا لَيْسَ فِي قُلُوبِهِمْ﴾ ” یہ اپنی زبانوں سے وہ بات کہتے ہیں جو ان کے دلوں میں نہیں۔“ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے استغفار کی درخواست کرنا، ان کی ندامت اور اپنے گناہ کے اقرار پر دلالت کرتا ہے نیز اس امر کے اعتراف پر دلالت کرتا ہے کہ وہ جہاد سے پیچھے رہ گئے تھے، جس کے لئے توبہ و استغفار کی ضرورت ہے۔
11 Mufti Taqi Usmani
woh dehaati jo ( hudaibia kay safar mein ) peechay reh gaye thay , abb woh tum say zaroor yeh kahen gay kay : humaray maal o dolat aur humaray ehal o ayaal ney hamen mashghool kerliya tha , iss liye humaray liye maghfirat ki dua ker-dijiye . woh apni zabanon say woh baaten kehtay hain jo unn kay dilon mein nahi hoten . ( unn say ) kaho kay : acha to agar Allah tumhen koi nuqsan phonchana chahye ya faeeda phonchana chahye to kon hai jo Allah kay samney tumharay moamlay mein kuch bhi kernay ki taqat rakhta ho-? balkay jo kuch tum kertay ho , Allah uss say poori tarah ba-khabar hai .
12 Tafsir Ibn Kathir
مجاہدین کی کامیاب واپسی جو اعراب لوگ جہاد سے جی چرا کر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ساتھ چھوڑ کر موت کے ڈر کے مارے گھر سے نہ نکلتے تھے اور جانتے تھے کہ کفر کی زبردست طاقت ہمیں چکنا چور کر دے گی اور جو اتنی بڑی جماعت سے ٹکر لینے گئے ہیں یہ تباہ ہوجائیں گے بال بچوں کو ترس جائیں گے اور وہیں کاٹ ڈالے جائیں گے جب انہوں نے دیکھا کہ اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مع اپنے پاکباز مجاہدین کی جماعت کے ہنسی خوشی واپس آرہے ہیں تو اپنے دل میں مسودے گانٹھنے لگے کہ اپنی مشیخت بنی رہے یہاں اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کو پہلے ہی سے خبردار کردیا کہ یہ بد باطن لوگ آکر اپنے ضمیر کے خلاف اپنی زبان کو حرکت دیں گے اور عذر پیش کریں گے کہ حضور بال بچوں اور کام کاج کی وجہ سے نکل نہ سکے ورنہ ہم تو ہر طرح تابع فرمان ہیں ہماری جان تک حاضر ہے اپنی مزید ایمان داری کے اظہار کے لئے یہ بھی کہہ دیں گے کہ حضرت آپ ہمارے لئے استغفار کیجئے۔ تو آپ انہیں جواب دے دینا کہ تمہارا معاملہ سپرد اللہ ہے وہ دلوں کے بھید سے واقف ہے اگر وہ تمہیں نقصان پہنچائے تو کون ہے جو اسے دفع کرسکے ؟ اور اگر وہ تمہیں نفع دینا چاہے تو کون ہے جو اسے روک سکے ؟ تصنع اور بناوٹ سے تمہاری ایمانداری اور نفاق سے وہ بخوبی آگاہ ہے ایک ایک عمل سے وہ باخبر ہے اس پر کوئی چیز مخفی نہیں دراصل تمہارا پیچھے رہ جانا کسی عذر کے باعث نہ تھا بلکہ بطور نافرمانی کے ہی تھا۔ صاف طور پر تمہارا نفاق اس کے باعث تھا تمہارے دل ایمان سے خالی ہیں اللہ پر بھروسہ نہیں رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اطاعت میں بھلائی کا یقین نہیں اس وجہ سے تمہاری جانیں تم پر گراں ہیں تم اپنی نسبت تو کیا بلکہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور صحابہ رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نسبت بھی یہی خیال کرتے تھے کہ یہ قتل کر دئیے جائیں گے ان کی بھوسی اڑا دی جائے گی ان میں سے ایک بھی نہ بچ سکے گا جو ان کی خبر تو لا کر دے، ان بدخیالیوں نے تمہیں نامرد بنا رکھا تھا تم دراصل برباد شدہ لوگ ہو کہا گیا ہے کہ (بورا) لغت عمان ہے جو شخص اپنا عمل خالص نہ کرے اپنا عقیدہ مضبوط نہ بنا لے اسے اللہ تعالیٰ دوزخ کی آگ میں عذاب کرے گا گو دنیا میں وہ بہ خلاف اپنے باطن کے ظاہر کرتے رہے پھر اللہ تبارک وتعالیٰ اپنے ملک اپنی شہنشاہی اور اپنے اختیارات کا بیان فرماتا ہے کہ مالک و متصرف وہی ہے بخشش اور عذاب پر قادر وہ ہے لیکن ہے غفور اور رحیم جو بھی اس کی طرف جھکے وہ اس کی طرف مائل ہوجاتا ہے اور جو اس کا در کھٹکٹھائے وہ اس کے لئے اپنا دروازہ کھول دیتا ہے خواہ کتنے ہی گناہ کئے ہوں جب توبہ کرے اللہ قبول فرما لیتا ہے اور گناہ بخش دیتا ہے بلکہ رحم اور مہربانی سے پیش آتا ہے۔