المائدہ آية ۳
حُرِّمَتْ عَلَيْكُمُ الْمَيْتَةُ وَالدَّمُ وَلَحْمُ الْخِنْزِيْرِ وَمَاۤ اُهِلَّ لِغَيْرِ اللّٰهِ بِهٖ وَالْمُنْخَنِقَةُ وَالْمَوْقُوْذَةُ وَالْمُتَرَدِّيَةُ وَالنَّطِيْحَةُ وَمَاۤ اَكَلَ السَّبُعُ اِلَّا مَا ذَكَّيْتُمْۗ وَمَا ذُ بِحَ عَلَى النُّصُبِ وَاَنْ تَسْتَقْسِمُوْا بِالْاَزْلَامِ ۗ ذٰ لِكُمْ فِسْقٌ ۗ اَلْيَوْمَ يَٮِٕسَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا مِنْ دِيْـنِكُمْ فَلَا تَخْشَوْهُمْ وَاخْشَوْنِ ۗ اَ لْيَوْمَ اَكْمَلْتُ لَـكُمْ دِيْنَكُمْ وَاَ تْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِىْ وَرَضِيْتُ لَـكُمُ الْاِسْلَامَ دِيْنًا ۗ فَمَنِ اضْطُرَّ فِىْ مَخْمَصَةٍ غَيْرَ مُتَجَانِفٍ لِّاِثْمٍۙ فَاِنَّ اللّٰهَ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ
طاہر القادری:
تم پر مردار (یعنی بغیر شرعی ذبح کے مرنے والا جانور) حرام کر دیا گیا ہے اور (بہایا ہوا) خون اور سؤر کا گوشت اور وہ (جانور) جس پر ذبح کے وقت غیر اﷲ کا نام پکارا گیا ہو اور گلا گھٹ کر مرا ہوا (جانور) اور (دھار دار آلے کے بغیر کسی چیز کی) ضرب سے مرا ہوا اور اوپر سے گر کر مرا ہوا اور (کسی جانور کے) سینگ مارنے سے مرا ہوا اور وہ (جانور) جسے درندے نے پھاڑ کھایا ہو سوائے اس کے جسے (مرنے سے پہلے) تم نے ذبح کر لیا، اور (وہ جانور بھی حرام ہے) جو باطل معبودوں کے تھانوں (یعنی بتوں کے لئے مخصوص کی گئی قربان گاہوں) پر ذبح کیا گیا ہو اور یہ (بھی حرام ہے) کہ تم پانسوں (یعنی فال کے تیروں) کے ذریعے قسمت کا حال معلوم کرو (یا حصے تقسیم کرو)، یہ سب کام گناہ ہیں۔ آج کافر لوگ تمہارے دین (کے غالب آجانے کے باعث اپنے ناپاک ارادوں) سے مایوس ہو گئے، سو (اے مسلمانو!) تم ان سے مت ڈرو اور مجھ ہی سے ڈرا کرو۔ آج میں نے تمہارے لئے تمہارا دین مکمل کر دیا اور تم پر اپنی نعمت پوری کر دی اور تمہارے لئے اسلام کو (بطور) دین (یعنی مکمل نظامِ حیات کی حیثیت سے) پسند کر لیا۔ پھر اگر کوئی شخص بھوک (اور پیاس) کی شدت میں اضطراری (یعنی انتہائی مجبوری کی) حالت کو پہنچ جائے (اس شرط کے ساتھ) کہ گناہ کی طرف مائل ہونے والا نہ ہو (یعنی حرام چیز گناہ کی رغبت کے باعث نہ کھائے) تو بیشک اﷲ بہت بخشنے والا نہایت مہربان ہے،
English Sahih:
Prohibited to you are dead animals, blood, the flesh of swine, and that which has been dedicated to other than Allah, and [those animals] killed by strangling or by a violent blow or by a head-long fall or by the goring of horns, and those from which a wild animal has eaten, except what you [are able to] slaughter [before its death], and those which are sacrificed on stone altars, and [prohibited is] that you seek decision through divining arrows. That is grave disobedience. This day those who disbelieve have despaired of [defeating] your religion; so fear them not, but fear Me. This day I have perfected for you your religion and completed My favor upon you and have approved for you IsLam as religion. But whoever is forced by severe hunger with no inclination to sin – then indeed, Allah is Forgiving and Merciful.
1 Abul A'ala Maududi
تم پر حرام کیا گیا مُردار، خون، سُور کا گوشت، وہ جانور جو خدا کے سوا کسی اور کے نام پر ذبح کیا گیا ہو، وہ جو گھلا گھٹ کر، یا چوٹ کھا کر، یا بلندی سے گر کر، یا ٹکر کھا کر مرا ہو، یا جسے کسی درندے نے پھاڑا ہو سوائے اس کے جسے تم نے زندہ پاکر ذبح کر لیا اور وہ جو کسی آستا نے پر ذبح کیا گیا ہو نیز یہ بھی تمہارے لیے ناجائز ہے کہ پانسوں کے ذریعہ سے اپنی قسمت معلوم کرو یہ سب افعال فسق ہیں آج کافروں کو تمہارے دین کی طرف سے پوری مایوسی ہو چکی ہے لہٰذا تم اُن سے نہ ڈرو بلکہ مجھ سے ڈرو آج میں نے تمہارے دین کو تمہارے لیے مکمل کر دیا ہے اور اپنی نعمت تم پر تمام کر دی ہے اور تمہارے لیے اسلام کو تمہارے دین کی حیثیت سے قبول کر لیا ہے (لہٰذا حرام و حلال کی جو قیود تم پر عائد کر دی گئی ہیں اُن کی پابند ی کرو) البتہ جو شخص بھوک سے مجبور ہو کر اُن میں سے کوئی چیز کھا لے، بغیر اس کے کہ گناہ کی طرف اس کا میلان ہو تو بیشک اللہ معاف کرنے والا اور رحم فرمانے والا ہے
2 Ahmed Raza Khan
تم پر حرام ہے مُردار اور خون اور سور کا گوشت اور وہ جس کے ذبح میں غیر خدا کا نام پکارا گیا اور جو گلا گھونٹنے سے مرے اور بے دھار کی چیز سے مارا ہوا اور جو گر کر مرا اور جسے کسی جانور نے سینگ مارا اور جسے کوئی درندہ کھا گیا مگر جنہیں تم ذبح کرلو، اور جو کسی تھان پر ذبح کیا گیا اور پانسے ڈال کر بانٹا کرنا یہ گناہ کا کا م ہے، آج تمہارے دین کی طرف سے کافروں کی آس نوٹ گئی تو اُن سے نہ ڈرو اور مجھ سے ڈرو آج میں نے تمہارے لئے دین کامل کردیا اور تم پر اپنی نعمت پوری کردی اور تمہارے لئے اسلام کو دین پسند کیا تو جو بھوک پیاس کی شدت میں ناچار ہو یوں کہ گناہ کی طرف نہ جھکے تو بیشک اللہ بخشنے والا مہربان ہے،
3 Ahmed Ali
تم پر مردار اور لہو اور سور کا گوشت حرام کیا گیا ہے اور وہ جانور جس پر الله کے سوا کسی اور کا نام پکارا جائے جو گلا گھوٹ کر یا چوٹ سے یا بلندی سے گر کر یا سینگ مارنے سے مر گیا ہو اور وہ جسے کسی درندے نے پھاڑ ڈالا ہو مگر جسے تم نے ذبح کر لیا ہو اور وہ جو کسی تھان پر ذبح کیا جائے اور یہ کہ جوئے کے تیروں سے تقسیم کرو یہ سب گناہ ہیں آج تمہارے دین سے کافر نا امید ہو گئے سو ان سے نہ ڈرو اور مجھ سے ڈرو آج میں تمہارے لیے تمہارا دین پورا کر چکا اور میں نے تم پر اپنا احسان پورا کر دیا اور میں نے تمہارے واسطے اسلام ہی کو دین پسند کیا ہے پھر جو کوئی بھوک سے بیتاب ہو جائے لیکن گناہ پر مائل نہ ہو تو الله معاف کرنے والا مہربان ہے
4 Ahsanul Bayan
تم پر حرام کیا گیا مردار اور خون اور خنزیر کا گوشت اور جس پر اللہ کے سوا دوسرے کا نام پکارا گیا ہو، (۱) اور جو گلا گھٹنے سے مرا ہو، (۲) اور جو کسی ضرب سے مر گیا ہو، (۳) جو اونچی جگہ سے گر کر مرا ہو (٤) جو کسی کے سینگ مارنے سے مرا ہو (۵)، اور جسے درندوں نے پھاڑ کھایا ہو، (٦) لیکن اسے تم ذبح کر ڈالو تو حرام نہیں، (۷) اور جو آستانوں پر ذبح کیا گیا ہو، (۸) اور یہ بھی کہ قرعہ کے تیروں کے ذریعے فال گیری ہو، (۹) یہ سب بدترین گناہ ہیں، آج کفار دین سے ناآمید ہوگئے، خبردار ان سے نہ ڈرنا اور مجھ سے ڈرتے رہنا، آج میں نے تمہارے لئے دین کو کامل کر دیا اور تم پر اپنا نام بھرپور کر دیا اور تمہارے لئے اسلام کے دین ہونے پر رضامند ہوگیا۔ پس جو شخص شدت کی بھوک میں بیقرار ہو جائے بشرطیکہ کسی گناہ کی طرف اس کا میلان نہ ہو تو یقیناً اللہ تعالٰی معاف کرنے والا ہے اور بہت بڑا مہربان ہے (۱۰)۔
٣۔١ یہاں سے ان محرمات کا ذکر شروع ہو رہا ہے جن کا حوالہ سورت کے آغاز میں دیا گیا ہے۔ آیت کا اتنا حصہ سورہ بقرہ میں گزر چکا ہے۔ دیکھیے آیت نمبر ۱۷۳۔
٣۔۲ گلا کوئی شخص گھونٹ دے یا کسی چیز میں پھنس کر خود گلا گھٹ جائے۔ دونوں صورتوں میں مردہ جانور حرام ہے۔
٣۔۳ کسی نے پتھر، لاٹھی یا کوئی اور چیز ماری جس سے وہ بغیر ذبح کیے مر گیا۔ زمانہ جاہلیت میں ایسے جانوروں کو کھا لیا جاتا تھا۔ شریعت نے منع کر دیا۔ بندوق کا شکار کیے ہوئے جانور کے بارے میں علماء کے درمیان اختلاف ہے۔ امام شوکانی نے ایک حدیث سے استدلال کرتے ہوئے بندوق کے شکار کو حلال قرار دیا ہے۔ (فتح القدیر) یعنی اگر کوئی بسم اللہ پڑھ کر گولی چلائے اور شکار ذبح سے پہلے ہی مر گیا تو اس کا کھانا اس قول کے مطابق حلال ہے۔
٣۔٤ چاہے خود گرا ہو یا کسی نے پہاڑ وغیرہ سے دھکا دے کر گرایا ہو۔
٣۔۵ نظیحۃ منطوحۃ کے معنی میں ہے۔ یعنی کسی نے اسے ٹکر مار دی اور بغیر ذبح کیے وہ مر گیا۔
٣۔٦یعنی شیر چیتا اور بھیڑیا وغیرہ جیسے ذوناب کچلیوں سے شکار کرنے والے درندوں میں سے کسی نے اسے کھایا ہو اور وہ مر گیا ہو۔ زمانہ جاہلیت میں مر جانے کے باوجود ایسے جانور کو کھا لیا جاتا تھا۔
٣۔۷ جمہور مفسرین کے نزدیک یہ استثنا تمام مذکورہ جانوروں کے لیے ہے یعنی منخنقۃ، موقوذۃ، متردیۃ، نطیحۃ اور درندوں کا کھایا ہوا، اگر تم انہیں اس حال میں پالو کہ ان میں زندگی کے آثار موجود ہوں اور پھر تم انہییں شرعی طریقے سے ذبح کر لو تو تمہارے لیے ان کا کھانا حلال ہوگا۔ زندگی کی علامت یہ ہے کہ ذبح کرتے وقت جانور پھڑکے اور ٹانگیں مارے۔ اگر چھری پھیرتے وقت یہ اضطراب وحرکت نہ ہو تو سمجھ لو یہ مردہ ہے۔ ذبح کا شرعی طریقہ یہ ہے کہ بسم اللہ پڑھ کر تیز دھار آلے سے اس کا گلا اس طرح کاٹا جائے کہ رگیں کٹ جائیں۔ ذبح کے علاوہ نحر بھی مشروع ہے۔ جس کا طریقہ یہ ہے کہ کھڑے جانور کے لبے پر چھری ماری جائے (اونٹ کو نحر کیا جاتا ہے) جس سے نرخرہ اور خون کی خاص رگیں کٹ جاتی ہے اور سارا خون بہہ جاتا ہے۔
٣۔۸مشرکین اپنے بتوں کے قریب پتھر یا کوئی چیز نصب کر کے ایک خاص جگہ بناتے تھے۔ جسے نصب تھان یا آستانہ کہتے تھے۔ اسی پر وہ بتوں کے نام نذر کیے گئے جانوروں کو ذبح کرتے تھے یعنی یہ وما اھل بہ لغیر اللہ ہی کی ایک شکل تھی اس سے معلوم ہوا کہ آستانوں، مقبروں اور درگاہوں پر جہاں لوگ طلب حاجات کے لیے جاتے ہیں اور وہاں مدفون افراد کی خوشنودی کے لیے جانور ذبح کرتے ہیں یا پکی ہوئی دیگیں تقسیم کرتے ہیں، ان کا کھانا حرام ہے یہ وماذبح علی النصب میں داخل ہیں۔
٣۔۹ وان تستقسموا بالازلام کے دو معنی کیے گئے ہیں ایک تیروں کے ذریعے تقسیم کرنا دوسرے تیروں کے ذریعہ قسمت معلوم کرنا پہلے معنی کی بنا پر کہا جاتا ہے کہ جوئے وغیرہ میں ذبح شدہ جانور کی تقسیم کے لیے یہ تیر ہوتے تھے جس میں کسی کو کچھ مل جاتا، کوئی محروم رہ جاتا۔ دوسرے معنی کی رو سے کہا گیا ہے کہ ازلام سے تیر مراد ہیں جن سے وہ کسی کام کا آغاز کرتے وقت فال لیا کرتے تھے۔ انہوں نے تین قسم کے تیر بنا رکھتے تھے۔ ایک افعل (کر) دوسرے میں لاتفعل (نہ کر) اور تیسرے میں کچھ نہیں ہوتا تھا۔ افعل والا تیر نکل آتا تو وہ کام کر لیا جاتا، لاتفعل والا نکلتا تو نہ کرتے اور تیسرا تیر نکل آتا تو پھر دوبارہ فال نکالتے۔ یہ بھی گویا کہانت اور استمداد بغیر اللہ کی شکل ہے، اس لیے اسے بھی حرام کر دیا گیا استقسام کے معنی طلب قسم تہیں یعنی تیروں سے قسمت طلب کرتے تھے۔
٣۔۱۰یہ بھوک کی اضطراری کیفیت میں مذکورہ محرمات کے کھانے کی اجازت ہے بشرطیکہ مقصد اللہ کی نافرمانی اور حد تجاوز کرنا نہ ہو، صرف جان بچانا مطلوب ہو۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
تم پر مرا ہوا جانور اور (بہتا) لہو اور سور کا گوشت اور جس چیز پر خدا کے سوا کسی اور کا نام پکارا جائے اور جو جانور گلا گھٹ کر مر جائے اور جو چوٹ لگ کر مر جائے اور جو گر کر مر جائے اور جو سینگ لگ کر مر جائے یہ سب حرام ہیں اور وہ جانور بھی جس کو درندے پھاڑ کھائیں۔ مگر جس کو تم (مرنے سے پہلے) ذبح کرلو اور وہ جانور بھی جو تھان پر ذبح کیا جائے اور یہ بھی کہ پاسوں سے قسمت معلوم کرو یہ سب گناہ (کے کام) ہیں آج کافر تمہارے دین سے ناامید ہو گئے ہیں تو ان سے مت ڈرو اور مجھی سے ڈرتے رہو (اور) آج ہم نے تمہارے لئے تمہارا دین کامل کر دیا اور اپنی نعمتیں تم پر پوری کر دیں اور تمہارے لئے اسلام کو دین پسند کیا ہاں جو شخص بھوک میں ناچار ہو جائے (بشرطیکہ) گناہ کی طرف مائل نہ ہو تو خدا بخشنے والا مہربان ہے
6 Muhammad Junagarhi
تم پر حرام کیا گیا مردار اور خون اور خنزیر کا گوشت اور جس پر اللہ کے سوا دوسرے کا نام پکارا گیا ہو اور جو گلا گھٹنے سے مرا ہو اور جو کسی ضرب سے مر گیا ہو اور جو اونچی جگہ سے گر کر مرا ہو اور جو کسی کے سینگ مارنے سے مرا ہو اور جسے درندوں نے پھاڑ کھایا ہو لیکن اسے تم ذبح کر ڈالو تو حرام نہیں اور جو آستانوں پر ذبح کیا گیا ہو اور یہ بھی کہ قرعہ کے تیروں کے ذریعے فال گیری کرو یہ سب بدترین گناه ہیں، آج کفار تمہارے دین سے ناامید ہوگئے، خبردار! تم ان سے نہ ڈرنا اور مجھ سے ڈرتے رہنا، آج میں نے تمہارے لئے دین کو کامل کردیا اور تم پر اپنا انعام بھرپور کردیا اور تمہارے لئے اسلام کے دین ہونے پر رضامند ہوگیا۔ پس جو شخص شدت کی بھوک میں بے قرار ہو جائے بشرطیکہ کسی گناه کی طرف اس کا میلان نہ ہو تو یقیناً اللہ تعالیٰ معاف کرنے واﻻ اور بہت بڑا مہربان ہے
7 Muhammad Hussain Najafi
تم پر حرام کیا گیا ہے۔ مردار، خون، خنزیر کا گوشت اور وہ جانور جس پر ذبح کے وقت غیر خدا کا نام لیا جائے۔ اور گلا گھوٹا ہوا، یا جو چوٹ لگنے سے یا بلندی سے گر کر، یا سینگ لگنے سے مر جائے یا جسے کسی درندہ نے کھایا ہو۔ سوائے اس کے جسے تم نے ذبح کر لیا ہو۔ اور وہ (بھی حرام ہے) جو قربان کیا جائے بتوں پر (یا کسی آستانے پر) نیز (وہ بھی حرام ہے) جو قرعہ کے تیروں سے تقسیم کیا جائے۔ یہ سب کام فسق (گناہ) ہیں۔ آج میں نے تمہارے لئے دین کو مکمل کر دیا ہے۔ اور اپنی نعمت تم پر تمام کر دی ہے اور تمہارے لئے دین کی حیثیت سے اسلام کو پسند کر لیا ہے ہاں جو بھوک کی شدت سے مجبور ہو جائے (اور حرام چیزوں سے کوئی کھا لے) جبکہ گناہ کی طرف راغب نہ ہو تو اللہ بڑا بخشنے والا بڑا رحم کرنے والا ہے۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
تمہارے اوپر حرام کردیا گیا ہے مردار -خون - سور کا گوشت اور جو جانور غیر خدا کے نام پر ذبح کیا جائے اورمنخنقہ اور موقوذہً اور متردیہ اور نطیحہ اور جس کو درندہ کھا جائے مگریہ کہ تم خود ذبح کرلو اور جو نصاب پر ذبح کیا جائے اور جس کی تیروں کے ذریعہ قرعہ اندازی کرو کہ یہ سب فسق ہے اور کفار تمہارے دین سے مایوس ہوگئے ہیں لہذا تم ان سے نہ ڈرو اور مجھ سے ڈرو -آج میں نے تمہارے لئے دین کو کامل کردیا ہے اور اپنی نعمتوں کو تمام کردیا ہے اور تمہارے لئے دین اسلام کو پسندیدہ بنادیا ہے لہذا جو شخص بھوک میں مجبور ہوجائے اور گناہ کی طرف مائل نہ ہو تو خدا بڑا بخشنے والا مہربان ہے
9 Tafsir Jalalayn
تم پر مرا ہوا جانور اور (بہتا ہوا) لہو اور سُؤر کا گوشت اور جس چیز پر خدا کے سوا کسی اور کا نام پکارا جائے اور جو جانور گلاگھٹ کر مرجائے اور چوٹ لگ کر مرجائے اور جو گر کر مرجائے اور جو سینگ لگ کر مرجائے یہ سب حرام ہیں اور وہ جانور بھی جس کو درندے پھاڑ کر کھائیں۔ مگر جس کو تم (مرنے سے پہلے) ذبح کرلو۔ اور وہ جانور بھی جو تھان پر ذبح کیا جائے۔ اور یہ بھی کہ پانسوں سے قسمت معلوم کرو۔ یہ سب گناہ (کے کام) رہیں۔ آج کافر تمہارے دین سے ناامید ہوگئے ہیں تو ان سے مت ڈرو اور مجھی سے ڈرتے رہو۔ (اور) آج ہم نے تمہارے لئے تمہارا دین کامل کردیا اور اپنی نعمتیں تم پر پوری کردیں اور تمہارے لئے اسلام کو دین پسند کیا۔ ہاں جو شخص بھوک میں ناچار ہوجائے (بشرطیکہ) گناہ کی طرف مائل نہ ہو۔ تو خدا بخشنے والا مہربان ہے۔
آیت نمبر ٣ تا ٥
ترجمہ : تمہارے لئے مردار اور بہنے والا خون (حرام کردیا گیا ہے) جیسا کہ سورة انعام میں مذکور ہے، اور خنزیر کا گوشت اور وہ جانور جس پر (بوقت ذبح) غیر اللہ کا نام لیا گیا ہو بایں صورت کہ غیر اللہ کے نام پر ذبح کیا گیا ہو، کا کھانا حرام کردیا گیا ہے اور گلا گھٹ کر مرا ہوا جانور اور چوٹ کھا کر مرا ہوا جانور اور اوپر سے گر کر مرا ہوجانور، اور وہ جانور جو دوسرے جانور کے سینگ مارنے سے مرا ہو اور وہ جانور کہ جس میں سے درندہ نے کھالیا ہو (کھانا حرام کردیا گیا ہے) الا یہ کہ تم نے اس کو ذبح کرلیا ہو (تو وہ حرام نہیں ہے) اور وہ جانور جو بتوں کے نام پر ذبح کیا گیا ہو نصب، نصاب کی جمع ہے اور وہ بت ہیں (حرام کردیا گیا ہے) اور پانسوں کے ذریعہ قسمت آزمائی کرنا اور نتیجہ معلوم کرنا (حرام کردیا گیا ہے) ازلام، زلم کی جمع ہے زاء کے فتحہ اور ضمہ کے ساتھ مع لام کے فتحہ کے قدح چھوٹا تیر جس میں نہ پر لگے ہوں اور نہ اس میں انّی ہو، قدح قاف کے کسرہ کے ساتھ ہے اور وہ سات تیر تھے جو بیت اللہ کے خادم کے پاس رہا کرتے تھے، ان پر علامتیں لگی رہتی تھیں ان سے جواب مانگا کرتے تھے (فال لیا کرتے تھے) اگر وہ ان کو اجازت دیتے تو اس کام کو کرتے اور اگر جواب ممانعت میں نکلتا تو نہ کرتے، یہ فسق ہے یعنی اطاعت سے خروج ہے، اور (آئندہ آیت) حجۃ الوداع کے موقع پر عرفات میں نازل ہوئی، اب کافر تمہارے دین (اسلام) سے مرتد ہونے کے بارے میں خواہش رکھنے کے باوجود مایوس ہوچکے ہیں، اس لئے کہ وہ اس دین کی قوت دیکھ چکے ہیں، لہٰذا تم ان سے نہ ڈرو اور مجھ ہی سے ڈرو آج میں نے تمہارے دین (یعنی) اس کے احکام و فرائض کو مکمل کردیا چناچہ اس کے بعد حلال و حرام کا کوئی حکم نازل نہیں ہوا اور تم پر میں نے دین مکمل کر کے اپنا انعام تام کردیا اور کہا گیا ہے کہ مکہ میں مامون طریقہ پر داخل کر کے (انعام تام کردیا) اور میں نے تمہارے لئے اسلام کو دین کی حیثیت سے پسند کرلیا، پس جو شخص شدت بھوک سے بیتاب ہو اس کے لئے حرام کردہ چیزوں میں کچھ کھا لینا تو مباح ہے۔ بشرطیکہ معصیت کی جانب میلان نہ ہو تو اللہ تعالیٰ اس کے کھانے کو معاف کرنے والا ہے، اور اس کے لئے اس (کھانے کو) مباح کر کے رحم کرنے والا ہے، بخلاف اس شخص کے کہ جو معصیت کی طرف مائل ہو یعنی (معصیت) کا مرتکب ہو، جیسا کہ راہ زن، باغی، مثلاً ، تو اس شخص کے لئے (مذکورہ چیزوں) میں سے کھانا حلال نہیں ہے، اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ سے لوگ سوال کرتے ہیں کہ ان کے لئے کون سا کھانا حلال کیا گیا ہے ؟ آپ کہہ دیجئے تمہارے لئے پاکیزہ لذیذ چیزیں حلال کردی گئی ہیں اور ان شکاری جانوروں کا کیا ہوا شکار جن کو تم نے سدھایا ہے خواہ کتے ہوں یا درندے یا پرندے، بشرطیکہ تم ان کو شکار کے پیچھے چھوڑو (مکلبین) علمتم، کی ضمیر سے حال ہے، اور کلبت الکلب بالتشدید سے ماخوذ ہے ای ارسلت علی الصید حال یہ کہ تم نے اللہ کے سکھائے ہوئے آداب صید میں سے ان کو سکھایا ہو (تعلمونھن) مکلبین کی ضمیر سے حال ہے، ای تؤدبونھن، تو تم اس شکار کو کھا سکتے ہو جو اس نے تمہارے لئے کیا ہے، اگرچہ اس کو مار ڈالا ہو بشرطیکہ اس میں سے کچھ کھایا نہ ہو، بخلاف بغیر سدھے ہوئے شکاری جانور کے کہ اس کا کیا ہوا شکار حلال نہیں ہے، اور سدھے ہوئے کی پہچان یہ ہے کہ جب اس کو شکار کے پیچھے دوڑایا جائے تو دوڑ پڑے اور جب روکا جائے تو رک جائے، اور شکار کو پکڑ کر اس سے کچھ کھائے نہیں، اور کم سے کم علامت کہ جس کے ذریعہ جانور کا معلم ہونا معلوم ہو تین بار (شکار کے پیچھے) چھوڑنا ہے، اگر شکاری جانور نے اس شکار سے کچھ کھالیا تو سمجھ لو کہ یہ اس نے اپنے مالک کے لئے نہیں پکڑا لہٰذا ایسی صورت میں اس شکار کا کھانا حلال نہیں ہے جیسا کہ صحیحین کی حدیث میں ہے اور اس میں ہے کہ تیر سے کیا ہوا شکار جبکہ تیر چھوڑتے وقت بسم اللہ کہی ہو تو یہ تیر کا شکار شکاری جانور کے شکار کے مانند (حلال) ہے اور صید معلم کو چھوڑتے وقت اللہ کا نام لو اور اللہ سے ڈرتے رہو یقینا اللہ جلد حساب لینے والا ہے، آج تمام پاکیزہ چیزیں تمہارے لئے حلال کردی گئی ہیں اور اہل کتاب کا کھانا تمہارے لئے یعنی یہود و نصاریٰ کا ذبیحہ حلال کردیا گیا اور تمہارا ذبیحہ ان کے لئے حلال ہے، اور پاکدامن مومن عورتیں اور اہل کتاب (یہود ونصاری) کی آزاد عورتیں تمہارے لئے حلال کردی گئی ہیں یعنی تمہارے لئے ان سے نکاح کرنا جائز ہے جبکہ تم ان کے مہر ادا کردو، حال یہ کہ تم ان سے نکاح کرنے والے ہو، نہ کہ ان سے اعلانیہ (زنا کے ذریعہ) شہوت رانی کرنے والے اور نہ پوشیدہ طور پر ان سے آشنائی کرنے والے کہ ان سے زنا کو چھپانے والے ہو اور جو شخص ایمان کا منکر ہوا یعنی مرتد ہوگیا تو اس کے سابقہ اعمال صالحہ ضائع ہوگئے لہٰذا وہ کسی شمار میں نہ ہوں گے اور نہ ان پر اجر دیا جائے گا، اور وہ آخرت میں زیاں کاروں میں سے ہوگا جبکہ وہ ارتداد ہی پر فوت ہوا ہو۔
تحقیق و ترکیب وتسہیل وتفسیری فوائد
قولہ : المَیْتَة، اسم صفت ہے، مردار، وہ جانور جو بلا ذبح شرعی کسی حادثہ یا طبعی موت سے مرجائے۔
قولہ : اَکْلُھا، مضاف محذوف مان کر اشارہ کردیا کہ حلت و حرمت کا تعلق افعال سے ہوتا ہے نہ کہ ذات سے۔
قولہ : اَلمنخَنِقَۃ، اسم فاعل واحد مؤنث (اِنْخِنَاق، انفعال) خَنِقًا (ن) گلا گھونٹنا۔
قولہ : اُھِلَّ ، اَلْاِھْلال رفع الصوت، لغیر اللہ بہ میں لام بمعنی باء اور باء بمعنی عند، المعنی، مارفع الصوت عند ذکاتہ باسم غیر اللہ۔
قولہ : المَوْقُوْذَةُ وَقذ (ض) اسم مفعول واحد مؤنث، چوٹ کھا کر مرا ہوا۔
قولہ : المُتَرَدِّیةُ اسم فاعل واحد مؤنث تَرَدّی (تفعل) اونچائی سے گر کر مرنے والا جانور۔
قولہ : النَطِیْحَۃُ صیغہ صفت بروزن فَعِیْلۃ بمعنی منطوحَۃ نطع (ف، ن) وہ بکری جو دوسرے کے سینگ کی چوٹ سے مری ہو، بعض اہل لغت نے بکری کی تخصیص نہیں کی ہے۔
سوال : نطیحۃ، بروزن فعیلة ہے فعیلة کے وزن میں مذکر اور مؤنث دونوں برابر ہوتے ہیں، لہٰذا یہاں تاء کی ضرورت نہیں ہے ؟
جواب : نطیحۃ میں تاء انتقال من الوصفیۃ الی الاسمیۃ کے لئے ہے نہ کہ تانیث کے لئے جیسا کہ ذبیحۃ میں ہے۔
قولہ : منہ، مِنْہ کے اضافہ کا مقصد اس سوال کا جواب ہے کہ فَاَکَلَ السَبُعُ ، کا مطلب ہے کہ جس کو درندہ نے کھالیا ہو اور یہ بات ظاہر ہے کہ درندے نے جس کو کھالیا وہ معدوم ہوگیا اور معدوم سے حلت یا حرمت کا کوئی متعلق نہیں ہوتا، مِنہ، کہ کر اس کا یہ جواب دیا کہ جس شکار میں سے کچھ حصہ درندے نے کھالیا ہو جس کی وجہ سے وہ جانور مرگیا ہو تو اس کا کھانا حلال نہیں ہے۔
قولہ : اِلاَّ ما ذکَّیْتُمْ ، یہ المنخقۃ اور اس کے مابعد سے استثناء ہے۔ قولہ : عَلیٰ اِسْمِ النُّصُبِ ۔ سوال : لفظ ’ اسم ‘ کے اضافہ کا کیا فائدہ ہے ؟
جواب : تاکہ ذبح کا صلہ عَلیٰ درست ہوجائے، لہٰذا علی بمعنی لام لینے کی ضرورت نہ ہوگی۔ (کما قال البعض) ۔
قولہ : ذلک، ای الاستقسام بالازلام خَاصۃً فسق۔
قولہ : رَضِیْتُ ، یہ بیان حال کے لئے جملہ مستانفہ ہے، اس کا عطف اکملتُ پر نہیں ہے، اس لئے کہ اس سے لازم آئیگا کہ اسلام سے دین ہونے کے اعتبار سے آج راضی ہوا اس سے پہلے راضی نہیں تھا حالانکہ اسلام اللہ تعالیٰ کا پسندیدہ دین رہا ہے اور ہر نبی کا دین السلام ہے رضیت متعدی بیک مفعول ہے، اور وہ الاسلام ہے، اور دِینًا تمیز ہے۔
قولہ : اِخْتَرْتُ ، بعض حضرات نے کہا ہے کہ رضیت بمعنی اخترتُ ہے جو کہ متعدی بدو مفعول ہے اور اول مفعول، اَلاسلامَ اور دوسرا دِینًا ہے، لہٰذا اس صورت میں دِیْناً کو حال یا تمیز قرار دینے کی ضرورت نہیں رہے گی۔
قولہ : غیرَ مُتجانِفٍ ، تفاعل سے اسم فاعل واحد مذکر ہے، بدی کی طرف مائل ہونے والا، حق سے روگردانی کرنے والا، غَیْرَ ، منصوب علی الحال ہے۔ قولہ : مَخْمَصَۃٍ ، اسم، ایسی بھوک کہ جس میں پیٹ لگ جائے۔
قولہ : فَمَنِ اضْطُرَّ فی مخمصۃٍ ، یہ آیت تین جگہ آئی ہے یہاں اور سورة بقرہ میں اور سورة نحل میں۔ جواب شرط کی طرف اشارہ کردیا ہے اور بعض حضرات نے، فَلَا اثم عَلَیْہ محذوف مانا ہے، فَمَنْ اضطر الخ، یہ آیت سابقہ آیت کا تتمہ ہے اور ذلکم فسق سے یہاں تک جملہ معترضہ ہے، جو کہ دو کلاموں کے درمیان واقع ہوا ہے۔ قولہ : کقَا طِعِ الطَّرِیْق، ای اِذَا کانا مسافِرَیْنِ ۔
تفسیر و تشریح
حرمَتْ علیکم المیتۃ الخ، آیت نمبر ١ میں حلال جانوروں کی نشاندہی کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ ان حلال جانوروں کے علاوہ کچھ حرام جانور بھی ہیں جن کی تفصیل آئندہ آئے گی، گویا کہ حرمَتْ عَلَیکُمُ الْمَیْتَۃُ الخ، اِلاّ مَا یُتْلیٰ عَلَیْکم، کی تفصیل ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ اُحِلّت لکم بھِیْمَۃُ الْاَنْعَام، میں عمومی طور پر چوپایوں کے حلال ہونے کا حکم دیا گیا ہے ان میں سے وہ چوہائے حرام ہیں جن کا ذکر اس آیت میں ہے۔ مسند امام احمد، ابن ماجہ اور مستدرک حاکم میں حضرت عبد اللہ بن عمر کی یہ حدیث مروی ہے کہ مردار جانوروں میں دو مردار جانور مچھلی اور ٹڈی حلال ہیں اس حدیث کی سند میں بعض علماء نے عبد اللہ بن زید بن اسلم کو اگرچہ ضعیف کہا ہے لیکن امام احمد نے عبد اللہ بن زید کو ثقہ کہا ہے۔
مردہ اور حرام گوشت والے جانوروں کی مغفرت : جن جانوروں کا گوشت انسان کیلئے مضر ہے خواہ جسمانی طور پر یا روحانی طور پر یا روحانی طور پر کہ اس سے انسان کے اخلاق اور قلبی کیفیات پر منفی اثر پڑنے کا خطرہ ہے ان کو قرآن مجید نے خبائث قرار دیکر حرام کردیا
حرمَتْ علیکم الْمَیْتَۃُ الخ، اس آیت میں مردار جانور کو حرام قرار دیا گیا، مردار جانور سے وہ جانور مراد ہے جو شرعی طریقہ پر ذبح کئے بغیر کسی بیماری کے سبب طبعی یا حادثاتی موت مرجائے ایسے جانور کا گوشت طبی طور پر بھی انسان کیلئے سخت مضر ہے اور روحانی طور پر بھی۔ دوسری چیز جس کو اس آیت نے حرام قرار دیا ہے وہ خون ہے اور قرآن کریم کی دوسری آیت اودما مسفوحًا نے بتلا دیا کہ خون سے مراد بہنے والا خون ہے گوشت میں لگا ہوا خون حرام نہیں ہے، جگر و تلیّ باوجود خون ہونے کے اس حکم سے مستثنیٰ ہیں حدیث مذکور میں جہاں مردار سے مچھلی اور ٹڈی کو مستثنیٰ کیا ہے وہیں جگر اور طحال کو خون سے مستثنیٰ قرار دیا ہے۔
تیسری چیز لَحْمُ الْخِنْزِیْرِ ہے : اوپر سے چونکہ جانوروں کے گوشت کا ذکر چل رہا ہے اس لئے یہاں بھی لحم الخنزیر فرما دیا ورنہ خنزیر کے بدن کی ہر چیز حرام ہے، یا اس لئے کہ جانور میں اعظم مقصود گوشت ہی ہوتا ہے اس لئے لحم الخنزیر فرمایا۔ اکلہ نجسٌ وَاِنّما خصّ اللحم لِاَنَّہ معظم المقصود۔ سُوَرْ کے گوشت کی جسمانی مضرتوں سے طبی لڑیچر بھرا پڑا ہے، اخلاقی اور روحانی نقصانات کا ذکر ہی کیا ! ؟ بریدۃ الاسلمی کی حدیث سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے جس کو صحیح مسلم، ابو داؤد اور ابن ماجہ نے روایت کیا ہے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ! چوسر کھیلنے والا شخص جب تک چوسر کھیلتا ہے تو اس کے ہاتھ گویا سور کے خون میں ڈوبے رہتے ہیں، اگرچہ بعض مفسرین نے خنزیر کے بعض اجزاء کو حرمت سے مستثنیٰ قرار دیا ہے۔
بعض اجزاء کو پاک قرار دینے والے علماء کا استدلال : سورة انعام میں یہ بحث شروع کردی ہے کہ لحم الخنزیر میں ترکین اضافی ہے اور اس طرح کی ترکیب کے بعد جو ضمیر آتی ہے وہ مضاف کی طرف لوٹتی ہے، اس لئے فَاِنَّہٗ میں جو ضمیر ہے وہ لحم کی طرف لوٹے گی، اور معنی یہ ہوں گے کہ سور کا گوشت ناپاک ہے اس معنی کے اعتبار سے سور کے تمام اجزاء کا ناپاک ہونا ثابت نہ ہوگا۔
مذکورہ استدلال کا جواب : بعض علماء نے اس استدلال کا جواب دیا ہے کہ آیت ” کمثل الحمار یحمل اسفارا “ اور آیت واشکروا نعمۃ اللہ علیکم ان کنتم ایاہ تعبدون کی بھی یہی ترکیب ہے اور ان میں یحمل کا ضمیر اور ایاہ کی ضمیر مضاف الیہ کی طرف راجع ہے نہ کہ مضاف کی طرف اس لئے یہ ضروری نہیں کہ اس طرح کی ترکیب میں ہمیشہہ ضمیر کا مرجع مضاف کی طرف ہی راجع ہو۔
عیسائیوں کے نزدیک سور کا گوشت حرام ہے : اگرچہ اب عیسائی سور کے گوشت کو حرام نہیں سمجھتے تورات کے حصہ استثناء کے باب ١٤ کے دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اصل عیسائی مذہب مذہب میں سور قطعی حرام ہے۔
بائبل میں سور کے گوشت کی حرمت و نجاست : اور سور کہ اس کا کھر دو حصہ (چرواں) ہوتا ہے پر وہ جگالی نہیں کرتا وہ بھی تمہارے لئے ناپاک ہے۔ (اخبار ٨: ١١)
مزید تفصیل کے لئے جلد اول کے صفحہ نمبر۔۔۔۔۔۔۔۔۔ دیکھئے۔
چوتھے وہ جانور جو غیر اللہ کے لئے نام زد کردیا گیا ہو، اگر ذبح کرتے وقت بھی اس پر غیر اللہ کا نام کیا جائے تو وہ کھلم شرک ہے اور جانور بالاتفاق مردار کے حکم میں ہے۔ جیسا کہ زمانہ جاہلیت میں دستور تھا کہ جانور ذبح کرتے وقت بتوں کا نام لیا کرتے تھے، حضرت علی (رض) کے پاس آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ارشادات کی ایک تحریر تھی جسے وہ حفاظت کے خیال سے ہمیشہ تلوار کی میان میں رکھا کرتے تھے، اس تحریر کے الفاظ یہ تھے، اللہ تعالیٰ اس پر لعنت کرے جس نے غیر اللہ کا نام لے کر ذبح کیا اللہ تعالیٰ اس پر لعنت کرے جس نے زمین کی مخصوص علامات بدل دیں، اللہ اس پر لعنت فرمائے جس نے اپنے باپ پر لعنت کی، اللہ اس پر لعنت کرے کہ جس نے ایسے شخص کو پناہ دی کہ جو دین میں نئے شوشے نکالتا رہتا ہے۔ (رواہ مسلم)
پانچویں منخنقہ، یعنی وہ جانور جو گلاگھونٹ کر یا گردن مروڑ کر مار دیا گیا، یا خود ہی کسی جال یا پھندے میں پھنسنے کی وجہ سے دم گھٹ کر مرگیا ہو۔ چھٹی موقوذۃ، یعنی وہ جانور جو ضرب شدید کی وجہ سے مرگیا ہو، جیسے لاٹھی یا پتھر وغیرہ، تیرا گرانی کی طرف سے لگنے کے بجائے دستہ کی طرف سے لگا جس کی ضرب سے شکار مرگیا تو یہ بھی موقوذۃ کے حکم میں ہے جیسا کہ حضرت عدی بن حاتم (رض) کی روایت سے معلوم ہوتا ہے۔ جو شکار بندوق کی گولی سے ہلاک ہوگیا ہو اس کو فقہاء نے موقوذۃ میں شمار کیا ہے، امام جصاص نے حضرت عبد اللہ بن عمر (رض) سے نقل کیا ہے کہ فرماتے تھے، المقتولۃ بالبندقۃ تلک الموقوذۃُ ، گولی کے ذریعہ جو شکار مرا ہو وہ بھی موقوذہ ہے، امام ابو حنیفہ، شافعی، مالک (رض) وغیرہ اسی پر متفق ہیں۔
ساتویں متردیۃ، وہ جانور کہ جو کسی اونچی جگہ مثلاً پہاڑ ٹیلہ وغیرہ سے گر کر مرا ہوا سی طرح کنویں وغیرہ میں گر کر مرنے والا بھی اس میں داخل ہے اسی طرح تیر لگا ہوا جانور اگر پانی میں گر کر مرا تو وہ بھی متردیۃ میں شامل ہوگا، اس لئے کہ اس میں یہ احتمال ہے کہ اس کی موت پانی میں ڈوبنے کی وجہ سے ہوئی ہو۔ آٹھویں نطیحۃ، وہ جانور جو کسی دوسرے جانور کے سینگ مارنے یا ٹکر مارنے یا کسی تصادم مثلاً ریل، موٹر وغیرہ کی زد میں آکر مرجائے تو ایسا جانور بھی حرام ہے۔ نویں وہ جانور کہ جسے کسی درندے نے پھاڑ دیا ہو جس کے صدمہ سے وہ مرگیا ایسا جانور بھی حرام ہے۔
اِلاّ ما ذکیتم، یہ ماقبل میں مذکور نو جانوروں سے استثناء ہے، مطلب یہ ہے کہ اگر تم نے مذکور جانوروں میں سے کسی کو زندہ پالیا اور ذبح کرلیا تو وہ حلال ہے یہ استثناء اول چار قسموں سے متعلق نہیں ہے، اسلئے کہ مردار اور خون میں تو اس کا امکان ہی نہیں اور خنزیر اور مَا اُھِلَّ لغیر اللہ اپنی ذات سے حرام ہیں، ان کا ذبح کرنا نہ کرنا برابر ہے۔
دسویں استھانوں پر ذبح کیا ہوا جانور بھی حرام ہے، نُصُبْ ان پتھروں کو کہا جاتا ہے کہ جو دیوی دیوتاؤں کے نام پر نصب کئے جاتے ہیں اسی قسم کے ٣٦٠ پتھر کعبۃ اللہ کے اطراف میں نصب کئے ہوئے تھے زمانہ جاہلیت میں مشرکین ان کی پوجا کیا کرتے تھے اور ان کے پاس جانور لاکر ذبح کیا کرتے تھے موجودہ اصطلاح میں ان کو استھان اور آستانہ کہتے ہیں اور اس کو عبادت سمجھتے تھے۔
گیارہویں استقسام بالازلام تیروں کے ذریعہ قسمت آزمائی کرنا، نزول قرآن کے وقت عرب میں یہ طریقہ رائج تھا کہ جب کوئی اہم معاملہ درپیش ہوتا خواہ سفر سے متعلق ہو یا شادی و بیاہ وغیرہ سے تو اس کو کرنے یا نہ کرنے کا فیصلہ تیروں سے معلوم کرتے، کعبۃ اللہ میں دس تیر رکھے رہتے تھے ان میں سے بعض پر نعم اور بعض پر لا لکھا رہتا اور بعض خالی ہوتے جب کسی کو کسی اہم معاملہ میں فیصلہ مطلوب ہوتا تو وہ بیت اللہ کے خادم کے پاس جاتا اور اس کو اول کچھ نذرانہ پیش کرتا اس کے بعد قریش کے بت ہبل کی بندگی کے اقرار کے ساتھ چمڑے کے تھیلے میں جس میں وہ تیر رکھے رہتے تھے مجاور ہاتھ ڈال کر تیر نکالتا اگر نعم والا نکل آتا تو وہ اجازت کا اشارہ سمجھا جاتا اور اگر ’ لا ‘ موالا نکل آتا تو یہ ممانععت کا اشارہ سمجھا جاتا، اور خالی نکل آتا تو وہ عمل مکرر کیا جاتا تاآنکہ نعم یا لا والا تیر نکل آتا۔ استقسام کی دوسری صورت یہ ہوتی کہ دس لوگ موٹی اور فربہ بکریاں خریدتے ان کو ذبح کرنے کے بعد ان کا گوشت یکجا کردیتے اس کے بعد تھیلے میں سے ہر شریک، ایک تیر نکالتا، ہر تیر پر مختلف حصے لکھے ہوتے تھے کل اٹھائیس ہوتے تھے اور بعض تیر خالی بھی ہوتے تھے تیروں کی کل تعداد دس ہوتی تھی جس کے حصے میں جو تیر آتا اس لکھے ہوئے حصہ کا وہ حق دار ہوتا اور بعض لوگوں کے حصہ میں خالی تیر نکلتا تو وہ گوشت سے محروم رہتا، اس کے علاوہ اور بھی قسمت آزمائی کی صورتیں تھیں جو کہ قمار ہی کی قسمیں تھیں۔
ذلک فسق، یعنی قسمت آزمائی کا مذکورہ طریقہ فسق ہے، ذلک فسق، کا مصداق صرف استقسام بالازلام بھی ہوسکتا ہے، اور ما قبل میں مذکور تمام ممنوعات بھی۔
الیومَ یئسَ الذین کفروا مِنْ دینکم، الیوم سے مراد یوم فتح مکہ بھی ہوسکتا ہے اور مطلقا زمان حاضر بھی مراد ہوسکتا ہے مطلب یہ ہے کہ آج کفار تمہارے دین پر غالب آنے سے مایوس ہوچکے ہیں اسلئے اب تم ان سے کوئی خوف نہ رکھو صرف مجھ سے ڈرتے رہو۔
مایوس ہونے کا دوسرا مطلب : جب تک مکہ فتح نہیں ہوا تھا تو مشرکین مکہ کو یہ امید تھی کہ شاید اسلام کمزور اور ضعیف ہوجائے اور جو لوگ مسلمان ہوچکے ہیں وہ مرتد ہو کر واپس اپنے آبائی مذہب بت پرستی کی طرف پلٹ آئیں، فتح مکہ کے بعد مشرکین کی مذکورہ امید ناامیدی میں تبدیل ہوگئی اسی کا ذکر مذکورہ آیت میں ہے، کہ مشرکوں کا خوف تو اب ختم ہوا مگر ہر ایماندار کو اللہ کا خوف دل میں رکھنا ضروری ہے، ایسا ہو کہ اللہ سے نڈر ہو کر مسلمان کچھ ایسے کاموں میں مشغول ہوجائیں جن کی وجہ سے اللہ کی جو مدد مسلمانوں کے شامل حال ہے وہ موقوف ہوجائے جس کے نتیجے میں اسلام میں ضعف آجائے اور کافر غالب ہوجائیں۔ صحیح مسلم میں حضرت جابر (رض) کی روایت ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ جزیرۃ العرب میں شیطان کے بہکانے سے بت پرستی جو پھیلی ہوئی تھی وہ تو ایسی گئی کہ اب شیطان اس سے مایوس ہوگیا، لیکن آپس میں لڑانے کے لئے شیطان کا اثر باقی ہے
دین مکمل کردینے سے کیا مراد ہے ؟ دین کو مکمل کردینے سے مراد اس کو ایک مستقل نظام فکر اور اس کو ایک ایسا مکمل نظام تہذیب و تمدن بنادینا ہے جس میں زندگی کے جملہ مسائل کا جواب اصولاً یا تفصیلاً موجود ہو اور ہدایت و رہنمائی حاصل کرنے کے لئے اس سے باہر جانے کی ضرورت پیش نہ آئے۔
الیوم اکملت لکم دینکم، یہ آیت بہت اہم موقع پر نازل ہوئی تھی ذوالحجہ کی ٩ تاریخ تھی جمہ کا دن تھا عصر کے بعد کا وقت تھا آپ حجۃ الوداع کے موقع پر دعاء میں مصروف تھے، گویا ہر لحاظ سے نہایت مبارک موقع تھا۔ یہ آیت ایک طرف بےانتہاء مسرت کا پیغام تھا دوسری طرف اس میں ایک غم کا پہلو بھی تھا، یعنی اس آیت میں اس بات کا کھلا اشارہ تھا کہ تکمیل دین ہوچکی اور صاحب نبوت کا فرض پورا ہوچکا، چناچہ اس آیت کے نزول کے بعد آپ صرف ٤ ماہ بقید حیات رہے جب حضرت عمر (رض) نے یہ آیت سنی تو بےاختیار رونے لگے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت عمر سے معلوم کیا عمر کیوں روتے ہو ؟ عرض کیا جب تک دین مکمل نہ ہوا تھا ہمارے کمالات میں اضافہ ہوتا رہتا تھا، اب تکمیل کے بعد اس کی گنجائش کہاں ؟ اسلئے کے ہر کمال کیلئے زوال ہے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا سچ ہے۔ صحیح بخاری و مسلم میں ابوہریرہ کی روایت ہے جس میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پہلے صاحب شریعت نبی حضرت نوح (علیہ السلام) سے لیکر حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) تک کی شریعتوں کو ایک خوشنما مکان سے تشبیہ دیکر فرمایا کہ اس مکان میں ایک آخری اینٹ کی کسر تھی وہ آخری اینٹ میں ہوں کیونکہ میں خاتم النبیین ہوں۔
احکامی آخری آیت : حضرت عبد اللہ بن عباس فرماتے ہیں کہ الیوم اکملت لکم دینکم الخ، نزول کے اعتبار سے تقریبا آخری آیت ہے اس کے بعد احکام سے متعلق کوئی آیت نازل نہیں ہوئی، اس کے بعد صرف چند آیتیں ترہیب و ترغیب کی نازل ہوئیں، مذکورہ آیت جویں ذی الحجہ ١٠ ھ میں نازل ہوئی اور ١١ ھ بارہ ربیع الاول کو آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا وصال ہوا۔
غیرَ متجانفٍ لاثمٍ ، اسی مضمون کو سورة بقرہ آیت ١٧٣، فَمَنِ اضْطُرَّ غیرَ باغ ولا عادٍ فلا اثم علیہ، میں مزید وضاحت کے ساتھ بیان فرمایا ہے، جس کا خلاصہ یہ ہے، اس آیت میں حرام چیز کے استعمال کی اجازت تین شرطوں کے ساتھ دی گئی ہے، (١) یہ کہ واقعی مجبوری کی حالت ہو مثلاً بھوک یا پیاس کی وجہ سے جان بلب ہوگیا ہو یو بیماری کی وجہ سے جان کا خطرہ لاحق ہوگیا ہو اور اس حرام چیز کے علاوہ اور کوئی چیز میسر نہ ہو، (٢) دوسرے یہ کہ خدائی قانون کو توڑنے کی نیت نہ ہو، (٣) تیسرے یہ کہ ضرورت کی حد سے تجاوز نہ کرے مثلاً حرام چیز کے چند لقمے یا چند گھونٹ یا چند قطرے اگر جان بچا سکتے ہوں تو ان سے زیادہ اس چیز کا استعمال نہ ہونے پائے، احناف کے نزدیک مذکورہ آیت کا یہی مطلب ہے، مفسر علام نے متجانف کی تفسیر قطاع الطریق اور باغی سے اپنے مسلک شافعی کے مطابق کی ہے۔
10 Tafsir as-Saadi
یہ ہے اللہ تبارک و تعالیٰ کا وہ ارشاد : جس کا اس نے اس آیت کریمہ ﴿إِلَّا مَا يُتْلَىٰ عَلَيْكُمْ ﴾ (المائدہ :1؍5) میں حوالہ دیا ہے۔ معلوم ہونا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ نے جو چیز حرام ٹھہرائی ہے وہ اپنے بندوں کی حفاظت اور ان کو اس ضرر سے بچانے کے لئے حرام قرار دی ہے جو ان محرمات میں ہوتا ہے۔ کبھی تو اللہ تعالیٰ پر یہ ضرر اپنے بندوں کے سامنے بیان کردیتا ہے اور کبھی (اپنی حکمت کے تحت) اس ضرر کو بیان نہیں کرتا۔
اللہ تعالیٰ نے آگاہ فرمایا کہ اس نے ” مردار“ کو حرار قرار دیا ہے۔ مردار سے مراد وہ مرا ہوا جانور ہے جو شرعی طریقے سے ذبح ہوئے بغیر زندگی سے محروم ہوگیا ہو، پس اس جانور کا گوشت ضرر رساں ہونے کی وجہ سے حرام ہے اور وہ ضرر ہے اس کے اند رگوشت میں خون کا رک جانا، جس کے کھانے سے نقصان پہنچتا ہے اور اکثر جانور، جو کسی بیماری کی وجہ سے جو ان کی ہلاکت کا باعث ہوتی ہے، مر جاتے ہیں، وہ کھانے والے کے لئے نقصان کا باعث ہیں۔ البتہ مری ہوئی ٹڈی اور مچھلی اس حکم سے مستثنیٰ ہے، کیونکہ ان کا کھانا حلال ہے۔
[یہ استثناء حدیث سے ثابت ہے،(سنن ابن ماجہ حدیث :3218) اسی لئے صحیح ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ حدیث کے بغیر قرآن کو نہیں سمجھا جا سکتا۔ حدیث کے ساتھ ہی قرآن کی تفہیم اور اس کے احکامات کی تعمیل کی تکمیل ہوتی ہے۔ (ص۔ی) ]
﴿وَالدَّمُ ﴾ ” اور خون‘‘ یعنی بہتا ہوا خون، جیسا کہ ایک دوسری آیت میں اس کو اس صفت سے مقید بیان کیا گیا ہے۔ ﴿وَلَحْمُ الْخِنزِيرِ ﴾” اور سور کا گوشت“ اس حرمت میں اس کے تمام اجزا شامل ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے تمام ناپاک درندوں میں سے خنزیر کو خاص طور پر منصوص کیا ہے کیونکہ اہل کتاب میں سے نصاریٰ دعویٰ کرتے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے خنزیر کو حلال قرار دیا ہے۔۔۔ یعنی نصاریٰ سے دھوکہ نہ کھانا، کیونکہ یہ خنزیر بھی حرام اور من جملہ خبائث کے ہے۔
﴿وَمَا أُهِلَّ لِغَيْرِ اللَّـهِ بِهِ ﴾ ” اور وہ جس پر غیر اللہ کا نام پکارا جائے“ یعنی اس پر بتوں، اولیاء، کواکب اور دیگر مخلوق کا نام لیا گیا ہو۔ جس طرح ذبیحہ پر ذبح کرتے وقت اللہ تعالیٰ کا نام لینا، اسے پاک کردیتا ہے اسی طرح غیر اللہ کا نام، ذبیحہ کو معنوی طور پر ناپاک کردیتا ہے۔ کیونکہ یہ شرک ہے ﴿وَالْمُنْخَنِقَةُ ﴾ ” اور جو جانور گلا گھٹ کر مر جائے۔‘‘ یہ وہ مرا ہوا جانور ہے جس کو ہاتھ سے، رسی سے یا کسی تنگ چیز میں اس کا سرداخل کر کے جہاں سے نکلنا ممکن نہ ہو اس کا گلا گھونٹ کر ہلاک کردیا گیا ہو ﴿وَالْمَوْقُوذَةُ ﴾ ” اور جو چوٹ لگ کر مر جائے۔“ اس مرے ہوئے جانور کہا جاتا ہے جو لاٹھی، پتھر یا لکڑی وغیرہ کی ضرب سے مرا ہو یا اس پر قصداً یا بغیر قصد کے دیوار وغیرہ گرگئی ہو ﴿ وَالْمُتَرَدِّيَةُ ﴾ ”اور جو گر کر مر جائے۔“ یعنی جو بلند جگہ مثلاً پہاڑ، دیوار یا چھت وغیرہ سے گر کر مر گیا ہو ﴿وَالنَّطِيحَةُ ﴾اس مرے ہوئے جانور کو کہتے ہیں جسے کسی دوسرے جانور نے سینگ مار کر ہلاک کردیا ہو﴿وَمَا أَكَلَ السَّبُعُ ﴾ جسے بھیڑیئے، شیر، چیتے یا کسی شکاری پرندے وغیرہ نے پھاڑ کھایا ہو۔ اگر درندے کے پھاڑ کھانے سے جانور مر جائے تو یہ حلال نہیں۔
اللہ تبارک و تعالیٰ کا ارشاد ﴿ إِلَّا مَا ذَكَّيْتُمْ ﴾ ” مگر جس کو تم (مرنے سے پہلے) ذبح کرلو۔“ گلا گھٹ کر مرنے والے، چوٹ لگ کر مرنے والے، بلندی سے گر کر مرنے والے اور درندے کے پھاڑ کھانے سے مرنے والے جانور کی طرف راجع ہے۔ اگر اس جانور میں پوری طرح زندگی موجود ہو اور اسے ذبح کرلیا جائے تو یہ جانور شرعی طور پر مذبوح ہے۔ بنابریں فقہاء کہتے ہیں ” اگر کسی درندے وغیرہ نے کسی جانور کو چیر پھاڑ کر اس کی آنتیں اور دیگر اندرونی اعضا کو باہر نکال کر علیحدہ علیحدہ کردیا ہو یا اس کا حلقوم کاٹ دیا ہو تو اس میں زندگی کا وجود اور عدم وجود مساوی ہیں، کیونکہ اب اس کو ذبح کرنے کا کوئی فائدہ نہیں۔“ بعض فقہاء اس میں صرف زندگی کے وجود کا اعتبار کرتے ہیں۔ اگر اس جانور میں بھی زندگی کا وجود ہو اور اس حالت میں اس کو ذبح کرلیا جائے تو وہ حلال ہے خواہ اس کا اندرونی حصہ بکھیر ہی کیوں نہ دیا گیا ہو۔ آیت کریمہ کا ظاہر اسی پر دلالت کرتا ہے۔
﴿وَأَن تَسْتَقْسِمُوا بِالْأَزْلَامِ ﴾” اور یہ کہ پانسوں کے ذریعے سے قسمت معلوم کرو۔“ یعنی تمہیں تیروں کے ذریعے سے قسمت کا حال معلوم کرنے سے منع کردیا گیا۔ (استقسام) کے معنی یہ ہیں کہ جو تمہارے مقسوم اور مقدر میں ہے اسے طلب کرنا۔ جاہلیت کے زمانے میں تین تیر ہوتے تھے جن کو اس کام کے لئے استعمال کیا جاتا تھا جن میں سے ایک پر لکھا ہوتا تھا کہ ” یہ کام کر“ دوسرے پر لکھا ہوتا تھا ” یہ کام نہ کر“ اور تیسرا تیر خالی ہوتا تھا۔ جب کوئی شخص کسی سفر پر روانہ ہونے لگتا یا شادی وغیرہ کرتا تو تینوں تیر کسی ڈوگنی وغیرہ میں رکھ کر گھماتے پھر ان میں سے ایک تیر نکال لیتے اگر اس پر لکھا ہوتا ’’یہ کام کر‘‘ تو وہ یہ کام کرلیتا اور اگر لکھا ہوتا ” یہ کام نہ کر“ تو وہ اس کام میں ہاتھ نہ ڈالتا۔ اگر وہ تیر نکل آتا جس پر کچھ بھی نہ لکھا ہوتا تو وہ اس عمل کا اعادہ کرتا یہاں تک کہ لکھا ہوا تیر نکل آتا۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے ان پر اس عمل کو اس صورت میں یا اس سے مشابہ صورت میں حرام قرار دے دیا اور اس کے عوض ان کو تمام امور میں اپنے رب سے استخارہ کرنے کا حکم دیا (جیسا کہ حدیث نبوی سے استخارے کی تاکید ہے۔ جامع الترمذی، حدیث :480)
﴿ذَٰلِكُمْ فِسْقٌ ﴾ ” یہ سب گناہ (کے کام) ہیں۔“ یہ ان تمام محرمات کی طرف اشارہ ہے جن کو اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کی حفاظت کے لئے حرام قرار دیا ہے۔ یہ تمام محرمات فسق ہیں، یعنی اللہ تعالیٰ کی اطاعت سے نکل کر شیطان کی اطاعت میں داخل ہونا ہے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے بندوں پر احسان جتلاتے ہوئے فرماتا ہے : ﴿الْيَوْمَ يَئِسَ الَّذِينَ كَفَرُوا مِن دِينِكُمْ﴾ وہ دن جس کی طرف آیت کریمہ میں اشارہ کیا گیا ہے وہ عرفہ کا دن ہے جب اللہ تعالیٰ نے اپنے دین کو مکمل فرمایا : اپنے بندے اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی مدد کی اور اہل شرک پوری طرح بے یار و مددگار ہوگئے حالانکہ وہ اس سے پہلے اہل ایمان کو ان کے دین سے پھیرنے کی بہت خواہش رکھتے تھے۔ جب انہوں نے اسلام کا غلبہ، اس کی فتح اور بالا دستی دیکھی تو اہل ایمان کو دین سے پھیرنے سے پوری طرح مایوس ہوگئے اور اب ان کی حالت یہ ہوگئی تھی کہ وہ اہل ایمان سے خوف کھانے لگے۔ بنا بریں، اس سال یعنی 10 ھ میں جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آخری حج کیا تو اس حج میں کسی مشرک نے حج نہیں کیا اور نہ کسی نے عریاں ہو کر بیت اللہ کا طواف کیا۔ اس لئے فرمایا : ﴿فَلَا تَخْشَوْهُمْ وَاخْشَوْنِ ﴾ ” تو ان سے مت ڈرو اور مجھی سے ڈرتے رہو۔“ یعنی مشرکین سے نہ ڈرو بلکہ صرف اللہ تعالیٰ سے ڈرو جس نے مشرکین کے مقابلے میں تمہاری مدد فرمائی اور ان کو تنہا چھوڑ دیا اور ان کے مکر و فریب اور ان کی سازشیں ان کے سینوں ہی میں لوٹا دیں۔
﴿الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ ﴾ ” آج میں نے تمہارے لئے تمہارے دین کو مکمل کردیا‘‘ یعنی اپنی نصرت کا اتمام کر کے اور ظاہری و باطنی طور پر اور اصول و فروع میں شریعت کی تکمیل فرما کر۔ اسی لئے احکام دین یعنی اس کے تمام اصول و فروع میں کتاب و سنت کافی ہیں۔ اگر تکلیف کا شکار کوئی شخص یہ دعویٰ کرتا ہے کہ لوگ عقائد اور احکام دین کی معرفت کے لئے کتاب و سنت کے علم کے علاوہ دیگر علوم مثلاً علم کلام وغیرہ کے محتاج ہیں، تو وہ جاہل اور اپنے دعویٰ میں جھوٹا ہے گویا وہ اس زعم میں مبتلا ہے کہ دین کی تکمیل اس کے اقوال اور ان نظریات کے ذریعے سے ہوئی ہے جس کی طرف وہ دعوت دیتا ہے اور یہ سب سے بڑا ظلم اور اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو جاہل قرار دینا ہے۔
﴿وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي ﴾ ” اور میں نے تم پر اپنی (ظاہری اور باطنی) نعمت پوری کردی“ ﴿وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلَامَ دِينًا ﴾” اور میں نے تمہارے لئے اسلام کو دین کے طور پر پسند کرلیا۔“ یعنی میں نے اسلام کو تمہارے لئے دین کے طور پر اور تمہیں اسلام کے لئے چن لیا ہے۔ اب اپنے رب کی شکر گزاری کے لئے اس دین کو قائم کرو اور اس ہستی کی حمد و ستائش کرو جس نے تمہیں بہترین، عالی شان اور کامل ترین دین سے نواز کر تم پر احسان فرمایا۔
﴿فَمَنِ اضْطُرَّ ﴾” پس جو شخص ناچار ہوجائے۔“ یعنی جسے ضرورت ان محرمات میں سے کچھ کھانے پر مجبور کر دے جن کا ذکر﴿حُرِّمَتْ عَلَيْكُمُ الْمَيْتَةُ ﴾کے تحت گزر چکا ہے ﴿فِي مَخْمَصَةٍ﴾ ” بھوک کی وجہ سے“ یعنی اگر وہ سخت بھوکا ہو ﴿غَيْرَ مُتَجَانِفٍ لِّإِثْمٍ ﴾ ” گناہ کی طرف مائل نہ ہو۔“ بایں طور کہ وہ ان محرمات کو اس وقت تک نہ کھائے جب تک کہ وہ اضطراری حالت میں نہ ہو اور ضرورت سے بڑھ کر نہ کھائے ﴿فَإِنَّ اللَّـهَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ ﴾ بے شک اللہ تعالیٰ بخشنے والا اور بے پایاں رحمت کا مالک ہے کہ اس نے بندے کے لئے اس اضطراری حال میں محرمات کو کھانا جائز قرار دے دیا اور اس کی نیت کے مطابق اور دین میں کوئی نقص لاحق کئے بغیر اللہ تعالیٰ نے اس پر رحم فرمایا۔
11 Mufti Taqi Usmani
tum per murdar janwer aur khoon aur soowar ka gosht aur woh janwer haram kerdiya gaya hai jiss per Allah kay siwa kissi aur ka naam pukara gaya ho , aur woh jo gala ghutney say mara ho , aur jissay chott maar ker halak kiya gaya ho , aur jo oopper say gir ker mara ho , aur jissay kissi janwer ney seeng maar ker halak kiya ho , aur jissay kissi darinday ney khaliya ho , illa yeh kay tum ( uss kay marney say pehlay ) uss ko zibah ker-chukay ho , aur woh ( janwer bhi haram hai ) jissay button ki qurban gaah per zibah kiya gaya ho . aur yeh baat bhi ( tumharay liye haram hai ) kay tum joye kay teeron say ( gosht waghera ) taqseem kero . yeh sari baaten sakht gunah ki hain . aaj kafir log tumharay deen ( kay maghloob honey ) say na-umeed hogaye hain , lehaza unn say matt daro , aur mera darr dil mein rakho . aaj mein ney tumharay liye tumhara deen mukammal kerdiya , tum per apni naimat poori kerdi , aur tumharay liye Islam ko deen kay tor per ( hamesha kay liye ) pasand kerliya . ( lehaza iss deen kay ehkaam ki poori pabandi kero ) haan jo shaks shadeed bhook kay aalam mein bilkul majboor hojaye ( aur uss majboori mein unn haram cheezon mein say kuch kha ley ) , ba-shartey-kay gunah ki raghbat ki bana per aisa naa kiya ho , to beyshak Allah boht moaaf kernay wala , bara meharban hai .
12 Tafsir Ibn Kathir
پرندوں کے بارے میں نہیں، شیخ ابو علی افصاح میں فرماتے ہیں جب ہم نے یہ طے کرلیا کہ اس شکار کا کھانا حرام ہے جس میں سے شکاری کتے نے کھالیا ہو تو جس شکار میں سے شکاری پرند کھالے اس میں دو وجوہات ہیں۔ لیکن قاضی ابو الطیب نے اس فرع کا اور اس ترتیب سے انکار کیا ہے۔ کیونکہ امام شافعی نے ان دونوں کو صاف لفظوں میں برابر رکھا ہے۔ واللہ سبحانہ و تعالیٰ اعلم۔ متردیہ وہ ہے جو پہاڑی یا کسی بلند جگہ سے گر کر مرگیا ہو تو وہ جانور بھی حرام ہے، ابن عباس یہی فرماتے ہیں۔ قتادہ فرماتے ہیں یہ وہ ہے جو کنویں میں گرپڑے، نطیحہ وہ ہے جسے دوسرا جانور سینگ وغیرہ سے ٹکر لگائے اور وہ اس صدمہ سے مرجائے، گو اس سے زخم بھی ہوا ہو اور گو اس سے خون بھی نکلا ہو، بلکہ گو ٹھیک ذبح کرنے کی جگہ ہی لگا ہو اور خون بھی نکلا، یہ لفظ معنی میں مفعول یعنی منطوحہ کے ہے، یہ وزن عموماً کلام عرب میں بغیر تے کے آتا ہے جیسے عین کحیل اور کف خضیب ان مواقع میں کحیلتہ اور خضیبتہ نہی کہتے، اس جگہ تے اس لئے لایا گیا ہے کہ یہاں اس لفظ کا استعمال قائم مقام اسم کے ہے، جیسے عرب کا یہ کلام طریقتہ طویلتہ۔ بعض نحوی کہتے ہیں تاء تانیث یہاں اس لئے لایا گیا ہے کہ پہلی مرتبہ ہی ثانیث پر دلالت ہوجائے بخلاف کحیل اور خضیب کے کہ وہاں تانیث کلام کے ابتدائی لفظ سے معلوم ہوتی ہے۔ آیت (ما اکل اسبع) سے مراد وہ جانور ہے جس پر شیر، بھیڑیا، چیتا یا کتا وغیرہ درندہ حملہ کرے اور اس کا کوئی حصہ کھاجائے اور اس سبب سے مرجائے تو اس جانور کو کھانا بھی حرام ہے، اگرچہ اس سے خون بہا ہو بلکہ اگرچہ ذبح کرنے کی جگہ سے ہی خون نکلا ہو تاہم وہ جانور بالاجماع حرام ہے۔ اہل جاہلیت میں ایسے جانور کا بقیہ کھالیا کرتے تھے، اللہ تعالیٰ نے مومنوں کو اس سے منع فرمایا۔ پھر فرماتا ہے مگر وہ جسے تم ذبح کرلو، یعنی گلا گھونٹا، لٹھ مارا ہوا، اوپر سے گرپڑا ہو، سینگ اور ٹکر لگا ہو، درندوں کا کھایا ہو، اگر اس حالت میں تمہیں مل جائے کہ اس میں جان باقی ہو اور تم اس پر باقاعدہ اللہ کا نام لے کر چھری پھیر لو تو پھر یہ جانور تمہارے لئے حلال ہوجائیں گے۔ حضرت ابن عباس سعید بن جیبر، حسن اور سدی یہی فرماتے ہیں، حضرت علی سے مروی ہے اگر تم ان کو اس حالت میں پالو کہ چھری پھیرتے ہوئے وہ دم رگڑیں یا پیر ہلائیں یا آنکھوں کے ڈھیلے پھرائیں تو بیشک ذبح کر کے کھالو، ابن جریر میں آپ سے مروی ہے کہ جس جانور کو ضرب لگی ہو یا اوپر سے گرپڑا ہو یا ٹکر لگی ہو اور اس میں روح باقی ہو اور تمہیں وہ ہاتھ پیر رگڑتا مل جائے تو تم اسے ذبح کر کے کھا سکتے ہو۔ حضرت طاؤس، حسن، قتادہ، عبید بن عمیر، ضحاک اور بہت سے حضرات سے مروی ہے کہ بوقت ذبح اگر کوئی حرکت بھی اس جانور کی ایسی ظاہر ہوجائے جس سے یہ معلوم ہو کہ اس میں حیات ہے تو وہ حلال ہے۔ جمہور فقہاء کا یہی مذہب حرکت بھی اس جانور کی ایسی ظاہر ہوجائے جس سے یہ معلوم ہو کہ اس میں حیات ہے تو وہ حلال ہے۔ جمہور فقہاء کا یہی مذہب ہے تینوں اماموں کا بھی یہی قول ہے، امام مالک اس بکری کے بارے میں جسے بھیڑیا پھاڑ ڈالے اور اس کی آنتیں نکل آئیں فرماتے ہیں میرا خیال ہے کہ اسے ذبح نہ کیا جائے اس میں سے کس چیز کا ذبیحہ ہوگا ؟ ایک مرتبہ آپ سے سوال ہوا کہ درندہ اگر حملہ کر کے بکری کی پیٹھ توڑ دے تو کیا اس بکری کو جان نکلنے سے پہلے ذبح کرسکتے ہیں ؟ آپ نے فرمایا اگر بالکل آخر تک پہنچ گیا ہے تو میری رائے میں نہ کھانی چاہئے اور اگر اطراف میں یہ ہے تو کوئی حرج نہیں، سائل نے کہا درندے نے اس پر حملہ کیا اور کود کر اسے پکڑ لیا، جس سے اس کی کمر ٹوٹ گئی ہے تو آپ نے فرمایا مجھے اس کا کھانا پسند نہیں کیونکہ اتنی زبردست چوٹ کے بعد زندہ نہیں رہ سکتی، آپ سے پھر پوچھا گیا کہ اچھا اگر پیٹ پھاڑ ڈالا اور آنتیں نہیں نکلیں تو کیا حکم ہے، فرمایا میں تو یہی رائے رکھتا ہوں کہ نہ کھائی جائے۔ یہ ہے امام مالک کا مذہب لیکن چونکہ آیت عام ہے اس لئے امام صاحب نے جن صورتوں کو مخصوص کیا ہے ان پر کوئی خاص دلیل چاہئے، واللہ اعلم۔ بخاری و مسلم میں حضرت رافع بن خدیج سے مروی ہے کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سوال کیا۔ '' حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہم کل دشمن سے لڑائی میں باہم ٹکرانے والے ہیں اور ہمارے ساتھ چھریاں نہیں کیا ہم بانس سے ذبح کرلیں '' آپ نے فرمایا '' جو چیز خون بہائے اور اس پر اللہ کا نام لیا جائے، اسے کھالو، سوائے دانت اور ناخن کے، یہ اس لئے کہ دانت ہڈی ہے اور ناخن حبشیوں کی چھریاں ہیں '' مسند احمد اور سنن میں ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پوچھا گیا کہ '' ذبیحہ صرف حلق اور نرخرے میں ہی ہوتا ہے ؟ '' آپ نے فرمایا '' اگر تو نے اس کی ران میں بھی زخم لگا دیا تو کافی ہے '' یہ حدیث ہے تو سہی لیکن یہ حکم اس وقت ہے جبکہ صحیح طور پر ذبح کرنے پر قادر نہ ہوں۔ مجاہد فرماتے ہیں یہ پرستش گاہیں کعبہ کے اردگرد تھیں، ابن جریج فرماتے ہیں '' یہ تین سو ساٹھ بت تھے، جاہلیت کے عرب ان کے سامنے اپنے جانور قربان کرتے تھے اور ان میں سے جو بیت اللہ کے بالکل متصل تھا، اس پر ان جانوروں کا خون چھڑکتے تھے اور گوشت ان بتوں پر بطور چڑھاوا چڑھاتے تھے '' پس اللہ تعالیٰ نے یہ کام مومنوں پر حرام کیا اور ان جانوروں کا کانا بھی حرام کردیا۔ اگرچہ ان جانوروں کے ذبح کرنے کے وقت بسم اللہ بھی کہی گئی ہو کیونکہ یہ شرک ہے جسے اللہ تعالیٰ وحدہ لا شریک نے اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حرام کیا ہے، اور اسی لائق ہے، اس جملہ کا مطلب بھی یہی ہے کیونکہ اس سے پہلے ان کی حرمت بیان ہوچکی ہے جو اللہ کے سوا دوسروں کے نام پر چڑھائے جائیں۔ (ازلام) سے تقسیم کرنا حرام ہے، یہ جاہلیت کے عرب میں دستور تھا کہ انہوں نے تین تیر رکھ چھوڑے تھے، ایک پر لکھا ہوا تھا افعل یعنی کر، دوسرے پر لکھا ہوا تھا لاتعفل یعنی نہ کر، تیسرا خالی تھا۔ بعض کہتے ہیں ایک پر لکھا تھا مجھے میرے رب کا حکم ہے، دوسرے پر لکھا تھا مجھے میرے رب کی ممانعت ہے، تیسرا خالی تھا اس پر کچھ بھی لکھا ہوا نہ تھا۔ بطور قرعہ اندازی کے کسی کام کے کرنے نہ کرنے میں جب انہیں تردد ہوتا تو ان تیروں کو نکالتے، اگر حکم '' کر '' نکلا تو اس کام کو کرتے اگر ممانعت کا تیر نکلا تو باز آجاتے اگر خالی تیر نکلا تو پھر نئے سرے سے قرعہ اندازی کرتے، ازلام جمع ہے زلم کی اور بعض زلم بھی کہتے ہیں۔ استسقام کے معنی ان تیروں سے تقسیم کی طلب ہے، قریشیوں کا سب سے بڑا بت ہبل خانہ کعبہ کے اندر کے کنوئیں پر نصب تھا، جس کنویں میں کعبہ کے ہدیے اور مال جمع رہا کرتے تھے، اس بت کے پاس سات تیر تھے، جن پر کچھ لکھا ہوا تھا جس کام میں اختلاف پڑتا یہ قریشی یہاں آکر ان تیروں میں سے کسی تیر کو نکالتے اور اس پر جو لکھا پاتے اسی کے مطابق عمل کرتے۔ بخاری و مسلم میں ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب کعبہ میں داخل ہوئے تو وہاں حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل کے مجسمے گڑے ہوئے پائے، جن کے ہاتھوں میں تیر تھے تو آپ نے فرمایا اللہ انہیں غارت کرے، انہیں خوب معلوم ہے کہ ان بزرگوں نے کبھی تیروں سے فال نہیں لی۔ صحیح حدیث میں ہے کہ سراقہ بن مالک بن جعثم جب نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور حضرت ابوبکر صدیق کو ڈھونڈنے کیلئے نکلا کہ انہیں پکڑ کر کفار مکہ کے سپرد کرے اور آپ اس وقت ہجرت کر کے مکہ سے مدینے کو جا رہے تھے تو اس نے اسی طرح قرعہ اندازی کی اس کا بیان ہے کہ پہلی مرتبہ وہ تیر نکلا جو میری مرضی کے خلاف تھا میں نے پھر تیروں کو ملا جلا کر نکالا تو اب کی مرتبہ بھی یہی نکلا تو انہیں کوئی ضرر نہ پہنچا سکے گا، میں نے پھر نہ مانا تیسری مرتبہ فال لینے کیلئے تیر نکالا تو اب کی مرتبہ بھی یہی تیر نکلا لیکن میں ہمت کر کے ان کا کوئی لحاظ نہ کر کے انعام حاصل کرنے اور سرخرو ہونے کیلئے تیر نکالا تو اب کی مرتبہ بھی یہی تیر نکلا لیکن میں ہمت کر کے ان کا کوئی لحاظ نہ کر کے انعام حاصل کرنے اور سرخرو ہونے کیلئے آپ کی طلب میں نکل کھڑا ہوا۔ اس وقت تک سراقہ مسلمان نہیں ہوا تھا، یہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا کچھ نہ بگاڑ سکا اور پھر بعد میں اسے اللہ نے اسلام سے مشرف فرمایا۔ ابن مردویہ میں ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرماتے ہیں '' وہ شخص جنت کے بلند درجوں کو نہیں پاسکتا جو کہانت کرے، یا تیر اندازی کرے یا کسی بدفالی کی وجہ سے سفر سے لوٹ آئے '' حضرت مجاہد نے یہ بھی کہا ہے کہ عرب ان تیروں کے ذریعہ اور فارسی اور رومی پانسوں کے ذریعہ جوا کھیلا کرتے تھے جو مسلمانوں پر حرام ہے۔ ممکن ہے کہ اس قول کے مطابق ہم یوں کہیں کہ تھے تو یہ تیر استخارے کیلئے مگر ان سے جو ابھی گاہے بگاہے کھیل لیا کرتے۔ واللہ اعلم۔ اسی سورت کے آخر میں اللہ تعالیٰ نے جوئے کو بھی حرام کیا ہے اور فرمایا '' ایمان والو ! شراب، جواء، بت اور تیر نجس اور شیطانی کام ہیں، تم ان سے الگ رہو تاکہ تمہیں نجات ملے، شیطان تو یہ چاہتا ہے کہ ان کے ذریعہ تمہارے درمیان عداوت و بغض ڈال دے '' اسی طرح یہاں بھی فرمان ہوتا ہے کہ تیروں سے تقسیم طلب کرنا حرام ہے، اس کام کا کرنا فسق، گمراہی، جہالت اور شرک ہے۔ اس کے بجائے مومنوں کو حکم ہوا کہ جب تمہیں اپنے کسی کام میں تردد ہو تو تم اللہ تعالیٰ سے استخارہ کرلو، اس کی عبادت کر کے اس سے بھلائی طلب کرو۔ مسند احمد، بخاری اور سنن میں مروی ہے حضرت جابر بن عبداللہ فرماتے ہیں ہمیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جس طرح قرآن کی سورتیں سکھاتے تھے، اسی طرح ہمارے کاموں میں استخارہ کرنا بھی تعلیم فرماتے تھے، آپ ارشاد فرمایا کرتے تھے کہ جب تم سے کسی کو کوئی اہم کام آپڑے تو اسے چاہئے کہ دو رکعت نماز نفل پڑھ کر یہ دعا پڑھے اللھم انی استخیرک بعلمک واستقدرک بقدرتک واسئلک من فضلک العظیم فانک تقدر ولا اقدر وتعلم اولا اعلم وانت علام الغیوب اللھم ان کنت تعلم ان ھذا الامر خیر لی فی دینی ودنیای ومعاشی وعاقبتہ امری فقدرہ لی ویسرہ لی ثم بارک لی فیہ وان کنت تعلم انہ شر لی فی دینی ونیای ومعاشی وعاقبتہ امری فاصرفہ عنی واقدرلی الخیر حیث کان ثم رضنی بہ۔ یعنی اے اللہ میں تجھ سے تیرے علم کے ذریعہ بھلائی طلب کرتا ہوں اور تیری قدرت کے وسیلے سے تجھ سے قدرت طلب کرتا ہوں اور تجھ سے تیرے بڑے فضل کا طالب ہوں، یقینا تو ہر چیز پر قادر ہے اور میں محض مجبور ہوں، تو تمام علم والا ہے اور میں مطلق بےعلم ہوں، تو ہی تمام غیب کو بخوبی جاننے والا ہے، اے میرے اللہ اگر تیرے علم میں یہ کام میرے لئے دین دنیا میں آغاز و انجام کے اعتبار سے بہتر ہی بہتر ہے تو اسے میرے لئے مقدر کر دے اور اسے میرے لئے آسان بھی کر دے اور اس میں مجھے ہر طرح کی برکتیں عطا فرما اور اگر تیرے علم میں یہ کام میرے لئے دین کی دنیا زندگی اور انجام کار کے لحاظ سے برا ہے تو اسے مجھ سے دور کر دے اور مجھے اس سے دور کر دے اور میرے لئے خیرو برکت جہاں کہیں ہو مقرر کر دے پھر مجھے اسی سے راضی و ضا مند کر دے۔ دعا کے یہ الفاظ مسند احمد میں ہیں ھذا الامر جہاں ہے وہاں اپنے کام کا نام لے مثلاً نکاح ہو تو ھذا النکاح سفر میں ہو تو ھذا السفر بیوپار میں ہو تو ھذا التجارۃ وغیرہ۔ بعض روایتوں میں خیر لی فی دینی سے امری تک کے بجائے یہ الفاظ ہیں۔ دعا (خیر لی فی عاجل امری و اجلہ) ۔ امام ترمذی اس حدیث کو حسن غریب بتلاتے ہیں، پھر فرماتا ہے آج کافر تمہارے دین سے مایوس ہوگئے، یعنی ان کی یہ امیدیں خاک میں مل گئیں کہ وہ تمہارے دین میں کچھ خلط ملط کرسکیں یعنی اپنے دین کو تمہارے دین میں شامل کرلیں۔ چناچہ صحیح حدیث میں ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے '' فرمایا شیطان اس سے تو مایوس ہوچکا ہے کہ نمازی مسلمان جزیرہ عرب میں اس کی پرستش کریں، ہاں وہ اس کوشش میں رہے گا کہ مسلمانوں کو آپس میں ایک دوسرے کے خلاف بھڑکائے۔ '' یہ بھی ہوسکتا ہے کہ مشرکین مکہ اس سے مایوس ہوگئے کہ مسلمانوں سے مل جل کر رہیں، کیونکہ احکام اسلام نے ان دونوں جماعتوں میں بہت کچھ تفاوت ڈال دیا، اسی لئے حکم ربانی ہو رہا ہے کہ مومن صبر کریں، ثابت قدم رہیں اور سوائے اللہ کے کسی سے نہ ڈریں، کفار کی مخالفت کی کچھ پرواہ نہ کریں، اللہ ان کی مدد کرے گا اور انہیں اپنے مخالفین پر غلبہ دے گا اور ان کے ضرر سے ان کی محافظت کی کچھ پرواہ نہ کریں، اللہ ان کی مدد کرے گا اور انہیں اپنے مخالفین پر غلبہ دے گا اور ان کے ضرر سے ان کی محافظت کریگا اور دنیا و آخرت میں انہیں بلند وبالا رکھے گا۔ پھر اپنی زبردست بہترین اعلیٰ اور افضل تر نعمت کا ذکر فرماتا ہے کہ '' میں نے تمہارا دین ہر طرح اور ہر حیثیت سے کامل و مکمل کردیا، تمہیں اس دین کے سوا کسی دین کی احتیاج نہیں، نہ اس نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سوا اور کسی بنی کی تمہیں حاجت ہے، اللہ نے تمہارے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو خاتم الانبیاء کیا ہے، انہیں تمام جنوں اور انسانوں کی طرف بھیجا ہے، حلال وہی ہے جسے وہ حلال کہیں، حرام وہی ہے جسے وہ حرام کہیں، دین وہی ہے جسے یہ مقرر کریں، ان کی تمام باتیں حق و صداقت والی، جن میں کسی طرح کا جھوٹ اور تضاد نہیں ''۔ جیسے فرمان باری ہے آیت (وَتَمَّتْ كَلِمَتُ رَبِّكَ صِدْقًا وَّعَدْلًا) 6 ۔ الانعام :1145) یعنی تیرے رب کا کلمہ پورا ہوا، جو خبریں دینے میں سچا ہے اور حکم و منع میں عدل والا ہے۔ دین کو کامل کرنا تم پر اپنی نعمت کو بھرپور کرنا ہے چونکہ میں خود تمہارے اس دین اسلام پر خوش ہوں، اس لئے تم بھی اسی پر راضی رہو، یہی دین اللہ کا پسندیدہ، اسی کو دے کر اس نے اپنی افضل رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بھیجا ہے اور اپنی اشرف کتاب نازل فرمائی ہے۔ حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ اس دین اسلام کو اللہ تعالیٰ نے تمہارے لئے کامل کردیا ہے اور اپنے نبی اور مومنوں کو اس کا کامل ہونا خود اپنے کلام میں فرما چکا ہے اب یہ رہتی دنیا تک کسی زیادتی کا محتاج نہیں، اسے اللہ نے پورا کیا ہے جو قیامت تک ناقص نہیں ہوگا۔ اس سے اللہ خوش ہے اور کبھی بھی ناخوش نہیں ہونے والا۔ حضرت سدی فرماتے ہیں یہ آیت عرفہ کے دن نازل ہوئی، اس کے بعد حلال و حرام کا کوئی حکم نہیں اترا، اس حج سے لوٹ کر اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا انتقال ہوگیا، حضرت اسماء بنت عمیس فرماتی ہیں '' اس آخری حج میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ میں بھی تھی، ہم جا رہے تھے اتنے میں حضرت جبرائیل کی تجلی ہوئی حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنی اونٹنی پر جھک پڑے وحی اترنی شروع ہوئی، اونٹنی وحی کے بوجھ کی طاقت نہیں رکھتی تھی۔ میں نے اسی وقت اپنی چادر اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر اڑھا دی ''۔ ابن جریر وغیرہ فرماتے ہیں اس کے بعد اکیاسی دن تک رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حیات رہے، حج اکبر والے دن جبکہ یہ آیت اتری تو حضرت عمر رونے لگے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سبب دریافت فرمایا تو جواب دیا کہ ہم دین کی تعمیل میں کچھ زیادہ ہی تھے، اب وہ کامل ہوگیا اور دستور یہ ہے کہ کمال کے بعد نقصان شروع ہوجاتا ہے، آپ نے فرمایا سچ ہے، اسی معنی کی شہادت اس ثابت شدہ حدیث سے ہوتی ہے جس میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا یہ فرمان ہے کہ اسلام غربت اور انجان پن سے شروع ہوا اور عنقریب پھر غریب انجان ہوجائیگا، پس غرباء کیلئے خوشخبری ہے۔ مسند احمد میں ہے کہ ایک یہودی نے حضرت فاروق اعظم سے کہا تم جو اس آیت ( ۭ اَلْيَوْمَ اَ كْمَلْتُ لَكُمْ دِيْنَكُمْ وَاَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِيْ وَرَضِيْتُ لَكُمُ الْاِسْلَامَ دِيْنًا) 5 ۔ المائدہ :3) کو پڑھتے ہو اگر وہ ہم یہودیوں پر نازل ہوتی تو ہم اس دن کو عید منا لیتے '' حضرت عمر نے فرمایا واللہ مجھے علم ہے کہ آیت کس وقت اور کس دن نازل ہوئی، عرفے کے دن جمعہ کی شام کو نازل ہوئی ہے، ہم سب اس وقت میدان عرفہ میں تھے، تمام سیرت والے اس بات پر متفق ہیں کہ حجتہ الوادع والے سال عرفے کا دن جمعہ کو تھا، ایک اور روایت میں ہے کہ حضرت کعب نے حضرت عمر سے یہ کہا تھا کہ حضرت عمر نے فرمایا یہ آیت ہمارے ہاں دوہری عید کے دن نازل ہوئی ہے۔ حضرت ابن عباس کی زبانی اس آیت کی تلاوت سن کر بھی یہودیوں نے یہی کہا تھا کہ جس پر آپ نے فرمایا ہمارے ہاں تو یہ آیت دوہری عید کے دن اتری ہے، عید کا دن بھی تھا اور جمعہ کا دن تھی۔ حضرت علی سے مروی ہے کہ یہ آیت عرفے کے دن شام کو اتری ہے، حضرت معاویہ بن ابی سفیان نے منبر پر اس پوری آیت کی تلاوت کی اور فرمایا جمعہ کے دن عرفے کو یہ اتری یہ ہے۔ حضرت سمرہ فرماتے ہیں اس وقت حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) موقف میں کھڑے ہوئے تھے، ابن عباس سے مروی ہے کہ تمہارے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پیر والے دن پیدا ہوئے، پیر والے دن ہی مکہ سے نکلے اور پیر والے دن ہی مدینے میں تشریف لائے، یہ اثر غریب ہے اور اس کی سند ضعیف ہے۔ مسند احمد میں ہے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پیر والے دن پیدا ہوئے، پیر والے دن نبی بنائے گئے، پیر والے دن ہجرت کے ارادے سے نکلے، پیر کے روز ہی مدینے پہنچے اور پیر کے دن ہی فوت کئے گئے، حجر اسود بھی پیر کے دن واقع ہوا، اس میں سورة مائدہ کا پیر کے دن اترنا مذکور نہیں، میرا خیال یہ ہے کہ ابن عباس نے کہا ہوگا دو عیدوں کے دن یہ آیت اتری تو دو کیلئے بھی لفظ اثنین ہے، اور پیر کے دن کو بھی اثنین کہتے ہیں اس لئے راوی کو شبہ سا ہوگیا واللہ اعلم۔ دو قول اس میں اور بھی مروی ہیں ایک تو یہ کہ یہ دن لوگوں کو نامعلوم ہے دوسرا یہ کہ یہ آیت غدیر خم کے دن نازل ہوئی ہے جس دن کو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت علی کی نسبت فرمایا تھا کہ جس کا مولیٰ میں ہوں، اس کا مولیٰ علی ہے گویا ذی الحجہ کی اٹھارویں تاریخ ہوئی، جبکہ آپ حجتہ الوداع سے واپس لوٹ رہے تھے لیکن یہ یاد رہے کہ یہ دونوں قول صحیح نہیں۔ بالکل صحیح اور بیشک و شبہ قول یہی ہے کہ یہ آیت عرفے کے دن جمعہ کو اتری ہے، امیر المومنین عمر بن خطاب اور امیر المومنین علی بن ابو طالب اور امیر المومنین حضرت امیر معاویہ بن سفیان اور ترجمان القرآن حضرت عبداللہ بن عباس اور حضرت سمرہ بن جندب سے یہی مروی ہے اور اسی کو حضرت شعبی، حضرت قتادہ، حضرت شہیر وغیرہ ائمہ اور علماء نے کہا ہے، یہی مختار قول ابن جریر اور طبری کا ہے، پھر فرماتا ہے '' جو شخص ان حرام کردہ چیزوں میں سے کسی چیز کے استعمال کی طرف مجبور و بےبس ہوجائے تو وہ ایسے اضطرار کی حالت میں انہیں کام لاسکتا ہے۔ اللہ غفور و رحیم ہے، وہ جانتا ہے کہ اس بندے نے اس کی حد نہیں توڑی لیکن بےبسی اور اضطرار کے موقعہ پر اس نے یہ کیا ہے تو اللہ سے معاف فرما دے گا۔ صحیح ابن حبان میں حضرت ابن عمر سے مرفوعاً مروی ہے کہ اللہ تعالیٰ کو اپنی دی ہوئی رخصتوں پر بندوں کا عمل کرنا ایسا بھاتا ہے جیسے اپنی نافرمانی سے رک جانا۔ مسند احمد میں ہے جو شخص اللہ کی دی ہوئی رخصت نہ قبول کرے، اس پر عرفات کے پہاڑ برابر گناہ ہے، اسی لئے فقہاء کہتے ہیں کہ بعض صورتوں میں مردار کا کھانا واجب ہوجاتا ہے جیسے کہ ایک شخص کی بھوک کی حالت یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ اب مرا چاہتا ہے کہ کبھی جائز ہوجاتا ہے اور کبھی مباح، ہاں اس میں اختلاف ہے کہ بھوک کے وقت جبکہ حلال چیز میسر نہ ہو تو حرام صرف اتنا ہی کھا سکتا ہے کہ جان بچ جائے یا پیٹ بھر سکتا ہے بلکہ ساتھ بھی رکھ سکتا ہے، اس کے تفصیلی بیان کی جگہ احکام کی کتابیں ہیں۔ اس مسئلہ میں جب بھوکا شخص جس کے اوپر اضطرار کی حالت ہے، مردار اور دوسرے کا کھانا اور حالت احرام میں شکار تینوں چیزیں موجود پائے تو کیا وہ مردار کھالے ؟ یہ حالت احرام میں ہونے کے باوجود شکار کرلے اور اپنی آسانی کی حالت میں اس کی جزا یعنی فدیہ ادا کر دے یا دوسرے کی چیز بلا اجازت کھالے اور اپنی آسانی کے وقت اسے وہ واپس کر دے، اس میں دو قول ہیں امام شافعی سے دونوں مروی ہیں۔ یہ بھی یاد رہے کہ مردار کھانے کی یہ شرط جو عوام میں مشہور ہے کہ جب تین دن کا فاقہ ہوجائے تو حلال ہوتا ہے یہ بالکل غلط ہے بلکہ جب اضطرار، بےقراری اور مجبوری حالت میں ہو، اس کیلئے مردار کھانا حلال ہوجاتا ہے۔ مسند احمد کی حدیث میں ہے کہ لوگوں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے دریافت کیا کہ '' حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہم ایسی جگہ رہتے ہیں کہ آئے دن ہمیں فقر و فاقہ کی نوبت آجاتی ہے، تو ہمارے لئے مردار کا کھا لینا کیا جائز ہوتا ہے ؟ آپ نے فرمایا '' جب صبح شام نہ ملے اور نہ کوئی سبزی ملے تو تمہیں اختیار ہے۔ '' اس حدیث کی ایک سند میں ارسال بھی ہے، لیکن مسند والی مرفع حدیث کی اسناد شرط شیخین پر صحیح ہے۔ ابن عون فرماتے ہیں حضرت حسن کے پاس حضرت سمرہ کی کتاب تھی، جسے میں ان کے سامنے پڑھتا تھا، اس میں یہ بھی تھا کہ صبح شام نہ ملنا اضطرار ہے، ایک شخص نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے دریافت کیا کہ '' حرام کھانا کب حلال ہوجاتا ہے ؟ '' آپ نے فرمایا '' جب تک کہ تو اپنے بچوں کو دودھ سے شکم سیر نہ کرسکے اور جب تک ان کا سامان نہ آجائے۔ '' ایک اعرابی نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے حلال حرام کا سوال کیا، آپ نے جواب دیا کہ '' کل پاکیزہ چیزیں حلال اور کل خبیث چیزیں حرام ہاں جب کہ ان کی طرف محتاج ہوجائے تو انہیں کھا سکتا ہے جب تک کہ ان سے غنی نہ ہوجائے '' اس نے پھر دریافت کیا کہ '' وہ محتاجی کونسی جس میں میرے لئے وہ حرام چیز حلال ہوئے اور وہ غنی ہونا کونسا جس میں مجھے اس سے رک جانا چاہئے '' فرمایا۔ '' جبکہ تو صرف رات کو اپنے بال بچوں کو دودھ سے آسودہ کرسکتا ہو تو تو حرام چیز سے پرہیز کر۔ '' ابو داؤد میں ہے حضرت نجیع عامری نے رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے دریافت کیا کہ '' ہمارے لئے مردار کا کھانا کب حلال ہوجاتا ہے ؟ '' آپ نے فرمایا '' تمہیں کھانے کو کیا ملتا ہے ؟ '' اس نے کہا '' صبح کو صرف ایک پیالہ دودھ اور شام کو بھی صرف ایک پیالہ دودھ '' آپ نے کہا '' یہی ہے اور کونسی بھوک ہوگی ؟ '' پس اس حالت میں آپ نے انہیں مردار کھانے کی اجازت عطا فرمائی۔ مطلب حدیث کا یہ ہے کہ صبح شام ایک ایک پیالہ دودھ کا انہیں ناکافی تھا، بھوک باقی رہتی تھی، اس لئے ان پر مردہ حلال کردیا گیا، تاکہ وہ پیٹ بھر لیا کریں، اسی کو دلیل بنا کر بعض بزرگوں نے فرمایا ہے کہ اضطرار کے وقت مردار کو پیٹ بھر کر کھا سکتا ہے، صرف جان بچ جائے اتنا ہی کھانا جائز ہو، یہ حد ٹھیک نہیں واللہ اعلم۔ ابو داؤد کی اور حدیث میں ہے کہ ایک شخص مع اہل و عیال کے آیا اور حرہ میں ٹھہرا، کسی صاحب کی اونٹنی گم ہوگئی تھی، اس نے ان سے کہا اگر میری اونٹنی تمہیں مل جائے تو اسے پکڑ لینا۔ اتفاق سے یہ اونٹنی اسے مل گئی، اب یہ اس کے مالک کو تلاش کرنے لگے لیکن وہ نہ ملا اور اونٹنی بیمار پڑگئی تو اس شخص کی بیوی صاحبہ نے کہا کہ ہم بھوکے رہا کرتے ہیں، تم اسے ذبح کر ڈالو لیکن اس نے انکار کردیا، آخر اونٹنی مرگئی تو پھر بیوی صاحبہ نے کہا، اب اس کی کھال کھینچ لو اور اس کے گوشت اور چربی کو ٹکڑے کر کے سلکھا لو، ہم بھوکوں کو کام آجائیگا، اس بزرگ نے جواب دیا، میں تو یہ بھی نہیں کرونگا، ہاں اگر اللہ کے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اجازت دے دیں تو اور بات ہے۔ چناچہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہو کر اس نے تمام قصہ بیان کیا آپ نے فرمایا کیا تمہارے پاس اور کچھ کھانے کو ہے جو تمہیں کافی ہو ؟ جواب دیا کہ نہیں آپ نے فرمایا پھر تم کھا سکتے ہو۔ اس کے بعد اونٹنی والے سے ملاقات ہوئی اور جب اسے یہ علم ہوا تو اس نے کہا پھر تم نے اسے ذبح کر کے کھا کیوں نہ لیا ؟ اس بزرگ صحابی نے جواب دیا کہ شرم معلوم ہوئی۔ یہ حدیث دلیل ہے ان لوگوں کی جو کہتے ہیں کہ یہ بوقت اضطرار مردار کا پیٹ بھر کر کھانا بلکہ اپنی حاجت کے مطابق اپنے پاس رکھ لینا بھی جائز ہے واللہ اعلم۔ پھر ارشاد ہوا ہے کہ یہ حرام بوقت اضطرار اس کیلئے مباح ہے جو کسی گناہ کی طرف میلان نہ رکھتا ہو، اس کیلئے اسے مباح کر کے دوسرے سے خاموشی ہے، جیسے سورة بقرہ میں ہے آیت (فَمَنِ اضْطُرَّ غَيْرَ بَاغٍ وَّلَا عَادٍ فَلَآ اِثْمَ عَلَيْهِ ) 2 ۔ البقرۃ :173) یعنی وہ شخص بےقرار کیا جائے سوائے باغی اور حد سے گزرنے والے کے پس اس پر کوئی گناہ نہیں، اللہ تعالیٰ بخشنے والا مہربانی کرنے والا ہے۔ اس آیت سے یہ استدعا کیا گیا ہے کہ جو شخص اللہ کی کسی نافرمانی کا سفر کر رہا ہے، اسے شریعت کی رخصتوں میں سے کوئی رخصت حاصل نہیں، اس لئے کہ رخصتیں گناہوں سے حاصل نہیں ہوتیں واللہ تعالیٰ اعلم۔