حُرِّمَتْ عَلَيْكُمُ الْمَيْتَةُ وَالدَّمُ وَلَحْمُ الْخِنْزِيْرِ وَمَاۤ اُهِلَّ لِغَيْرِ اللّٰهِ بِهٖ وَالْمُنْخَنِقَةُ وَالْمَوْقُوْذَةُ وَالْمُتَرَدِّيَةُ وَالنَّطِيْحَةُ وَمَاۤ اَكَلَ السَّبُعُ اِلَّا مَا ذَكَّيْتُمْۗ وَمَا ذُ بِحَ عَلَى النُّصُبِ وَاَنْ تَسْتَقْسِمُوْا بِالْاَزْلَامِ ۗ ذٰ لِكُمْ فِسْقٌ ۗ اَلْيَوْمَ يَٮِٕسَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا مِنْ دِيْـنِكُمْ فَلَا تَخْشَوْهُمْ وَاخْشَوْنِ ۗ اَ لْيَوْمَ اَكْمَلْتُ لَـكُمْ دِيْنَكُمْ وَاَ تْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِىْ وَرَضِيْتُ لَـكُمُ الْاِسْلَامَ دِيْنًا ۗ فَمَنِ اضْطُرَّ فِىْ مَخْمَصَةٍ غَيْرَ مُتَجَانِفٍ لِّاِثْمٍۙ فَاِنَّ اللّٰهَ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ
تفسیر کمالین شرح اردو تفسیر جلالین:
تم پر حرام کیا گیا مُردار، خون، سُور کا گوشت، وہ جانور جو خدا کے سوا کسی اور کے نام پر ذبح کیا گیا ہو، وہ جو گھلا گھٹ کر، یا چوٹ کھا کر، یا بلندی سے گر کر، یا ٹکر کھا کر مرا ہو، یا جسے کسی درندے نے پھاڑا ہو سوائے اس کے جسے تم نے زندہ پاکر ذبح کر لیا اور وہ جو کسی آستا نے پر ذبح کیا گیا ہو نیز یہ بھی تمہارے لیے ناجائز ہے کہ پانسوں کے ذریعہ سے اپنی قسمت معلوم کرو یہ سب افعال فسق ہیں آج کافروں کو تمہارے دین کی طرف سے پوری مایوسی ہو چکی ہے لہٰذا تم اُن سے نہ ڈرو بلکہ مجھ سے ڈرو آج میں نے تمہارے دین کو تمہارے لیے مکمل کر دیا ہے اور اپنی نعمت تم پر تمام کر دی ہے اور تمہارے لیے اسلام کو تمہارے دین کی حیثیت سے قبول کر لیا ہے (لہٰذا حرام و حلال کی جو قیود تم پر عائد کر دی گئی ہیں اُن کی پابند ی کرو) البتہ جو شخص بھوک سے مجبور ہو کر اُن میں سے کوئی چیز کھا لے، بغیر اس کے کہ گناہ کی طرف اس کا میلان ہو تو بیشک اللہ معاف کرنے والا اور رحم فرمانے والا ہے
English Sahih:
Prohibited to you are dead animals, blood, the flesh of swine, and that which has been dedicated to other than Allah, and [those animals] killed by strangling or by a violent blow or by a head-long fall or by the goring of horns, and those from which a wild animal has eaten, except what you [are able to] slaughter [before its death], and those which are sacrificed on stone altars, and [prohibited is] that you seek decision through divining arrows. That is grave disobedience. This day those who disbelieve have despaired of [defeating] your religion; so fear them not, but fear Me. This day I have perfected for you your religion and completed My favor upon you and have approved for you IsLam as religion. But whoever is forced by severe hunger with no inclination to sin – then indeed, Allah is Forgiving and Merciful.
ابوالاعلی مودودی Abul A'ala Maududi
تم پر حرام کیا گیا مُردار، خون، سُور کا گوشت، وہ جانور جو خدا کے سوا کسی اور کے نام پر ذبح کیا گیا ہو، وہ جو گھلا گھٹ کر، یا چوٹ کھا کر، یا بلندی سے گر کر، یا ٹکر کھا کر مرا ہو، یا جسے کسی درندے نے پھاڑا ہو سوائے اس کے جسے تم نے زندہ پاکر ذبح کر لیا اور وہ جو کسی آستا نے پر ذبح کیا گیا ہو نیز یہ بھی تمہارے لیے ناجائز ہے کہ پانسوں کے ذریعہ سے اپنی قسمت معلوم کرو یہ سب افعال فسق ہیں آج کافروں کو تمہارے دین کی طرف سے پوری مایوسی ہو چکی ہے لہٰذا تم اُن سے نہ ڈرو بلکہ مجھ سے ڈرو آج میں نے تمہارے دین کو تمہارے لیے مکمل کر دیا ہے اور اپنی نعمت تم پر تمام کر دی ہے اور تمہارے لیے اسلام کو تمہارے دین کی حیثیت سے قبول کر لیا ہے (لہٰذا حرام و حلال کی جو قیود تم پر عائد کر دی گئی ہیں اُن کی پابند ی کرو) البتہ جو شخص بھوک سے مجبور ہو کر اُن میں سے کوئی چیز کھا لے، بغیر اس کے کہ گناہ کی طرف اس کا میلان ہو تو بیشک اللہ معاف کرنے والا اور رحم فرمانے والا ہے
احمد رضا خان Ahmed Raza Khan
تم پر حرام ہے مُردار اور خون اور سور کا گوشت اور وہ جس کے ذبح میں غیر خدا کا نام پکارا گیا اور جو گلا گھونٹنے سے مرے اور بے دھار کی چیز سے مارا ہوا اور جو گر کر مرا اور جسے کسی جانور نے سینگ مارا اور جسے کوئی درندہ کھا گیا مگر جنہیں تم ذبح کرلو، اور جو کسی تھان پر ذبح کیا گیا اور پانسے ڈال کر بانٹا کرنا یہ گناہ کا کا م ہے، آج تمہارے دین کی طرف سے کافروں کی آس نوٹ گئی تو اُن سے نہ ڈرو اور مجھ سے ڈرو آج میں نے تمہارے لئے دین کامل کردیا اور تم پر اپنی نعمت پوری کردی اور تمہارے لئے اسلام کو دین پسند کیا تو جو بھوک پیاس کی شدت میں ناچار ہو یوں کہ گناہ کی طرف نہ جھکے تو بیشک اللہ بخشنے والا مہربان ہے،
احمد علی Ahmed Ali
تم پر مردار اور لہو اور سور کا گوشت حرام کیا گیا ہے اور وہ جانور جس پر الله کے سوا کسی اور کا نام پکارا جائے جو گلا گھوٹ کر یا چوٹ سے یا بلندی سے گر کر یا سینگ مارنے سے مر گیا ہو اور وہ جسے کسی درندے نے پھاڑ ڈالا ہو مگر جسے تم نے ذبح کر لیا ہو اور وہ جو کسی تھان پر ذبح کیا جائے اور یہ کہ جوئے کے تیروں سے تقسیم کرو یہ سب گناہ ہیں آج تمہارے دین سے کافر نا امید ہو گئے سو ان سے نہ ڈرو اور مجھ سے ڈرو آج میں تمہارے لیے تمہارا دین پورا کر چکا اور میں نے تم پر اپنا احسان پورا کر دیا اور میں نے تمہارے واسطے اسلام ہی کو دین پسند کیا ہے پھر جو کوئی بھوک سے بیتاب ہو جائے لیکن گناہ پر مائل نہ ہو تو الله معاف کرنے والا مہربان ہے
أحسن البيان Ahsanul Bayan
تم پر حرام کیا گیا مردار اور خون اور خنزیر کا گوشت اور جس پر اللہ کے سوا دوسرے کا نام پکارا گیا ہو، (۱) اور جو گلا گھٹنے سے مرا ہو، (۲) اور جو کسی ضرب سے مر گیا ہو، (۳) جو اونچی جگہ سے گر کر مرا ہو (٤) جو کسی کے سینگ مارنے سے مرا ہو (۵)، اور جسے درندوں نے پھاڑ کھایا ہو، (٦) لیکن اسے تم ذبح کر ڈالو تو حرام نہیں، (۷) اور جو آستانوں پر ذبح کیا گیا ہو، (۸) اور یہ بھی کہ قرعہ کے تیروں کے ذریعے فال گیری ہو، (۹) یہ سب بدترین گناہ ہیں، آج کفار دین سے ناآمید ہوگئے، خبردار ان سے نہ ڈرنا اور مجھ سے ڈرتے رہنا، آج میں نے تمہارے لئے دین کو کامل کر دیا اور تم پر اپنا نام بھرپور کر دیا اور تمہارے لئے اسلام کے دین ہونے پر رضامند ہوگیا۔ پس جو شخص شدت کی بھوک میں بیقرار ہو جائے بشرطیکہ کسی گناہ کی طرف اس کا میلان نہ ہو تو یقیناً اللہ تعالٰی معاف کرنے والا ہے اور بہت بڑا مہربان ہے (۱۰)۔
٣۔١ یہاں سے ان محرمات کا ذکر شروع ہو رہا ہے جن کا حوالہ سورت کے آغاز میں دیا گیا ہے۔ آیت کا اتنا حصہ سورہ بقرہ میں گزر چکا ہے۔ دیکھیے آیت نمبر ۱۷۳۔
٣۔۲ گلا کوئی شخص گھونٹ دے یا کسی چیز میں پھنس کر خود گلا گھٹ جائے۔ دونوں صورتوں میں مردہ جانور حرام ہے۔
٣۔۳ کسی نے پتھر، لاٹھی یا کوئی اور چیز ماری جس سے وہ بغیر ذبح کیے مر گیا۔ زمانہ جاہلیت میں ایسے جانوروں کو کھا لیا جاتا تھا۔ شریعت نے منع کر دیا۔ بندوق کا شکار کیے ہوئے جانور کے بارے میں علماء کے درمیان اختلاف ہے۔ امام شوکانی نے ایک حدیث سے استدلال کرتے ہوئے بندوق کے شکار کو حلال قرار دیا ہے۔ (فتح القدیر) یعنی اگر کوئی بسم اللہ پڑھ کر گولی چلائے اور شکار ذبح سے پہلے ہی مر گیا تو اس کا کھانا اس قول کے مطابق حلال ہے۔
٣۔٤ چاہے خود گرا ہو یا کسی نے پہاڑ وغیرہ سے دھکا دے کر گرایا ہو۔
٣۔۵ نظیحۃ منطوحۃ کے معنی میں ہے۔ یعنی کسی نے اسے ٹکر مار دی اور بغیر ذبح کیے وہ مر گیا۔
٣۔٦یعنی شیر چیتا اور بھیڑیا وغیرہ جیسے ذوناب کچلیوں سے شکار کرنے والے درندوں میں سے کسی نے اسے کھایا ہو اور وہ مر گیا ہو۔ زمانہ جاہلیت میں مر جانے کے باوجود ایسے جانور کو کھا لیا جاتا تھا۔
٣۔۷ جمہور مفسرین کے نزدیک یہ استثنا تمام مذکورہ جانوروں کے لیے ہے یعنی منخنقۃ، موقوذۃ، متردیۃ، نطیحۃ اور درندوں کا کھایا ہوا، اگر تم انہیں اس حال میں پالو کہ ان میں زندگی کے آثار موجود ہوں اور پھر تم انہییں شرعی طریقے سے ذبح کر لو تو تمہارے لیے ان کا کھانا حلال ہوگا۔ زندگی کی علامت یہ ہے کہ ذبح کرتے وقت جانور پھڑکے اور ٹانگیں مارے۔ اگر چھری پھیرتے وقت یہ اضطراب وحرکت نہ ہو تو سمجھ لو یہ مردہ ہے۔ ذبح کا شرعی طریقہ یہ ہے کہ بسم اللہ پڑھ کر تیز دھار آلے سے اس کا گلا اس طرح کاٹا جائے کہ رگیں کٹ جائیں۔ ذبح کے علاوہ نحر بھی مشروع ہے۔ جس کا طریقہ یہ ہے کہ کھڑے جانور کے لبے پر چھری ماری جائے (اونٹ کو نحر کیا جاتا ہے) جس سے نرخرہ اور خون کی خاص رگیں کٹ جاتی ہے اور سارا خون بہہ جاتا ہے۔
٣۔۸مشرکین اپنے بتوں کے قریب پتھر یا کوئی چیز نصب کر کے ایک خاص جگہ بناتے تھے۔ جسے نصب تھان یا آستانہ کہتے تھے۔ اسی پر وہ بتوں کے نام نذر کیے گئے جانوروں کو ذبح کرتے تھے یعنی یہ وما اھل بہ لغیر اللہ ہی کی ایک شکل تھی اس سے معلوم ہوا کہ آستانوں، مقبروں اور درگاہوں پر جہاں لوگ طلب حاجات کے لیے جاتے ہیں اور وہاں مدفون افراد کی خوشنودی کے لیے جانور ذبح کرتے ہیں یا پکی ہوئی دیگیں تقسیم کرتے ہیں، ان کا کھانا حرام ہے یہ وماذبح علی النصب میں داخل ہیں۔
٣۔۹ وان تستقسموا بالازلام کے دو معنی کیے گئے ہیں ایک تیروں کے ذریعے تقسیم کرنا دوسرے تیروں کے ذریعہ قسمت معلوم کرنا پہلے معنی کی بنا پر کہا جاتا ہے کہ جوئے وغیرہ میں ذبح شدہ جانور کی تقسیم کے لیے یہ تیر ہوتے تھے جس میں کسی کو کچھ مل جاتا، کوئی محروم رہ جاتا۔ دوسرے معنی کی رو سے کہا گیا ہے کہ ازلام سے تیر مراد ہیں جن سے وہ کسی کام کا آغاز کرتے وقت فال لیا کرتے تھے۔ انہوں نے تین قسم کے تیر بنا رکھتے تھے۔ ایک افعل (کر) دوسرے میں لاتفعل (نہ کر) اور تیسرے میں کچھ نہیں ہوتا تھا۔ افعل والا تیر نکل آتا تو وہ کام کر لیا جاتا، لاتفعل والا نکلتا تو نہ کرتے اور تیسرا تیر نکل آتا تو پھر دوبارہ فال نکالتے۔ یہ بھی گویا کہانت اور استمداد بغیر اللہ کی شکل ہے، اس لیے اسے بھی حرام کر دیا گیا استقسام کے معنی طلب قسم تہیں یعنی تیروں سے قسمت طلب کرتے تھے۔
٣۔۱۰یہ بھوک کی اضطراری کیفیت میں مذکورہ محرمات کے کھانے کی اجازت ہے بشرطیکہ مقصد اللہ کی نافرمانی اور حد تجاوز کرنا نہ ہو، صرف جان بچانا مطلوب ہو۔
جالندہری Fateh Muhammad Jalandhry
تم پر مرا ہوا جانور اور (بہتا) لہو اور سور کا گوشت اور جس چیز پر خدا کے سوا کسی اور کا نام پکارا جائے اور جو جانور گلا گھٹ کر مر جائے اور جو چوٹ لگ کر مر جائے اور جو گر کر مر جائے اور جو سینگ لگ کر مر جائے یہ سب حرام ہیں اور وہ جانور بھی جس کو درندے پھاڑ کھائیں۔ مگر جس کو تم (مرنے سے پہلے) ذبح کرلو اور وہ جانور بھی جو تھان پر ذبح کیا جائے اور یہ بھی کہ پاسوں سے قسمت معلوم کرو یہ سب گناہ (کے کام) ہیں آج کافر تمہارے دین سے ناامید ہو گئے ہیں تو ان سے مت ڈرو اور مجھی سے ڈرتے رہو (اور) آج ہم نے تمہارے لئے تمہارا دین کامل کر دیا اور اپنی نعمتیں تم پر پوری کر دیں اور تمہارے لئے اسلام کو دین پسند کیا ہاں جو شخص بھوک میں ناچار ہو جائے (بشرطیکہ) گناہ کی طرف مائل نہ ہو تو خدا بخشنے والا مہربان ہے
محمد جوناگڑھی Muhammad Junagarhi
تم پر حرام کیا گیا مردار اور خون اور خنزیر کا گوشت اور جس پر اللہ کے سوا دوسرے کا نام پکارا گیا ہو اور جو گلا گھٹنے سے مرا ہو اور جو کسی ضرب سے مر گیا ہو اور جو اونچی جگہ سے گر کر مرا ہو اور جو کسی کے سینگ مارنے سے مرا ہو اور جسے درندوں نے پھاڑ کھایا ہو لیکن اسے تم ذبح کر ڈالو تو حرام نہیں اور جو آستانوں پر ذبح کیا گیا ہو اور یہ بھی کہ قرعہ کے تیروں کے ذریعے فال گیری کرو یہ سب بدترین گناه ہیں، آج کفار تمہارے دین سے ناامید ہوگئے، خبردار! تم ان سے نہ ڈرنا اور مجھ سے ڈرتے رہنا، آج میں نے تمہارے لئے دین کو کامل کردیا اور تم پر اپنا انعام بھرپور کردیا اور تمہارے لئے اسلام کے دین ہونے پر رضامند ہوگیا۔ پس جو شخص شدت کی بھوک میں بے قرار ہو جائے بشرطیکہ کسی گناه کی طرف اس کا میلان نہ ہو تو یقیناً اللہ تعالیٰ معاف کرنے واﻻ اور بہت بڑا مہربان ہے
محمد حسین نجفی Muhammad Hussain Najafi
تم پر حرام کیا گیا ہے۔ مردار، خون، خنزیر کا گوشت اور وہ جانور جس پر ذبح کے وقت غیر خدا کا نام لیا جائے۔ اور گلا گھوٹا ہوا، یا جو چوٹ لگنے سے یا بلندی سے گر کر، یا سینگ لگنے سے مر جائے یا جسے کسی درندہ نے کھایا ہو۔ سوائے اس کے جسے تم نے ذبح کر لیا ہو۔ اور وہ (بھی حرام ہے) جو قربان کیا جائے بتوں پر (یا کسی آستانے پر) نیز (وہ بھی حرام ہے) جو قرعہ کے تیروں سے تقسیم کیا جائے۔ یہ سب کام فسق (گناہ) ہیں۔ آج میں نے تمہارے لئے دین کو مکمل کر دیا ہے۔ اور اپنی نعمت تم پر تمام کر دی ہے اور تمہارے لئے دین کی حیثیت سے اسلام کو پسند کر لیا ہے ہاں جو بھوک کی شدت سے مجبور ہو جائے (اور حرام چیزوں سے کوئی کھا لے) جبکہ گناہ کی طرف راغب نہ ہو تو اللہ بڑا بخشنے والا بڑا رحم کرنے والا ہے۔
علامہ جوادی Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
تمہارے اوپر حرام کردیا گیا ہے مردار -خون - سور کا گوشت اور جو جانور غیر خدا کے نام پر ذبح کیا جائے اورمنخنقہ اور موقوذہً اور متردیہ اور نطیحہ اور جس کو درندہ کھا جائے مگریہ کہ تم خود ذبح کرلو اور جو نصاب پر ذبح کیا جائے اور جس کی تیروں کے ذریعہ قرعہ اندازی کرو کہ یہ سب فسق ہے اور کفار تمہارے دین سے مایوس ہوگئے ہیں لہذا تم ان سے نہ ڈرو اور مجھ سے ڈرو -آج میں نے تمہارے لئے دین کو کامل کردیا ہے اور اپنی نعمتوں کو تمام کردیا ہے اور تمہارے لئے دین اسلام کو پسندیدہ بنادیا ہے لہذا جو شخص بھوک میں مجبور ہوجائے اور گناہ کی طرف مائل نہ ہو تو خدا بڑا بخشنے والا مہربان ہے
طاہر القادری Tahir ul Qadri
تم پر مردار (یعنی بغیر شرعی ذبح کے مرنے والا جانور) حرام کر دیا گیا ہے اور (بہایا ہوا) خون اور سؤر کا گوشت اور وہ (جانور) جس پر ذبح کے وقت غیر اﷲ کا نام پکارا گیا ہو اور گلا گھٹ کر مرا ہوا (جانور) اور (دھار دار آلے کے بغیر کسی چیز کی) ضرب سے مرا ہوا اور اوپر سے گر کر مرا ہوا اور (کسی جانور کے) سینگ مارنے سے مرا ہوا اور وہ (جانور) جسے درندے نے پھاڑ کھایا ہو سوائے اس کے جسے (مرنے سے پہلے) تم نے ذبح کر لیا، اور (وہ جانور بھی حرام ہے) جو باطل معبودوں کے تھانوں (یعنی بتوں کے لئے مخصوص کی گئی قربان گاہوں) پر ذبح کیا گیا ہو اور یہ (بھی حرام ہے) کہ تم پانسوں (یعنی فال کے تیروں) کے ذریعے قسمت کا حال معلوم کرو (یا حصے تقسیم کرو)، یہ سب کام گناہ ہیں۔ آج کافر لوگ تمہارے دین (کے غالب آجانے کے باعث اپنے ناپاک ارادوں) سے مایوس ہو گئے، سو (اے مسلمانو!) تم ان سے مت ڈرو اور مجھ ہی سے ڈرا کرو۔ آج میں نے تمہارے لئے تمہارا دین مکمل کر دیا اور تم پر اپنی نعمت پوری کر دی اور تمہارے لئے اسلام کو (بطور) دین (یعنی مکمل نظامِ حیات کی حیثیت سے) پسند کر لیا۔ پھر اگر کوئی شخص بھوک (اور پیاس) کی شدت میں اضطراری (یعنی انتہائی مجبوری کی) حالت کو پہنچ جائے (اس شرط کے ساتھ) کہ گناہ کی طرف مائل ہونے والا نہ ہو (یعنی حرام چیز گناہ کی رغبت کے باعث نہ کھائے) تو بیشک اﷲ بہت بخشنے والا نہایت مہربان ہے،
تفسير ابن كثير Ibn Kathir
پرندوں کے بارے میں نہیں، شیخ ابو علی افصاح میں فرماتے ہیں جب ہم نے یہ طے کرلیا کہ اس شکار کا کھانا حرام ہے جس میں سے شکاری کتے نے کھالیا ہو تو جس شکار میں سے شکاری پرند کھالے اس میں دو وجوہات ہیں۔ لیکن قاضی ابو الطیب نے اس فرع کا اور اس ترتیب سے انکار کیا ہے۔ کیونکہ امام شافعی نے ان دونوں کو صاف لفظوں میں برابر رکھا ہے۔ واللہ سبحانہ و تعالیٰ اعلم۔ متردیہ وہ ہے جو پہاڑی یا کسی بلند جگہ سے گر کر مرگیا ہو تو وہ جانور بھی حرام ہے، ابن عباس یہی فرماتے ہیں۔ قتادہ فرماتے ہیں یہ وہ ہے جو کنویں میں گرپڑے، نطیحہ وہ ہے جسے دوسرا جانور سینگ وغیرہ سے ٹکر لگائے اور وہ اس صدمہ سے مرجائے، گو اس سے زخم بھی ہوا ہو اور گو اس سے خون بھی نکلا ہو، بلکہ گو ٹھیک ذبح کرنے کی جگہ ہی لگا ہو اور خون بھی نکلا، یہ لفظ معنی میں مفعول یعنی منطوحہ کے ہے، یہ وزن عموماً کلام عرب میں بغیر تے کے آتا ہے جیسے عین کحیل اور کف خضیب ان مواقع میں کحیلتہ اور خضیبتہ نہی کہتے، اس جگہ تے اس لئے لایا گیا ہے کہ یہاں اس لفظ کا استعمال قائم مقام اسم کے ہے، جیسے عرب کا یہ کلام طریقتہ طویلتہ۔ بعض نحوی کہتے ہیں تاء تانیث یہاں اس لئے لایا گیا ہے کہ پہلی مرتبہ ہی ثانیث پر دلالت ہوجائے بخلاف کحیل اور خضیب کے کہ وہاں تانیث کلام کے ابتدائی لفظ سے معلوم ہوتی ہے۔ آیت (ما اکل اسبع) سے مراد وہ جانور ہے جس پر شیر، بھیڑیا، چیتا یا کتا وغیرہ درندہ حملہ کرے اور اس کا کوئی حصہ کھاجائے اور اس سبب سے مرجائے تو اس جانور کو کھانا بھی حرام ہے، اگرچہ اس سے خون بہا ہو بلکہ اگرچہ ذبح کرنے کی جگہ سے ہی خون نکلا ہو تاہم وہ جانور بالاجماع حرام ہے۔ اہل جاہلیت میں ایسے جانور کا بقیہ کھالیا کرتے تھے، اللہ تعالیٰ نے مومنوں کو اس سے منع فرمایا۔ پھر فرماتا ہے مگر وہ جسے تم ذبح کرلو، یعنی گلا گھونٹا، لٹھ مارا ہوا، اوپر سے گرپڑا ہو، سینگ اور ٹکر لگا ہو، درندوں کا کھایا ہو، اگر اس حالت میں تمہیں مل جائے کہ اس میں جان باقی ہو اور تم اس پر باقاعدہ اللہ کا نام لے کر چھری پھیر لو تو پھر یہ جانور تمہارے لئے حلال ہوجائیں گے۔ حضرت ابن عباس سعید بن جیبر، حسن اور سدی یہی فرماتے ہیں، حضرت علی سے مروی ہے اگر تم ان کو اس حالت میں پالو کہ چھری پھیرتے ہوئے وہ دم رگڑیں یا پیر ہلائیں یا آنکھوں کے ڈھیلے پھرائیں تو بیشک ذبح کر کے کھالو، ابن جریر میں آپ سے مروی ہے کہ جس جانور کو ضرب لگی ہو یا اوپر سے گرپڑا ہو یا ٹکر لگی ہو اور اس میں روح باقی ہو اور تمہیں وہ ہاتھ پیر رگڑتا مل جائے تو تم اسے ذبح کر کے کھا سکتے ہو۔ حضرت طاؤس، حسن، قتادہ، عبید بن عمیر، ضحاک اور بہت سے حضرات سے مروی ہے کہ بوقت ذبح اگر کوئی حرکت بھی اس جانور کی ایسی ظاہر ہوجائے جس سے یہ معلوم ہو کہ اس میں حیات ہے تو وہ حلال ہے۔ جمہور فقہاء کا یہی مذہب حرکت بھی اس جانور کی ایسی ظاہر ہوجائے جس سے یہ معلوم ہو کہ اس میں حیات ہے تو وہ حلال ہے۔ جمہور فقہاء کا یہی مذہب ہے تینوں اماموں کا بھی یہی قول ہے، امام مالک اس بکری کے بارے میں جسے بھیڑیا پھاڑ ڈالے اور اس کی آنتیں نکل آئیں فرماتے ہیں میرا خیال ہے کہ اسے ذبح نہ کیا جائے اس میں سے کس چیز کا ذبیحہ ہوگا ؟ ایک مرتبہ آپ سے سوال ہوا کہ درندہ اگر حملہ کر کے بکری کی پیٹھ توڑ دے تو کیا اس بکری کو جان نکلنے سے پہلے ذبح کرسکتے ہیں ؟ آپ نے فرمایا اگر بالکل آخر تک پہنچ گیا ہے تو میری رائے میں نہ کھانی چاہئے اور اگر اطراف میں یہ ہے تو کوئی حرج نہیں، سائل نے کہا درندے نے اس پر حملہ کیا اور کود کر اسے پکڑ لیا، جس سے اس کی کمر ٹوٹ گئی ہے تو آپ نے فرمایا مجھے اس کا کھانا پسند نہیں کیونکہ اتنی زبردست چوٹ کے بعد زندہ نہیں رہ سکتی، آپ سے پھر پوچھا گیا کہ اچھا اگر پیٹ پھاڑ ڈالا اور آنتیں نہیں نکلیں تو کیا حکم ہے، فرمایا میں تو یہی رائے رکھتا ہوں کہ نہ کھائی جائے۔ یہ ہے امام مالک کا مذہب لیکن چونکہ آیت عام ہے اس لئے امام صاحب نے جن صورتوں کو مخصوص کیا ہے ان پر کوئی خاص دلیل چاہئے، واللہ اعلم۔ بخاری و مسلم میں حضرت رافع بن خدیج سے مروی ہے کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سوال کیا۔ '' حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہم کل دشمن سے لڑائی میں باہم ٹکرانے والے ہیں اور ہمارے ساتھ چھریاں نہیں کیا ہم بانس سے ذبح کرلیں '' آپ نے فرمایا '' جو چیز خون بہائے اور اس پر اللہ کا نام لیا جائے، اسے کھالو، سوائے دانت اور ناخن کے، یہ اس لئے کہ دانت ہڈی ہے اور ناخن حبشیوں کی چھریاں ہیں '' مسند احمد اور سنن میں ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پوچھا گیا کہ '' ذبیحہ صرف حلق اور نرخرے میں ہی ہوتا ہے ؟ '' آپ نے فرمایا '' اگر تو نے اس کی ران میں بھی زخم لگا دیا تو کافی ہے '' یہ حدیث ہے تو سہی لیکن یہ حکم اس وقت ہے جبکہ صحیح طور پر ذبح کرنے پر قادر نہ ہوں۔ مجاہد فرماتے ہیں یہ پرستش گاہیں کعبہ کے اردگرد تھیں، ابن جریج فرماتے ہیں '' یہ تین سو ساٹھ بت تھے، جاہلیت کے عرب ان کے سامنے اپنے جانور قربان کرتے تھے اور ان میں سے جو بیت اللہ کے بالکل متصل تھا، اس پر ان جانوروں کا خون چھڑکتے تھے اور گوشت ان بتوں پر بطور چڑھاوا چڑھاتے تھے '' پس اللہ تعالیٰ نے یہ کام مومنوں پر حرام کیا اور ان جانوروں کا کانا بھی حرام کردیا۔ اگرچہ ان جانوروں کے ذبح کرنے کے وقت بسم اللہ بھی کہی گئی ہو کیونکہ یہ شرک ہے جسے اللہ تعالیٰ وحدہ لا شریک نے اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حرام کیا ہے، اور اسی لائق ہے، اس جملہ کا مطلب بھی یہی ہے کیونکہ اس سے پہلے ان کی حرمت بیان ہوچکی ہے جو اللہ کے سوا دوسروں کے نام پر چڑھائے جائیں۔ (ازلام) سے تقسیم کرنا حرام ہے، یہ جاہلیت کے عرب میں دستور تھا کہ انہوں نے تین تیر رکھ چھوڑے تھے، ایک پر لکھا ہوا تھا افعل یعنی کر، دوسرے پر لکھا ہوا تھا لاتعفل یعنی نہ کر، تیسرا خالی تھا۔ بعض کہتے ہیں ایک پر لکھا تھا مجھے میرے رب کا حکم ہے، دوسرے پر لکھا تھا مجھے میرے رب کی ممانعت ہے، تیسرا خالی تھا اس پر کچھ بھی لکھا ہوا نہ تھا۔ بطور قرعہ اندازی کے کسی کام کے کرنے نہ کرنے میں جب انہیں تردد ہوتا تو ان تیروں کو نکالتے، اگر حکم '' کر '' نکلا تو اس کام کو کرتے اگر ممانعت کا تیر نکلا تو باز آجاتے اگر خالی تیر نکلا تو پھر نئے سرے سے قرعہ اندازی کرتے، ازلام جمع ہے زلم کی اور بعض زلم بھی کہتے ہیں۔ استسقام کے معنی ان تیروں سے تقسیم کی طلب ہے، قریشیوں کا سب سے بڑا بت ہبل خانہ کعبہ کے اندر کے کنوئیں پر نصب تھا، جس کنویں میں کعبہ کے ہدیے اور مال جمع رہا کرتے تھے، اس بت کے پاس سات تیر تھے، جن پر کچھ لکھا ہوا تھا جس کام میں اختلاف پڑتا یہ قریشی یہاں آکر ان تیروں میں سے کسی تیر کو نکالتے اور اس پر جو لکھا پاتے اسی کے مطابق عمل کرتے۔ بخاری و مسلم میں ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب کعبہ میں داخل ہوئے تو وہاں حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل کے مجسمے گڑے ہوئے پائے، جن کے ہاتھوں میں تیر تھے تو آپ نے فرمایا اللہ انہیں غارت کرے، انہیں خوب معلوم ہے کہ ان بزرگوں نے کبھی تیروں سے فال نہیں لی۔ صحیح حدیث میں ہے کہ سراقہ بن مالک بن جعثم جب نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور حضرت ابوبکر صدیق کو ڈھونڈنے کیلئے نکلا کہ انہیں پکڑ کر کفار مکہ کے سپرد کرے اور آپ اس وقت ہجرت کر کے مکہ سے مدینے کو جا رہے تھے تو اس نے اسی طرح قرعہ اندازی کی اس کا بیان ہے کہ پہلی مرتبہ وہ تیر نکلا جو میری مرضی کے خلاف تھا میں نے پھر تیروں کو ملا جلا کر نکالا تو اب کی مرتبہ بھی یہی نکلا تو انہیں کوئی ضرر نہ پہنچا سکے گا، میں نے پھر نہ مانا تیسری مرتبہ فال لینے کیلئے تیر نکالا تو اب کی مرتبہ بھی یہی تیر نکلا لیکن میں ہمت کر کے ان کا کوئی لحاظ نہ کر کے انعام حاصل کرنے اور سرخرو ہونے کیلئے تیر نکالا تو اب کی مرتبہ بھی یہی تیر نکلا لیکن میں ہمت کر کے ان کا کوئی لحاظ نہ کر کے انعام حاصل کرنے اور سرخرو ہونے کیلئے آپ کی طلب میں نکل کھڑا ہوا۔ اس وقت تک سراقہ مسلمان نہیں ہوا تھا، یہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا کچھ نہ بگاڑ سکا اور پھر بعد میں اسے اللہ نے اسلام سے مشرف فرمایا۔ ابن مردویہ میں ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرماتے ہیں '' وہ شخص جنت کے بلند درجوں کو نہیں پاسکتا جو کہانت کرے، یا تیر اندازی کرے یا کسی بدفالی کی وجہ سے سفر سے لوٹ آئے '' حضرت مجاہد نے یہ بھی کہا ہے کہ عرب ان تیروں کے ذریعہ اور فارسی اور رومی پانسوں کے ذریعہ جوا کھیلا کرتے تھے جو مسلمانوں پر حرام ہے۔ ممکن ہے کہ اس قول کے مطابق ہم یوں کہیں کہ تھے تو یہ تیر استخارے کیلئے مگر ان سے جو ابھی گاہے بگاہے کھیل لیا کرتے۔ واللہ اعلم۔ اسی سورت کے آخر میں اللہ تعالیٰ نے جوئے کو بھی حرام کیا ہے اور فرمایا '' ایمان والو ! شراب، جواء، بت اور تیر نجس اور شیطانی کام ہیں، تم ان سے الگ رہو تاکہ تمہیں نجات ملے، شیطان تو یہ چاہتا ہے کہ ان کے ذریعہ تمہارے درمیان عداوت و بغض ڈال دے '' اسی طرح یہاں بھی فرمان ہوتا ہے کہ تیروں سے تقسیم طلب کرنا حرام ہے، اس کام کا کرنا فسق، گمراہی، جہالت اور شرک ہے۔ اس کے بجائے مومنوں کو حکم ہوا کہ جب تمہیں اپنے کسی کام میں تردد ہو تو تم اللہ تعالیٰ سے استخارہ کرلو، اس کی عبادت کر کے اس سے بھلائی طلب کرو۔ مسند احمد، بخاری اور سنن میں مروی ہے حضرت جابر بن عبداللہ فرماتے ہیں ہمیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جس طرح قرآن کی سورتیں سکھاتے تھے، اسی طرح ہمارے کاموں میں استخارہ کرنا بھی تعلیم فرماتے تھے، آپ ارشاد فرمایا کرتے تھے کہ جب تم سے کسی کو کوئی اہم کام آپڑے تو اسے چاہئے کہ دو رکعت نماز نفل پڑھ کر یہ دعا پڑھے اللھم انی استخیرک بعلمک واستقدرک بقدرتک واسئلک من فضلک العظیم فانک تقدر ولا اقدر وتعلم اولا اعلم وانت علام الغیوب اللھم ان کنت تعلم ان ھذا الامر خیر لی فی دینی ودنیای ومعاشی وعاقبتہ امری فقدرہ لی ویسرہ لی ثم بارک لی فیہ وان کنت تعلم انہ شر لی فی دینی ونیای ومعاشی وعاقبتہ امری فاصرفہ عنی واقدرلی الخیر حیث کان ثم رضنی بہ۔ یعنی اے اللہ میں تجھ سے تیرے علم کے ذریعہ بھلائی طلب کرتا ہوں اور تیری قدرت کے وسیلے سے تجھ سے قدرت طلب کرتا ہوں اور تجھ سے تیرے بڑے فضل کا طالب ہوں، یقینا تو ہر چیز پر قادر ہے اور میں محض مجبور ہوں، تو تمام علم والا ہے اور میں مطلق بےعلم ہوں، تو ہی تمام غیب کو بخوبی جاننے والا ہے، اے میرے اللہ اگر تیرے علم میں یہ کام میرے لئے دین دنیا میں آغاز و انجام کے اعتبار سے بہتر ہی بہتر ہے تو اسے میرے لئے مقدر کر دے اور اسے میرے لئے آسان بھی کر دے اور اس میں مجھے ہر طرح کی برکتیں عطا فرما اور اگر تیرے علم میں یہ کام میرے لئے دین کی دنیا زندگی اور انجام کار کے لحاظ سے برا ہے تو اسے مجھ سے دور کر دے اور مجھے اس سے دور کر دے اور میرے لئے خیرو برکت جہاں کہیں ہو مقرر کر دے پھر مجھے اسی سے راضی و ضا مند کر دے۔ دعا کے یہ الفاظ مسند احمد میں ہیں ھذا الامر جہاں ہے وہاں اپنے کام کا نام لے مثلاً نکاح ہو تو ھذا النکاح سفر میں ہو تو ھذا السفر بیوپار میں ہو تو ھذا التجارۃ وغیرہ۔ بعض روایتوں میں خیر لی فی دینی سے امری تک کے بجائے یہ الفاظ ہیں۔ دعا (خیر لی فی عاجل امری و اجلہ) ۔ امام ترمذی اس حدیث کو حسن غریب بتلاتے ہیں، پھر فرماتا ہے آج کافر تمہارے دین سے مایوس ہوگئے، یعنی ان کی یہ امیدیں خاک میں مل گئیں کہ وہ تمہارے دین میں کچھ خلط ملط کرسکیں یعنی اپنے دین کو تمہارے دین میں شامل کرلیں۔ چناچہ صحیح حدیث میں ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے '' فرمایا شیطان اس سے تو مایوس ہوچکا ہے کہ نمازی مسلمان جزیرہ عرب میں اس کی پرستش کریں، ہاں وہ اس کوشش میں رہے گا کہ مسلمانوں کو آپس میں ایک دوسرے کے خلاف بھڑکائے۔ '' یہ بھی ہوسکتا ہے کہ مشرکین مکہ اس سے مایوس ہوگئے کہ مسلمانوں سے مل جل کر رہیں، کیونکہ احکام اسلام نے ان دونوں جماعتوں میں بہت کچھ تفاوت ڈال دیا، اسی لئے حکم ربانی ہو رہا ہے کہ مومن صبر کریں، ثابت قدم رہیں اور سوائے اللہ کے کسی سے نہ ڈریں، کفار کی مخالفت کی کچھ پرواہ نہ کریں، اللہ ان کی مدد کرے گا اور انہیں اپنے مخالفین پر غلبہ دے گا اور ان کے ضرر سے ان کی محافظت کی کچھ پرواہ نہ کریں، اللہ ان کی مدد کرے گا اور انہیں اپنے مخالفین پر غلبہ دے گا اور ان کے ضرر سے ان کی محافظت کریگا اور دنیا و آخرت میں انہیں بلند وبالا رکھے گا۔ پھر اپنی زبردست بہترین اعلیٰ اور افضل تر نعمت کا ذکر فرماتا ہے کہ '' میں نے تمہارا دین ہر طرح اور ہر حیثیت سے کامل و مکمل کردیا، تمہیں اس دین کے سوا کسی دین کی احتیاج نہیں، نہ اس نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سوا اور کسی بنی کی تمہیں حاجت ہے، اللہ نے تمہارے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو خاتم الانبیاء کیا ہے، انہیں تمام جنوں اور انسانوں کی طرف بھیجا ہے، حلال وہی ہے جسے وہ حلال کہیں، حرام وہی ہے جسے وہ حرام کہیں، دین وہی ہے جسے یہ مقرر کریں، ان کی تمام باتیں حق و صداقت والی، جن میں کسی طرح کا جھوٹ اور تضاد نہیں ''۔ جیسے فرمان باری ہے آیت (وَتَمَّتْ كَلِمَتُ رَبِّكَ صِدْقًا وَّعَدْلًا) 6 ۔ الانعام ;1145) یعنی تیرے رب کا کلمہ پورا ہوا، جو خبریں دینے میں سچا ہے اور حکم و منع میں عدل والا ہے۔ دین کو کامل کرنا تم پر اپنی نعمت کو بھرپور کرنا ہے چونکہ میں خود تمہارے اس دین اسلام پر خوش ہوں، اس لئے تم بھی اسی پر راضی رہو، یہی دین اللہ کا پسندیدہ، اسی کو دے کر اس نے اپنی افضل رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بھیجا ہے اور اپنی اشرف کتاب نازل فرمائی ہے۔ حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ اس دین اسلام کو اللہ تعالیٰ نے تمہارے لئے کامل کردیا ہے اور اپنے نبی اور مومنوں کو اس کا کامل ہونا خود اپنے کلام میں فرما چکا ہے اب یہ رہتی دنیا تک کسی زیادتی کا محتاج نہیں، اسے اللہ نے پورا کیا ہے جو قیامت تک ناقص نہیں ہوگا۔ اس سے اللہ خوش ہے اور کبھی بھی ناخوش نہیں ہونے والا۔ حضرت سدی فرماتے ہیں یہ آیت عرفہ کے دن نازل ہوئی، اس کے بعد حلال و حرام کا کوئی حکم نہیں اترا، اس حج سے لوٹ کر اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا انتقال ہوگیا، حضرت اسماء بنت عمیس فرماتی ہیں '' اس آخری حج میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ میں بھی تھی، ہم جا رہے تھے اتنے میں حضرت جبرائیل کی تجلی ہوئی حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنی اونٹنی پر جھک پڑے وحی اترنی شروع ہوئی، اونٹنی وحی کے بوجھ کی طاقت نہیں رکھتی تھی۔ میں نے اسی وقت اپنی چادر اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر اڑھا دی ''۔ ابن جریر وغیرہ فرماتے ہیں اس کے بعد اکیاسی دن تک رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حیات رہے، حج اکبر والے دن جبکہ یہ آیت اتری تو حضرت عمر رونے لگے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سبب دریافت فرمایا تو جواب دیا کہ ہم دین کی تعمیل میں کچھ زیادہ ہی تھے، اب وہ کامل ہوگیا اور دستور یہ ہے کہ کمال کے بعد نقصان شروع ہوجاتا ہے، آپ نے فرمایا سچ ہے، اسی معنی کی شہادت اس ثابت شدہ حدیث سے ہوتی ہے جس میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا یہ فرمان ہے کہ اسلام غربت اور انجان پن سے شروع ہوا اور عنقریب پھر غریب انجان ہوجائیگا، پس غرباء کیلئے خوشخبری ہے۔ مسند احمد میں ہے کہ ایک یہودی نے حضرت فاروق اعظم سے کہا تم جو اس آیت ( ۭ اَلْيَوْمَ اَ كْمَلْتُ لَكُمْ دِيْنَكُمْ وَاَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِيْ وَرَضِيْتُ لَكُمُ الْاِسْلَامَ دِيْنًا) 5 ۔ المائدہ ;3) کو پڑھتے ہو اگر وہ ہم یہودیوں پر نازل ہوتی تو ہم اس دن کو عید منا لیتے '' حضرت عمر نے فرمایا واللہ مجھے علم ہے کہ آیت کس وقت اور کس دن نازل ہوئی، عرفے کے دن جمعہ کی شام کو نازل ہوئی ہے، ہم سب اس وقت میدان عرفہ میں تھے، تمام سیرت والے اس بات پر متفق ہیں کہ حجتہ الوادع والے سال عرفے کا دن جمعہ کو تھا، ایک اور روایت میں ہے کہ حضرت کعب نے حضرت عمر سے یہ کہا تھا کہ حضرت عمر نے فرمایا یہ آیت ہمارے ہاں دوہری عید کے دن نازل ہوئی ہے۔ حضرت ابن عباس کی زبانی اس آیت کی تلاوت سن کر بھی یہودیوں نے یہی کہا تھا کہ جس پر آپ نے فرمایا ہمارے ہاں تو یہ آیت دوہری عید کے دن اتری ہے، عید کا دن بھی تھا اور جمعہ کا دن تھی۔ حضرت علی سے مروی ہے کہ یہ آیت عرفے کے دن شام کو اتری ہے، حضرت معاویہ بن ابی سفیان نے منبر پر اس پوری آیت کی تلاوت کی اور فرمایا جمعہ کے دن عرفے کو یہ اتری یہ ہے۔ حضرت سمرہ فرماتے ہیں اس وقت حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) موقف میں کھڑے ہوئے تھے، ابن عباس سے مروی ہے کہ تمہارے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پیر والے دن پیدا ہوئے، پیر والے دن ہی مکہ سے نکلے اور پیر والے دن ہی مدینے میں تشریف لائے، یہ اثر غریب ہے اور اس کی سند ضعیف ہے۔ مسند احمد میں ہے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پیر والے دن پیدا ہوئے، پیر والے دن نبی بنائے گئے، پیر والے دن ہجرت کے ارادے سے نکلے، پیر کے روز ہی مدینے پہنچے اور پیر کے دن ہی فوت کئے گئے، حجر اسود بھی پیر کے دن واقع ہوا، اس میں سورة مائدہ کا پیر کے دن اترنا مذکور نہیں، میرا خیال یہ ہے کہ ابن عباس نے کہا ہوگا دو عیدوں کے دن یہ آیت اتری تو دو کیلئے بھی لفظ اثنین ہے، اور پیر کے دن کو بھی اثنین کہتے ہیں اس لئے راوی کو شبہ سا ہوگیا واللہ اعلم۔ دو قول اس میں اور بھی مروی ہیں ایک تو یہ کہ یہ دن لوگوں کو نامعلوم ہے دوسرا یہ کہ یہ آیت غدیر خم کے دن نازل ہوئی ہے جس دن کو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت علی کی نسبت فرمایا تھا کہ جس کا مولیٰ میں ہوں، اس کا مولیٰ علی ہے گویا ذی الحجہ کی اٹھارویں تاریخ ہوئی، جبکہ آپ حجتہ الوداع سے واپس لوٹ رہے تھے لیکن یہ یاد رہے کہ یہ دونوں قول صحیح نہیں۔ بالکل صحیح اور بیشک و شبہ قول یہی ہے کہ یہ آیت عرفے کے دن جمعہ کو اتری ہے، امیر المومنین عمر بن خطاب اور امیر المومنین علی بن ابو طالب اور امیر المومنین حضرت امیر معاویہ بن سفیان اور ترجمان القرآن حضرت عبداللہ بن عباس اور حضرت سمرہ بن جندب سے یہی مروی ہے اور اسی کو حضرت شعبی، حضرت قتادہ، حضرت شہیر وغیرہ ائمہ اور علماء نے کہا ہے، یہی مختار قول ابن جریر اور طبری کا ہے، پھر فرماتا ہے '' جو شخص ان حرام کردہ چیزوں میں سے کسی چیز کے استعمال کی طرف مجبور و بےبس ہوجائے تو وہ ایسے اضطرار کی حالت میں انہیں کام لاسکتا ہے۔ اللہ غفور و رحیم ہے، وہ جانتا ہے کہ اس بندے نے اس کی حد نہیں توڑی لیکن بےبسی اور اضطرار کے موقعہ پر اس نے یہ کیا ہے تو اللہ سے معاف فرما دے گا۔ صحیح ابن حبان میں حضرت ابن عمر سے مرفوعاً مروی ہے کہ اللہ تعالیٰ کو اپنی دی ہوئی رخصتوں پر بندوں کا عمل کرنا ایسا بھاتا ہے جیسے اپنی نافرمانی سے رک جانا۔ مسند احمد میں ہے جو شخص اللہ کی دی ہوئی رخصت نہ قبول کرے، اس پر عرفات کے پہاڑ برابر گناہ ہے، اسی لئے فقہاء کہتے ہیں کہ بعض صورتوں میں مردار کا کھانا واجب ہوجاتا ہے جیسے کہ ایک شخص کی بھوک کی حالت یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ اب مرا چاہتا ہے کہ کبھی جائز ہوجاتا ہے اور کبھی مباح، ہاں اس میں اختلاف ہے کہ بھوک کے وقت جبکہ حلال چیز میسر نہ ہو تو حرام صرف اتنا ہی کھا سکتا ہے کہ جان بچ جائے یا پیٹ بھر سکتا ہے بلکہ ساتھ بھی رکھ سکتا ہے، اس کے تفصیلی بیان کی جگہ احکام کی کتابیں ہیں۔ اس مسئلہ میں جب بھوکا شخص جس کے اوپر اضطرار کی حالت ہے، مردار اور دوسرے کا کھانا اور حالت احرام میں شکار تینوں چیزیں موجود پائے تو کیا وہ مردار کھالے ؟ یہ حالت احرام میں ہونے کے باوجود شکار کرلے اور اپنی آسانی کی حالت میں اس کی جزا یعنی فدیہ ادا کر دے یا دوسرے کی چیز بلا اجازت کھالے اور اپنی آسانی کے وقت اسے وہ واپس کر دے، اس میں دو قول ہیں امام شافعی سے دونوں مروی ہیں۔ یہ بھی یاد رہے کہ مردار کھانے کی یہ شرط جو عوام میں مشہور ہے کہ جب تین دن کا فاقہ ہوجائے تو حلال ہوتا ہے یہ بالکل غلط ہے بلکہ جب اضطرار، بےقراری اور مجبوری حالت میں ہو، اس کیلئے مردار کھانا حلال ہوجاتا ہے۔ مسند احمد کی حدیث میں ہے کہ لوگوں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے دریافت کیا کہ '' حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہم ایسی جگہ رہتے ہیں کہ آئے دن ہمیں فقر و فاقہ کی نوبت آجاتی ہے، تو ہمارے لئے مردار کا کھا لینا کیا جائز ہوتا ہے ؟ آپ نے فرمایا '' جب صبح شام نہ ملے اور نہ کوئی سبزی ملے تو تمہیں اختیار ہے۔ '' اس حدیث کی ایک سند میں ارسال بھی ہے، لیکن مسند والی مرفع حدیث کی اسناد شرط شیخین پر صحیح ہے۔ ابن عون فرماتے ہیں حضرت حسن کے پاس حضرت سمرہ کی کتاب تھی، جسے میں ان کے سامنے پڑھتا تھا، اس میں یہ بھی تھا کہ صبح شام نہ ملنا اضطرار ہے، ایک شخص نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے دریافت کیا کہ '' حرام کھانا کب حلال ہوجاتا ہے ؟ '' آپ نے فرمایا '' جب تک کہ تو اپنے بچوں کو دودھ سے شکم سیر نہ کرسکے اور جب تک ان کا سامان نہ آجائے۔ '' ایک اعرابی نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے حلال حرام کا سوال کیا، آپ نے جواب دیا کہ '' کل پاکیزہ چیزیں حلال اور کل خبیث چیزیں حرام ہاں جب کہ ان کی طرف محتاج ہوجائے تو انہیں کھا سکتا ہے جب تک کہ ان سے غنی نہ ہوجائے '' اس نے پھر دریافت کیا کہ '' وہ محتاجی کونسی جس میں میرے لئے وہ حرام چیز حلال ہوئے اور وہ غنی ہونا کونسا جس میں مجھے اس سے رک جانا چاہئے '' فرمایا۔ '' جبکہ تو صرف رات کو اپنے بال بچوں کو دودھ سے آسودہ کرسکتا ہو تو تو حرام چیز سے پرہیز کر۔ '' ابو داؤد میں ہے حضرت نجیع عامری نے رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے دریافت کیا کہ '' ہمارے لئے مردار کا کھانا کب حلال ہوجاتا ہے ؟ '' آپ نے فرمایا '' تمہیں کھانے کو کیا ملتا ہے ؟ '' اس نے کہا '' صبح کو صرف ایک پیالہ دودھ اور شام کو بھی صرف ایک پیالہ دودھ '' آپ نے کہا '' یہی ہے اور کونسی بھوک ہوگی ؟ '' پس اس حالت میں آپ نے انہیں مردار کھانے کی اجازت عطا فرمائی۔ مطلب حدیث کا یہ ہے کہ صبح شام ایک ایک پیالہ دودھ کا انہیں ناکافی تھا، بھوک باقی رہتی تھی، اس لئے ان پر مردہ حلال کردیا گیا، تاکہ وہ پیٹ بھر لیا کریں، اسی کو دلیل بنا کر بعض بزرگوں نے فرمایا ہے کہ اضطرار کے وقت مردار کو پیٹ بھر کر کھا سکتا ہے، صرف جان بچ جائے اتنا ہی کھانا جائز ہو، یہ حد ٹھیک نہیں واللہ اعلم۔ ابو داؤد کی اور حدیث میں ہے کہ ایک شخص مع اہل و عیال کے آیا اور حرہ میں ٹھہرا، کسی صاحب کی اونٹنی گم ہوگئی تھی، اس نے ان سے کہا اگر میری اونٹنی تمہیں مل جائے تو اسے پکڑ لینا۔ اتفاق سے یہ اونٹنی اسے مل گئی، اب یہ اس کے مالک کو تلاش کرنے لگے لیکن وہ نہ ملا اور اونٹنی بیمار پڑگئی تو اس شخص کی بیوی صاحبہ نے کہا کہ ہم بھوکے رہا کرتے ہیں، تم اسے ذبح کر ڈالو لیکن اس نے انکار کردیا، آخر اونٹنی مرگئی تو پھر بیوی صاحبہ نے کہا، اب اس کی کھال کھینچ لو اور اس کے گوشت اور چربی کو ٹکڑے کر کے سلکھا لو، ہم بھوکوں کو کام آجائیگا، اس بزرگ نے جواب دیا، میں تو یہ بھی نہیں کرونگا، ہاں اگر اللہ کے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اجازت دے دیں تو اور بات ہے۔ چناچہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہو کر اس نے تمام قصہ بیان کیا آپ نے فرمایا کیا تمہارے پاس اور کچھ کھانے کو ہے جو تمہیں کافی ہو ؟ جواب دیا کہ نہیں آپ نے فرمایا پھر تم کھا سکتے ہو۔ اس کے بعد اونٹنی والے سے ملاقات ہوئی اور جب اسے یہ علم ہوا تو اس نے کہا پھر تم نے اسے ذبح کر کے کھا کیوں نہ لیا ؟ اس بزرگ صحابی نے جواب دیا کہ شرم معلوم ہوئی۔ یہ حدیث دلیل ہے ان لوگوں کی جو کہتے ہیں کہ یہ بوقت اضطرار مردار کا پیٹ بھر کر کھانا بلکہ اپنی حاجت کے مطابق اپنے پاس رکھ لینا بھی جائز ہے واللہ اعلم۔ پھر ارشاد ہوا ہے کہ یہ حرام بوقت اضطرار اس کیلئے مباح ہے جو کسی گناہ کی طرف میلان نہ رکھتا ہو، اس کیلئے اسے مباح کر کے دوسرے سے خاموشی ہے، جیسے سورة بقرہ میں ہے آیت (فَمَنِ اضْطُرَّ غَيْرَ بَاغٍ وَّلَا عَادٍ فَلَآ اِثْمَ عَلَيْهِ ) 2 ۔ البقرۃ ;173) یعنی وہ شخص بےقرار کیا جائے سوائے باغی اور حد سے گزرنے والے کے پس اس پر کوئی گناہ نہیں، اللہ تعالیٰ بخشنے والا مہربانی کرنے والا ہے۔ اس آیت سے یہ استدعا کیا گیا ہے کہ جو شخص اللہ کی کسی نافرمانی کا سفر کر رہا ہے، اسے شریعت کی رخصتوں میں سے کوئی رخصت حاصل نہیں، اس لئے کہ رخصتیں گناہوں سے حاصل نہیں ہوتیں واللہ تعالیٰ اعلم۔