المائدہ آية ۵۷
يٰۤـاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تَـتَّخِذُوا الَّذِيْنَ اتَّخَذُوْا دِيْنَكُمْ هُزُوًا وَّلَعِبًا مِّنَ الَّذِيْنَ اُوْتُوا الْكِتٰبَ مِنْ قَبْلِكُمْ وَالْـكُفَّارَ اَوْلِيَاۤءَ ۚ وَاتَّقُوا اللّٰهَ اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِيْنَ
طاہر القادری:
اے ایمان والو! ایسے لوگوں میں سے جنہیں تم سے پہلے کتاب دی گئی تھی، ان کو جو تمہارے دین کو ہنسی اور کھیل بنائے ہوئے ہیں اور کافروں کو دوست مت بناؤ، اور اﷲ سے ڈرتے رہو بشرطیکہ تم (واقعی) صاحبِ ایمان ہو،
English Sahih:
O you who have believed, take not those who have taken your religion in ridicule and amusement among the ones who were given the Scripture before you nor the disbelievers as allies. And fear Allah, if you should [truly] be believers.
1 Abul A'ala Maududi
ا ے لوگو جو ایمان لائے ہو، تمہارے پیش رو اہل کتاب میں سے جن لوگوں نے تمہارے دین کو مذاق اور تفریح کا سامان بنا لیا ہے، اُنہیں اور دوسرے کافروں کو اپنا دوست اور رفیق نہ بناؤ اللہ سے ڈرو اگر تم مومن ہو
2 Ahmed Raza Khan
اے ایمان والو! جنہوں نے تمہارے دین کو ہنسی کھیل بنالیا ہے وہ جو تم سے پہلے کتاب دیے گئے اور کافر ان میں کسی کو اپنا دوست نہ بناؤ اور اللہ سے ڈرتے رہو اگر ایمان رکھتے ہو
3 Ahmed Ali
اے ایمان والو! ان لوگوں کو اپنا دوست نہ بناؤ جنہوں نے تمہارے دین کو ہنسی اور کھیل بنا رکھا ہے ان لوگو ں میں سے جنہیں تم سے پہلے کتاب دی گئی اور کافروں کو اور الله سے ڈرو اگر تم ایمان دار ہو
4 Ahsanul Bayan
مسلمانو! ان لوگوں کو دوست نہ بناؤ جو تمہارے دین کو ہنسی کھیل بنائے ہوئے ہیں (خواہ) وہ ان میں سے ہوں جو تم سے پہلے کتاب دیئے گئے یا کفار ہوں (١) اگر تم مومن ہو تو اللہ تعالٰی سے ڈرتے رہو۔
٥٧۔١ اہل کتاب سے یہود و نصاریٰ اور کفار سے مشرکین مراد ہیں۔ یہاں پھر یہی تاکید کی گئی ہے کہ دین کو کھیل مذاق بنانے والے چونکہ اللہ اور اس کے رسول کے دشمن ہیں اس لئے ان کے ساتھ اہل ایمان کی دوستی نہیں ہونی چاہئے۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
اے ایمان والوں! جن لوگوں کو تم سے پہلے کتابیں دی گئی تھیں ان کو اور کافروں کو جنہوں نے تمہارے دین کو ہنسی اور کھیل بنا رکھا ہے دوست نہ بناؤ اور مومن ہو تو خدا سے ڈرتے رہو
6 Muhammad Junagarhi
مسلمانو! ان لوگوں کو دوست نہ بناؤ جو تمہارے دین کو ہنسی کھیل بنائے ہوئے ہیں (خواه) وه ان میں سے ہوں جو تم سے پہلے کتاب دیئے گئے یا کفار ہوں اگر تم مومن ہو تو اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہو۔
7 Muhammad Hussain Najafi
اے ایمان والو! وہ لوگ جنہیں تم سے پہلے کتاب دی گئی اور انہوں نے تمہارے دین کو مذاق اور کھیل بنا رکھا ہے۔ ان کو اور دوسرے عام کفار کو اپنا دوست نہ بناؤ اور اللہ سے ڈرو، اگر تم مؤمن ہو۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
ایمان والو خبردار اہل ه کتاب میں جن لوگوں نے تمہارے دین کو مذاق اور تماشہ بنالیا ہے اور دیگر کفار کو بھی اپنا ولی اور سرپرست نہ بنانا اور اللہ سے ڈرتے رہنا اگر تم واقعی صاحب ایمان ہو
9 Tafsir Jalalayn
اے ایمان والو ! جن لوگوں کو تم سے پہلے کتابیں دی گئی تھی ان کو اور کافروں کو جنہوں نے تمہارے دین کو ہنسی اور کھیل بنا رکھا ہے دوست نہ بناؤ اور مومن ہو تو خدا سے ڈرتے رہو۔
آیت نمبر ٥٧ تا ٦٦
ترجمہ : اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو تمہارے پیش رو اہل کتاب کو جنہوں نے تمہارے فین کو مذاق اور سامان تفریح بنایا ہے اور من بیانیہ ہے اور کافروں مشرکوں کو (اپنا) دوست نہ بناؤ ھزوا بمعنی مھزوابہ ہے، یعنی مصدر بمعنی مفعول ہے نصب کے ساتھ ہے، ان سے ترک موالات کرکے اللہ سے ڈرو اگر تم مومن ہوم (یعنی) اپنے ایمان میں سچے ہو اور ان لوگوں کو بھی کہ جو تم نماز کیلئے اذان دیتے ہو تو وہ اس نماز کا مذاق اڑاتے ہیں اور کھیل بناتے ہیں اس طریقہ پر کہ اس کا استہزاء کرتے ہیں اور اس کی تضحیک کرتے ہیں اور ان کا یہ استہزاء وغیرہ کرنا اس وجہ سے ہے کہ وہ ناسمجھ لوگ ہیں جب یہود نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کہا رسولوں میں سے تم کس رسول پر ایمان رکھتے ہو ؟ تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ! اللہ پر اور اس پر جو ہماری جانب نازل کیا گیا (الآیۃ) جب حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کا ذکر فرمایا تو کہنے لگے ہم تمہارے دین سے کسی دین کو بدتر نہیں سمجھتے، تو (آئندہ) آیت نازل ہوئی، ان سے کہو، اے اہل کتاب تم ہم کو صرف اس وجہ سے ناپسند کرتے ہو کہ ہم اللہ پر ہر جو ہماری طرف نازل کیا گیا ایمان رکھتے ہیں اور اس پر جو انبیاء سابقین پر نازل کیا گیا ہے ایمان رکھتے ہیں اور بلاشبہ تم میں سے اکثر فاسق ہیں، اس کا عطف اَن آمَنّا پر ہے معنی یہ ہیں کہ تم صرف ہمارے ایمان کو ناپسند کرتے ہو اور تم سے ہماری مخالفت ایمان قبول نہ کرنے کی وجہ سے ہے جس کو فسق سے تعبیر کیا گیا ہے جو کہ ایمان کے عدم قبول کو لازم ہے اور یہ ناپسندیدہ باتوں میں سے نہیں ہے، ان سے کہو کیا میں ان لوگوں کی نشاندہی کر دوں (بتلا دوں) جو سزا کے اعتبار سے اللہ کے نزدیک ان سے بدتر ہیں جن کو تم سمجھتے ہو مثوبۃً بمعنی جزاءً ہے اور وہ، وہ شخص ہے جس پر اللہ نے لعنت کی یعنی جس کو اپنی رحمت سے دور کردیا، اور اس پر غضبناک ہوا، اور ان میں سے بعض کو مسخ کرکے بندر بنادیا اور بعض کو سور بنادیا اور وہ شخص ہے جس نے شیطان کی بندگی کی اس کی اطاعت کرکے، اور مِنْھُمْ میں، مَنْ کے معنی کی رعایت کی ہے اور اس کے ماقبل میں مَنْ کے لفظ کی رعایت کی ہے اور وہ یہود ہیں، اور ایک قراءت میں عَبْد، کی باء کے ضمہ اور اس کی مابعد کی طرف اضافت کے ساتھ ہے، عَبْد اسم جمع ہے اور (طاغوت) کا نصب، القردۃ پر عطف کی وجہ سے ہے، یہ وہ لوگ ہیں کہ جن کے درجے اور بھی زیادہ برے ہیں مکاناً تمیز ہے اس لئے کہ ان کا ٹھکانا آگ ہے اور راہ راست سے زیادہ بھٹکے ہوئے ہیں، (یعنی) طریق حق سے، اور سواءٌ کی اصل وسط ہے اور شرٌّ اور اضَلُّ کا ذکر ان کے قول ” لانعلم دینا شراً من دینکم “ کے مقابلہ میں ہے، اور جب یہ منافق یہودی تمہارے پاس آتے ہیں تو کہتے ہیں کہ ہم ایمان لائے ہیں، حالانکہ کفر لئے ہوئے آئے اور وہ تمہارے پاس سے کفر ہی لئے ہوئے واپس گئے، اور ایمان نہیں لائے، اور اللہ خوب جانتا ہے اس نفاق کو جس کو یہ چھپاتے ہوئے ہیں اور آپ ان میں سے یعنی یہود میں سے بہت سوں کو دیکھتے ہیں کہ گناہ کذب اور ظلم کی طرف لپکتے ہیں یعنی گناہ میں بعجلت ملوث ہوجاتے ہیں اور حرام کھاتے ہیں جیسا کہ رشوت، یقیناً یہ جو کچھ کرتے ہیں بہت بری حرکت ہے اور کیوں ان کے علماء اور مشائخ گناہ یعنی جھوٹ بات کہنے سے اور حرام مال کھانے سے نہیں روکتے ؟ ان کو منع نہ کرنا یقیناً بہت بری حرکت ہے اور جب یہود پر نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تکذیب کی وجہ سے تنگدستی ڈال دی گئی حالانکہ وہ لوگوں میں کثیر المال تھے تو انہوں نے کہا کہ اللہ کے ہاتھ بندھے ہوئے ہیں یعنی ہمارے اوپر رزق میں کشادگی کرنے سے بندھے ہوئے ہیں، (ید اللہ مغلولۃ) سے بخل کی طرف کنایہ کیا ہے (حالانکہ) اللہ تعالیٰ بخل سے بری ہے، اللہ تعالیٰ نے فرمایا، ان کے ہاتھ نیک کام سے روک دئیے گئے ہیں (یہ) ان کیلئے بددعاء ہے، اور ان کی بکواس کی وجہ سے ان پر لعنت کی گئی بلکہ (حقیقت یہ ہے) کہ اس کے دونوں ہاتھ کھلے ہوئے ہیں یہ صفت سخاوت میں مبالغہ ہے، کثرت کا فائدہ دینے کیلئے یَدْ کو تثنیہ لایا گیا ہے، اس لئے کہ سخی اپنے مال سے جس چیز کی سخاوت کرتا ہے، اس کا انتہائی درجہ یہ ہے کہ دونوں ہاتھوں سے لٹائے، اور جس طرح چاہے خرچ کرے خواہ وسعت سے یا تنگی سے، اس پر کسی کو انگلی اٹھانے کا حق نہیں، جو چیز آپ کے رب کی جانب سے آپ پر نازل کی گئی ہے (یعنی) قرآن یقیناً اس نے ان میں سے اکثر کی سرکشی اور کفر میں اضافہ کیا ان کے اس (قرآن) سے منکر ہونے کی وجہ سے اور (اس کی پاداش) میں ہم نے ان کے درمیان قیامت تک کیلئے عداوت اور بغض ڈال دیا ہے اور جب کبھی یہ لوگ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ جنگ کی آگ بھڑکاتے ہیں اللہ اس کو ٹھنڈا کردیتا ہے یعنی جب بھی وہ حملہ آور ہونے کا ارادہ کرتے ہیں تو اللہ تعالیٰ ان کو پس پاکر دیتا ہے، یہ لوگ زمین میں فساد برپا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں یعنی معصیت کے ذریعہ فساد کرنے والے ہیں، اللہ تعالیٰ مفسدہ پردازوں کو پسند نہیں فرماتے، مطلب یہ کہ وہ ان کو سزا دیگا، اور اگر (اس سرکشی کے بجائے) اہل کتاب محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان لے آتے اور کفر سے بچتے تو ہم ان کے گناہوں کو معاف کردیتے اور ان کو نعمت بھری جنتوں میں پہنچا دیتے اگر ان لوگوں نے تورات و انجیل میں مذکور (احکام) پر عمل کرکے ان کو قائم کیا ہوتا اور ان ہی میں سے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان لانا بھی ہے اور ان (دوسری) کتابوں کو قائم کیا ہوتا جو ان پر ان کے رب کی جانب سے نازل کی گئیں، تو ان کے لئے اوپر سے بھی رزق برستا اور نیچے (زمین) سے بھی رزق ابلتا، بایں طور کہ ان پر رزق کی وسعت کردی جاتی اور چاروں طرف سے رزق کی ریل پیل ہوتی، ان میں کچھ لوگ اعتدال پسند بھی ہیں جو اسی پر عمل کرتے ہیں، اور یہ وہ لوگ ہیں جو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان لائے جیسا کہ عبد اللہ بن سلام اور ان کے ساتھی، لیکن ان کے اکثر لوگ سخت بدعمل ہیں۔
تحقیق و ترکیب و تسہیل و تفسیری فوائد
قولہ : لاتَتَّخِذُوا، الخ، کلام مستانف ہے، لاتتخذوا، فعل مضارع مجزوم بلا، اس کے اندر ضمیر فاعل اَلّذی اسم موصول اتخذوا فعل بافاعل دینکم مفعول بہ اول، ھُزُواً معطوف علیہ لَعِباً معطوف، معطوف بامعطوف علیہ مفعول بہ ثانی، جملہ ہو کر صلہ۔ موصول صلہ سے مل کر مفعول اول لاتتخذوا کا، اَوْلیاءَ مفعول ثانی، لاتتخذوا ضمیر فاعل اور مفعول سے مل کر جواب ندا، ندا اپنے منادیٰ اور جواب ندا سے مل کر جملہ ندائیہ ہوکر، قُلْ فعل محذوف کا مقولہ۔
قولہ : مَھْزُوًا بہ، یعنی ھُزُوًا مصدر، مفعول کے معنی میں ہے۔ قولہ : بالجرِّ ، جر الّذین پر عطف کی وجہ سے ہے۔
قولہ : النصبُ ، اور کفّار کا نصب، اَلَّذِینَ اِتخذوا پر عطف کی وجہ سے۔
قولہ : فقال باللہ ومَا اُنزِلَ الینا (الآیۃ) مطلب یہ ہے کہ یہود کے جواب میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سورة بقرہ کی مذکورہ آیت تلاوت فرمائی جس میں حضرت عیسیٰ علیہ الصلوٰ ۃ والسلام کی نبوت کا بھی ذکر ہے۔
قولہ : تَنْقِمُوْنَ ، تم انکار کرتے ہو تم دشمنی رکھتے ہو، تم عیب جوئی کرتے ہو، یہ نَقَمٌ سے ماخوذ ہے، مضارع جمع مذکر حاضر ہے۔
قولہ : المعنی ما تُنْکِرُوْنَ اِلاّ اِیْمَانَنَا، اس اضافہ کا مقصد یہ بتانا ہے کہ ھل تنقمونَہ میں استفہام انکاری ہے۔
قولہ : ثواباً ، اس میں اشارہ ہے کہ مَثُوْبَۃً مصدر میمی ہے نہ کہ ظرف۔
قولہ : وذُکِرَ شَرٌُ وَاَضَلُّ فی مُقَابَلَۃِ الخ اس عبارت کے اضافہ کا مقصد ایک سوال مقدر کا جواب ہے۔
سوال : شرٌُ اور اَضَلُّ اسم تفضیل کے صیغے ہیں جن کیلئے مفضل علیہ کی ضرورت ہوتی ہے، پیش نظر آیت میں یہود مفضل اور مسلمان مفضل علیہ ہیں، اور مفضل اور مفضل علیہ نفس وصف میں شریک ہوا کرتے ہیں لہٰذا یہود اور مسلمان نفس شرارت اور ضلالت میں شریک ہوں گے گو یہود مسلمانوں سے وصف شرارت اور ضلالت میں بڑھے ہوئے ہوں گے، حالانکہ یہ خلاف واقعہ ہے ؟
جواب : یہاں شرارت اور ضلالت کا استعمال مقابلہ اور مشاکلۃ کے طور پر ہوا ہے اسلئے کہ یہود نے کہا تھا، لانعلم دیناً شراً من دینکم، جیسا کہ جزاء السیئۃ سیئۃ میں جزاء ظلم کو مشاکلۃً سیئۃ کہا گیا ہے۔ دوسرا جواب : بعض اوقات اسم تفضیل نفس زیادتی کو بیان کرنے کیلئے بھی آتا ہے اس وقت کو مفضل علیہ کی ضرورت نہیں ہوتی، یعنی اسم تفضیل اسم فاعل کے معنی میں آتا ہے اور قرآن کریم میں اس کا استعمال بکثرت ہے۔ قولہ : مُقْتَصِدَۃ، یہ اقتصاد (افتعال) سے ماخوذ ہے اسم فاعل واحد مؤنث، سیدھے راستہ پر قائم رہنا۔
تفسیر و تشریح
یایھا الَّذِیْنَ آمَنُوا لا تتخذوا الَّذِیْنَ اتخذُوْا دِیْنَکم ھُزُوًا الخ اہل کتاب سے یہود و نصاری اور کفار سے مشرکین مراد ہیں، یہاں یہ تاکید کی جا رہی ہے کہ دین کا مذاق اڑانے والے چونکہ اللہ اور اس کے رسول کے دشمن ہیں ایسے لوگوں کے ساتھ اہل ایمان کی دوستی نہیں ہونی چاہیے۔
شان نزول : تفسیر ابن جریر اور تفسیر ابو الشیخ ابن حبان میں حضرت عبد اللہ بن عباس (رض) سے روایت ہے کہ بعض یہودی ظاہر میں تو مسلمان ہوگئے تھے مگر باطن میں اسلام کے مخالف تھے، بعض سیدھے سادے مسلمان، یہودیوں کو سچا مسلمان سمجھتے تھے، جس کی وجہ سے ان سے دلی دوستی اور گہرے تعلقات رکھتے تھے اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرما کر بتلا دیا کہ یہ لوگ دین اسلام کا مذاق اڑانے والے اور مسلمانوں کی تضحیک کرنے والے ہیں لہٰذا ان سے دلی دوستی اچھی نہیں۔
10 Tafsir as-Saadi
اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے مومن بندوں کو یہود و نصاریٰ اور دیگر تمام کفار کے ساتھ موالات رکھنے سے منع کرتا ہے۔ وہ ان سے محبت نہ کریں ان کو دوست نہ بنائیں، ان پر اہل ایمان کے بھید نہ کھولیں اور بعض ایسے امور پر ان کی معاونت نہ کریں جن سے اسلام اور مسلمانوں کو نقصان پہنچتا ہو۔ ان کا ایمان کفار کے ساتھ ترک موالات کا موجب ہے اور ان کو کفار کے ساتھ عداوت رکھنے کی ترغیب دیتا ہے۔ اسی طرح ان کا تقویٰ کا التزام۔۔۔ جو کہ نام ہے اللہ تعالیٰ کے حکم کی اطاعت اور اس کی نواہی سے اجتناب کا۔۔۔ کفار کے ساتھ عداوت کی دعوت دیتا ہے۔ اسی طرح مشرکین، کفار اور مسلمانوں کے دیگر مخالفین کا رویہ بھی اسی بات کا متقاضی ہے کہ مسلمان ان سے دوستی کی بجائے دشمنی رکھیں۔ یہ لوگ دین اسلام میں نکتہ چینیاں کرتے ہیں، اسلام کے ساتھ استہزا کرتے اور تمسخر اڑاتے ہیں اور دین کی تحقیر کرتے ہیں خصوصاً نماز کے بارے میں جو کہ مسلمانوں کا سب سے بڑا شعار اور سب سے بڑی عبادت ہے۔ جب مسلمان نماز کے لئے اذان دیتے ہیں تو اس کا مذاق اڑاتے ہیں اور اس کا سبب ان کی کم عقلی اور جہالت ہے۔ ورنہ اگر ان میں عقل ہوتی تو وہ نماز کی افادیت کے سامنے سر تسلیم خم کردیتے اور انہیں معلوم ہوجاتا کہ نماز ہی ان فضائل میں سب سے بڑی فضیلت ہے جس سے نفوس انسانی متصف ہوتے ہیں۔
پس اے مومنو ! جب تمہیں کفار کا حال معلوم ہے اور تمہیں یہ بھی معلوم ہے کہ وہ تمہارے اور تمہارے دین کے ساتھ کتنی شدید عداوت رکھتے ہیں جو کوئی اس صورتحال کے بعد بھی انہیں اپنا دشمن نہیں سمجھتا، تو یہ اس امر کی دلیل ہے کہ اسلام اس کے نزدیک بہت سستی چیز ہے اور اسے اس بات کی کوئی پروا نہیں کہ کوئی اس میں طعن و تشنیع کرتا ہے یا اسے کفر اور ضلالت قرار دیتا ہے اور اس سے ثابت ہوتا ہے کہ اس شخص کے اندر مروت اور انسانیت نام کی کوئی چیز نہیں۔ آپ اپنے لئے دین قیم کا کیسے دعویٰ کرسکتے ہیں اور کیسے کہہ سکتے ہیں کہ اسلام دین حق ہے اور اس کے سوا تمام ادیان باطل ہیں جب کہ حال یہ ہے کہ آپ ان جاہل اور احمق لوگوں کی سوالات پر راضی ہیں جو آپ کے دین کے ساتھ استہزاء کرتے ہیں اور اسلام اور مسلمانوں کا تمسخر اڑاتے ہیں؟ اس آیت کریمہ میں کفار کے ساتھ عداوت رکھنے کی ترغیب ہے اور یہ بات ہر اس شخص کو معلوم ہے جو ادنیٰ سا بھی فہم رکھتا ہے۔
11 Mufti Taqi Usmani
aey emaan walo ! jinn logon ko tum say pehlay kitab di gaee thi unn mein say aesay logon ko jinhon ney tumharay deen ko mazaq aur khel bana rakha hai aur kafiron ko yaar-o-madadgaar naa banao , aur agar tum waqaee sahab-e-emaan ho to Allah say dartay raho .
12 Tafsir Ibn Kathir
اذان اور دشمنان دین
اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو غیر مسلموں کی محبت سے نفرت دلاتا ہے اور فرماتا ہے کہ " کیا تم ان سے دوستیاں کرو گے جو تمہارے طاہر و مطہر دین کی ہنسی اڑاتے ہیں اور اسے ایک بازیچہ اطفال بنائے ہوئے ہیں "۔ من بیان جنس کیلئے جیسے (من الاوثان) میں۔ بعض نے (والکفار) پڑھا ہے اور عطف ڈالا ہے اور بعض نے (والکفار) پڑھا ہے اور (لاتتخذوا) کا نیا معمول بنایا ہے تو تقدیر عبارت (والا الکفار اولیاء) ہوگی، کفار سے مراد مشرکین ہیں، ابن مسعود کی قرأت میں (و من الذین اشرکوا) ہے۔ اللہ سے ڈرو اور ان سے دوستیاں نہ کرو اگر تم سچے مومن ہو۔ یہ تو تمہارے دین کے، اللہ کی شریعت کے دشمن ہیں۔ جیسے فرمایا آیت (لَا يَتَّخِذِ الْمُؤْمِنُوْنَ الْكٰفِرِيْنَ اَوْلِيَاۗءَ مِنْ دُوْنِ الْمُؤْمِنِيْنَ ) 3 ۔ آل عمران :28) مومن مومنوں کو چھوڑ کر کفار سے دوستیاں نہ کریں اور جو ایسا کرے وہ اللہ کے ہاں کسی بھلائی میں نہیں ہاں ان سے بچاؤ مقصود ہو تو اور بات ہے، اللہ تعالیٰ تمہیں اپنی ذات سے ڈرا رہا ہے اور اللہ ہی کی طرف لوٹنا ہے۔ اسی طرح یہ کفار اہل کتاب اور مشرک اس وقت بھی مذاق اڑاتے ہیں جب تم نمازوں کیلئے لوگوں کو پکارتے ہو حالانکہ وہ اللہ تعالیٰ کی سب سے پیاری عبادت ہے، لیکن یہ بیوقوف اتنا بھی نہیں جانتے، اس لئے کہ یہ متبع شیطان ہیں، اس کی یہ حالت ہے کہ اذان سنتے ہی بدبو چھوڑ کر دم دبائے بھاگتا ہے اور وہاں جا کر ٹھہرتا ہے، جہاں اذان کی آواز نہ سن پائے۔ اس کے بعد آجاتا ہے پھر تکبیر سن کر بھاگ کھڑا ہوتا ہے اور اس کے ختم ہوتے ہی آکر اپنے بہکاوے میں لگ جاتا ہے، انسان کو ادھر ادھر کی بھولی بسری باتیں یاد دلاتا ہے یہاں تک کہ اسے یہ بھی خبر نہیں رہتی کہ نماز کی کتنی رکعت پڑھیں ؟ جب ایسا ہو تو وہ سجدہ سہو کرلے۔ (متفق علیہ) امام زہری فرماتے ہیں " اذان کا ذکر قرآن کریم میں بھی ہے پھر یہی آیت تلاوت کی "۔ ایک نصرانی مدینے میں تھا، اذان میں جب اشہد ان محمد الرسول اللہ سنتا تو کہتا کذاب جل جائے۔ ایک مرتبہ رات کو اس کی خادمہ گھر میں آگ لائی، کوئی پتنگا اڑا جس سے گھر میں آگ لگ گئی، وہ شخص اس کا گھر بار سب جل کر ختم ہوگیا۔ فتح مکہ والے سال حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت بلال کو کعبے میں اذان کہنے کا حکم دیا، قریب ہی ابو سفیان بن حرب، عتاب بن اسید، حارث بن ہشام بیٹھے ہوئے تھے، عتاب نے تو اذان سن کر کہا میرے باپ پر تو اللہ کا فضل ہوا کہ وہ اس غصہ دلانے والی آواز کے سننے سے پہلے ہی دنیا سے چل بسا۔ حارث کہنے لگا اگر میں اسے سچا جانتا تو مان ہی نہ لیتا۔ ابو سفیان نے کہا بھئی میں تو کچھ بھی زبان سے نہیں نکالتا، ڈر ہے کہ کہیں یہ کنکریاں اسے خبر نہ کردیں انہوں نے باتیں ختم کی ہی تھیں کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آگئے اور فرمانے لگے اس وقت تم نے یہ یہ باتیں کیں ہیں، یہ سنتے ہی عتاب اور حارث تو بول پڑے کہ ہماری گواہی ہے کہ آپ اللہ کے سچے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہیں، یہاں تو کوئی چوتھا تھا ہی نہیں، ورنہ گمان کرسکتے تھے کہ اس نے جا کر آپ سے کہہ دیا ہوگا (سیرۃ محمد بن اسحاق) حضرت عبداللہ بن جبیر جب شام کے سفر کو جانے لگے تو حضرت محذورہ سے جن کی گود میں انہوں نے ایام یتیمی بسر کئے تھے، کہا آپ کی اذان کے بارے میں مجھ سے وہاں کے لوگ ضرور سوال کریں گے تو آپ اپنے واقعات تو مجھے بتا دیجئے۔ فرمایا ہاں سنو جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حنین سے واپس آ رہے تھے، راستے میں ہم لوگ ایک جگہ رکے، تو نماز کے وقت حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے مؤذن نے اذان کہی، ہم نے اس کا مذاق اڑانا شروع کیا، کہیں آپ کے کان میں بھی آوازیں پڑگئیں۔ سپاہی آیا اور ہمیں آپ کے پاس لے گیا۔ آپ نے دریافت فرمایا کہ تم سب میں زیادہ اونچی آواز کس کی تھی ؟ سب نے میری طرف اشارہ کیا تو آپ نے اور سب کو چھوڑ دیا اور مجھے روک لیا اور فرمایا " اٹھو اذان کہو " واللہ اس وقت حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ذات سے اور آپ کی فرماں برداری سے زیادہ بری چیز میرے نزدیک کوئی نہ تھی لیکن بےبس تھا، کھڑا ہوگیا، اب خود آپ نے مجھے اذان سکھائی اور جو سکھاتے رہے، میں کہتا رہا، پھر اذان پوری بیان کی، جب میں اذان سے فارغ ہوا تو آپ نے مجھے ایک تھیلی دے، جس میں چاندی تھی، پھر اپنا دست مبارک میرے سر پر رکھا اور پیٹھ تک لائے، پھر فرمایا اللہ تجھ میں اور تجھ پر اپنی برکت نازل کرے۔ اب تو اللہ کی قسم میرے دل سے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی عداوت بالکل جاتی رہی، ایسی محبت حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دل میں پیدا ہوگئی، میں نے آرزو کی کہ مکہ کا مؤذن حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مجھ کو بنادیں۔ آپ نے میری یہ درخواست منظور فرما لی اور میں مکہ میں چلا گیا اور وہاں کے گورنر حضرت عتاب بن اسید سے مل کر اذان پر مامور ہوگیا۔ حضرت ابو مخدورہ کا نام سمرہ بن مغیرہ بن لوذان تھا، حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے چار مؤذنوں میں سے ایک آپ تھے اور لمبی مدت تک آپ اہل مکہ کے مؤذن رہے۔ (رض) وارضاہ۔