المائدہ آية ۸۳
وَاِذَا سَمِعُوْا مَاۤ اُنْزِلَ اِلَى الرَّسُوْلِ تَرٰۤى اَعْيُنَهُمْ تَفِيْضُ مِنَ الدَّمْعِ مِمَّا عَرَفُوْا مِنَ الْحَـقِّۚ يَقُوْلُوْنَ رَبَّنَاۤ اٰمَنَّا فَاكْتُبْنَا مَعَ الشّٰهِدِيْنَ
طاہر القادری:
اور (یہی وجہ ہے کہ ان میں سے بعض سچے عیسائی جب اس (قرآن) کو سنتے ہیں جو رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف اتارا گیا ہے تو آپ ان کی آنکھوں کو اشک ریز دیکھتے ہیں۔ (یہ آنسوؤں کا چھلکنا) اس حق کے باعث (ہے) جس کی انہیں معرفت (نصیب) ہوگئی ہے۔ (ساتھ یہ) عرض کرتے ہیں: اے ہمارے رب! ہم (تیرے بھیجے ہوئے حق پر) ایمان لے آئے ہیں سو تو ہمیں (بھی حق کی) گواہی دینے والوں کے ساتھ لکھ لے،
English Sahih:
And when they hear what has been revealed to the Messenger, you see their eyes overflowing with tears because of what they have recognized of the truth. They say, "Our Lord, we have believed, so register us among the witnesses.
1 Abul A'ala Maududi
جب وہ اس کلام کو سنتے ہیں جو رسول پر اترا ہے تو تم دیکھتے ہو کہ حق شناسی کے اثر سے اُن کی آنکھیں آنسوؤں سے تر ہو جاتی ہیں وہ بول اٹھتے ہیں کہ "پروردگار! ہم ایمان لائے، ہمارا نام گواہی دینے والوں میں لکھ لے"
2 Ahmed Raza Khan
اور جب سنتے ہیں وہ جو رسول کی طرف اترا تو ان کی آنکھیں دیکھو کہ آنسوؤں سے ابل رہی ہیں اس لیے کہ وہ حق کو پہچان گئے، کہتے ہیں اے رب ہمارے! ہم ایمان لائے تو ہمیں حق کے گواہوں میں لکھ لے
3 Ahmed Ali
اور جب اس چیز کو سنتے ہیں جو رسول پر اتری تو ان کی آنکھوں کو دیکھے گا کہ آنسوؤں سے بہتی ہیں اس لیے کہ انہوں نے حق کو پہچان لیا کہتے ہیں اے رب ہمارے کہ ہم ایمان لائے تو ہمیں ماننے والوں کے ساتھ لکھ لے
4 Ahsanul Bayan
اور جب وہ رسول کی طرف نازل کردہ (کلام) کو سنتے ہیں تو آپ ان کی آنکھیں آنسو سے بہتی ہوئی دیکھتے ہیں اس سبب سے کہ انہوں نے حق کو پہچان لیا، وہ کہتے ہیں کہ اے ہمارے رب! ہم ایمان لے آئے پس تو ہم کو بھی ان لوگوں کے ساتھ لکھ لے جو تصدیق کرتے ہیں۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
اور جب اس (کتاب) کو سنتے ہیں جو (سب سے پہلے) پیغمبر (محمدﷺ) پر نازل ہوئی تو تم دیکھتے ہو کہ ان کی آنکھوں سے آنسو جاری ہو جاتے ہیں اس لیے کہ انہوں نے حق بات پہچان لی اور وہ (خدا کی جناب میں) عرض کرتے ہیں کہ اے پروردگار ہم ایمان لے آئے تو ہم کو ماننے والوں میں لکھ لے
6 Muhammad Junagarhi
اور جب وه رسول کی طرف نازل کرده (کلام) کو سنتے ہیں تو آپ ان کی آنکھیں آنسو سے بہتی ہوئی دیکھتے ہیں اس سبب سے کہ انہوں نے حق کو پہچان لیا، وه کہتے ہیں کہ اے ہمارے رب! ہم ایمان لے آئے پس تو ہم کو بھی ان لوگوں کے ساتھ لکھ لے جو تصدیق کرتے ہیں
7 Muhammad Hussain Najafi
اور جب وہ اس کلام کو سنتے ہیں جو (ہمارے) پیغمبر پر اتارا گیا ہے تو تم دیکھوگے کہ ان کی آنکھیں آنسوؤں سے چھلک رہی ہوتی ہیں اس لئے کہ انہوں نے حق کو پہچان لیا ہے وہ کہتے ہیں پروردگار ہم ایمان لائے سو تو ہم کو (صداقتِ اسلام کی) گواہی دینے والوں میں درج فرما۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
اور جب اس کلام کو سنتے ہیں جو رسول پر نازل ہوا ہے تو تم دیکھتے ہو کہ ان کی آنکھوں سے بے ساختہ آنسو جاری ہوجاتے ہیں کہ انہوں نے حق کو پہچان لیا ہے اور کہتے ہیں کہ پروردگار ہم ایمان لے آئے ہیں لہذا ہمارا نام بھی تصدیق کرنے والوں میں درج کرلے
9 Tafsir Jalalayn
اور جب اس کتاب کو سنتے ہیں جو (سب سے پچھلے) پیغمبر (محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر نازل ہوئی تو تم دیکھتے ہو کہ انکی آنکھوں سے آنسو جاری ہوجاتے ہیں اس لئے کہ انہوں نے حق بات پہچان لی۔ اور وہ (خدا کی جناب میں) عرض کرتے ہیں کہ اے پروردگار ہم ایمان لے آئے تو ہم کو ماننے والوں میں لکھ لے۔
آیت نمبر ٨٣ تا ٨٦
ترجمہ : (آئندہ آنے والی آیات) حبشہ سے آنے والے نجاشی کے وفد کے متعلق نازل ہوئیں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کے سامنے سورة یسیٰن پڑھی تو وہ رونے لگے اور اسلام لے آئے اور انہوں نے کہا کہ اس (آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر نازل ہونے والالے کلام) کی اس (کلام) سے کتنی مشابہت ہے جو حضرت عیسیٰ علیہ الصلوٰۃ السلام پر نازل ہوا تھا۔ اللہ نے فرمایا اور جب وہ اس کلام قرآن کو سنتے ہیں جو رسول پر اتارا گیا ہے تم دیکھتے ہو کہ حق شناسی کے اثر سے ان کی آنکھوں سے آنسو جاری ہوجاتے ہیں وہ کہتے ہیں اے ہمارے رب ! ہم ایمان لے آئے (یعنی) تیرے نبی اور اس کی کتاب کی تصدیق کی، تو، تو ہم کو بھی تصدیق کرنے والوں کے ساتھ لکھ لے (یعنی) ان لوگوں کے ساتھ جو (مذکورہ) دونوں چیزوں کی تصدیق کا اقرار کرنے والے ہیں اور ان لوگوں کے جواب میں کہا کہ جنہوں نے ان کو اسلام لانے پر عار دلائی تھی اور وہ یہود میں سے تھے، اور ہمارے پاس کونسا عذر ہے کہ ہم اللہ پر اور حق قرآن پر جو ہمارے پاس آیا ہے ایمان نہ لائیں ؟ یعنی ایمان لانے سے ہمارے لئے کوئی چیز مانع نہیں ہے حالانکہ ایمان کا مقتضی موجود ہے اور ہم کیوں امید نہ رکھیں اس کا عطف نؤمِنُ پر ہے، یہ کہ ہمارا رب ہم کو نیک لوگوں کی جنت میں رفاقت نصیب فرمائے اللہ تعالیٰ نے فرمایا، ان کو ان کے اس قول کی وجہ سے ایسی جنتیں عطا کیں جن میں نہریں بہتی ہیں، ان میں وہ ہمیشہ ہمیش رہیں گے، اور ایمان والوں کا یہ صلہ ہے اور جنہوں نے کفر کیا اور ہماری آیات کو جھٹلایا تو یہی لوگ دوزخ والے ہیں۔
تحقیق و ترکیب و تسہیل و تفسیری فوائد
قولہ : وَاِذَا سَمِعُوْا (الآیۃ) واؤ اگر استینافیہ مانا جائے تو یہ کلام مستانف ہوگا اور مفسر علام نے قال تعالیٰ کہہ کر اسی ترکیب کی طرف اشارہ کیا ہے، اور اگر عاطفہ مانا جائے جیسا کہ ابو سعود کی یہی رائے ہے تو اس کا عطف لایستکبرون پر ہوگا، ای ذلک بسبب اَنَّھم لَایَسْتکبرون
قولہ : یَقُوْلُوْنَ رَبَّنَا آتِنَا، یہ جملہ مستانفہ ہے کہ جو ایک سوال مقدر کا جواب ہے، یعنی قرآن سنکر جب ان کی مذکورہ حالت ہوتی ہے تو وہ کیا کہتے ہیں، اس کا جواب ہے یقولون ربنا آمَنَّا الخ۔
قولہ : مُقْتَضِیَہِ ، یعنی جبکہ ایمان کا موجب موجود ہے اور وہ صالحین میں داخل ہونے کی ان کی رغبت و خواہش ہے۔
قولہ : عَطْفٌ عَلیٰ نُؤْمِنُ ، یعنی نطمع کا عطف نؤمِنُ پر ہے نہ کہ مبتداء محذوف کی خبر، ای نحن نطمع اس لئے کہ حذف خلاف ظاہر ہے
تفسیر و تشریح
وَاِذَا سَمِعُوْا مَآ اُنْزِلَ اِلَی الرسول (الآیۃ) گزشتہ آیات میں یہ ارشاد فرمایا گیا تھا کہ یہود و مشرکین کی عام اخلاقی حالت کے مقابلہ میں مسلمانوں کے حق میں نصاری کا رویہ قابل قدر ہے اور اس کی وجہ یہ بیان فرمائی گئی کہ نصاریٰ میں ایسے افراد موجود ہیں جو علم دوست اور دنیا سے کنارہ کش ہیں اور نہ وہ متکبر ہیں اب موجودہ پیش نظر آیتوں میں کچھ ایسے خدا ترس نصاریٰ کا خصوصی تذکرہ ہے جن کو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان لانے کی سعادت حاصل ہوئی، ان حضرات کی حق شناسی کا واقعہ چونکہ اسلام کی تاریخ کا ایک اہم واقعہ ہے اسلئے اس واقعہ کو قدرے تفصیل سے لکھا جاتا ہے۔
ہجرت حبشہ کے واقعہ کی تفصیل : مشرکین مکہ نے جب یہ دیکھا کہ دن بدن لوگ اسلام کے حلقہ بگوش ہوتے جا رہے ہیں اور
اسلام کا دائرہ وسیع ہوتا جاتا ہے تو متفقہ طور پر منصوبہ بند طریقہ پر مسلمانوں کے درپئے آزاد ہوگئے، اور طرح طرح سے مسلمانوں کو ستانا شروع کردیا کوئی دن ایسا نہ گذرتا تھا کہ ایک نہ ایک مسلمان مشرکین کے دست ستم سے زخم خوردہ ہو کر نہ آتا ہو، پوری صورت حال آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے تھی مگر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کچھ نہیں کرسکتے تھے، مجبوراً آپ نے مکہ سے ہجرت کرنے کی اجازت دیدی، آپ نے فرمایا : تفرّقوا فی الارض فاِن اللہ یجمعکم قالوا الی این نذھب قال الی ھنا وَاشارَ بیدہ الی ارض الحبشۃ۔ (عبد الرزاق عن معمر عن الزھری) ۔ ترجمہ : تم اللہ کی زمین میں کہیں چلے جاؤ یقیناً اللہ تعالیٰ تم سب کو عنقریب جمع کرے گا، صحابہ نے عرض کیا کہاں جائیں ؟ آپ نے ملک حبشہ کی طرف اشارہ فرمایا۔ اور آپ نے یہ بھی فرمایا کہ وہاں ایک بادشاہ ہے جس کی قلمرو میں کوئی کسی پر ظلم نہیں کرسکتا اور نہ وہ خود ظالم ہے چناچہ ماہ رجب ٥ نبوی میں نفوس قدسیہ کے مندرجہ ذیل قافلے نے حبشہ کی جانب ہجرت فرمائی۔
حبشہ کی پہلی ہجرت : نفوس قدسیہ کا یہ قافلہ سولہ (١٦) افراد پر مشتمل تھا، جن میں گیارہ مرد اور پانچ عورتیں تھیں، جن کے اسماء گرامی مندرجہ ذیل ہیں۔
مرد : (١) حضرت عثمان بن عفان (رض) ، (٢) حضرت عبد الرحمن بن عوف (رض) ، (٣) زبیر بن عوام (رض) ، (٤) ابو حذیفہ بن عتبہ (رض) ، (٥) مصعب بن عمیر (رض) ، (٦) ابوسلمہ بن عبد الاسد (رض) ، (٧) حضرت عثمان بن مظعون (رض) ، (٨) حضرت عامر بن ربیعہ (رض) ، (٩) سہیل بن بیضاء (رض) ، (١٠) ابوسبرہ بن ابی رہم عامری (رض) ، (١١) حاطب بن عمر (رض) ۔
عورتیں : (١) حضرت رقیہ (رض) ، (آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی صاحبزادی) اور حضرت عثمان غنی کی زوجہ محترمہ، (٢) سہلہ بنت سہیل ابو حذیفہ کی بیوی، (٣) ام سلمہ بنت ابی امیہ ابو سلمہ کی بیوی جو ابو سلمہ کی وفات کے بعد آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی روجیت سے مشرف ہو کر ام المومنین کے لقب سے ملقب ہوئیں، (٤) لیلیٰ بنت ابی حثمہ عامر بن ربیعہ کی بیوی، (٥) ام کلثوم بنت سہیل بن عمر (رض) ابو سبرہ کی بیوی، (سیرت المصطفیٰ )
بعض حضرات نے عبد اللہ بن مسعود (رض) کا نام بھی ذکر کیا ہے حافظ عسقلانی (رح) تعالیٰ فرماتے ہیں کہ حضرت عبد اللہ بن مسعود حبشہ کی پہلی ہجرت میں شریک نہیں تھے، البتہ دوسری ہجرت میں شریک تھے۔
مذکورہ سولہ افراد کا قافلہ چھپ چھپا کر مکہ سے روانہ ہوا حسن اتفاق کہ جب یہ حضرات جدہ کی بندرگاہ پر پہنچے تو دو تجارتی کشتیاں حبشہ جانے کیلئے تیار تھیں پانچ درہم اجرت دیکر یہ سب حضرات سوار ہوگئے، مشرکین مکہ کو جب اس کا علم ہوا تو ان کے تعاقب میں آدمی دوڑائے، جب یہ لوگ بندرگاہ پہنچے تو کشتیاں روانہ ہوچکی تھیں (سیرت مصطفیٰ ) یہ حضرات رجب سے شوال تک حبشہ میں مقیم رہے، ادھر یہ خبر مشہور ہوگئی کہ اہل مکہ مسلمان ہوگئے، اس خبر کو صحیح سمجھ کر یہ حضرات حبشہ سے مکہ کے لئے روانہ ہوگئے مکہ کے قریب پہنچ کر معلوم ہوا کہ یہ خبر غلط ہے چناچہ یہ لوگ سخت کشمکش میں مبتلا ہوگئے، کوئی چھپ کر اور کوئی کسی کی پناہ لے کر مکہ میں داخل ہوا۔
حبشہ کی جانب دوسری ہجرت : اب تو مشرکین مکہ نے مسلمانوں کو اور زیادہ ستانا شروع کردیا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دوبارہ حبشہ کی طرف ہجرت کی اجازت دیدی نفوس قدسیہ کا یہ قافلہ ایک سو تین افراد پر مشتمل تھا جن میں چھیاسی (٨٦) مرد اور سترہ (١٧) عورتیں شامل تھیں، شرکاء وفد کے ناموں کے لئے سیرت المصطفیٰ کی طرف رجوع کریں۔ (سیرت ابن ہشام، سیرت المصطفیٰ )
قریش کا وفد حبشہ میں : قریش نے جب یہ دیکھا کہ صحابہ کرام حبشہ میں جا کر اطمینان کے ساتھ ارکان اسلام ادا کرنے لگے ہیں تو مشورہ کرکے عمرو بن العاص اور عبد اللہ بن ابی ربیعہ کو نجاشی اور اس کے تمام ارکان و مصاحبین کیلئے تحائف و ہدایا دیکر حبشہ بھیجا، چناچہ یہ دونوں صاحبان حبشہ پہنچ کر اول ارکان سلطنت اور مصاحبین سے ملے اور ان کو بیش بہا نذرانے پیش کئے اور دوران گفتگو کہا کہ ہمارے شہر کے چند نادانوں نے اپنا آبائی دین چھوڑ کر ایک نیا دین اختیار کیا ہے اور وہ آپ کے شہر میں پناہ گزیں ہوگئے ہیں ہماری قوم کے اشراف اور سربرآوردہ لوگوں نے ہم کو بادشاہ کی خدمت میں بھیجا ہے کہ یہ لوگ ہمارے حوالہ کر دئیے جائیں، آپ حضرات بادشاہ سے سفارش کیجئے کہ ان لوگوں کو بغیر کسی مکاملہ اور گفتگو کے ہمارے سپرد کر دے چناچہ جب یہ لوگ دربار میں باریاب ہوئے اور نذرانے اور ہدایا پیش کرکے اپنا مدعا پیش کیا تو ارکان سلطنت اور مصاحبین نے پوری تائید کی، عمر و بن العاص اور عبد اللہ بن ابی ربیعہ یہ نہیں چاہتے تھے کہ شاہ حبشہ مسلمانوں کو بلا کر حقیقت حال دریافت کرے یا ان کی بات سنے، اس کی وجہ یہ تھی کہ یہ لوگ بھی بخوبی سمجھتے تھے کہ ہمارا مکرو فریب ظاہر ہوجائیگا اور مسلمانوں کی زبانوں سے حق ظاہر ہونے کے بعد اثر کئے بغیر نہیں رہ سکتا، شاہ حبشہ نجاشی اس بات پر ہرگز راضی نہ ہوا کہ فریق مخالف کی بات سنے بغیر ایک طرفہ فیصلہ کر دے، اور صاف کہ دیا کہ میں صورت حال کو دریافت کئے بغیر ان لوگوں کو تمہارے حوالہ نہیں کرسکتا اور ایک قاصد مسلمانوں کے پاس ان کو بلانے کیلئے روانہ کیا، قاصد صحابہ کے پاس پہنچا اور بادشاہ کا پیغام پہنچایا۔
صحابہ کی حق گوئی اور بیباکی : بادشاہ کے دربار کیلئے روانہ ہوتے وقت صحابہ میں سے کسی نے کہا کہ دربار میں پہنچ کر کیا کہو گے ؟ مطلب یہ تھا کہ بادشاہ عیسائی ہے اور ہم مسلمان ہیں بہت سے عقائد میں ہمارے اور ان کے درمیان اختلاف ہے، اس کے جواب میں صحابہ نے کہا ہم دربار میں وہی کہیں گے جو ہمارے نبی نے سکھایا ہے، صحابہ کی جماعت دربار میں پہنچی اور صرف سلام پر اکتفاء کیا، عام شاہی آداب کے مطابق کسی نے بھی بادشاہ کو سجدہ نہیں کیا، شاہی مقربین کو مسلمانوں کا یہ طرز عمل بہت ناگوار گزرا، چناچہ اسی وقت مسلمانوں سے سوال کر بیٹھے کہ آپ لوگوں نے بادشاہ کو سجدہ کیوں نہیں کیا ؟ اور ایک روایت میں یہ ہے کہ خود بادشاہ نے سوال کیا کہ تم نے سجدہ کیوں نہیں کیا ؟ حضرت جعفر (رض) نے کہا ہم خدا کے سوا کسی کو سجدہ نہیں کرتے، اللہ کے رسول نے ہمیں یہی حکم دیا کہ اللہ عزوجل کے سوا کسی کو سجدہ نہ کریں، مسلمانوں نے یہ بھی کہا کہ ہم رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بھی اسی طرح سلام کرتے ہیں اور آپس میں بھی، بادشاہ نے پوچھا کہ عیسائیت اور بت پرستی کے علاوہ کونسا دین ہے جو تم نے اختیار کیا ہے، صحابہ کی جماعت میں سے حضرت جعفر (رض) ، جواب کے لئے اٹھے، اور ایہا الملک کہہ کر ایک ایسی تقریر دل پذیر کی کہ بادشاہ متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکا، نجاشی نے کہا اچھا اس کلام میں سے جو تمہارے پیغمبر پر نازل ہوا ہے سناؤ حضرت جعفر (رض) نے سورة مریم کی ابتدائی آیتیں پڑھ کر سنائیں، یہی وہ موقع ہے جس کو وَاِذَا سمعوا الخ میں بیان کیا گیا ہے اور یہی واقعہ اس کا شان نزول ہے، مؤرخین اور سیرت نگار اس بات پر متفق ہیں کہ مذکورہ آیت کے مصداق شاہ حبشہ اصحمہ نجاشی متوفی ٩ ھ اور اس کے وہ درباری ہیں جو سچے مسیحی تھے، جب شاہ حبشہ اور درباریوں نے سورة مریم کی آیتیں سنیں تو سب آب دیدہ ہوگئے، روتے روتے بادشاہ کی ڈاڑھی تر ہوگئی، جب حضرت جعفر (رض) تلاوت ختم کرچکے تو نجاشی نے کہا یہ کلام اور وہ کلام جو عیسیٰ علیہ الصلوٰۃ والسلام لیکر آئے دونوں ایک ہی شمعدان سے نکلے ہوئے ہیں۔
نجاشی کا قریشی وفد کو دو ٹوک جواب : شاہ حبشہ نے قریشی وفد سے صاف کہہ دیا کہ میں ان لوگوں کو ہرگز تمہارے حوالہ نہ کروں گا، جب قریشی وفد دربار سے بےنیل و مرام باہر نکلا تو عمرو بن العاص نے کہا کہ میں کل بادشاہ کے سامنے ایک ایسی بات پیش کروں گا کہ جس سے وہ ان لوگوں کو بالکل نیست و نابود کر دے گا، اگلے روز قریشی وفد نے دوبارہ دربار میں باریابی حاصل کی اس دوران عمر و بن العاص نے نجاشی سے کہا کہ اے بادشاہ یہ لوگ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی شان میں بہت سخت بات کہتے ہیں نجاشی نے دوبارہ صحابہ کرام کو بلا بھیجا، اس وقت صحابہ تشویش میں مبتلا ہوگئے جماعت میں سے کسی نے کہا اگر بادشاہ عیسیٰ (علیہ السلام) کے بارے میں سوال کرے گا تو کیا جواب ہوگا ؟ اس پر سب نے متفق ہو کر کہا خدا کی قسم ہم وہی کہیں گے جو اللہ اور اس کے رسول نے فرمایا ہے، ؎ اللہ کے شیروں کو آتی نہیں روباہی
نجاشی کے دربار میں مسلمانوں کی دوبارہ حاضری : مسلمان نجاشی کے دربار میں پہنچے تو نجاشی نے دریافت کیا کہ تم لوگ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے بارے میں کیا کہتے ہو ؟ حضرت جعفر (رض) نے کہا ہم حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے بارے میں وہی کہتے ہیں جو ہمارے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہے، وہ یہ کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) اللہ کے بندے اور اس کے رسول تھے اور خدا کی خاص روح اور اس کا خاص کلمہ تھے، نجاشی نے زمین سے ایک تنکا اٹھا کر کہا، خدا کی قسم مسلمانوں نے جو کچھ کہا عیسیٰ (علیہ السلام) اس سے ایک تنکے کی مقدار بھی زائد نہیں، اگرچہ یہ بات بہت سے درباریوں کو ناگوارہ گزری مگر نجاشی نے اس کی پرواہ نہیں کی، اور کہا سونے کا ایک پہاڑ لے کر بھی تم کو ستانا پسند نہیں کرتا، اور حکم دیا کہ قریش کے تمام تحائف وہدا یا واپس کر دئیے جائیں، اس کے بعد مسلمان حبشہ میں اطمینان و سکون کے ساتھ رہنے لگے، جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہجرت فرمائی تو ان میں اکثر لوگ خبر سنتے ہی حبشہ سے مدینہ منورہ واپس آگئے، جن میں سے چوبیس (٢٤) آدمی غزوہ بدر میں شریک ہوئے، باقی ماندہ لوگ حضرت جعفر (رض) کی معیت میں ٧ ھ فتح خیبر کے وقت حبشہ سے مدینہ پہنچے۔ (عیون الاثر)
حضرت جعفر (رض) کی حبشہ سے مدینہ کو روانگی : حضرت جعفر جب حبشہ سے مدینہ کیلئے روانہ ہوئے تو نجاشی نے سب کے لئے سواری اور زادراہ دیا اور مزید براں کچھ ہدایا اور تحائف بھی دئیے اور ایک قاصد ہمراہ کردیا اور یہ کہا میں نے جو کچھ آپ لوگوں کے ساتھ کیا ہے اس کی اطلاع آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو دینا اور کہہ دینا کہ میں اس بات کی گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور اس بات کی گواہی دیتا ہوں کہ آپ بلا شبہ اللہ کے رسول ہیں اور آپ سے درخواست کرتا ہوں کہ آپ میرے لئے دعاء مغفرت فرمائیں، چناچہ مسلمانوں کی جماعت نے مدینہ پہنچ کر پوری صورت حال اور سرگذشت آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو سنائی اور نجاشی کا پیغام دعاء بھی پہنچایا آپ اسی وقت اٹھے اور وضو کیا اور تین بار یہ دعاء کی، اللھم اغفر للنجاشی، اے اللہ تو نجاشی کی مغفرت فرما اور سب مسلمانوں نے آمین کہی۔
10 Tafsir as-Saadi
اس کا ایک سبب یہ بھی ہے ﴿وَإِذَا سَمِعُوا مَا أُنزِلَ إِلَى الرَّسُولِ﴾” جب وہ اس (کتاب) کو سنتے ہیں جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل کی گئی“ تو یہ کتاب ان کے دلوں پر اثر کرتی ہے اور وہ اس کے سامنے جھک جاتے ہیں اور ان کی آنکھوں سے اس حق کے سننے کے مطابق جس پر وہ یقین لائے ہیں، آنسو جاری ہوجاتے ہیں، پس اسی لئے وہ ایمان لے آئے اور اس کا اقرار کیا اور کہا : ﴿رَبَّنَا آمَنَّا فَاكْتُبْنَا مَعَ الشَّاهِدِينَ﴾” اے ہمارے رب ! ہم ایمان لائے، پس تو ہمیں گواہوں کے ساتھ لکھ لے۔“ اور یہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی امت کے لوگ ہیں، وہ اللہ تعالیٰ کی توحید، اس کے رسولوں کی رسالت اور جو کچھ یہ رسول لے کر آئے ہیں، اس کی صحت کی گواہی دیتے ہیں۔ نیز تصدیق و تکذیب کے ذریعے سے گزشتہ امتوں کی گواہی دیتے ہیں۔ وہ عادل ہیں اور انکی گواہی مقبول ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿وَكَذٰلِكَ جَعَلْنَاكُمْ أُمَّةً وَسَطًا لِّتَكُونُوا شُهَدَاءَ عَلَى النَّاسِ وَيَكُونَ الرَّسُولُ عَلَيْكُمْ شَهِيدًا ۗ ﴾(البقرہ :2؍ 143)
” اور اسی طرح ہم نے تمہیں امت وسط بنایا ہے تاکہ تم لوگوں پر گواہ بنو اور رسول تم پر گواہ بنے۔ “
11 Mufti Taqi Usmani
aur jab yeh log woh kalam suntay hain jo Rasool per nazil huwa hai to chunkay unhon ney haq ko pehchan liya hota hai , iss liye tum inn ki aankhon ko dekho gay kay woh aansoon say beh rahi hain , ( aur ) woh keh rahey hain kay aey humaray perwerdigar ! hum emaan ley aaye hain , lehaza gawahi denay walon kay sath humara naam bhi likh lijiye .
12 Tafsir Ibn Kathir
ایمان والو کی پہچان
اوپر بیان گزر چکا ہے کہ عیسائیوں میں سے جو نیک دل لوگ اس پاک مذہب اسلام کو قبول کئے ہوئے ہیں ان میں جو اچھے اوصاف ہیں مثلاً عبادت، علم، تواضع، انکساری وغیرہ، ساتھ ہی ان میں رحمدلی وغیرہ بھی ہے حق کی قبولیت بھی ہے اللہ کے احکامات کی اطلاعت بھی ہے ادب اور لحاظ سے کلام اللہ سنتے ہیں، اس سے اثر لیتے ہیں اور نرم دلی سے رو دیتے ہیں کیونکہ وہ حق کے جاننے والے ہیں، آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت کے بشارت سے پہلے ہی آگاہ ہوچکے ہیں۔ اس لئے قرآن سنتے ہی دل موم ہوجاتے ہیں۔ ایک طرف آنکھیں آنسو بہانے لگتی ہیں دوری جانب زبان سے حق کو تسلیم کرتے ہیں۔ حضرت عبداللہ بن زبیر (رض) فرماتے ہیں یہ آیتیں حضرت نجاشی اور ان کے ساتھیوں کے بارے میں نازل ہوئی ہیں۔ حضرت ابن عباس (رض) ما کا بیان ہے کہ کچھ لوگ حضرت جعفر بن ابی طالب (رض) کے ساتھ جشہ سے آئے تھے حضور کی زبان مبارک سے قرآن کریم سن کر ایمان لائے اور بےتحاشہ رونے لگے۔ آپ نے ان سے دریاف فرمایا کہ کہیں اپنے وطن پہنچ کر اس سے پھر تو نہیں جاؤ گے ؟ انہوں نے کہا ناممکن ہے اسی کا بیان ان آیتوں میں ہے۔ حضرت ابن عباس فرماتے ہیں شاہدوں سے مراد آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور دیگر انبیاء کرام (علیہم السلام) کی تبلیغ کی شہادت ہے پھر اس قسم کے نصرانیوں کا ایک اور وصف بیان ہو رہا ہے ان ہی کا دوسرا وصف اس آیت میں ہے آیت (وَاِنْ مِّنْ اَهْلِ الْكِتٰبِ اِلَّا لَيُؤْمِنَنَّ بِهٖ قَبْلَ مَوْتِهٖ ۚ وَيَوْمَ الْقِيٰمَةِ يَكُوْنُ عَلَيْهِمْ شَهِيْدًا) 4 ۔ النسآء :159) یعنی اہل کتاب میں ایسے لوگ بھی ہیں جو اللہ پر اور اس قرآن پر اور جو ان پر نازل کیا گیا ہے سب پر ایمان رکھتے ہیں اور پھر اللہ سے ڈرنے والے بھی ہیں۔ ان ہی کے بارے میں فرمان ربانی آیت (اَلَّذِيْنَ اٰتَيْنٰهُمُ الْكِتٰبَ مِنْ قَبْلِهٖ هُمْ بِهٖ يُؤْمِنُوْنَ 52 وَاِذَا يُتْلٰى عَلَيْهِمْ قَالُوْٓا اٰمَنَّا بِهٖٓ اِنَّهُ الْحَقُّ مِنْ رَّبِّنَآ اِنَّا كُنَّا مِنْ قَبْلِهٖ مُسْلِمِيْنَ 53 اُولٰۗىِٕكَ يُؤْتَوْنَ اَجْرَهُمْ مَّرَّتَيْنِ بِمَا صَبَرُوْا وَيَدْرَءُوْنَ بالْحَسَنَةِ السَّيِّئَةَ وَمِمَّا رَزَقْنٰهُمْ يُنْفِقُوْنَ 54 وَاِذَا سَمِعُوا اللَّغْوَ اَعْرَضُوْا عَنْهُ وَقَالُوْا لَنَآ اَعْمَالُنَا وَلَكُمْ اَعْمَالُكُمْ ۡ سَلٰمٌ عَلَيْكُمْ ۡ لَا نَبْتَغِي الْجٰهِلِيْنَ 55) 28 ۔ القصص :52 تا 55) ۔ کہ یہ لوگ اس کتاب کو اور اس کتاب کو سچ جانتے ہیں اور دونوں پر ایمان رکھتے ہیں۔ پس یہاں بھی فرمایا کہ وہ کہتے ہیں کہ جب ہمیں صالحین میں ملنا ہے تو اللہ پر اور اس کی اس آخری کتاب پر ہم ایمان کیوں نہ لائیں ؟ ان کے اس ایمان و تصدیق اور قبولیت حق کا بدلہ اللہ نے انہیں یہ دیا کہ وہ ہمیشہ رہنے والے ترو تازہ باغات و چشموں والی جنتوں میں جائیں گے۔ محسن، نیکو کار، مطیع حق، تابع فرمان الٰہی لوگوں کی جزا یہی ہے، وہ کہیں کے بھی ہوں کوئی بھی ہوں۔ جو ان کے خلاف ہیں انجام کے لحاظ سے بھی ان کے برعکس ہیں، کفرو تکذب اور مخالفت یہاں ان کا شیوہ ہے اور وہاں جہنم ان کا ٹھکانا ہے۔