ق آية ۱۲
كَذَّبَتْ قَبْلَهُمْ قَوْمُ نُوْحٍ وَّاَصْحٰبُ الرَّسِّ وَثَمُوْدُۙ
طاہر القادری:
اِن (کفّارِ مکہ) سے پہلے قومِ نوح نے، اور (سرزمینِ یمامہ کے اندھے) کنویں والوں نے، اور (مدینہ سے شام کی طرف تبوک کے قریب بستیِ حجر میں آباد صالح علیہ السلام کی قوم) ثمود نے جھٹلایا،
English Sahih:
The people of Noah denied before them, and the companions of the well and Thamud.
1 Abul A'ala Maududi
اِن سے پہلے نوحؑ کی قوم، اور اصحاب الرس، اور ثمود
2 Ahmed Raza Khan
ان سے پہلے جھٹلایا نوح کی قوم اور رس والوں اور ثمود
3 Ahmed Ali
ان سے پہلے قوم نوح اور کنوئیں والوں نے اور قوم ثمود نے جھٹلایا
4 Ahsanul Bayan
ان سے پہلے نوح کی قوم نے اور رس والوں (١) نے اور ثمود نے۔
١٢۔١ اصحاب الرس کی تعیین میں مفسرین کے درمیان بہت اختلاف ہے۔ امام ابن جریر طبری نے اس قول کو ترجیح دی ہے جس میں انہیں اصحاب اخدود قرار دیا گیا ہے، جس کا ذکر سورہ بروج میں ہے۔ (تفصیل کے لئے دیکھئے ابن کثیر و فتح القدیر، (وَّعَادًا وَّثَمُــوْدَا۟ وَاَصْحٰبَ الرَّسِّ وَقُرُوْنًــۢا بَيْنَ ذٰلِكَ كَثِيْرًا) 25۔ الفرقان;38)
5 Fateh Muhammad Jalandhry
ان سے پہلے نوح کی قوم اور کنوئیں والے اور ثمود جھٹلا چکے ہیں
6 Muhammad Junagarhi
ان سے پہلے نوح کی قوم نے اور رس والوں نے اور ﺛمود نے
7 Muhammad Hussain Najafi
ان سے پہلے نوح(ع) کی قوم، اصحابِ رس اور ثمود نے جھٹلایا۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
ان سے پہلے قوم نوح اصحاب رس اور ثمود نے بھی تکذیب کی تھی
9 Tafsir Jalalayn
ان سے پہلے نوح کی قوم اور کنوئیں والے اور ثمود جھٹلا چکے ہیں
قوم نوح (علیہ السلام) :
کذبت قبلھم قوم نوح سابقہ آیات میں کفار کی تکذیب رسالت و آخرت کا ذکر تھا، جس سے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ایذاء پہنچنا ظاہر ہے، اس آیت میں حق تعالیٰ نے آپ کی تسلی کے لئے پچھلے انبیاء (علیہم السلام) اور ان کی امتوں کے حالات بیان کئے ہیں کہ ہر پیغمبر کو متکبرین و کفار کی طرف سے ایسی ایذائیں پیش آتی ہیں، یہ سنت انبیاء ہے، اس سے آپ شکستہ خاطر نہ ہوں، قوم نوح (علیہ السلام) کا قصہ قرآن میں متعدد جگہ آیا ہے حضرت نوح (علیہ السلام) ساڑھے نو سو سال تک اپنی قوم کی اصلاح کی کوشش کرتے رہے قوم کی طرف سے نہ صرف انکار بلکہ قسم قسم کی اذائیں پہنچتی ہیں۔
اصحاب الرس کون لوگ ہیں ؟
رس، عربی زبان میں مختلف معنی میں آتا ہے مشہور معنی کچے کنوئیں کے ہیں، اصحاب الرس سے قوم ثمود کے باقی ماندہ لوگ مراد ہیں جو عذاب کے بعد باقی رہ گئے تھے ضحاک وغیرہ مفسرین نے ان کا قصہ یہ لکھا ہے کہ جب حضرت صالح (علیہ الصلوۃ والسلام) کی قوم پر عذاب آیا تو ان میں سے چار ہزار آدمی جو حضرت صالح (علیہ السلام) پر ایمان لا چکے تھے وہ عذاب سے محفوظ رہے یہ لوگ اپنے مقام سے منتقل ہو کر ایک مقام پر جس کو اب حضرموت کہتے ہیں جا کر مقیم ہوگئے، حضرت صالح علیہ الصلوۃ والسام بھی ان کے ساتھ تھے، ایک کنوئیں پر جا کر یہ لوگ ٹھہر گئے اور یہیں صالح (علیہ السلام) کا انتقال ہوگیا، اسی وجہ سے اس مقام کو حضرموت کہتے ہیں، پھر ان کی نسل میں بت پرستی رائج ہوگئی اس کی اصلاحی کے لئے حق تعالیٰ نے ایک نبی بھیجا جس کو انہوں نے قتل کر ڈالا، اس کے بعد ان پر خدا کا عذاب آیا ان کا کنواں جس پر ان کی زندگی کا انحصار تھا وہ بیکار ہوگیا اور عمارتیں ویران ہوگئیں، قرآن کریم نے اس کا ذکر اس آیت میں کیا ہے وبئر معطلۃ وقصر مشید یعنی چشم عبرت والوں کے لئے ان کا بیکار پڑا ہوا کنواں اور پختہ بنے ہوئے محلات ویران پڑے ہوئے عبرت کے لئے کافی ہیں۔
10 Tafsir as-Saadi
یعنی ان سے پہلے گزری ہوئی قوموں نے بھی اپنے انبیائے عظام اور مرسلین کرام کو جھٹلایا، جیسے نوح علیہ السلام کو ان کی قوم نے جھٹلایا، ثمود نے حضرت صالح علیہ السلام کی تکذیب کی، عاد نے ہود علیہ السلام کو جھٹلایا، لوط کی قوم نے لوط علیہ السلام کو اور اصحاب ایکہ نے شعیب علیہ السلام کو جھوٹا سمجھا۔ زمانہ اسلام سے قبل یمن کے ہر بادشاہ کو (تُبَّعْ) کہا جاتا تھا، چنانچہ تبع کی قوم نے اپنے رسول کی تکذیب کی جسے اللہ تعالیٰ نے ان کی طرف مبعوث کیا تھا۔ مگر اللہ تعالیٰ نے ہمیں آگاہ نہیں فرمایا کہ وہ رسول کون تھا اور اسے کس (تُبَّعْ) کے زمانے میں مبعوث کیا گیا؟ کیونکہ۔۔۔ واللہ اعلم۔۔۔ وہ رسول عربوں میں مشہور اور معروف تھا اور عرب میں پیش آنے والے واقعات ان سے چھپے ہوئے نہ تھے، خاص طور پر اس قسم کے عظیم حادثے سے وہ بے خبر نہیں رہ سکتے تھے۔ پس ان تمام قوموں نے ان رسولوں کو جھٹلایا جن کو اللہ تعالیٰ نے ان کی طرف مبعوث کیا تھا۔ پس اس پاداش میں ان کے لئے اللہ تعالیٰ کی وعید اور اس کی سزا واجب ہوگئی۔
11 Mufti Taqi Usmani
inn say pehlay nooh ki qoam aur ashaab-ur-Rass aur samood kay logon ney bhi ( iss baat ko ) jhutlaya tha ,
12 Tafsir Ibn Kathir
ان کو شامت اعمال ہی شد تھی
اللہ تعالیٰ اہل مکہ کو ان عذابوں سے ڈرا رہا ہے جو ان جیسے جھٹلانے والوں پر ان سے پہلے آچکے ہیں جیسے کہ نوح کی قوم جنہیں اللہ تعالیٰ نے پانی میں غرق کردیا اور اصحاب رس جن کا پورا قصہ سورة فرقان کی تفسیر میں گذر چکا ہے اور ثمود اور عاد اور امت لوط جسے زمین میں دھنسا دیا اور اس زمین کو سڑا ہوا دلدل بنادیا یہ سب کیا تھا ؟ ان کے کفر، ان کی سرکشی، اور مخالفت حق کا نتیجہ تھا اصحاب ایکہ سے مراد قوم شعیب ہے (علیہ الصلوۃ والسلام) اور قوم تبع سے مراد یمانی ہیں، سورة دخان میں ان کا واقعہ بھی گزر چکا ہے اور وہیں اس کی پوری تفسیر ہے یہاں دوہرانے کی ضرورت نہیں فالحمد للہ۔ ان تمام امتوں نے اپنے رسولوں کی تکذیب کی تھی اور عذاب اللہ سے ہلاک کر دئیے گئے یہی اللہ کا اصول جاری ہے۔ یہ یاد رہے کہ ایک رسول کا جھٹلانے والا تمام رسولوں کا منکر ہے جیسے اللہ عزوجل و علا کا فرمان ہے آیت ( كَذَّبَتْ قَوْمُ نُوْحِۨ الْمُرْسَلِيْنَ\010\05ښ) 26 ۔ الشعراء :105) قوم نوح نے رسولوں کا انکار کیا حالانکہ ان کے پاس صرف نوح (علیہ السلام) ہی آئے تھے پس دراصل یہ تھے ایسے کہ اگر ان کے پاس تمام رسول آجاتے تو یہ سب کو جھٹلاتے ایک کو بھی نہ مانتے سب کی تکذیب کرتے ایک کی بھی تصدیق نہ کرتے ان سب پر اللہ کے عذاب کا وعدہ ان کے کرتوتوں کی وجہ سے ثابت ہوگیا اور صادق آگیا۔ پس اہل مکہ اور دیگر مخاطب لوگوں کو بھی اس بدخصلت سے پرہیز کرنا چاہیے کہیں ایسا نہ ہو کہ عذاب کا کوڑا ان پر بھی برس پڑے کیا جب یہ کچھ نہ تھے ان کا بسانا ہم پر بھاری پڑا تھا ؟ جو اب دوبارہ پیدا کرنے کے منکر ہو رہے ہیں ابتداء سے تو اعادہ بہت ہی آسان ہوا کرتا ہے جیسے فرمان ہے آیت ( وَهُوَ الَّذِيْ يَبْدَؤُا الْخَــلْقَ ثُمَّ يُعِيْدُهٗ وَهُوَ اَهْوَنُ عَلَيْهِ ۭ وَلَهُ الْمَثَلُ الْاَعْلٰى فِي السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ۚ وَهُوَ الْعَزِيْزُ الْحَكِيْمُ 27 ) 30 ۔ الروم :27) یعنی بتداءً اسی نے پیدا کیا ہے اور دوبارہ بھی وہی اعادہ کرے گا اور یہ اس پر بہت آسان ہے سورة یٰسین میں فرمان الہٰی جل جلالہ گذر چکا کہ آیت ( وَضَرَبَ لَنَا مَثَلًا وَّنَسِيَ خَلْقَهٗ ۭ قَالَ مَنْ يُّـحْيِ الْعِظَامَ وَهِىَ رَمِيْمٌ 78) 36 ۔ يس :78) ، یعنی اپنی پیدائش کو بھول کر ہمارے سامنے مثالیں بیان کرنے لگا اور کہنے لگا بوسیدہ سڑی گلی ہڈیوں کو کون زندہ کرے گا ؟ ان کو تو جواب دے کہ وہ جس نے انہیں پہلی بار پیدا کیا اور تمام خلق کو جانتا ہے صحیح حدیث میں ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے مجھے بنی آدم ایذاء دیتا ہے جب یہ کہتا ہے کہ اللہ مجھے دوبارہ پیدا نہیں کرسکتا حالانکہ پہلی دفعہ پیدا کرنا دوبارہ پیدا کرنے سے کچھ آسان نہیں۔