Skip to main content

قَالَ فَمَا خَطْبُكُمْ اَيُّهَا الْمُرْسَلُوْنَ

He said
قَالَ
کہا
"Then what
فَمَا
تو کیا
(is) your mission
خَطْبُكُمْ
قصہ ہے تمہارا
O messengers?"
أَيُّهَا
اے
O messengers?"
ٱلْمُرْسَلُونَ
فرشتو۔ بھیجے ہوؤں

تفسیر کمالین شرح اردو تفسیر جلالین:

ابراہیمؑ نے کہا "اے فرستادگان الٰہی، کیا مہم آپ کو در پیش ہے؟

English Sahih:

[Abraham] said, "Then what is your business [here], O messengers?"

ابوالاعلی مودودی Abul A'ala Maududi

ابراہیمؑ نے کہا "اے فرستادگان الٰہی، کیا مہم آپ کو در پیش ہے؟

احمد رضا خان Ahmed Raza Khan

ابراہیم نے فرمایا تو اے فرشتو! تم کس کام سے آئے

احمد علی Ahmed Ali

فرمایا اے رسولو! تمہارا کیا مطلب ہے

أحسن البيان Ahsanul Bayan

حضرت ابراہیم علیہ السلام نے کہا کہ اللہ کے بھیجے ہوئے (فرشتو!) تمہارا کیا مقصد ہے (١)

٣١۔١ یعنی اس بشارت کے علاوہ تمہارا اور کیا کام اور مقصد ہے جس کے لئے تمہیں بھیجا گیا ہے۔

جالندہری Fateh Muhammad Jalandhry

ابراہیمؑ نے کہا کہ فرشتو! تمہارا مدعا کیا ہے؟

محمد جوناگڑھی Muhammad Junagarhi

(حضرت ابرہیم علیہ السلام) نے کہا کہ اللہ کے بھیجے ہوئے (فرشتو!) تمہارا کیا مقصد ہے؟

محمد حسین نجفی Muhammad Hussain Najafi

آپ (ابراہیم(ع)) نے کہا اے فرستادو آخر تمہاری مہم کیا ہے؟

علامہ جوادی Syed Zeeshan Haitemer Jawadi

ابراہیم علیھ السّلام نے کہا کہ اے فرشتو تمہیں کیا مہم درپیش ہے

طاہر القادری Tahir ul Qadri

(ابراہیم علیہ السلام نے) کہا: اے بھیجے ہوئے فرشتو! (اس بشارت کے علاوہ) تمہارا (آنے کا) بنیادی مقصد کیا ہے،

تفسير ابن كثير Ibn Kathir

پہلے بیان ہوچکا ہے کہ جب ان نووارد مہمانوں سے حضرت ابراہیم کا تعارف ہوا اور دہشت جاتی رہی۔ بلکہ ان کی زبانی ایک بہت بڑی خوشخبری بھی سن چکے اور اپنی بردباری اللہ ترسی اور دردمندی کی وجہ سے اللہ کی جناب میں قوم لوط کی سفارش بھی کرچکے اور اللہ کے ہاں کے حتمی وعدے کا اعلان بھی سن چکے، اس کے بعد جو ہوا اس کا بیان یہاں ہو رہا ہے کہ حضرت خلیل اللہ نے ان فرشتوں سے دریافت فرمایا کہ آپ لوگ کس مقصد سے آئے ہیں ؟ انہوں نے جواب دیا کہ قوم لوط کے گنہگاروں کو تاخت تاراج کرنے کے لئے ہمیں بھیجا گیا ہے ہم ان پر سنگ باری اور پتھراؤ نہ کریں گے ان پتھروں کو ان پر برسائیں گے جن پر اللہ کے حکم سے پہلے ہی ان کے نام لکھے جاچکے ہیں اور ہر ایک گنہگار کے لئے الگ الگ پتھر مقرر کر دئیے گئے ہیں سورة عنکبوت میں گذر چکا ہے کہ یہ سن کر حضرت خلیل الرحمن نے فرمایا کہ وہاں تو حضرت لوط ہیں پھر وہ بستی کی بستی کیسے غارت کردی جائے گی ؟ فرشتوں نے کہا اس کا علم ہمیں بھی ہے ہمیں حکم مل چکا ہے کہ ہم انہیں اور ان کے ساتھ کے گھرانے کے تمام ایمان داروں کو بچا لیں ہاں ان کی بیوی نہیں بچ سکتی وہ بھی مجرموں کے ساتھ اپنے جرم کے بدلے ہلاک کردی جائے گی، اسی طرح یہاں بھی ارشاد ہے کہ اس بستی میں جتنے بھی مومن تھے سب کو بچا دیا گیا کہ وہاں سوائے ایک گھر کے اور گھر مسلمان تھا ہی نہیں۔ یہ دونوں آیتیں دلیل ہیں ان لوگوں کی جو کہتے ہیں کہ ایمان و مذہب بھی یہی ہے کہ ایک ہی چیز ہے جسے ایمان بھی کہا جاتا ہے اور اسلام بھی لیکن یہ استدلال ضعیف ہے اس لئے کہ یہ لوگ مومن تھے اور یہ تو ہم بھی مانتے ہیں کہ ہر مومن مسلمان ہوتا ہے لیکن ہر مسلمان مومن نہیں ہوتا پس حال کی خصوصیت کی وجہ سے انہیں مومن مسلم کہا گیا ہے اس سے عام طور پر یہ بات نہیں ہوتا کہ ہر مسلم مومن ہے۔ (حضرت امام بخاری اور دیگر محدثین کا مذہب ہے کہ جب اسلام حقیقی اور سچا اسلام ہو تو وہی اسلام ایمان ہے اور اس صورت میں ایمان اسلام ایک ہی چیز ہے ہاں جب اسلام حقیقی طور پر نہ ہو تو بیشک اسلام ایمان میں فرق ہے صحیح بخاری شریف کتاب الایمان ملاحظہ ہو۔ مترجم) پھر فرماتا ہے کہ ان کی آباد و شاد بستیوں کو عذاب سے برباد کر کے انہیں سڑے ہوئے بدبودار کھنڈر بنا دینے میں مومنوں کے لئے عبرت کے پورے سامان ہیں جو عذاب الٰہی سے ڈر رکھتے ہیں وہ ان نمونہ کو دیکھ کر اور اس زبردست نشان کو ملاحظہ کر کے پوری عبرت حاصل کرسکتے ہیں۔