الرحمٰن آية ۱۴
خَلَقَ الْاِنْسَانَ مِنْ صَلْصَالٍ كَالْفَخَّارِۙ
طاہر القادری:
اسی نے انسان کو ٹھیکری کی طرح بجتے ہوئے خشک گارے سے بنایا،
English Sahih:
He created man from clay like [that of] pottery.
1 Abul A'ala Maududi
انسان کو اُس نے ٹھیکری جیسے سوکھے سڑے ہوئے گارے سے بنایا
2 Ahmed Raza Khan
اس نے آدمی کو بنا یا بجتی مٹی سے جیسے ٹھیکری
3 Ahmed Ali
اس نے انسان کو ٹھیکری کی طرح بجتی ہوئی مٹی سے پیدا کیا
4 Ahsanul Bayan
اس نے انسان کو بجنے والی مٹی سے پیدا کیا جو ٹھیکری کی طرح تھی (١)
١٤۔١ صَلصَالٍ خشک مٹی جس میں آواز ہو۔ فَخَّار آگ میں پکی ہوئی مٹی، جسے ٹھیکری کہتے ہیں۔ انسان سے مراد حضرت آدم علیہ السلام ہیں، جن کا پہلے مٹی کا پتلا بنایا گیا اور پھر اس میں اللہ نے روح پھونکی۔ پھر حضرت آدم علیہ السلام کی بائیں پسلی سے حوا کو پیدا فرمایا، اور پھر ان دونوں سے نسل انسانی چلی۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
اسی نے انسان کو ٹھیکرے کی طرح کھنکھناتی مٹی سے بنایا
6 Muhammad Junagarhi
اس نےانسان کو بجنے والی مٹی سے پیدا کیا جو ٹھیکری کی طرح تھی
7 Muhammad Hussain Najafi
اس نے انسان کو ٹھیکرے کی طرح کھنکھناتی ہوئی مٹی سے پیدا کیا۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
اس نے انسان کو ٹھیکرے کی طرح کھنکھناتی ہوئی مٹی سے پیدا کیا ہے
9 Tafsir Jalalayn
اسی نے انسان کو ٹھیکرے کی طرح کھنکھناتی مٹی سے بنایا
خلق الانسان من صلصال الخ انسان کو بجتی ہوئی خشک مٹی سے پیدا کیا۔
سوال : یہاں انسان کی تخلیق کو صلصال سے بتایا گیا اور سورة الحجر میں من صلصال من حمامسنون کالی سڑی ہوئی سیاہ مٹ سے تخلیق کرنا بیان کیا گیا اور سورة الصافات میں من طین لازیب یعنی چپکتی ہوئی مٹی سے تخلیق بیان کی گئی ہے اور سورة آل عمران میں خلقہ من تراب عام مٹی سے تخلیق بیان ہوئی، آدم (علیہ السلام) کی تخلیق چار قسم کی مٹی سے قرآن سے معلوم ہوتی ہے اور مذکورہ چاروں قسمیں ایک دوسرے سے مختلف ہیں، بظاہر تعارض و تضاد معلوم ہوتا ہے۔
جواب :۔ چاروں میں کسی قسم کا تضاد و تعارض نہیں ہے اس لئے کہ مذکورہ چاروں حالات مختلف زمانوں کے ہیں، تعارض کے میں چپکاہٹ پیدا ہوگئی، پھر اس کو ایک زمانہ تک اسی حالت پر چھوڑ دیا تو حما مسنون سڑی ہوئی سیاہ رنگ کی ہوگئی، پھر اللہ تعالیٰ نے اس کی تصویر سازی کی جیسا کہ مٹی کے برتن بنائے جاتے ہیں اور پھر اس کو سکھاتے ہیں حتی کہ وہ سوکھ کر نہایت سخت ٹھیکرے کے مانند بجنے والی ہوجاتی ہے، یہاں پر آخری مرحلہ کا بیان ہے اس کے علاوہ میں کہیں ابتدائی مرحلہ کا بیان ہے اور کہیں درمیانی مرحلہ کا یان ہے۔
10 Tafsir as-Saadi
یہ اللہ تعالیٰ کی اپنے بندوں پر نعمت ہے کہ اس نے انہیں اپنی قدرت اور کاری گری کے آثار دکھائے کہ ﴿خَلَقَ الْاِنْسَانَ مِنْ صَلْصَالٍ کَالْفَخَّارِ﴾ انسان کے جد امجد حضرت آدم علیہ السلام کو گیلی مٹی سے پیدا کیا، جس کے نم کو مہارت کے ساتھ محکم کیا گیا تھا یہاں تک کہ وہ خشک ہوگئی اور اس میں آگ پر پکائے گئے ٹھیکرے کی آواز مانند کھنکھنانے کی آواز پیدا ہوگئی۔
11 Mufti Taqi Usmani
ussi ney insan ko theekray ki tarah khankhanati hoi mitti say peda kiya ,
12 Tafsir Ibn Kathir
انسان اور جنات کی پیدائش میں فرق
یہاں بیان ہو رہا ہے کہ انسان کی پیدائش بجنے والی ٹھیکری جیسی مٹی سے ہوئی ہے اور جنات کی پیدائش آگ کے شعلے سے ہوئی ہے جو خالص اور احسن تھا مسند کی حدیث میں ہے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرماتے ہیں فرشتے نور سے جنات نار سے اور انسان اس مٹی سے جس کا ذکر تمہارے سامنے ہوچکا ہے پیدا کئے گئے ہیں پھر اپنی کسی نعمت کے جھٹلانے کی ہدایت کر کے فرماتا ہے جاڑے اور گرمی کے دو سورج کے نکلنے اور ڈوبنے کے مقامات کا رب اللہ ہی ہے دو سے مراد سورج نکلنے اور ڈوبنے کی دو مختلف جگہیں ہیں کہ وہاں سے سورج چڑھتا اترتا ہے اور موسم کے لحاظ سے یہ بدلتی جگہیں رہتی ہیں ہر دن انقلاب لاتا ہے جیسے دوسری آیت میں مشرق و مغرب کا رب وہی ہے تو اسی کو اپنا وکیل سمجھ تو یہاں مراد جنس مشرق و مغرب ہے اور دوسری مشرق مغرب سے مراد طلوع و غرب کی دو جگہ ہیں، اور چونکہ طلوع و غروب کی جگہ کے جدا جدا ہونے میں انسانی منفعت اور اس کی مصلحت بینی تھی اس لئے پھر فرمایا کہ کیا اب بھی تم اپنے رب کی نعمتوں کے منکر ہی رہو گے ؟ اس کی قدرت کا مظاہرہ دیکھو کہ دو سمندر برابر چل رہے ہیں ایک کھاری پانی کا ہے دوسرا میٹھے پانی کا لیکن نہ اس کا پانی اس میں مل کر اسے کھاری کرتا ہے نہ اس کا میٹھا پانی اس میں مل کر اسے میٹھا کرسکتا ہے بلکہ دونوں اپنی رفتار سے چل رہے ہیں دونوں کے درمیان ایک پردہ حائل ہے نہ وہ اس میں مل سکے نہ وہ اس میں جاسکے یہ اپنی حد میں ہے وہ اپنی حد میں اور قدرتی فاصلہ انہیں الگ الگ کئے ہوئے ہے حالانکہ دونوں پانی ملے ہوئے ہیں۔
سورة فرقان کی آیت ( وَهُوَ الَّذِيْ مَرَجَ الْبَحْرَيْنِ ھٰذَا عَذْبٌ فُرَاتٌ وَّھٰذَا مِلْحٌ اُجَاجٌ ۚ وَجَعَلَ بَيْنَهُمَا بَرْزَخًا وَّحِجْرًا مَّحْجُوْرًا 53) 25 ۔ الفرقان :53) ، کی تفسیر میں اس کی پوری تشریح گذر چکی ہے امام ابن جریر یہ بھی فرماتے ہیں کہ آسمان میں جو پانی کا قطرہ ہے اور صدف جو زمین کے دریا میں ہے ان دونوں سے مل کر لؤلؤ پیدا ہوتا ہے واقعہ تو یہ ٹھیک ہے لیکن اس آیت کی تفسیر اس طرح کرنی کچھ مناسب معلوم نہیں ہوتی اس لئے کہ آیت میں ان دونوں کے درمیان برزخ یعنی آڑ کا ہونا بیان فرمایا گیا ہے جو اس کو اس سے اور اس کو اس سے روکے ہوئے ہیں اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ دونوں زمین میں ہی ہیں بلکہ ایک دوسرے سے لگے لگے چلتے ہیں مگر قدرت انہیں جدا رکھتی ہے آسمان و زمین کے درمیان جو فاصلہ ہے وہ برزخ اور حجر نہیں کہا جاتا اس لئے صحیح قول یہی ہے کہ یہ زمین کے دو دریاؤں کا ذکر ہے نہ کہ آسمان اور زمین کے دریا کا۔ ان دونوں میں سے یعنی دونوں میں سے ایک میں سے۔ جیسے اور جگہ جن و انس کو خطاب کر کے سوال ہوا ہے کہ کیا تمہارے پاس تمہیں میں سے رسول نہیں آئے تھے ؟ ظاہر ہے کہ رسول صرف انسان میں سے ہی ہوئے ہیں جنات میں کوئی جن رسول نہیں آیا تو جیسے یہاں اطلاع صحیح ہے حالانکہ وقوع ایک میں ہی ہے اسی طرح اس آیت میں بھی اطلاق دونوں دریا پر ہے اور وقوع ایک میں ہی ہے لؤلؤ یعنی موتی کو کہتے ہیں کہ اور کہا گیا ہے کہ بہترین اور عمدہ موتی کو مرجان کہتے ہیں بعض کہتے ہیں سرخ رنگ جواہر کو کہتے ہیں، بعض کہتے ہیں سرخ مہرے کا نام ہے اور آیت میں ہے (وَمِنْ كُلٍّ تَاْكُلُوْنَ لَحـْـمًا طَرِيًّا وَّتَسْتَخْرِجُوْنَ حِلْيَةً تَلْبَسُوْنَهَا ۚ وَتَرَى الْفُلْكَ فِيْهِ مَوَاخِرَ لِتَبْتَغُوْا مِنْ فَضْلِهٖ وَلَعَلَّكُمْ تَشْكُرُوْنَ 12) 35 ۔ فاطر :12) یعنی تم ہر ایک میں سے نکلا ہوا گوشت کھاتے ہو جو تازہ ہوتا ہے اور پہننے کے زیور نکالتے ہو تو خیر مچھلی تو کھاری اور میٹھے دونوں پانی سے نکلتی ہے اور موتی مونگے صرف کھاری پانی میں سے نکلتے ہیں میٹھے میں سے نہیں نکلتے حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ آسمان کا جو قطرہ سمندر کی سیپ کے منہ میں سیدھا جاتا ہے وہ لؤلؤ بن جاتا ہے اور جب صدف میں نہیں جاتا تو اس سے عنبر پیدا ہوتا ہے مینہ برستے وقت سیپ اپنا منہ کھول دیتی ہے پس اس نعمت کو بیان فرما کر پھر دریافت فرماتا ہے کہ ایسی ہی بیشمار نعمتیں جس رب کی ہیں تم بھلا کس کس نعمت کی تکذیب کرو گے ؟ پھر ارشاد ہوتا ہے کہ سمندر میں چلنے والے بڑے بڑے بادبانوں والے جہاز جو دور سے نظر پڑتے ہیں اور پہاڑوں کی طرح کھڑے دکھائی دیتے ہیں جو ہزاروں من مال اور سینکڑوں انسانوں کو ادھر سے ادھر لے آتے ہیں یہ بھی تو اس اللہ کی ملکیت میں ہیں اس عالیشان نعمت کو یاد دلا کر پھر پوچھتا ہے کہ اب بتاؤ انکار کئے کیسے بن آئے گی ؟ حضرت عمیری بن سوید فرماتے ہیں میں اللہ کے شیر حضرت علی مرتضٰی کے ساتھ دریائے فرات کے کنارے پر تھا ایک بلند وبالا بڑا جہاز آ رہا تھا اسے دیکھ کر آپ نے اس کی طرف اپنے ہاتھ سے اشارہ کر کے اس آیت کی تلاوت کی پھر فرمایا اس اللہ کی قسم جس نے پہاڑوں جیسی ان کشتیوں کو امواج سمندر میں جاری کیا ہے نہ میں نے عثمان غنی کو قتل کیا نہ ان کے قتل کا ارادہ کیا نہ قاتلوں کے ساتھ شریک ہوا نہ ان سے خوش نہ ان پر نرم۔