پھر جسے (غلام یا باندی) میسّر نہ ہو تو دو ماہ متواتر روزے رکھنا (لازم ہے) قبل اِس کے کہ وہ ایک دوسرے کو مَس کریں، پھر جو شخص اِس کی (بھی) طاقت نہ رکھے تو ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلانا (لازم ہے)، یہ اِس لئے کہ تم اللہ اور اُس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان رکھو۔ اور یہ اللہ کی (مقرر کردہ) حدود ہیں، اور کافروں کے لئے دردناک عذاب ہے،
English Sahih:
And he who does not find [a slave] – then a fast for two months consecutively before they touch one another; and he who is unable – then the feeding of sixty poor persons. That is for you to believe [completely] in Allah and His Messenger; and those are the limits [set by] Allah. And for the disbelievers is a painful punishment.
1 Abul A'ala Maududi
اور جو شخص غلام نہ پائے وہ دو مہینے کے پے در پے روزے رکھے قبل اس کے کہ دونوں ایک دوسرے کو ہاتھ لگائیں اور جو اس پر بھی قادر نہ ہو وہ ۶۰ مسکینوں کو کھانا کھلائے یہ حکم اس لیے دیا جا رہا ہے کہ تم اللہ اور اُس کے رسول پر ایمان لاؤ یہ اللہ کی مقرر کی ہوئی حدیں ہیں، اور کافروں کے لیے دردناک سزا ہے
2 Ahmed Raza Khan
پھر جسے بردہ نہ ملے تو لگاتار دو مہینے کے روزے قبل اس کے کہ ایک دوسرے کو ہاتھ لگائیں پھر جس سے روزے بھی نہ ہوسکیں تو ساٹھ مسکینوں کا پیٹ بھرنا یہ اس لیے کہ تم اللہ اور اس کے رسول پر ایمان رکھو اور یہ اللہ کی حدیں ہیں اور کافروں کے لیے دردناک عذاب ہے،
3 Ahmed Ali
پس جو شخص نہ پائے تو دو مہینے کے لگاتار روزے رکھے اس سے پہلےکہ ایک دوسرے کو چھوئیں پس جو کوئی ایسا نہ کر سکے تو ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلائے یہ ا س لیے کہ تم الله اور اس کے رسول پر ایمان لاؤ اور یہ الله کی حدیں ہیں اورمنکروں کے لیے دردناک عذاب ہے
4 Ahsanul Bayan
ہاں جو شخص نہ پائے اس کے ذمے دو مہینوں کے لگا تار روزے ہیں اس سے پہلے کہ ایک دوسرے کو ہاتھ لگائیں اور جس شخص کو یہ طاقت بھی نہ ہو اس پر ساٹھ مسکینوں کا کھانا کھلانا ہے۔ یہ اس لئے کہ تم اللہ کی اور اس کے رسول کی حکم بردری کرو، یہ اللہ تعالٰی کی وہ حدیں ہیں اور کفار ہی کے لئے دردناک عذاب ہے
5 Fateh Muhammad Jalandhry
جس کو غلام نہ ملے وہ مجامعت سے پہلے متواتر دو مہینے کے روزے (رکھے) جس کو اس کا بھی مقدور نہ ہوا (اسے) ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلانا (چاہیئے) ۔ یہ (حکم) اس لئے (ہے) کہ تم خدا اور اسکے رسول کے فرمانبردار ہوجاؤ۔ اور یہ خدا کی حدیں ہیں۔ اور نہ ماننے والوں کے لئے درد دینے والا عذاب ہے
6 Muhammad Junagarhi
ہاں جو شخص نہ پائے اس کے ذمہ دو مہینوں کے لگاتار روزے ہیں اس سے پہلے کہ ایک دوسرے کو ہاتھ لگائیں اور جس شخص کو یہ طاقت بھی نہ ہو اس پر ساٹھ مسکینوں کا کھانا کھلانا ہے۔ یہ اس لیے کہ تم اللہ کی اور اس کے رسول کی حکم برداری کرو، یہ اللہ تعالیٰ کی مقرر کرده حدیں ہیں اور کفار ہی کے لیے درد ناک عذاب ہے
7 Muhammad Hussain Najafi
اور جوشخص (غلام) نہ پائے تو جنسی تعلق قائم کرنے سے پہلے دو ماہ پے در پے (لگاتار) روزے رکھنا ہوں گے اور جو اس پر بھی قدرت نہ رکھتا ہو تو پھر ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلانا ہے یہ اس لئے کہ تم اللہ اور اس کے رسول(ص) پر ایمان لاؤ (تمہارا ایمان راسخ ہو) یہ اللہ کی مقرر کردہ حدیں ہیں اور کافروں کیلئے دردناک عذاب ہے۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
پھر کسی شخص کے لئے غلام ممکن نہ ہو تو آپس میں ایک دوسرے کو مس کرنے سے پہلے دو مہینے کے مسلسل روزے رکھے پھر یہ بھی ممکن نہ ہو تو ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلائے یہ اس لئے تاکہ تم خدا و رسول پر صحیح ایمان رکھو اور یہ اللہ کے مقرر کردہ حدود ہیں اور کافروں کے لئے بڑا دردناک عذاب ہے
9 Tafsir Jalalayn
جس کو غلام نہ ملے وہ مجامعت سے پہلے متواتر دو مہینے کے روزے (رکھے) جس کو اس کا بھی مقدور نہ ہو (اسے) ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلانا (چاہیے) یہ (حکم) اس لے ہے کہ تم خدا اور اس کے رسول کے فرمانبردار بن جاؤ۔ اور یہ خدا کی حدیں ہیں اور نہ ماننے والوں کے لئے درد دینے والا عزاب ہے۔
10 Tafsir as-Saadi
﴿ فَمَنْ لَّمْ یَجِدْ﴾ پس جو آزاد کرنے کے لیے غلام نہ پائے یا اس کے پاس غلام کی قیمت موجود نہ ہو تو اس کے ذمے ﴿ فَصِیَامُ شَہْرَیْنِ مُتَتَابِعَیْنِ مِنْ قَبْلِ اَنْ یَّتَمَـاسَّا فَمَنْ لَّمْ یَسْتَطِعْ﴾ تو مجامعت سے پہلے متواتر دو مہینے کے روزے ہیں اور جوروزے رکھنے کی استطاعت نہ رکھتا ہو ﴿ فَإِطْعَامُ سِتِّينَ مِسْكِينًا ﴾ ”تو اس پر ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلانا ہے۔ “یا تو وہ اپنے شہر میں مروّج خوراک میں سے انہیں کھانا کھلائے جو ان کے لیے کافی ہوجیسا کہ یہ بہت سے مفسرین کا قول ہے یا وہ ایک مسکین کو ایک مد گیہوں یا گیہوں کے علاوہ کسی دیگر جنس سے، جو صدقہ فطر میں کفایت کرتی ہو ،نصف صاع عطا کرے جیسا کہ مفسرین کے ایک دوسرے گروہ کی رائے ہے۔ یہ حکم جو ہم نے تمہارے سامنے بیان کیا ہے اور اسے واضح کیا ہے ﴿ لِتُؤْمِنُوا بِاللّٰـهِ وَرَسُولِهِ ﴾ ”تاکہ تم اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لے آؤ۔“ اور یہ ایمان اس حکم اور دیگر احکام کے التزام اور اس پر عمل کرنے ہی سے ممکن ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کے احکام کا التزام اور ان پر عمل کرنا ایمان ہے بلکہ یہ احکام اور ان پر عمل ہی درحقیقت مقصود ومطلوب ہیں، ان سے ایمان میں اضافہ اور اس کی تکمیل ہوتی ہے اور یہ نشوونما پاتا ہے۔ ﴿ وَتِلْكَ حُدُودُ اللّٰـهِ ﴾ ”اور یہ اللہ کی حدود ہیں۔“ جو ان میں واقع ہونے سے روکتی ہیں ،اس لیے واجب ہے کہ ان حدود سے تجاوز کیا جائے نہ ان سے قاصر (پیچھے) رہا جائے ﴿ وَلِلْكَافِرِينَ عَذَابٌ أَلِيمٌ ﴾ ”اور کافروں کے لیے دردناک عذاب ہے۔“ ان آیات کریمہ میں متعدد احکام بیان کیے گئے ہیں: ١۔ اللہ تعالیٰ کا اپنے بندوں پر لطف وکرم اور عنایت ہے کہ اس نے مصیبت زدہ عورت کی شکایت کا ذکر کرکے اس کی مصیبت کا ازالہ کیا بلکہ اس نے اپنے حکم عام کے ذریعے سے ہراس شخص کی مصیبت کا ازالہ کیا جو اس قسم کی مصیبت اور آزمائش میں مبتلا ہے۔ ٢۔ ظہار بیوی کو حرام ٹھہرا لینے کے ساتھ مختص ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا :﴿ مِن نِّسَائِهِمْ ﴾”اپنی عورتوں سے۔“ اگر وہ اپنی لونڈی کو اپنے آپ پر حرام ٹھہراتا ہے تو یہ ظہار شمار نہ ہوگا بلکہ یہ طیبات کی تحریم کی جنس سے ہے، مثلا :کھانے پینے کو حرام ٹھہرا لینا۔ اس میں صرف قسم کا کفارہ واجب ہے۔ ٣۔ کسی عورت سے نکاح کرنے سے پہلے اس سے ظہار درست نہیں کیونکہ ظہار کے وقت وہ اس کی بیویوں میں داخل نہیں ہے جیسا کہ نکاح سے قبل مرد کسی عورت کو خواہ طلاق دے دے یا اس کو معلق کردے اس کو طلاق نہیں ہوسکتی۔ ٤۔ ظہارحرام ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اسے منکر کہا ہے۔ ٥۔ ان آیات کریمہ میں اللہ تعالیٰ کے حکم اور اس کی حکمت کی طرف اشارہ ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿ مَّا هُنَّ أُمَّهَاتِهِمْ ﴾ ”وہ ان کی مائیں نہیں ہیں۔ “ ٦۔ ان آیات کریمہ سے ثابت ہوتا ہے کہ مرد کے لیے مکروہ ہے کہ وہ اپنی بیوی کو اپنے محارم کے نام سے پکارے، مثلا: اے میری ماں! اے میری بہن! وغیرہ کیونکہ یہ بات محرمات سے مشابہت رکھتی ہے۔ ٧۔ کفارہ مجرد ظہار سے واجب نہیں ہوتا بلکہ سابقہ دونوں اقوال کے اختلاف معنی کے مطابق، ظہار کرنے والے کے ”رجوع کرنے “پر کفارہ واجب ہوتا ہے۔ ٨۔ کفارے میں چھوٹے یابڑے غلام کو اور مرد یا عورت کو آزاد کرنے سے کفارہ ادا ہوجاتا ہے کیونکہ آیت میں مطلق غلام کو آزاد کرنے کا حکم ہے۔ ٩۔ آیت کریمہ سے ثابت ہوتا ہے کہ اگر کفارے میں غلام آزاد کرنا یا روزے رکھنا ہے تو جماع سے قبل کفارہ ادا کرنا واجب ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے اسے مقید ذکر کیا ہے، بخلاف مسکینوں کو کھانا کھلانے کے کیونکہ مسکینوں کو کھانا کھلانے کے دوران میں جماع جائز ہے۔ ١٠۔ جماع سے قبل کفارے کے واجب ہونے میں شاید حکمت یہ ہے کہ اس سے کفارے کی ادائیگی میں زیادہ ترغیب ملتی ہے کیونکہ جب ظہار کرنے والے میں جماع کا اشتیاق پیدا ہوتا ہے اور اسے معلوم ہے کہ کفارہ ادا کیے بغیر جماع ممکن نہیں تو کفارہ ادا کرنے میں جلدی کرتا ہے۔ ١١۔ ان آیات کریمہ سے ثابت ہوتا ہے کہ ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلانا واجب ہے۔ ظہار کا ارتکاب کرنے والا اگر ساٹھ مسکینوں کااکٹھا کھانا کسی ایک مسکین یا ایک سے زائد مسکینوں کو، جو تعداد میں ساٹھ سے کم ہوں، دے دے تو یہ جائز نہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ﴿ فَإِطْعَامُ سِتِّينَ مِسْكِينًا ﴾” تو اس پر ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلانا ہے۔“
11 Mufti Taqi Usmani
phir jiss shaks ko ghulam moyassar naa ho , uss kay zimmay do mutawatir maheenon kay rozay hain , qabal iss kay kay woh ( miyan biwi ) aik doosray ko haath lagayen . phir jiss ko iss ki bhi istataat naa ho , uss kay zimmay saat miskeeno ko khana khilana hai . yeh iss liye takay tum Allah aur uss kay Rasool per emaan lao . aur yeh Allah ki muqarrar ki hoi haden hain , aur kafiron kay liye dardnak azab hai .