الحشر آية ۱۸
يٰۤاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا اتَّقُوا اللّٰهَ وَلْتَـنْظُرْ نَـفْسٌ مَّا قَدَّمَتْ لِغَدٍ ۚ وَاتَّقُوا اللّٰهَۗ اِنَّ اللّٰهَ خَبِيْرٌۢ بِمَا تَعْمَلُوْنَ
طاہر القادری:
اے ایمان والو! تم اللہ سے ڈرتے رہو اور ہر شخص کو دیکھتے رہنا چاہئیے کہ اس نے کل (قیامت) کے لئے آگے کیا بھیجا ہے، اور تم اللہ سے ڈرتے رہو، بیشک اللہ اُن کاموں سے باخبر ہے جو تم کرتے ہو،
English Sahih:
O you who have believed, fear Allah. And let every soul look to what it has put forth for tomorrow – and fear Allah. Indeed, Allah is Aware of what you do.
1 Abul A'ala Maududi
اے لوگو جو ایمان لائے ہو، اللہ سے ڈرو، اور ہر شخص یہ دیکھے کہ اُس نے کل کے لیے کیا سامان کیا ہے اللہ سے ڈرتے رہو، اللہ یقیناً تمہارے اُن سب اعمال سے باخبر ہے جو تم کرتے ہو
2 Ahmed Raza Khan
اے ایمان والو اللہ سے ڈرو اور ہر جان دیکھے کہ کل کے لیے آگے کیا بھیجا اور اللہ سے ڈرو بیشک اللہ کو تمہارے کاموں کی خبر ہے،
3 Ahmed Ali
اے ایمان والو الله سے ڈرو اور ہر شخص کو دیکھنا چاہیئے کہ اس نے کل کے لئے کیا آگے بھیجا ہے اور الله سے ڈرو کیوں کہ الله تمہارے کاموں سے خبردار ہے
4 Ahsanul Bayan
اے ایمان والو! اللہ سے ڈرتے رہو (١) اور ہر شخص دیکھ (بھال) لے کہ کل (قیامت) کے واسطے اس نے (اعمال کا) کیا (ذخیرہ) بھیجا ہے (۲) اور (ہر وقت) اللہ سے ڈرتے رہو۔ اللہ تمہارے سب اعمال سے باخبر ہے (۳)
۱۸۔۱ اہل ایمان کو خطاب کرکے انہیں وعظ کیا جارہا ہے اللہ سے ڈرنے کا مطلب ہے اس نے جن چیزوں کے کرنے کا حکم دیا ہے انہیں بجا لاؤ جن سے روکا ہے ان سے رک جاؤ آیت میں یہ بطور تاکید دو مرتبہ فرمایا کیونکہ یہ تقوی اللہ کا خوف ہی انسان کو نیکی کرنے پر اور برائی سے اجتناب پر آمادہ کرتا ہے ۔١٨۔۲ اسے کل سے تعبیر کرکے اس طرف بھی اشارہ فرما دیا کہ اس کا وقوع زیادہ دور نہیں، قریب ہے۔
١٨۔۳ چنانچہ وہ ہر ایک کو اس کے عمل کی جزا دے گا، نیک کو نیکی کی جزا اور بد کو بدی کی جزا۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
اے ایمان والوں! خدا سے ڈرتے رہو اور ہر شخص کو دیکھنا چاہیئے کہ اس نے کل (یعنی فردائے قیامت) کے لئے کیا (سامان) بھیجا ہے اور (ہم پھر کہتے ہیں کہ) خدا سے ڈرتے رہو بےشک خدا تمہارے سب اعمال سے خبردار ہے
6 Muhammad Junagarhi
اے ایمان والو! اللہ سے ڈرتے رہو اور ہر شخص دیکھ (بھال) لے کہ کل (قیامت) کے واسطے اس نے (اعمال کا) کیا (ذخیره) بھیجا ہے۔ اور (ہر وقت) اللہ سے ڈرتے رہو۔ اللہ تمہارے سب اعمال سے باخبر ہے
7 Muhammad Hussain Najafi
اے ایمان والو! اللہ (کی مخالفت سے) ڈرو اور ہر شخص کو یہ دیکھنا چاہیے کہ اس نے کل (قیامت) کیلئے آگے کیا بھیجا ہے اللہ سے ڈرو بےشک جو کچھ تم کرتے ہو اللہ اس سے اچھی طرح باخبر ہے۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
ایمان والو اللہ سے ڈرو اور ہر شخص یہ دیکھے کہ اس نے کل کے لئے کیا بھیج دیا ہے اور اللہ سے ڈرتے رہو کہ وہ یقینا تمہارے اعمال سے باخبر ہے
9 Tafsir Jalalayn
اے ایمان والو ! خدا سے ڈرتے رہو اور ہر شخص کو دیکھنا چاہئے کہ اس نے کل (یعنی فروائے قیامت) کیلئے کیا (سامان) بھیجا ہے اور ہم پھر کہتے ہیں کہ خدا ہی سے ڈرتے رہو۔ بیشک خدا تمہارے سب اعمال سے خبردار ہے۔
ترجہ : اے ایمان والو ! اللہ سے ڈرتے رہو اور ہر شخص غور کرلے کہ کل (قیامت کے دن) کے واسطے (اعمال) کا کیا (ذخیرہ) بھیجا ہے ؟ اور (ہروقت) اللہ سے ڈرتے رہو اللہ تمہارے اعمال سے باخبر ہے اور تم ان لوگوں کے مانند مت ہوجانا جنہوں نے اللہ (کے احکام) کو بھلا دیا یعنی اس کی اطاعت کو ترک کردیا تو اللہ نے بھی انہیں ان کی جانوں سے غافل کردیا اس بات سے کہ وہ اپنی ذات کے لئے نیکی آگے بھیجیں، ایسے ہی لوگ فاسق ہوتے ہیں، اہل نار اور اہل جنت ابہم برابر نہیں، جو اہل جنت ہیں وہی کامیاب ہیں، اور اگر ہم اس قرآن کو کسی پہاڑ پر نازل کرتے اور اس کے اندر انسان کے مانند شعور پیدا کردیا جاتا تو تو دیکھتا اس کو کہ خشیت الٰہی سے وہ پست ہو کر پھٹا جاتا ہے ہم ان مذکورہ مثالوں کو لوگوں کے لئے بیان کرتے ہیں تاکہ وہ غور کریں، پھر ایمان لے آئیں، ویہ اللہ ہے اس کے سوا کوئی معبود نہیں غائب اور حاضر یعنی پوشیدہ اور ظاہر کا جاننے والا ہے وہ مہربان اور رحم کرنے والا ہے وہی اللہ ہے اس کے سوا کوئی معبود نہیں، بادشاہ ہے سب باتوں سے جو اس کی شایان شان نہیں پاک صاف ہے، تمام نقائص سے سالم ہے اپنے سرلووں کی ان کے لئے معجزات کی تخلیق کر کے نصرت کرنے والا ہے نگہبان ہے یہ ہیمن یھیمن سے مشتق ہے یعنی جب کسی شئی پر نگہبان ہو یعنی اپنے بندوں کے اعمال کا مشاہدہ کرنے والا ہے قوی ہے جبار ہے اس نے اپنی مخلوق کو بنایا جیسا چاہا، بڑائی والا ہے (برتر ہے) اس شئی سے جو اس کے لائق نہیں اللہ پاک ہے اس نے اپنی خود ہی پاکی بیان کی ہے ان چیزوں سے جن کو اس کے ساتھ شریک کرتے ہیں وہی اللہ ہے پیدا کرنے والا عدم سے وجود بخشنے والا صورت بنانے والا اس کے ننانوے نہایت اچھے نام ہیں جن کے بارے میں حدیث وارد ہوئی ہے اور حسنی احسن کا مئونث ہے، آسمانوں اور زمین میں جو کچھ ہے سب اس کی پاکی بیان کرتی ہے وہی غالب حکمت والا ہے ایسا ہی اس سورت کے شروع میں گذر چکا ہے۔
تحقیق و ترکیب و تسہیل و تفسیری فوائد
قولہ : ترکوا طاعتہ اس عباتر کے اضافہ سے اشارہ کردیا کہ یہاں نسیان کے لازم معنی مراد ہیں جو کہ ترک ہیں، اس لئے کہ نسیان کے لئے ترک لازم ہے، نہ کہ عدم حفظ و الذکر
قولہ : ان قدموا لھا خیراً اس میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ عبارت حذف مضاف کے ساتھ ہے، تقدیر عبارت یہ ہے کہ فانساھم تقدم خیر لانفسھم
تفسیر و تشریح
یایھا الذین آمنوا اتقوا اللہ اہل ایمان کو مخاطب کر کے انہیں نصیحت کی جا رہی ہے اور کہا جا رہا ہے، کہ تقویٰ اختیار کرو، اور ہر نفس اس بات پر غور کرلے کہ اس نے آخرت کے لئے کیا سامان بھیجا ہے۔
اس آیت میں چند باتیں غور طلب ہیں اول یہ کہ اس آیت میں قیامت کو لفظ غد سے تعبیر کیا ہے جس کے معنی ہیں آنے والی کل، اور کل سے مراد ہے آخرت، گویا کہ دنیا کی پوری زندگی آج ہے اور کل وہ قیامت کا دن ہے جو اس آج کے بعد آنے والا ہے، غد کے لفظ میں اس بات کی طرف بھی اشارہ ہے کہ جس طرح آج کے بعد کل کا آنا یقینی ہے، اسی طرح دنیا کے بعد آخرت کا آنا ضروری اور یقینی ہے، جس طرح آج کے بعد کل کے آنے میں کسی کو شبہ نہیں ہوتا، اسی طرح قیامت کا آنا بھی بےریب ہے، دوسری بات یہ کہ اس میں قرب قیامت کی طرف اشارہ ہے جس طرح آج کے بعد کل جلدی ہی آجاتی ہے، اسی طرح قیامت جلدی آنے والی ہے، ایک قیامت تو پورے عالم کی ہے جس دن زمین آسمان سب فنا ہوجائیں گے وہ بھی اگرچہ ہزاروں لاکھوں سال بعد ہو مگر بمقابلہ آخرت کی مدت کے بالکل قریب ہی ہے، دوسری قیامت ہر انسان کی ہے جو اس کی اپنی ہے جو اس کی موت کے وقت آجاتی ہے جیسا کہ مقولہ مشہور ہے من مات فقد قامت قیامتہ یعنی جو شخص مرگیا اس کی قیامت قائم ہوگئی، کیونکہ عالم برزخ ہی سے قیامت کے آثار شروع ہوجاتے ہیں، کیونکہ عالم قبر جس کو عالم برزخ بھی کہتے ہیں اس کی مثال دنیا کی انتظار گاہ (ویٹنگ روم) کی سی ہے، جو فرسٹ کلاس سے لیکر تھرڈ کلاس تک کے لوگوں کے لئے مختلف قسم کے ہوتے ہیں اور مجرموں کا ویٹنگ روم، حوالات یا جیل خانہ ہوتا ہے اسی انتظار گاہ سے ہر شخص اپنا اپنا درجہ متعین کرسکتا ہے، اس لئے مرنے کے ساتھ ہی ہر شخص کی قیامت آجاتی ہے۔
دوسری بات جو غور طلب ہے وہ یہ ہے کہ حق تعالیٰ نے اس میں انسان کو اس پر غور و فکر کرنے کی دعوت دی ہے کہ قیامت جس کا آنا یقینی بھی ہے اور قریب بھی، اس کے لئے تم نے کیا سامان بھیجا ہے ؟ اس سے معلوم ہوا کہ انسان کا اصلی وطن آخرت ہے دنیا میں تو یہ چند دن کے لئے ویزے پر آیا ہوا ہ، اس کی نیشنلٹی تو آخرت کی ہے یعنی یہ حقیقی طور پر آخرت ہے دنیا میں تو یہ چند دن کے لئے ویزے پر آیا ہوا ہے، اس کی نیشنلٹی تو آخرت کی ہے یعنی یہ حقیقی طور پر آخرت کا باشندہ ہے، جس طرح دنیا میں اپنے ملک سے ویزا لے کر دوسرے ملک جاتے ہیں اور وہاں جا کر کچھ کما کر اپنے وطن کو نہ بھیجے اور سراسر بھول جائے، اور یہ بات ظاہر ہے کہ یہاں سے دنیا کا سامان مال و دولت کوئی شخص وہاں ساتھ نہیں لے جاسکتا تو بھیجنے کی ایک ہی صورت ہے کہ ایک ملک سے دوسرے ملک مال منتقل کرنے کا جو طریقہ ہے کہ یہاں کی حکومت کے بینک میں جمع کر کے دوسرے ملک کی کرنسی حاصل کرے جو وہاں چلتی ہے، یہی صورت آخرت کے معاملہ میں بھی ہے کہ جو کچھ یہاں اللہ کی راہ میں اور اللہ کے احکام کی تعمیل میں خرچ کیا جاتا ہے وہ آسمانی حکومت کے بینک میں جمع ہوجاتا ہے اور وہاں کی کرنسی ثواب کی صورت میں اس کے لئے لکھ دی جاتی ہے اور وہاں پہنچ کر بغیر کسی دعوے اور مطالبہ کے اس کے حوالہ کردی جاتی ہے، کس قدر نادان ہے وہ شخص جو آج کے لطف و لذت میں اپنا سب کچھ لٹا رہا ہے اور نہیں سوچتا کہ کل اس کے پاس کھانے کو روٹی اور سرچھپانے کو جگہ بھی باقی نہیں رہے گی یا نہیں ؟ اسی طرح وہ شخص بھی اپنے پائوں پر کلہاڑی مار رہا ہے جو اپنی دنیا بنانے کی فکر میں ایسا منہمک ہے کہ اپنی آخرت سے بالکل غافل ہوچکا ہے۔
فانسھم انفسھم یعنی ان لوگوں نے اللہ کو بھول اور نسیان میں کیا ڈالا درحقیقت خود اپنے آپ کو بھول میں ڈال دیا کہ اپنے نفع نقصان کی خبر نہ رہی، یعنی خدا فراموشی کا لازمی نتیجہ خود فراموشی ہے، جب آدمی یہ بھول جاتا ہے کہ وہ کسی کا بندہ ہے تو لازما وہ دنیا میں اپنی ایک غلط حیثیت متعین کر یٹھتا ہے، اسی طرح جب وہ یہ بھول جاتا ہے کہ وہ ایک خدا کے سوا کسی کا بندہ نہیں ہے تو وہ اس ایک خدا کی بندگی تو نہیں کرتا جس کا وہ درحقیقت بندہ ہے اور ان بہت سوں کی بندگی کرتا رہتا ہے جن کا وہ فی الواقع بندہ نہیں ہے جو سراسر قانون دنیا کی بھی خلاف ہے۔
10 Tafsir as-Saadi
اللہ تبارک وتعالیٰ اپنے بندوں کو ان امور کا حکم دیتا ہے، جن کا ایمان موجب ہے اور کھلے چھپے تمام احوال میں التزام تقوٰی کا تقاضا کرتا ہے ۔نیز یہ کہ وہ ان اوامر وحدود کی رعایت رکھیں جن کا اللہ نے انہیں حکم دیا ہے اور اس بات پر غور کریں کہ ان کے فرائض کیا ہیں اور ان کے لیے عنایات کیا ہیں اور انہوں نے کون کون سے اعمال کیے جوا نہیں قیامت کے روز نفع ونقصان دیں گے؟ کیونکہ جب وہ آخرت کو اپنا نصب العین اور اپنے دلوں کا قبلہ بنا لیں گے اور آخرت میں قیام کا اہتمام کریں گے تو وہ کثرت اعمال کی کوشش کریں گے اور جو اس نصب العین تک پہنچاتے ہیں اور ایسے قواطع طریق سے اس کو پاک کرتے ہیں ،جو انہیں سیر وسلوک سے روکتے ہیں یا انہیں باز رکھتے ہیں یا ان کا رخ بدل دیتے ہیں ۔جب انہیں معلوم ہوجاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کے اعمال کی خبر رکھنے والا ہے، ان کے اعمال اس سے چھپے ہوئے نہیں ہیں، ان کے اعمال اس کے ہاں ضائع ہوتے ہیں نہ بیکار جاتے ہیں تو یہ چیز ان پر جدوجہد کو واجب کرتی ہے۔
یہ آیت کریمہ بندے کے لیے اپنے نفس کا محاسبہ کرنے کی بنیاد پر ہے۔ وہ یہ کہ بندے کو چاہیے کہ وہ اپنے نفس کا معائنہ کرے۔ اگر وہ اپنے اندر کوئی لغزش دیکھے تو اس کو ختم کرکے خالص توبہ کے ذریعے سے ان امور سے منہ موڑکر اس کا تدارک کرے جو اس لغزش کا باعث ہیں ۔اگر وہ اللہ تعالیٰ کے کسی حکم کے بارے میں اپنے آپ میں کوئی کوتاہی دیکھے تو اپنی پوری کوشش صرف کردے، اس کی تکمیل واتمام اور اس کی اچھی طرح تعمیل کے لیے اپنے رب سے مدد مانگے ،اپنی ذات پر اللہ تعالیٰ کی عنایات واحسانات اور اپنی تقصیر کے مابین موازنہ کرے، یہ چیز لامحالہ اس کے لیے حیا کی موجب ہوگی۔ یہ ہر لحاظ سے حرماں نصیبی ہے کہ بندہ اس معاملے میں غافل رہے اور ان لوگوں کے مشابہ ہوجائے جنہوں نے اللہ تعالیٰ کوفراموش کردیا اور اس کے ذکر سے اور اس کے حق کو ادا کرنے سے غافل ہوگئے۔ وہ اپنے حظوظ نفس اور اس کی شہوات کی طرف متوجہ ہوگئے ۔پس وہ کامیاب ہوئے نہ کوئی فائدہ حاصل کرسکے بلکہ اللہ تعالیٰ نے ان سے ان کے مصالح کو فراموش کرادیا اور ان کو ان مصالح کے منافع سے غافل کردیا ۔ان کا معاملہ افراط وتفریط کا شکار ہوگیا، تب وہ دنیا وآخرت کے خسارے کی طرف لوٹ گئے اور ایسے نقصان میں پڑگئے کہ جس کا تدارک ممکن ہے نہ اس کی اصلاح کیونکہ وہ نافرمان لوگ ہیں جو اپنے رب کی اطاعت سے نکل کر اس کی نافرمانیوں میں مبتلا ہوگئے۔
پس وہ شخص جو تقوٰی کی حفاظت کرتا ہے اور اس چیز پر نظر رکھتا ہے جو اس نے کل کے لیے آگے بھیجی ہے تو وہ ان لوگوں کے ساتھ ہے، جن پر اللہ تعالیٰ نے انعام کیا، یعنی نبیوں، صدیقین، شہدا ءاور صالحین کے ساتھ نعمتوں بھری جنت اور تکدر سے پاک زندگی کا مستحق ہوا اور وہ شخص جو اللہ تعالیٰ کے ذکر سے غافل ہوا ،اس نے اس کے حقوق فراموش کردیے پس وہ دنیا میں بدبخت ٹھہرا اور آخرت میں عذاب کا مستحق ہوا ،کیا دونوں برابر ہوسکتے ہیں؟ نہیں! یقینا نہیں! پہلی قسم کے لوگ کامیاب ہیں اور دوسری قسم کے لوگ خسارے میں پڑنے والے ہیں۔ جب اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں پر حقائق کو واضح کردیا اور اس نے اپنی کتاب عزیز میں اپنے بندوں کو اوامر ونواہی عطا کیے تو یہ چیز اس بات کی موجب تھی کہ وہ اسکی طرف سبقت کرنے میں جلدی کرتے جس کی طرف اللہ تعالیٰ نے ان کو دعوت اور ترغیب دی، خواہ وہ قساوت اور صلابت قلبی میں مضبوط پہاڑوں کی مانند ہی کیوں نہ ہوتے ۔اگر یہ قرآن کسی پہاڑ پر بھی نازل کردیا جاتا تو آپ اسے خشیت الٰہی سے عاجز اور ٹکڑے ٹکڑے ہوا پاتے۔ یعنی اس کا سبب دلوں میں اس کی کمال تاثیر ہے کیونکہ قرآن کے مواعظ علی الاطلاق سب سے بڑے مواعظ ہیں۔ اس کے اوامر ونواہی حکمتوں اور مصالح پر مشتمل ہیں، یہ نفوس کے لیے سب سے زیادہ سہل اور ابدان کے لیے سب سے زیادہ آسان ہیں ،یہ ہر قسم کے تکلف سے خالی ہیں ،ان میں کوئی تناقض ہے نہ اختلاف، ان پر عمل کرنے میں کوئی صعوبت ہے نہ بے راہ روی، یہ اوامر ونواہی ہر زمان ومکان کے لیے درست اور ہر شخص کے لائق ہیں۔ پھر اللہ تعالیٰ نے آگاہ فرمایا کہ وہ لوگوں کے لیے مثالیں بیان کرتا ہے اور اپنے بندوں کے سامنے حرام اور حلال واضح کرتا ہے تاکہ وہ اس کی آیات میں تفکر وتدبر کریں ،کیونکہ آیات الٰہی میں تفکر، بندے کے لیے علم کے خزانوں کے منہ کھول دیتا ہے ،اس کے سامنے خیر اور شر کے راستوں کو واضح کردیتا ہے اور اس کو مکارم اخلاق اور محاسن عادات کی ترغیب دیتا ہے اور برے اخلاق سے اسے روکتا ہے، لہٰذا بندے کے لیے قرآن میں تفکر اور اس کے معانی میں تدبر سے بڑھ کر کوئی چیز فائدہ مند نہیں۔
11 Mufti Taqi Usmani
aey emaan walo ! Allah say daro , aur her shaks yeh dekhay kay uss ney kal kay liye kiya aagay bheja hai . aur Allah say daro . yaqeen rakho kay jo kuch tum kertay ho , Allah uss say poori tarah ba-khabar hai .
12 Tafsir Ibn Kathir
اجتماعی اور خیر کی ایک نوعیت اور انفرادی اعمال خیر
حضرت جریر (رض) فرماتے ہیں کہ ہم دن چڑھے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر تھے کہ کچھ لوگ آئے جو ننگے بدن اور کھلے پیر تھے۔ صرف چادروں یا عباؤں سے بدن چھپائے ہوئے تلواریں گردنوں میں حمائل کئے ہوئے تھے یہ تمام لوگ قبیلہ مضر میں سے تھے، ان کی اس فقرہ فاقہ کی حالت نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے چہرے کی رنگت کو متغیر کردیا، آپ گھر میں گئے پھر باہر آئے پھر حضرت بلال کو اذان کہنے کا حکم دیا اذان ہوئی پھر اقامت ہوئی آپ نے نماز پڑھائی پھر خطبہ شروع کیا اور آیت (ترجمہ) الخ، تلاوت کی پھر سورة حشر کی آیت (ترجمہ) الخ، پڑھی اور لوگوں کو خیرات دینے کی رغبت دلائی جس پر لوگوں نے صدقہ دینا شروع کیا بہت سے درہم دینار کپڑے لتے کھجوریں وغیرہ آگئیں آپ برابر تقریر کئے جاتے تھے یہاں تک کہ فرمایا اگر آدھی کھجور بھی دے سکتے ہو تو لے آؤ، ایک انصاری ایک تھیلی نقدی کی بھری ہوئی بہت وزنی جسے بمشکل اٹھا سکتے تھے لے آئے پھر تو لوگوں نے لگاتار جو کچھ پایا لانا شروع کردیا یہاں تک کہ ہر چیز کے ڈھیر لگ گئے اور حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا اداس چہرہ بہت کھل گیا اور مثل سونے کے چمکنے لگا اور آپ نے فرمایا جو بھی کسی اسلامی کار خیر کر شروع کرے اسے اپنا بھی اور اس کے بعد جو بھی اس کام کو کریں سب کا بدلہ ملتا ہے لیکن بعد والوں کے اجر گھٹ کر نہیں، اسی طرح جو اسلام میں کسی برے اور خلاف شروع طریقے کو جاری کرے اس پر اس کا اپنا گناہ بھی ہوتا ہے اور پھر جتنے لوگ اس پر کاربند ہوں سب کو جتنا گناہ ملے گا اتنا ہی اسے بھی ملتا ہے مگر ان کے گناہ گھٹتے نہیں (مسلم) آیت میں پہلے حکم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے عذاب سے بچاؤ کی صورت پیدا کرو یعنی اس کے احکام بجا لا کر اور اس کی نافرمانیوں سے بچ کر، پھر فرمان ہے کہ وقت سے پہلے اپنا حساب آپ لیا کرو دیکھتے رہو کہ قیامت کے دن جب اللہ کے سامنے پیش ہو گے تب کام آنے والے نیک اعمال کا کتنا کچھ ذخیرہ تمہارے پاس ہے، پھر تاکید ارشاد ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہا کرو اور جان رکھو کہ تمہارے تمام اعمال و احوال سے اللہ تعالیٰ پورا باخبر ہے نہ کوئی چھوٹا کام اس سے پوشیدہ نہ بڑا نہ چھپا نہ کھلا۔ پھر فرمان ہے کہ اللہ کے ذکر کو نہ بھولو ورنہ وہ تمہارے نیک اعمال جو آخرت میں نفع دینے والے ہیں بھلا دے گا اس لئے کہ ہر عمل کا بدلہ اسی کے جنس سے ہوتا ہے اسی لئے فرمایا کہ یہی لوگ فاسق ہیں یعنی اللہ تعالیٰ کی اطاعت سے نکل جانے والے اور قیامت کے دن نقصان پہنچانے والے اور ہلاکت میں پڑنے والے یہی لوگ ہیں، جیسے اور جگہ ارشاد ہے۔ (ترجمہ) مسلمانو ! تمہیں تمہارے مال و اولاد یاد اللہ سے غافل نہ کریں جو ایسا کریں وہ سخت زیاں کار ہیں، طبرانی میں حضرت ابوبکر صدیق (رض) نہ کے ایک خطبہ کا مختصر سا حصہ یہ منقول ہے کہ آپ نے فرمایا، کیا تم نہیں جانتے ؟ کہ صبح شام تم اپنے مقررہ وقت کی طرف بڑھ رہے ہو، پس تمہیں چاہئے کہ اپنی زندگی کے اوقات اللہ عزوجل کی فرمانبرداری میں گذارو، اور اس مقصد کو سوائے اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم کے کوئی شخص صرف اپنی طاقت و قوت سے حاصل نہیں کرسکتا، جن لوگوں نے اپنی عمر اللہ تعالیٰ کی رضامندی کے سوا اور کاموں میں کھپائی ان جیسے تم نہ ہونا، اللہ تعالیٰ نے تمہیں ان جیسے بننے سے منع فرمایا ہے (ترجمہ) خیال کرو کہ تمہاری جان پہچان کے تمہارے بھائی آج کہاں ہیں ؟ انہوں نے اپنے گزشتہ ایام میں جو اعمال کئے تھے ان کا بدلہ لینے یا ان کی سزا پانے کے لئے وہ دربار اہلیہ میں جا پہنچے، یا تو انہوں نے سعادت اور خوش نصیبی پائی یا نامرادی اور شقاوت حاصل کرلی، کہاں ہیں ؟ وہ سرکش لوگ جنہوں نے بارونق شہر بسائے اور ان کے مضبوط قلعے کھڑے کئے، آج وہ قبروں کے گڑھوں میں پتھروں تلے دبے پڑے ہیں، یہ ہے کتاب اللہ قرآن کریم تم اس نور سے مضبوط قلعے کھڑے کئے، آج وہ قبروں کے گڑھوں میں پتھروں تلے دبے پڑے ہیں، یہ ہے کتاب اللہ قرآن کریم تم اس نور سے روشنی حاصل کرو جو تمہیں قیامت کے دن کی اندھیروں میں کام آسکے، اس کی خوبی بیان سے عبرت حاصل کرو اور بن سنور جاؤ، دیکھو اللہ تعالیٰ نے حضرت زکریا اور ان کی اہل بیت کی تعریف بیان کرتے ہوئے فرمایا (ترجمہ) یعنی وہ نیک کاموں میں سبقت کرتے تھے اور بڑے لالچ اور سخت خوف کے ساتھ ہم سے دعائیں کیا کرتے تھے اور ہمارے سامنے جھکے جاتے تھے، سنو وہ بات بھلائی سے خالی ہے جس سے اللہ کی رضامندی مقصود نہ ہو، وہ مال خیرو و برکت والا نہیں جو اللہ کی راہ میں خرچ نہ کیا جاتا ہو، وہ شخص نیک بختی سے دور ہے جس کی جہالت بردباری پر غالب ہو اس طرح وہ شخص بھی نیکی سے خالی ہاتھ ہے جو اللہ کے احکام کی تعمیل میں کسی ملامت کرنے والے کی ملامت سے خوف کھائے۔ اس کی اسناد بہت عمدہ ہیں اور اس کے راوی ثقہ ہیں، گو اس کے ایک راوی نعیم بن نمحہ ثقابت یا عدم ثقاہت سے معرف نہیں، لیکن امام ابو داؤد سجستانی (رح) کا یہ فیصلہ کافی ہے کہ جریر بن عثمان کے تمام استاد ثقہ ہیں اور یہ بھی آپ ہی کے استاذہ میں سے ہیں اور اس خطبہ کے اور شواہد بھی مروی ہیں، واللہ علم۔ پھر ارشاد ہوتا ہے کہ جہنمی اور جنتی اللہ تعالیٰ کے نزدیک یکساں نہیں، جیسے فرمان ہے (ترجمہ) الخ، یعنی کیا بدکاروں نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ ہم انہیں باایمان نیک کار لوگوں کے مثل کردیں گے ان کا جینا اور مرنا یکساں ہے ان کا یہ دعویٰ بالکل غلط اور برا ہے اور جگہ ہے (ترجمہ) الخ، اندھا اور دیکھتا ایماندار صالح اور بدکار برابر نہیں، تم بہت ہی کم نصیحت اصل کر رہے ہو، اور (ترجمہ) الخ کیا ہم ایمان لانے اور نیک اعمال کرنے والوں کو فساد کرنے والوں جیسا بنادیں گے یا پرہیزگاروں کو مثل فاجروں کے بنادیں گے ؟ اور بھی اس مضمون کی بہت سی آیتیں ہیں، مطلب یہ ہے کہ نیک کار لوگوں کا اکرام ہوگا اور بدکار لوگوں کو رسوا کن عذاب ہوگا۔ یہاں بھی ارشاد ہوتا ہے کہ جنتی لوگ فائز بمرام اور مقصدور، کامیاب اور فلاح و نجات یافتہ ہیں اللہ عزوجل کے عذاب سے بال بال بچ جائیں گے۔