الانعام آية ۱۱۱
وَلَوْ اَنَّـنَا نَزَّلْنَاۤ اِلَيْهِمُ الْمَلٰۤٮِٕكَةَ وَكَلَّمَهُمُ الْمَوْتٰى وَ حَشَرْنَا عَلَيْهِمْ كُلَّ شَىْءٍ قُبُلًا مَّا كَانُوْا لِيُؤْمِنُوْۤا اِلَّاۤ اَنْ يَّشَاۤءَ اللّٰهُ وَلٰـكِنَّ اَكْثَرَهُمْ يَجْهَلُوْنَ
طاہر القادری:
اور اگر ہم ان کی طرف فرشتے اتار دیتے اور ان سے مُردے باتیں کرنے لگتے اور ہم ان پر ہر چیز (آنکھوں کے سامنے) گروہ در گروہ جمع کر دیتے وہ تب بھی ایمان نہ لاتے سوائے اس کے جو اﷲ چاہتا اور ان میں سے اکثر لوگ جہالت سے کام لیتے ہیں،
English Sahih:
And even if We had sent down to them the angels [with the message] and the dead spoke to them [of it] and We gathered together every [created] thing in front of them, they would not believe unless Allah should will. But most of them, [of that], are ignorant.
1 Abul A'ala Maududi
اگر ہم فرشتے بھی ان پر نازل کر دیتے اور مُردے ان سے باتیں کرتے اور دنیا بھر کی چیزوں کو ہم ان کی آنکھوں کے سامنے جمع کر دیتے تب بھی یہ ایمان لانے والے نہ تھے، الا یہ کہ مشیت الٰہی یہی ہو کہ وہ ایمان لائیں، مگر اکثر لوگ نادانی کی باتیں کرتے ہیں
2 Ahmed Raza Khan
اور اگر ہم ان کی طرف فرشتے اُتارتے اور ان سے مردے باتیں کرتے اور ہم ہر چیز ان کے سامنے اٹھا لاتے جب بھی وہ ایمان لانے والے نہ تھے مگر یہ کہ خدا چاہتا و لیکن ان میں بہت نرے جاہل ہیں
3 Ahmed Ali
اور اگر ہم ان پر فرشتے بھی اتار دیں اور ان سے مردے باتیں بھی کریں اور ان کے سامنے ہم ہر چیز کو زندہ بھی کر دیں تو بھی یہ لوگ ایمان لانے والے نہیں مگر یہ کہ الله چاہے لیکن اکثر ان میں سے جاہل ہیں
4 Ahsanul Bayan
اور اگر ہم ان کے پاس فرشتوں کو بھی بھیج دیتے اور ان سے مردے باتیں کرنے لگتے (١) اور ہم تمام موجودات کو ان کے پاس ان کی آنکھوں کے روبرو لا کر جمع کر دیتے ہیں (٢) تب بھی یہ لوگ ہرگز ایمان نہ لاتے ہاں اگر اللہ ہی چاہے تو اور بات ہے لیکن ان میں زیادہ لوگ جہالت کی باتیں کرتے ہیں۔(۳)
١١١۔١ اور وہ حضرت محمد رسول اللہ کی رسالت کی تصدیق کر دیتے۔
١١١۔٢ دوسرا مفہوم اس کا بیان کیا گیا ہے کہ جو نشانیاں وہ طلب کرتے ہیں وہ سب ان کے روبرو پیش کر دیتے۔ اور ایک مفہوم یہ بھی بیان کیا گیا ہے کہ ہرچیز جمع ہو کر گروہ در گروہ یہ گواہی دے کہ پیغمبروں کا سلسلہ برحق ہے تو ان تمام نشانیوں اور مطالبوں کے پورا کر دینے کے باوجود یہ ایمان لانے والے نہیں ہیں۔ مگر جس کو اللہ چاہے اسی مفہوم کی یہ آیت بھی ہے (سورۃ یونس ٩٦۔٩٧) جن پر تیرے رب کی بات ثابت ہوگئی ہے وہ ایمان نہیں لائیں گے، اگرچہ ان کے پاس ہر قسم کی نشانی آجائے یہاں تک کہ وہ دردناک عذاب دیکھ لیں۔
١١١۔۳ اور یہ جہالت کی باتیں ہی ان کے اور حق قبول کرنے کے درمیان حائل ہیں۔ اگر جہالت کا پردہ اٹھ جائے تو شاید حق ان کی سمجھ میں آجائے اور اللہ کی مشیت سے حق کو اپنا لیں۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
اور اگر ہم ان پر فرشتے بھی اتار دیتے اور مردے بھی ان سے گفتگو کرنے لگتے اور ہم سب چیزوں کو ان کے سامنے لا موجود بھی کر دیتے تو بھی یہ ایمان لانے والے نہ تھے اِلّا ماشائالله بات یہ ہے کہ یہ اکثر نادان ہیں
6 Muhammad Junagarhi
اور اگر ہم ان کے پاس فرشتوں کو بھیج دیتے اور ان سے مردے باتیں کرنے لگتے اور ہم تمام موجودات کو ان کے پاس ان کی آنکھوں کے روبرو ﻻ کر جمع کر دیتے ہیں تب بھی یہ لوگ ہرگز ایمان نہ ﻻتے ہاں اگر اللہ ہی چاہے تو اور بات ہے لیکن ان میں زیاده لوگ جہالت کی باتیں کرتے ہیں
7 Muhammad Hussain Najafi
اور اگر ہم ان کی طرف فرشتے بھی نازل کر دیں اور ان سے مردے بھی کلام کریں اور خواہ ہم ہر چیز کو ان کے سامنے لاکھڑا کر دیں تب بھی یہ ایمان لانے والے نہیں ہیں مگر یہ کہ اللہ (اپنی قدرتِ قاہرہ سے) چاہے۔ لیکن اکثر لوگ جاہل ہیں۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
اور اگر ہم ان کی طرف ملائکہ نازل بھی کردیں اور ان سے مردے کلام بھی کرلیں اور ان کے سامنے تمام چیزوں کو جمع بھی کردیں تو بھی یہ ایمان نہ لائیں گے مگر یہ کہ خدا ہی چاہ لے لیکن ان کی اکثریت جہالت ہی سے کام لیتی ہے
9 Tafsir Jalalayn
اور اگر ہم ان پر فرشتے بھی اتار دیتے اور مردے بھی ان سے گفتگو کرنے لگتے اور ہم سب چیزوں کو انکے سامنے لاموجود بھی کردیتے تو بھی ایمان لانے والے نہ تھے الاّ ماشاء اللہ۔ بات یہ ہے کہ یہ اکثر نادان ہیں۔
آیت نمبر ١١١ تا ١٢١
ترجمہ : اور اگر ہم ان پر فرشتے نازل کردیتے اور ان کی تجویز کے مطبق مردے ان سے باتیں کرتے اور ہم ان کی آنکھوں کے سامنے (دنیا بھر کی) ہر قسم کی چیزیں جمع کردیتے قُبُلاً قاف اور باء کے ضمہ کے ساتھ قبیلٌ کی جمع ہے بمعنی گروہ، اور ایک قراءت میں قاف کے کسرہ اور باء کے فتحہ کے ساتھ ہے بمعنی روبرو (نظروں کے سامنے) اور وہ آپ کی صداقت کی شہادت دیتے تب بھی اللہ کے علم ازلی کے مطابق یہ ایمان لانے والے نہیں تھے، اِلاَّ یہ کہ مشئیت الہیٰ کا تقاضہ یہی ہو تو ایمان لاسکتے ہیں، لیکن ان میں سے زیادہ تر لوگ اس معاملہ میں جہالت کی باتیں کرتے ہیں جس طرح ہم نے ان لوگوں کو آپ کا دشمن بنادیا ہے اسی طرح ہم نے سرکش شیطانوں اور جناتی شیطانوں کو ہر نبی کا دشمن بنادیا ہے اور شیٰطین الانس الخ (عدُوّ ) سے بدل ہے جو آپس میں ایک دوسرے سے وسوسے کے ذریعہ چکنی چپڑی باتیں کرتے رہتے ہیں باطل سے ملمع کی ہوئی باتیں تاکہ ان کو فریب میں مبتلا کرسکیں، اگر تیرے رب کی مشئیت نہ ہوتی تو یہ وسوسہ (مذکورہ) کی جرأت کبھی نہ کرسکتے تو آپ کفار کو اور ان کی افتراء پردازی (یعنی) کفر وغیرہ کو جس کو ان کے لئے آراستہ کردیا گیا ہے (ان کی حالت پر) چھوڑ دو ، اور یہ حکم جہاد سے پہلے کا حکم ہے، اور تاکہ ان لوگوں کے دل جو آخرت پر ایمان نہیں رکھتے چکنی چپڑی باتوں کی طرف مائل ہوجائیں، (لتصغیٰ ) کا عطف غرورًا پر ہے تاکہ وہ جن گناہوں کا ارتکاب کرنا چاہتے ہیں ارتکاب کریں جن کی پاداش میں ان کو سزا دی جائے، اور جب مشرکین نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اپنے اور آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے درمیان حکم طلب کیا تو یہ آیت نازل ہوئی، تو کیا میں اللہ کے علاوہ کسی اور کو میرے اور تمہارے درمیان فیصلہ کرنے والے کو طلب کروں حالانکہ وہ ایسی ذات ہے کہ جس نے تمہاری طرف ایک مفصل کتاب (قرآن) نازل کی جس میں حق کو باطل سے ممتاز کیا گیا ہے، اور وہ لوگ جن کو ہم نے کتاب تورات دی ہے جیسا کہ عبد اللہ بن سلام اور ان کے ساتھی، اس بات کو جانتے ہیں کہ قرآن تمہارے رب کی جانب سے حق کے ساتھ نازل کیا گیا ہے (منزل) میں تخفیف اور تشدید دونوں جائز نہیں، لہذا تم قرآن کے بارے میں شک کرنے والوں میں نہ ہو اور مراد مذکورہ بیان سے کافروں سے قرآن کے حق ہونے کا اقرار کرانا ہے اور آپ کے رب کا کلام احکام و مواعید کی صداقت و عدالت کے اعتبار سے کامل ہے (صدقاً اور عدلاً ) تمیز ہے اس کے کلام میں نقص یا خلاف واقعہ ثابت کرکے کوئی تبدیلی کرنے والا نہیں جو کچھ کہا جاتا ہے وہ اس کا سننے والا اور جو کچھ کیا جاتا ہے اس کا جاننے والا ہے اور دنیا میں زیادہ تر لوگ کفار ایسے ہیں کہ اگر آپ ان کا کہنا مانیں تو وہ تم کو اللہ کی راہ یعنی دین سے بےراہ کردیں یہ لوگ مردار کے بارے میں آپ سے مباحثہ کرنے میں محض خیالات کی پیروی کرتے ہیں جبکہ انہوں نے کہا کہ جس کو اللہ نے قتل کیا وہ کھانے کے زیادہ لائق ہے بہ نسبت اس کے کہ جس کو خود تم نے قتل کیا ہے، یہ لوگ قیاسی باتیں کرتے ہیں (یعنی) وہ اس معاملہ میں کذب بیان کرتے ہیں، بالیقین آپ کا رب اس شخص کو بخوبی جانتا ہے جو اس کے راستہ سے بھٹک گیا اور ان کو بھی خوب جانتا ہے جو سیدھی راہ پر چلنے والے ہیں چناچہ ان میں سے ہر ایک کو وہ جزاء دے گا، سو جس جانور پر اس کا نام لیا گیا ہے یعنی اس کے نام پر ذبح کیا گیا ہے تم کو اس میں کھانے کی اجازت ہے اگر اس کے احکام پر ایمان رکھتے ہو آخر کیا وجہ ہے کہ تم ایسے مذبوح جانور سے نہ کھاؤ کہ جس پر اللہ کا نام لیا گیا ہے حالانکہ اللہ نے (آیۃ) حُرِّمَت علیکم المیتۃ میں ان سب جانوروں کی تفصیل بیان کردی ہے جو تم پر حرام کئے گئے ہیں (فُصّل و حرمت) میں مجہول اور معروف دونوں قراءتیں ہیں دونوں فعلوں میں، مگر وہ بھی جب کہ تم اس کے لئے شدید مجبور ہوجاؤ تو تمہارے لئے حلال ہے مطلب یہ ہے کہ مذکورہ چیزوں سے کھانے سے تمہارے لئے کوئی مانع نہیں ہے، تمہارے لئے ان چیزوں کو بیان کردیا گیا ہے جن کا کھانا تمہارے لئے حرام کردیا گیا ہے، اور یہ ان میں سے نہیں ہے، اور یہ یقینی بات ہے کہ بہت سے لوگوں کو حال یہ ہے کہ علم کے بغیر کہ جس پر اس بارے میں اعتماد کریں محض اپنی خواہشات کی بنا پر یعنی اپنے نفس کی خواہش کے مطابق مردار وغیرہ کے حلال ہونے کے بارے میں لوگوں کو گمراہ کرتے ہیں (لیَضلون) یاء کے فتحہ اور ضمہ کے ساتھ ہے، بلاشبہ تمہارا رب حد سے تجاوز کرنے والوں سے بخوبی واقف ہے (یعنی) حلال و حرام کی جانب تجاوز کرنے والوں کو (بخوبی) جانتا ہے (اے مسلمانو) تم ظاہری گناہ سے بھی بچو (یعنی) علانیہ گناہ سے بھی اور پوشیدہ گناہ سے بھی، اور کہا گیا ہے کہ اثم سے مراد زنا ہے اور کہا ہے کہ (اثم) ہر معصیت ہے اس میں کوئی شک نہیں کہ جو لوگ گناہ کا ارتکاب کرتے ہیں ان کو آخرت میں ان کے کئے کی سزا دی جائے گی اور اس جانور سے نہ کھاؤ جس پر (بوقت ذبح) اللہ کا نام نہ لیا گیا ہو، بایں طور کہ (ازخود) مرگیا ہو یا غیر اللہ کے نام پر ذبح کیا گیا ہو، ورنہ تو جس کو مسلمان نے ذبح کیا ہو اور اس پر قصداً یا نسیاناً اللہ کا نام نہ لیا گیا ہو تو وہ حلال ہے یہ ابن عباس (رض) کا قول ہے اور یہی امام شافعی (رح) تعالیٰ کا مذہب ہے بلاشبہ یہ (یعنی) اس میں سے کھانا فسق ہے (یعنی) حلال سے (حرام کی جانب) تجاوز کرنا ہے اور یقیناً شیاطین اپنے دوستوں کافروں کے دلوں میں وسوسے ڈالتے ہیں تاکہ وہ تم سے مردار کے حلال ہونے میں (تم سے) مجادلہ کریں اور اگر تم اس معاملہ میں ان کی اطاعت کرو گے تو تم مشرک ہوجاؤ گے۔
تحقیق و ترکیب و تسہیل و تفسیری فوائد
قولہ : جَمْعُ قَبِیْل، قُبُلٌ قبیلٌ کی جمع ہے جیسے رُغُفٌ رَغیف کی جمع ہے، بمعنی جماعت گروہ اور بعض کے نزدیک قِبَلٌ کی جمع ہے، بمعنی نظروں کے سامنے قُبُلاً ، کُلَّ سے حال ہے۔ قولہ : شیٰطین عَدوًّا سے بدل ہے۔
قولہ : مَرَدَۃ، اس اضافہ کا مقصد یہ بتانا ہے کہ شیاطین کے حقیقی معنی مراد نہیں ہیں اسلئے کہ انسان حقیقی شیطان نہیں ہوتا سرکشی کہ وجہ سے انسان کو شیطان کہہ دیا جاتا ہے۔
قولہ : یُوَسْوِسُ ، یوحِی کی تفسیر یُوَسْوِسُ سے کرنے کا مقصد ایک سوال کا جواب ہے۔
سوال : وحِی کی نسبت شیطان کی طرف کرنا جائز ہی نہیں بلکہ محال ہے۔ جواب : وحی سے مراد وسوسہ ہے، لہٰذا کوئی اعتراض نہیں۔
قولہ : جَعَلْنَا ھٰؤلاءِ اَعْدَائَک، اس عبارت کے اضافہ کا مقصد اس بات کی طرف اشارہ کرنا ہے کہ جَعَلَ بمعنی صَبَّرَ ہے، جو دو مفعول چاہتا ہے اول مفعول عَدوًّا ہے جو کہ مؤخر ہے اور لکل نبی مفعول ثانی ہے جو مقدم ہے اور شیٰطین الانس والجن، عدوًّا سے بدل ہے، اور بعض حضرات نے عدوًا کو مفعول ثانی کہا ہے اور شیٰطین مفعول اول ہے اور لکل محذوف سے متعلق ہو کر غدوًّا سے حال ہے۔
قولہ : مَرَدۃ، یہ ماردٌ کی جمع ہے بمعنی سرکش۔ قولہ : لِیَغُرُّوھم اس میں اشارہ ہے کہ غروراً مفعول لہ ہے۔
قولہ : عَطْفٌ علی غرورًا لِتصغٰی کا عطف غروراً پر ہے لتصغٰی چونکہ غرورًا کی علت ہے لہٰذا معطوف اور معطوف علیہ میں عدم مناسبت کا اعتراض بھی نہیں ہوسکتا۔ قولہ : المُرَادُ بذِلکَ التَّقْرِیْر اَنَّہٗ حَقٌّ، اس اضافہ کا مقصد ایک شبہ کو دفع کرنا ہے۔
شبہ : فلا تَکُوْننَّ من المُمْتَرِیْنَ ، میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو قرآن کے من جانب اللہ ہونے میں شک کرنے سے منع فرمایا گیا ہے، حالانکہ آپ کے شبہ کرنے کا سوال ہی نہیں تھا اس لئے کہ قرآن تو خود آنحضرت ہی پر نازل ہوتا تھا تو پھر شک کا کیا مطلب ہے۔
جواب : جواب کا حاصل یہ ہے کہ امتراء کا تعلق حقانیت قرآن کے بارے میں کفار اہل کتاب کے علم سے ہے یعنی کفار سے قرآن کے برحق اور من جانب اللہ ہونے کا اقرار کرانا ہے، اس کا دوسرا جواب یہ کہ کلام میں تعریض ہے خطاب اگرچہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ہے مگر مراد کفار اہل کتاب ہیں۔
قولہ : تَمَّتْ ، ای بلغت الغایۃ اخبارہ مواعیدہ۔ قولہ : صدقًا وعدلاً ، صدقاً کا تعلق مواعید سے ہے اور عدلاً کا تعلق احکام سے ہے، یہ لف و نشر غیر مرتب کے طور پر ہے۔ قولہ : ای عالم، مفسر علام نے اعلم کی تفسیر عالم سے کرکے ایک اعتراض کا جواب دیا ہے۔
اعتراض : اسم تفصیل اسم ظاہر کو نصب نہیں دیتا اِلاَّ فی مسئلۃ الکحل کما تقرر فی النحو، حالانکہ یہاں اعلم۔۔۔ یضل کو نصب دے رہا ہے اسلئے کہ من یضل محل میں نصب کے ہے۔ جواب : من یضل اعلم کی وجہ سے منصوب نہیں ہے بلکہ اعلم معنی میں عالم کے ہے
تفسیر و تشریح
وَلَوْ اَنَّنَا نَزّلْنَا اِلَیْھم الملائکۃَ الخ، یہ آیت ما قبل میں مذکور اجمال کی تفصیل ہے ماقبل میں مذکور ہوچکا ہے کہ مشرکین مکہ نے جب مخصوص قسم کے معجزے طلب کئے مثلاً یہ کہ کوہ صفاء سونے کا کردیا جائے تو عرب کا ریگ زار کشت زار بنادیا جائے یا مکہ کے اطراف کے پہاڑ ہٹا کر ہموار میدان کردیا جائے تو مومنین المخلصین کی یہ خواہش ہوئی کہ کاش اللہ تعالیٰ مشرکین کے فرمائشی معجزوں کو اتمام حجت کے طور پر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ہاتھ پر ظاہر فرما دیتے تاکہ حجت تام ہوجاتی اور مشرکوں کیلئے ایمان لانے میں کوئی عذر باقی نہ رہتا نیز اسطرح اسلام کو قوت حاصل ہوجاتی۔ مومنین کی خواہش کے جواب میں فرمایا جا رہا ہے کہ اگر ان کی فرمائش کے موافق بلکہ اس سے بھی بڑھ کر مثلاً اگر آسمان سے فرشتے ااتر کر آپ کی رسالت کی تصدیق کریں اور مردے قبروں سے نکل کر ان سے باتیں کرنے لگیں اور گذشتہ تمام امتوں کو زندہ کرکے ان کے سامنے لاکر کھڑا کردیا جائے تب بھی سوء استعداد اور تعنت وعناد کی وجہ سے لوگ حق کو ماننے۔۔۔ نہیں، البتہ خدا چاہے تو زبردستی منوا سکتا ہے لیکن ایسا چاہنا اس کی حکمت اور تکوینی نظام کے خلاف ہے جس کو ان۔۔۔۔ کے اکثر لوگ نہیں سمجھتے۔
10 Tafsir as-Saadi
اسی طرح ان کا اپنے ایمان کو اپنے ارادے اور خود اپنی مشیت سے معلق کرنا اور اللہ تعالیٰ پر بھروسہ نہ کرنا، سب سے بڑی غلطی ہے۔ کیونکہ اگر ان کے پاس بڑی بڑی نشانیاں اور معجزات بھی آجائیں، فرشتے نازل ہو کر رسول کی رسالت کی شہادت دے دیں، ان کے ساتھ مردے باتیں کرنے لگیں اور خود ان کو مارنے کے بعد دوبارہ زندہ کردیا جائے ﴿ وَحَشَرْنَا عَلَيْهِمْ كُلَّ شَيْءٍ ﴾ ” اور زندہ کردیں ہر چیز کو ان کے سامنے“ حتیٰ کہ وہ ان کے ساتھ باتیں کریں﴿قُبُلًا﴾ ”سامنے“ یعنی ان کے سامنے نظر آتے ہوئے اس چیز کی تصدیق کریں جسے لے کر رسول آیا ہے، تب بھی ان کے حصے میں ایمان نہیں آسکتا، اگر اللہ کی مشیت ان کے ایمان لانے کی نہ ہو۔ مگر ان میں سے اکثر جاہل ہیں اسی لئے انہوں نے اپنے ایمان کو مجرد آیات و معجزات کے ساتھ مشروط کیا ہے۔
عقل اور علم کا تقاضا تو یہ ہے کہ بندے کا مطلوب و مقصود اتباع حق ہو اور وہ اسے ان طریقوں سے تلاش کرے جنہیں اللہ تعالیٰ نے واضح کردیا ہے، حق پر عمل کرے اور اس کی اتباع میں اپنے رب کی مدد طلب کرے۔ اپنے نفس اور اپنی قوت و اختیار پر بھروسہ نہ کرے اور ان آیات و معجزات کا مطالبہ نہ کرے جن کا کوئی فائدہ نہیں۔
11 Mufti Taqi Usmani
aur agar bil-farz hum inn kay paas farishtay bhej detay , aur murday inn say baaten kernay lagtay , aur ( inn ki maangi hoi ) her cheez hum khuli aankhon inn kay samney laaker kay rakh detay , tab bhi yeh emaan laney walay nahi thay , illa yeh kay Allah hi chahta ( kay enhen zabardasti emaan per majboor kerday to baat doosri thi , magar aisa emaan naa matloob hai naa moatabir . ) lekin inn mein say aksar log jihalat ki baaten kertay hain .
12 Tafsir Ibn Kathir
فرماتا ہے کہ یہ کفار جو قسمیں کھا کھا کر تم سے کہتے ہیں کہ اگر کوئی معجزہ وہ دیکھ لیتے تو ضرور ایمان لے آتے۔ یہ غلط کہتے ہیں تمہیں ان کے ایمان لانے سے مایوس ہوجانا چاہیے۔ یہ کہتے ہیں کہ اگر فرشتے اتر تے تو ہم مان لیتے لیکن یہ بھی جھوٹ ہے فرشتوں کے آجانے پر بھی اور ان کے کہہ دینے پر بھی کہ یہ رسول برحق ہیں انہیں ایمان نصیب نہیں ہوگا، یہ صرف ایمان نہ لانے کے بہانے تراشتے ہیں کہ کبھی کہہ دیتے ہیں اللہ کو لے آ۔ کبھی کہتے ہیں فرشتوں کو لے آ۔ کبھی کہتے ہیں اگلے نبیوں جیسے معجزے لے آ، یہ سب حجت بازی اور حیلے حوالے ہیں، دلوں میں تکبر بھرا ہوا ہے زبان سے سرکشی اور برائی ظاہر کرتے ہیں، اگر مردے بھی قبروں سے اٹھ کر آجائیں اور کہہ دیں کہ یہ رسول برحق ہیں ان کے دلوں پر اس کا بھی کوئی اثر نہیں ہوگا (قُبلاً ) کی دوسری قرأت (قبلاً ) ہے جس کے معنی مقابلے اور معائنہ کے ہوتے ہیں ایک قول میں (قبلا) کے معنی بھی یہی بیان کئے گئے ہیں ہاں مجاہد سے مروی ہے کہ اس کے معنی گروہ گروہ کے ہیں ان کے سامنے اگر ایک امت آجاتی اور رسولوں کی ہدایت دے دے وہ جو کرنا چاہے کوئی اس سے پوچھ نہیں سکتا اور وہ چونکہ حاکم کل ہے ہر ایک سے باز پرس کرسکتا ہے وہ علیم و حکیم ہے، حاکم و غالب وقہار ہے اور آیت میں ہے (اِنَّ الَّذِيْنَ حَقَّتْ عَلَيْهِمْ كَلِمَتُ رَبِّكَ لَا يُؤْمِنُوْنَ ) 10 ۔ یونس :96) یعنی جن لوگوں کے ذمہ کلمہ عذاب ثابت ہوگیا ہے وہ تمام تر نشانیاں دیکھتے ہوئے بھی ایمان نہ لائیں گے جب تک کہ المناک عذاب نہ دیکھ لیں۔